اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
 

دلیل عقل :
استنباط کا چوتھا منبع اور چوتھی دلیل اجمالی طور پر سبھی کےلئے مورد اتفاق هے دلیل عقل هے اگر چه دلیل عقل کے بارے میں فقهائے اسلام کا موقف یکسان یکساں نهیں ۔ مترجم) 1

توضیح مطلب :
اهل سنت کے درمیان استباط کے دو نمایاں شیوه پائے جاتے هیں جسے اصحاب حدیث اور اصحاب رائے کے عنوان سے ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکتاهے ۔
یه دو گروه ایک دوسرےکےشیوۂ اسنتباط اور روش ومسلک کو غلط جانتے هیں هر ایک دوسرے مسلک کو باطل کرتا اور ایک دوسرے کو سرزنش کرتا نظر آتا هے ۔

گروه اول : اصحاب حدیث :
اصحاب حدیث کے نزدیک استنباط میں اصلی تکیه گاه ادله نقلی هیں -2 خاص طور سے حدیث ، سلف صالح کی سیرت اور قول صحابه ( البته سیرت وقول صحابه کو حدیث هی کی جانب لوٹا یا جاتا هے )

دوسرا گروه : اصحاب رائے :
اس گروه کا خیال هے که فقهی نیاز مندیوں کےلئے احادیث کی مقدار کم هے اور تما م مسائل کی جواب دهی کے لئے ناکافی هے اس لئے کوئی چاره نهیں سوائے یه که هم استنباط احکام میں کتاب و سنت کے علاوه دوسری دلیلوں پر بھی تکیه کریں ۔
کها جاتا هے که ابو حنیفه کے نزدیک رسول خدا (ص)سے روایت شده احادیث میں صرف 17 حدیثیں قابل اعتماد تھیں -3 اسی لئے ا ن کے نزدیک ادله احکام او رمنابع استنباط چار هیں ۔
1- کتاب
2- سنت
3- اجماع
ان تین منابع کے بعد چوتھی دلیل اور منبع قیاس هے-34 اسی کو بعض نے قیاس و اجتهاد-5 تو کسی نے العقل و استصحاب سے تعبیر کیا هے-6 هماری نظر میں اهل سنت دلیل عقلی کو قیاس اور استحسان وغیره کا مترادف مانتے هیں-7 ُ
اهل سنت نے اصول فقه میں عقلی مسائل کو تحلیلی او رمنظم طریقه سے پیش نهیں کیا جب که یه مباحث استنباط میں دخیل هیں متاخرین شیعه نے جن عقلی مباحث کو اپنی اصول کی کتابوں میں منظم اور مرتب طریقه سے یپش کیا اور وسیع پیمانه پر ان کی چھان بین کی وهی مطالب مختصر اور پراکنده طور پر اهل سنت نے اپنی اصول کی کتابوں میں بیان کیئے هے مثال کے طور پر وه بھی حسن و قبح افعال کا حسن اور قبح هونا اصل اباحه وجوب مقدمه واجب اجتماع امر ونهی کا محال هونا یا سقوط حرج از خلق سے حرج کا ساقط هونا اور سقوط تکلیف از عاجز سے تکلیف کا ساقط هونا عاجز وغیره هے یا غافل و ناسی کا مکلف هونا محال هے اس قسم کے عقل مباحث عقل ان کی کتابوں میں پراکنده طور پر پائے جاتے هیں ان کی کتابوں میں همیں یه عبارات ملتی هیں:
1- المعتزله یقولون بحسن الافعال و قبحها
2- جامعة من المعتزله یقولون بان الافعال علی الاباحه
3- مالایتم الواجب الابه هل یوصف بالوجوب
4- یحتمل ان یکون الشئی واجبا و حراما
5- استحالة تکلیف الغافل و الناسی
--------------
1 .( مترجم) دلیل عقلی فقهی منابع میں سے ایک منبع :
شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی اهل سنت کی دلیل قیاس سے الگ هے کیونکه قیاس دلیل عقلی تو هے لیکن ظنی هے اور شیعوں کے نزدیک دلیل عقلی فقط قطعی میں منحصر هے دلیل عقلی کے تاریخچه سے پته چلتاهے که فقیه کے نزدیک یه دلیل لفظی یا اصول عملی سے بالکل الگ هے . بلکه فقهاء تو عقل کو ایک دلیل عام مانتے هوئے اس سے کبھی مباحث الفاظ کے ضمن میں تو کبھی قیاس و استصحاب کے ضمن میں کام لیتے هیں .
