وضو کے آثار وفوائد
رویناعن علی ، عن رسول الله صلی الله علیہ وآلہ سلم انّہ قال: یحشرہ الله اُمّتی یوم
) القیامة بین الامم ، غرّاًمُحجّلین مِن آثارالوضوء.( ٢
حضرت علیسے مروی ہے کہ پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:خداوندعالم
روزقیامت میری امت کودوسری امتوں کے درمیان اس طرح محشورکرے گاکہ میری امت کے
چہروں پروضوکے آثارنمایاں ہونگے اورنورانی چہروں کے ساتھ واردمحشرہونگے۔
. ٢ (دعائم الاسلام /ج ١/ص ١٠٠ (
حضرت امام باقر فرماتے ہیں : ایک روز نمازصبح کے بعدسیدالمرسلین حضرت نبی اکرم
(صلی الله علیه و آله)اپنے اصحاب سے گفتگو کر رہے تھے، طلو ع آفتاب کے بعد تمام اصحاب
یکے بعد اٹھ کراپنے گھرجاتے رہے لیکن دو شخص (انصاری وثقفی)آنحضرت کے پاس بیٹھے رہ
گئے ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)نے ان دونوں سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں جانتاہوں
تم مجھ سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں ، اگرتم چاہو تو میں دونوں کی حاجتوں کوبیان کرسکتا
ہوں کہ تم کس کام کے لئے ٹھہرے ہوئے ہواوراگرتم چاہوتوخودہی بیان کرو ، دونوں نے نہایت
انکساری سے کہا: یارسول الله ! آپ ہی بیان کیجئے . آنحضرت نے انصاری سے کہا:تمھاری
منزل نزدیک ہے اورثقفی بدوی ہے ،انھیں بہت جلدی ہے اورکوئی ضروری کام ہے لہٰذپہلے ان
کے مسئلہ کاجواب دے دوں اورتمھارے سوال کاجواب دوں گا،انصاری کہا:بہت اچھا،پس آنحضرت
نے فرمایا : اے بھائی ثقفی ! تم مجھ سے اپنے وضوونمازاوران کے ثواب کے بارے میں مطلع
ہوناچاہتے ہوتو جان لو:
جب تم وضوکے لئے پانی میں ہاتھ ڈالتے ہواور“بسم الله الرحمن الرحیم ”کہتے
ہوتوتمھارے اپنے ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام دئے گئے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے
چہرے کودھوتے ہوتوجوگناہ تم نے اپنی ان دونوں انکھوں کی نظروں سے اوراورمنھ کے ذریعہ
بولنے سے انجام دئے ہیں سب معاف ہوجاتے ہیں اورجب اپنے دونوں ہاتھوں کودھوتے ہوتووہ
گناہ جوتمھارے اپنے دائیں وبائیں پہلوسے سرزدہوئے ہیں معاف ہوجاتے ہیں اورجب تم اپنے
سروپاو ںٔ کامسح کرتے ہوتووہ تمام گناہ کہ جن طرف تم اپنے ان پیروں کے ذریعہ گئے ہوسب
) معاف ہوجاتے ہیں،یہ تھاتمھارے وضوکاثواب ،اسکے بعدآنحضرت نے نمازکے ثواب کاذکرکیا۔( ١
--------
. ١(من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص ٢٠٢ (
قال امیرالمومنین علیہ السلام لابی ذر:اذانزل بک امر عظیم فی دین او دنیا فتوضا وارفع
) یدیک وقل :یاالله سبع مرّات فانّہ یستجاب لک۔( ٢
حضرت علی نے ابوذر غفاری سے فرمایا : جب بھی تمھیں دینی یا دنیاوی امور میں
کوئی مشکل پیش آئے تو وضو کرو اور درگاہ الٰہی میں اپنے دونوں ہاتھو ں کو بلند کر کے سات
مرتبہ“ یَا اَللهُ ” کہو! یقینًا خداوندعالم تمھاری دعامستجاب کرے گا۔
