استنباط کے مورد اختلاف منابع
اب تک جن منابع کے بارے میں گفتگو هوئی وه سارے منابع استنباط کے مورد اتفاق منابع هیں ان کے علاوه اور بھی منابع هیں که جن میں فقهاء اتفاق نظر نهیں رکھتے پهلے یه بات گذر چکی که مصادر اور منابع احکام ایسے هونے چاهئیے جس سے قطع و یقین حاصل هو اور اگر ان سے ظن و گمان حاصل هوتا هوتو اس صورت میں کوئی ایسی قطعی دلیل هو جو اس ظن و گمان کے اعتبار و حجیت کو ثابت کرے ۔
کتاب کے اس حصه میں جن منابع اسنتباط پر گفتگو هوگی یه وه موارد هیں که جس پر (اجتهاد رائے) کا کلمه صادق آتاهے۔ . اس لئے که اجتهاد کی دو اصطلاح هیں :
الف : عام طور پر اجتهاد اسے کهتے هیں جس میں فقیه ادلهءشرعیه کے ذریعه حکم شرعی کو کشف کرنے کی کوشش کرتاهے اس طریقه کا اجتهاد تمام علمائے اسلام کے نزدیک معتبر اور مورد اتفاق هے ۔
ب: اجتهاد به معنای خاص وه اجتهاد هے که جسے اجتهاد بالرأئے کها جاتا هے اس اجتهاد میں مجتهد استحسان، مصالح مرسله اور وه موارد که جن میں نص موجود نه هو سد و فتح ذرایع سے کام لیتاهے اسی لئے بعض افراد کلمه اجتهاد کو قیاس کا مترادف مانتے هیں -1 اجتهاد کی یه دوسری قسم اهل سنت سے مخصوص هے ، اخباریوں کی جانب سے شیعه اصولیوں پر جو اعتراضات هوئے او راجتهاد کو مذموم قرار کیا دیا گیا اس کی وجه یهی تھی که وه ان دو قسم کے اجتهاد میں فرق کے قائل نهیں هوئے اور یه سمجھ بیٹھے که شیعه مجتهدین کا اجتهاد اهل سنت کے اجتهاد کی طرح اجتهاد بالرأئے پر استورا هے اسی لئے انهوں نے مجتهدین اور ان کے اجتهاد کی سخت مخالفت کی ۔
اگرچه (اجتهاد بالرأئے )کے طرفداروں نے استحسان ،قیاس او ردیگر تمام موارد کے اعتبار و حجیت پر کتاب و سنت سے دلیلیں پیش کی هیں لیکن هماری نظر میں اس قسم کے اجتهادات کی دو وجهیں هیں :
الف : ایک وجه خود صحابه ءکرام هیں بعض صحابه ءکرام کا اجتهاد بالرأئے سے کام لینا جب که دیگر صحابه ءاس قسم کے اجتهاد کے سخت مخالفت تھے جناب ابن عباس اور عبدالله بن مسعود کے بارے میں نقل هوا هے که وه اجتهاد بالرأئے کرنے والوں کو مباهله کی دعوت دیتے تھے حضرت علی علیه السلام سے روایت هےکه آپ نے فرمایا :
“لوکان الدین بالرأی لکان المسح علی باطنة الخف اولی من ظاهره ”۔.
