دوسرا مقام: احکام عقلی حکم شرعی کے دا ئرے میں :
یه مقام ان موارد سے مربو ط هے که جهان جهاں عقل مستقل حکم نه رکھتی هو بلکه ابتداء میں ایک شرعی حکم هو که جس سے دوسرے حکم شرعی کے اثبات میں مدد لی جائے بطور مثال :
اگر کسی عمل کا واجب هونا ثابت هو تو عقل حکم کرتی هے که اس عمل کے وجوب اور اس عمل کے مقدمه کے درمیان ملازمه عقلی موجود هے . نتیجتا یه کها جاسکتا هے که وه مقدمه، وجوب شرعی رکھتا هے ۔
یهاں پر مباحث هفتگانه کی بحث آئے گی یعنی وه سات موارد که جهاں حکم عقل کی مد دسے حکم شرعی کے اسنتباط میں مدد لی جاتی هے که و ه سات موارد یه هیں ۔
1- مقدمه واجب کا وجوب ۔
2- ضد واجب کا حرام هونا ۔
3- ایک هی شئی میں امر و نهی کا امکان یا امتناع ۔
4- اجزاء( یعنی امر واجب کی ادائیگی میں مامور کی اطاعت کا کافی هونا ) ۔
5- اس عبادت و معامله کا فاسد هونا جومورد نهی قرار پائے ۔
6- قیاس اولویت ۔
7- بحث ترتب ۔-1
تیسرا مقام: احکام عقلی احکام کا احکام کے نتائج احکام سے ارتباط
یهاں پر نتیجه ءحکم کے ذریعه حکم شرعی کا پته لگایا جاتاهے یعنی معلول کے ذریعه علت کا پته لگایا جاتاهے که جسے اصطلاحاً ( کشف انی ّ) کهتے هیں بعنوان مثال کے طور سے شبه محصور میں علم اجمالی هو ( یعنی یه معلوم هو که شراب پینا حرام هے مگر یه نهیں معلوم یه سامنے جو گلاس رکھا هو ا هے اس میں شراب هے یاپانی هے اور کیا اس کا پینا جائز هے یا حرام ) تو ان موارد میں چونکه اس میں نتیجهء حکم ( یعنی صحت عقاب ) کا اجمالی علم هے اس نتیجهءحکم کی مدد سے حکم شرعی جیسے وجوب احتیاط ( یعنی موافقت قطعیه کے وجوب ) کو کشف کیا جاسکتا هے-2 ۔
مرحلهء دوم: دلیل عقلی کی حجیت کے دلائل
دلیل عقل سے مراد عقل کےوه قطعی قضیے هیں که جن کی حجیت ایک مسلم امرهے کیونکه هم هرچیز کو قطع و یقین کے راستے سے جانتے اور پهنچانتے هیں یهاں تک کهجیسے اصول دین خدا ،پیغمبر(ص)اور تمام مذهبی عقاید کا تعلق اسی عقل قطع و یقین عقل سے هے اسی طرح تمام علوم کے علمی مسائل کو اسی راستے سے درک کیا جاتا هے ۔
دوسری بعبارت دیگر میں قطع و یقین کی حجیت ایک ذاتی امر هے او راگر لازم هو که هم قطع و یقین کی حجیت کو دیگر یقینی دلائل کے ذریعےثابت کریں تو اس سے دور او رتسلسل لازم آئے گا ۔
هاں اگر حجیت عقل سے مراد عقل ظنی هو نه که عقل قطعی تو اس عقل ظنی کی حجیت کےلئے ایک قطعی اور یقینی دلیل کی ضرورت هے مثلا اگر کوئی قیاس ظنی یا استحسان اور اس کے مانند جیسے امور کو حجت مانے تو اس کی حجیت کو دلیل قطعی کے ذریعه ثابت کرنا هوگا ۔
--------------
1 . باوجود یکه تمام مباحث عقلی هیں لیکن آج انهیں مباحث الفاظ میں ذکر کیا جاتا هے شاید مباحث الفاظ میں ذکر کرنے کی علت یه هے که احکام ان احکام کے تابع هیں جو کتاب و سنت سے لئے جاتے هیں .
