وضوکے اسرار
خداوندعالم پاک وپاکیزہ ہے اورپاکیزگی کودوست رکھتاہے لہٰذااس نے اپنی بارگاہ میں
حاضرہونے والوں کوحکم دیا:
>یٰااَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوااِذَاقُمْتُمْ اِلٰی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُواوُجُوہَکُم وَاَیْدِیَکُمْ اِلٰی الْمَرَافِقِ
) وَامْسَحُوابِرُو سِٔکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ اِلٰی الْکَعْبَیْنِ>( ١
اے ایمان والو!جب بھی تم نمازکے لئے اٹھوتوپہلے اپنے چہروں اورکہنیوں تک ہاتھوں
کودھولیاکرواوراپنے سراورگٹّے تک پیروں کامسح کرو۔
. ١(سورہ مائدہ /آیت ۶ (
اس آیہ مبارکہ سے یہ ثابت ہے کہ نمازکے لئے وضوکرناواجب ہے اوراس کے بغیرپڑھنی
جانے والی نمازباطل ہے اورسنت میں بھی اسکے واجب ہونے کوبیان کیاگیاہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم : مفتاح الصلاة الطہور وَتحریمِہا التکبیر ،
) وتحلیلہاالسّلام ، ولایقبل الله صلاةبغیرالطہور.( ٢
رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:طہارت نمازکی کنجی ہے اورتکبیر (الله
اکبر)اس کی تحریم ہے اورسلام نمازاس کی تحلیل ہے(جوچیزیں نمازکے منافی ہیں وہ
تکبیرکے ذریعہ حرام ہوجاتی ہیں اورسلام کے بعدحلال ہوجاتی ہیں)اورخداوندعالم بے طہارت
لوگوں کی نمازقبول نہیں کرتاہے۔
.٣١۶/ بحارالانوار/ج ٧٧
قال امیرالمومنین علی علیہ اسلام : افتتاح الصلاة الوضوء ، وتحریمہا التکبیر، وتحلیلہ
االتسلیم.
مولائے متقیان حضرت علی فرماتے ہیں:وضو نمازکی کنجی ہے اورتکبیر (الله اکبر)اس
کی تحریم اورسلام اس کی تحلیل ہے۔
اسی حدیث کومرحوم شیخ کلینی نے کتاب کافی میں نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)
کی زبانی نقل کیاہے
. من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ٣٣ ۔کافی/ج ٣/ص ۶٩
) عن ابی جعفرعلیہ السلام قال : لاصلاة الّا بطہور.( ١
امام باقر فرماتے ہیں:وضوکے بغیرنمازہی نہیں ہے ۔
--------
. ١(تہذیب الاحکام /ج ٢/ص ١۴٠ (
امام صادق فرماتے ہیں:ایک متقی وعالم شخص کوجب قبرمیں رکھ دیاگیاتوالله کی طرف
سے مو کٔل فرشتوں میں ایک فرشتہ نے کہا:ہمیں تیرے جسم پر سوتازیانے لگانے کاحکم
دیاگیاہے اس نے کہا:میرے جسم میں ات نے تازیانہ کھانے کی ہمت نہیں ہے ،فرشتہ نے
کہا:ہم ایک تازیانہ کم کردیتے ہیں ،کہا:اب بھی زیادہ ہیں ،خداوندعالم اس وجہ سے کہ وہ
اخیارلوگوں میں سے تھاتعدادکے کم کرنے قبول کرتاگیا یہاں تک کہ جب ٩٩ /تازیانے کم کردئے
گئے تواس شخص نے جب آخری تازیانہ کے معافی چاہی توفرشتہ نے کہا:اس کوہرگزمعاف نہیں
کیاجاسکتاہے اوریہ تازیانہ ضرورلگناہے لہٰذایہ تازیانہ توضرورکھاناپڑے گا،اس شخص نے
پوچھا:آخروہ کونساگناہ ہے کہ جس کی سزا کو معاف نہیں کیاجاسکتاہے ،فرشتہ نے جو اب
دیا:تونے ایک روزوضوکئے بغیرنمازپڑھی تھی اورتوایک مظلوم ضعیف کے پاس سے گزرالیکن
تونے اس کی کوئی مددنہیں کی ،جیسے ہی اس کے جسم پر تازیانہ ماراگیاتوقبرسے آگ
) بھڑک اٹھی۔( ١
--------
. ١(من لایحضرہ الفقیہ /ج ١/ص ۵٨ (
وضومیں چار چیزیں واجب ہیں: ١۔نیت ٢۔چہرے کادھونا،وضومیں چہرہ دھونے کے
لئے ضروری ہے کہ لمبائی میں چہرے کوپیشانی کے اوپرسے (جہاں سے سرکے بال اگتے
ہیں) ٹھوڑی کے نیچے تک اورچوڑائی میں بیچ والی انگلی اورانگوٹھے کے درمیان جت ناحصہ
آجائے دھوناضروری ہے اگراس بتائی گئی مقدارمیں سے تھوڑا سا بھی حصہ نہ دھویاجائے
تووضوباطل ہے لیکن یہ یقین پیداکرنے کے لئے کہ چہرے کا پورا حصہ دھولیاگیاہے بہترہے کہ
بتائی گئی مقدارسے تھوڑازیادہ دھویاجائے ۔
٣۔ دونوں ہاتھوں کادھونا،اورہاتھوں کواس دھویاجائے کہ انسان اپنے دائیں ہاتھ کواس
طرح دھوئے کہ بائیں ہاتھ کے ذریعہ داہنے ہاتھ کی کلائی پرپانی ڈالے اوراسے اوپرسے نیچے
