اجماع :
اجماع استنباط احکام کی تیسری دلیل هے یه دلیل اهل سنت کے نزدیک بهت زیاده اهمیت کی حامل هے ان کی نظر میں خلافت کی مشروعیت کا تعلق اجماع کی مشروعیت پر هے اس سے پهلے "ترتیب منابع استباط " کی بحث میں ابن تیمیه سے نقل کیا جاچکا هے که وه دلیل جو مجتهد کو دیگر تمام ادله سے بے نیاز کرتی هے یهاں تک که کتاب و سنت بھی اس دلیل کی وجه سے منسوخ کی جاسکتی هیں یا ان کی تأویل کی جاسکتی هے وه دلیل اجماع هے ۔
ابن تیمیه کا کهنا هے :
اهل سنت کے نزدیک اجماع کی اهمیت کی وجه هی سے انهیں "اهل سنت و الجماعت " کها جاتا هے -1 لیکن مذهب اهل بیت علیهم السلام کے فقهاء اجماع کے سلسلے میں اهل سنت سے جدا کچھ او رنظریه رکھتے هیں اهم ابتدا ء میں ا هل سنت کی دلیلوں کو مختصر طور سے بیان کرنے کے بعد اجماع کے سلسلے میں مکتب اهل بیت علیهم السلام کی انظر بیان کریں گے۔(مترجم) 2
اجماع اهل سنت کی نظر میں :
اهل سنت نے اجماع کی مختلف تعریفیں کی هیں بعنوان مثال اجماع یعنی " امام امت اسلامیه کا کسی مسئله پر اتفاق" اهل حل وعقد کا اتفاق -3 یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد تمام مجتهدین کا اتفاق-4 یا رحلت پیغمبر (ص)کے بعد امت محمد(ص)کے هم عصر مجتهد ین کا دینی امور میں کسی ایک امر پر اتفاق -5 یا اهل حرمین کا متفق هونا-6۔
لیکن سوال یه هے که آخر اجماع او رحکم الهیٰ میں یه کونسا ربط او رکیسا تلازم هے ؟ کسی طرح بعض یا تمام افراد کا کسی حکم میں اتفاق نظر رکھنا اسے حکم الهیٰ ثابت کرتا هے ؟ کتاب و سنت کے هوتے هوئے اسے مستقل منبع استنباط شمار کرنا بلکه اجماع کو قرآن وسنت سے بالاتر سمجھنا کهاں تک صحیح هے ؟ کیا یه ممکن هے ؟ اور ایسے اجماع کی حجیت پر کیا دلیل هے؟ اهل سنت نے اجماع کو ایک مستقل دلیل کے عنوان سے اس کی حجیت پر مختلف دلیلیں پیش کی هیں ان دلائل کا خلاصه یه هے که قرآن حدیث دونوں سے اجماع کی حجیت ثابت هے ۔
--------------
1 . مجموع فتاویٰ ، ابن تیمیه ،ج2 ،ص 246 .
2 . (مترجم) 10- اجماع :
اجماع کی تعریف :
لغت میں اجماع عزم و اراده محکم کو کهتے هیں جیسا که آیه * قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ *1 اور آیه* ذَلِكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُواْ أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ *2 میں آیاهے اور کبھی اجماع اتفاق رای کے معنی میں آیا هے جسے اس آیه شریفه میں آیاهے که:*فَلَمَّا ذَهَبُواْ بِهِ وَأَجْمَعُواْ أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَةِ الْجُبِّ وَأَوْحَيْنَآ إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَـذَا وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ *“یہ طے کرلیا کہ انہیں اندھے کنویں میں ڈال دیں”3 لیکن اجماع کے اصطلاحی معنی میں ایسا اختلاف پیدا هوگیا که اس کی جامع تعریف پیش کرنا ممکن نهیں هے سوائے اس کے که هم کهیں اجماع یعنی ایک خاص قسم کا اتفاق جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے لیکن یه کن افراد کا اتفاق اجماع میں خصوصیت پیدا کرتاهے جو حکم شرعی کے لئے دلیل بن سکے اس کے بارے میں مختلف اقوال هیں .
1- سارے امت اسلامی کا تفاق .
2- زمانے میں اس زمانے کے مجتهدین کا اتفاق .