2 . انوار الاصول ، ج 2 ، ص515 .
دلیل عقل کی حجیت پر اشکالات
جس طرح دلیل عقل کی حجیت کو ثابت کیا گیا اس کے پیش نظر دلیل عقل کی حجیت پر اشکال نهیں هونا چاهئیے لیکن اس کے باوجود اخباریوں نے دلیل عقلی کی حجیت پر اعتراضات کیے هیں ان کے اعتراضات سے اندازه هوجائے گا که یه تمام شبهات عقل قطعی کی جانب توجه نه کرنے کی وجه سے پیدا هوئے هیں ۔ ان کے اهم اعتراضات کچھ اس طرح هیں،
1- استنباط میں عقل کی دخالت کا نتیجه یه هوگا که قیاس و استحسان حجیت پاجائیں گے اخباریوں کی جانب سے اصولیوں کی ایک مذمت یهی هے خاص طور سے بعض اهل سنت جو ادلهء اربعه کے بیان میں چوتھی دلیل قیاس اور استحسان کو قرار دیتے هیں پس یهیں سے روشن هوجاتا هے که اخباریوں کے نزدیک دلیل عقل کا تنها فائده حجیت قیاس کی حجیت هے نهیں تو کم ازکم اهم ترین ثمره ضرور هے اس اشکال کا جواب روشن هے کیونکه شیعه اصولیوں کا اتفاق هے که قیاس و استحسان حجت نهیں رکھتے اس کے علاوه یه دونوں دلیلیں دلائل ظنی میں شمار هوتیے هیں اس لئے محل بحث سے خارج هیں ۔
2-عقلی استدلال دو طرح هیں
بعض عقلی دلیلوں کے فقط حسی نهیں یا حس کے نزدیک هیں جیسے ریاضیات اور هندسه کے مسائل اس قسم کی عقلی دلائل میں خطاب کا امکان نهیں اور یه مسائل دانشمندوں کے در میان اختلاف کا سبب نهیں بنتے کیونکه فکری خطاؤں کا تعلق ماده سے ملی هوئی صورت سے هے لیکن جن دلائل کے مواد حس یا اس سے نزدیک به حس هوں ان میں ماده اور صور کے ذریعه خطا کا امکان نهیں هے کیونکه جن قضیوں کا تعلق شناخت صور سے هے وه قضیے دانشمندوں کے نزدیک واضح امور میں شمار هوتے هیں ۔
لیکن بعض مواد ، عقلی مسائل میں حس سے دور هیں جیسےحکمت طبیعی اور حکمت الهیٰ کے مسائل یا علم اصول فقه یا وه مسائل جو فقهی مگر عقلی هوں ان مسائل میں صرف عقل پر تکیه نهیں کیا جاسکتا اور نه منطق کے ذریعه اسے ثابت کیا جاسکتا هے کیونکه علم منطق ذهن کو صور میں خطا در صور کرنے سے محفوظ رکھتا هے نه مواد میں خطا سے اور فرض یه هے که یه قضیے احساس سے دور هیں اسی لئے اس قسم کے قضیوں میں دانشمندوں کے درمیان کافی اختلافات پائے جاتے هیں اور اگر کها جائے که ادله ءنقلی میں بھی اختلاف پایا جاتا هے تو اس کا جواب یه هےکه مسائل شرعی میں اختلاف مقدمات عقلیه کے اضافه سے پیدا هوتا هے ۔
جواب
اولا : جیساکه گذر چکا دلیل عقلی کی حجیت اس کے قطعی هونے کی صورت میں هے اور جس شخص کو کسی چیز کا قطع و یقین هو اس میں خلاف کا احتمال نهیں دیاجاتا لیکن دلیل ظنی جو که خطا پذیر هے محل بحث سے خارج هے ۔
ثانیا : بهت سے اخباری آپس میں اختلاف رکھتے هیں جب که وه حجیت عقل کے منکر هیں اور عقل کو ادلهء نقلیه میں بھی داخل بھی نهیں کرتے ۔
2- ایک اور اشکال ان روایات کی وجه سے هے جس میں ظاهر استنباط احکام میں عقل کے استعمال کی سرزنش کی گئی هے او ران ان روایات کے تین گروه هیں -1 ۔
گروه اول
وه روایات که جن میں رائے پرعمل به کرنے رائے سے منع کیا گیا هو مثلا روایات میں آیا هے که مؤمن کی علامت یه هے که وه اپنے دین کو اپنے پروردگار سے لے نه که لوگوں کی رائے سے-2۔
ایک اور روایت میں آیا هے : فقط پیغمبر اکرم(ص)کی رائے حجت هے نه کسی اور کی -3 کیونکه خداوند عالم نے سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا :
"*لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللّهُ"*
“لوگوں کے درمیان حکم خدا کے مطابق فیصلہ کریں” ۔ 4
ایک اور حدیث میں آیا هے که جس وقت سوره "اذا جاء نصر الله والفتح " نازل هوا تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
خداوند عالم نے میرے بعد اٹھنے والے فتنوں میں جهاد کو مؤمنین پر واجب قرار دیا ...
