نمازکے آداب واسرار
 


رازاطاعت وبندگی

١۔انسان عبادت کے لئے پیداہواہے
الله تبارک وتعالیٰ نے دنیامیں کسی بھی مخلوق کو بے کار و بیہودہ خلق نہیں کیاہے بلکہ ان سب کی کوئی وجہ خلقت ضرورہے اوران سب چیزوں کے خلق کرنے میں کوئی راز و فلسفہ و سبب پایاجاتاہے اوروہ یہ ہے کہ خداوندعالم نے جن وانس کو اس لئے پیداکیاہے کہ وہ
اس کی عبادت کریں جیساکہ قرآن کریم میں ارشادخداوندی ہے: ) >وَمَا خَقَلْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلّا لِیَعْبُدُون.>( ١
میں نے جن وانسکونہیں پیدا کیا مگریہ کہ وہ( میری )عبادت وبندگی کریں۔
جمیل ابن دراج سے مروی ہے میں نے امام صادق سے اس آیہ مٔبارکہ کے بارے میں سوال کیااورکہا:اے میرے مولا!آپ پرمیری جان قربان ہو،آپ مجھے اس قول خداوندی کے معنی
ومفہوم سے آگاہ کیجئے ؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:یعنی خداوندعالم نے تمام جن وانس کوعبادت کے لئے پیداکیاہے ،میں کہا:خاص لوگوں یاعام لوگوں کو؟امام (علیھ السلام) نے فرمایا:عام
) لوگوں کواپنی عبادت کے لئے خلق کیاہے ۔( ٢
دنیاکی ہرشے رٔب دوجہاں کی تسبیح وتقدیسکرتی ہے بعض موجودات ایسے ہیں جو ہمیشہ قیام کے مانند کھڑا رہتے ہیں الله کی حمدوثنا کرتے رہتے ہیں وہ درخت وغیرہ ہیں اوربعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ رکوع کی مانندخمیدہ حالت میں رہتے ہیں جیسے
چوپائے، اونٹ، گائے ،بھیڑ، بکریاں
--------
. ٢)علل الشرائع/ج ١/ص ١۴ ) . ١(سورہ زاریات/آیت ۵۶ (
وغیرہ اوربعض ایسے بھی جو ہمیشہ زمیں پرسجدہ کے مانندپڑے رہتے ہیں وہ حشرات اورکیڑے وغیرہ ہیں اور بعض موجودات ایسے ہیں جوہمیشہ زمین پر بیٹھے رہتے ہیں وہ حشیش و نبا تات وگل وگیا ہ وغیرہ ہیں جیساکہ قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
>اَلَمْ تَرَاَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِیْ السَّمَوٰاتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرِصٰآفّٰاتٍ کُلُّ قَدْعَلِمَ صَلَاتَہ ) وَتَسْبِیْحَہ وَاللهُ عَلِیْمٌ بِمَایَفْعَلُوْنَ>.( ١
کیاتم نے نہیں دیکھاہے کہ الله کے لئے زمین وآسمان کی تمام مخلوقات اور فضاکے صف بستہ طائرسب تسبیح کررہے ہیں اورسب اپنی اپنی نمازوتسبیح سے باخبر ہیں اورالله بھی ان کے اعمال سے خوب واقف ہے۔

٢۔شکرمنعم واجب ہے
زمین وآسمان،آفتاب وماہتاب، چگمگاتے تارے ، پھول اورپودے ،پھولوں میں خوشبو، کلیوں میں مسکراہٹ ،غنچوں میں چٹخ ،چڑیوں میں چہک ،زمین میں ہرے بھرے جنگل ، میٹھے
اوررسیلے پھلوں سے لدے ہوئے درخت ،یہ موج مارتے دریاوسمندر، آسمان میں اڑتے ہوئے پرندے، چہکتی ہوئی چڑیاں،آسمان سے نازل ہونے والے برف وبارش کے قطرے، درختوں کے پتے ،یہ ہیرے وجواہرات، یہ سونے وچاندی اورنمک وکوئلے کی کانیں،یہ جڑی بوٹیاں اوردیگربے
شماراوربے حساب نعمتیں جوالله کی طرف سے انسان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہیں اورپوری زندگی ہرطرف سے اورہرآن میں نازل ہوتی رہتی ہیں۔
اس نے ہمیں سوچنے ،سمجھنے اورغوروفکرکرنے کے لئے عقل وشعور،علم وفہم، رنگوں اورشکلوں کی پہچان کے لئے قوت بینائی ،آوازوں کو سننے کے لئے قوت سامعہ، ذائقہ چکھنے لئے زبان،
--------
. ١(سورہ نٔور/آیت ۴١ (
خوشبو اور بدبوکی شناخت کے لئے قوت شامہ ،گرم و ٹھنڈا محسوس کرنے لئے قوت لامسہ عطاکی ہے اوراس نے ہمیں اس معاشرے میں عزت وشرافت ،جود وسخاوت اور مال ودولت وغیرہ جیسی نعمتیں عطاکی ہیں،کیا تمام نعمتوں پراسکاشکرادانہ کیاجائے.