کی طرف انگلیوں کے سرے تک ملے ،اگرکوئی اس کی خلاف ورزی کرے یعنی ہاتھوں کودھونے
میں انگلیوں کی طرف سے پانی ڈالے یانیچے سے کہنی طرف ہاتھ پھیرے تواس کاوضوباطل ہے
۔
۴۔ہاتھوں کے دھونے کے بعدوضوکے پانی تری جوہاتھ رہ گئی ہے اسی سے سرکے
اگلے حصہ کامسح کرناچاہئے اوریہ ضروری نہیں ہے کہ اوپرسے نیچے کی طرف کیابلکہ نیچے
سے اوپرکی طرف بھی مسح کرناجائزہے ۔
۵۔سرکامسح کرنے کے بعدہاتھ میں باقیماندہ تری سے پیروں کی انگلیوں کے سرے
سے پیرکی پشت کے ابھارتک مسح کرناواجب ہے
رازوجوب وضو
امام علی رضا نے وضوکے واجب قراردئے جانے کی چندمندرجہ ذیل وجہ بیان کی ہیں :
انّمااُمربِالْوُضوءِ وَبدءَ بہِ :لاَن یکون العبد طاہراًاِذاقامَ بینَ یدیِ الجبار عندَمناجاتہِ ایّاہ ،
مطیعاًلہ فیماامرہ ، نقیاًمن الادناس والنجاسة مع مافیہ من ذہاب الکسل وطردالنعاس وتزکیة
الفوادللقیام بین یدی الجبار۔
نمازکے لئے وضوکو اس لئے واجب قرار دیاگیا ہے کہ جب بندہ خدائے جبارکی بارگاہ میں
مناجات کے لئے قیام کرے تواسے پاک وپاکیزہ ہوناچاہئے ،اور چونکہ اس نے ادناس ونجاسات
سے دوری کاحکم دیاہے اس لئے وضوکاحکم دیاہے تاکہ بندہ اُس کے اس حکم پرعمل کرسکے
اورتاکہ اس کے ذریعہ انسان اپنے آپ سے نینداورکسالت سے دورکرسکے اورقلب کوباطنی
قذورات ونجاست سے پاک کرکے خدائے جبارکی بارگاہ قیام کرے ۔
انسا ن کوچاہئے کہ بار گاہ رب العزت میں کھڑے ہو نے سے پہلے اپنے حقیقی مولاکے
امرکی اطاعت کرنے اورپلیدگی ونجاست سے دورہنے کی خاطر اپنے جسم وروح سے ناپاکی
وآلودگی کو برطرف کرے۔
اس حدیث یہ واضح ہے کہ وضوکے واجب ہونے کاایک رازیہ بھی ہے تاکہ نماز شروع
کرنے پہلے انسان کے جسم سے کسالت دورہوجائے اور چہرہ شاداب ہوجائے تاکہ خضوع
ونشاط کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرسکے اور باوضوہوکر بارگاہ خدا وندی میں قیام کرنے
سے انسان کا دل نورانی ہوجاتاہے۔
. علل الشرائع /ج ١/ص ٢۵٧
عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:انّماالوضوء حدٌّمِن حدودِالله،لیعلم الله مَن یطیعہ و من
) یعصیہ.( ۴
امام محمدباقر فرماتے ہیں: وضو خداوند متعال کی حدو د میں سے ایک حد ہے
،(جسے اللھنے اس لئے واجب قرار دیا ہے)تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ کون لوگ اس کی اطاعت
وبندگی کرتے ہیں اور کون اس کے حکم کی خلاف ورزی اورسرکشی کرتے ہیں اوربیشک مومن
کوئی چیزنجسنہیں کرسکتی ہے ۔
. ۴ (کافی/ج ٣/ص ٢١ (
رازوجوب نیت
انسان جس کام کوانجام دیتاہے اس کی طرف متوجہ ہونے اوراس کے مقصدسے آگاہ
ہونے کونیت کہاجاتاہے یعنی اس کام کے انجام کادل میں ارادہ کرنے اوراس کے مقصدآگاہی
رکھنے کونیت کہاجاتاہے اورہرکام کے انجام پرثواب وعقاب کاتعلق نیت سے ہوتاہے ،اس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی جیسی نیت ہوتی ہے اسی کے مطابق اسے اجربھی
دیاجاتاہے ،اگردل میں خداسے قربت حاصل کرنے کاقصدکیاہے تواسے عبادت میں لطف آئے
گااورخداسے قریب ہوجائے گالیکن اگردل میں ریاکاری ،خودنمائی یاچہرہ اورہاتھوں کوٹھنڈک
پہنچانے کاارادہ کیاہے تووضوباطل ہے اوراس کام پرالله سے دوری کے علاوہ کوئی اجرنہیں
ملتاہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ : انّماالاعمال بالنیات ولکلّ امرءٍ مانویٰ،فمن غزیٰ ابتغاء
) ماعندالله فقدوقع اجرہ علی الله،ومن غزیٰ یریدعرض الدنیاا ؤنویٰ عقالاًلم یکن لہ الّامانواہ۔( ١
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:انسان کے ہر عمل کاتعلق اس کی نیت سے
ہوتاہے اور عمل کی حقیقت نیت کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے اورثواب بھی نیت کے حساب
دیاجاتاہے ،اس کے نصیب میں وہی ہوتاہے جس چیزکاوہ قصدکرتاہے ،پس وہ جو شخص رضای
