۵ ۔ اصحاب پیغمبر کا طریقہ
 
اصحاب کے بیانات :
صحابہ کرام کا وطیرہ بھی یہی تھا کہ وہ لوگوں کو زمین پر سجدہ کرنے کا حکم دیتے اور پہنی جانے والی چیزوں پر سجدہ کرنے سے منع فرماتے تھے ۔ لہٰذا ہم فقط دو اصحاب پیغمبر (ص) کے اقوال آپ حضرات کے سامنے پیش کرنے پر اکتفاکرینگے ۔
۱۔ سنن کبر ائے بیہقی میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے یہ حدیث منقول ہے: کہ حضرت (ع) نے فرمایا جب کوئی سجدہ میں جانا چاہے تو عمامہ کو پیشانی سے ہٹالے ۔ (۱)
۲۔ حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں اور بیہقی نے سنن الکبریٰ میں ابن عباس سے یہ نقل کیا ہے کہ جو شخص سجدہ کی حالت میں اپنی پیشانی اور ناک کو زمین سے نہ لگائے اسکی نماز صحیح اور قابل قبول نہیں ہے ۔ (۲)

اصحاب کی سیرت
تمام اسلامی علماء اور محدثین نے احادیث کی کتابوں میں سجدہ سے متعلق اصحاب اور تابعین پیغمبر (ص) کی عملی سیرت کو کم و بیش بیان کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصحاب و تابعین اختیاری حالت میں زمین ( حتیٰ پتھر و خاک ) پر سجدہ کیا کرتے تھے اور لباس یا کپڑے وغیرہ پر سجدہ کرنے سے گریز کرتے تھے ۔ اس ضمن میں بعض احادیث قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں ۔
۱۔ نافع کہتے ہیں : کہ عبداللہ بن عمر سجدہ میں پیشانی کو زمین تک پہونچانے کے لئے عمامہ اتارتے تھے (۳)
۲۔ ابن سعد اپنی کتاب طبقات الکبریٰ میں نقل کرتے ہیں : کہ مسروق بن اجدع سفر کے دوران مٹی کے ٹھیکرے کو اپنے ساتھ رکھتے تھے تاکہ کشتی میں پر سجدہ کر سکیں ۔ (۴)
واضح ر ہے کہ مسروق بن اجدع تابعین رسول اور ابن مسعود کے خاص اصحاب میں سے تھے ، اور صاحب طبقات الکبریٰ نے انکو اہل کوفہ کے راویوں میں طبقہ اولیٰ کی فہرست میںذکر کیا ہے کہ جنھوں نے رسول ا سلام (ص) کے بعد ابو بکر و عمر و عثمان و علی اور عبد اللہ بن مسعود وغیرہ سے بالمشافحہ روایت نقل کی ہے ۔
صدر اسلام کی شخصیتوں کا یہ طریقہ کار ان لوگوں کی باتوں کو کہ جو خاک کربلا ساتھ رکھنے کو بدعت اور شرک سے تعبیر کرتے ہیں بے بنیاد قرار دیتا ہے اور ان بزرگان اسلام کا ہمیشہ مٹی پر سجدہ کرنا اور سفر میں اسے ساتھ لے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے ، ورنہ معروف و مشہور تابعی مسروق بن اجد ع ٹھیکرے کے ٹکڑے کو اپنے ساتھ کیوں رکھتے ؟کیا شیعوں کے علاوہ صدر اسلا م ان بزرگو ں کی پیروی کوئی اور کرتا ہے ؟!
۳۔ رزین کہتے ہیں : علی بن عبد اللہ بن عباس نے میرے پاس لکھا : کہ میرے لئے کوہ مروہ کے پتھر کی ایک تختی بھیجدے تاکہ میں اسپر سجدہ کیا ۔ (۵)
علی بن عبد اللہ بن عباس جو تابعین سے ہیں انکے خط سے دو چیزیں معلوم ہوتی ہیں ۔
الف : علی بن عبد اللہ بن عباس کا پتھر پر سجدہ کرنے کا پابند ہونا جو زمین کا جزء ہے،اور اپنے ساتھ اس کو رکھنا توحیدا ور خدا کی عبادت کے عین مطابق ہے اور یہ باعث شرک نہیں اور نہ پتھر کی پوجا ہے ۔
ب : ان کے علاوہ صدر اسلام کی بزرگ شخصیتیں پاک اور مقدس سر زمین کے ٹکڑے ( جیسے مروہ ) کو اپنے ساتھ رکھتی تھیں اور وہ اس پر سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے ، اور اس کو بطور تبرک مس کرتے اور چومتے تھے ۔
اس بنا پر جو لوگ شیعوں کو زمین پر سجدہ کرنے اور خاک شفاء کو اپنے ساتھ رکھنے کی بنا پر مشرک اور اس عمل کو غیر خدا کی عبادت کہتے ہیں ، ان کی یہ باتیں بے بنیاد ہیں اور وہ ایسے جاہل ہیںجو حضور اکرم (ص) کے اصحاب اور تابعین کے حالات سے بھی آگاہی نہیں رکھتے ہیں ۔