اگر کوئی بادشاہ کسی شخص کوایک تھیلی اشرفی عطاکردے تووہ کس قدراس کامریدبن جاتاہے ،کس قدراسے یادکرتاہے اوراس کی کت نی زیادہ تعریفیں کرتاہے لیکن جس نے ہمیں ان نعمتوں سے مالامال کیاہے اس کی ان تمام نعمتوں کودیکھ کرہماہمارافرض بنتاہے
کہ اس کی عطاکی ہوئی بے کراں نعمتوں کا شکراداکریں،اس کی تعظیم واکرام کریں،اس کے ہرحکم کے آگے اپناسرتسلیم کریں،اس کی عظمت کی خاطرزمین سجدہ کے لئے پیشانی
رکھدیں،اس کی حمدوثناکریں ،اس کی عبادت اورپرستش کریں،لیکن جس نے تمھیں رحم مادرمیں جگہ دی ہو اور وہاں چند اندھیرے پردوں میں تمھاری حفاظت کی ہے خداوندعالم نے قرآن کریم می 0کرمنعم کوواجب اور کفران نعمت کوحرام قراردیاہے :
>وَاشْکُرُوْلِیْ وَلَاتَکْفُرُوْنِ>( ١) تم میراشکر ادا کرو اورکفران نعمت نہ کرو۔
اورسورہ قٔریشمیں اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشادفرماتاہے:
) >فَلْیَعْبُدُوْارَبَّ ہٰذَاالْبَیْتِ الّذِیْ اَطْعَمَہُمْ مِنْ جُوْعٍ وَآمَنَہُمْ مِنْ خُوْفٍ>( ٢
اے رسول !اپنے زمانے کے ان لوگوں سے کہدیجئے کہ اس گھرکے مالک کی عبادت کروجسکے طفیل میں یہ تجارت قائم ہے اوریہ امن وامان کی زندگی برقرارہے۔
علامہ ذیشان حیدرجوادی “ترجمہ وتفسیرقرآن کریم”میں اس آیہ مبارکہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
چھٹی صدی عیسوی میں مکہ کی آبادی تین حصوں پرمنقسم تھی ۔نصربن کنانہ کی
اولادقریش ،قریش کے حلیف دوسرے عرب اورغلام ،مکہ مکرمہ میں قریش تجارت پیشہ لوگ تھے اوران کے سال میں
--------
. ٢)سورہ بٔقرہ/آیت ١۵٣ ) ١(سورہ قٔریش/آیت ٣۔ ۴ (
دوسفرتجارت ہواکرتھے ، سردی میں یمن کی طرف اورگرمی میں شام کی طرف ،یہ اپنی تجارت میں لئے مضبوط اورکامیاب تھے کیونکہ مکہ کے رہنے والے تھے اورشام ویمن کے لوگ ان سے مرعوب رہاکرتے تھے اوردہشت زدہ بھی تھے ،ان کے مرعوب رہنے کی ایک وجہ تھی کہ بالآخرانہیں حج کے موسم میں مکہ جاناپڑتاہے لہٰذاقدرت نے اسی احسان
کویاددلاکربتلایاکہ ہراحسان کاایک تقاضہ ہوتاہے اورہمارے احسان کاتقاضہ یہ ہے کہ اس گھرکے مالک کی عبادت کروجسکے طفیل میں یہ تجارت قائم ہے اوریہ امن وامان کی زندگی برقرارہے۔
رب العالمین نے اپنی عبادت کوشکرکرنے کاطریقہ قراردیاہے:
) >بَلِ اللهَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ >( ١
تم صرف الله کی عبادت کرواوراسکے شکرگزاربندے بن جاؤ۔
انبیائے کرام اورآئمہ اطہار سے نہ کوئی خطا سرزد ہوئی ہے اورنہ ہوسکتی ہے کیونکہ وہ سب معصوم ہیں اورمعصوم سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہوسکتاہے لیکن شکرگزاری اوربندہ نوازی کے طورسے اس قدر نمازیں پڑھتے تھے کہ ان کے پیروں پرورم کرجاتے اور پیشانی و زانوئے مبارک پرگٹھے پڑگئے تھے ۔
زہری سے مروی ہے کہ : میں علی بن الحسین کے ہمرا ہ عبدا لملک بن مروان کے پاس
پہنچا توجیسے ہی عبدالملک کی نظر امام (علیھ السلام) پر پڑی تو آپ(علیھ السلام) کی پیشانی پرسجدوں کے نشا ن دیکھ کر تعجب سے کہا :
اے ابامحمد ! تمھاری پیشانی پر عبادت کے آثا ر نمایاں ہیں ،تمھیں اسقدر نمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟جبکہ خداوندعالم نے تمام خیرو نیکی کوتمھارے مقدرمیں لکھ رکھاہے، تم سے نہ کوئی گناہ سرزدہواہے اورنہ ہوسکتاہے ،کیونکہ تم پیغمبر خدا کے پارہ ت ن ہو،تمھارا ان سے مضبوط ومحکم رشتہ ہے ،تم
--------
. ١(سورہ زٔمر/آیت ۶۶ (