3- اهل مکه اور مدینه کا اتفاق .
4- خلفای راشدین کا اتفاق .
5- اهل مدینه کا اتفاق .
6- شیخیں یعنی ابوبکر، عمر کا اتفاق .
7- اس گروه کا اتفاق جس میں کوئی ایک معصوم هو .
ان اقوال کے پیش نظر اجماع کی حجیت کے اقوال بھی مختلف هیں اور اس اختلاف کا واضح اثر شیعه فقهاء کی پیش کرده تعریف سے آشکار هے .
صاحب معالمR اجماع کی تعریف میں کهتے هیں :
الاجماع فی الاصطلاح اتفاق خاص وهو اتفاق من یعتبر قوله من الامه .
علامه حلیR تهذیب الاصول میں لکھتے هیں :
الاجمعاع و هو اتفاق اهل الحل و العقد من امۀ محمد .
صاحب قوانین R کا کهنا هے :
الاجماع هو اجماع جماعت یکشف اتفاقهم عن رای المعصوم .
اور شهید صدر فرماتے هیں :
الاجماع اتفاق عدد کبیر من اهل النظر والتقوی فی الحکم بدرجه توجب احراز الحکم الشرعی .
آخری دو تعریفوں کی خصوصیات هماری مدنظر هے جو آنے والی مباحث کے دوران آشکار هوں گی .
(مترجم)
--------------
1- 1 . سوره یونس ، آیه 71.
2 . سوره یوسف ، آیه 102 .
3 . سوره ،یوسف، آِیه 15 .
3 . المستصفی ، ج1 ،ص 173 .
3 . الاحکام ،ج1 ،ص254 .
4 . تفسیر فخررازی، ج 9 ، ص 150 .
5 . المهذب ، فی اصول الفقه ، المقارن ،ج2،ص 900 .
6 . انوار الاصول ، ج 2 ، ص 393 .
حجیت اجما ع پر قرآنی دلیل :( 1)مترجم)
اهل سنت کے نزدیک قرآن قرآں کی کئی آیتیں اجماع کی حجیت پر دلالت کرتی هیں جیسے سوره نساء میں خداوند عالم ارشاد فرماتاهے ۔
"*وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا"*
“اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے”-2۔
اس آیت سے وه استدلال کرتے هیں جس طرح مخالفت پیغمبر (ص)عذاب کا سبب هے اسی طرح سبیل مؤمنین کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلنا بھی عذاب کا باعث بنے گا اگر ایسا نهیں هے تو پیغمبر کی مخالفت کے ساتھ مخالفت مؤمنین کاذکر بے مقصد و بے نتیجه هوگا ۔
ان کی دوسری قرآنی دلیل اسی سوره کی آیت نمبر 59 میں هے جس میں ارشاد رب العزت هے که :
"*فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ"*
“پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو ”-3. اس آیت سے استدلال کرتے هوئے کهتے هیں :
اس آیت کا مفهوم یه هے که جب مسلمانوں میں اتفاق نظر هو اور کسی قسم کا نزاع ان کے درمیان نه هو تو خدا و ر رسول کی جانب رجوع کرنا لازم نهیں پس اس کا مطلب یه هے ان موارد میں اجماع هی حجت هے اور یهی حجیت اجماع کے معنیٰ هیں-4 ۔
--------------
1 .( مترجم).11- حجیت اجماع پرقرآن سے دلیل :
حجیت اجماع پر جودلیلیں پیش کی گئی ان پر قرآن کی سوره نساء کی ایک سوچوده آیتیں هیں جس کے بارے میں : ابوحامد غزالی نے کها هے که یهاں مؤمین کی متعابعت سے مراد تمام امور میں بطور مطلق اطاعت واجب هے بلکه مؤمنین کی متابعت پیامبر کی متعابعت کاهی ادامه هے اور اس وجه سے واجب هے .
دوسری دلیل : سوره بقره کی ایک سوتنتالیس ویں آیت هے :
*وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ -1 * “اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو”
صورت استدلال :
امت وسط یعنی وه امت جو اهل خیر وعدالت هے اور اسی امت سے حق کے علاوه کچھ امید نهیں کی جاسکتی اس لئے ان کا اجماع قطعا حجت هوگا .
