عرف :
فقهاء کے نزدیک عرف بھی ادله استنباط میں شمار هوتاهے جس کی تعریف میں کهتے هیں وه چیز جو لوگوں کے درمیان متعارف معمول هو ں اور ان کی عملی اور گفتاری سیرت کا جز هوں .
عرف اگر مذکوره معنی میں هو تو عادت کا مترادف هوگا اسی لئے عرف کی تعریف میں کها گیا “ عاده جمهور قوم فی قول ا و عملی”
قول و فعل میں کسی قوم کی عادت کو عرف کهتے هیں .
عرف کی تقسیمات :
1- عرف خاص اور عرف عام :
عرف خاص کسی خاص زمانے یا منطقه یا اهل فن کے عرف کو عرف خاص کهتے هیں ، مثلا زمان پیغمبر(ص)کے عربوں کا عرف شهر مدینه کے لوگوں کا عرف یا اهل بازار کا عرف .
عرف عام :
عام لوگوں کا عرف که جس میں زمان مکان یا کسی خاص فن کی قید نه هو .
توجه رهے که عرف عام یا خاص هونا ایک امر نسبی هے ، کبھی ایک هی عرف ایک لحاظ خاص سے اور دوسرے لحاظ سے عام هوتا هے .
2- عرف عملی اور عرف قولی :
عرف عملی جیسے بیع معاطاتی یعنی خرید و فروش میں لوگوں کی عادت یه هے که صیغه جاری کرنے کے بغیر هی معاملات انجام دیتے هیں یه عادت کئی قوموں کے عوام و خواص میں اور هر زمانےمیں رائج رهی هے .
عرف قولی :
جیسے عراقیوں کی عادت هے که لفظ ولد کو فقط بیٹوں کے لئے استعمال کرتے هیں بیٹیوں کے لئے هیں یا بعض مناطق کے لوگ مچھلی کے لئے گوشت کا لفظ استعمال نهیں کرتے اب اگر کوئی قسم کھائے که میں گوشت نهیں کھاؤں گا اور کھالے تو عرف قولی کی بنا پر نه اس نے اپنی قسم توڑی هے اور نه اس پر کفاره لگے گا .
عرف صحیح اور عرف فاسد :
عرف صحیح اس عرف کو کهتے هیں جو دوسری شرعی دلیل جیسے قرآن یا سنت کے مخالف نه هو مثال کے طور ر بعض علاقه کے لوگوں کی عادت یه هے که دلهن والے رخصتی سے پهلے دلهے سے نقدی مھرلیتے هیں تا دلهن کا جهیز خرید سکیں .
عرف فاسد :
جیسے معاملات میں ربا انجام دینا یا شراب پینا یا اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں عورتوں کا پرده کے معامله میں سهل انگاری سے کام لینا .
مذاهب اسلامی میں عرف کی حجیت :
اهل سنت کے اکثر مذاهب کے نزدیک عرف کی جانب رجوع کرنامورد قبول واقع هوا هے .
حنفیوں کے نزدیک عرف کے ذریعه احکام شرعی کا اثبات خاص طور سے معاملات میں بهت رائج هے . ان کے نزدیک جب تک عرف پر عمل سے روکنے والی کوئی نص نه هو تب تک عرف ثبوت احکام میں دلیل تام سمجھی جائے گی . یهاں تک که اگر قیاس عرف کے خلاف هو تو قیاس کو رد کردیاجائے گا کیوں که قیاس پر عمل کرنا لوگوں کی زحمت کا باعث هے اسی لئے کبھی کبھی عرف مصالح مرسله میں شمار هوتا هے .
ابو حنیفه اور اس کے ماننے والے کابعض احکام میں اختلاف هے کیونکه انھونےعرف کو مختلف دیکھا هے.
مالک بن انس اکثر موارد میں شرعی احکاام کو اهل مدینه کے عرف پر معین کرتے تھے .
اما م شافعی جب مصر میں وارد هوئے تو انهوں نے اکثر احکام بدل دیے کیوں که وه اهل مصر کی عرف کو عراق و حجاز کے عرف سے جدا پاتے تھے.
اهل سنت کے فقهائ نے کچھ قواعد ایسے بنائے هیں جو عرف کے اعتبار هونے کی وجه سے دلیل شرعی کے عنوان سے بنائے گئے هیں . ان میں سے بعض قواعد که جس کا ذکر مجله الاحکام العدلیه میں هوا هے وه عبارت هیں :
“العادۀ محکمۀ؛ استعمال الناس حجۀ یجب العمل بها ؛ المعروف و عرفا کا لمشروط شرطا ؛ التعیین بالعرف کالتعیین بالنص ؛ لاینکر تغیر الاحکام بتغیر الازمان ؛ الثابت بالعرف کالثابت بالنص ”
عرف فاسد کی رعایت واجب نهیں کیونکه دلیل شرعی کے خلاف هے مگر یه که (عرف ضرورت کے باب سے آیا هو) ایسی صورت میں کهتے هیں( الضرورات تبیح المحذورات )لیکن مجتهد کو چاهئیے که صحیح کا لحاظ کرے جیسا که رسول خد(ص)نے لوگوں کی کئی ایک اچھی عادتوں کا لحاظ کیا اور کبھی سکوت کے ذریعه اور کبھی صراحت کے ساتھ ان عادتوں کی تائید کی .