اگر نظام دین اجتهاد بالرأئ پر قائم هوتا تو تلوے پر مسح کرنا پیر کی پشت پا پر مسح کرنے سے بهتر سمجھاجاتا-2۔ وه افراد جو اجتهاد بالرائے میں سرفهرست هیں اورشهرت رکھتے هیں ان میں سب سے پهلے عمرابن خطاب هے اور اصحاب کے بعد ابو حنیفه کو امام اهل الرأئے کا امام کهاگیا اسی وجه سے اکثر علماء و محدثین نے ابو حنیفه کی مذمت کی هے-3 مکتب رائےکی نسبت فقهائے کوفه کی جانب دی گئی جب که ان کے مقابل فقهائے مدینه کو مکتب حدیث سے یاد کیا گیا-4. وه افراد که جن کا نام اصحاب الرأئے میں آتا هے ان میں سے چند نام یه هیں ابو یوسف ابن سماء ابو مطیع بلخی اور بشیر مرلسی-5۔
ب: اجتهاد بالرأئے کے رواج کی دوسری وجه یه که رحلت پیغمبر (ص)کے بعد وصول احکام کے راستے بند هوگئے جیسے هی آپ نے وفات پائی وحی کا سلسله منقطع هوگیا اور لوگ خاندان وحی یعنی اهل بیت پیغمبر(ص)سے دور هوگئے جس کی وجه سے وه حقیقی احکام جو شارع کے مورد نظر تھے ان تک پهنچنے کا راسته بند هوگیا اور یهی بات اجتهاد بالرائے کی تقویت کا سبب بنی ب دوسری عبارت دیگر میں انسداد احکام کا تصور اجتهاد بالرائے کا سبب بنا کیونکه روز مره کے حوادث و واقعات سے حالات کی تبدیلی اور وسائل و آلات کی ترقی کی وجه سے هرروز نئے نئے مسائل وجود میں آتے رهے که جس کی تعداد کم نه تھی او ریه تصور کیا جانے لگا تھا که ایک طرف نصوص دینی ان مسائل کے جواب کےلئے کافی نهیں دوسری طرف دین اسلام آخری دین الهیٰ هے جو رهتی دینا تک قائم و دائم رهنے اور تمام وظایف کو بیان کرنے والا هے پس لازم هے که اس قسم کے اجتهاد ات کو حجت قرار دے کر جدید مسائل میں استنباط احکام کا رسته کھولاجائے ۔
اس کے برعکس پیروان مکتب اهل بیت علیهم السلام ائمه معصومین علیهم السلام کی سنت کو پیغمبر(ص)کی سنت کے برابر جانتے تھے اس لئے انهیں احادیث کی دسترسی میں کوئی مشکل یپش نهیں آئی اور وه اس لحاظ سے غنی رهے اور واضح هے که سنت میں ایسے کلی اور عام قواعد موجود هوتے هیں جنهیں جزئی موارد پر تطبیق دیاجاسکتا هے کیونکه ان کلی قواعد میں موارد شک ، فقدان نص یا تعارض نصوص کی صورت میں مکلفین کے وظائف کو بیان کیا گیا هے-6 اسی لئے اجتهاد بالرائے کی نوبت هی نهیں آئی اس لئے که وه اصول جن کا ذکر اوپر گذر چکا وه رفع انسداد کو دور کرنے کےلئے کافی هیں ۔
بهرحال هم یهان اجتهاد بالرائے کے چند مصادیق کو بیان کرتے هیں ۔
--------------
1 . روضة الناضر ، ج2 ،ص141 .
2 . الاحکام فی اصول ا لااحکام ، ج 4 ، ص 47 ، سنن بهیقی ، ج1 ، 292 .
3 . تاریخ بغدادی ،ج 13 ، ص 413 .
4 . مناهج الاجتهاد فی الاسلام ، ص 115 .
5 . مناهج الاجتهاد فی الاسلام ، ص 117 .
6 . اسی کتاب میں مسائل مستحدثه کے عنوان کے تحت جو مطالب آئے هیں ان کی جانب رجوع کریں .
قیاس (مترجم)
کسی خاص موضوع کےحکم کو دوسرےموضوعات پر جاری کرنے کو قیاس کهتے هیں(مترجم)-1. قیاس کی چار قسمیں هیں:-2
--------------
1 . (مترجم) قیاس کی تعریف :
قیاس لغت میں اندازه گیری کے معنی میں آیاهے مثلا کهاگیاهے که قست الثوبُ بالذراع ،کپڑے کو ذرایع کے ذریعه ناپا .
لیکن اصطلاح میں اس کی مختلف تعریفین کی گئی هیں الاصول العامه للفقه المقارن نامی کتاب میں آیا هے که “قیاس عبارت هے که فرع کا حکم شرعی کی حالت میں اپنے اصل کے برابر هونا ”.