شافعی کی جانب نسبت دی گئی هے که اس نے بھی اس آیت سے اجماع پر استدلال کیا هے .
استدلال کا جواب :
واضح هے که اهل عدالت اور اهل خیر سے بھی خطا سرزد هوسکتی هے چاهے وه تنها هوں یا باهم اتفاق رکھتے هوں.
تیسری آیت سوره آل عمران کی ایک سودسویں آیت هے:* كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ*2 “تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو”
صورت استدلال :
امت اسلامی بهترین امت شمار هوتی هے اور یه اس بات کی دلیل هے که یه امت خطا سے دور هے .
جواب :
امت اسلامی کی برتری امربالمعروف و نهی از منکر کے فریضه کو انجام دینے سے هے اس سے اجماع کی عصمت ثابت نهیں هوتی . یه آیات مهم ترین آیات تھیں جو ممکن هے بعض کے نزدیک اجماع کی حجیت کے لئے مستقل منبع هو لیکن جیساکه اهل سنت بھی اعتراف کرتے هیں ان میں سے کوئی آیت اپنے مدعی کے اثبات کے لئے کافی نهیں هے.
(مترجم)
--------------
1-. سوره بقره ، آیه ، نمبر 143 .
2 . سوره آل عمران ، آیه 110 .
2 . نساء ، 115 .
3 . نساء ، 59 .کشاف ، ج1 ،ص565؛ احکام القرآن حصاص ،ج2 ،ص 396 .
4 . الاحکام فی اصول الاحکام ،ج1 ،ص 198 .
حجیت اجماع پر روایی دلیل :
اهل سنت سنن ابن ابی ماجه کی ایک مشهور و معروف روایت کو حجیت اجماع کے اثبات میں پیش کرتے هیں جس میں پیغمبر اکرم (ص)کا ارشادهے ۔
“ان امتی لاتجتمع علی ضلالة”.1
“بے شک میری امت گمراهی پر جمع نهیں هوسکتی ” ۔
ایک اور نقل کے حساب سے آیا هے که آپ نے فرمایا:
“سئلت الله ان لایجمع امتی علی ضلالة فاعطانیها”۔ . 2
“میں نے خدا سے دعا کی که میری امت گمراهی پر جمع نه هو خدانے میری اس دعا کو مستجاب قرار دیا”۔ .
ان دو احادیث سے انهوں نے حجیت اجماع پر استدلال کیا هے ۔
مخالفین اجماع کا جواب :
لیکن مخالفین اجماع نے اس سے مستقل دلیل ماننے سے انکار کرتے هوئے مذکوره تمام دلائل کو مورد تنقید و قرار دیا هے اور کها هے که پهلی آیهء کریمه میں مخالفت پیغمبر اور سبیل مؤمنین سے انحراف کی جانب اشاره دو چیزکی جانب اشاره نهیں هے بلکه راه مؤمنین سے انحراف اسی مخالفت پیغمبر کی تاکید هے پس مؤمنین کا راسته کوئی مستقل چیز نهیں هے کیونکه مؤمنین اسی راسته کو چاهیئے تھےهے جسے پیغمبر (ص)نے بتایا تھا ( یهی جواب غزالی کی کتاب المستصفی میں بھی ملتاهے)-3 اس کے علاوه راه مؤمنین سے هٹ کر کسی اور راستے پر چلنے سے مراد اسلام و امکاناس کے ارکان کا انکار هے پس اس آیت کا ربط فقه کے ضروری مسائل سے بالکل بھی نهیں هے ۔
اگر فرض کرلیا جائے که یه تمام دلائل صحیح هیں تب بھی قرآن کی رو سے اجماع صرف اس صورت میں حجت هے که تمام مسلمان بغیر کسی استثناء کے ایک راسته کا انتخاب کریں اور یه چیزوه نهیں جو فقیه کی مشکل حل کرسکے ۔
رهی بات دوسری آیت کی تو اس آیت میں دستور دیا جارها که اختلاف میں فیصله کو الله اور پیغمبر کے حوالے کردو اور ان سے انصاف چاهو ظاهر هے که اس مطلب کا فقهی مسائل سے کوئی ربط نهیں هے ۔