--------
. ٢ (بحارالانوار/ ٨٠ /ص ٣٢٨ (
گھرسے باوضو ہوکرمسجد جانے کاثواب
عن النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم قال: انّ الله وَعدَ اَن یدخل الجنّة ثلاثة
نفربغیرحساب،ویشفع کل واحد منہم فی ثمانین الفا:المؤذّن،والامام،ورجل یتوضا ثٔمّ دخل
) المسجد،فیصلّی فی الجماعة( ١
رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں : پروردگارعالم کا وعدہ ہے کہ تین لوگوں
کو بغیر کسی حساب وکتاب کے بہشت میں بھیجا جائے گا اور ان تینوں میں سے ہر شخص/
٨٠ ہزار لوگوں کی شفاعت کرے گا وہ تین شخص یہ ہیں:
١۔ مو ذّٔن ٢۔ امام جماعت ٣۔ جوشخص اپنے گھر سے با وضو ہو کر مسجدمیں جاتاہے
اور نماز کو جماعت کے ساتھ اداکرتاہے ۔
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:مکتوب فی التوراة انّ بیوتی فی الارض المساجد،
) فطوبیٰ لمن تطہرثمّ زارنی وحقّ علی الزور اَن یکرم الزائر.( ٣
امام صادق فرماتے ہیں:توریت میں لکھاہے :مساجدزمین پرمیرے گھرہیں، خوشخبری
ہے ان لوگوں کے لئےخوشبحال ہے جواپنے گھرمیں وضوکرتے ہیں اس کے بعدمجھ سے ملاقات
کے میرے گھرآئے ،مزورکاحق ہے کہ وہ اپنے زائر کااحترام واکرام کرے۔
--------
. ٣) علل الشرائع /ج ١/ص ٣١٨ ) . ١(مستدرک الوسائل/ج ۶/ص ۴۴٩ (
کسی کو وضوکے لئے پانی دینے کاثواب
حضرت صادق فرماتے ہیں : روزقیامت ایک ایسے شخص کو خدا کی بار گاہ خداوندی
میں حاضرکیاجائے گاکہ جس کے اعمال نامہ میں کوئی نیکی نہ ہوگی اور اس نے دنیا میں کو
ئی کارخیر انجا م نہیں دیا ہوگا ،اس سے پوچھاجائے گا : اے شخص ! ذرا سو چ کر بتا کیا تیرے
دنیامیں کوئی نیک کام انجام دیاہے ؟ وہ اپنے اعمال گذ شتہ پر غور وفکر سے نگاہ ڈال کر عرض
کرے گا : پرور دگار ا! مجھے اپنے اعمال میں ایک چیز کے علاوہ کوئی نیک کام نظرنہیں آتا ہے
اوروہ یہ ہے کہ ایک دن تیرافلاں مومن بندہ میرے پاس سے گذررہاتھا ،اس نے وضوکے لئے مجھ
سے پانی کاطلب کیا، میں نے اسے ایک ظرف میں پانی دیا اور اس نے وضو کرکے تیری
نمازپڑھی ، اس بندہ کی یہ بات سن کرخدا وند عالم کہے گا:میں تجھے تیرے اس نیک کام کی
وجہ سے بخش دیتاہوں اورپھرفرشتوں کو حکم دے گامیرے اس بند ے کو بہشت میں لے جاؤ
) ۔( ١
ہرنمازکے لئے جداگانہ وضو کرنے کاثواب
ہرنمازکے __________لئے جداگانہ طورسے وضوکرنامستحب ہے اورہمارے رسول وآئمہ اطہار بھی
ہرنمازکے لئے الگ وضوکرتے تھے جیساکہ روایت میں آیاہے:
إنّ النبی صلی الله علیہ وآلہ : کان یجددالوضوء لکل فریضة ولکل صلاة
پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)تمام فریضہ الٰہی اورنمازکوانجام کودینے کے لئے تجدید
) وضو کرتے تھے ۔( ٢
--------
.. ٢) من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٩ ) . ١ (بحارالانوار/ج ٨٢ /ص ٢٠۶ (
عن علی علیہ السلام انّہ کان یتوضا لٔکلّ صلاةٍ ویقرء: “ اذاقمتم الی الصلاة
