اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
 


سد و فتح ذرایع
“"ذرایع ”" ذریعه کی جمع اور وسیله کے معنی میں هے ۔(مترجم (-1 سد اور فتح کھو لنے اور بند کرنے کے معنا میں هے اور یه اصطلاح علماء اور فقهائےاهل سنت کے درمیان رائج هے . اهل سنت کاکهنا هے چونکه مصلحتوں کا جلب کرنا اورمفاسد کا دفع کرنا لازم هے اس لئے بعض افعال کو بطورر مستقیم حرام قرار دیاگیا جیسے چوری اور زنا لیکن بعض افعال کو براه راست حرام قرار نهیں دیا گیا کیونکه وه اعمال بذات خود حرام نهیں هیں لیکن چونکه ارتکاب حرام کا سبب بنیں گے اس لئے شارع نے انهیں حرام کردیا جیسے اجنبی عورت کی هم نشینی ۔
چون چوں که افراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل هیں وه کهتے هیں جو راستے محرمات الهیٰ تک پهنچاتے هیں یا حرام کا موں کا سبب بنتے هیں ان راستوں کو بند کردینا چاهیے اسی طرح جود افراد “"فتح ذرایع” " کو حجت جانتے هیں وه کهتے که وه وسائل اور وه راستے جو واجبات الهیٰ کے انجام دینے کاسبب بنتے هیں انهیں کھلا رکھنا چاهئیے مالک سد وفتح ذرایع کے ساتھ قاعده کو فقه کے اکثر ابواب میں قابل اجراء جانتاهے معروف هے که مالک نے کها : تکالیف شرعی کا ایک چوتھا ئی حصه سد وفتح ذرایع کے ذریعه استخراج هوتا هے ۔
ظاهر یه دو اصطلاحیں (مقدمه حرام کی حرمت ) اور مقدمه واجب کے وجوب کی جانب لوٹتی هیں شیعون شیعوں نے اپنی اصول فقه کی کتابوں میں اس بحث کو مقدمه واجب کی بحث میں پیش کیا هے ۔
البته سد ذرایع کے لئے ایک اور معنی ذکر کیا گیا هے اور وه شرعی چارۂکار یا شرعی حیله کے راستے کو بند کرنا هے مثال کے طور پر اگر کوئی ربا سے فرار کی خاطر اپنے مال کو اونچی قمیت پر ادھار بیچ دے اور یه شرط لگائے که خریدار اسے سستے داموں پر دوباره اسی شخص کو بیچ دے که جس سے خریدا هے سد ذرایع کے طرفداروں نے اسی سدذرایع کی اساس پر عمل کو حرام قرار دیا هے کیونکه اس کے ذریعه ربا میں گرفتار هونے کا خطره هے . اس بات پر یه اشکال وارد هوتا هے که اگر سد و فتح ذرایع پهلے معنا کے مطابق هو تو یه بحث حکم عقلی کے موارد میں نوع دوم سے مربوط هے که جسکی بحث گزشته مباحث میں گذر چکی اور جهاں مقدمه واجب و حرام کی بحث کو وهاں بیان کیا جاچکا اور اگر سد وفتح ذرایع سے مراد دوسرا معنی هو ، تو ربا میں حیله شرعی کا استعمال دوسری جهتوں سے معامله کو باطل کرتاهے ۔. اور وه یه هےکیوں که ان شموارد میں طرفین کی جانب سے انشاء اورمعامله میں قصد جدی نهیں پایا جاتا اسی دلیل کی وجه سے معامله عقلا باطل هے۔ پس سد وفتح ذرایع کامسئله استنباط احکام کا کوئی منابع نهیں بلکه عقل کے حکم قطعی کا ایک جزء هے ۔
(مترجم )-6
--------------
1 .(مترجم) 16- ذرایع کی قسمیں اور انکا حکم :
ابتداء میں ذرایع کو دوقسموں میں تقسیم کرنے کے بعد منع اور منع نه هونے کے حواله سے اس کا حکم بیان کریں گے .
ذرایع کی دو قسمیں :
ایک تو وه سه گانه تقسیم هے جو مالکی فقیه قرافی نے انجام دی دوسیری چھار گانه تقسیم هے جو ابن قیّم کی جانب سے پیش هوئی .