اس کے علاوه اگر اس آیت کی دلالت کو حجیت اجماع کےلئے مان بھی لیاجائے تب بھی یه آیت اس اجماع کا ذکر کررهی هے جس میں تمام مؤمنین شریک هوں .لیکن روایت کے سلسلے میں بعض محدثین نے اعتراض کرتے هوئے کها که اس روایت کی سنت ضعیف هے اس مطلب کی تفصیل شرح (نووی) جو که صحیح مسلم کی شرح هے ملے گی-4 ۔
روایت کی سند کے علاوه اس کی دلالت میں بھی اشکال هے کیونکه ضلالت وگمراهی غالبا اصول دین میں انحراف کےلئے استعمال هوتے هیں لهذا یه تعبیر اس فقیه کےلئے جو کسی فقهی مسئاله مسئله میں خطاب کاشکار هے استعمال نهیں هوتی یه کوئی نهیں کهتا که وه فقیه ضلالت کے راستے پر گامزن هے ۔
اگر سند ودلالت کے اشکالات سے صرف نظر کریں تب بھی حجیت اجماع و هاں ثابت هے که جهاں ساری امت کسی امر پر اتفاق نظر رکھتی هو اور یه مطلب اجماع کی مذکوره تعریفات کے خلاف هےجیسے کها گیا که اجماع سے مراد اهل مدینه کا یا اهل حل وعقد کاا تفاق هے ۔
البته علمائے امامیه کهتے هیں که اگر کسی مسئله پر ساری امت کا اتفاق هو تو یه اجماع حجت هے کیونکه وه معصوم کو کا امت کا جزء مانتے هیں اور امت کی برترین فرد مانتے هیں یهاں تک که علمائے امامیه کے اجماع کو رائے معصوم کےلئے کاشف مانتے هیں ۔
--------------
1 . وهی مدرک ( سنن ابن ماجه ) ج2 ،ص 1303 .
2 . همان مدرک ،
3 . المستصفی ،ص138 .
4 . شرح صحیح مسلم ، نووی ، ج13 ، ص 67
اجماع امامیه کی نظر میں :
مسلک امامیه کی نظر گذشته مطالب سے واضح هوچکی هے که ان کی نظر میں اجماع ، حکم شرعی کےلئے مستقل دلیل نهیں بن سکتی مگریه که اجماع رائے معصوم کی کاشف هو یعنی رائے ونظر معصوم کو کشف کرتی هو اس لئے که ۔
اولا : تمام فقهاء امامیه بالاتفاق خود کو ائمه علیهم السلام کے پیروکار جانتے هیں اور کبھی بنا بغیردلیل کے بات نهیں کرتے پس اسکا مطلب یه هے که وه هر بات امام کی رائے کے مطابق کرتے هیں پس فقهاء کا اجماع بھی رائے معصوم کا کاشف هوگا ۔
ثانیا: فقهاء کے اجماع سے فقیه کو رائے معصوم کا یقین کی حدتک گمان پیدا هوجاتا هے کیونکه جب ایک فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حکم شرعی کا گمان پیدا کرتا هے تو بھلا تمام فقیهوں کا فتویٰ کیسے یقین آور نه هوگا ۔
ثالثا: جهاں کسی حکم پر کوئی مدرک ( یعنی دلیل شرعی یا اصل ) همارے پاس نه هو ایسے مقام پر علماء کا اجماع علماء اس بات کی دلیل هے که ان کے پاس اس حکم کی کوئی معتبر دلیل هے اور اس سے معلوم هوتاهے که فقها نے اس حکم کو بلا واسطه یا ان وسائط سے جو هم تک نهیں پهنچے امام معصوم علیهم السلام سے لیا هے ۔یهاں تک بعض دانشمند سابقه فقهاء کے درمیان کسی مسئله کی شهرت کو اسی اجماع کے ذریعه حجت شمار کرتے هیں . اس بات کی طرف توجه ضروری هے که اگر علمائے امامیه اس اجماع کو اجماع حدسی سے تعبیر کرتے هیں اس کا مطلب یه نهیں هے که یهاں حدس به معنای ظن وگمان هو بلکه یهاں حدس سے مراد یه وه علم ویقین هے جو حس اور ائمه علیهم السلام کے مشاهده سے حاصل نهیں هوا بلکه علماء کے اجماع سے حدس یقینی پیدا هوا هے ۔
|