استاد عبدالوهاب خلاّف قیاس کی تعریف میں کهتے هیں :
قیاس اصولیوں کے نزدیک ایسا مسئله که جس پر نص موجود نه هو اسے کسی ایسے مسئله سے که جس پر نص آئی هےملحق کرنا او ریه الحاق اس حکم سے هے که جس کے لئے نص وارد هوئی هے اس لئے که دونوں مسئله علت حکم کے اعتبار سے مساوی هیں .2
مرحوم مظفر فرماتے هیں :
امامیه کی نظر میں قیاس کی بهترین تعریف یه هے که :
هواثبات حکم فی محّل بعلۀ لثبوته فی محّل آخر بتلک العلۀّ.3
قیاس یعنی ایک حکم کو جو اس کی علت کی وجه سے ثابت هے اسے دوسرے مقام پر اسی علت کی وجه سے ثابت کرنا .
--------------
1-(مترجم) . الاصول العامه للفقه المقارن ، ص 305 .
2 .علم اصول الفقه ، ص52 .
3 . اصول الفقه مظفر ، ج3 ،ص83 .
2 . (مترجم) قیاس کے ارکان :
قیاس کے چار رکن هیں :
1- اصل که وهی مقیس علیه هے حکم اصل شارع کی جانب سے صادر هوا هے اور روشن هے جسیے شراب کی حرمت .
2- فرع وهی مقیس هے که جس کا حکم شرعی معلوم نهیں اور قیاس کرنے والا یه چاهتاهے که اس کے حکم شرعی کو ثابت کرے مثال میں فرع یا مقیس وهی فقاع هے.
3- علت یعنی وه جهت مشترک جو اصل و فرع کے درمیان هے که جسے اصطلاح میں جامع بھی کهتے هیں مثال میں “جامع” وهی مسکر هوناهے جو که شراب اور فقاع میں مشترک هے .
4- حکم ، حکم سے مراد وهی حکم شرعی هے که جو اصل پر وارد هوا دوسری عبارت میں حکم اصل روشن اور معتبر شرعی دلیل سے ثابت هواهو جیسے شرب کا حرام هونا مخالفوں کی.
1- قیاس منصوص العله
یه هے که شارع کسی حکم میں علت کا ذکر کرے اور چونکه حکم کا دار و مدار علت پر هوتاهے .پس فقیه ان موضوعات میں که جن میں وه علت موجود هے حکم کو ایک موضوع سےدوسرے موضوعات پر جاری کرتا هے مثال کے طورپر شارع کهے :
لاتشرب الخمر لا نه مسکر.
شراب مت پیو کیونکه شراب نشه آور اور مست کرنے والی هے ۔
اگر یهاں پر فقیه حرمت کے حکم کو دیگر مست کننده اشیاء پر جاری کرے تو یه عمل قیاس مصنوص العله کهلائے گا-1کیونکه لاتشرب الخمر در حقیقت “لاتشرب المسکر” هے ۔
2- قیاس اولویت
اس قیاس کو کهتے هیں جس میں ایک موضوع کے حکم کو اولویت قطعی کی بنیاد پر دوسرےموضوع پر جاری کیا جاتا هے جیسا که خداوند عالم نے فرمایا:
" * فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ "*
“ ماں باپ کے آگے اف نه کرنا ” ۔ 2
یه جمله اولویت قطعی کی بنیاد پر دلالت کرتاهے که ماں باپ کو برا بھلا کهنا حرام هے کیونکه جب اف کرنا حرام هے تو برابھلا کهنا کیسے جایز هو سکتاهے ۔
3- قیاس همراه تنقیح مناط کے ساتھ
یه قیاس وهاں جاری هوتاهے جهاں موضوع کے ساتھ حالات و خصوصیات کا ذکر هو لیکن ان حالات و خصوصیات کا اصل حکم میں کوئی دخل نه هو پس ایسی صورت میں فقیه ان حالات و خصوصیات سے صرف نظر کرتے هوئے صرف حکم کو نظر میں رکھتاهے اور اس حکم کو دوسرے حکم پر جاری کرتاهے مثال کے طور پر آیه تیمم میں مذکو ر هے :
" * فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ "*
“اگر پانی نه ملے تو تیمم کرو” ۔3
جب که هم جانتے هیں خود پانی کا هونا یا نه هونا حکم تیمم میں موضوعیت نهیں رکھتا اسی لئے اگر پانی هو اور وضو کرنے والے کے لئے ضرر رساں هو تب بھی حکم تیمم جاری هے یعنی پانی کے ضرر رساں هونےکی صورت میں اس پر تیمم واجب هے اور مثال بالکل اس مثال جیسی هے که کوئی شخص یه سوال کرے که اگر کوئی مرد مسجد میں نماز ظهر پڑھ رها هو اور اسے تیسری اور چوتھی رکعت کے درمیان شک هوتو ایسی صورت میں نماز گزار کا کیا وظیفه هے ؟ امام اس کے جواب میں یه کهے که وه چوتھی رکعت پر بنا قرار دے اور ایک رکعت نماز احتیاط بجلائے اب یهاں پر فقیه تنقیح مناط کا سهار الیتے هوئے اس حکم کو هر چار رکعتی نماز پر جاری کرسکتاهے کیونکه نماز ظهر یا مسجد کا هونا اور شک کرنے والے کا مرد هونا ان میں سے کوئی بھی مورد موضوع کے لئے قید نهیں بلکه ایک حالت هے پس ان حالات کو حذف کرکے خود اصل حکم کو مشابه موضوع مشابه پر جاری کیا جاسکتاهے ۔
قیاس مستنبط العله
اس قیاس کو کهتے هیں جس میں اپنے ظن و گمان سے علت کشف کرتاهے اور حکم کو ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر جاری کرتا هے پهلے موضوع کو اصل یا مقیس علیه کهتے هیں اور اس موضوع کا حکم مسلم و مفروض هے دوسرے موضع کو فرع یا مقیس کهتے هیں کیونکه اس موضوع کا کوئی حکم نهیں فقط اصل حکم میں مشترک هونے کے گمان پر پهلے موضوع کے حکم کو اس پر جاری کیا جاتاهے . ابتدائی تین قسموں میں قیاس تمام فقها کے نزدیک حجت هے کیونکه کسی میں بھی اصل وقوع کا وجود نهیں بلکه مقیس اور مقیس علیه دونوں اصل هیں ب دوسری عبارت دیگر میں خود دلیل کے ذریعے هر دو موضوع کے لئے حکم ثابت کیاجاسکتاهے-4 -6 -5قیاس کی چوتھی قسم یعنی قیاس مستنبط العله اهل سنت کے نزدیک حجت هے خاص طور پر ابو حینفه کے پیروکار که انهیں قیاس پر بهت زیاده اعتماد هے . لیکن مکتب اهل بیت علیهم السلام کے ماننے والے اس قیاس کا انکار کرتے هیں اسی طرح اهل سنت میں نظام اور اس کے تابعین اسی طرح گروه ظاهریه جس میں ا بن حزم او رداود وغیره شامل هیں اور بعض معتزله که جس میں جعفربن حرب ، جعفر بن مبشر ، محمد بن عبدالله اسکا فی کا نام آتا هے یه سب قیاس کو باطل جانتے هیں بلکه ابن حزم نے قیاس کے خلاف ابطال القیاس نامی مستقل کتاب بھی لکھی -7 حنبلیوں کی جانب سے بطلان قیاس کی نسبت دی گئی هے اور احمدبن حنبل کا کلام بھی اسی معنی کی جانب اشاره کرتا هے کیونکه انهوں نے کها :
یحتسب المتکلم فی الفقه هذین الاصلین المجمل والقیاس ۔.