شیخ مفید (رح)م413 ھ اپنے مختصر اصولی رساله میں کتاب وسنت رسول(ص) و ائمه معصومیں علیهم السلام کو اصول احکام شمار کرتے هیں اور عقل کو ان اصول تک پهنچنے کا راسته بتاتے هیں .
شیخ مفید (رح) کی بات سے یه سمجھ میں آتاهے که فقهی منابع صرف کتاب اور سنت رسول اور سنت ائمه معصومیں هیں اور عقل کا شمار فقهی منابع میں نهیں هوتا بلکه اس کی حیثیت صرف ان منابع کو کشف کرنے کی حدتک هے .
شیخ طوسیم460 ھ عدۀ الاصول میں عقل کے بارے میں فرماتے هیں که شکر منعم محسنات عقلی اور ظلم و کذب عقلی قباحتوں میں شمار هوتے هیں لیکن عقل کا حکم شرعی کے لئے دلیل واقع هونا یه بات ان کے کلام سے واضح نهیں هوتی .
ابن ادریس م598ھ5شاید وه پهلے فقیه امامی هیں که جنهوں نے کامل صراحت کے ساتھ عقل کو کتب و سنت کی صف میں شمار کرتے هوئے اسے منابع فقهی کا جز شمار کیا هے لیکن انهوں نے سرائر کے مقدمه میں دلالت عقل اور اس کی حجیت کے دائره کے بارے میں کوئی بات نهیں کی .
محقق حلیم676ھ نے اپنی کتاب المعتبر میں دلیل عقلی کی دوقسمیں بیان کی هے .
ایک وه دلیل جو مستقلات عقلی سے مربوط هے جیسے عدل کی اچھائی اور ظلم کی قباحت .
دوسری دلیل نقل الفاظ و مفاهیم کے باب سے مربوط هے . البته ان کی تقسیم بندی بهت زیاده اهمیت کی حامل هے .
شهید اول (رح)م786ھ نے بھی کتاب ذکری کے مقدمه میں محقق حلی کی ان دوقسموں کو نقل کرنے کے بعد مسئله ضد اور مقدمه واجب منفعت میں جاری اصل اباحه اور حرمت مضار کو پهلی قسم میں شمار کیا اور برائت اصلی و استصحاب کو دوسری قسم میں ،یهاں بھی ملاحظ کیا جاسکتاهے که دلیل عقلی کے مصادیق کی تشخیص میں اشتباهات هوئے ان کی توضیح بعد میں آئے گی در کتاب صاحبمعالم(رح)1 1011ھ دلیل عقل کے بارے میں کوئی قابل توجه بات نهیں سنی گئی.
فاضل تونی (رح)م1071ھ سب سے پهلے شخص هیں که جنهوں نے تفصیل کے ساتھ دلیل عقل کی بحث کو چھیڑا اور اسے سات قسموں تک پهنچا یا انهوں نے مستقلات عقلیه اور مستقلات غیر عقلیه کو بطور کامل ایک دوسرے سے جدا کیا اور حکم شرعی میں عقل کی دلالت کو پهلی اور دوسری قسم میں اچھی طرح توضیح دی .اس طرح کها جاسکتاهے که ان کے بعد دلیل عقلی کی بحث کامل طور پر واضح هوئی فاضل تونی (رح) اخباریوں کے عروج کے دور سے گذررهے تھے اور دیکھ رهے تھے که اخباریوں کی جناب سےعقل کے خلاف اور احکام شرعی میں عقل سے کام لئے جانے پر شدید اعتراضات هورهے هیں جس کی وجه دلیل عقلی کے بارے میں وه ابهامات هیں جو شیعه دانشمندان کے بیان میں پائے جاتے هیں . اسی لئے فاضل تونی (رح) کی جانب سے الوافیه میں اعلی سطح پر بیان شده مباحث عقل کے لئے داد دینا چاهئیے کیونکه انهوں نےکافی حدتک بحث عقلی کے ابهامات کو بر طرف کیا .