الف - قرافی تقسیم :
شوکانی اپنی کتاب ارشاد الفحول میں قرافی کا قول نقل کرتے هوئے لکھتے هیں .صرف مالک هی سدذرایع کا قائل نهیں بلکه تمام علماء اس کے قائل هیں اور مالکیه کا اس کے علاوه کوئی اعتبار نهیں که وه بهت زیاده سدذرایع کے قائل هیں.
پھر وه قرافی کی سه گانه تقسیم بیان کرتے هوئے کها هے .
1- جو چیز علماء کی نظر میں معتبر هے (یعنی علماء کا سدذرایع پر اتفاق هے ) جیسے مسلمانوں کی گذرگاه پر کنواںکھودنا اور ان کے کھانے میں زهرملانا اور ایسے شخص کے سامنے بتوں کو برابھلا کهنا که جس کے لئے معلوم هے که وه اپنے بتوں کی توهین سن کر خدا کو برابھلا کهتاهے .
2- وه موارد جو علماء کے نزدیک غیر معتبر هیں ( یعنی سدذرایع کے عنوان سے حکم کا مبنا قرار نهیں پاتے)جیسے درخت انگور کا اگانا اور اس ڈرسے کهیں انگور شراب میں تبدیل نه کی جائے درخت انگور کو اگانے سے روکنا یه مورد علماء کے نزدیک غیر معتبر هے گرچه ممکن هے که یه درخت حرام کے تحقق کا وسیله بنے.
3- وه موارد که جهاں سد کےلازم هونے یا نه هونے میں اختلاف هو جیسے بیع اجال یعنی مهلت دار بیع یه همارے نزدیک حرام میں پڑنے کا ذریعه هے اس لئے هم اس مورد میں سدذرایع کے قائل هیں لیکن دوسرے اس مساله میں همارے مخالف هیں .
ب- ابن قیّم کی تقسیم :
1- ابن قیّم نےاپنی کتاب اعلام الموقعین میں ذریعه کو نتائج کے اعتبار سے چار قسمتوں میں تقسیم کیا هے.
ایسا وسیله اور ذریعه که جس کا وضع کرنا اس لئے هو که مفسد ه دور هو جائے جیسے شراب کا پینا اس کا مفسده مستی اور عقل کی تباهی هے اسی طرح قذف که اس کا مفسده دوسروں پر تهمت لگانا هے یا زنا که اس کا مفسده نسب کا درهم و برهم هونا اور خاندانی روابط کا بگاڑ هے .
2- ایسا وسیله اور ذریعه جو که ایک مباح امر کے لئے وضع هوا هے لیکن اس کا فساد اس کی مصلحت سے کهیں زیاده هے اور اکثر اوقات مفسده کا سبب بنتاهے جیسے آیام وفات میں بیوه عورت کا سجنا سنورنا .
3- ایسا ذریعه جو امر مباح کے لئے وضع هوا لیکن لوگ خواه نحواه اسے حرام تک پهنچنے کا ذریعه قرار دیں گےجیسے ایسا عقد جو تحلیل کی نیت سے باندها جائے یا ایسا کاروبار جو ربا کی نیت سے انجام دیا جائے .
4- ایسا ذربعه جو امر مباح کے لئے وضع هوا لیکن ایسی میں مفسده بھی ممکن هے پھر بھی اس کی مصلحت مفسده سے کهیں زیاده هے جیسے منگنی شده لڑکی کو دیکھنا یا اس عورت کی جانب نگاه کرنا جو اس کے حق میں گواهی دے رهی هو .
ابن قیّم کی نظر میں پهلی اور چوتھی قسم محل نزاع و بحث نهیں هے کیونکه شارع نے قسم اول کو منع اور قسم دوم کو مباح جانا هے .لیکن دوسری او رتیسری قسم میں اختلاف هے که کیا شریعت نے ان موارد کو مباح جانا یا حرام .
(مترجم)
--------------
1. . اعلام الموقعین ،ج3،ص176 .
2 . اصول الفقه الاسلامی ،ص300 .
3 . الموافقات ،ج 4 ،ص 141 .
4 . البته سد وفتح ذرایع اور مقدمه حرام و واجب ، کے درمیان جو کچھ تفاوت هے اسے هم نے اختلاف فتاوی کی علتوں میں بیان کیا هے .