اپنے خاندان اور اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک عظیم مرتبہ رکھتے ہو، وہ علم وفضیلت
اورتقوی ودین جو تمھارے پاس ہے وہ تمھارے خاندان میں نہ کسی کے پاس تھا اور نہ اس وقت کسی کے پاس موجود ہے،ان تمام مراتب رکھنے کے باوجودپھربھی تم ات نی نمازیں پڑھتے ہوکہ پیشانی پرگٹھاپڑگیاہے۔
جب عبداالملک نے آپ کی اس طرح بہت زیادہ مدح سرا ئی کی تواس وقت امام سجاد -
نے فرمایا: یہ خداکے عطاکئے ہوئے تمام فضائل وکمالات جو تو نے میرے بارے میں بیان کئے ہیں کیا ان تمام نعمتوں پر شکرخدا نہ کروں ؟ اوراسکے بعدامام (علیھ السلام)نے عبدالملک سے کہا:
نبی اکرم (ص) اس قدرنمازیں پڑھتے تھے کہ پاہائے مبارک ورم کرجاتے تھے، جب آنحضرتسے کسی نے پوچھا:اے الله __________کے پیارے نبی! جب خدانے تمھارے اگلے پچھلے تمام گناہ( ١)معاف کردئے ہیں توپھرتمھیں یہ سب زحمت اٹھانے اوراس قدرنمازیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟آنحضرت نے فرمایا :
”اَفَلااَکُونُ عَبْداًشُکُوْراً ”کیاالله کے ان تمام احسانات پراوراس کی نازل کی ہوئی نعمتوں
پراس کاشکرگزاربندہ نہ بنوں؟
اس کے بعدامام (علیھ السلام) نے عبدالملک ابن مروان سے خطاب فرمایا: تعریف کرتاہوں خداکی ہر عطا کی ہوئی نعمت پر کہ جن کے ذریعہ وہ ہماراامتحان لیتا ہے ، دنیا و آخرت میں تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں، خدا کی قسم اس کی عبادت میں اگر میرا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے،میری آنکھیں نکل کرمیرے سینہ پرگرجائیں پھربھی اس کی عطاکردہ نعمتوں میں ایک نعمت کاایک دہائی شکرنہیں اداکرسکتاہوں، دنیا میں جت نے بھی لوگ خداکی حمدوثناکرتے ہیں ان سب کی حمدوثناخداکی ایک نعمت کے برابربھی نہیں ہوسکتی ہے
--------
١(سورہ فٔتح /آیت ٢.<لیغفراللھماتقدم من ذنبک>میں ذنب سے وہ گناہ مرادہیں (
جوکفارکے خیال میں نبی اکرم پرلگائے جاتے تھے ،کفارقریش آپ پرجادوگر،جنون،شاعر،کہانت اورہوس اقتدارکے الزام لگاتے تھے۔
بس میری زند گی یہی ہے کہ رات دن اور خلو ت وآشکا ر میں اس کا ذکر کر تا رہوں ،بیشک میرے اہل خانہ اور دوسرے لوگ بھی مجھ پرکچھ حقوق رکھتے ہیں( جن کااداکر نا مجھ پرلازم ہے )اگریہ حقوق میری گردن پرنہ ہوتے تو میں اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اور د ل کو خدا کی طرف متوجہ کر لیتا یہاں تک کہ میرے بدن سے روح قبض ہو جا تی اور میں ہر گزاس کی طرف سے اپنے دل اورآنکھوں کو نہ ہٹاتا اور وہ بہترین حکم کر نے والا ہے یہ کہہ کے امام ) سجاد رونے لگے اور عبدا لملک بھی رونے لگا۔( ١

٣۔انسان کی فطرت میں عبادت کاجذبہ پایاجاتاہے
خداوندعالم نے انسان کی طینت وفطرت میں عبادت کاجذبہ پیداکیاہے،لہٰذاانسان دنیامیں آنے کے بعدجیسے ہی عقل وشعور کی راہ میں قدم رکھتاہے تواس میں یہ فطرت پیداہوجاتی ہے کہ مجھے کسی عظیم ذات کی اطاعت وعبادت کرنی چاہئے لہٰذاجب انسان اپنی فطرت کے مطابق عبادت کی راہ قدم اٹھاتاہے تو وہ معبودحقیقی کی عبادت کرتاہے جوراہ مستقیم ہے یاپھرگمراہی کاشکارہوکرجھوٹے اورباطل خداؤں کی پوجاکرناشروع کردیتاہے۔ بت ،چاند،سورج ،دریا،پہاڑ…کی پرستش وعبادت کرنایہ سب باطل اورگمراہی کے نمونے ہیں کیونکہ ان سب چیزوں کوخدانے خلق کیاہے اورکسی بھی مخلوق کوخدائی کا درجہ دیناحرام اورباطل ہے ۔
) >اِنَّنِی اَنَاالله لااِلٰہَ اِلّااَنَافَاعْبُدْنِی>( ٢
میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے پستم میری عبادت کرو۔
اب جولوگ معبودحقیقی کی تلاش میں گمراہی کاشکارہوجاتے ہیں اورالله کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش کرنے لگتے ہیں ان کی ہدایت کے لئے خداوندعالم نے بہترین انتظام کیاہے،اس نے ہرزمانہ میں راہ مستقیم سے ہٹ کرچلنے والے اورالله کے علاوہ کے کسی دوسرے کی عبادت کرنے والے
--------
. ٢)سورہ طٰٔہٰ/آیت ١۴ ) . ١(بحارالانوار/ج ۴۶ /ص ۵۶ (
لوگوں کوراہ حق کی ہدایت کے لئے ایک ہادی بھجتارہاہے۔
) >وَلَقَدْ بَعَثْنَافِیْ کُلّ اُمَّةٍ رَسُوْلًااَنِِ اعْبُدُوااللهَ وَاجْت نبُواالطَّاْغُوْتَ>( ١
ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا(تاکہ وہ تم سے کہیں کہ)الله کی عبادت کرو اور
طاغوت سے اجت ناب کرو (اورآج بھی اس کاایک ہادی پردہ غٔیب میں رہ کرہمیں ہدایت کررہاہے )۔
امیرالمومنین حضرت علینے نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کے مبعوث کئے جانے کے رازومقصدکو نہج البلاغہ میں اس طرح بیان فرمایاہے : ) فَبَعَثَ اللهُ مُحمّداًلِیَخرجَ عِبادَہُ مِن عبادَةِ الاَوثَانِ اِلٰی عبادتہ۔( ٢
الله نے حضرت محمد (صلی الله علیھ و آلھ) کواس لئے مبعوث کیاہے تاکہ وہ لوگوں کوبت پرستی سے نکال کرخداپرستی کی طرف لے آئیں۔
خداوندعالم زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنانمائندہ اوررہبربھیجتارہاہے،سب سے پہلے حضرت آدم(علیھ السلام) (علیھ السلام)کوبھیجاتاکہ اپنی اولادکوکفر سے دوررہنے کی ہدایت کریں،اسی طرح یکے بعددیگرے ہدایت کے لئے انبیاء ورسل آتے رہے اورآخری نبی کے بعدان کی نسل سے آئمہ طاہرین کا سلسلہ شروع ہوااورآج بھی الله کی طرف سے ایک ہادی موجودہے جوپردہ غٔیب سے لوگوں ہدایت کرتے رہتے ہیں لیکن اکثرلوگ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے الله کے ان بھیجے ہوئے نبیوں کی باتوں کونہیں مانتے ہیں اوردنیامیں کسی طاقتورچیزکودیکھ کراسی کی عبادت شروع کردیتے ہیں۔

۴۔ پروردگارکی تعظیم کرناواجب ہے
جب انسان کسی عظیم مرتبہ شخصیت سے ملاقات کرتاہے اورایک بڑے عالم وقابل شخص کادیدارکرتا ہے ، تویہ ملاقات اوردیدارانسان کوتواضع اوراس کے سامنے جھکنے پرآمادہ کرتی ہے ۔
--------
. ٢)نہج البلاغہ خطبہ ١۴٧ ) . ١(سورہ نحل/آیت ٣۶ (
ایک عالم وقابل شخص کادیدارانسان کواس کے ادب واحترام وتعظیم وتکریم پرمجبورکردیتا ہے اورانسان اپنے آپ کواس کی عظمت اوراس کے علم وکمال کے آگے خودکوناچیزاورکم علم شمارکرتاہے تواس کاادب وتعظیم کرنے لگتاہے ۔ خداوندعالم تمام عظمتوں اورجلالتوں کامالک ہے ،وہ سب سے بڑاہے ،سب سے بڑاعالم ہے ،حی ہے، قدیرہے،…یہ تمام صفات ثبوتیہ اورسلبیہ اس کی عظیم ہونے کی واضح دلیل ہیں اوروہی سب کاحقیقی مولاوآقاہے لہٰذاہرانسان پرلازم ہے کہ اپنے حقیقی مولاوآقاکی تلاش کرے اوراس کاادب واحترام اورتعظیم کرے لہذاجب انسان حقیقی مولاکی تلاش کرتاہے تواپنے آپ کواس کی عظمت وجلالت کے آگے ناچیزاورکم علم حساب کرتاہے ،اپنے آپ کوذلیل وحقیرپاتاہے تواس کے ادب واحترام ،اس کی تعظیم وتکریم پرآمادہ ہوجاتاہے۔

۵۔ہرانسان محتاج اورنیازمندہے
اشرف المخلوقات انسان خواہ کت نی مال ودولت کامالک بن جائے اورکت نے ہیں عیش