) فاغسلواوجوہکم” ( ١
حضرت علی ہر نماز کے لئے جداگا نہ وضو کرتے تھے اورآیہ “ٔیاایہاالذین آمنوا اذاقمتم
الی الصلاة فاغسلوا وجوہکم”کی تلاوت کرتے تھے ۔
. مستدرک الوسائل /ج ١/ص ٢٩٣
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم :الوضوء علی الوضوء نورٌعلیٰ نورٌ
) رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: وضو پر وضو کرنا “ نورٌ علیٰ نور” ہے۔ ( ۴
عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:من جدّدوضوئہ لغیرحدث جدّدالله توبتہ من
) غیراستغفار.( ۵
امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص نمازکے علاوہ کسی دوسرے کام کے لئے
تجدیدوضوکرتا ہے خداوندمتعال استغفارکئے بغیرہی اسکی توبہ قبول کرلیتاہے۔
) قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم :من توضاعلی طہرکتب لہ عشرحسنات۔( ۶
نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں :جوشخص وضوپروضوکرے اس کے لئے دس
لکھی جاتی ہیں۔
--------
. ۴ (محجة البیضاء/ج ١/ص ٣٠٢ (
. ۶)وسائل الشیعہ /ج ١/ص ٢۶۴ ) . ۵(ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣٨ (
حکایت کی گئی ہے کہ ایک مومن بندہ ہمیشہ باوضورہتاتھاجب وہ اس دارفانی سے کوچ
کرگیاتوایک دوسرے مومن نے اسے خواب میں دیکھاکہ اس کاچہرہ نورانی ہے اوربہشت کے
باغات میں سیرکررہاہے ، میں نے اس سے معلوم کیا:اے بھائی! تم دنیامیں ات نابڑے متقی
وپرہیزگارتونہیں تھے پھرتم دنیامیں ایساکونسا کام کرتے تھے جس کی وجہ سے تجھ کویہ
منزلت حاصل ہوئی اورتم یہ پر نورانیت کس طرح آئی؟اس نے جواب دیا:اے بھائی ! میں دنیامیں
ہمیشہ باوضورہتا تھاجس کی وجہ سے خداوندمتعال نے میرے ان اعضاء کونوربخشا<وَاللهُ یُحِبُّ
--------
) المُتَطَہّرِین>( ١) اورخداپاک رہنے والوں کودوست رکھتاہے.( ٢
. ١) نماز،حکایتہاوروایتہا/ ١۵ ) . ١(سورہ تٔوبة /آیت ١٠٨ (
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:یااَنس!اکثرمن __________الطہوریزیدہ اللھفی عمرک،وان
استتطعت ان تکون باللیل والنہارعلی طہارة فافعل،فانّک تکون اذامتّ علیٰ طہارةٍ شہیداً.وعنہ
) صلی الله علیہ وآلہ وسلم:من احدث ولم یتوضا فٔقد جفانی.( ١
پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرما تے ہیں : اے انس!اکثراوقات باوضو رہاکرو تاکہ خدا
آپ کی عمرمیںزیادتی کرے اور اگر ہوسکے تو دن اوررات وضو سے رہو کیونکہ اگر تمھیں وضوکی
حالت میں موت آگئی تو تمھاری موت شہیدکی موت ہوگی اورآنحضرتدوسری حدیث میںفرماتے
ہیں:اگر کسی شخص سے حدث صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی۔
قال النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلّم :یقول الله تعالیٰ:من احدث ولم یتوضا فٔقدجفانی ومن
احدث ویتوضا ؤلم یصلّ رکعتین فقدجفانی ومن احدث ویتوضا ؤصلّ رکعتین ودعانی ولم اَجبہ