الٰہی کی خاطرجنگ کرتاہے اورکسی نیک کام خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام
دیتاہے توخداوندعالم اسے اس کااجروثواب عطاکرتاہے ضروراجرعطاکرتاہے اورجوشخص متاع
دنیاکوطلب کرتاہے اسے اس کے علاوہ جسچیزکی اس نے نیت کی ہے کچھ بھی نصیب نہیں
ہوتاہے۔
اگرکوئی شخص قصدقربت کے ساتھ کسی ریاکاری کابھی قصدرکھتاہووہ شخص مشرک
ہے اورشرک حرام ہے جب شرک حرام وہ اسکاوہ عمل بھی بیکارہے
عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:لوانّ عبدا عمل عملایطلب بہ وجہ الله عزوجل والدارالآخرة
) فادخل فیہ رضی احدمن الناس کان مشرکا.( ٢
اگرکوئی شخص کسی عمل خیرکوانجام دے اوراس میں خداسے قربت اورعاقبت
بخیرکاارادہ کرے اوراس کے ساتھ کسی شخص کی رضایت حاصل کرنے کابھی قصدرکھتاہوتووہ
شخص مشرک ہے ۔
--------
. ٢)تہذیب الاحکام /ج ۴/ص ١٨۶ ) . ١(تہذیب الاحکام /ج ١/ص ٨٣ ۔ج ۴/ص ١٨۶ (
چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کاراز
وضو میں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ کے بارے میں
چندروایت ذکرہیں:
١۔روایت میں ایاہے کہ ایک دن یہودی کی ایک جماعت نبی اکرم پیغمبراکرم (صلی الله علیھ
و آلھ)کی خدمت میں مشرف ہوئی اوران سب سے بڑے عالم نے آنحضرتسے مختلف چیزوں کے
بارے میں سوالات کئے اورمتعددمسائل کی علت بھی دریافت کی،انھوں نے آنحضرت سے ایک
سوال یہ بھی کیا:اے محمد!آپ ہمیں اس چیزسے مطلع کریں کہ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے
دھونے اورسروپیرکے مسح کرنے کارازکیاہے جبکہ یہ انسان کے بدن کے نظیف اورپاکیزہ ترین
اعضا ہیں؟آنحضرت نے ان سے فرمایا:
لمّااَن وَسوَسَ الشَّیطَان اِلٰی آدَم علیہ السلام دَنامِنَ الشَّجرةِ فَنَظَرَاِلَیْہَا فَذَ ہَبَ ماء وَجہِہِ
،ثمّ قام ومشی الیہاوہی اوّل قدم مشت الی الخطیئة ثمّ ت ناول بیدہ منہامماعلیہاواَکل
فطارالحلی والحل عن جسدہ فوضع آدم یدہ علی راسہ وبکی فلمّاتاب الله عزّوجل فرض الله علیہ
وذریتہ تطہیرہذہ الجوارح الاربع فاَمرالله تعالی لغسل الوجہ لمّانظرالی الشجرة ،واَمرہ بغسل
الیدین الی المرفقین لمّات نامنہا،واَمرہ بمسح الراس لمّاوضع یدہ علی ام راسہ ،واَمرہ بمسح
القدمین لما مشی بہا الی الخطیئة.
جب شیطان نے حضرت آدم (علیھ السلام)کے دل میں وسوسہ ڈالااورآپ کواس درخت سے
قریب کردیاکہ جس کے قریب جانے سے منع کیاگیاتھا،جیسے ہی آدم (علیھ السلام)نے اس درخت
پرنگاہ ڈالی توآپ کے چہرے کی رونق ونورانیت چلی گئی ،اس کے بعدآپ کھڑے ہوگئے اورپھر
درخت کی جانب حرکت کی ،عالم ہستی میں کسی خطاکی طرف اٹھنے والا سب سے
پہلاقدم تھا،پھرآپ نے ہاتھوں سے درخت سے میوہ توڑکرت ناول کیاتوآپ کے جسم سے لباس
وزینت اترگئے جس کی وجہ سے آپ اپنے سرپہ ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے اورروکرتوبہ کرنے لگے،جب
خداوندعالم نے آدم کی توبہ قبول کی توآپ پراورآپ کی اولادپران چاراعضا کے دضودینے کوواجب
قراردیا۔
خداوندعالم نے حضرت آدم(علیھ السلام) کوچہرہ دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے
اس درخت کی جانب نگاہ کی تھی تواس کی وجہ سے چہرہ کی رونق چلی گئی تھی
اورکہنیوں سمیت دونوں ہاتھوں کے دھونے کاحکم اس لئے دیاکیونکہ آپ نے ہاتھوں کے ذریعہ
درخت سے پھل توڑکرت ناول کیاتھااورسرکے مسح کرنے کاحکم اسلئے دیاکیونکہ جب آپ برہنہ
ہوئے تواپنے سرپر ہاتھ رکھ کربیٹھ گئے تھے جس کی وجہ سے خدانے سرکے مسح کرنے
کاحکم دیااورچونکہ آدم (علیھ السلام) اپنے ان دونوں پیروں کے ذریعہ چل کرممنوعہ درخت کی جانب
) گئے تھے توخدانے حکم دیا:اے آدم!اپنے دونوں پاؤں کابھی مسح کرو۔( ١
--------
. ١ (من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۵۶ (
روایت میں آیاہے : رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ)نماز صبح کے بعد بین الطلوعین(طلوع