5 . انوارالا صول، ج2 ،ص542 .
6 .(مترجم) 17- سد ذرایع کی حجیت کی دلیلیں :
جوافراد سد ذرایع کی حجیت کے قائل هیں اور اسے احکام فقهی کا مصدر و مبنع سمجھتے هیں انهوں نے اس کے اثبات میں بعضی آیات روایات کا سهار لیا هے هم یهاں پر ان کی چند نقلی دلیلیں بغیر کسی توضیح و نقد کے ذیل میں بیان کرتے هیں .
قرطبی نے اپنی تفسیر میں کها :
“ قد دل علی هذا الااصل الکتب والسنۀ ” اس اصل پر کتاب وسنت دلالت کرتی هے .
اس کے بعد وه قرآن سے چند آیات بطور استناد پیش کرتے هیں :
1- *يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ*
2- ایمان والو! راعنا (ہماری رعایت کرو) نہ کہا کرو “انظرنا ” کہا کرو اور غور سے سنا کرو اور یاد رکھو کہ کافرین کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے”.2
اس آیت سے وجه تمسک یه بتاتے هیں که یهود کلمه (راعنا) کو اپنی زبان پر لاتے تھے یه کلمه ان زبان میں سب و دشنام کے معنی میں هے چونکه خدا جانتا تھا که یهود اس کلمه کو سب و دشنام کے لئے استعمال کرتے هیں اسی لئے خدا نے اس لفظ کے استعمال سے روکا .
2- وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ *
“اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے”3
اس آیت میں وجه تمسک کے بارے میں کهتے هیں . خدانے اس آیت میں بت پرستوں کو برابھلا کهنے سے روکا هے تاکه کهیں بت پرست بھی جواب میں خداوند عالم ( معاذالله ) مورد سب و دشنام قرار دیں .
3- مورد استدلال آیات میں ایک آیت یه بھی هے .
* # وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ *4
“اور خبردار اپنے پاؤں پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوجائے ”
قرطبی نے سنت سے کئی ایک روایات کوسد ذرایع کے لئے دلیل کے طور پر پیش کیا هے .
1- صحیح مسلم میں پیغمبر(ص) سے روایت هے که آپ نے فرمایا: “الحلال بین والحرام بین و بینهما امور متشابهات فمن اتقّی الشبهات استبرا الدینه و عرضه و من وقع فی الشبه
ات وقع فی الحرام کالراعی یّرعی حوال حمی یوشک ان یقع فیه ”5
حلال بھی واضح اور حرام بھی روشن هے اور ان کے درمیان شبهناک امور بھی هیں لهذا جو کوئی شبهناک چیزوں سے پرهز کرے اس نے اپنے دین اور آبرو کو حفظ کرلیا اور جو شبهناک امور میں پڑگیا در حقیقت حرام چیزوں میں گرفتار هوگیا بالکل اس کسان کی طرح جو اپنے بھیڑ،بکریوں کو ایسی کھائی کے پاس سے چڑانے لے جائے که جهاں عنقریب ان کا گرنا قطعی هو .
2- پیغمبر(ص) نے فرمایا:
“اِن من الکبائر شتم الرجل والدیه قالوا: یا رسول الله و هل یشتم الرجل والدیه ؟ قال : نعم یسب أباه و یُسب أمکم ”6
گناه کبیره میں سے انسان اپنے ماں باپ کو برا بھلا کهے پیغمبر(ص) کے اطرافیوں نے کها اے رسول خدا کیا انسان اپنے والدین کو برا بھلا کهتاهے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا هاں انسان کسی کے باپ کو گالی دیتاهے وه اس کے باپ کو گالی دیتا هے یه دوسروں کی والده کو گالی دیتاهے دوسروں اس کی ماں کو گالی دیتے هیں .
حیساکه اس سے واضح هے دوسروں کے والدین کو برا بھلا کهنا یا گالی دینا اس بات کا سبب هے که گالی دینے والے کے ماں باپ کو گالی پڑے گی اس لئے سدذرایع کے ذریعه دوسروں کو گالی دینے سے روکا گیا هے .