وه میرے بعد دین میں بدعت در دین ( یعنی جس وقت لوگ اپنی رأئے پر عمل کریں گے ) سے جهاد کریں گے -5۔
گروه دوم
وه روایات که جن میں حقائق قرآن او راحکام کو عقل کے ذریعه درک کرنا غیرممکن بتایا گیا هے . عبدالرحمن بن حجاج کهتے هیں : میں نے امام صادق علیه السلام سے سنا هے که آپ نے فرمایا:
“لیس شئی ابعد من عقول الرجال عن القرآن ”۔. 6
قواعد فقهیه
فقیه کےلئے مهم ترین امو رمیں سے ایک امر که جس میں تحقیق و جستجو لازم هے ، قواعد فقه هیں ۔ قواعد فقه سے کئی ایک مباحث او راستنباط احکام میں استفاده کیا جاتاهے او رکبھی خارجی موضوعات میں مشکلات کے حل کےلئے ان سے مدد لی جاتی هے ۔
مهم ترین قواعد که جن کی تعداد تیس سے زیاده هے ان میں سے چند قاعدے یه هیں قاعده ضرر ولاحرج ،قاعده صحت ،قاعده میسور ،قاعده ید، قاعده تجاوز وفراغ ،قاعده ضمان ، قاعده اتلاف ، قاعده غرر ، قاعده اقرار ، وغیره ان قواعد کے مدارک و مستندات قرآن او روه ورایات هیں جو پیامبر اعظم و ائمه معصومین علیهم السلام سے وارد هوئے هیں اور ان میں بعض قواعد وه هیں جو تمام عقلائے عالم کے درمیان رائج هیں جسے اسلام نے بھی صحیح ماناهے . مثال کے طور پر قاعده لاحرج ( یعنی جن تکالیف میں انسان عسروحرج اور ضرر و زیان میں گرفتار هو ، جب تک وه عسرو حرج باقی هے وه تکالیف مکلف کی گردن سے ساقط هیں ) ۔
اس قاعده کو سورۂحج کی ایک آیت سے اخذ کیا گیا هے جس میں ارشاد هے :
"*وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"*7
“اور دین میں کوئی زحمت قرار نهیں دی ہے” ۔
اس کے علاوه رسول اسلام(ص)کی معروف حدیث ، حدیث“" لاضر ولاضرار...”" که جس کا ذکر تمام منابع اسلامی میں آیا هے استفاده هوتاهے که وه احکام جو مسلمانوں کےلئے ضرر و زیان کا سبب هیں . ان کی گردن سے ساقط هیں . اسی طرح قاعده "حجیت قول ذی الید" ایسا قاعده هے جو تمام عقلا کے درمیان جاری هے اور شارع مقدس نے اسے صحیح ماناهے ۔
یه قواعد بهت اهم اور مفید هیں ، فقیه ان قواعد کی مدد سے انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے متعدد مشکلات اور جدید مسائل کو ( بالخصوص و ه مسائل که جن کے بارے میں کوئی خاص روایت وارد نهیں هوئی هے ) آسانی سے حل کرسکتا هے اگر کوئی فقیه قواعد فقه پر کامل تسلط نه رکھے وه ابواب فقیه کے اکثر بالخصوص جدید مسائل کے حل میں عاجز رهے گا-8 ۔
اصول عملیه