) فیماسئلنی من اَمردینہ ودنیاہ فقدجفوتہ ولستُ برب جافٍ.( ٢
حدیت قدسی شریف میں آیا ہے خدا وند متعال فرماتا ہے :اگر کسی سے حدث
صادرہوجائے اوروہ وضونہ کرے توگویااس نے مجھ پرجفاکی اور اگرکسی کوحدث صادرہوجائے
اوروضوبھی کرلے لیکن وہ دورکعت نماز نہ پڑھے تواس نے بھی مجھ پر جفا کی، اگرکسی
کوحدث صادرہوجائے اوروہ وضوبھی کرے اوردورکعت نمازبھی پڑھے اس کے بعد مجھ سے
کسی چیزکاسوال کرے اورمیں اس کے سوال امر دین و دنیا کوپورانہ کروں تو گویااس شخص
پرجفاکی اور میں جفا کار پر ور دگار نہیں ہوں ۔
. ٢(وسائل الشیعہ/ج ١/ص ٢۶٨ (
کامل طورسے وضوکرنے کاثواب
کامل طورسے وضوکرنے سے مرادکیاہے اس چیزکوہم اسی موردکے فوراً بعد ذکر کریں
گے لیکن یہاں پرفقط کامل طورسے وضوکرنے کاثواب ذکرکررہے ہیں
عن ابی الحسن العسکری علیہ السلام قال:لما کلّم الله عزّوجل موسیٰ علیہ السلام
) قال:الٰہی مَاجَزَاء مَنْ اَتَمّ الوضوء مِنْ خِشْیَتِک؟قال:اَبْعَثہ یوم القیامة ولہُ نورٌبین عینیہ یتلا لٔا .ٔ( ١
امام حسن عسکری فرماتے ہیں :جب(کوہ طورپر) خداوندعالم حضرت موسی سے
ہمکلام ہواتوحضرت موسیٰ نے بارگاہ ربّ العزت میں عرض کی : پروردگار ا ! اگر کوئی تیرے خوف
میں مکمل طور سے وضوکرے اسکا اجروثواب کیاہے ؟ خداوند عالم نے فرمایا : روزقیامت اس کو
قبرسے اس حال میں بلند کروں گا کہ اس کی پیشانی سے نور ساطع ہوگا ۔
فی الخبراذاطہرالعبدیخرج الله عنہ کل خبث ونجاسة وانّ من توضافاحسن الوضوء خرج من
) ذنوبہ کیوم ولدتہ من امہ۔( ٢
روایت میں آیاہے جب کوئی وضوکرتاہے توخداوندعالم اسے ہرنجاست وخباثت سے پاک
کردیتاہے اورجوشخص مکمل طورسے وضوکرتاہے توخدااسے گناہوں سے اس طرح پاک کردیتاہے
جیسے اس نے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیاہو۔
--------
. ٢)مستدرک الوسائل/ج ١/ص ٣۵٨ ) . ١ (بحارالانوار/ج ٧٧ /ص ٣٠١ (
) قال النّبی صلی الله علیہ وآلہ وسلّم :یٰااَنس اَسبغ الوضوء تمرُّعلی الصراط مرٌالسحاب.( ٢
رسول خدا (صلی الله علیه و آله) فرماتے ہیں : اے انس ! وضو کومکمل اوراس کے تمام
آداب شرائط کے ساتھ انجام دیاکرو تا کہ تم تیز ر فتا ر با دل کے مانند پل صراط سے گزر سکو ۔
. ٢(خصال(شیخ صدوق)/ص ١٨١ (
آب وضوسے ایک یہودی لڑکی شفاپاگئی
جناب نفیسہ خاتون جوکہ اسحاق بن امام جعفرصادق کی زوجہ اورحسن بن زید بن امام
حسن مجتبیٰ کی صاحبزادی تھیں،آپ ایک عظیم و با ایمان خاتو ن تھیں اور مدینہ میں زندگی
بسرکرتی تھیں،اس عظیم خاتون نے پورا قرآن مع التفسیر حفظ کررکھاتھا ، دن میں روزہ رکھتی
اور راتوں کو عبادت ومناجات کرتی تھیں،آپ تیس مرتبہ حج بیت ا للھسے مشرف ہوئیں اور غالباً
سفرحج کو پیدل طے کرتی تھیں جبکہ آپ بہت زیادہ صاحب ثروت تھیں لیکن اپنے مال ودولت
کوبیماروں وحاجتمندوں پرخرچ کرتی تھیں
آپ کی بھتیجی “زینب بنت یحییٰ ”کہتی ہیں کہ :میں نے اپنی زندگی کے چالیسبرس