۴۔ ابی امیہ کہتا ہے : ابو بکر زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے ( یا نماز پڑھا کرتے تھے) (۶)
۵ ۔ ابو عبیدہ کہتا ہے: ابن مسعود زمین کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں کرتے تھے( یا نماز نہیں پڑھتے تھے) (۷)
۶۔ عبد اللہ بن عمر سے نقل ہوا ہے: کہ وہ عمامہ کے کنارے پر سجدہ کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اسے ہٹا دیتے تھے ۔ (۸)
۷۔ بیہقی عبادہ بن ثابت کے متعلق کہتے ہیں : کہ جب بھی وہ نماز پڑھتے تو اپنی پیشانی سے عمامہ کو ہٹالیتے تھے۔ (۹)
مذکورہ روایات سے معلوم اور بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب سجدہ کا حکم نازل ہوا تو، تمام مسلمان اور بالخصوص آنحضرت (ص) زمین پر سجدہ کیا کرتے تھے ، اور اگر کوئی سجدہ کی حالت میں زمین یا پیشانی پر کپڑا رکھتا تو آنحضرت (ص) سختی سے اسے منع فرماتے تھے ۔ لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ آنحضرت (ص) کی سیرت ، صحابہ کا طریقہ، اور تابعین کی روش، یہی تھی کہ وہ زمین کے اجزاء خاک اور پتھر یا گھانس کی بنی ہوئی چٹائی پر سجدہ کیا کرتے تھے ۔

اس بارے میں اور بہت سی روایات بھی موجود ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ گرمی کے موسم میں عرب کی شدید گرمی ، بدن جھلسا دینے والی سورج کی تپش اور تپتی ہوئی زمین، اور پتھروںپر اس حال میں سجدہ کرنا نہایت دشوار ہے ، ایسے حالات میں بھی صحابہ کرام پتھرا رو زمین پر سجدہ کرنے کے پابند تھے اسی لئے جلتے ہوئے پتھر کو ہاتھ میں لے کر ٹھنڈا ہی سجدہ کر تے تھے ۔ اس مقام پرہم قارئین کرام کے لئے صدر اسلام کے مسلمانوں کی سیرت اور اکرتے ، یا پھر کسی دوسرے طریقہ سے ٹھنڈا کر کے اس پر سجدہ کر تے تھے ، ورنہ پھر اسی تپتی ہوئی زمین پرنکے سجدہ کے طریقے پر مشتمل چند روایات پیش کررہے ہیں ۔ ۸۔ جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں :کہ میں حضور سرور کائنات (ص) کے ساتھ نماز ظہر پڑھنے کے لئے ایک مٹھی پتھرلیکر ٹھنڈا کر تا تھا تا کہ اس پر سجدہ کر سکوں۔ (۱۰)
یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مذکور ہے۔ جیسے احمد بن حنبل کی مسند ، سنن بیہقی ، کنز العمال ، سنن نسائی ، و سنن داوٴد اور مختلف الفاظ و عبارت کے ساتھ جابر اور انس وغیرہ سے منقول ہے ۔
بیہقی اپنی سنن میں مذکورہ روایت کو انس سے نقل کرنے کے بعد اپنے استاد سے اسطرح نقل کرتے ہیں :استاد نے فرمایا: اگرپہنے ہوئے لباس پر سجدہ جائز ہوتا تو ہاتھ سے پتھر ٹھنڈا کرنے سے زیادہ آسان یہی تھا کہ اپنے لباس پر ہی سجدہ کر لیا جائے۔ (۱۱)
یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر اسلام کے مسلمانوں اور اصحاب آنحضرت (ص) لباس و پوشاک پر سجدہ کرنے کو جائز نہیں جانتے تھے ، ورنہ سجدہ کے لئے کنکروں کو ٹھنڈا کرنے پر کوئی وجہ نہ ہوتی کہ پتھر کو ہاتھ میں لیکر ٹھنڈا کریں اور پھر اسی پر سجدہ بجالائیں اگر کپڑوں پر سجدہ جائز ہوتا تو ہر ایک مسلمان و صحابی جلتی ہوئی زمین پر کپڑے رکھکر نماز پڑھ لیتا اور پتھرٹھنڈا کرنے کی نوبت بھی نہ آتی ۔
۹۔ انس کہتے ہیں : میں آنحضرت (ص) کے ساتھ گرمی میں نمازپڑھتے تھے تو ہم میں سے ایک شخص ہاتھ میں کچھ کنکر لیکر اسے ٹھنڈا کر دیتا تھا تا کہ اس کے سرد ہونے پر سجدہ کرسکیں ۔ (۱۲)