اصول عملیه سے مراد وه قواعد واصول هیں که جس وقت فقیه معتبر شرعی دلائل جیسے کتاب و سنت و اجماع دلیل و عقلی تک دسترسی پیدا نه کرسکے ایسی صورت میں وه انهی اصول عملیه کی جانب رجوع کرتاهے . مثال کےطور پر جب بھی یه شک کرے که کیا فلاں موضوع خمس و زکات سے متعلق هے یا نهیں اور اس سلسله میں ادلهء اربعه سے بھی کوئی دلیل نه ملے تو وه ایسی صورت میں ( اصل برائت ) کی جانب رجوع کرتاهے اصل برائت یعنی اصل یه هے که جب تک کسی معتبر دلیل سے تکلیف شرعی ثابت نه هو تب تک مکلف پر کوئی ذمه داری نهیں هے ۔
اسی طرح اگرفقیه کو کسی فعل کے وجوب یا حرمت عملی میں شک هو یعنی یه نه معلوم هو که یه عمل واجب هے یا حرام اور اس عمل کی حرمت و وجوب پر کوئی دلیل بھی موجود نه هو تو ایسی صورت میں فقیه ( اصل تخییر) کی جانب رجوع کرتاهے جس میں مکلف مختار هوتا هے که اس فعل کو انجام دے یا اجتناب کرے۔ . اگر موارد شک کےموارد میں کوئی سابقه پهلے سے کوئی حالت موجود هو ، بعنوان مثال کے طور پر مکلف یه جانتاهو که عصیر عنبی ( انگور کارس آگ ) پر پکنے اور غلیان سے پهلے پاک تھا ، جب بھی اسے یه شک هو که غلیان باعث نجاست هے یا نهیں اور اس کے اثبات میں کوئی معتبر دلیل بھی نه هو تو سابقه پهلی والی حالت سے( استصحاب) کرکے اس پر طهارت کا حکم لگائے گا ۔
اور کبھی کسی چیز میں شک کرے لیکن اس مشکوک کے اطراف میں واجب و حرام کا اجمالی علم هو مثال کے بطور مثال پر مکلف یه جانتاهے که کام معیشت کے مقدمات فراهم کرنے کےلئے کیا جائے اس میں نماز واجب هے لیکن یه نهیں معلوم که آیا نماز قصر هے یا تمام ، پس حالت سفر میں وجوب نماز کا اجمالی علم تو هے لیکن نماز کے قصر یا تمام هونے میں شک هے ۔. اور نماز کے قصر یا تمام هونے پر کوئی معتبر دلیل بھی نهیں ایسی صورت میں مکلف اصل احتیاط کی بنیاد پر اپنا عملی وظیفه مشخص کرتے هوئے دونوں حکم بجالائے گا یعنی نماز کو تمام اور قصر دونوں طرح سے انجام دے گا تاکه اسے برائت ذمه یعنی ذمه داری کی ادائیگی کا یقین هوجائے کیونکه شبهات محصوره میں علم اجمالی کاهونا احتیاط کا باعث هوتا هے ۔ برائت و استصحاب تخییر و احتیاط یه چاورں اصول اصول عملیه کهلاتے هیں جنهیں مجتهد معتبر شرعی دلیل نه هونے کی صورت میں اور شک میں موجود ه شرائط کے مطابق ان میں سے کسی ایک اصل کی مدد سے اپنے اور مقلدین کے عملی وظفیه کو مشخص کرتاهے ۔
ب دوسری عبارت دیگر میں کسی بھی حالت میں فقیه پر کشف احکام کشف کرنے کے راستے مسدود نهیں بلکه کھلے هوئے هیں فقیه استنباط کی اس میں سنگلاخ وادی میں کبھی معتبر اجتهادی دلائل تک پهنچتاهے اور ان دلائل کی مدد سے احکام کو کشف کرتاهے .