قرطبی نے آیات روایات سے استدلال کے بعد کها :
یه سدذرایع کی دلیلیں تھیں جو هم نے بیان کی اورمالکیوں نے کتاب آجال ( مهلت دار بیع ) اور دوسرے مسایل بیع کو اسی سد ذرایع کی اساس پر حل کرتے هیں لیکن شافعی کتاب آجال کے قائل نهیں هیں کیونکه ان کے نزدیک بیع آجال مختلف اور مستقل عقود میں سے هے .
مترجم)(
--------------
1- . الجامع الاحکام القرآن ، ج 2 ، ص58 .
2 . سوره ،بقره، آیه ، 104 .
3 . سوره انعام ، آیه ، 108 .
4 . سوره نور ، آیه 31 .
5 .الجامع الاحکام القرآن ، ج 2 ف ص 59 .
6 . گذشته حواله سے ، ج2 ، ص 59 .

تعارض ادله
منابع استنباط کے مباحث میں آخری گفتگو تعارض ادله کے بارے میں هے ۔
مقدمه کے عنوان میں اس مطلب کا ذکر ضروری هے که کبھی دولیلوں کے درمیان (تعارض اتبدائی ) نظر آتا هے لیکن چونکه اس قسم کے تعارض ابتدائی میں جمع عرفی موجود هوتاهے یا ان دو دلیلوں میں ایک دوسری دلیل پر حاکم هوتی هے اس لئے یه تعارض کی ابتدائی بحث تعارض سے خارج هے۔ . اسی لئے دلیل عام یه کهے، سارے دانشمندوں کا احترام کرو اور اسی کے مقابل دلیل خاص وارد هو که بے عمل عالم کا احترام مت کرنا این دو دلیلوں یا ان جیسی دلیلوں میں عرف کی نظر میں کوئی تعارض نهیں بلکه جمع عرفی کا تقاضا یه هے که دلیل خاص کو دلیل عام پر مقدم کیا جائے خاص کو عام پر مقدم کرنے کانتیجه یه هوتا هے که عالم بے عمل کے سلسلے میں هم دلیل خاص پر عمل کریں گے اور عالم بے عمل کے علاوه تمام علماء کے احترام کے لئے دلیل عام حجت هوگی دوسری بعبارت دیگر میں سارے افراد دلیل عام کی عمومیت پر باقی هوں گے-1. اسی طرح جن موارد میں دو دلیلوں کے درمیان ابتداء میں تعارض نظر آتا هے لیکن ایک دلیل جو دوسری دلیل پر حاکم هوتی هے جیسے عناوین اولی پر عناوین ثانوی حاکم هوتے هیں یهاں بھی پچھلے موردکی طرح کوئی تعارض نهیں پایا جاتا جیسےے کوئی دلیل یه کهے-2 غیر اسلامی ذبیحه کا کھانا حرام هے لیکن دوسری دلیل میں یه آئے که مجبوری کی صورت میں اس کا کھانا جائز هے ۔
ایسی دو دلیلیں آپس میں تعارض نهیں رکھتیں بلکه دوسری دلیل پهلی دلیل پر حاکم اور مقدم هوتی هے-3. اسی طرح اگر اماره اوراصل کے درمیان تعارض هو تو یه تعارض بھی ابتدائی تعارض هے جسے در حقیقت تعارض شمار نهیں کها کیا جاتا کیونکه اماره کے هوتے هوئے اصل کی نوبت نهیں آتی اس لئے که اماره اصل پر حکومت یا ورود رکھتی هے ۔ مثال کے طور پر اگر قاعده صحت (اصاله الصحة ) که جسے اکثر افراد اماره شمار کرتے هیں استصحاب فساد سے تعارض رکھے (مثلا همیں یه شک هوکه فلاں انجام شده معامله صحیح تھا یا فاسد ) یهاں پر اصالة الصحة استصحاب پر یعنی اصل عدم انعقاد معامله کے منعقد نه هونے پر مقدم هے ۔
بهر حال کبھی تعارض دو شرعی دلیلوں کے درمیان واقع هوتاهے اور کبھی دو اصل کے درمیان، اگر استصحاب اور دیگر تین اصول ( یعنی اصل برائت و تخییر و احتیاط ) سے تعارض هو تو استصحاب کومقدم کیا جائے گا کیونکه حجیت استصحاب کے دلائل کا تقاضا یه هے که زمان دوم ( یعنی در شک کے زمانے میں ) سابقه پهلے یقینی امر پر بنا رکھی جائے بعبارت دیگر اصل استصحاب اصل محرز هے اس لئے دیگر اصول پر مقدم هوگی دو استصحاب کے درمیان تعارض هو اور ان کے درمیاان سببیت اور مسببیت پائی جائے تو استصحاب سببیی مقدم هوگا ور نه هر دو اصل ساقط و بی اثر هوجائیں گی جیسے وه پانی جو پهلے کر تھا اور اب اس کی کریت میں شک هو اور پانی سے نجس لباس دھویا جائے ایسی صورت میں استصحاب سببی(یعنی پانی کی کریت کا استصحاب )جاری هوگا اور لباس میں نجاست کےاستصحاب ( جو که استصحاب مسببی هے ) کی جانب توجه نهیں کی جائے گی ۔.