فاضل تونی (رح) کے بعد میرزقمی (رح)م1231 ھ نے قوانین الاصول میں اور صاحب حدائق نے اپنے مقدمه میں دلیل عقلی کوبیان تو کیا لیکن اس کے بارے میں دل پر بحث نهیں کی اورشیخ انصاریR و آخوند خراسانی(رح) نے بھی اپنی کتابوں میں کوئی نیاباب اس مسئله میں نهیں کھولا بلکه متقدمین کی روش پر مستقلات غیر عقلیه کے اکثر مباحث کو الفاظ کے باب میں داخل کردیا .
شیخ محمد حسین اصفهانی (رح)م1250ھ نے الفصول الغرویه میں دلیل عقلی میں مستقل باب کھول کر اس پر سیر حاصل بحث کی هے .
سب سے بهترین کتاب که جس میں دلیل عقلی کی بحث کو بخوبی بیان کیاگیا وه مرحوم محمدرضا مظفر(رح) کی اصول مظفر هے . وه متقدمین کے آثار کے درمیان کتاب المحصول اثر سید محسن اعراجی کاظمی م1227 ھ میں بیان شده مباحث عقلی اور خود مرحوم مظفر(رح) کے شاگرد شیخ محمد تقی اصفهانی (رح) م1248 ھ نے جو مباحث معالم الدین کے حاشیه میں موسوم جو هدایۀ المسترشدین میں پیش کئے هیں انهیں بهتر اور لائق تحسین جانا هے اصول مظفر کے بعد حلقات الاصول میں شهید صدر (رح)نے ادله عقلی کو بهترین انداز میں پیش کیا پھر بھی مستقلات عقلیه سے مربوط مباحث مرحوم مظفر کی کتاب میں زیاده روشن هیں . اور شهید صدر (رح) کا کمال مستقلات غیر عقلیه کے باب کے باب میں بے نظرهے .
دلیل عقلی کی تعریف :
دلیل عقلی کی دقیق تعریف بھی علم اصول کے تکامل کا نتیجه هے البته دلیل عقلی کی ابھی کوئی مشهور جامع تعریف نهیں پیش کی گئی اسی لئے یهاں دلیل عقلی کی اهم ترین تعریف پر اجمالی طور پر نظر ڈالتے هیں او ران کی خصوصیات میں وارد هوئے بغیر فقط تعریف پر اکتفا کرتے هیں.
قوانین الاصول میں میرزا ی قمی کی تعریف :
“هو حکمی عقلی یوصل به الی الحکم الشرعی و ینتقل من العلم بالحکم العقلی الی العلم بالحکم الشرعی ”.
تعریف صاحب فصول :
“ کل حکم عقلی یمکن التوصل بصحیح النظر الی حکم شرعی”
تعریف مرحوم مظفر :
“ کل حکم للعقل یوجب القطع بالحکم الشرعی او کل قضیۀ یتوصل بها الی العلم القطعی بالحکم الشرعی”.
ان مذکوره تعریفوں میں آخری دو تعریفین هماری توجه کا مرکز هیں .
2 . تاویل مختلف الحدیث ، ص 51 .
3 . تاریخ ابن خلدون ،ج2 ، ص2 ، ص 796 ، فصل ششم علوم حدیث .
4 . فواتح الرحموت ، ج2 ، ص 246 ، المذهب فی اصول الفقه المقارن ، ج 2 ، ص 956 .
5 . المعتمد فی اصول الفقه ، بصری معتزلی ،ج 2 ، ص 189 .