اپنی پھو پھی کی خدمت میں گذارے ہیں، اس مدت کے دوران میں نے انھیں رات میں کبھی
سوتے ہوئے اور دن میں کوئی چیز کھاتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ،آپ رات میں عبادت کرنے اور
دنوں میں روزہ رکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ کمزور ہوچکی تھیں ایک دن میں ان سے کہا: آپ
اپنا علاج کیوں نہیں کرتی ہیں ؟ جواب دیا: میں اپنے نفس کا علاج کس طرح کروں ابھی تو
راستہ بہت دشوار ہے اوراس راستہ سے فقط ناجی لوگ ہی گزرسکتے ہیں۔
ایک سال جب جناب نفیسہ نے اپنے شوہر (حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ) کے
ہمراہ حضرت ابراہیم کی قبر کی زیارت کے لئے فلسطین کا سفر کیا اورزیارت کے بعدسفرسے
واپسی کے درمیان مصرمیں قیام کیا
آپ کے ہمسایہ میں ایک یہو دی رہتا تھاجس کے گھرمیں ایک نابینا لڑکی تھی ،ایک دن
اس یہودی لڑکی نے نفیسہ کے وضو کے پانی کو بعنوان تبرک اپنی آنکھوں پر ڈالا توفوراً
شفاپاگئی جب اس خبرکومصرکے یہودیوں نے سناتو ان میں سے اکثرنے دین اسلام قبول کیا
اور وہاں کے اکثر لوگ آپ کے عقیدتمندہوگئے، جب آپ نے مدینہ واپس جا نے کا ارادہ کیا تو اہل
مصرنے اصرارکیا کہ آپ یہیں پر قیام پذیرہوجائیں ،آپ نے ان کی درخواست کو منظور کر لیااوروہیں
پرزندگی گذارنے لگیں ۔
جناب نفیسہ نے مصرمیں اپنے ہاتھوں سے ایک قبربنارکھی تھی اور سفر آخرت کا انتظا
ر کرتی تھیں ، روزانہ اس قبر میں داخل ہوتی اور کھڑے ہوکر نماز پڑ ھتی تھیں اور اسی قبرمیں
بیٹھ کر چھ ہزار مرتبہ اور ایک روایت کے مطابق ١٩٠ /مرتبہ قرآن ختم کیا ہے اور آپ ماہ رمضان
المبارک ٢٠٨ ئھ میں
) روزے کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے داربقاء کی طرف کوچ کر گئیں۔( ١
آب وضوسے درخت بھی پھلدارہوگیا
جوادا لآ ئمہ حضرت امام محمدتقی کی تاریخ حیات میں لکھا ہے کہ : جس وقت آپ
اپنے شیعوں کی ایک جماعت کے ہمراہ بغدادسے مدینہ کا سفر طے کررہے تھے تو غروب آفتاب
کے وقت کوفہ کے قریب پہنچے اورایک جگہ پرجس کا نام“دارمسیب”ہے قیام کیا اوروہاں کی
مسجد میں داخل ہوئے کہ مسجدکے صحن مسجد میں ایک درخت تھا جس پرکوئی پھل نہیں
لگتاتھا
حضرت امام محمدتقی نے ایک برت ن میں پانی طلب کیا اور اس درخت کے نیچے بیٹھ
کر وضوکیا اور نمازمغرب کو اوّل وقت اداکیااورلوگوں نے آپ کی اقتداء میں جماعت سے نمازپڑھی
،امام (علیه السلام)نے پہلی رکعت میں حمدکے بعد “اذاجاء نصرالله…” اور دوسری رکعت میں
حمدکے بعد“ قل ھوالله احد …” کی قرائت کی اورسلام نماز کے بعد ذکرخدا اور تسبیح میں
مشغول ہوگئے اس کے بعد چار رکعت نافلہ نمازپڑھی اور تعقیبات نمازپڑھ کر سجدہ شکر ادا
کیا،اورنماز عشاکے لئے کھڑے ہوگئے ،جب لوگ نمازودعاسے فارغ ہونے کے بعد اٹھ کرمسجد
سے باہرآنے لگے اور صحن مسجد میں پہنچے تو دیکھا کہ اس درخت پر پھل لگے ہوئے ہیں اس