وآرام کاسامان جمع کرلے لیکن پھربھی اپنے آپ کوعاجزوانکسار،ضعیف وناتواں اورمحتاج وضرورتمندمحسوس کرتاہے اورکسی طرح سے اپنی غرض اورضرورت کوحاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اورانسان پرلازم ہے کہ اپنی حاجتوں کوپوری کرنے کے لئے کسی ایسی ذات کی طرف رجوع کرے جو کسی کامحتاج نہ ہو،جودینے سے انکارنہ کرے اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ میں کوئی کمی نہ آسکے اوریہ صرف پروردگارکی ذات ہے جوہرچیزسے بے نیازاورغنی مطلق ہے،سب کی حاجت اورضرورت کوپوراکرتاہے اورعطاکرنے سے اس کے خزانہ رحمت کوئی نہیں آسکتی ہے اس نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کووعدہ دیاہے کہ میں تمھاری آوازکوسنتاہوں لہٰذاتم اپنی حاجتوں کوصرف ہی سے بیان کرو اورطلب کرو ) >یٰااَیُّہَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلٰی اللهِ وَاللهُ ہُوَالْغَنِیُّ الْحَمِیْدِ>( ١
اے لوگو!تم سب الله کی بارگاہ کے فقیرہواورالله صاحب دولت اورقابل حمدوثناہے ۔
) >وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبُ لَکُمْ>( ٢
اورتمھارے پرودگارکاارشادہے کہ مجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا۔

عبادت اوربندگی کاطریقہ
جب پروردگارنے جن وانس کواپنی عبادت کے لئے پیداکیاہے اورطینت وفطرت انسانی میں عبادت کاجذبہ پیداکیاہے اورشکرمنعم کوواجب قراردیاہے ان تمام چیزوں سے یہ واضح ہوتاہے کہ الله کی اطاعت وبندگی کرنالازم ہے مگرسوال یہ ہے کس طرح اس اطاعت وبندگی اورتعظیم کرتکریم کی جائے کس طرح اس کاادب واحترام کیاہے اگراس کی اطاعت وبندگی کرنے کاکوئی خاص طریقہ ہے تو اپنے بندوں کواس سے آگاہ کر ے خداوندعالم نے قرآن کریم کی چندمتعددآیتوں میں نمازکو شکرنعمت اوربندگی کاطریقہ قراردیاہے:
) >اِنَّااَعْطَیْنَاکَ الْکُوثَرَفَصَلّ لِرَبّکَ وَالنْحَرْاِنَّاشَانِئَکَ ہُوَالاَبْتَرُ>( ١
اے رسول بر حق بےشک ہم نے تمھیں کوثر عطا کیالہٰذاتم اپنے رب کے لئے
نمازپڑھواورقربانی دو،یقیناتمھارادشمن بے اولادرہے گا۔
کتب تفاسیر میں لفظ کوثر کے متعدد معنی ذکرہوئے کئے گئے ہیں:خیرکثیر، بہشت میں ایک نہر --------
. ٢)سورہ غٔافر/آیت ۶٠ ) . ١(سورہ فٔاطر/آیت ١۵ (
. ١(سورہ کٔوثر/آیت ١۔ ٢۔ ٣ (
جناب سیدة کی نسل سے اولاد کثیر، شفاعت،قرآن، اسلام، علمائے دین واصحاب ویاران باوفا ، نبوت ۔
ان مذ کو ر مواردمیں سے ہر ایک پر کوثر کا مصداق ہو تا ہے اور ممکن ہے ان سب کے
مجموعہ کوکوثر کہا جاتاہولیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خداوندعالم نے جس قدرخیرکثیراورنعمتیں اپنے حبیب حضرت محمدمصطفی (صلی الله علیھ و آلھ) کوعطاکی ہیں کسی اورکونہیں دی ہیں،انتہایہ ہے کہ آنحضرت کے دشمنوں کوابتربنادیاہے اوران کی نسلوں کومنقطع
کرکے اپنے حبیب کی لخت جگرسے ایک ایسی نسل پیداکی جوقیامت تک باقی رہے گی، لہٰذاخداوندعالم نے ان تمام نعمتوں کے نازل کرنے پراپنے رسول سے کہا: اے میرے حبیب تم ان نعمتوں کے نزول پر میرا اس طرح شکر اداکرو:
>فَصَلّ لِرَبّکَ وَالنْحَرْ،اِنَّاشَانِئَکَ ہُوَالاَبْتَرُ<
اپنے رب کے لئے نمازپڑھواورقربانی دو،یقیناتمھارادشمن بے اولادرہے گا۔
اللھنے اپنے حبیب سے ان تمام نعمتوں پر شکراداکرنے کے لئے نمازاورقربانی کامطالبہ کیاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ انسان کوجب بھی کوئی خیرونعمت نصیب ہوتواس کافرض بنتاہے کہ خداکاشکرخدااداکرے اورشکرخداکابہترین طریقہ یہ ہے کہ نمازقائم کرے اورراہ خدامیں قربانی دے۔
