نمازکے آداب واسرار
 


قبلہ
جب بندہ مومن اس چیزکاعلم رکھتاہے کہ خداوندعالم ہرجگہ اورہرسمت میں موجودہے،نہ اس کے رہنے کی کوئی جگہ مخصوص ہے وہ لامکان ہے ،ہم جدھربھی اپنا رخ رکھیں وہ ہمیں دیکھ رہاہے اورسن رہاہے پھرکیاضروری ہے کہ انسان کسی ایک مخصوص سمت رخ کرکے پروردگارکی عبادت کرے اوراس سے رازونیازکرے؟ صرف ظاہری طورسے جس طرف بھی کھڑے ہوکر نمازپڑھنے ،رکوع وسجودکرنے کوعبادت نہیں کہتے ہیں بلکہ باطنی طورسے بھی عبادت کرناضروری ہے یعنی دل کوپروردگارعالم کی طرف متوجہ کرناضروری ہے ،اگردل خداکی طرف نہ ہوتواسے عبادت نہیں کہتے ہیں
خداوندعالم یہی چاہتااوردوست رکھتاہے اوراسی چیرکاامرکرتاہے میرابندہ باطنی طورسے بھی میری ہی عبادت کرے اورظاہری طورکے علاوہ معنوی اعتبارسے بھی میری طرف توجہ رکھے اورغیرخداکاخیال بھی نہ کرے لہٰذاپروردگارنے زمین پرایک جگہ معین کیاتاکہ بندے اس طرف رخ کرکے اس کی عبادت کریں اوراپنے دل میںغیراخداکاارادہ بھی نہ کریں۔ خداوندعالم کی حمدوثنااورتسبیح وتقدیس کرنے میں کسی دوسرے کادل میں خیال بھی نہیں آناچاہئے بلکہ دل کوپروردگار کی طرف مائل رکھنازیادہ ضروری ہے ،کیونکہ اگرکتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے توسب کاحکم یہی ہے کہ انسان رب دوجہاں کی عبادت کرنے میں اپنے دل کوبھی متوجہ رکھے بلکہ کتاب وسنت میں دل وباطن کوخداکی طرف متوجہ رکھنے کوزیادہ لازم قراردیاگیاہے
قرآن وسنت میں کسی چیزکوقبلہ قراردینے کاجوحکم دیاگیاہے اس کی اصلی وجہ دل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرنامقصودہے، تاکہ انسان کے تمام اعضاوجوارح میںثبات پایاجائے کتاب وسنت میں ایک مخصوص سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیا ہے کیونکہ جب دل ایک طرف رہے گاتواس میںزیادہ سکون واطمینان لیکن اگراعضاوجوارح مختلف جہت وسمت میں ہوں توپھردل بھی ایک طرف نہیں رہے گااوربارگاہ خداوندی میں حاضرنہیں رہ سکے گااورعبادت میں اصلی چیزدل وباطن کوخداکی طرف توجہ کرناہے اوروہ آیات وروایات کہ جن میں ذکروعبادت اورتقوائے الٰہی اختیارکرنے کی تاکیدکی گئی ہے وہ سب قلب کے متوجہ ہونے کولازم قراردیتی ہیں۔
جس سمت رخ کرکے تمام مسلمان اپنی نمازوں اورعبادتوں کوانجام دیتے ہیں ،اورجس کی طرف اپنے دلوں کومتوجہ کرتے ہیں اسے قبلہ کہاجاتاہے اسی لئے کعبہ کوقبلہ کہاجاتاہے کیونکہ تمام مسلمان اپنی نمازوعبادت کواسی کی سمت انجام دیتے ہیں خانہ کعبہ مکہ مکرمہ میں واقع ہے جوپوری دنیاتمام مسلمانوں کا مرکزاورقبلہ ہے خانہ کعبہ کے بارے میں چند اہم نکات وسوال قابل ذکرہیں:
١۔خانہ کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے؟
اس بارے میں روایت میں آیاہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں ائی اورانھوں نے آنحضرتسے چندسوال کئے ،ان میں سے ایک یہودی نے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا: لانّہاوسط الدنیا۔ کیونکہ کعبہ دنیاکے درمیان میں واقع ہے ۔
. امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵

٢۔خانہ کعبہ کے چارگوشہ کیوں ہیں؟
یہودی نے بنی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوچارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے؟ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:کلمات اربعہ(سبحان الله ، والحمدلله ، ولاالہ الّالله ، والله اکبر)کی وجہ سے ۔
. امالی (شیخ صدوق )/ص ٢۵۵
روایت میں آیاہے کہ کسی نے امام صادق سے معلوم کیا:کعبہ کوکعبہ کیوں کہاجاتاہے ؟آپ نے فرمایا؟کیونکہ کعبہ کے چارگوشہ ہیں،اس نے کہا:کعبہ کے چارگوشہ بنائے جانے کی وجہ کیاہے ؟ امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ کعبہ بیت المعمور کے مقابل میں ہے اوراس کے چارگوشہ (لہٰذاکعبہ کے بھی چارگوشہ ہیں)اس نے معلوم کیا:بیت المعورکے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیونکہ وہ عرش کے مقابل میں ہیں اوراس کے چارگوشہ ہیں (لہٰذابیت المعمور کے بھی چارگوشہ ہیں)روای نے پوچھا:عرش کے چارگوشہ کیوں ہیں؟فرمایا:کیوں وہ کلمات کہ جن پراسلام کی بنیادرکھی گئی ہے وہ چارہیں جوکہ یہ ہیں:
سبحان الله ، والحمدلله ، ولاالہ الّالله ، والله اکبر.
. علل الشرائع/ج ٢/ص ٣٩٨
٣۔خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے؟
حسین بن ولیدنے حنان سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کو“بیت الله الحرام ”کیوں کہاجاتاہے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:کیونکہ اس میں مشرکوں کاداخل ہوناحرام ہے اس لئے کعبہ کو“بیت الله الحرام” کہاجاتاہے
۴۔خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟
ابوخدیجہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:خانہ کعبہ کوعتیق کیوں کہاجاتاہے ؟ آپ نے فرمایا:…کعبہ اس لئے عتیق کہاجاتاہے کہ یہ جگہ سیلاب میں عرق ہونے سے آزاداورمحفوظ ہے (جب طوفان نوح (علیه السلام) آیاتھاتواسوقت بھی کعبہ غرق نہیں ہواتھااورنوح نے کشتی میں بیٹھے ہوئے کعبہ کادیدارکیاتھا(
. علل الشرئع /ج ٢/ص ٣٩٨
ابن محاربی سے مروی ہے امام صادق فرماتے ہیں:
خداوندعالم نے حضرت نوح کے زمانہ میںطوفان کے وقت کعبہ کے علاوہ پوری زمین کوپانی
میںغرق کردیاتھااسی لئے اس بقعہ مبارکہ کوبیت عتیق کہاجاتاہے کیونکہ یہ جگہ اس وقت بھی غرق ہونے سے آزادومحفوظ تھی ،راوی کہتاہے کہ میں نے امام (علیه السلام) سے عرض کیا:کیایہ بقعہ مبارکہ اس دن آسمان پرجلاگیاتھاجوغرق ہونے سے محفوظ رہا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:نہیں بلکہ اپنی جگہ پرتھااورپانی اس تک نہیں پہنچااوریہ بیت پانی سے مرتفع قرارپایا۔
. تفسیرنورالتقلین/ج ٣/ص ۴٩۵
ابوحمزہ ثمالی سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر سے معلوم کیا: خداوند عالم نے کعبہ کوعتیق کے نام سے کیوں ملقب کیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا: خداوندعالم نے روئے زمین پرجت نے بھی گھربنائے ہیں ہرگھرکے لئے ایک مالک اورساکن قراردیاہے مگرکعبہ کاکسی کومالک وساکن قرارنہیں دیابلکہ پروردگاراس گھرکامالک وساکن ہے اورامام (علیه السلام) نے فرمایا:خداوندعالم نے اپنی مخلوقات میں سب سے پہلے اس گھرپیداکیااس کے بعدزمین کواس طرح وجودمیں لایاکہ کعبہ کے نیچے سے مٹی کوکھینچااورپھراسے پھیلادیا۔
. کافی /ج ۴/ص ١٨٩

کعبہ کب سے قبلہ بناہے؟ کیا اسلام کے آغازہی سے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)اورتمام مسلمان خانہ کعبہ کی طرف نمازپڑھتے آرہے ہیں اورکیاخانہ کعبہ اول اسلام سے مسلمانوں کاقبلہ ہے یاکعبہ سے پہلے کوئی دوسرابھی قبلہ تھااوراس طرف نمازپڑھی جاتی تھی اوربعدمیں قبلہ تبدیل کردیاگیاہے؟
جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)درجہ رسالت پرمبعوث ہوئے تواس وقت مسلمانوں کاقبلہ بیت المقدس تھاجسے قبلہ اوّل کہاجاتاہے لیکن بعدمیں خداکے حکم سے قبلہ کوبدل دیاگیا اورخانہ کعبہ مسلمانوں کادوسراقبلہ قرارپایا نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے ۔
معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ : میں نے امام صادق معلوم کیاکہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے چہرے کوکس وقت کعبہ کی طرف منصرف کیاگیا؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
بعدرجوعہ من بدر،وکان یصلی فی المدینة الی بیت المقدس سبعة عشرشہرا ثمّ ) اعیدالی الکعبة ۔( ١
جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)جنگ بدرسے واپس ہوئے توقبلہ کو تغییر کردیا گیا __________اورمدینہ ہجرت کے بعدآنحضرت سترہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازپڑھتے رہے اس کے بعد قبلہ کوکعبہ کی طرف گھمادیاگیا۔
١(وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ٢١۶ (
ابوبصیرسے مروی ہے کہ میں نے امام باقریاامام صادق +میں کسی ایک امام (علیه السلام)سے معلوم کہا: کیاخداوندعالم بیت المقدس کی سمت رخ کرکے نمازپڑھنے کاحکم دیاتھا؟امام (علیه السلام) نے فرمایا:ہاں،کیاتم نے یہ آیہ مبارکہ نہیں پڑھی ہے
>وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْہَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَاِنْ ) کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ ہُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ …>( ١
اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ بندوں کے حال پر
--------
) مہربان اور رحم کرنے والاہے ۔( ٢ . ٢)وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ٢١۶ ) . ١(سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣ (
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کعبہ کوبہت زیادہ دوست رکھتے تھے اورمدینہ ہجرت سے پہلے مکہ میں جب بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے توکعبہ کواپنے اوربیت المقدس کے درمیان کرتے تھے
حمادحلبی سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:کیانبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بیت المقدس کی سمت نمازپڑھتے تھے ؟فرمایا:ہاں، میں نے کہا:کیا اس وقت خانہ کٔعبہ آنحضرت کی کمرکے پیچھے رہتاتھا؟فرمایا:جسوقت آپ مکہ میں رہتے تھے توکعبہ کوکمرکے پیچھے قرارنہیں دیاکرتے تھے لیکن مدینہ ہجرت کرنے کے بعدکعبہ کی طرف قبلہ تحویل ہونے تک کعبہ کواپنی پشت میں قراردیتے تھے ۔
. کافی /ج ٣/ص ٢٨۶