اور کبھی کسی حکم میں شک و شبه کا شکار هوتاهے پهلی صورت میں وه دلیل کے مطابق فتوی دیتاهے اور دوسری صورت میں ان چار اصولوں کی مدد سے وظیفه عملی معین کرتاهے پس جن امور میں اصل حکم میں شک هو که واجب هے یا حرام تو وهاں اصل برائت جاری کرتاهے اور جن موارد میں واجب یا حرام میں سے کسی ایک امر کے درمیان شک هو تو اصل تخییر سے مدد لی جاتی هے . اور جن موارد میں حکم سابقه پهلی حالت رکھتا هو ( چاهے وجوب هو یا حرمت ) تو ان موارد میں استصحاب کے مطابق سابقه پهلی حالت پر حکم لگایاجائے گا او رجن موارد میں واجب دو یا چند احتمال میں محصور هو یا یه که حرام چند احتمالات میں محصور هو تو ایسی صورت میں احتیاط کا حکم لگایاجائے گا یعنی اصل احتیاط کے حساب سے واجب کے تمام احتمالات انجام دینے هوں گے اور دوسری صورت میں حرام کے تمام احتمالات سے اجتناب کرنا هوگا ۔
یهاں پر دو نکته قابل توجه هیں
الف : اصول عملیه (یعنی برائت و استصحاب و تخییر و احتیاط ) کی هر اصل محکم او رمعتبر دلیل پر استوار هے . فقط فرق اتنا هے که کسی اصل کی دلیل عقلی هے جسے اصل تخییر او رکسی اصل کی دلیل شرعی هے جیسے اصل استصحاب اور کسی اصل کی دلیل عقلی اور شرعی دونوں هے جیسے اصل برائت و احتیاط هے ان چاروں اصولوں کو علم اصول کی کتابوں میں ان کے دلائل کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا گیا هے ۔ 9
ب: مذکوره چار اصول کو کبھی شبهات حکمیه اور کبھی شبهات موضوعیه میں جاری کیا جاتاهے ۔
شبهات حکمیه یعنی وه مقامات که جهاں حکم شرعی معلوم ومشخص نه هو (جیسے اوپر بیان کی گئی تمام مثالیں ) شبهات موضوعیه یعنی وه مقام که جهاں حکم شرعی تو مشخص هے لیکن موضوع خارجی کی وضعیت روشن نهیں بطور مثال کے طور پر: هم جانتے هیں که اسلام میں مست کرنےوالے مشروبات اسلام میں بطور قطعی طور پرحرام نهیں لیکن همیں شک هے که کیا یه مایع و مشروب جو همارے سامنے هے مسکر هے یا نهیں اس قسم کے موارد میں برائت او راسی طرح مناسبت کے حساب سے دوسرے اصولوں کو جاری کیا جائے گا ، اصول عملیه کے شرائط و خصوصیات او رکیفیت اجراء کے سلسله میں مباحث بهت زیاده دقیق هیں : اسی لئے صرف ایک مشّاق مجتهد هی نهایت دقت و مشق کے بعد انهیں جاری کرسکتاهے اور اصول اجراء کرنےئے اصول کے راستے تلاش کرسکتاهے ۔
--------------
1 . انوار الاصول ،ج2 ،ص275 .
2 . ان المؤمن اخذ دینه عن ربه ولم یا خذه عن رأیه ، وسایل شیعه ،ج18 ، باب 6، از ابواب صفات القاضی ،ج11،اسی طرح حدیث 14 هے .
3 .گزشته،ح28 .
4 . نساء ،105 .
5 .گزشته ، باب ،6،ح 50 .
6 . گزشته حواله ، باب 10 ،ح22، باب 11 ،ح 32 ، باب 6 ، ح 7 .
7 . حج ، 78 .
8 . قواعد فقه سے بیشتر اشنائی اور ان کے مدرک دلائل اور تقسیمات سے کامل وافقیت کے لئے آیة الله مکارم شیرازی کی کتاب القواعد الفقیه کی جانب رجوع کیا جاسکتاهے .
9 . کتاب انوار اصول اور دیگر کتابوں کی جانب رجوع کیا جائے .
|