) >اِنَّنِی اَنَااللهُ لااِلٰہَ اِلّااَنَافَاعْبُدْنِی وَاَقِمِ الصَّلاةَلِذِکْرِی >( ١
میں الله ہوں میرے علاوہ کوئی معبودنہیں ہے پس تم میری عبادت کرواورمیری یادکے لئے نمازقائم کرو۔
ان مذکورہ دونوں ایتوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ الله کی عبادت اوربندگی کرنے کاایک خاص --------
. ١(سورہ طٰٔہٰ/آیت ١۴ (
طریقہ ہے اوروہ یہ ہے کہ اس کے لئے نمازقائم کی جائے تاکہ نمازکے ذریعہ اس کی نعمتوں کاشکراداکیاجائے اورنعمتوں کے نزول کاسلسلہ جاری رہنے کے لئے دعاء کی جائے اورنمازکی صورت میں اس کاادب واحترام کیاجائے۔

رازوجوب نماز
اس سے پہلے کہ ہم نمازکے واجب ہونے کے رازکوذکرکریں خودنمازکے واجب ہونے کو بیان کردینامناسب سمجھتے ہیں،سورہ کوثروطٰہٰ آیت ١۴ کے علاوہ اوربھی آیتیں ہیں جو نماز کے واجب ہونے پردلالت کرتی ہیں جن میں سے چندآیت ذکرکررہے ہیں :
) >اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُومِنِیْنَ کِتَاباًمَوقُوتاً>( ١
بے شک نمازکوصاحبان ایمان پرایک وقت معین کے ساتھ واجب کیاگیاہے۔
زرارہ سے مروی ہے کہ امام صادق اس قول خداوندی کے بارے میں فرماتے ہیں : موقوت ) سے مفروض مرادہے ۔( ٢
) >اَقِیْمُوالصَّلٰوةَ وَاتَّقُوہُ ہُوَ الَّذِیْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ>( ٣
نمازقائم کرواوراللھسے ڈروکیونکہ وہ وہی ہے جسکی بارگاہ میں حاضرکئے جاؤگے ۔
) >مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوْاالصَّلٰوةَوَلَاتَکُوْنَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ>( ۴
تم سب اپنی توجہ خداکی طرف رکھواوراس سے ڈرتے رہو،نمازقائم کرواورخبردارمشرکین میں سے نہ ہوجانا۔
>وَاقِیْمُوالصَّلٰوةَ وَاٰتُواالزَّکٰوةَ>( ۵) اورنمازقائم کرواورزکات اداکرو۔
--------
. ٣)سورہ أنعام/آیت ٧٢ ) . ٢)کافی/ج ٣/ص ٢٧٢ ) . ١(سورہ نٔساء/آیت ١٠٣ (
. ۵)سورہ بٔقرہ /آیت ١١٠ ۔مزمل /آیت ٢٠ ) . ۴(سورہ رٔوم/آیت ٣١ (
ان مذکورآیات کریمہ سے نمازکاواجب ہوناثابت ہے اورمعصومین سے ایسی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں واضح طورسے نمازکے واجب بیان کیاگیاہے عن عبدالله بن سنان عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:ان الله فرض الزکاة کمافرض ) الصلاة.( ١
امام صادق فرماتے ہیں:خداوندعالم نے زکات کواسی طرح واجب قراردیاہے جس طرح نمازکوواجب قراردیاہے ۔ عن الحلبی قال:قال ابوعبدالله علیہ السلام فی الوترقال:انماکتب الله الخمس ولیست
) الوترمکتوبة ان شئت صلیتہاوترکہاقبیح.( ٣
حلبی سے روایت ہے کہ میں نے امام صادق سے نمازشب کے بارے میں معلوم کیاتوآپ نے فرمایا:خداوندعالم نے پانچ نمازیں واجب کی ہیں اورنمازشب کوواجب قرارنہیں دیاہے، چاہوتواسے پڑھوالبتہ نمازشب کاترک کرناقبیح ہے ۔
احادیث معصومین میں نمازکے واجب قرادئے جانے کی اس طرح بیان کی گئی ہیں:
عمربن عبدالعزیزسے روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ہشام بن حکم نے بتایا کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:جب نمازوعبادت لوگوں ان کی حاجتوں اورضرورتوں کوپورا کرنے سے دور رکھتی ہے اوران کے بدن کوزحمت میںڈالتی ہے پس خداوندعالم نے نمازکوکیوں واجب قراردیا ہے؟ امام (علیھ السلام) نے فرمایا:نمازکے واجب قراردئے جانے کی چندوجہ ہیں جن کی وضاحت اس طرح سے ہے:
اگرلوگوں کو اسی طرح چھوڑدےاجاتااورانھیں نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)(اوران کی آل