فجروطلوع آفتاب) مسجد میں بیٹھتے تھے اور لوگوں کے سوالوں کا جواب دے دیتے تھے کہ ایک
دن دولوگوں نے اپنے سوال کوآنحضرت کی خدمت میں مطرح کر ناچاہا توجس شخص کی نوبت
پہلے تھی آنحضرت نے اس سے فرمایا : اے بھائی!اگر چہ تم اپنے اس دوسرے بھائی پر مقدم
ہو اگر اجازت ہو تو اپنی نوبت اس شخص کو دیدو کیونکہ اسے ایک بہت ضروری کام درپیش ہے
اس شخص نے آنحضرت کی فرما ئش کو قبول کیا،اس کے بعدآپ نے فرمایا : اے بھائی! میں
بتاؤ تم مجھ سے کیامعلوم کرنا چا ہتے تھے یاخودہی بتاناپسندکروگے ؟ دونوں نے عرض کیا :
یارسول ا لله ! آپ ہی بیان کیجئے ، رسول خدا (صلی الله علیھ و آلھ) نے فرمایا:
تم میں ایک شخص حج کے بارے میں سوال کرناچاہتاہے اور دوسرا شخص ثواب وضو
سے مطع ہونا چاہتا ہے ،پہلے آپ نے ثواب وضوسے مطلع ہونے شخص کاجواب دیاتاکہ
دوسراشخص بھی اس سے مطلع ہوجائے لہٰذاآپ نے فرمایا:
وضومیں چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سروپیروں کا مسح کرنے میں ایک راز
پایاجاتاہے، وضو میں چہرہ دھونے کارازیہ ہے بارالٰہا!میں تیری بارگاہ میں کھڑے ہوکر عبادت کررہا
ہوں اور پاک پیشانی کے ساتھ خاک پر سررکھتاہوں ، وضو میں ہاتھوں کا دھونے کے معنی یہ
ہیں: خدایا !میں ان ہاتھوں کے ذریعہ انجام پانے والے گناہوں کو ترک کررہاہوں اور اب تک ان ہاتھوں
کے ذریعہ جن گنا ہوں کا مرتکب ہواہوں ان سب نادم ہوں اورانھیں اپنے ان ہاتھوں سے پاک کرہا
ہوں ، وضو میں سرکا مسح کرنے کامعنی ہیں: یعنی بارالٰہا ! وہ خیا ل باطل اور نا پاک ارادے
جومیں نے اپنے سرمیں داخل کئے ہیں ان سب ناپاک ارادوں کو ذہن سے خارج کرتا ہوں، پیروں
کا مسح کرنے کے معنی ہیں: بارلہا ! میں اپنے ان قدموں کوہر برائی کی طرف جانے سے اپنے
قدموں کو محفوظ رکھوں گا اور جت نے بھی گناہ ان پیروں سے سرزدہوئے ہیں ان سب کو اپنے
) آپ سے دورکرتا ہوں۔( ١
--------
. ١ (ہزارویک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ١۶٧ /ص ۵٣ (
فضل بن شاذان سے روایت ہے :امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی تم سے یہ معلوم
کرے کہ چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاؤں کامسح کرناکیوں واجب ہے تواسے اس طرح جواب
دو:
لانّ العبداذاقام بین یدی الجبارقائماینکشف من جوارحہ ویظہرماوجب فیہ الوضوء وذلک انّہ
بوجہہ یستقبل ویسجدویخضع وبیدہ یسئل ویرغب ویرہب ویتبتل وبراسہ یستقبل فی رکوعہ
وسجودہ وبرجلہ یقوم ویقعد.
جب بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں قیام کرتاہے تواپنے اعضاء وجوارح سے مانع اورحاجب
کودورکرتاہے اوروہ اعضاکہ جن کووضومیں دھوناہے یامسح کرناواجب ہے ان کے ذریعہ بندگی
کااظہارکرتاہے،کیونکہ نمازمیں چہرے کاقبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اوراس کے ذریعہ سجدہ
کیاجاتاہے اورخضوع وخشوع کااظہارکیاجاتاہے اورہاتھوں کے ذریعہ بارگاہ ربوبیت میں سوال
کیاجاتاہے ،حاجتوں کوطلب کیاجاتاہے اورغیرخداکواپنے آپ سے منقطع قراردیاجاتاہے اورہاتھوں
ہی کے ذریعہ ایک حالت سے دوسری میں منتقل ہوجاتاہے اوررکوع و سجودمیں جانے کے لئے
اورقیام وقعودکے بھی دونوں ہاتھوں کاسہارالیاجاتاہے ، اورسرکے ذریعہ اپنے آپ کورکوع
وسجودمیں قبلہ کی سمت رکھناواجب ہے اورپیروں کے ذریعہ اٹھااوربیٹھاجاتاہے اسی لئے
وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسج کرنے حکم دیاگیاہے۔
. علل الشرائع/ج ١/ص ٢۵٧
وضومیں تمام دھونایاتمام مسح کیوں نہیں ہے؟
وضومیں چہرہ اورہاتھوں کادھونااورسروپاو ںٔ کامسح کرناواجب قرار دیا گیا ہے،وضومیں نہ
تمام دھوناہے اورنہ تمام کومسح کرناہے بلکہ بعض کودھویاجاتاہے اوربعض کومسح کیاجاتاہے
اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وضومیں تمام اعضا کودھوناکیوں نہیں ہے یاتمام کومسح
کومسح کرناکیوں نہیں ہے اس کی وجہ اوررازکیاہے؟
فضل ابن شاذان سے مروی ہے کہ امام علی رضا نے وضومیں چہرہ اورہاتھوں کا دھونے
اورسروپاو ںٔ کامسح کرنے کی چندوجہ بیان کی ہیں:
١۔رکوع وسجودیہ دونوں ایسی عظیم وبرترعبادت ہیں کہجنھیں چہرے اوردونوں ہاتھوں
سے انجام دیاجاتاہے نہ سراوردونوں پاو ںٔ کے ذریعہ لہٰذاواجب ہے کہ وضومیں چہرہ اوردونوں
ہاتھوں کودھویاجائے تاکہ اس ذریعہ سے اورزیادہ طہارت اورپاکیزگی حاصل ہوجائے ۔
٢۔انسان روزانہ چندمرتبہ اپنے سراوردونوں پاو ںٔ کودھونے کی قوت نہیں رکھتاہے کیونکہ
سردی گرمی،سفروحضر،صحت وبیماری ،رات اور دن وغیرہ جیسے تمام حالات میں سراورپاو ںٔ
کے دھونے میں دشواری ہے لیکن سروپاو ںٔ کے دھونے کے مقابلہ میں چہرہ اورہاتھوں کاکوئی
مشکل کام نہیں ہے اورسروپاؤں کے دھونے سے بہت زیادہ آسان ہے اسی لئے وضومیں چہرہ
اورہاتھوں کودھونے اورسروپاو ںٔ کے دھونے کاحکم دیاگیاہے ۔
٣۔ چہرہ اوردونوں ہاتھ غالباًکھلے رہتے ہیں لیکن سرٹوپی، عمامہ یاپگڑی سے چھپارہتاہے
اورپاو ؤں بھی جوتے اورموزہ سے چھپے رہتے ہیں اس لئے وضومیں چہرہ اورہاتھوں
کودھویاجاتاہے اورسروپاو ؤں پرفقط مسح کیاجاتاہے۔
. عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١
وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کے چند علل واسباب
اوربھی ذکرکئے گئے ہیں جومندرجہ ذیل ذکرہیں:
١۔ چونکہ انسان ان اعضاء کو بہت زیادہ بروئے کارلاتاہے اوران کواپنے کاموں میں بہت
زیادہ استعمال کرتاہے اس لئے خدانے بعض اعضاء کے دھونے اوربعض کے مسح کرنے کاحکم
دیاہے ۔
٢۔ انسان دوسرے اعضاء کے مقابلے میں ان اعضاء کے ذریعہ گناہوں کازیادہ مرتکب
ہوتاہے جسکی وجہ سے یہ اعضاء آلودہ ہوجاتے ہیں۔
٣۔ وضومیں چہرہ اورہاتھوں کے دھونے کواس لئے واجب قرادیاگیاہے تاکہ انسان اپنے دل
میں یہ خیال پیداکرے کہ جس طرح ان اعضاء کودھوناضروری ہے دل ودماغ کوگناہوں کی گندگی
سے پاک کرنااس سے کہیںزیادہ ضروری ہے کیونکہ انسان دل ہی کے ذریعہ نمازمیں باری
تعالیٰ کی متوجہ ہوتاہے اورخدالوگوں کے چہروں کونہیں دیکھتا بلکہ دلوں پرنگاہ ڈالتاہے کیونکہ
دل تمام اعضائے بدن کابادشاہ اورفرمانرواہوتاہے اوراعضائے وضودل ہی کے حکم سے گناہوں کی
طرف حرکت کرتے ہیں اورانسان کویادالٰہی سے غافل کرتے ہیں لہٰذاان اعضاء کودھونے سے
پہلے قلب کودھولیناچاہئے تاکہ انسان ظاہری اورباطنی پلیدگی سے پاک ہوکرمعبودحقیقی کی
عبادت کرے۔
۴۔ ان اعضاء دھونے کاایک رازیہ بھی ہے کہ ہاتھ اورچہرہ کے دھو نے کامقصدیہ ہے کہ ہم
دنیاسے ہاتھ دھورہے ہیں اورغیرخداکی طرف ہونے سے منھ پھیررہے ہیں۔
انسان کوسعادت اورخوش بختی اسی وقت نصیب ہوسکتی ہے جب اس کے ہاتھ
اورصورت دنیاوی پلیدگی میں آلودہ نہ ہوں کیونکہ دنیاوآخرت دوایسی چیزیں ہیں کہ انسان ان
دونوں میں سے جس سے جت نازیادہ قریب ہوتاجائے گا دوسری سے ات ناہی زیادہ
دورہوتاجائے گالہٰذاانسان کوچاہئے کہ بارگاہ خداوندی میں قیام کرنے سے پہلے دنیاسے ہاتھ
دھوئے اوراسسے اپنامنھ پھیرلے۔
۵۔ وضومیں سب سے پہلے چہرہ دھویاجاتاہے جس کاراز یہ ہے کہ ظاہری صورت باطنی
صورت کاآئینہ ہوتی ہے اورچہرے پرخداکی طرف متوجہ ہونے کے آثاردوسرے اعضاء وضو کے
مقابلہ میںزیادہ نمایاں ہوتے ہیں اسی لئے وضومیں چہرہ دھونے کومقدم کیاگیاہے۔
۶۔وضومیں ہاتھوں کے کہنیوں سمیت دھونے کواس لئے واجب قراردیاگیاہے کیونکہ یہی
ہاتھ ہوتے ہیں جودوسرے اعضاء کے مقابلے میں دنیاوی امورکی طرف زیادہ درازہوتے ہیں اور
گناہوں میں آلودہ ہوتے ہیں لہٰذاخداوندمتعال کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے ہاتھوں کوآلودگی
سے پاک کرلیناضروری ہے۔
٧۔سرکے مسح کرنے کافلسفہ یہ ہے کہ دماغی طاقت اسی کے اندرواقع ہے