عرف کی جانب رجوع کرنے میں ایک مورد باب خیار عیب هے کون سی چیز عیب اور موجب فسخ هے اور کون سی چیز عیب نهیں هے اس کی تشخیص کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جائے گا اسی طرح ودیعه کی دیکھ دیکھ کتنی مدت تک هونی چاهیئے که کوئی یه نه کهے که ودیعه کی حفاظت میں کوتاهی کی گئی اس مسئله میں بھی عرف کی جانب رجوع کرنا هوگا لیکن شیعوں کی نظر میں عرف کی جانب رجوع کے موارد ایک جیسے نهیں هیں .
1- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتاهے که ظهور لفظی کو تشخیص دیا جائے جیسے لفظ ولد یا گوشت که جس کی مثال گذر چکی ان جیسے موارد میں عرف قولی کی جانب رجوع کرنا ظهور عرفی کی تشخیص کے لئے قابل قبول هے لیکن روشن هے که یهاں عرف حکم شرعی کی دلیل نهیں هے .
2- کبھی کسی حکم شرعی کے موضوع کامصداق تلاش کرنے کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جاتا هے جیسے فقه میں آیا هے که ودیعه کی حفاظت واجب هے اور اس میں کوتاهی ضمان کا موجب هوگا لیکن زمان و مکان کے اعتبار سے عرف بھی اسی زمان و مکان کے مطابق هوگا اس لئے اسی عرف کی روشنی میں حفظ یا کوتاهی کا مصداق تلاش کیا جائے گا یهاں بھی عرف کا حکم کی شناخت میں کوئی کردار نهیں .
3- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتا هے تاکه اس سے حکم شرعی کو کشف کیا جائے حیسے منقولات کے وقف کا جائز هونا یا اخذ ظاهر کا جائز هونا یا عقد فضولی کا صحیح هونا شیعه اصولیوں میں سیره عقلا اور سیره متشرعه کی بحث اور حکم شرعی میں ان کا کردار اسی عرف سے مربوط هے .
لیکن عرف کی طرف رجوع یعنی سیره کی طرف رجوع سےمراد یه نهیں هے که عرف ایک دوسری مستقل دلیل جو ادله شرعی کے عرض میں هے کیونکه سیره عقلا یا سیره متشرعه اس وقت حجت هے جب شارع کے مخالف نه هو اور شارع کی مخالف سمجھنے اور نه سمجھنے کے هے شرعی دلیل یعنی کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا هوگا لهذا سیره عقلا کی حجیت معتبر دلیل شرعی کی حجیت کی وجه هے یعنی کتاب و سنت کی حجیت کی وجه سے .
لیکن سیره متشرعه کی حجیت کے لئے شارع کی تائید کی ضرورت نهیں کیونکه سیره مشترعه شارع کی راهنمائی کے بغیر وجود میں آهی نهیں سکتی کسی گروه کا متشرعه هونا اس بات کی دلیل هے که یه سیرت دستور شرعی سے ماخوذ هے اور دلیل شرعی کی بنا پر صورت پاتی هے .
عرف کی حجیت کے دلایل اور ان کا جواب :
اهل سنت میں عرف کے قائل فقهاء نے اس کی حجیت پر چند دلیلیں پیش کی هیں .
1- عبدالله بن مسعود کی روایت .
“ماراه المسلمون حسناً فهو عندالله حسن”
اگثر فقهاء نے اسی حدیث پر اعتماد کیا هے اس حدیث کی سند میں جو تھامناقشه اس سندی کی بحث گذر چکی بعض نے اس روایت کی سند کے صحیح هونے کے بارے میں کها هے که صحابی جب بھی مقام تشریع میں کچھ کهیں تو اسے قول رسول سے ماخو ذ سمجھنا چاهیئے پس اگر عبدالله بن مسعود نے اپنے سے یه بات کهی تو اس کے حدیث نبوی هونے کے لئے کافی هے .
جواب :
اس بات کا تعلق قول صحابی یا مذهب صحابه کی حجیت سے هے.
اسلام نے مختلف مواردمیں عرف جاهلی کی تائید کی هے جیسے ازدواج میں عورت اور مرد کا کفو هونا یا قاتل که پدری رشته داروں پر قتل خطا ئی کا دیه قرار دینا .
جواب :
اگر سیره عقلا ء کی حجیت شارع کی تائید سے هے تو اس حجیت کو تسلیم کرتے هیں اور اگر اس سے مراد هر عرف کی حجیت کا اثبات هےتو یه تسلیم نهیں کرتے بلکه تمهارے نزدیک بھی یه قابل قبول نهیں کیونکه اگر قبول هوتا تو عرف صحیح اور عرف فاسد میں تقسیم نهیں کرتے .