6 . المتصفی ، ج 1 ، ص 217 .
7 . للددله العقلیه و علاقتها بالنفطیه .


عقل کے با ب میں تشیع کا مسلک تشیع د اور موقف با ب عقل :
ابتداء میں لازم هے که فقهائے اهل بیت علیهم السلام کے ردمیان عقلی مباحث کا تاریخچه او راس کے سیر و تحول پر سرسری نگاه ڈالی جائے پھر اس سلسلے میں شیعوں کی آخری تحقیقات کو پیش کیا جائے ۔
بعض متقدمین نے دلیل عقلی کی بحث کو پیش هی نهیں کیا اور جنهوں نے پیش کیا هے :
اولا : ان کی عبارات میں ابهام پایا جاتاهے اور یه مشخص نهیں هو جاتا که آخر استنباط میں عقل کا مقام اور اس مقام کیا هے کیونکه بعض متقدمین عقل کو قرآن وسنت کے سمجھنے کا ذریعه ارور بعض دیگر منابع ا ستنباط کی طرح اسے مستقل منبع استنباط قرار دیتے هیں -1 مگر اس شرط کے ساتھ که عقل ،کتاب و سنت و اجماع کے طول میں هو نه که عرض میں یعنی جب مذکوره تین دلیلیں مفقود هوں تب دلیل عقل کی نوبت آتی هے-2 ۔
ثانیا : یه که متقدمین نے دلیل عقلی کے مشخص و مصادیق پیش نهیں کیے اسی لئے بعض نے اسے برائت اور بعض نے اسے استصحاب سے تعبیر کیا هے اور بعض نے صرف استصحاب میں منحصر مانا هے .
دهرے دھیرے دهرے دھیرے آنے والے قرنوں میں یه بحث کافی حدتک ساف ستھره اور روشن انداز میں پیش کی گئی اور دلیل عقلی کو دو اساسی قسموں میں تقسیم کیا گیا :
1- وه دلیل جو شارع کی جانب سے کسی خطاب پر متوقف هو اسے لحن الخطاب ، فحوی الخطاب اور دلیل خطاب میں منحصر جاناگیا هے ۔
لحن الخطاب یعنی عقل کا الغائے خصوصیت پر دلالت کرنا ۔
فحوی الخطاب یعنی مفهوم اولویت ۔
دلیل الخطاب یعنی مفهوم مخالف ۔
2- دلیل عقل کی دوسری قسم وه موارد هیں که جهاں عقل کسی خطاب اور قرآن و سنت کی لفظی دلیل کے بغیر دلالت کرے جیسے حسن وقبح عقلی-3 ۔
دلیل عقلی کی ان دو قسموں کو سب سے پهلے شهد اول نے تکمیل کیا شهید اول نے اپنی مایه ء ناز کتاب ذکری میں دوسری قسم کل مباحث پرکی برائت اصلی اور وه موارد که جهاں امر اقل واکثر کے درمیان دائر هو وهاں اقل کو انتخاب کرنا اور استصحاب میں ان تین بحثوں کو انهوں نے اضافه کیا هے-4 ۔
اس کے بعد متاخرین نے دلیل عقلی کو جامع تر اور روشن تر پیش کرنے کی کوشش کی اور دلیل عقل کے مباحث کو دو بنیادی مراحل میں آگے بڑھایا :

مرحلهء اول :
دلیل عقلی کے موارد و مصادیق کا بیان البته وه مصادیق جو حکم شرعی پر منتهی تمام هوئی یه یحث صغروی هے ۔

مرحلهء دوم :
عقلی دلیل کی حجیت کے دلائل (بحث کبروی )


مرحله اول ،حکم عقلی کے موارد ومصادیق:
پهلا مرحله دلیل عقلی کے مصادیق کا مشخص اور معین کرنا هے علمائے علم اصول کے نزدیک تین مقام ایسے هیں جهاں دلیل عقلی حکم شرعی پر مشتمل هوتی هے ۔
1- وه موارد که جهاں گفتگو احکام شرعی کے علل و مبادی سے مربوط هو ۔
2- وه موارد که جهاں بحث خود احکام شرعی سے مربوط هو ۔
3- وه موارد که جهاں پر احکام شرعی کے معلولات کو زیر بحث لایا جائے-5 ان تیں موارد میں دلیل عقلی حکم شرعی پر مشتمل هوتی هے بهت جلد ان میں هر ایک کی مثالیں پیش کی جائیں گی ۔

پهلامقام احکام عقلی کا احکام شرعی کے مبادی علل سے مربوط هونا .