معجز ے کو دیکھ کر سب کے سب حیرت زدہ ہوگئے اور سب نے درخت سے پھل توڑکر
کھاناشروع کیا تو دیکھا کہ میوہ بہت ہی زیاد ہ میٹھا ہے اور اس کے اندر کوئی گٹھلی بھی
نہیں ہے اس کے بعد امام محمدتقی (علیه السلام)اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مد ینہ کی طرف
) راوانہ ہوگئے ۔( ٢
--------
. ١(سفینة البحار/ج ٢/ص ۶٠۴ ۔ ثواب الاعمال وعقاب الاعمال/ص ٣۶ (
.) ٢ (ارشادشیخ مفید/ص ۶٢٨ (باب ٢۵ (
راز تیمم
اگروضوکے لئے پانی کاملناممکن نہ ہو،یاپانی تک رسائی نہ ہو،یاپانی کااستعمال
مضرہو،یاکسی نفسکے لئے خطرہ ہوتوان صورتوں میں وضوکے بجائے تیمم کرناواجب ہے
قرآن کریم ارشادباری تعالی ہے:
>وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضیٰ اَوعَلٰی سَفَرٍاَوْجَاءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِطِ اَوْلَاْمَسْتُمْ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوامَآءً
) فَتَیَمَّمُواصَعِیْدًاطَیِّبًافَامْسَحُوابِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِنْہُ >( ١
اگرتم مریض ہویاسفرکے عالم ہویاپاخانہ وغیرہ نکل آیاہے یاعورتوں کوباہم لمس کیاہے
اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلواوربھی اس طرح سے اپنے چہرے اورہاتھوں کامسح
کرلو۔
. ١(سورہ مٔائدہ /آیت ۶ (
اس آیہ مبارک میں تیمم کاطریقہ یہ بیان کیاگیاہے کہ تیمم کی نیت کرکے دونوں ہاتھوں
کوگرد،خاک ،ریت،ڈھیلے ،پتھرپرماریں اوراس کے بعددونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کوپوری پیشانی
اوراس دونوںطرف جہاں سے سرکے بال اگتے ہیں،ابرووں تک اورناک اوپرتک پھیریں،اس کے
بعددائیں ہاتھ کی ہتھیلی کوبائیں ہاتھ کی پشت پرگٹے سے انگلیوں کے سرے تک پھیریں،اس
کے بعداسی طرح بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کودائیں ہاتھ کی پشت پرپھیریں۔
جسچیزپرتیمم کیاجائے اس کاپاک ہوناضروری ہے کیونکہ خداوندعالم نے آیہ مٔبارکہ میں
“صعیداًطیباً” کہاہے
رازتیمم یہ ہے کہ:جب آپ کووضوکے لئے پانی دستیاب نہ ہوسکے توخاک کوجوکہ پست
ترین پدیدہ جٔہان ہے اپنے ہاتھ اورچہرے پر ملیں تاکہ آپ کے اندرسے غروروتکبّراورشہوت
نفسانی اورشیطانی خواہشیں دور ہوجائیں اورشایدخداکوآپ کی اس تواضع وخاکساری پررحم
آجائے اورراہ راست کی ہدایت کردے۔
خداوندعالم نے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ کیوں قراردیاہے اوران دونوں کووسیلہ طٔہارت
قراردینے کی کیاوجہ کیاہے؟
کشف الاسرارمیں اسحکم خداکی دو حکمت اس طرح بیان کی ہیں:
١۔ خداوندعالم نے انسان کو پانی اور مٹّی سے پیدا کیا ہے ،ان دونوں نعمتوں
پرخداکاشکر کرناچاہئے اسی لئے آب وخاک کوطہارت کاذریعہ قراردیاہے تاکہ ہم اس مطلب کو
ہمیشہ یاد رکھیں اور ان دونوں نعمتوں کودیکھ کرخداکا شکرخدا کریں
٢۔ دوسری حکمت اس طرح بیان کی جاتی ہے: خداوندعالم نے آب وخاک کو طہارت کا