رازتحویل قبلہ
تحویل قبلہ کے بارے میں چار اہم سوال پیداہوتے ہیں: قبلہ بیت المقدس سے کعبہ طرف کب اورکیوں تحویل ہواہے اورخداوندعالم نے روزاول ہی سے کعبہ کی سمت نمازپڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا؟اوربیت المقدس کی سمت پڑھی گئی کی تکرارواجب ہے یانہیں ؟ پہلے سوال کے جواب میں تفسیرمنہج الصادقین میں لکھاہے کہ: جس دن الله کی طرف سے تغییرقبلہ کاحکم نازل ہوااس دن نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدنبی سلمہ میں تشریف رکھتے تھے اور مسلمان مردوعورتوں کے ہمراہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ظہر پڑھنے میں مشغول تھے اور دوسری رکعت کے رکوع میں تھے کہ جبرئیل امین نے آنحضرت کے دونوں بازو پکڑ کر آپ کا چہرہ کعبہ کی سمت کردیااورجومردوعورت آپ کے پیچھے نمازپڑھ رہے تھے ان سب کے چہروں کوبھی کعبہ کی سمت کردیا اورمردعورتوں کی جگہ اورعورتیں ) مردوں کی جگہ پرکھڑے ہوگئے ۔( ١
اس مسجدکو“ذوالقبلتین”دوقبلہ والی مسجدکہاجاتاہے کیونکہ یہی وہ مسجدہے کہ جس میں الله کے آخری نبی حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله) نمازظہر اداکررہے تھے کہ جبرئیل نے آنحضرت کے چہرہ کارخ دونوں شانے پکڑکربیت المقدس سے کعبہ کی طرف کردیا ،پیغمبرکی یہ آخری نمازتھی جوبیت المقدس کی طرف پڑھی گئی اوریہ پہلی نمازتھی جوکعبہ کی سمت پڑھی گئی تھی ،آنحضرت نے اس نمازکودوقبلہ کی طرف انجام دیاپہلی دورکعت بیت المقدس کی طرف اوردوسری دورکعت نمازکعبہ کی سمت اداکی لہٰذایہ وہ مسجدہے کہ جس میں ایک ہی نمازکودوقبلہ کی طرف رخ کرکے پڑھاگیاہے اسی لئے اس مسجدکو “ذوالقبلتین” کہاجاتاہے ۔
. ١(تفسیرمنہج الصادقین /ج ١/ص ٣۴١ (
قبلہ کے تحویل کرنے کی چندوجہیں بیان کی گئی ہیں :
پہلی وجہ
کتب تفاسیر میں لکھاہے: کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے درجہ نبوت پرفائز ہونے کے بعد ١٣ /سال تک مکہ مکرمہ میں قیام مدت کے درمیان بیت المقدس کی سمت نماز پڑھتے رہے اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی سترہ مہینہ تک اسی طرف نماز یں پڑھتے رہے جوروزاول سے یہودیوں کاقبلہ تھااوریہودی اسے اپنے قبلہ مانتے تھے لہٰذا وہ لوگ رسول خدا (صلی الله علیه و آله)وان کی پیروی کرنے والوں کو طعنہ دیا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ : تم مسلمان تو ہمارے قبلہ کی رخ کرکے نماز ھتے ہیں اور ہماری پیروی کرتے ہیں، اور کہتے تھے کہ: جب تم ہمارے قبلہ کو قبول رکھتے ہو اور اسی کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے ہوتو پھرہمارے مذہب کو کیوں قبول نہیں کرلیتے ہو؟۔
ہجرت کرنے کے بعدبھی پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)گرچہ بیت المقدس کی سمت شوق سے نماز یں پڑھتے تھے اور دل وجان سے حکم خداپرعمل کرتے تھے مگر دشمنوں کی طعنہ زنی سے رنج بھی اٹھا تے تھے اور غمگین رہتے تھے پس جب دین اسلام قدرے مستحکم ہوگیاتوایک دن آپ نے جبرئیل سے کہا :میری یہ خواہشہے کہ الله تبارک تعالیٰ ہم مسلمانوں کو قبلہ یٔہودکی طرف کھڑے ہوکرنماز پرھنے سے منع کرے اورہمارے لئے ایک مستقل قبلہ کی معرفی کرے ،جبرئیل نے عرض کیا : میں بھی آپ کی طرح ایک بندئہ خدا ہوں مگر آپ خداوندعالم کے نزدیک اولوالعزم پیغمبر ہیں لہٰذا آپ خوددعا کریں اور اپنی آرزوکو پروردگار سے بیان کریں
لیکن رسول اکرام (صلی الله علیه و آله) اپنی طرف سے کوئی تقاضا نہیں کرنا چاہتے تھے، فقط جس کام کا خدا آپ کو حکم دیتا تھا وہی انجام دیتے تھے اور جس بارے میں فرمان خدا ابلاغ نہیں ہو تا تھا اس کے انتظار میں رہتے تھے ، تبدیل قبلہ کے بارے میں بھی وحی الہٰی کے منتظر تھے، لہٰذاایک دن نمازظہرکے درمیان جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے:
>وَقَدْ نَرَیٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فیِ السَّمَآءِ فَلَنُوَ لِّیَنَکَ قِبْلَةً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ ) الحَرَامِ وَحَیْثُ مَاکُنْمُ فَوَلُّوْاوَجُوھَکُمْ شَطْرَہُ>( ١
ترجمہ:اے رسول! ہم آپ کا آسمان کی طرف متوجہ ہونے کودیکھ رہے ہیں ،ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑدیں گے جسے آپ پسندکرتے ہیں لہٰذا اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑدیجئے اور جہان بھی رہئے اسی طرف رخ کیجئے ۔
--------
٢)نورالثقلین /ج ١/ص ١٣٧ ۔مجمع البیان/ج ١/ص ١٩١ ۔ المیزان ) . ١(سورہ بٔقرہ/آیت ١۴۴ ( . /ج ١/ص ٣٢٨
دوسری وجہ
تبدیل قبلہ کے بارے میں جواسراربیان کئے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ خداوندعالم تبدیل کی وجہ سے پہچان کراناچاہتاتھا کہ کون لوگ حقیقت میں پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی پیروی کرتے ہیں اور کون حکم خدا ورسول کی خلاف ورزی کرتے ہیں جیساکہ خدا وند معتال قرآن مجید میں فرماتا ہے :
>وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَاَلّتِی کُنْتَ عَلَیْہَااِلّالِنَعْلَمَ مَنْ یَّتِبِعِ الرّسُول مِمّنْ یّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَةً اِلّاعَلَی الَّذِیْنَ ہُدَی اللهُ وَمَاکَانَ اللهُ لِیُضِیعَ اِیْمَانَکُمْ<…
اور ہم نے پہلے قبلہ (بیت المقدس) کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول! کا اتباع کرتا ہے اور پچھلے پاؤں جاتاہے گرچہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی الله نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضایع نہیں کرناچاہتا تھا ، وہ ) بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے ۔( ١
. ١(سورہ بٔقرہ/آیت ١۴٣ (
امام جعفرصادق فرماتے ہیں: ہذابیت استعبد الله تعالی بہ خلقہ لیختبربہ طاعتہم فی اتیانہ فحثہم علی تعظیمہ وزیارتہ وجعلہ محل انبیائہ وقبلة للمصلین لہ.
یہ گھرات نابلند ہے کہ الله تبارک وتعالی نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیاہے وہ اس کے واسطے سے میری عبادت کریں تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کاامتحان لے سکوں اوریہ پتہ چل جائے کہ کون اس کی عبادت کرتے ہیں اورکون عبادت کوترک کرتے ہیں اسی لئے میں نے کعبہ کی تعظیم وزیارت کاحکم دیاہے اوراسے انبیاء کرام کامحل اورنمازگزاروں کاقبلہ قراردیاہے ۔
. من لایحضرہ الفقیہ /ج ٢/ص ٢۵٠
اس آیہ مٔبارکہ اورحدیث شریفہ سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله)کے زمانے میں دوطرح کے مسلمان تھے ، کچھ ایسے لوگ تھے جو آسانی سے فرمان خداکو نہیں مانتے تھے اوررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے قول وفعل پراعتراض اورچون وچراکرتے تھے ،وہ لوگ نبی کی ہربات کونہیں مانتے تھے اور خانہ کعبہ کو قبلہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔
کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یقین سے الله ورسول اور قرآن پرایمان رکھتے تھے اوراس چیزپراعتقادرکھتے تھے کہ رسول اسلام اپنی مرضی سے نہ کچھ کہتے ہیں اور نہ کرتے ہیں بلکہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جسکا م کا خدا آپ کو حکم دیتا ہے اور وہ لوگ دل و جان سے حکم الہٰی کو اجرا کرتے تھے جیسے ہی ان لوگوں تک تبدیل قبلہ کی خبر ہوئی تو انھوں نے اپنے رخ کعبہ کی طرف کرلئے لیکن جومنافق تھے انھوں نے اعتراض شروع کردئے ۔
تیسری وجہ
علامہ ذیشان حیدرجوادی ترجمہ وتفسیر قرآن کریم میں لکھتے ہیں:تحویل قبلہ کاایک رازیہ بھی ہے کہ اس طرح یہودیوں کاوہ استدلال ختم گیاکہ مسلمان ہمارے قبلہ کی اتباع کررہے ہیں،اوریہ دلیل ہے کہ ہمارامذہب برحق ہے اوراس کے علاوہ کوئی مذہب خدائی نہیں ہے ،قرآن کریم واضح کردیاکہ بیشک بیت المقدس ایک قبلہ ہے لیکن جس خدانے اسے قبلہ بنایاہے اسے تبدیل کرنے کاحق بھی رکھتاہے ،اگریہودیوں کاایمان خداپرہے توجس طرح پہلے حکم خداکوتسلیم کیاتھااسی طرح دوسرے حکم کوبھی تسلیم کرلیں۔
روزاول ہی کعبہ کوقبلہ کیوں قرارنہیں دیا؟
اگرکوئی یہ سوال کرے :کیاوجہ ہے کہ خدا وند عالم نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اوران کی اتباع کرنے والوں کو پہلے بیت المقدس کی جانب رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی طرف نماز اداکرنے کا حکم جاری کیا اور بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے سے منع کردیا؟
جس وقت پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نے اپنی رسالت کا اعلان کیا تو مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور مسلمان کے پاس کوئی طاقت وغیرہ نہیں تھی لیکن یہودومسیح کی تعداد بہت زیادہ تھی اور طاقت بھی انہی لوگوں کے پاس تھی اگرخداوندعالم اسی وقت کعبہ کی طرف نمازپڑھنے کاحکم جاری کردیتااور مسلمان ان کے قبلہ کی مخالفت کردیتے اور بیت المقدس کی طرف نماز نہ پڑھتے توان کے اندر غصّہ کی آگ بھڑک جاتی اور اسی وقت مسلمانوں کی قلیل جماعت کو ختم کرکے اسلام کونابودکردیتے اسی لئے خدا نے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا تاکہ قوم یہود ومسیح (جو بیت المقدس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے ) مسلمانوں کو بغض وکینہ کی نگاہوں سے نہ دیکھیں اورانھیں اپنا دشمن شمار نہ کریں اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ بھی نہ بنائیں لیکن جب روز بر وزقرآن واسلام کی پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا اور مسلمان طاقتور ہوتے گئے اور رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رہبری میں ایک مستقل حکومت کے قابل ہو گئے تواس وقت خداوندعالم نے قبلہ بدلنے کا حکم جاری کیا اور کہا کہ آج کے بعدتمام مسلمان مستقل ہیں اور ان کا قبلہ بھی مستقل ہو گا، قبلہ تبدیل ہونے کے بعد اگر دشمن مخالفت بھی کرتے تھے تو مسلمانوں پر کوئی اثرنہیں ہو تا تھا ۔
قبلہ اول کی سمت پڑھی گئی نمازوں کاحکم کیاہے ؟
جب حکم خداسے قبلہ تبدیل ہوگیا تومسلمانوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہواکہ ہم نے اب تک جت نی بھی نمازیں بیت المقدس کی سمت رخ کر کے پڑھی ہیں ان کا کیا حکم ہے ،ہماری وہ نماز یں صحیح ہیں یا باطل ہیں اوران کادوبارہ پڑھناواجب ہے ؟ لہٰذاکچھ لوگوں نے اس مسئلہ کو پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) کی خدمت میں مطرح کیا اور آنحضرت سے پوچھا :یانبی الله!ہم نے وہ تمام نمازیں جوبیت المقدس کی طرف رخ کرکے انجام دی ہیں کیاوہ سب قبول ہیں یاان کااعادہ کرناضروری ہے ؟
جبرئیل امین وحی لے کرنازل ہوئے اورفرمایا: ) >وَمَا کاَنَ الله لُِیُضْیعَ اِیْمَا نَکُمْ اِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَحْیمٌ >( ١
جان لیجئے کہ وہ نمازیں جوتم نے قبلہ اوّل (بیت المقدس) کی طرف انجام دیں ہیں وہ سب صحیح ہیں خدا تمھارے ایمان (نماز) کو ضایع نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والاہے۔
حضرت امام جعفرصادق فرماتے ہیں : اس آیہ مٔبارکہ مٔیں نماز کو ایمان کا لقب دیا گیا ) ہے۔( ٢
--------
. ٢)نورالثقلین/ج ١/ص ١٣٧ ) . ١(سورہ بقرہ /آیت ١٣٨ (