فقیه مجمل اور قیاس سے اجتناب کرتا هے ۔
لیکن اس کے اس کلام کی توجیه یوں کی گئی که اس سے مراد بطلان قیاس د رمقابل نصنفی کے مقابل میں قیاس باطل هے -8 آج وهابی جو اپنے اپ کو حنبلی مسلک کهتے هیں وه دین میں قیاس در دین پر اعتماد کرتے هیں اور اسے حجت مانتے هیں ۔
قیاس کی چوتھی قسم ککی ے دلائل حجیت کے دلائل پر نتقید
فرض یه هے که قیاس کی یه قسم حکم شرعی پر یقین نهیں دلاتی بلکه فقط حکم کے احتمال کو بیان کرتی هے کیونکه موضوعات کا ایک یا چند جهت سے مشترک اور مشابه هونا اس بات کی دلیل نهیں هے که وه حکم میں بھی مشترک هوں اور جن مواردمیں عقل بھی حسن وقبح کی اساس بنیاد پر مستقل اور قطعی حکم نه لگا سکے ایسی صورت میں احکام شرعی کے ملاک کو قطعی طور پر کشف کرنا نا ممکن هے بلکه یهاں پر صرف شارع هے جو احکام کے ملاک اور فلسفه کو بیان کرسکتاهے . اسی لئے اس قیاس کی حجیت پر دلیل ضروری هے اهل سنت نے جو دو دلیلیں پیش کیں هیں وه کچھ اس طرح هیں ۔
1- قرآن میں آیا هے :
" * فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ "*
“اے صاحبان خرد عبرت حاصل کرو” ۔9
اس دلیل کی تفصیل یه هے که اعتبار عبورکے معنی میں هے ایک چیز سے دوسری چیز تک عبور کرنا دوسری بعبارت دیگر میں ایک شبیه سے دوسری شبیه تک عبور کرنا او رقیاس بھی ایک طرح کا عبور هے اس میں اصل کے حکم سے فرع کے حکم تک عبور کیا جاتاهے مذکوره آیت میں همیں اس عبور یعنی قیاس کی ترغیب دی گئی هے ۔
جواب :
اس آیت سے استدلال کی کمزوری اور ضعف واضح هے کیونکه اعتبار حوادث و وقایع سے عبرت لینے اور نصیحت لینے کے معنی میں هے خاص طور پر اس آیت پر اگر توجه کی جائے تو معلوم هوگا که یه آیت اهل کتاب اور کفار کی شرنوشت کو بیان کررهی هے که خدا نے اس طرح ان کے دل میں و حشت ڈال دی که وه خود اپنے اور مؤمنین کے هاتھوں اپنے گھروں کو توڑ رهے تھے اور قرآن یه چاهتاهے که اس واقعه سے عبرت لو پس معلوم هو ا که اس آیت کا دین کے احکام فرعی میں قیاس سے کوئی تعلق نهیں-10 ابن حزم اپنی کتاب (البطال القیاس ) میں کهتاهے : کیسے ممکن هے که خداوند اس آیت میں هم کو دین میں قیاس کا حکم دے اور یه بیان نه کرے که هم کهاں کس چیز کا کس چیزسے قیاس کریں اس قیاس کے حدود و شرائط کیا هیں ؟ اور اسے بغیر کسی توضیح کے مبهم چھوڑدے-11 ۔
2- اهل سنت کی دوسری قرآنی دلیل یه هے که خداوند عالم ارشاد فرماتاهے :
" * قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ، قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ "*
“ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے، آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا ”۔ 12
منکرین معاد نے پیغمبر سے سوال کیا کون هے جو بوسیده هڈیوں میں جان ڈال دے ؟
خدانے فرمایا:
اے پیغمبر! آپ کهدیجئے که جس نے تمهیں عدم سے وجود بخشا وهی تمهیں دو باره زنده کرے گا ۔