ذریعہ اس لئے قراردیا ہے کہ انسان اس کے ذریعہ دنیاوی آگ (آتش شہوت) اور آخرت کی آگ
(نارجہنم وعقوبت)کو خاموش کرسکے کیونکہ مومن کے لئے دوآگ درپیش ہیں : ١۔دنیاوی آگ
جسے شہوت نفسانی کی آگ کہاجاتاہے ٢۔ آخرت کی آگ جسے نارعقوبت و جہنم کہاجاتاہے
) اورانسان آب وخاک کے ذریعہ دنیوی اوراخروی آگ کوخاموش کرسکتاہے۔( ١
--------
. ١(کشف الاسرار/ج ٣/ص ۴٩ ۔ ۵٠ (
امام محمدباقر فرماتے ہیں:سرکے بعض اورپیروں کے بھی بعض حصے کے مسح
کرنے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوندعالم نے آیہ مبارکہ <فلم تجدوماء فتیمموا صعیداً
طیباًفامسحوابوجوہکم >پانی نہ ملنے کی صورت میں دھونے کے وجوب کوساقط کردیااوراسکے
بدلے میں کرناواجب کردیااورفرمایا: “فامسحوابوجوہکم” یعنی اپنے چہرے کامسح کرواوراس کے
بعدفرمایا:“وایدیکم”یعنی اپنے ہاتھوں کابھی مسح کرو،ہاتھوں کے مسح کرنے کوچہرے کے
مسح کرنے عطف کیااوراس کے بعد“منہ” فرمایا:یعنی پانی نہ ملنے کی صورت میں خاک پاک
پرتیمم کرواوراپنے چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملو
اب یہ جوکہاجاتاہے کہ چہرے اورہاتھوں پرتھوڑی سی خاک ملواس کی وجہ یہ ہے کہ
خداوندعالم جانتاہے کہ پورے چہرے پرخاک نہیں ملی جاتی ہے کیونکہ جب ہاتھوں کوخاک
پرمارتے ہیں توتھوڑی سی خاک ہاتھوں پرلگ جاتی ہے اوربقیہ تواپنی جگہ پررہتی ہے اورہاتھوں
پرنہیں لگتی ہے لہٰذاجب ہاتھوں چہرے پرملتے ہیں تواس میں سے کچھ خاک چہرے پرلگ جاتی
ہے نہ کہ پوری خاک، اس کے بعدخداوندعالم ارشادفرماتاہے:
>مَایُرِیْدُاللهَ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ حَرَجٍ<
خداوندعالم تمھیں کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہتاہے ۔
. کافی /ج ٣/ص ٣٠
رازوجوب ستر
مردکے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنی شرمگاہ ( آگے پیچھے کاحصے)کو
چھپائے چاہے اسے کوئی دیکھ رہاہویانہ، اوربہترہے کہ ناف سے زانوتک چھپائے ۔
عورت کے لئے واجب ہے کہ نمازکی حالت میں اپنے پورے بدن کوچھپائے یہاں تک کہ
اپنے بال اورسرکوبھی چھپائے ،صرف چہرہ اورگٹوں تک ہاتھ پاؤں کھلے رہ سکتے ہیں لیکن یہ
یقین کرنے کے لئے کہ مقدارواجب کوچھپالیاگیاہے تھوڑاساچہرے کے اطراف اورگٹوں سے نیچے
کوبھی چھپائے ۔
جب ہم کسی کی مہمانی میں جاتے ہیں توعقلمنداورصاحب عفت انسان کی عقل یہی
حکم دیتی ہے کہ بہترین لباس پہن کرجائیں اوروہ بھی ایسالباس کہ جس سے لوگ ہمارے
جسم کے قبائح پرنظرنہ ڈال سکے ،اگرکوئی بغیرلباس کے مہمانی میں جائے توصاحب خانہ
اوروہاں پرموجودلوگ اس کے جسم پرنگاہ نہیں کریں گے؟اسی لئے نمازکی حالت میں
سترکوواجب قراردیاگیاہے تاکہ اپنے رب کی مہمانی میں بغیرکسی خوف کے خضوع وخشوع
کے ساتھ نمازپڑھ سکے ۔
نمازکی حالت میں بدن کے ڈھانپنے کی وجہ روایت میں اس طرح بیان کی گئی ہے:
امام صادق فرماتے ہیں:مومنین کامزین ترین لباس تقویٰ وہیزگاری کالباس ہے اوران
کالطیف ترین لباس ایمان وعقیدہ کالباس ہے جیساکہ خداوندمتعال اپنی کاتا میں ارشادفرماتاہے
:
) >لِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ>( ١
لباس تقویٰ بہترین لباس ہے ،لیکن لباس ظاہری خداوندعالم کی نعمتوں سے کہ جسے
اولادآدم(علیه السلام) کے لئے ساترقراردیاگیاہے ،اولادآدم کوچاہئے کہ لباس کے ذریعہ اپنی
عورت کوچھپائے ذریت آدم(علیه السلام) کے لئے سترعورت ایک خاص کرامت ہے جسے انسان
کے علاوہ کسی بھی موجودات عطانہیں کیاگیاہے پس مومنین پرواجب ہے کہ اسے واجبات
الٰہی کوانجام دینے میں ضروراستعمال کرے ،اورتمھارابہترین لباس وہ ہے کہ جوتمھیں
یادخداسے غافل نہ کرے اوردوسرے کام میں مشغول نہ کرے بلکہ شکروذکراوراطاعت
پروردگارسے نزدیک کرے ،پس ایسے لباس سے پرہیزکیاجائے جوانسان کویادپروردگارغافل
اوردوری کاسبب بنے ،اورجان لوکہ لباس بلکہ تمام مادی امورہیں کہ جوانسان کے ذات
پروردگارسے دوری اوراشتغال دنیاکاسبب واقع ہوتے ہیں اورتمھارے اس نازک سے دل میں ایک
برااثرڈالتے ہیں اورریاکاری ،فخر،غرورمیں مبتلاکرتے ہیں،یہ سب دین تمھارے دین کونابودکرنے
والے ہیں اوردل میں قساوت پیداکرتے ہیں
جب تم اس ظاہری لباس کواپنے ت ن پرڈالوتواس چیزکویادکروکہ خداوندمتعال اپنی
رحمت کبریائی سے تمھارے گناہوں کوچھپاتاہے لیکن بہ بھی یادرہے ظاہری پہنے کے ساتھ
باطنی لباس سے غفلت نہ کرو،جس طرح تم ظاہری طورسے اپنے آپ کوچھپارہے ہوباطنی
طورسے بھی ملبس کرو،تمھیں چاہئے کہ جس طرح تم ظاہری طورسے کسی خوف کی
بناپراپنے آپ کوملبس کرتے ہواسی باطنی میں ملبس کرواوراپنے رب کے فضل وکرم سے عبرت
حاصل کروکہ اس نے تمھیںظاہری لباس عطاکیاتاکہ تم اپنے ظاہری عیوب کوپوسیدہ کرسکو،اس
نے تمھارے لئے توبہ کادوروازہ کھول رکھاہے تاکہ تم اپنی باطنی شرمگاہوں کوبھی لطف گناہوں
اوربرے کارناموں سے پوشیدہ کرسکو،یادرکھوکسی ایک رسوانہ کرناتاکہ تمھارپروردگارتمھیں
رسوانہ کرے ،اپنے عیوب کی تلاش کروتاکہ تمھاری اصلاح ہوسکے اورچیزتمہاری اعانت نہ
کرسکے اس سے صرف نظرکرو،اوراس چیزسے دوری کروکہ تم دوسروں کے عمل کی
خاطراپنے آپ کوہلاکت میںڈالواوردوسرے کے اعمال کانتیجہ تمھارے نامہ اعمال میں لکھاجائے
اوروہ تمھارے سرمایہ میں تجاوزکرنے لگیں اورتم اپنے آپ کوہلاک کرلو،کیونکہ انجام دئے گئے
گناہوں کو بھول جانے سے ایک خداوندعالم دنیامیں اس پرایک سخت عقاب نازل کرتاہے اورآخرت
میں بھی اس کے لئے دردناک عذاب ہے
جب تک انسان اپنے آپ کوحق تعالی کی اطاعت سے دوررکھتاہے اوراپنے آپ کودوسروں
کے عیوب کی تلاش میں گامزن رکھتاہے اورجب تک انسان اپنے گناہوں بھولے رکھتاہے
اوراندرپائے جانے والے عیوب کونہیں جانتاہے اورفقط قوت پراعتمادرکھتاہے وہ کبھی بھی نجات
نہیں پاسکتاہے۔
--------
. سورہ اعراف /آیت ٢۶ . مصباح الشریعة /ص ٣٠
|