اذان واقامت
وہ چیزکہ جس کے ذریعہ لوگوں کونمازکاوقت پہنچنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے ونمازپڑھنے کی طرف دعوت دی جاتی ہے اسے اذان کہاجاتاہے ۔ لغت قاموس میں“اذّن ،اُذان،اَذِّن…”کے معنی اعلان،دعوت اوربلانابیان کئے گئے ہیں اور “مصباح المنیر”میں اس طرح لکھاہے:“آذَنتُہُ اِیذَاناًوَتَا ذّٔنْتُ (اَعلَمتُ)وَا ذّٔن الموذّنُ بالصلاةا عٔلم بِہا…” میں نے اعلان کیااورمو ذٔن نے اذان دی یعنی لوگوں کونمازکی طرف دعوت دی اورقرآن کریم میں بھی لفظ “اذّن واذان ”اعلان کرنے کے معنی میں استعمال ہواہے
) >وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ.>اورلوگوں کے درمیان حج کااعلان کرو۔( ١ ) >وَاَذَانٌ مِنَ اللھِوَرَسُوْلِہِ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرْ>( ٢
اوراللھورسول کی طرف سے حج اکبرکے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے
--------
. ٢)سورہ تٔوبہ آیت ٣ ) . ١(سورہ حٔج آیت ٢٧ (

اذان واقامت کی اہمیت
مستحب ہے کہ بلکہ سنت مو کٔدہ ہے کہ نمازگزاراپنے اپنی روزانہ کی پانچوں واجب نمازوں کواذان واقامت کے ساتھ پڑھے خواہ انسان ان نمازوں کوان کے وقت میں اداکررہاہو یاان کی قضابجالارہاہو البتہ اگرنمازجماعت ہورہی ہے توجماعت کی اذان واقامت پراکتفاء کرناصحیح ہے،خواہ اس نے نمازجماعت کی اذان واقامت کوسناہویانہ سناہو،اذان واقامت کے وقت مسجدمیں حاضرہویانہ ہو۔
نمازجمعہ سے پہلے بھی اذان واقامت کہناسنت مو کٔدہ ہے اور عیدالفطر و عیدالاضحی کی نمازکے لئے تین مرتبہ “الصلاة ” کہاجائے ۔ خداوندعالم قرآن کریم میں اذان کامسخرہ کرنے والوں کوغیرمعقول انسان قراردیتے ہوئے ارشادفرماتا ہے:
>وَاِذَا نَا دَیْتُم اِلیٰ الصَّلوٰةِ اتَّخذوھٰا ھُزُواً وَلَعِباً ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قُومٌلَاَ یَْقْلُوِْنَ< اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کا مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں کیونکہ یہ با لکل بے عقل قوم ہیں۔
. سورہ مٔائد ہ آیت ۵٨
امام صادق فرماتے ہیں:مریض کوبھی چاہئے کہ جب نمازپڑھنے کاارادہ کرے تو اذان واقامت کہہ کرنمازپڑھے خواہ آہستہ اوراپنے لئے ہی کہے ،(اگراپنے بھی اذان واقامت کے کلمات کوزبان سے اداکرنے کی قدرت نہ رکھتاہوتودل سے اذان اقامت کہے)کسی نے پوچھااگرانسان بہت زیادہ مریض ہوتو کیاپھربھی اسے اذان واقامت کہناچاہئے ؟امام(علیه السلام) نے فرمایا:ہرحال میں اذان اقامت کہناچاہئے کیونکہ اذان واقامت کے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔
. ٣(استبصار/ج ١/ص ٣٠٠ (
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم : من ولدلہ مولودفلیو ذٔن فی اذنہ الیمنی باذان ) الصلاة والیقم فی اذنہ الیسری فانّہاعصمہ من الشیطان الرجیم۔( ٢ رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:کسی بھی گھرمیں جب کوئی بچہ دنیامیں آئے تو اس کے دائیں کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی جائے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ بچہ شیطان رجیم کے شرسے محفوظ رہتاہے ۔
. ٢(کافی /ج ۶/ص ٢۴ (
علی ابن مہزیارنے محمدابن راشدروایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام ابن ابراہیم اپنے بارے میں بتایاہے کہ میں امام علی رضا کی خدمت میں مشرف ہوئے اوراپنے مریض و بے اولادہونے کے بارے میں شکایت کی توامام(علیه السلام) نے مجھے حکم دیاکہ اے ہشام!تم اپنے گھرمیں بلندآوازسے اذان کہاکرو
ہشام کا بیان ہے کہ :میں نے امام (علیه السلام)کے فرمان کے مطابق عمل کیااورخداوندعالم نے اس عمل کی برکت سے مجھے اس بیماری سے شفابخشی اور کثیراولادعطا کی.
محمدابن راشدنے کہتے ہیں کہ :میں اورمیرے اہل خانہ اکثربیماررہتے تھے ،جیسے ہی میں نے ہشام سے امام (علیه السلام) کی یہ بات سنی تومیں نے بھی اس پرعمل کیاتوخداوندعالم نے مجھ اورمیرے عیال سے مریضی دورکردیا۔
. تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ۵٩
امام علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں :جوشخص اذان واقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے ملائکہ کی دو صف اس کے پیچھے نمازپڑھتی ہیں کہ جن کے دونوں کنارے نظرنہیں آتے ہیں اورجوشخص فقط اقامت کے ساتھ نمازپڑھتاہے توایک فرشتہ اسکے پیچھے نمازپڑھتاہے ۔
. ٢(من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٨٧ (
مفضل ابن عمرسے مروی ہے حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص واجب نمازوں کو اذان واقامت کے ساتھ انجام دیتا ہے ، ملا ئکہ کی دوصفیں اس کی افتداء کرتی ہیں اورجوشخص فقط اقامت کہہ کرنمازپڑھتاہے تو ملائکہ کی ایک صف اس کے پیچھے نماز پڑھتی ہے، میں نے پوچھا:اس کی مقدارکت نی ہے ؟ امام (علیه السلام) نے جواب دیا:اس مقدارحداقل مشرق ومغرب کے درمیان کی زمین ہے اورحداکثرزمین وآسمان کے درمیان ہے ۔
. ثواب الاعمال/ص ٣٣
امام صادق فرماتے ہیں:پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کی مسجدکی دیوارآدمی کے برابرتھی ،رسولخدابلال سے کہتے تھے :اے بلال!دیوارکے اوپرجاؤاورکھڑے ہوکر بلندآوازسے اذان کہوکیونکہ خداوندعالم نے ایک ہواکومعین کرکھاہے جواذان کی آوازکوآسمان تک پہنچاتی ہے اورجب ملائکہ اہل زمین سے اذان کی آوازسنتے ہیں توکہتے ہیں :یہ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کی امت کی آوازہے جوالله کی وحدانیت کانعرہ لگارہی ہے اوروہ فرشتے اللھسے امت محمدی کے لئے اس وقت تک استغفارکرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی نمازسے فارغ ہوتے ہیں۔
. ٢(کافی/ج ٣/ص ٣٠٧ (

مو ذٔن کے فضائل
روایت میں ایاہے کہ شام سے شخص ایک امام حضرت امام صادق کی خدمت میں مشرف ہوا،آپ نے اس مرد شامی سے فرمایا : انّ اوّل من سبق الیٰ الجنة بلالٌ،قال:ولِمَ؟قال:لانّہ اوّل من اذّنَ۔ حضرت بلا ل وہ شخص ہیں جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہونگے اس نے پوچھا ! کسلئے ؟ آپ نے فرمایا : کیونکہ بلال وہ شخصہیں جنھوں نے سب سے پہلے اذان کہی ہے۔
تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٨۴
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: مو ذٔن اذان واقامت کے درمیان اس شہیدکاحکم رکھتاہے جوراہ خدامیں اپنے خون میں غلطاں ہوتاہے پس حضرت علی سے آنحضرتسے عرض کیا:آپ نے اذان کہنے کی ات نی بڑی فضلیت بیان کردی ہے کہ مجھے خوف ہے کہ آ پ کی امت کے لوگ اس کام کے لئے ایک دوسرے پر شمشیر چلائیں گے (اور مو ذٔن بننے کے لئے ایک دوسرے کا خون بہائیں گے)، آنحضرت نے فرمایا :وہ اس کام کوضعیفوں کے کاندھوں پررکھ دیں گے (اذان کہنا ات نا زیادہ ثواب و فضیلت رکھنے کے با وجود ضعیف لو گو ں کے علاوہ دوسرے حضرات اذان کہنے کی طرف قدم نہیں بڑھائیں گے)اورمو ذٔن کاگوشت وہ ہے کہ جسپر جہنم کی آگ حرام ہے جواسے ہرگزنہیں جلاسکتی ہے۔
. ٢ (من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/باب الاذان والاقامة/ص ٢٨٣ (
جابرابن عبدالله سے مروی ہے کہ:رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نے مو ذٔن کے لئے تین باردعاکی : بارالٰہا!مو ذٔن لوگوں کوبخش دے،جابرکہتے ہیں میں نے کہا:یارسول الله!اگرمو ذٔن کایہ مقام ہے توایسالگتاہے کہ اذان کہنے کے لئے لوگوں کے درمیان تلواریں چلاکریں گی ؟آنحضرت نے فرمایا:
اے جابر!ایک وقت ایسابھی آئے گا کہ اذان کاکام بوڑھوں کے کاندھوں پرڈال دیاجائے گا (اورجوان لوگ اذان کہنااپنے لئے عیب شمارکریں گے)اورسنو!کچھ گوشت ایسے ہیں جن پرآتش جہنم حرام ہے اوروہ مو ذٔن لوگوں کاگوشت ہے۔
. ١(مستدرک الوسائل/ج ۴/ص ٢٢ (
قال علی علیہ السلام:یحشرالمو ذٔنون یوم القیامة طوال الاعناق۔ حضرت علیفرماتے ہیں:مو ذٔن لو گ روزقیامت سرافرازاورسربلندمحشورہونگے۔ . بحارالانوار/ج ٨٣ /ص ١۴٩
ایک یہودی نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)سے مو ذٔن کی فضیلت کے بارے میں سوال کیاتوآپ نے فرمایا:میری امت کے مو ذٔن روزقیامت کے دن انبیاء وصادقین اورشہداء کے ساتھ محشورہونگے۔
. الخصال/ص ٣۵۵
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : خدا وندمتعال کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں کو بغیرکسی حساب کے داخل بہشت کیا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص ٨٠ / ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا اور وہ تین شخص یہ ہیں: ١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے۔ . مستدرک الوسائل/ج ١/ص ۴٨٨
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من اذان فی مصرمن امصارالمسلمین وجبت لہ الجنة. رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص (اپنے )مسلمان بھائیوں کے کسی شہرمیں اذان کہے تواس پرجنت واجب ہے۔
. ثواب الاعمال/ص ٣١