اوردنیاوی(مادّی وشہوتی) مقاصدحاصل کرنے کاارادہ اسی کے ذریعہ شروع ہوتاہے اورمادّی
وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونامعنوی توجہ پیدانہ کرنے کاسبب واقع ہوتی ہیں اورمادی
وشہوتی امورکی طرف سرہی کے ذریعہ متوجہ ہواجاتاہے لہٰذاسرکے مسح کرنے کامقصدیہ ہے
کہ ہم مادّی وشہوتی امورکی طرف متوجہ ہونے سے دوری اختیارکررہے ہیں اوراپنارخ خداکی
جانب کررہے ہیں۔
٨۔ پیروں کے مسح کرنے کارازیہ ہے کہ انسان انھیں کے ذریعہ تمام دنیاوی مقاصدکی
جانب بڑھتاہے اورانھیں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے لہٰذاہم سرکے اگلے حصہ پرمسح کے
ذریعہ اپنی جہت کوبدل رہے ہیں اور خداکی جانب حرکت کررہے ہیں کیونکہ عبادت خداکے ذریعہ
اسی وقت سعادت نصیب ہوسکتی ہے اورالله کے ذکرسے اسی وقت دل کوآرام مل سکتاہے
) جب ہم اپنی راہ کودنیاوی مقاصدسے خداکی طرف موڑدیں۔( ١
--------
. ١ (قصص الصلاة/ج ٢/ص ٢۴ ۔ ٢۶ (
محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں
جوخط لکھے گئے ان میں ایک خط میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک
سوال یہ بھی تھاکہ وضومیں چہرہ اوراہاتھوں کے دھوے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کی وجہ
کیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے اس خط کے جواب میں تحریرکیااوراس طرح وجہ بیان کی:
وضومیں چہرہ اوردونوں ہاتھوں کے دھونے اورسروپاؤں کے مسح کرنے کوواجب
قراردیاگیاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب حق تعالیٰ کی بارگاہ میں قیام کرتاہے توان
چاراعضاوجوارح سے اس سے ملاقات کرتاہے ،چہرے کے دھونے کواس واجب قراردیاگیاہے
کیونکہ اس کے ذریعہ سجوداورخضوع کرناواجب ہے اوردونوں ہاتھوں کے دھونے کااس لئے حکم
دیاگیاہے کیونکہ انھیں حرکت دی جاتی ہے اوران کے ہی ذریعہ میل ورغبت ،خوف وحشت
اورقطع کرناوجداکرناانجام پاتاہے لہٰذاان دونوں کے دھونے کوواجب قراردیا گیاہے اورسرودونوں
پاؤں کے مسح کرنے کااس لئے حکم دیاگیاہے کیونکہ یہ دونوں ظاہرومکشوف یعنی کھلے رہتے
ہیں اورتمام حالات میں ان کے ذریعہ استقبال کیاجاتاہے اوروہ خضوع خشوع جوچہرے اوردونوں
میں نہیں پائی جاتی ہے وہ ان دونوں میں پائی جاتی ہے ۔
. علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨٠
مرحوم کلینی نے اپنی کتاب “الکافی” میں ایک روایت نقل کی ہے:ابن اذینہ سے مروی
ہے کہ ایک دن امام صادق نے مجھ سے فرمایا:یہ ناصبی لوگ کس طرح کی روایت نقل کرتے
ہیں؟میں نے کہا:آپ پرقربان جاؤں کس بارے میں؟آپ (علیھ السلام) نے فرمایا: اذان، رکوع
،سجودکے بارے میں؟ میں عرض کیا:وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان تمام مسائل کو“ابی ابن کعب” نے
خواب میں دیکھاہے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:
وہ جھوٹ کہتے ہیں، دین خداتو خواب میں دیکھنے سے بھی کہیں درجہ بلندوبالاہے
،راوی کہتاہے کہ اسی وقت سدیرصیرفی نے امام (علیھ السلام) سے عرض کیا:ہم آپ پرقربان
جائیں !آپ ہمارے لئے اس بارے میں کچھ بیان کیجئے ،امام (علیھ السلام) نے فرمایا:جب نبی اکرم
(صلی الله علیھ و آلھ)معراج پرگئے اورساتوے آسمان پرپہنچے …آنحضرت سے کہاگیا:اے محمد!اپنے
سرکوبلندکرواوراوپرکی طرف نگاہ کرو،نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کہتے ہیں کہ :میں نے جیسے
ہی سربلندکیاتودیکھاکہ آسمان کے تمام طبقے شکافتہ ہوگئے ہیں اورآسمان کے تمام پردے
اٹھالئے گئے ہیں ،اسکے بعدمجھ سے کہاگیا:
اے محمد!اب نیچے کی طرف بھی دیکھو!میں نے جیسے نیچے کی طرف نگاہ ڈالی
توخانہ کٔعبہ کے مانند ایک گھرنظرآیااورمسجدالحرام کے مانندایک حرم دیکھا،اگرمیں اس وقت
اپنے ہاتھ سے کوئی چیزنیچے کی طرف چھوڑتاتووہ سیدھی اسی حرم میں آکرگرتی ،اس وقت