دو دلیلوں کے تعارض کی صورت میں کچھ ترجیحات پیش کی گئی هیں اگر ان دو دلیلوں میں کسی بھی دلیل میں ترجیحات پائی جائیں تو اسی دلیل کو مقدم رکھا جائے گا اور اگر کوئی دلیل دوسری دلیل پر کسی قسم کا امتیاز رکھے اور ان میں تعادل برقرار هو تو ایسی صورت میں یا تو دونوں دلیلیں ساقط هوجائیں گی یا ان میں سےایک دلیل کو حجت مانا جائے گا یا پھر احتیاط کی جائے گی اور ان تینوں فیصلوں میں فقهاء اور اصولیوں کے مبنا فرق کرتے هیں هر کسی نے-4 ایک راسته چنا هے اکثر فقهاء کے نزدیک مذکوره بالا قاعده یعنی خصوصیت کی صورت میں ترجیح اور تعادل کی صورت میں تخییر،احتیاط کو تمام امارات میں جاری اور ساری جانتے هیں-5 لیکن یهاں اهم ترین بحث یه هے که اگر دو روایتوں میں تعارض هو که ایسا تعارض اکثر وبیشتر پیش آتاهے او رفقیه کے مختلف ابواب میں متعارض روایات کا سامنا کرنا پڑتاهے مثال کےطور پر وه روایات جس میں وزن اورمساحت کے لحاظ سے کر کی مقدار بتائی گئی هے یا وه روایات که جن میں اهل کتاب خواتین سے ازواج کی حرمت یا عدم حرمت بیان کی گئی هے ۔. ان روایات میں تعارض پایا جاتا هے گذشته مباحث میں سنت ائمه پر جو اشکالات هوئے هیں وهاں هم نے تعارض روایات کی مختلف علتوں کو بیان کیا هے لیکن یهاں پر تعارض کے علاج اور دو متعارض حدیثوں سے برخورد کے طریقوں پر گفتگوهے ۔
روایات و اخبار میں قواعد تعارض کے اجراء کا طریقه بیان کیا گیا هے اجمالی طور پر اکثر فقهاء تاثیر مرجحات کو جانتے هیں صرف باقلانی ابو علی اور ابو هاشم جبانی ان امتیازات او رمزیتوں کو بے اثر جانتے هیں اور هر مقام پر احکام تعادل کو جاری مانتے هیں لیکن فریقین کے نزدیک مشهور هے اور اخبار متواتر کا تقاضا بھی یهی هے که جس روایات کو مقدم کیا جائے ۔
روایات میں کئی ایک مرجحات اور امتیازات روایات کو بیان کیا گیاهے که جن میں بعض مرجحات سند سے اور بعض امتیازات دلالت سے مربوط هیں ے۔.جیسے روایت کا مشهور هونا اور فقهاء کا اس پر عمل کرنا ، راوی کا عادل تر هونا یا اس کا اصدق اور افقه هونا اسی طرح روایت کا کتاب وسنت سے موافقت رکھنا اور اسی طرح کے دوسرے امتیازات اهل سنت نے دیگر امتیازات ،اور ترجحات بیان کیے هیں جیسے راوی کا زمان پیغمبر (ص)سے نزدیک تر هونا یا مدت صحبت کا طولانی تر هونا اور رسول خدا (ص)سے مستقیم حدیث کا سننا ،حکم روایت کا راوی سے مرتبط هونا ، راوی کا مشهور هونا راوی کا مُسن هونا ، راوی کے اسلام کا متاخر هونا ، راوی کالغت عرب سے واقف اور اعلم هونا ، راویوں کی کثرت هونا ، واسطوں کی قلت اور نقل معنا کے بجائے روایت میں عین الفاظ کا هونا ، روایت کا قولی هونا یعنی فعل پیغمبر کی حکایت کے مقابل قول پیغمبر کا هونا-6 اس بات کی توجه کرتے هوئے اکثر مرجحات منصوص نهیں هیں اورروایات میں ان کا ذکر نهیں هے ان مرجحات کو اپنے مبنا کے حساب سے قبول کریں گے که قبول مرحجات میں همارا مبنا کیا هے ؟ کیا قول مرجحات میں موارد منصوص سے ( یعنی وه موارد جو متن حدیث میں ذکر هوئے هیں )تجاوز کرسکتے هیں یا نهیں ؟ اگر کرسکتے هیں تو یه مرجحات همارے لئے قابل قبول هون هوں گے و رنه نهیں هونگے لیکن اگر دو روایتوں میں تعادل برقرار هواور کسی بھی روایت کو ایک دوسرےپر ترجیح حاصل نه هو ، تو ایسی صورت میں علماء کے درمیان اختلاف نظر موجود هے یعنی بعض ددونوں روایتوں کو حجیت سے ساقط جانتے هیں اور نتیجتاً اصول عملیه کی جانب رجوع کرتے هیں کیونکه دلیل اجتهادی کے ساقط هونے کی صورت میں اصل عملی کی جانب رجوع کیا جاتاهے ۔
ان کے مقابل دوسرا گروه اس بات کا قائل هے که دونوں روایتیں قابل عمل هیں اور تیسرا گروه احتیاط کا قائل هے اور چوتھا گروه توقف اور پانچواں گروه تخییر کا قائل هے ۔
یه بحثیں اصول کی معروف کتابوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی هیں ۔(مترجم7)


* الحمد لله الرب العالمین *
--------------
1 . البته یه تذکر لازم هے که جهاں کهیں دو دلیلں مل جائیں.
2 . دلیل حاکم و محکوم کی توضیحات ادله لفظی کی تقسیمات میں گذر چکی هے .
3 . انوار الاصول ، ج 3،ص 506 .
4 . رسائل ، فرائد الاصول ، ص 414 .
5 . گزشته حواله ، ص 441 .
6 . رسائل فرائد الاصول ، ص 449 ؛ کفایة الاصول ،ج2 ، ص 392
7 . (مترجم)
عرف :
فقهاء کے نزدیک عرف بھی ادله استنباط میں شمار هوتاهے جس کی تعریف میں کهتے هیں وه چیز جو لوگوں کے درمیان متعارف معمول هو ں اور ان کی عملی اور گفتاری سیرت کا جز هوں .
عرف اگر مذکوره معنی میں هو تو عادت کا مترادف هوگا اسی لئے عرف کی تعریف میں کها گیا “ عاده جمهور قوم فی قول ا و عملی”
قول و فعل میں کسی قوم کی عادت کو عرف کهتے هیں .

عرف کی تقسیمات :
1- عرف خاص اور عرف عام :
عرف خاص کسی خاص زمانے یا منطقه یا اهل فن کے عرف کو عرف خاص کهتے هیں ، مثلا زمان پیغمبر(ص)کے عربوں کا عرف شهر مدینه کے لوگوں کا عرف یا اهل بازار کا عرف .

عرف عام :
عام لوگوں کا عرف که جس میں زمان مکان یا کسی خاص فن کی قید نه هو .
توجه رهے که عرف عام یا خاص هونا ایک امر نسبی هے ، کبھی ایک هی عرف ایک لحاظ خاص سے اور دوسرے لحاظ سے عام هوتا هے .

2- عرف عملی اور عرف قولی :
عرف عملی جیسے بیع معاطاتی یعنی خرید و فروش میں لوگوں کی عادت یه هے که صیغه جاری کرنے کے بغیر هی معاملات انجام دیتے هیں یه عادت کئی قوموں کے عوام و خواص میں اور هر زمانےمیں رائج رهی هے .