اذان واقامت کے راز
فضل بن شاذان نے اذان کی حکمت کے متعلق امام علی رضا سے ایک طولانی حدیث نقل کی ہے کہ جس میں امام (علیه السلام) فرماتے ہیں: خداوندتبارک وتعالیٰ کی جانب سے لوگوں کواذان کاحکم دئے جانے کے بارے میں بہت زیادہ علت وحکمت پائی جاتی ہیں،جن میں چندحکمت اس طرح سے ہیں :
١۔اذان، بھول جانے والوں کے لئے یاددہانی اورغافلوں کے لئے بیداری ہے ،وہ لوگ جونمازکا وقت پہنچنے سے بے خبررہتے ہیں اوروہ نہیں جانتے ہیں کہ نمازکاوقت پہنچ گیاہے یاکسی کام میں مشغول رہتے ہیں تووہ اذان کی آوازسن کروقت نمازسے آگاہ ہوجاتے ہیں،مو ذٔن اپنی اذان کے ذریعہ لوگوں کوپروردگاریکتاکی عبادت کی دعوت دیتاہے اوران میں عبادت خداکی ترغیب وتشویق پیداکرتاہے، توحیدباری تعالی کے اقرارکرنے سے اپنے مومن ومسلمان ہونے کااظہارکرتاہے ،غافل لوگوں کووقت نمازپہنچنے کی خبردیتاہے ۔ ٢۔مو ذٔن کومو ذٔن اس لئے کہاجاتاہے کہ وہ اپنی اذان کے ذریعہ نمازکااعلان کرناہے ٣۔تکبیرکے ذریعہ اذان کاآغازکیاجاتاہے اس کے بعدتسبیح وتہلیل وتحمیدہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے پہلے تکبیرکوواجب کیاہے کیونکہ اس میں پہلے لفظ “الله” آیاہے اورخداوندعالم دوست رکھتاہے کہ اس کے نام ابتدا کی جائے اوراس کایہ مقصدتسبیح (سبحان الله)اورتحمید(الحمدلله)اورتہلیل (لاالہ الاالله)میں پورانہیں ہوتاہے ان کلمات کے شروع لفظ “الله”نہیں ہے بلکہ آخرمیں میں ہے ۔
۴۔اذان کے ہرکلمہ کودودومرتبہ کہاجاتاہے ،اس کی وجہ یہ ہے تاکہ سننے والوں کے کانوں میں اس کی تکرارہوجائے اورعمل میں تاکیدہوجائے تاکہ اگرپہلی مرتبہ سننے میںغفلت کرجائیں تودوسری مرتبہ میں غفلت نہ کرسکیں اوردوسری وجہ یہ ہے کیونکہ دودورکعتی لہذااذان کے کلمات بھی دودوقراردئے گئے ہیں۔
۵۔اذان کے شروع میں تکبیرکوچارمرتبہ قرادیاگیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان بطورناگہانی شروع ہوتی ہے ،اس سے پہلے کوئی کلام نہیں ہوتاہے کہ جوسننے والوں کوآگاہ ومت نبہ کرسکے ،پس شروع میں پہلی دوتکبیرسامعین کومت نبہ وآگاہ کرنے کے لئے کہی جاتی ہیں تاکہ سامعین بعدوالے کلمات کوسننے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔ ۶۔تکبیرکے بعد“شہادتین”کومعین کئے جانے کی وجہ یہ ہے :کیونکہ ایمان دوچیزوں کے ذریعہ کامل ہوتاہے:
١۔ توحیداورخداوندعالم کی وحدانیت کااقرارکرنا۔
٢۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی رسالت کی گواہی دیناکیونکہ خداورسول کی اطاعت اورمعرفت شناخت ایک دوسرے سے مقرون ہیں یعنی خداکی وحدانیت کی گواہی کے ساتھ اس کے رسول کی رسالت کی گواہی دیناضروری ہے کیونکہ شہادت اورگواہی اصل وحقیقت ایمان ہے اسی لئے دونوں کی شہاد ت دوشہادت
قراردیاگیاہے یعنی خداکی واحدانیت کااقرابھی دومرتبہ ہوناچاہئے اوراس کے رسول کی رسالت کااقراربھی دومرتبہ ہوناچاہئے جس طرح بقیہ حقوق میں دوشاہدکے ضروری ہونے کو نظرمیں رکھاجاتاہے ،پس جیسے ہی بندہ خداوندعالم کی وحدانیت اوراس کے نبی کی رسالت کااعتراف کرتاہے توپورے ایمان کااقرارکرلیتاہے کیونکہ خدااوراس کے رسول کااقرارکرنااصل وحقیقت ایمان ہے ۔
٧۔پہلے خداورسول کا اقرارکیاجاتاہے اس کے بعدلوگوں نما__________زکی طرف دعوت دی جاتی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے:حقیقت میں اذان کونمازکے لئے جعل وتشریع کیاگیاہے کیونکہ اذان کے معنی یہ ہیں کہ مخلوق کونمازکی طرف دعوت دینا،اسی لئے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کواذان کے درمیان میں قرار دیاگیاہے یعنی چارکلمے اس سے پہلے ہیں اورچارکلمے اس کے بعدہیں،دعوت نمازسے پہلے کے چارکلمے یہ ہیں: دوتکبیراوردوشہادت واقرار،اوردعو ت نمازکے بعدکے چارکلمے یہ ہیں:لوگوں کوفلاح وکامیابی کی طرف دعوت دینااوراس کے بعد بہترین عمل کی طرف دعوت دیناتاکہ لوگوں میں نمازپڑھنے کی رغبت پیداہو،اس کے بعدمو ذٔن ندائے تکبیربلندکرتاہے اوراس کے بعدندائے تہلیل(لاالہ الاالله)کرتاہے،پس جس طرح دعوت نماز( حیّ علی الصلاة)سے پہلے چارکلمے کہے جاتے ہیں اسی طرح اس کے بعدبھی چارکلمے ہیں اورجس طرح مو ذٔن ذکروحمدباری تعالیٰ سے اذان کاآغازکرتاہے اسی طرح حمدوذکرباری پرختم کرتاہے ۔
٨۔اگرکوئی یہ کہے کہ :اذان کے آخرمیں تہلیل(لاالہ الاالله) کوکیوں قرادیاگیاہے اورجس طرح اذان کے شروع میں تکبیرکورکھاگیاتھاتوآخرمیں کیوں نہیں رکھاگیاہے ؟ اذان کے آخرمیں تہلیل (لاالہ الالله) کوقراردیاگیاتکبیرکونہیں اورشروع میں تکبیرکورکھاگیاہے تہلیل کونہیں،اس کی وجہ ہے کہ: خداوندعالم یہ چاہتاہے کہ آغازاورانجام اس کے نام وذکر سے ہوناچاہئے، تکبیرکے شروع میں لفظ “الله”ہے اورتہلیل کے آخرمیں بھی لفظ “الله ”ہے پس اذان کاپہلالفظ بھی “الله”ہے اورآخری لفظ بھی اسی لئے اذان کے شروع میں تکبیرکواورآخرمیں تہلیل کوقراردیاگیاہے ۔
. علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٨
حضرت امام حسین فرماتے ہیں کہ: ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مسجدکی مینارسے مو ذٔن کی آوازبلندہوئی اوراس نے “ الله اَکبَر،اَللهُ اَ کبَر” کہا تو امیرالمو منین علی ابن ابی طالب اذان کی آواز سنتے ہی گریہ کرنے لگے ، انھیں روتے ہوئے دیکھ کر ہماری بھی آنکھوں میں آنسوں اگئے ،جیسے ہی مو ذٔن نے اذان تمام کی توامام (علیه السلام) ہمارے جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا :کیا تم جانتے ہو کہ مو ذٔن اذان میں کیاکہتا ہے اوراس کاہرکلمہ سے کیارازاورمقصدہوتاہے؟ ہم نے عرض کیا : الله اور اس کے رسول اوروصی پیغمبر ہم سے بہتر جانتے ہیں،پسآپ(علیه السلام) نے فرمایا :
لوتعلمون مایقول:لضحکتم قلیلاوَلِبَکَیْتم کثراً۔ اگر تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ مو ذٔن اذان میں کیا کہتا ہے توپھر زندگی بھر کم ہنسیں گے اور زیادہ روئیں گے ، اس کے بعد مولا ئے کا ئنات اذان کی تفسیراوراس کے رازواسراربیا ن کرنے میں مشغول ہوگئے اورفرمایا:
”اَللّٰہُ اَکْبَر“
اس کے معنی بہت زیادہ ہوتے ہیں جن میں چندمعنی یہ بھی ہیں کہ جب مو ذٔن “الله اکبر” کہتاہے تووہ خداوندمتعا ل کے قدیم ، موجودازلی وابدی ، عالم ،قوی ، قادر،حلیم وکریم، صاحب جودوعطا اورکبریا ہونے کی خبردیتاہے لہٰذاجب مو ذٔن پہلی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:
خداوہ ہے کہ جوامروخلق کامالک ہے ،تمام امروخلق اس کے اختیارمیں ہیں ہرچیزاس کی مرضی وارادہ سے وجودمیں اتی ہے اوراسی کی طرف بازگشت کرتی ہے، خداوہ ہے کہ جوہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا،جوہرچیزے سے پہلے بھی تھااورہرچیزکے فناہوجانے کے بعدبھی رہے گا،اس کے علاوہ دنیاکی تمام چیزوں کے لئے فناہے وہ ہرچیزسے پہلے بھی تھااورہرچیزکے بعد بھی رہے گا، وہ ایساظاہرہے کہ جوہرشے پٔرفوقیت رکھتاہے اورکوئی اسے درک نہیں کرسکتاہے ،وہ باطن ہرشے ہے کہ جونہیں رکھتاہے پس وہ باقی ہے اوراس کے علاوہ ہرشئ کے لئے فناہے ۔
جب موذن دوسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہوتے ہیں: العلیم الخبیر ، علم بماکان ویکون قبل ان یکون یعنی خداوندعالم ہرچیزکاعلم وآگاہی رکھتاہے ،وہ ہراس چیزکاجوپہلے ہوچکی ہے اورجوکام پہلے ہوچکاہےپہلے سے علم رکھتاتھااورجوکچھ آئندہ ہونے والاہے یاوجودمیں انے والاہے اس کابھی پہلے ہی علم رکھتاہے ۔
جب تیسری مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے تواسکے یہ معنی ہیں: القادرعلی کل شئیقدرعلی مایشاء ،القوی لقدرتہ،المقتدرعلی خلقہ، القوی لذاتہ، قدرتہ قائمة علی اشیاء کلّہا،<اِذَاقَضٰی ا مْٔرًافَاِنَّمَایَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ>۔ خداوہ ہے کہ جوہرشے پٔراختیاروقدرت رکھتاہے ،وہ اپنی قدرتے بل بوتے پرسب سے قوی ہے ، وہ اپنے مخلوق پرصاحب قدرت ہے ،وہ بذات خودقوی ہے اوریہ قدرت اسے کسی عطانہیں ہے ،اس قدرت تمام پرمحکم وقائم ہے ،وہ جب چاہے کسی امرکاحکم دے سکتاہے اورجیسے ہی وہ کسی امرکافیصلہ کرتاہے اوراس کے ہونے ارادہ کرتاہے تووہ صرف “کُن ”یعنی ہوجاکہتاہے اوروہ چیزہوجاتی ہے۔
جب چوتھی مرتبہ “الله اکبر” کہتاہے توگویاوہ __________یہ کہتاہے: خداوندعالم حلیم وبردبارہے اوربڑا کرامت والاہے ،وہ ایسااس طرح مددوہمراہی کرتاہے کہ انسان کواس کی جبربھی نہیں ہوتی ہے اورنہ وہ دکھائی دیتاہے ،وہ عیوب اس طرح چھپاتاہے کہ انسان اپنے آپ کوبے گناہ محسوس کرتاہے ،وہ اپنے حلم وکرم اورصفاحت کی بناپرجلدی سے عذاب بھی نازل نہیں کرتاہے۔ ” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم مہربان ہے ،عطاوبخشش کرنے والاہے اورنہایت کریم ہے ۔
” الله اکبر”کے ایک معنی بھی ہیں کہ خداوندعالم جلیل ہے اور جن صفات کامالک ہے صفت بیان کرنے والے بھی اس موصوف کامل صفت بیان نہیں کرسکتے ہیں اوراس کی عظمت وجلالت کی قدرکوبھی بیان نہیں کرسکتے ہیں،خداوندعالم علووکبیرہے ،صفت بیان کرنے صفات کے بیان کرنے بھی اسے درک نہیں کرسکتے ہیں پس مو ذٔن “الله اکبر”کے ذریعہ یہ بیان کرتاہے :
الله اعلیٰ وجل ، وھوالغنی عن عبادہ ، لاحاجة بہ الی اعمال خلقہ خداوندعالم اعلیٰ واجلّ ہے،سب سے بلندوبرترہے ، وہ اپنے بندوں سے بے نیازہے ،وہ بندوں کی عبادت سے بے نیاز ہے ( وہ اس چیزکامحتاج نہیں ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں ،کوئی اس کی عبادت کرے وہ جب بھی خداہے اورکوئی اس کی نہ کرے وہ تب بھی خداہے ،ہماری عبادتوں سے اس کی خدائی میں کوئی زیادتی نہیں ہوسکتی ہے اورعبادت نہ کرنے سے اس کی خدائی میں کوئی کمی نہیں آسکتی ہے )۔
”اشھدان لا ا لٰہ اٰلاّالله“
جب پہلی مرتبہ اس کلمہ شہادت کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ پر وردگا ر کے یکتا ویگا نہ ہونے کی گواہی دل سے معرفت وشناخت کے ساتھ ہونی چا ہئے دوسرے الفاظ میں یہ کہاجائے کہ مو ذٔن یہ کہتاہے کہ: میں یہ جانتاہوں کہ خدا ئے عزوجل کے علاوہ کوئی بھی ذات لائق عبادت نہیں ہے اور الله تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی بھی چیزکومعبودومسجودکے درجہ دیناحرام اورباطل ہے اورمیں اپنی اس زبان سے اقرارکرتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اوراس چیزکی گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ میری کوئی پناگاہ نہیں ہے اورالله کے علاوہ کوئی بھی ذات ہمیں شریرکے شرسے اورفت نہ گرکے فت نہ سے نجات دینے والانہیں ہے ۔
جب دوسری مرتبہ “اشھدان لاالٰہ الاّالله”کہتاہے تواس کی معنی اورمرادیہ ہوتے ہیں : میں گواہی دیتاہوں کہ خدا کے علاوہ کو ئی ہدا یت کر نے والا موجود نہیں ہے اوراس کے کوئی راہنمانہیں ہے ،میں الله کوشاہدقراردیتاہوں کہ اس کے علاوہ میراکوئی معبودنہیں ہے ،میں گواہی دیتاہوں کہ تمام زمین وآسمان اورجت نے بھی ان انس وملک ان میں رہتے ہیں اوران میں تمام پہاڑ، درخت ،چوپایہ ،جانور،درندے ،اورتمام خشک وترچیزیں ان سب کاالله کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے ،اورالله کے علاوہ نہ کوئی رازق ہے اورنہ کوئی معبود،نہ کوئی نفع پہنچانے والاہے اورنہ نقصان پہنچانے والا،نہ کوئی قابض ہے نہ کوئی باسط،نہ کوئی معطی ہے اورنہ کوئی مانع ،نہ کوئی دافع ہے اورنہ کوئی ناصح ،نہ کوئی کافی ہے اورنہ کوئی شافی ،نہ کوئی مقدم ہے اورنہ کوئی مو خٔر،بس پروردگارہی صاحب امروخلق ہے اورتمام چیزوں کی بھلائی الله تبارک وتعالیٰ کے اختیارمیں ہے جودونوں جہاں کارب ہے ۔
” اشھدان محمدًا رسول الله“
جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان پرجاری کرتاہے تواس چیزکااعلان کرتاہے کہ :میں الله کوشاہدقراردیتاہوں گواہی دیتاہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اورحضرت محمد (صلی الله علیه و آله) اس کے بندے اور اس کے رسول وپیامبر ہیں اورصفی ونجیب خداہیں،کہ جنھیں الله تبارک وتعالیٰ نے تمام لوگوں کی ہدایت کے دنیامیں بھیجاہے ،انھیں دین حق دیاہے تاکہ اسے تمام ادیان پرآشکارکریں خواہ مشرکین اس دین کوپسندنہ کریں ،اورمیں زمین وآسمان میں تمام انبیاء ومرسلین ا ورتمام انس وملک کوشاہدقراردیتاہوں کہ میں یہ گواہی دے رہاہوں کہ حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)سیدالاولین والآخرین ہیں۔
جب مو ذٔن دوسری مرتبہ کلمہ“ اشھدان محمدًا رسول الله ” کوزبان جاری کرتاہے تووہ یہ کہتاہے کہ کسی کوکسی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سب کوالله کی ضرورت ہے، وہ خداکہ جوواحدو قہارہے اوراپنے کسی بندے بلکہ پوری مخلوق میں کسی کامحتاج نہیں ہے ،خداوہ ہے کہ جس نے لوگوں کے درمیان ان کی ہدایت اور تبلیغ وترویج دین اسلام کے لئے حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)بشیرونذیراورروشن چراغ بنا کر بھیجا ہے، اب تم میں جو شخص بھی حضرت محمد (صلی الله علیه و آله)اوران کی نبوت ورسالت کاانکا ر کرے اور آنحضرتپرنازل کتاب (قرآن مجید) پر ایمان نہ لائے توخدا ئے عزّوجل اسے ہمیشہ کے لئے واصل جہنم کردے گا اور وہ ہرگزناراپنے آپ کونارجہنم سے نجات دلاسکے
”حیّ علیْ الصلا ة“
جب پہلی مرتبہ اس کلمہ کوزبان کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو! اٹھو اور بہتر ین عمل (نماز) کی طرف دوڈو اور اپنے پرور دگا ر کی دعوت کو قبول کرو اور اپنی نجش کی خاطراپنے رب کی بارگاہ میں جلدی پہنچو،اے لوگو! اٹھواور وہ آگ جوتم نے گناہوں کو انجام دینے کی وجہ سے اپنے پیچھے لگائی ہے اسے نماز کے ذریعہ خاموش کرو،اوراپنے آپ کوگناہوں سے جلدی آزادکراؤ، صرف خداوندعالم تمھیں برائیوں سے پاک کر سکتاہے ،وہی تمھارے گناہوں کومعاف کرسکتاہے ،وہی تمھاری برائیوں کونیکیوں سے بدل سکتاہے کیونکہ وہ بادشاہ کریم ہے ،صاحب فضل وعظیم ہے ۔
جب دوسری مرتبہ “ حیّ علیْ الصلا ة ” کہتاہے تواس کے یہ معنی ہوتے ہیں:اے لوگو!اپنے رب سے مناجات کے لئے اٹھواوراپنی حاجتوں کواپنے رب کی بارگاہ میں بیان کرو،اپنی باتوں کواس تک پہنچاؤاوراس سے شفاعت طلب کرو،اس کاکثرت سے ذکرکرو،دعائیں مانگواورخضوع وخشوع کے ساتھ رکوع وسجودکرو۔
”حیّ علیْ الفلاح“
جب مو ذٔن پہلی مرتبہ اس کلمہ کوکہتاہے تووہ لوگوں سے یہ کہتا ہے : اے الله کے بندو !راہ بقا کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راستے میں فنانہیں ہے اوراے لوگو!راہ نجات کی طرف آجاؤ کیونکہ اس راہ میں کوئی ہلا کت وگمرا ہی نہیں ہے ،اے لوگو!راہ زندگانی کی طرف آنے میں جلدی کروکیونکہ اس راہ میں کوئی موت نہیں ہے، اے لوگو! صاحب نعمت کے پاس آجاؤکیونکہ اس کی نعمت ختم ہونے والی نہیں ہے ،اس بادشاہ کے پاس آجاؤکہ جس کی حکومت ابدی ہے جوکبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے ،خوشحالی کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی رنج وغم نہیں ہے ،نورکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی تاریکی نہیں ہے ،بے نیازکی طرف آؤکہ جس کے ساتھ فقرنہیں ہے ،صحت کی طرف آؤکہ جس کے ساتھ کوئی مریضی نہیں ہے ،قوت کے پاس آؤکہ جس کے ساتھ کوئی ضعف نہیں ہے اوردنیاوآخرت کی خوشحالی کی طرف قدم بڑھاؤاورنجات آخرت کاسامان کرو۔
جب دوسری “حیّ علیْ الفلاح ”کہتاہے تواس کی مرادیہ ہوتی ہے :اے لوگو!آؤاوراپنے آپ کو خدا سے قریب کرو اورجس چیزکی تمھیں دعوت دی گئی ہے اس کی طرف چلنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو اور فلاح ورستگاری کے ساتھ حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)(اورائمہ اطہار )کے قرب وجوارجگہ حاصل کرو ۔
”الله اکبر“
جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں پہلی مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ یہ جملہ کہہ کر اس بات کا اعلا ن کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہبلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اس بندے کے لئے کیاکیانعمت وکرامتیں ہیں جو اس کی دعوت پرلبیک کہتاہے ،اس کی پیروی کرتاہے،اس کے ہرامرکی اطاعت کرتاہے ،اس کی معرفت پیداکرتاہے ،اس کی بندگی کرتاہے ،اس کا ذکرکرتاہے ،اس سے انس ومحبت کرتاہے ،اسے اپنی پناگاہ قراردیتاہے ،اس پراطمینان کامل رکھتاہے ،اپنے دل میں اس کاخوف پیداکرتاہے اوراس کی مرضی پرراضی رہتاہے تو خدا ومتعال اس پراپنا رحم وکرم نازل کرتا ہے۔ جب مو ذٔن اذان کے آخرمیں دوسری مرتبہ “ الله اکبر ” کہتاہے تووہ اس کلمہ کے ذریعہ اس بات کااعلان کرتا ہے کہ ذا ت پروردگار اس سے کہیںزیادہ بلند وبرتر ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی یہ جانے اس کے پاس اپنے اپنے اولیاء اوردوستوں کے لئے کس مقدارمیں کرامتیں موجودہیں اور اپنے دشمنوں کے لئے اس کے پاس کت ناعذاب وعقوبت ہے ،جواس کی اس کے رسول کی دعوت پرلبیک کہتاہے اورحکم خداورسول کی اطاعت کرتاہے ان کے لئے اس کی عفووبخشش کت نی ہے اورکت نی نعمتیں ہیں اورشخص اس کے اوراس کے رسول کے حکم کوماننے سے انکارکرتاہے اس کے لئے کت نابڑاعذاب ہے ۔
” لَااِلٰہ اِلّاالله“
جب مو ذٔن “ لَااِلٰہ اِلّاالله ” کہتاہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں:خدا وند عالم لوگو ں کے لئے رسول ورسالت اوردعوت وبیان کے ذریعہ ایک دلیل قاطع ہے کیونکہ اسنے لوگوں کی ہدایت کے لئے رسول ورسالت کابہترین انتظام کیاہے ،پس جواس کی دعوت پرلبیک کہتاہے اس کے لئے نوروکرامت ہے اورجوانکارکرتاہے چونکہ خداوندعالم دوجہاں سے بے نیازہے لہٰذااس کاحساب کرنے میں بہت جلدی کرتاہے ۔
”قدقامت الصلاة“
جب بندہ نمازکے لئے اقامت کہتاہے اوراس میں “ قدقامت الصلاة ”کہتاہے تواس کے یہ معنی ہیں:
حان وقت الزیارة والمناجاة ، وقضاء الحوائج ، ودرک المنی والوصول الی الله عزوجل والی کرامة وغفرانہ وعفوہ ورضوانہ
یعنی پروردگارسے مناجاتاوراس سے ملاقات کرنے ،حاجتوں کے پوراہونے ،آرزو ںٔ کے پہنچنے ،بخشش،کرامت ،خوشنودی حاصل کرنے کاوقت پہنچ گیاہے ۔ شیخ صدوق اس روایت کے بعدلکھتے ہیں: اس حدیث کے راوی نے تقیہّ میں رہنے کی وجہ سے جملہ “حیّ علیٰ خیرالعمل” کا ذکر نہیں کیا ہے کہ حضرت علینے اس جملہ کیاتفسیرکی ہے لیکن اس جملہ کے بارے میں دوسری حدیثوں میں آیاہے: روی فی خبرآخر:انّ الصادق علیہ االسلام عن “حی علی خیرالعمل” فقال:خیرالعمل الولایة، وفی خبرآخرخیرالعمل بر فاطمة وولدہا علیہم السلام. روایت میں آیا ہے کہ حضرت امام صادق سے“حیّ علیٰ خیرالعمل”کے بارے میں سوال کیا گیا ، حضرت نے فرمایا : “حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی ولایت اہل بیت ۔ اور دوسری روایت میں لکھا ہے :“حیّ علیٰ خیرالعمل”یعنی حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے فرزندں کی نیکیوںطرف آؤ۔
--------
. نوحید(شیخ صدوق)/ ص ٢٣٨ .۔معانی لاخبار /ص ۴١ ۔بحارالانوار/. ٨١ /ص ١٣١
عن محمدبن مروان عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:ا تٔدری ماتفسیر“حی علی خیرالعمل” قال:قلت لا، قال:دعاک الی البر، ا تٔدری برّمن؟قلت لا، قال:دعاک الی برّفاطمة وولدہا علیہم السلام.
محمدابن مروان سے مروی ہے کہ امام محمدباقر نے مجھ سے فرمایا:کیاتم جانتے ہوکہ “حی علی خیرالعمل ”کے کیامعنی ہیں؟میں نے عرض کیا:نہیں اے فرزندرسول خدا،آپ نے فرمایا: مو ذٔن تمھیں خیرونیکی کی طرف دعوت دیتاہے ،کیاتم جانتے ہووہ خیرنیکی کیاہے؟میں نے عرض کیا: نہیں اے فرزندرسول خدا ، توامام (علیه السلام) نے فرمایا:وہ تمھیں حضرت فاطمہ زہرا اوران کی اولاداطہار کے ساتھ خیرونیکی کاحکم دیتاہے۔
. علل الشرائع/ج ٢/ص ٣۶٨