پاک) کے ذکرویادکے بارے میں کوئی ت نبیہ اورتذکرنہ دےاجاتااورصرف کتاب خداکوان کے ہاتھوں میں دے
--------
. ٣)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ١١ ) . ١(من لایحضرہ الفقیہ/ج ٢/ص ٣ (
دیاجاتاتوان لوگوں کاوہی حال ہوتاجواس (اسلام کے قبول کرنے)سے پہلے تھایعنی وہ اپنی حالت پرباقی رہتے ،اورنبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)(اوران کی آل اطہار )کہ جنھوں نے دین اسلام اپنایااورقبول کےااورکتابوں کوبھی وضع وجعل کیااورلوگوں کواپنے مذہب میں داخل کیااورانھیں اپنے مذہب کی طرف دعوت دی اورکبھی کبھی دشمنان دین سے جنگ بھی کی لیکن جب وہ دنیاسے چلے جائیں گے ان کانام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گاان کاحکم مندرس ہوجائے گااوروہ ایسے ہوجائیں کہ گویااصلاوہ اس دنیامیں موجودہی نہ تھے پس خداوندعالم نے ارادہ کیاکہ حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیھ و آلھ)کادین ومذہب اوران کاامرکوباقی رکھاجائے اور بھلایانہ جائے لہٰذاخداندعالم نے ان کی امت پرنمازکوواجب قرار دیا
اسی نمازمیں پوری دنیاکے تمام مسلمان روزانہ پانچ مرتبہ بلندآوازسے اس پیغمبرکانام لیتے ہیں اور افعال نمازکوانجام دینے کے ذریعہ خداوندتبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اوراس کاذکر کرتے ہیں پس اسی لئے خداوندعالم نے امت محمدی پرنمازکوواجب قراردیاتاکہ وہ آنحضرت (اور
ان کی آل پاک ) کے ذکرسے غافل نہ ہوسکیں اور انھیں نہ بھول سکیں اورنہ ان کاذکرمندرس نہ ) ہوسکے۔( ١
محمدبن سنان سے مروی ہے کہ امام ابوالحسن علی موسی الرضا کی خدمت میں
جوخط لکھے گئے ان میں امام (علیھ السلام) سے متعددسوال کئے گئے جن میں ایک سوال یہ بھی تھاکہ خداوندعالم نے نمازکوکس لئے واجب قراردیاہے؟توامام (علیھ السلام)نے خط کے جواب
میں تحریرکیااوراس میں نمازکے واجب قرادئے جانے کی اس طرح وجہ بیان کی: نمازکے واجب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ خداوندعزوجل کی ربوبیت کااقرارکیاجائے اورخداکوشریک جاننے سے انکارکیاجائے اورنمازکے ذریعہ خداوندجل جلالہ کی بارگاہ میں عجزوانکساری، تواضع ، خضوع اوراعتراف گناہ کااظہارکیاجائے ،نمازکے ذریعہ گذشتہ
گناہوں کے بارے میں طلب بخشش کی جائے ،خداوندعالم کی عظمت کوذہن میں رکھ کراس
کے سامنے روزانہ پانچ مرتبہ پیشانی کوزمین پررکھاجائے ،انسان خداکے علاوہ کسی کی تعریف نہ کرے اورطغیان وسرکشی نہ کرے ،انسان اپنے آپ کوخداکے سامنے ذلیل و حقیرمحسوس کرے اورخداسے دین ودنیاکی بھلائی کی تمناکرے،انسان شب وروزہمیشہ اپنے رب کی یادتازہ کرے اوراپنے مولاومدبراورخالق یکتاکونہ بھول سکے ،اپنے رب کاذکرکرے اوراس ) کی بارگاہ میں قیام کرے تاکہ گناہوں اورہرقسم کے فسق وفجورسے محفوظ رہے ۔( ٢

نمازکی اہمیت
قرآن واحادیث میں نمازکوجواہمیت دی گئی ہے وہ اس چیزسے معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں فروع واحکام دین سے متعلق جو آیات موجودہیں ان میں جت نی آیتیں نمازکے بارے میں نازل ہوئی ہیں ات نی مقدارمیںفروع دین میں سے کسی کے بارے میں موجودنہیں ہیں،
خمس کے بارے میں ایک ، روزہ کے بارے میں ٣١ / حج کے بارے میں ١٨ / اورزکات سے متعلق ٣٣ آیتیں موجود ہیں لیکن خداوندعالم نے اس عظیم عبادت (نماز) کے بارے میں ١٢٢ /یااس سے بھی زیادہ زیادہ آیتیں نازل کی ہیں کہ جن میں نماز کی اہمیت ا وراس کے اہم احکام ومسائل کو بیان کیا گیا ہے ۔
نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے کہ مکتب تشیع میں فقہی روایات کا ایک تہائی حصّہ نماز اور مقد ما ت نماز سے مر بوط ہے ،کتب اربعہ اور “وسا ئل الشیعہ ” اور “ مستدرک الوسائل” کواٹھاکردیکھیں توان میں سب سے زیادہ احادیث نمازسے تعلق رکھتی ہیں،تحقیق کے مطابق “وسا ئل الشیعہ ” اور “ مستدرک الوسائل”دونوں ایسی مفصل کتا بیں ہیں کہ جن میں مکتب تشیع کی تمام قفہی احادیت وروایات درج ہیں ان دونوں کتابوں کی احا دیث کی تعداد مجموعاً ساٹھ ہزار ہے اور ان دونوں کتابوں کی ساٹھ ہزار روایتوں میں بیس ہزار احادیث نماز سے تعلق رکھتی ہیں ۔
--------
. ٢)من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢١۴ ) . ١(وسائل الشیعہ/ج ٢/ص ٣١٧ (
فروع دین میں نمازکواس کی اہمیت کی بنیادپرپہلے ذکرکیاگیاہے اور اصل اسلام قراردیاگیاہے جیساکہ روایت میں آیاہے حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں:ایک شخص نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)کی خدمت میں ایااورعرض کیا:اے الله کے نبی!میں یہ جانناچاہتاہوں کہ دین اسلام میں کونسی چیزاصل ہے اورکون اس کی شاخ وفرع ہے اورکون اس کی چوٹی ہے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیھ و آلھ)نے فرمایا: نمازدین اسلام کی جڑہے، زکات اس کی فرع اورشاخ ہے اور جہاد اس کی بلند تر ین چوٹی ہے ) ۔( ١

نمازکی اہمیت کے بارے میں معصومین سے چندروایت ذکرہیں:
.) قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:لکل شی ؤجہة ووجہ دینکم الصلاة( ٢
پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:ہرچیزکاایک چہرہ ہوتاہے اورنمازتمھارے دین کاچہرہ ہے۔

.) قال علی علیہ السلام:الصلاة قربان کل تقی( ٣
حضرت علیفرماتے ہیں :نمازہرپرہیزگارکاخداوندعالم سے تقرب حاصل کرنے کابہترین ذریعہ ہے۔

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:الدعاء مفتاح الرحمة والوضوء مفتاح الصلاة ) والصلاة مفتاح الجنة.( ۴
نبی اکرم (صلی الله علیھ و آلھ)فرماتے ہیں :دعارحمت کی کنجی ہے اوروضونمازکی کنجی ہے اورنمازبہشت کی کنجی ہے۔
--------
. ٢)تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢٣٨ ) . ١(تہذیب الاحکام/ج ٢/ص ٢۴٢ (
. ۴)نہج الفصاحة /ح ١۵٨٨ /ص ٣٣١ ) . ٣(نہج البلاغہ /کلمات قصار/ش ١٣۶ /ص ٣٨۶ (
) قال علی علیہ السلام:الصلاة حصن الرحمٰن ومدحرة الشیطان.( ١
حضرت علیفرماتے ہیں:نمازخدائے مہربان کاقلعہ ہے اورشیطان کودورکرنے کابہترین وسیلہ ہے۔
--------
. ١(غررالحکم/ج ٢/ش ٢٢١٣ /ص ١۶۶ (

تمام انبیائے کرام نمازی تھے
نمازکی اہمیت اس چیزسے بھی معلوم ہوتی ہے کہ تمام ادیان الٰہی میں نمازکاوجودتھا،
تمام انبیاء کی شریعت میں رائج وموجود تھی اوردنیامیں جت نے بھی نبی ورسول آئے سب الله کی عبادت کرتے تھے ، اہل نمازتھے اوراپنی امت کے لوگوں کونمازوعبادت کی دعوت بھی دیتے تھے لیکن ہرنبی کی شریعت میں نمازوعبادت کاطریقہ طریقہ یکساں نہیں تھا،جس طرح ہرنبی کے زمانے کاکلمہ یکساں نہیں تھااسی طرح نمازکاطریقہ بھی مختلف تھا ،تمام انبیاء کی شریعت میں نمازکے رائج ہونے کی سب سے یہ ہے کہ خداندعالم نے قرآن وحدیث میں اکثرانبیاء کے ساتھ نمازکاذکرکیاگیاہے اوربیان کیاگیاہے کہ تمام نبی نمازی تھے اورنمازکی دعوت بھی دیتے تھے