اس بارے میں بہت زیادہ روایتیں موجود ہیں کہ اصحاب پیغمبر (ص) زمین کی شدید گرمی سے تنگ آکر رسول (ص) کی خدمت میں شکایت لیکر حاضر ہوئے تاکہ آنحضرت (ص) زمین کے علاوہ کسی اور چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت دیدیں ، مگر حضور (ص) نے زمین کے علاوہ اور کسی چیز پر سجدہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ہر منصف مزاج انسان کو معلوم ہے اگر کپڑے موکٹ و قالین پر سجدہ کرنا جائز ہوتا تو بیشک آنحضرت (ص) مسلمانوں کو اس پر سجدہ کرنے کی اجازت دیدیتے ۔
ہم یہاں پر ایسی کثیر روایتوں میں سے فقط چند حدیثوں کو بطور نمونہ پیش کرنا چاہیں گے تاکہ اپنا مدعی ( شیعہ حق پر ہیں ) ثابت ہو جائے ۔
۱۰۔ بیہقی نے خباب بن ارت سے سیہ روایت نقل کی ہے : ہم نے شدید گرمی اور پیشانی و ہاتھوں کے جلنے کی شکایت ، آنحضرت (ص) کی خدمت میں پیش کی مگر حضرت (ص) نے ہماری فریاد کو قبول نہ کیا ۔ (۱۳)
۱۱۔ مسلم بن حجاج نے بھی خباب بن ارت سے یہ روایت کی ہے : ہم نے حضور پاک (ص) کی خدمت میں جھلسا دینے والی شدید گرمی کی شکایت کی مگر حضرت (ص) نے ہماری شکایت قبول نہ فرمائی۔
( یعنی کوئی دوسرا راہ حل نہ نکالا )۔ (۱۴)
--------------------------------------------------------------------------------
(۱) السنن الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۵۔ ” اذا کان احدک(م یصلی فلیحسر العمامۃ عن جبھتہ “
(۲) مستدرک حاکم ج۱ ص ۲۷۰ و سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۳،۱۰۴۔ ” من لم یلزق اٴنفہ مع جبہتہ الارض اذا سجد لم تجز صلاتہ “
(۳) سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۵ طبع ۱ (حیدرآباد دکن ) کتاب الصلۃ ، باب الکشف عن السجدۃ فی السجود ” ان ابن عمر کان اذا سجدو علیہ العمامۃ یرفعھا حتی یضع جبھتہ بالارض “
(۴) الطبقات الکبری ، ج۶ ص ۷۹ طبع بیروت :مسروق بن اجدع کے احوال میں : ” کان مسروق اذا خرج یخرج بلبنۃ یسجد علیھا فی السفینۃ “
(۵) اخبار مکۃ ( ازرقی ) ج۳ ص ۱۵۱ :(رزّین کے حوالے سے ) ” کتب الی علی بن عبد اللّہ بن عباس ۻ ان ابعث الیّ بلوح من احجار المروۃ اٴسجد علیہ “
(۶) المصنف ج ۱ ص ۳۹۷ ۔” ان ابا بکر کان یسجد او یصلی علی الارض ۔۔۔۔“
(۷) المصنف ج۱ ص ۳۶۷ و مجمع الزوائد ج ۲ ص ۵۷ :بحوالہ طبرانی ۔” ان ابن مسعود لا یسجد ۔ او قال : لا یصلی ۔ الا علی الارض “
(۸) سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۵ و المصنف ج۱ ص ۴۰۱۔” عن عبد اللّہ بن عمر انہ کان یکرہ ان یسجد علی کور عمامتہ حتی یکشفہا “
(۹) سنن بیہقی ج۲ ص ۱۰۵۔” انہ کان اذا قام الی الصلۃ حسر العمامۃ عن جبھتہ “
(۱۰)مسند احمد ج۱/ ص ۳۸۸ ۔۴۰۱ ۔ ۴۳۷ ۔ ۴۶۲۔” کنت اصلی مع رسول اللّٰہ (ص) الظہر فآخذ قبضۃ من حصی فی کفی لتبرد حتی اسجد علیھا من شدۃ الحر“ اور اس کی مثل سنن بیہقی ج/۱ ص/ ۴۳۹ ، میں وارد ہوئی ہے ۔
(۱۱) سنن بیہقی ج۲ /ص ۱۰۵ ، ۱۰۶: ” قال الشیخ : ولو جاز السجود علی ثوب متصل بہ ، لکان ذلک اسہل من تبرید الحصی فی الکف ووضعھا للسجود “
(۱۲)سنن بیہقی ج۲/ ص ۱۰۶۔ ” کنا نصلی مع رسول اللہ (ص) فی شدۃ الحر فیاٴخذ احدنا الحصباء فی یدہ فاذا برد وضعہ وسجد علیہ “
(۱۳) سنن بیہقی ج۱/ص ۴۳۸ و ج ۲/ ص ۱۰۵ ۔ ۱۰۷۔ ” شکونا الی رسول اللّٰہ (ص) شدۃ الرمضاء فی جباھنا واٴکفنا فلم یشکنا “
(۱۴) صحیح مسلم ج۱/ ص۴۳۳۔ ” عن خباب قال : اٴتینا رسول اللّٰہ (ص) فشکونا الیہ حّر الرّمضاء فلم یشکنا