بلال کومو ذٔن قراردینے کی وجہ
اذان واقامت میں شرط یہ ہے کہ مو ذٔن وقت شناس ہواورنمازکاوقت شروع ہونے کے بعداذان واقامت کہے ،وقت داخل ہونے سے پہلے کہی جانے والی اذان واقامت کافی نہیں ہے، اگروقت سے پہلے کہہ بھی دی جائے تووقت پہنچنے کے بعددوبارہ کہاجائے ،بلال وقت شناس تھے ،اورکبھی وقت سے پہلے اذان نہیں کہتے تھے اورنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)بلال کی اذان وآوازکودوست رکھے اسی لئے بلال کوحکم دیاکرتے تھے اورکہتے تھے: اے بلال!جیسے نمازکاوقت شروع ہوجائے تو مسجدکی دیوارپرجاؤاوربلندآوازسے اذان کہو۔
ایک اورروایت میں آیاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس دومو ذٔن تھے ایک بلال اوردوسرے ابن ام مکتوم ،ابن ام مکتوم نابیناتھے جوصبح ہونے سے پہلے ہی اذان کہہ دیاکرتے تھے اورحضرت بلال طلوع فجرکے وقت اذان کہاکرتے تھے ،نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:
ان ابن مکتوم یو ذٔن بلیل، اذاسمعتم اذانہ فکلواواشربواحتی تسمعوااذان بلال. ابن مکتوم رات میں اذان کہتے ہیں لہٰذاجب تم ان کی اذان سنو تو کھانا پینا کیا کرو یہاں تک کہ تمھیں بلال کی اذان کی آوازآئے (لیکن اہل سنت نے پیغمبر کی اس حدیث کوپلٹ دیاہے __________اورکہتے ہیں کہ بلال رات میں اذان دیاکرتے تھے،اورکہتے ہیں:نبی نے فرمایاہے کہ: جب بلال کی اذان سنوتوکھاناپیناکرو) ۔
. من لایجضرہ الفقیہ/ج ١/ص/ ٢٩٧