قیاس کے طرفداران قیاس کهتے هیں که اس آیت میں قیاس کے ذریعه استدلال کیا گیا کیونکه یه آیت وه دو چیزیں که جن کا حکم مشابه هو ان کے مساوی هونے پر دلالت کرتی هے . اسی لئے جو شخص یه انکار کررهاهے که بوسیده هڈیاوں قیامت میں دوباره زنده نهیں هوسکتیں اسے کها جارها هے که ان هڈیاں کا زنده کرنا انسان کو عدم سے وجود بخشنے جیسا هے یعنی جیسے وه ممکن تھا ویسے یه بھی ممکن هے ۔
جواب :
قیاس کے مخالفین قیاس جواب دیتے هیں که اس آیت میں امر تکوینی میں قیاس کیاگیا هے اور امر تکوینی کا قیاس قطعی هوتاهے کیونکه عقل کهتی هے که جو آغاز آفرنیش میں یه قدرت رکھتا هے که اس کائنات کو عدم سے وجود بخشے یقینا وه یه قدرت بھی رکھتاهے که قیامت کے بعد اسے دوباره لوٹا دے بلکه یه کام اس کےلئے پچھلے کام سے آسان ترهے جیسا که خود قرآن کا ارشاد هے :
" * وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ "*
“اور وہی وہ ہے جو خلقت کی ابتدا کرتا ہے اور پھر دوبارہ بھی پیدا کرے گا اور یہ کام اس کے لئے بے حد آسان ہے” ۔ 13
یه قیاس حقیقت میں قطعی عقلی هے در حالیکه هماری بحث قیاسات ظنی میں هے ۔
3- روایات کے اعتبار سے حجیت قیاس پر مهم ترین استدلال معاذبن جبل کی حدیث سے کیاگیا اس حدیث کے ذریعه قیاس ظنی کے علاوه باب استحسان، مصالحه مرسله ،سد وفتح ذرایع کی حجیت پر نیز استدلال کیا گیا هے .
اس حدیث میں آیا هے که جس وقت پیغمبر (ص)نے معاذبن جبل کو یمن میں قضاوت کے لئے بھیجنا چاها تو ان سے کها :
اے معاذ !کس طرح قضاوت کروگے ؟
معاذ نے کها :
کتاب وسنت کے ذریعه
آپ نے فرمایا:
اگر وه حکم کتاب و سنت میں نه هو تو کیا گروگے ؟
کها که :
“اجتهد رأیی ولا الوِ ”۔. 14
“" میں اپنی رأئے کے ذریعے اجتهاد کروں گا اور مسئله کو بلا حکم نهیں چھوڑوں گا ”" ۔
اس حدیث سے یه استدلال کیا گیا که کلمه (اجتهاد رأئے ) سے ظاهر هوتاهے که کتاب و سنت پر تکیه کئے بغیر حکم لگانے کو اجتهادبالرائے کهتے هیں اور اسی طرح کا اجتهاد عمومیت رکھتا هے جس میں قیاس ظنی بھی شامل هوجاتا هے ۔
جواب :
قیاس ظنی کے مخالفین نے اس حدیث کا جواب یوں دیا که
1- اول تو یه روایت سند کے لحاظ سے ضعیف هے کیونکه اسے حارث بن عمر کے واسطه سے بیان کیا هے بخاری اورترمذی نے حارث کو مجهول جانا هے اور دوسروں نے بھی اسے ضعفا میں شمار کیا هے اس کے علاوه خود حارث نے اسے "حمص کے کچھ لوگوں " سے نقل کیا هے اس لئے یه روایت مرسل اور غیر متصل هے .
2- دوسری یه که یه روایت ان تمام روایات سے تعارض رکھتی هے جس میں اجتهاد رای کی مذمت کی گئی خاص طور سے معاذ کی وه روایت جس میں پیغمبر (ص)نے معاذ کو یمن کی جانب حرکت کرنے سے پهلے کها :
جس چیز کا علم نه هو اس کے بارے میں قضاوت مت کرنا اور اگر کسی حکم میں مشکل پیش آجائے تو اس وقت تک صبر کرنا جب تک تمهیں صحیح حکم سے آگاه نه کروں یا پھر مجھے خط بھیجنا تاکه میں اس کا جواب بھیجوں چنانچه مذکوره روایت کی عربی عبارت یه هے که
“لمابعثنی رسول الله الی یمن قال : لاتقضین ولاتفصلن الا بماتعلم و ان اشکل علیک امر فقف حتی تبینه او تکتب الی فیه”۔ .15
ایک اور روایت که جسے ابوهرهره نے نقل کیا اس میں آیا هے :
“تعمل هذه الامة برهة من کتاب الله ثم تعمل برهة بسنة رسول الله ثم تعمل بالرأی فاذا عملوا بالرأی فقد ضلوا واضلو” ۔.