اس سلسلے میں علماء فقهاء نے کها هے که
اولا: احکام و دستورات الهیٰ سے صرف نظر خود انسان کے اختیاری افعال میں حسن و قبح پایا جاتا هے یعنی بعض افعال عقل کی نظر میں انجام دینے کے قابل هوتے هیں که جنهیں انجام دیاجانا چاهیے (ما ینبغی ان یفعل ) ایسے افعل که جس کا انجام دینے والا عقلا ءکی نظر میں قابل مدح و ستائش او ران افعل کے ترک کرنے والا عقلاء کی نظر میں قابل سرزنش و ملا مت قرار پاتاهے اس کی بهترین مثال عدل هے چون کیونکه ذاتی طور سےا حسن رکھتاهے اور عقلا ءکی نظر میں عدل برتنے انجام دینے والا قابل مدح هوتا هے ۔
اور بعض افعال عقلا قبیح هوتے هیں که جن کا ترک کرنا ضروری هے (مالاینبغی ان یفعل ) اور عقلاء کی نظر میں ان افعال کا انحام دینےوالا قابل مذمت و سرزنش قرار پاتا هے که جس کی بهترین مثال ظلم هے ظلم ذاتا قبیح اور ظالم عقلا ءکی نگاه میں قابل مذمت هے ۔
ثانیا : یه که حسن و قبح عقلی او رحکم شرعی میں عقلی ملازمه پایا جاتا هے البته یهاں ایک تیسری بحث بھی هے که کیا اس ملازمهءعقلی سے حاصل هونے والا قطع اور یقین شارع کی نظر میں حجت هے ؟ انشاء الله اسکی بحث آئنده صفحات میں آئے گی ۔
پهلی بحث میں اشاعره نے حسن وقبح وعقلی کا نکار کیا هے وه حسن وقبح کو شریعت کے اعتبار ی امور میں شمار کرتے هیں اور کهتے هیں فعل حسن وه هے که جسے شارع حسن شمار کرے اور قبح وه هے جسے شارع قبیح قرار دے چنانچه ان کا یه جمله مشهور هے :
الحسن ما حسنه الشارع والقبیح ما قبّحه الشارع ۔.
انهوں نے اسی مسئله کو نسخ کی اساس و بنیاد قرار دیتے هوئے کها که حسن وقبح شرعی کی اساس پر هی شارع کو حق حاصل هے که وه کسی فعل کو ایک مدت تک واجب اور پھر حرام قرار دے -6لیکن" عدلیه " کے نزدیک حسن قبح شرعی نهیں بلکه عقلی اور ذاتی هے-7 اور شارع اسی کا حکم دیتاهے جو حسن هے اور اس فعل سے روکتاهے جو قبیح هے ۔ شارع هرگز ظلم کوواجب اور مباح اور عدل کو حرام یا مکروه قرار نهیں دیتا ۔
دوسری بحث میں اخباریوں نے حکم عقلی اور حکم شرعی کے ملازمه کا انکا رکیا وه کهتے هیں اگر فرض بھی کرلیں که عقل حسن وقبح کو درک کرتی هےتب بھی شارع پر عقلا لازم نهیں که وه مطابق عقل حکم دے اصولیوں میں صاحب فصول نے اس نظریه کو اختیار کیا هے -8۔
اخباریوں نے اپنے اس دعوی کے اثبات میں کئی دلائل پیش کیےهیں ان کی سب سے پهلی دلیل یهی هے که عقل میں اتنی قدرت و طاقت نهیں هےکه وه تمام احکام کی حکمتوں کو درک کرسکے شاید بعض ایسی مصلحتیں هوں جو عقل پر مخفی هوں اگر ایسا هے تو هم حکم عقل اور حکم شرع کے درمیان ملازمه کو ثابت نهیں کرسکتے هیں ۔