مو ذٔن کے مرد،مسلمان اورعاقل ہونے کی وجہ
اذان واقامت کہنے والے کامردہوناچاہئے اورکسی عورت کااذان واقامت کہناصحیح نہیں ہے کیونکہ مردوں کاعورت کی اذان واقامت پراکتفاکرناصحیح نہیں ہے لیکن عورت کاعورتوں کی جماعت کے لئے اذان واقامت ذان جماعت کہناصحیح اورکافی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اذان واقامت کہنے والی عورت آوازات نی بلندرہے کہ اس کی آوازمردوں کے کانوں تک نہ پہنچے کیونکہ عورتوں کواپنی آوازکوبھی پرودہ میں رکھناچاہئے اسی لئے عورت عورت کوچاہئے کہ جہری نمازوں اگرنامحرم آوازکوسن رہاہوتوآہستہ پڑھے جیساکہ ہم رازجہرواخفات میں ذکرکریں گے۔
زاراہ سے مروی ہے کہ میں نے امام باقر سے پوچھا:کیاعورتوں کوبھی اذان کہناچاہئے ) ؟امام(علیه السلام) (علیه السلام)نے فرمایا:ان کے لئے شہادتین کہناہی کافی ہے ۔( ١ قال الصادق علیہ السلام:لیسعلی النساء ا ذٔان ولااقامة ولاجمعة ولاجماعة. امام صادق فرماتے ہیں:عورتوں کے لئے نہ اذان ہے نہ اقامت ،اورنہ جمعہ ہے نہ جماعت۔
--------
. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٩٨ ) . ١(تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ۵٨ (
مو ذٔن کے لئے ضروری ہے کہ عاقل وباایمان ہواگرکوئی مجنون یاغیرمومن اذان یااقامت کہے تووہ قبول نہیں ہے کیونکہ قلم تکلیف اٹھالیاگیاہے البتہ مو ذٔن کابالغ ہوناشرط نہیں ہے بلکہ نابالغ بچہ کی اذان واقامت صحیح ہے جبکہ وہ بچہ ممیزہو۔

اذان کے کلمات کی تکرارکرنے کومستحب قراردئے جانے کی وجہ
جولوگ اذان کی آوازکوسن رہے ہیں ان کے لئے مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہہ رہاہوتو اس وقت خاموش رہیں اور اذان کے کلمات کوغورسے سنیں اورمو ذٔن کی زبان سے اداہونے والے کلموں کی تکرارکریں،یہاں تک اگرانسان بیت الخلامیں بھی اذان کی آوازسنے تواس کی تکرارکرے
قال ابوعبدالله علیہ السلام :ان سمعت الاذان وانت علی الخلاء فقل مثل مایقول المو ذٔن ولاتدع ذکراالله عزوجل فی تلک الحال.
امام صادق فرماتے ہیں:اگرتم بیت الخلامیں ہواوراذان کی آوازسنوتومو ذٔن کے کلمات کی تکرارکرواوراس حال میں ذکرخداسے غفلت نہ کرو۔
. علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨۴
سلیمان ابن مقبل مدائنی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام موسی کاظمسے پوچھا: حدیث میں آیاہے :مستحب ہے کہ جب مو ذٔن اذان کہے تو اذان سننے والا اذان کے کلموں کی تکرارکرے خواہ اذان کوسننے والابیت الخلامیں ہی کیوں نہ بیٹھاہو ،اس کے مستحب ہونے کی کیاوجہ ہے ؟امام (علیه السلام)نے فرمایا:
انّ ذلک یزیدفی الرزق
) کیونکہ اذان کے کلموں کی حکایت اورتکرارکرنے سے رزق وروزی میں اضافہ ہوتاہے ۔( ٣ . ٢ (من لایحضرہ الفقیہ/ج ٣/باب الاذان والاقامة. ( ٣)بحارالانوار/ج ٨۴ /ص ١٧۴ ( ایک شخص حضرت امام جعفرصادق کی خدمت میں آیاکہا:اے میرے مولامیں بہت ہی غریب ہوں اپ مجھے کوئی ایساچیز بتائیں کہ جس سے میری یہ فقیری ختم ہوجائے ،امام (علیه السلام)نے اس فرمایا :
ا ذِّٔنْ کُلّماسمعت الاذان کمایو ذّٔن المو ذّٔن۔ جب بھی تم اذان کی آوازسنوتو اسے مو ذٔن کی طرح تکرارکرو۔
. مکارم الاخلاق /ص ٣۴٨

اذان واقامت کانقطہ آٔغاز
اذان واقامت کہ جس کی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائد اوراس کے احکام کے متعلق آپ نے ات نی زیادہ نے ملاحظہ فرمائیں ان چیزوں سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اس نقطہ آٔغازوحی الٰہی ہے ،تمام علماء وفقہائے شیعہ اثناعشری کااس بات اتفاق وعقیدہ ہے کہ دین اسلام میں اذان واقامت کاآغازوحی الٰہی کے ذریعہ ہواہے کیونکہ ہمارے پاس کے بارے میں معتبرروایتیں موجودہیں جواس چیزکوبیان کرتی ہیں کہ اذان اقامت کاآغازاورمشروعیت وحی کے ذریعہ ہوئی ہے لیکن علمائے اہل سنت اکثریت اس بات پرعقیدہ رکھتی ہے کہ اذان واقامت کاعبدالله ابن زیدکے خواب کے ذریعہ ہواہے جسے حدیث رو یٔاکانام دیاگیاہے اورکہتے ہیں کہ اذان واقامت کے متعلق الله کی طرف کوئی نازل نہیں ہوئی ہے۔
وہ احادیث جووحی کواذان واقامت کے نقطہ آغازقراردیتی ہیں: عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:لما اسری برسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم الی السماء فبلغ البیت المعموروحضرت الصلاة فاذّن جبرئیل علیہ السلام واقام فتقدم صلی الله علیہ ) وآلہ وسلم وصف الملائکة والنبیون خلف محمدصلی الله علیہ وآلہ وسلم۔( ٢ حضرت امام باقرفرماتے ہیں:جب شب معراج پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کو آسمان کی سیرکرائی گئی اوربیت المعمورمیں پہنچے ،جب وہاں نمازکاوقت پہنچاتوالله کی طرف سے جبرئیل امین (علیه السلام)نازل ہوئے اوراذان واقامت کہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کے لئے آگے کھڑے ہوئے اورانبیاء وملائکہ نے حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیه و آله)کے پیچھے صف میں کھڑ ے ہوکرجماعت سے نمازپڑھی ۔ ٢(کافی (باب بدء الاذان والاقامة)۔ من لایحضرہ الفقیہ(باب الاذان الاقامة) (
--------
۔استبصار/ج ١(عدد فصول الاذان والاقامة)/ص ٣٠۵ ۔ تہذیب /ج ١(باب عددفصول الاذان . والاقامة)/ص ۶٠
زرارہ اورفضیل ابن یسارنے امام محمدباقر سے روایت کی ہے جسمیں آپ فرماتے ہیں: جب شب معراج نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کو آسمان کی سیرکرائی گئی اوربیت المعمورمیں پہنچے اورنمازکاوقت پہنچاتوالله کی طرف سے جبرئیل امین (علیه السلام)نازل ہوئے اوراذان واقامت کہی ،رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)نمازجماعت کے لئے آگے کھڑے ہوئے اورانبیاء وملائکہ نے آنحضرتکے پیچھے جماعت سے نمازپڑھی ،ہم نے امام باقر سے پوچھا:جبرئیل نے کس طرح اذان واقامت کہی؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا:اس طرح سے: الله اکبر،الله اکبر،ا شٔہدان لاالہ الّاالله ،ا شٔہدان لاالہ الّاالله ، اشہدانّ محمدارسول الله ، اشہدانّ محمدارسول الله ،حیّ علی الصلاح، حیّ علی الصلاح،حیّ علی الفلاح،حیّ علی الفلاح،حیّ علی خیرالعمل ،حیّ علی خیرالعمل ، الله اکبر،الله اکبر،لاالہ الّاالله،لاالہ الّاالله۔ اوراقامت بھی اذان کی طرح کہی بس ات نے فرق کے ساتھ کہ“حیّ علی خیرالعمل” اور“الله اکبر”کے درمیان “ قدقامت الصلاة ،قدقامت الصلاة ” کہا۔ امام صادق فرماتے ہیں کہ:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے بلال / کو اذان کی تعلیم دی اور پیغمبرکے زمانہ میں اسی طرح اذان ہوتی رہی یہاں تک کہ آنحضرت اس دنیاسے ) رخصت ہوگئے ۔( ١
. ١(استبصار/ج ١/ص ٣٠۵ . ۔ تہذیب /ج ١/ص ۶٠ (
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:لماہبط جبرئیل علیہ السلام بالاذان علیٰ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کان راسہ فی حجرعلی علیہ السلام فاذن جبرئیل واقام فلما انبتہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال:یاعلی سمعت ؟قال:نعم ،قال حفظت ؟قال:نعم ) ،قال:ادع لی بلالاًنعلمہ فدعاعلی علیہ السلام بلالاًفعلمہ۔( ١
امام صادق فرماتے ہیں:جس وقت جبرئیل اذان لے کر نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)پرنازل ہوئے تواس وقت آنحضرت (کعبہ کے سایہ میں)امام علی (علیه السلام)کے زانوئے اقدس پرسر پررکھے ہوئے آرام کررہے تھے ،جبرئیلنے اذان واقامت کہی ،جیسے رسول الله (صلی الله علیه و آله)بیدارہوئے اورکہا:یاعلی(علیه السلام)!جبرئیل نے جوکچھ مجھ سے کہاکیاوہ سب کچھ تم نے بھی سناہے؟حضرت علینے جواب دیا:جی ہاں،آنحضرت نے کہا:کیااسے حفظ کیا؟ فرمایا:جی ہاں،اس کے بعدآنحضرت نے کہا:اے علی (علیه السلام)!بلال کوبلاؤاورانھیں اس کی تعلیم دو،امام علی نے بلال کوبلایااورانھیں اذان کی تعلیم دی۔ وہ اذان واقامت جوجبرئیل نے شب معراج کہی تھی خودنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے لئے کہی تھی لیکن جب دوسری مرتبہ اذان واقامت لے کرنازل ہوئے تووہ لوگوں تک پہچانے اوراسے شرعی قراردینے کے لئے لے کرنازل ہوئے ۔
١(کافی (باب بدء الاذان والاقامة)ج ٣/ص ٣٠٢ ۔من لایحضرہ الفقیہ(باب الاذان (
. والاقامة)/ج ١/ص ٢٨١