“"یه امت ایک مدت تک کتاب خدا پر عمل کرے گی پھر ایک مدت تک سنت پر عمل پیرا هوگی اس کے بعد خود اپنے آراء پر عمل کرنے لگے گی اور جب ایسا هونے لگے تو وه تو خود کو بھی گمراه کریں گے اور دوسروں کی گمراهی کا سبب بنیں گے” ۔ (مترجم)
--------------
1 . اصطلاحات الاصول ، ص226.
2 . اسراء ، 23 .
3 . نساء ، 115 .
4 . انوار الاصول ، ج 2،ص 519
5 . اتحاف زری البصائر ، شرح روضة الناظر ، ج 4،ص2144.
6 . ر.ضة الناظر ،ج2 ،ص151.
7 .حشر ، 2 .
8 . اصول الفقه،ج2 ،ص 192 .
9 . ابطال القیاس ، ص 30 .
10 . یسٰ،79/78.
11 . روم ، 27 .
12 . مسند احمد ،باب حدیث معاذبن جبل ،ج5،ص 230، ح21595 .
13 . وهی مدرک .
14 . ملخص البطال القیاس ، ص 14، تهذیب التهذیب ،ج2 ،ص 260 .
15 . سنن ابن ماجه ،ج1 ،ص 21 ، ح 50 .
16 . کنز العمال ، ج 1 ف ص180 ، ح 910 .
17 . (مترجم) 15-نتیجهء بحث :
گذشته مطالب کے پیش نظر علماء امامیه اور دوسرے قیاس کےمخالفوں کی نظر میں استنباط احکام میں قیاس کی کوئی ارزش و اهمیت نهیں هے . اور اس قیاس سے حاصل هونے والے ظن و گمان کے لئے ایسی عام اور روشن دلیلیں هیں جو ظن پر عمل کرنے کو حرام جانتی هیں . قیاس پر عمل کی حرمت پر قطعی دلیلوں میں وه روایات هیں جو نمونه کےطور پر آپ کے سامنے پیش کیے گئے .لیکن جیسا پهلے بھی بیان هوچکا هے که علماء اهل سنت کے ایک گروه جیسے حنفیوں اور دوسروں نے قیاس کو حکم شرعی کے لئے مصدر ومبنا مانا هے . اور اس کی حجیت و اعتبار پر کتاب وسنت و اجماع سے دلیلں پیش کی هیں ، قیاس مخالفوں کے نزدیک یه لیلیں ناقص اور مردود هیں طولانی بحث کے خوف سے مخالفین کی دلیلوں سے صرف نظر کرتے هوئے فقط ایک اشاره ان باتوں کی جانب کیا جارها هے جو سر خسی نےاپنے اصول میں کهیں هیں .
جمهور علماء نے حجیت قیاس پر کتاب و سنت وعقل سے دلیلیں پیش کی هیں مثلا قرآن سے*فَاعْتَبِرُوا يا أُولِي الْأَبْصارِ.* إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصار*إِن كنتم للرُّيَّا تَعْبُرون*
اور دوسری آیات سے استدلال کیاهے .
میری نظر میں یه ان آیات کا قیاس سے کوئی ربط نهیں هے اور سنت میں جو دلیل پیش کی گئی که پیغمبر(ص) کی جانب سے معاذبن یمن کو بھیجا جانا اور حکم صادر کرنے کے بارے میں پیغمبر(ص) کا سوال تھا اس کے جواب میں کهنا میں خود اجتهاد کرتاهوں اور پیغمبر(ص) کا اپنے اصحاب سے امور جنگ میں مشورت کرنا یه تمام باتیں جو قیاس کے اعتبار و حجیت کے لئے دلیل بناکر پیش کی گئیں اس کا قیاس سے کوئی ربط نهیں هے .
(مترجم)
--------------
1. . معارج الاصول ، ص 187و 188 .
. اصول سرفسی ، ج 3 ص125 تا 130 .
|
|