اس کے علاوه کئی موارد ایسے هیں جهاں حکم شرعی تو هے لیکن کوئی مصلحت نهیں جیسے وه احکام و دستورات جو صرف جو انسان کےل امتحان کےلئے جاری کئے گئے اور اسی طرح وه موارد جهان مصلحت تو هے لیکن حکم شرعی نهیں جیسے مسواک کرنے کے بارے میں رسول خدا (ص)سے نقل هوا هے که اگر مشقت نه هوتی تو میں اسے امت پر واجب کرتا اسی طرح کئی ایسے موارد هیں جهاں صرف بعض افراد میں ملاک موجود هے جب که حکم شرعی تمام افراد سے متعلق هے جیسے نسب کی حفاظت کےلئےعده کا رکھنا واجب هے ۔
اخباریوں کا جواب یه هے که : جب شارع خود عاقل بلکه تمام عقلا کا سید و سردار هے اس کے لئے کوئی معنی نهیں رکھتا که جو چیز تمام عقلا کے نزدیک مورد اتفاق هو اور ایسے امور میں سے هو جو حفظ نظام او رنوع انسانی کی بقا سے مربوط هوں اس چیز کا حکم نه دے بلکه اگرحکم نه دے تو یه خلاف حکمت هے اور اس کا حکم نه کرنا اس بات کی دلیل هے که وه حکم عقلا کے نزدیک مورد توافق نهیں هے یه بات معنی نهیں رکھتی که عقل حکم مستقل هو او راس پر تمام جوانب روشن هوں پھر یه دعوی ٰ کریں که حکم کی بعض جهتیں عقل پر مخفی هیں-9 اور مسواک کرنے کی مصلحت میں مشقت خود جزء ملاک هے یعنی مشقت کی وجه سے شارع نے حکم مسواک کو روک دیا رهی بات ان احکام کی جو امتحان کی غرض سے جاری کئےے گئے تو ان امتحانی احکامات کا شمار حقیقی احکامات میں نهیں هوتا که هم اس میں مصلحت تلاش کریں اگرچه ان احکامات کے ل مقدمات میں مصلحت ضرور کار فرما هے ۔
مدت کے مسئلے میں مصلحت نوعی کافی هے تاکه تمام موارد میں عورتوں پر مدت کا حکم لگا یا جائے خاص طور پر ان موارد یں میں که جهاں یه امتیاز کرناممکن نه هو یامشکل هو کس مورد میں حفظ نسب ، تحقق پائے گا اورکس مورد میں تحقق نهیں پائے گا خلاصه یه که ان مثالوں میں یا تو حکم عقل نهیں هے یا صحیح تشخص نهیں دیا گیا ورنه حکم عقل کی قطعیت کے بعد شارع کی جانب سے اس کی مخالفت کرنا ناممکن هے ۔
--------------
1 . اوائل المقالات شیخ مفید ، ص11، کنزالفوائد کراجکی ،ص 186 .
2 .سرائر ابن ادریس ، ص2 .
3 . معتبر محقق حلی ، ص 6 .
4 . ذکری ، مقدمه ، ص 5 .
5 . انوار لاصول ، ج2 ،ص495
6 . شرح المقاصد تفتازانی ، ج4 ، ص282 ، سیر تحلیل کلام اهل سنت از حسن بصری تا ابو الحسن الشعری ، ص 36.
7 . مصباح الاصول ، ج3،ص 34 .
8 . الفصول الغرویه ، ص 319، اصول الفقه ، ج1 ،ص236 .
9 . اجود التقریر ات ،ج 2 ،ص38 .