احادیث اہل سنت
علمائے اہل سنت والجماعت کی کتابوں میں ایسی احادیث موجودہیں جواس بات کوبیان کرتی ہیں کہ اذان واقامت کاآغازوحی پروردگارکے ذریعہ ہواہے اورحدیث رؤیاکوباطل اوربے بنیادقراردیتی ہیں
شہاب الدین ابن حجرعسقلانی “فتح الباری ”میں لکھتے ہیں: انّ الاذان شرع بمکة قبل الہجرة
ہجرت سے پہلے مکہ میں اذان کا شرعی طورسے حکم نازل ہوچکاتھاکیونکہ طبرانی نے سالم ابن عبدالله ابن عمرنے اپنے والدسے یہ روایت نقل کی ہے: لما اسری بالنبی صلی الله علیہ وسلم اوحی الله الیہ الاذان فنزل بہ فعلمہ بلالا. جسوقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)معراج پرگئے تو خداوندعالم نے ان پروحی کے ) ذریعہ اذان نازل کی اورآنحضرت (زمین پر)اذان لے کرنازل ہوئے اوراس کی بلال کوتعلیم دی ۔( ١ ) عن انس :انّ جبرئیل اَمَرَالنّبی صلّی الله علیہ وسلم بِالاذانِ حین فُرِضَتْ الصّلاةُ.( ٢ انس سے مروی ہے:جب نمازواجب ہوئی توجبرئیل نے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کواذان کاحکم دیا۔
--------
. ٢)فتح الباری شرح بخاری /ج ٢//ص ۶٢ ) . ١(فتح الباری شرح بخاری /ج ٢//ص ۶٢ (
) عن عائشة:لما اُسری بی اذّن جبرئیل فظنّت الملائکة انّہ یصلّی بہم فقدّمَنِی فَصَلّیْتُ.( ٣ عائشہ سے روایت ہے کہ:نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایاہے :جب مجھے معراج پرلے جایاگیاتووہاں جبرئیل (علیه السلام)نے نمازکے لئے اذان کہی توملائکہ نے گمان کیاکہ پیغمبر ہمارے ساتھ نمازپڑھناچاہتے ہیں لیکن انھوں نے مجھے آگے کیا،پھرمیں نے نمازپڑھی ۔
--------
. ٣(فتح الباری ابن حجرعسقلانی/ج ٢//ص ۶٢ ۔درّ منثور(جلال الدین سوطی)/ج ۴/ص ١۵۴ (
بزازنے علیسے روایت کی ہے:جب خداوندعالم نے اپنے رسول کواذان کی تعلیم دینے کاارادہ کیاتوجبرئیل نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے لئے ایک براق نامی سواری لے کرآئے اور آنحضرت اس پرسوارہوئے اورجیسے ہی اس حجاب تک پہنچے کہ جوخدائے رحمن سے ملاہواتھا،ایک فرشتہ اس پردہ سے باہرآیااوراس نے “الله اکبر،الله اکبر”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی سب سے بڑاہوں ، میں ہی سب سے بڑاہوں اس کے بعدملک نے “اشہدان لاالہ الاالله”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی معبودبرحق ہوں اورمیرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے اس کے بعدملک نے“اشہدان محمدارسول الله ”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں نے محمد کورسول بناکربھیجاہے اس کے بعدملک نے “حی الصلاح ، حی علی الفلاح ، قدقامت الصلاة” کہااوراس کے بعد“الله اکبر،الله اکبر”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی: میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی سب سے بڑاہوں ، میں ہی سب سے بڑاہوں،اس کے بعدملک نے “ لاالہ الاالله”کہاتوپردے کے پیچھے سے آوازآئی:میرابندہ صحیح کہتاہے ،میں ہی معبودبرحق ہوں اورمیرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے۔
اس کے بعداس فرشتے نے آنحضرت کاہاتھ پکڑا اور آگے بڑھایااورتمام اہل آسمان نے کہ ) جن میں ادم ونوح بھی تھے آپ کی امامت میں نمازجماعت اداکی ۔( ۴
--------
. ۴(ینابیع المودة /ج ١/ص ۶۶ ۔درمنثور/ج ۴/ص ١۵۴ (
سفیان اللیل سے مروی ہے کہ:جب امام حسن (اورمعاویہ کے درمیان صلح)کاواقعہ رونماہوا، میں اسی موقع مدینہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوا،اس وقت آپ کے اصحاب بھی بیٹھے ہوئے تھے ، کافی دیرتک آپ(علیه السلام) سے باتیں ہوتی رہیں، راوی کہتاہے :ہم نے ان کے حضورمیں اذان کے بارے میں گفتگوچھیڑدی توہم سے میں سے بعض لوگوں نے کہا:اذان کاآغاز عبدالله ابن زیدابن عاصم کے خواب کے ذریعہ ہواہے تو حسن ابن علی (علیه السلام)نے ان سے فرمایا:
اذان کامرتبہ اس سے کہیںزیادہ بلندبرترہے ،جبرئیل (علیه السلام)نے (شب معراج)آسمان میں دومرتبہ اذان کہی اوراسے نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کوتعلیم دی ) اورایک مرتبہ اقامت کہی اوراسکی بھی رسول خدا (صلی الله علیه و آله)کو تعلیم دی ۔ ( ١
. ١(المستدرک (حاکم نیشاپوری)/ج ٣/ص ١٧١ (
”درمنثور”اور“کنزالعمال ”میں حضرت علی سے یہ روایت نقل کی گئی ہے ) انّ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم عُلّم الاذان لیلة اُسْرِیَ بِہِ وَفُرِضَتْ علیہ الصّلاةُ.( ١ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کومعراج کی شب اذان کی تعلیم دی گئی اورآپ پرنمازواجب کی گئی۔
. ١(کنزالعمال/ج ١٢ /ص ٣۵٠ /ح ٣۵٣۵۴ ۔درمنثور/ج ۴/ص ١۵۴ (
ابوالعلاء سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ:میں نے محمدابن حنفیہ سے کہا:ہم لوگ کہتے ہیں کہ اذان کاآغازایک انصاری کے خواب کے ذریعہ ہواہے یہ بات سنتے ہی محمدابن حنفیہ نے ایک شدیدچیخ مارکرکہا: کیاتم لوگوں نے شریعت اسلام کے اصولوں میں ایک اصل اوراپنے دین کی علامتوں میں سے ایک علامت کوہدف قراردیاہے اوریہ گمان کرتے ہوکہ یہ ایک انصاری کے خواب سے ہواہے جواس نے اپنی نیندمیں دیکھاہے جبکہ خواب میں سچ اورجھوٹ دونوں کاامکان پایاجاتاہے ،کبھی باطل خیالات بھی ہوسکتے ہیں،میں نے محمدابن حنفیہ سے کہا:یہ حدیث تولوگوں کے درمیان عام اورمشہورہے ،انھوں نے جواب دیا:خداکی قسم یہ عقیدہ بالکل باطل ہے ) ۔( ٢
ا ہل سنت کی ان مذکورہ احادیث اس بات کوثابت کرتی ہیں کہ دین اسلام میں نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی ہجرت سے کئی سال پہلے مکہ میں شب معراج وحی کے ذریعہ اذان کاآغاز ہوچکا تھا اور عبدالله ابن زیدکے خواب کاواقعہ جونقل کیاجاتاہے وہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے مدینہ ہجرت کرنے کے کافی عرصہ بعدکاواقعہ ہے ۔
. ٢(السیرة الحلبیہ /ج ٢/ص ٣٠٠ ،منقول ازکتاب الاعتصام /ص ٢٩ (

حدیث رؤیا
اکثرعلمائے اہل سنت کہتے ہیں کہ اذان واقاامت کاآغازعالم رؤیامیں ہواہے اوراذان واقامت کے متعلق الله کی طرف سے کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ اذان اقامت کاآغازعبدالله ابن زیدکے خواب سے ہواہے جسے حدیث رو یٔاکانام دیاگیاہے اورعمرابن خطاب نے اس کے خواب کی تائیدکی ہے اوروہ حدیث رؤیایہ ہے:
عبدالله ابن زیدسے روایت ہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ناقوس بنانے کاحکم دیاتاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کونمازکے لئے جمع کیاجائے ،میں اس وقت سورہاتھاتومیں نے خواب میں دیکھاکہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے میرے گردگھوم رہاہے ،میں نے اس سے کہا:اے الله کے بندے! کیایہ ناقوس بیچناپسندکروگے؟اس نے کہا:تم اس کا کیاکروگے ؟میں نے کہا:اس کے ذریعہ لوگوں کونمازکے لئے بلاؤں گا،اس نے کہا:کیاتم نہیں چاہتے ہوکہ میں تمھیں ناقوس سے بہترچیزکی راہنمائی کروں؟ میں نے کہا:ہاں!اس نے کہا:لوگوں کونمازکے لئے جمع کرنے کے لئے اس طرح کہو الله اکبر،الله اکبر،الله اکبر،الله اکبر،اشہدان لاالہ الاالله،اشہدان محمدارسول الله،حی علی الصلاح ،حی علی الصلاح ،حی علی الفلاح ،حی علی الفلاح ، الله اکبر،الله اکبر،لاالہ الاالله۔ عبدالله ابن زیدکا کہناہے کہ جب وہ شخص میرے پاس سے جانے لگاتوکچھ دورچل کربولا: اورجب تم نمازکے لئے کھڑے ہوجاؤ تواس طرح اقامت کہو: الله اکبرالله اکبر،اشہدان لاالہ الاالله،اشہدان محمدارسول الله،حی علی الصلاح حی علی الفلاح ،قدقامت الصلاة قدقامت الصلاة ،الله اکبرالله اکبر،لاالہ الاالله . عبدالله ابن زیدکہتاہے کہ میں صبح ہوتے ہی نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی خدمت میں پہنچااورجوکچھ خواب میں دیکھاتھا آنحضرت کے حضورمیں بیان کردیا۔ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے فرمایا:انشاء الله تعالیٰ تیرایہ خواب سچاہے لہٰذابلال کے ساتھ کھڑے ہوجاؤاورجوکچھ خواب میں دیکھاہے وہ سب بلال کویادکراؤتاکہ وہ اسی طرح اذان کہاکریں کیونکہ بلال کی آوازتم سے بہت اچھی ہے لہٰذامیں بلال کے ساتھ کھڑاہوااورانھیں اذان کی تعلیم دی اوربلال نے اذان شروع کی۔ عبدالله ابن زیدکہتاہے کہ:جب بلال نے اس طرح اذان کہی اورعمرابن خطاب جواس وقت اپنے گھرمیں تھے اذان کی آوازسنی توفوراًگھرسے باہرنکلے اورحالت یہ تھی کہ عباء مین پرگھسٹ رہی تھی ،تیزی کے ساتھ دوڈے ہوئے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے پاس آئے اوربولے :یارسول الله!قسم اس ذات کی جس نے آپ کوپیغمبری پرمبعوث کیاہے میں نے بھی اسی کی طرح خواب دیکھاہے جیسے اس نے دیکھاہے ۔
. ١(سنن ابی داؤد،کتاب الصلاة،باب کیف الاذان،رقم ۴٩٩ /ص ١٢٠ (

حدیث رؤیاکے بارے میں شیعوں کانظریہ
جیساکہ پہلے ذکرکرچکے ہیں تمام علمائے شیعہ کااس بات پراتفاق ہے کہ اذان واقامت کاآغازوحی پروردگارکے ذریعہ ہے ،پس وحی کے علاوہ کسی چیزکے ذریعہ اذان واقامت کانقطہ آغازقراردیناباطل اوربے بنیادہے ،اس بارے میں چندنکات ذکرہیں:
١۔غوروفکرکی بات ہے کہ جب الله تبارک وتعالی نے اپنے حبیب کونماز،روزہ ،حج ،زکات …اوران کے احکامات کی تعلیم دی ہے ،توکیااس نے پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)کولوگوں کونمازکی طرف دینے اوراس کے وقت پہنچنے کی اطلاع دینے کے لئے جبرئیل امین کسی چیزکوبیان نہیں کیاہوگاکہ اس طرح سے لوگوں کووقت نمازپہنچنے کی اطلاع دیاکرو۔
٢۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)دومرتبہ اذان واقامت ک تعلیم دی گئی تھی ایک مرتبہ اس وقت کہ جب آپ معراج پرگئے تووہاں جبرئیل نے اذان اقامت کہی اورملائکہ وانبیائے الٰہی نے آپ کے پیچھے نمازاداکی اوردوسری مرتبہ اس وقت زمین پرلے کر نازل ہوئے جب آنحضرت مولائے کائنات کے زانوئے وبارک سررکھے ہوئے آرام کررہے تھے توجبرئیل وحی لے کرنازل ہوئے اورفرمایاکہ نمازسے پہلے اس طرح اذان واقامت کہاکرپس عبدالله ابن زیدکے خواب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
٣۔اگراذان واقامت کی اہمیت اوراس کے فضائل وفوائد کے بارے ہم نے جوروایتیں نقل کی ہیں ان سب چیزوں یہ واضح ہوتاہے کہ اذان کوالله تبارک تعالیٰ کی جانب سے مشروعیت دیاگیاہے ورنہ اسکی دین اسلام میں ات نی زیادہ اہمیت نہ ہوتی ۔
۴۔ابن عقیل نے اجماع نے دعوی کیاہے: اجتمعت الشیعة علی ان الصادق علیہ السلام لعن قومارعموا،انّ النبی صلی الله علیہ وآلہ اخذالاذان من عبدالله بن زید فقال(علیہ السلام):ینزل الوحی علی نبیکم ، فتزعمون انہ اخذالااذان من عبدالله ابن زید دین اسلام میں وحی الٰہی کونقطہ آغاز اذان قراردیناضروریات مذہب شیعہ ہے اورعلمائے شیعہ کااجماع ہے کہ امام صادق نے اس جماعت پرلعنت کی ہے کہ جویہ گمان کرتے ہیں کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اذان کوعبدالله ابن زیدکے خواب سے اخذکیاہے اوریہ رسول پرایک تہمت وبہتان ہے بلکہ اذان کووحی پروردگارسے اخذکیاگیاہے جیساکہ امام صادق فرماتے ہیں:
۵۔نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کہ جنھوں نے جودین اسلام کی بنیادرکھی اورلوگوں نمازوحکمت کی تعلیم دی ،کیاآپ نے دین اسلام میں کسی چیزکووحی پروردگارکے علاوہ رائج کیاہے
۶۔جولوگ عبدالله ابن زیدکے خواب کواذان کی ابتداقرادیتے ہیں اس کی بنیادی وہ یہ ہے کیونکہ ایک صاحب __________نے اس کے خواب تائید کی تھی اس لئے تاکہ دین اسلام میں پیغمبرکے ساتھ ان کانام بھی روشن رہے اس لئے ایک حدیث کوجعل کرلیاگیا۔
٧۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جوشخص معیارآدمیت ہو،ذمہ دارشریعت ہو،افضل المرسلین ہو، وحی کے بغیرکوئی کلام ہی نہ کرتاہواورالله تبارک وتعالیٰ کامحبوترین بندہ ہواس پراذان واقامت کے متعلق الله کی طرف سے وحی نازل نہ ہواورحتی خواب میں بھی نہ دکھے اوران کے بعض صحابہ اذان کے کلمات کوخواب حاصل کرلیں اورانھیں یادرہیں کہ ہم نے خواب میں یہ اوریہ کلمات دیکھے ہیں؟