عرف قولی :
جیسے عراقیوں کی عادت هے که لفظ ولد کو فقط بیٹوں کے لئے استعمال کرتے هیں بیٹیوں کے لئے هیں یا بعض مناطق کے لوگ مچھلی کے لئے گوشت کا لفظ استعمال نهیں کرتے اب اگر کوئی قسم کھائے که میں گوشت نهیں کھاؤں گا اور کھالے تو عرف قولی کی بنا پر نه اس نے اپنی قسم توڑی هے اور نه اس پر کفاره لگے گا .

عرف صحیح اور عرف فاسد :
عرف صحیح اس عرف کو کهتے هیں جو دوسری شرعی دلیل جیسے قرآن یا سنت کے مخالف نه هو مثال کے طور ر بعض علاقه کے لوگوں کی عادت یه هے که دلهن والے رخصتی سے پهلے دلهے سے نقدی مھرلیتے هیں تا دلهن کا جهیز خرید سکیں .

عرف فاسد :
جیسے معاملات میں ربا انجام دینا یا شراب پینا یا اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں عورتوں کا پرده کے معامله میں سهل انگاری سے کام لینا .

مذاهب اسلامی میں عرف کی حجیت :
اهل سنت کے اکثر مذاهب کے نزدیک عرف کی جانب رجوع کرنامورد قبول واقع هوا هے .
حنفیوں کے نزدیک عرف کے ذریعه احکام شرعی کا اثبات خاص طور سے معاملات میں بهت رائج هے . ان کے نزدیک جب تک عرف پر عمل سے روکنے والی کوئی نص نه هو تب تک عرف ثبوت احکام میں دلیل تام سمجھی جائے گی . یهاں تک که اگر قیاس عرف کے خلاف هو تو قیاس کو رد کردیاجائے گا کیوں که قیاس پر عمل کرنا لوگوں کی زحمت کا باعث هے اسی لئے کبھی کبھی عرف مصالح مرسله میں شمار هوتا هے .
ابو حنیفه اور اس کے ماننے والے کابعض احکام میں اختلاف هے کیونکه انھونےعرف کو مختلف دیکھا هے.
مالک بن انس اکثر موارد میں شرعی احکاام کو اهل مدینه کے عرف پر معین کرتے تھے .
اما م شافعی جب مصر میں وارد هوئے تو انهوں نے اکثر احکام بدل دیے کیوں که وه اهل مصر کی عرف کو عراق و حجاز کے عرف سے جدا پاتے تھے.
اهل سنت کے فقهائ نے کچھ قواعد ایسے بنائے هیں جو عرف کے اعتبار هونے کی وجه سے دلیل شرعی کے عنوان سے بنائے گئے هیں . ان میں سے بعض قواعد که جس کا ذکر مجله الاحکام العدلیه میں هوا هے وه عبارت هیں :
“العادۀ محکمۀ؛ استعمال الناس حجۀ یجب العمل بها ؛ المعروف و عرفا کا لمشروط شرطا ؛ التعیین بالعرف کالتعیین بالنص ؛ لاینکر تغیر الاحکام بتغیر الازمان ؛ الثابت بالعرف کالثابت بالنص ”
عرف فاسد کی رعایت واجب نهیں کیونکه دلیل شرعی کے خلاف هے مگر یه که (عرف ضرورت کے باب سے آیا هو) ایسی صورت میں کهتے هیں( الضرورات تبیح المحذورات )لیکن مجتهد کو چاهئیے که صحیح کا لحاظ کرے جیسا که رسول خد(ص)نے لوگوں کی کئی ایک اچھی عادتوں کا لحاظ کیا اور کبھی سکوت کے ذریعه اور کبھی صراحت کے ساتھ ان عادتوں کی تائید کی .
عرف کی جانب رجوع کرنے میں ایک مورد باب خیار عیب هے کون سی چیز عیب اور موجب فسخ هے اور کون سی چیز عیب نهیں هے اس کی تشخیص کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جائے گا اسی طرح ودیعه کی دیکھ دیکھ کتنی مدت تک هونی چاهیئے که کوئی یه نه کهے که ودیعه کی حفاظت میں کوتاهی کی گئی اس مسئله میں بھی عرف کی جانب رجوع کرنا هوگا لیکن شیعوں کی نظر میں عرف کی جانب رجوع کے موارد ایک جیسے نهیں هیں .
1- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتاهے که ظهور لفظی کو تشخیص دیا جائے جیسے لفظ ولد یا گوشت که جس کی مثال گذر چکی ان جیسے موارد میں عرف قولی کی جانب رجوع کرنا ظهور عرفی کی تشخیص کے لئے قابل قبول هے لیکن روشن هے که یهاں عرف حکم شرعی کی دلیل نهیں هے .
2- کبھی کسی حکم شرعی کے موضوع کامصداق تلاش کرنے کے لئے عرف کی جانب رجوع کیا جاتا هے جیسے فقه میں آیا هے که ودیعه کی حفاظت واجب هے اور اس میں کوتاهی ضمان کا موجب هوگا لیکن زمان و مکان کے اعتبار سے عرف بھی اسی زمان و مکان کے مطابق هوگا اس لئے اسی عرف کی روشنی میں حفظ یا کوتاهی کا مصداق تلاش کیا جائے گا یهاں بھی عرف کا حکم کی شناخت میں کوئی کردار نهیں .
3- کبھی عرف کی جانب اس لئے رجوع کیا جاتا هے تاکه اس سے حکم شرعی کو کشف کیا جائے حیسے منقولات کے وقف کا جائز هونا یا اخذ ظاهر کا جائز هونا یا عقد فضولی کا صحیح هونا شیعه اصولیوں میں سیره عقلا اور سیره متشرعه کی بحث اور حکم شرعی میں ان کا کردار اسی عرف سے مربوط هے .
لیکن عرف کی طرف رجوع یعنی سیره کی طرف رجوع سےمراد یه نهیں هے که عرف ایک دوسری مستقل دلیل جو ادله شرعی کے عرض میں هے کیونکه سیره عقلا یا سیره متشرعه اس وقت حجت هے جب شارع کے مخالف نه هو اور شارع کی مخالف سمجھنے اور نه سمجھنے کے هے شرعی دلیل یعنی کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنا هوگا لهذا سیره عقلا کی حجیت معتبر دلیل شرعی کی حجیت کی وجه هے یعنی کتاب و سنت کی حجیت کی وجه سے .
لیکن سیره متشرعه کی حجیت کے لئے شارع کی تائید کی ضرورت نهیں کیونکه سیره مشترعه شارع کی راهنمائی کے بغیر وجود میں آهی نهیں سکتی کسی گروه کا متشرعه هونا اس بات کی دلیل هے که یه سیرت دستور شرعی سے ماخوذ هے اور دلیل شرعی کی بنا پر صورت پاتی هے .

عرف کی حجیت کے دلایل اور ان کا جواب :
اهل سنت میں عرف کے قائل فقهاء نے اس کی حجیت پر چند دلیلیں پیش کی هیں .
1- عبدالله بن مسعود کی روایت .
“ماراه المسلمون حسناً فهو عندالله حسن”
اگثر فقهاء نے اسی حدیث پر اعتماد کیا هے اس حدیث کی سند میں جو تھامناقشه اس سندی کی بحث گذر چکی بعض نے اس روایت کی سند کے صحیح هونے کے بارے میں کها هے که صحابی جب بھی مقام تشریع میں کچھ کهیں تو اسے قول رسول سے ماخو ذ سمجھنا چاهیئے پس اگر عبدالله بن مسعود نے اپنے سے یه بات کهی تو اس کے حدیث نبوی هونے کے لئے کافی هے .
جواب :
اس بات کا تعلق قول صحابی یا مذهب صحابه کی حجیت سے هے.
اسلام نے مختلف مواردمیں عرف جاهلی کی تائید کی هے جیسے ازدواج میں عورت اور مرد کا کفو هونا یا قاتل که پدری رشته داروں پر قتل خطا ئی کا دیه قرار دینا .
جواب :
اگر سیره عقلا ء کی حجیت شارع کی تائید سے هے تو اس حجیت کو تسلیم کرتے هیں اور اگر اس سے مراد هر عرف کی حجیت کا اثبات هےتو یه تسلیم نهیں کرتے بلکه تمهارے نزدیک بھی یه قابل قبول نهیں کیونکه اگر قبول هوتا تو عرف صحیح اور عرف فاسد میں تقسیم نهیں کرتے .