مجھ سے کہاگیا:
یامحمدااِنّ ہذالحرم وانت الحرام ولکل مثل مثال ثمّ اوحی الله الیّ :یامحمد! ادن من
“صاد”فاغسل مساجدک وطہرہاوصلّ لربّک۔
اے محمد!یہ حرم ہے اورتومحترم اورہرایک چیزکی ایک مثالی تصویرہوتی ہے ،اس کے
بعدمجھ پروحی نازل ہوئی اورمجھ سے کہا گیا :اے محمد!صاد( ١)کے قریب جاؤاوراپنے اعضاء
سجدہ کوپانی سے دھوؤاوراپنے پروردگارکے لئے نمازپڑھو،رسول اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)صادکے
قریب پہنچے اوردائیں ہاتھ کی چلّومیں پانی لیا ،چونکہ نبی نے دائیں ہاتھ سے پانی چلومیں
لیاتو اسی لئے دائیں ہاتھ سے وضوکرناسنت قرار پایا، پھر خدا نے وحی نازل کی:
اغسل وجہک فانک ت نظرالیٰ عظمتی ثمّ اغسل ذراعیک الیمنیٰ والیسریٰ فانّک تلقی
بیدک کلامی ثمّ امسح راسک بفضل مابقی فی یدک من الماء ورجلیک الیٰ کعبیک۔
اپنے چہرہ دھوؤکیونکہ تم اس کے ذریعہ میری عظمتوں کامشاہدہ کرتے ہو،اس کے
بعداپنے دائیں اوربائیں ہاتھ کوکہنیوں سمیت دھوؤکیونکہ تم ان ہی ہاتھوں کے ذریعہ میرے کلام
کوحاصل کرتے ہو،اس کے بعدہاتھ پرباقیماندہ پانی کی رطوبت کے ذریعہ سرکا اورپیروں کاکعبین
تک مسح کروپھرمیں تمھیں ایک خوشی طعاکروں گااورتمھارے قدموں کووہاں تک پہنچادوں گاکہ
) جہان پرآج تک کسی نے قدم نہیں رکھاہے( ١
١(صادوہ پانی ہےجوعرشکی بائیں پنڈلی سے جاری ہے.( ١)کافی /ج ٣/ ص ۴٨۵ (
۴۔خروج پیشاب ،پیخانہ اورریح سے وضوکے باطل ہونے کی وجہ
پیشاب ،پیخانہ ،ریح کے خارج ہونے اورمجنب ہوجانے سے وضوباطل ہوجاتی ہے
خداوندعالم قرآن کریم ارشادفرماتاہے:
>اَوْجَآءَ اَحَدٌ مِّنکُمْ مِنَ الْغَائِطِ اَوْلَامَسْتُمُ النِّسَاءَ.<
وضوکرو!اگرتم میں سے کسی پاخانہ نکل آئے یاعورت کولمس کرو(اورمنی نکل (
توطہارت کرو)۔
. سورہ نٔساء/آیت ۴٣ ۔سورہ مٔائدہ/آیت ۶
عن زرارة قال:قلتُ لابی جعفر،وابی عبدالله علیہماالسلام :ماینقض الوضوء ؟ فقالا:مایخرج
من طرفیک الاسفلین : من الذکروالدبر ، من الغائط والبول ، ا ؤالمنی ا ؤریح ، والنوم حتی یذہب
العقل.
زرارہ سے مروی ہے کہ میں نے امام محمدباقر اورامام جعفرصادق +سے پوچھا:کن
چیزوں کے ذریعہ وضوباطل ہوجاتاہے ؟پس دونوں امام (علیھ السلام)نے فرمایا:وہ چیزکہ جوتمھارے
نیچے کے دونوں حصے آلہ ت ناسل اوردبرسے خارج ہوتی ہیں یعنی پیشاب اورپاخانہ ،منی
،ریح،ایسی نیندکہ جسکے ذریعہ عقل ضائع ہوجائے۔
. کافی /ج ٣/ص ٣۶
امام علی رضا فرماتے ہیں:اگرکوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ وہ چیزیں جوطرفین سے
یعنی قُبل ودُبرسے خارج ہوتی ہیں ان کے ذریعہ اورنیندکے ذریعہ وضوباطل ہو جاتی ہے کسی
دوسری چیزکے ذریعہ وضوکیوں باطل نہیں ہوتی ہے ؟اس کاجواب یہ ہے:
کیونکہ طرفین یعنی قُبل ودُبردوایسے راستے ہیں جن کے ذریعہ نجاست خارج ہوتی ہے
اورانسان میں ان دوراستوں کے علاوہ نجاست خارج ہونے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے
جوانسان سے خودبخودلگ جائے اوراسے مت نجس کردے لہٰذاجس وقت ان دوراستوں سے
نجاست خارج ہوتی ہے توانسان پاک ہوتاہے اوران دوراستوں کے ذریعہ نجاست نکلتے ہیں مت
نجسہوجاتاہے لہٰذاطہارت حکم دیاگیاہے ۔
لیکن نیندکہ جب وہ انسان پرغالب آجاتی ہے تواس کے ذریہ بھی وضوباطل ہوجاتی ہے
کیوں نکہ جوچیزانسان میں منافذہوتی ہے وہ کھل جاتی ہیں اورسست ہوجاتی ہیں
اورغالباًایسے حال میں چندچیزیں خارج ہوتی ہیں کہ جسکی وجہ سے وضوکرناواجب ہوتاہے ۔
. عیون اخبارالرضا /ج ١/ص ١١١
کھانے ،پینے سے وضوکے باطل نہ ہونے کی وجہ
کسی چیزکے کھانے پینے سے وضوباطل نہیں ہوتی ہے ،اس کی وجہ حدیث میں اس
طرح بیان کی گئی ہے ۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم : توضو أممایخرج منکم ، ولاتوضو أ ممایدخل فانہ
یدخل طیبایخرج خبیثا.