حدیث رؤیاکے بارے میں بعض اہل سنت کانظریہ
اہل سنت کی کتابوں سے وہ احادیث جوہم نے “اذان واقامت کے نقطہ آغاز”کے عنوان میں ذکرکی ہیں ان میں بعض احادیث میں عبدالله ابن زیدکے خواب کوغلط قرادیاگیاہے حدیث رؤیاکے بارے میں سرخی اپنی کتاب“المبسوط”میں لکھتے ہیں: ابوحفص عالم خواب میں اذان کے آغازہونے سے انکارکرتے تھے اورکہتے تھے کہ:تم لوگوں نے معالم اورشعائراسلامی میں سے ایک پراعتمادکرتے ہواورکہتے ہوکہ وہ رؤیاکے ذریعہ ثابت ہواہے لیکن ایساہرگزنہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کومعراج ہوئی اورآپ کو مسجدالاقصیٰ لے جایاگیااورانبیاء کوجمع کیاگیاتوایک فرشتہ نے اذان واقامت کہی اورپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان کے ساتھ اداکی اورکہاجاتاہے کہ جبرئیل اذان لے کرنازل ہوئے تھے ۔
. المبسوط/ج ١/ص ١٢٨
حدیث رویامیں جن راویوں کے ذکرکئے گئے ہیں ان کے بارے میں کتب اہل سنت سے ایک مختصرساجائزہ ذکرہے:
حدیث رو یٔاکے راویوں میں محمدابن اسحاق کاذکرکیاگیاہے ،جس کی سندکے بارے میں دارقطنی کہتے ہیں:
”اختلف الآئمة ولیس بحجة انمایعتبربہ ” آئمہ کے درمیان اس کے بارے میں اختلاف ) پایاجاتاہے اوروہ حجت نہیں ہے ،بساس پرتھوڑاسااعتبارکیاگیاہے ۔( ١ قال ابوداو دٔ:سمعت احمدذکرمحمد بن اسحاق فقال:کان رجلا یشتہی الحدیث ) ،فیا خٔذکتب الناس فیضعہافی کتبہ۔( ٢
ابوداؤدکہتے ہیں:میں نے محمدابن اسحاق کے بارے میں احمدابن حنبل سے سنا،وہ کہتے ہیں کہ: اسے حدیثیں نقل کرنے کی بہت زیادہ ہوس رہتی تھی لہٰذاوہ لوگوں کی کتابیں لے کرانھیں اپنی کتابوں میں قراردیاکرتا تھا۔
--------
.٩/ ٢)تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨ ) . ١(تہذیب الکمال/ج ٢۴ /ص ۴٢١ (
قال المروذی قال احمدبن حنبل:کان اسحاق یدلس …وقال ابوعبدالله:قدم ابن اسحاق ) بغداد،فکان لایبالی عمن یحکی ،عن الکلبی وغیرہ.”( ١
مروذی کہتاہے:احمدابن حنبل نے محمدابن اسحاق کے بارے کہاہے کہ وہ تدلیس کرتاتھااورحقیقت کوچھپادیاکرتاتھا پس جب وہ بغدادآیاتوکسی بات کی پرواہ کئے بغیرہرایک سے(جسسے دل چاہے) کلبی وغیرہ سے حدیث نقل کرتاتھا۔
) قال حنبل بن اسحاق :سمعت اباعبدالله یقول:ابن اسحاق لیسبحجة.( ٢ حنبل ابن اسحاق کہتے ہیں:میں نے ابوعبدلله کویہ کہتے سناہے کہ ابن اسحاق حجت نہیں ہے۔
--------
.٩/ ٢) تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨ ) .٩/ ١(تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨ (
قال عبدالله بن احمدمارا یٔت ا بٔی اتقن حدیثہ قط،وکان یتتبّعہ بالعلووالنزول،قیل لہ :یحتج ) بہ؟قال:لم یکن یحتج بہ فی السنن.( ٣
عبدالله ابن احمد کہتے ہیں:میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ میرے باپ نے اس کی حدیث پریقین کیاہواوراسے معتبرقراردیاہوبلکہ اس کی نقل کی ہوئی حدیث کے بارے میں تحقیق کرتے تھے جب ان سے پوچھاگیاکہ کیامحمدابن اسحاق کی احادیث کودلیل کے طورپرپیش کیاجاسکتاہے ؟انھوں نے جواب دیا: سنن میں ان سے احتجاج نہیں کیاجاسکتاہے ۔ قال ایوب بن اسحاق سامری: سئلت احمد بن حنبل :اذاانفرد ابن اسحاق بحدیث تقبلہ ) ؟قال :لا،والله انّی را یٔتہ یحدث عن جماعة بالحدیث الواحدولایفضل کلام ذامن کلام ذا۔( ۴ ایوب ابن اسحاق ابن سافری کہتے ہیں:میں نے احمدابن حنبل سے پوچھا:اگرکسی حدیث کوفقط ابن اسحاق سے نقل کیاجائے توکیاآپ اسے قبول کریں گے؟جواب دیا:ہرگزنہیں،خداکی قسم میں نے دیکھاہے کہ وہ ایک جماعت سے حدیث کونقل کرتاہے بغیراسکے کہ وہ ایک کی بات کودوسرے کی بات سے الگ کرے۔
--------
.٩/ ۴) تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨ ) .٩/ ٣ (تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٨ (
نسائی اس کے بارے میں کہتے ہیں:
”لیسبالقوی“
) وہ راوی قوی نہیں ہے۔( ١
حدیث رؤیامیں محمد ابن ابراہیم ابن حارث جیسے راوی کاذکربھی ہے ، اس راوی کے بارے میں عقیلی نے عبدالله ابن احمدسے اورانھوں نے اپنے والد(حنبل)سے نقل کیاہے جس میں امام حنبل کہتے ہیں:
) فی حدیثہ شئ یروی احادیث ا حٔادیث مناکیرا ؤمنکرة۔( ٢ اس راوی کی حدیث کے بارے یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ مجہول اورناپسندروایتیں نقل کرتاہے۔
حدیث رؤیامیں عبدالله ابن زیدکانام ہے کہ جسنے اذان کے بارے میں یہ خواب دیکھاتھا، اس کے بارے میں بعض کتب اہل سنت میں ترمذی کے حوالے سے بخاری کایہ قول نقل کیاگیاہے:
”لانعرف لہ الّاحدیث الاذان“ ہم عبدالله ابن زیدکی اس حدیث اذان کے علاوہ کسی دوسری روایت کونہیں جانتے ) ہیں۔( ٣
--------
. ٢)تہذیب التہذیب(ابن حجر) /ج ٩/ص ۶ ) .٩/ ١(تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ٣٩ ( .۵/ ٣(تہذیب الکمال/ج ١۴ /ص ۵۴١ ۔تہذب التہذیب(ابن حجر)/ج ١٩٧ (
حاکم نیشاپوری “المستدرک ”میں عبدالله ابن زیدکے بارے میں لکھتے ہیں: عبدلله بن زید ہوالذی اریٰ الاذان ،الّذی تداولہ فقہاء الاسلام بالقبول ولم یخرج فی ) الصحیحین لاختلاف الناقلین فی اسانیدہ.( ١
عبدالله ابن زیدوہ شخص ہے جسنے اذان کوخواب میں دیکھااورعلمائے اسلام نے اسے رسمیت دی ہے لیکن اس حدیث سندکی کے بارے میں ناقلین کے درمیان اختلاف پائے جانے کی وجہ سے مسلم اوربخاری دونوں نے اپنی صحیح میں اس حدیث کوبالکل ذکرنہیں کیاہے ۔ . ١(المستدرک (حاکم نیشاپوری)/ج ٣/ص ٣٣۶ (
حاکم نیشاپوری کایہ دعویٰ اس چیزکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان کی نظرمیں عبدالله ابن زیدکے خواب کے ذریعہ اذان واقامت کاآغازہونا باطل اوربے بنیادہے اورحاکم نیشاپوری کے علاوہ متعددعلمائے اہل سنت نے بھی اذان کی ابتد اء کوعبدالله ابن زیدکے خواب ذریعہ ہونے سے انکارکیاہے اوروحی الہٰی کے ذریعہ اذان کے آغاز ہونے کوقبول کیاہے۔ اذان واقامت میں حضرت علی کی امامت کی گواہی دینے کاراز اذان واقامت میں“اشہدان محمدا رسول الله”کے بعد حضرت علی کی امامت وولایت کی دومرتبہ گواہی دینایعنی “اشہدان علی ولی الله”کہنا
علماوفقہاکہتے ہیں:“اشہدان علی ولی الله”اذان واقامت کاجزء نہیں ہے مگرپیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)رسالت کی گواہی کومکمل کرتاہے اورآج کے زمانہ میں شیعوں پہچان ہونے شمارہوتاہے پس “اشہدانّ محمد رسول الله”کے بعدقربت اورتبرک کی نیت سے “اشہدان علی ولی الله” بہترہے
جس طرح نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کی نبوت ورسالت میں کوئی شک نہیں ہے اسی طرح حضرت علی خداکے ولی اورمومنین کے مولاوامیربرحق ہونے بھی کوئی شک نہیں ہے ،روایت معراج میں لکھاہے کہ عرش معلی پررسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ مولائے کائنات بھی لکھاہواہے ، جنت کے دروازے بھی آپ کانام لکھاہے دوسرے الفاظ میں یوں کہاجائے کہ جس پربھی پروردگارنے رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)کانام لکھ رکھاہے اسی کے ساتھ امام علیٰ کانام بھی لکھاہواہے لیکن کچھ لوگوں ان روایتوں سے آپ کے نام کوختم کردیاہے اوراپنے بزرگوں کانام لکھ دیاہے اسی لئے ہم شیعہ حضرات اذان واقامت میں“اشہدانّ محمد رسول الله”کے بعد “اشہدان علی ولی الله”کہہ کراس بات کااعلان کرتے ہیں کہ عرش معلی پرنبی اکرم (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ علی ابن ابی طالب کانام درج ہے نہ ان کاکہ جنھیں لوگوں نے حدیث معراج میں داخل کردیاہے ۔
پس اذان واقامت میں امام علی کی شہادت کی گواہی دینے سے اذان واقامت باطل نہیں ہوسکتی ہے ،اورنہ اسے بدعت کہاجاسکتاہے کیونکہ ہم اسے اذان اقامت کاحصہ نہیں سمجھتے ہیں اوراسے بقصدقربت کہتے ہیں،اہل سنت کی کتابوں میں بھی علی کے ذکرکوعبادت قرادیاگیاہے اوریہ روایت نقل کی گئی ہے: ”ذکرعلی عبادة.”علی کاذکرعبادت ہے۔
جب علی کاذکرعبادت ہے تواذان واقامت میں ان ذکرکرنے سے کیسے اذان واقامت باطل ہوسکتی ہے اوران کاذکرکیسے بدعت ہوسکتاہے۔
--------
. کنزالعمال/ج ١١ /ص ۶٠١ ۔البدایة والنہایة/ج ٧/ص ٣٩۴ ۔ینابیع المودة /ج ٢/ص ٢٢٩