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:ان چیزوں کی وجہ سے باطل ہوجاتاہے کہ
جوتمھارے بدن سے خارج ہوتی ہیں اوران چیزوں سے وضوباطل نہیں ہوتاہے کہ تمھارے بدن میں
داخل ہوتی ہیں کیونکہ بدن میں پاک چیزجاتی ہے اوربدن سے خارج ہونے والی چیزخباثت
کاحکم رکھتی ہیں۔
. علل الشرائع /ج ١/ص ٢٨٢
آب وضوکے پاک، مباح اورمطلق ہونے اوربرت ن کے مباح ہونے کی وجہ
جس پانی سے وضویاغسل کرتے ہیں اس کاپاک ،مطلق اورمباح ہوناضروری ہے ،
اگرانسان عمداًیاسہواًنجس ، مضاف یاغصبی پانی سے وضویاغسل کرے تووہ وضواورغسل باطل
ہے اوراس سے پڑھی جانے والی نمازیں بھی باطل ہیں،خواہ نمازکے لئے وقت باقی ہویانہ
ہواورچاہے پہلے سے پانی کے نجس یاغصبی ہونے کاعلم رکھتاہویانہ کیونکہ نجس یاغصبی
پانی سے وضوکرنے سے خداسے تقرب حاصل نہیں ہوسکتاہے بلکہ خداسے تقرب حاصل کرنے
کے لئے طہارت شرط ہے ۔
غصبی پانی یاغصبی برت ن سے وضوکے باطل ہونے کاسبب یہ ہے کیونکہ اگرغیرمباح
ظرف یاپانی سے وضوکیاجائے تواسے تصرف غصبی میں شمارہوجائے گااورتصرف غصبی حرام
ہے پس جب تصرف حرام ہے توعبادت بھی باطل ہے دوسرے یہ کہ وضومیں قصدقربت شرط ہے
،غصبی پانی کے ذریعہ وضو کرنے سے قصدقربت حاصل نہیں ہوسکتی ہے پس جب قصدقربت
کاوجودنہیں ہے تووضوباطل ہے ۔
قال امیرالمومنین علیہ السلام : انّ الله تعالیٰ فرض الوضوء علی عبادہ بالماء الطاہروکذلک
الغسل من الجنابة.
حضرت علی فرماتے ہیں:خداوندعالم نے اپنے بندوں پرواجب قراردیاہے کہ وضوکوپاک پانی
کے ذریعہ انجام اووراسی طرح غسل جنابت کو۔
۶۔خودوضوکرنے کی شرط کی وجہ:
وضوکے شرائط میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان اپناوضوخودکرے یعنی اپنے چہرے، دونوں
ہاتھوں کوخود دھوئے اورسروپاو ںٔ کامسح بھی خودکرے ،اگرکوئی شخص بغیرکسی مجبوری
کے کسی دوسرے سے وضوکرائے یعنی کوئی دوسراشخص اس کے چہرے کویاہاتھوں
کودھوئے ،سریاپیرکامسح کرے تواس کی وضوباطل ہے مگریہ کہ خودوضوکرنے کی قدرت نہیں
رکھتاہواوربغیرکسی مجبوری کے کسی دوسرے سے پانی وضوکے لئے پانی ڈلوانامکروہ ہے
جسکی وجہ قرآن وسنت اس طرح بیان کی گئی ہے:
>فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْالِقَاءَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاًصَالِحًاوَّلَایُشْرِک بِْعِبَادَةِ رَبِّہِ اَحَدًا<
جوبھی اپنے رب سے ملاقات کاامیدوار ہے اسے چاہئے کہ عمل صالح کرے اورکسی
کواپنے پروردگارکی عبادت میں شریک قرارنہ دے ۔
. سورہ کٔہف/آیت ١١٠
شیخ صدوقنے “من لایحضرہ الفقیہ”میں ایک روایت نقل کی ہے:
کان امیرالمومنین علیہ السلام اذاتوضا لٔم یدع یصب علیہ الماء قال:لاا حٔبّان اشرک فی
صلاتی احداً.
امیرالمومنین حضرت علیجب بھی وضوکرتے تھے توکسی کوپانی ڈالنے کی اجازت نہیں
دیتے تھے اورفرماتے تھے :میں اپنی نمازوعبادت میں کسی کوشریک کرناپسندنہیں کرتاہوں۔
. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ۴٣
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:خصلتان لااُحب ان یشارکنی فیہمااحد:وضوئی فانہ من
صلاتی وصدقتی فانہامن یدی الی یدالسائل فانہاتقع فی یدالرحمن.
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:دوخصلت ایسی ہیں کہ میں ان میں کسی
دوسرے کوشریک کرناپسندنہیں کرتاہوں: ایک میراوضوکیونکہ وہ میری نمازکاحصہ ہے دوسرے
میراصدقہ کیونکہ میرے ہاتھوں سے سائل کے ہاتھوں میں پہنچتاہے اورچونکہ وہ خدائے کے
ہاتھوں میں پہنچتاہے۔
. خصال (شیخ صدوق)ص ٣٣
٧۔سورج کے ذریعہ __________گرم پانی سے وضوکرنے کی کراہیت کی وجہ:
سورج کے ذریعہ گرم شدہ پانی سے کوئی حرج نہیں ہے البتہ مکروہ ہے
قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم : الماء الذی تسخنہ الشمس لاتتوضو أ بہ ،
ولاتغسلوا بہ ولاتعجنوا بہ ، فانہ یورث البرص.
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں:وہ پانی کہ جسے سورج نے گرم کردیاہے اس
سے وضونہ کرواورغسل بھی نہ کرواوراس کے ذریعہ آٹے کوخمیربھی نہ کروکیونکہ اس کے
ذریعہ برص کے مرض کاخطرہ ہے ۔
علل الشرائع/ج ١/ص ٢٨١
|