فعل معصوم سے استنباط کی کیفیت
چونکه الفاظ کی دلالت اپنے معانی پر افعال سے گویا تر هے اور مقاصد کو مخاطب تک پهنچانے میں سریع تر هے اس لئے معصوم سے صادر شده امر ونهی ، وجوب و حرمت پر ظهور رکھتی هے اور اس قسم کے ظهورات قابل استناد هیں لیکن کیا فعل معصوم امر امام کی مانند وجوب پر دلالت کرتا هے ؟ کیا امام کا کسی فعل کو ترک کرنا حرمت پر دلالت کرتاهے ۔
فعل معصوم جواز فعل ( بمعنیٰ عدم حرمت ) سے زیاده دلالت نهیں کرتاهے . یعنی امام کی جانب سے کسی فعل کا انجام دیاجانا اس بات کی دلیل هے که وه حرام نهیں هے لیکن وه فعل سے وجوب پر دلالت نهیں کرسکتا بالکل اُسی طرح که امام کی جانب سے کس عمل کا ترک کیاجانا صرف عدم وجوب پر دلالت کرے جیسے پیغمبر یا امام کسی کام کو حکم یا عبادت کی تعلیم کےلئے انجام دیں یا جیسے کوئی معصوم فعل یا ترک فعل کو مستمر طور پرمسلسل انجام دیں بعض نے اس استمرار کو وجوب یا حرمت کی دلیل قرار دی هے ۔
اگر کها جائے : پیغمبر کا فعل وجوب پر دلالت کرتا هے کیونکه قرآن میں فعل پیغمبر کی تأ سی اور رسول کے تمام اعمال کی پیروی کو واجب قرار دیاگیا هے اگرچه وه فعل خود پیغمبر پر واجب نه هو جیساکه ارشاد هے :
*لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ* .1
“مسلمانو! تمهارے میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہءعمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے” ۔
همارا جواب یه هوگا :
تأ سی کی تعریف میں کها گیا هے :
ان تفعل مثل فعله علی وجهه من اجل فعله .2
"پیغمبر (ص)کی تأ سی یه هے که پیغمبر نے جس کام کو جس طرح اور جس نیت سے انجام دیا تم بھی اسی انداز اور اسی نیت سے انجام دو " ۔
پس اگر پیغمبر (ص)نے واجب کی نیت سے انجام دیا تو هم بھی واجب کی نیت سے انجام دیں گے اور اگر آپ نے مستحب اور مباح کی نیت کی تو هم بھی استحباب اور اباحه کی نیت کریں گے نه یه که پیغمبر (ص)نے جو عمل انجام دیا وه هم پرواجب هو اور خود پیغمبر(ص)پر واجب نه هو ۔
تقریر معصوم کی حجیت کیسے ثابت هوگی ؟
تقریر یعنی معصوم کا اس فعل پر سکوت کرنا جو آپ کے سامنے (یا آپ کی غیبت میں مگر آپ کی اطلاع کے ساتھ) انجام پالیے ۔
تقریر کیے حجیت و اعتبار کی دلیل یه هے که اگر وه فعل یاقول حرام اور منکر هوتا تو معصوم ضرور مخالفت کرتا کیونکهه نهی از منکر واجب هے ۔
بعض نے کها که : تقریر معصوم حجت نهیں هے کیونکه نهی از منکر اور ارشاد جاهل کو ارشاد کرنا همیشه اور هرجگه واجب نهیں جیسے کوئی عمل شارع کی جانب سے مودر انکار قرار پائےلیکن مکلف پر اس کاکوئی اثر نهیں هو تو دوباره اس عمل سے روکنے کی ضرودت ضرورت نهیں هے ۔
جواب یه هے که :
یه فرض محل کلامهماری بحث سے خارج الک هے کیونکه محل کلامهماری بحث ان موارد میں هے که جهاں نهی از منکر کے واجب هونے کے شرائط موجود هوں ۔
--------------
1 . احزاب ، 21 .
2 . شرح المعالم ، ج2 ،ص390 .
سنت صحابه
جمهور اهل سنت، اهل بیت علیهم السلام کی سنت کے بجائے صحابه کی سنت کو حجت مانتے هیں-1 تاکه ان کی سنت کے ذریعه ادله شرعیه کی کمی کو پورا کیاجاسکے ان کے نزدیک صحابی رسول اس مسلمان کو کهتے هیں جس نے پیغمبر (ص)کی زندگی درک کی هو -2 اوراس دنیا سے مسلمان اٹھاهو اس کے علاوه اهل سنت کا تمام اصحاب رسول (ص)کے بارے میں اتفاق هے که جس پر صحابی کا اطلاق هو وه یقینًا عادل هے-3 جب که مکتب اهل بیت کے ماننے والوں کے نزدیک اصحاب پیغمبر(ص)کا امتیاز اور افتحار صحابیت کی وجه سے بڑا مقام هے لیکن وه یه نهیں مانتے که سب کے سب بلااستثنا عادل هوں اس لئے که جهاں اصحاب پیغمبر(ص)میں عظیم المرتبت شخصیات گزری هیں وهیں پر قرآن و تاریخ و حدیث کی روشنی میں کچھ ایسے بھی افراد تھے جو عادل نهیں تھے جسکی وجه سے قرآن وحدیث میں انکی مذمت بھی کی گئی،
اهل سنت عدالت صحابه پرقرآن اور حدیث سے استدلال کرتے هیں چنانچه قرآن کی تین آیتیں پیش کرتے هوئے کهتے هیں که خداوند سبحان کا ارشاد هے :
"*كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ"*4
“تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے” ۔
اور دوسری آیت یه پیش کرتے هیں :
"*وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ "*5
“ اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ” ۔
اورتیسری آیت جو پیش کی جاتی هے وه یه هے :
"*لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ "*
“یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے ” ۔ 6
ان تین آیتوں سے یه استدلال کیا جاتا هے که خیر امت اور امت وسط سے مراد اصحاب هیں یه اصحاب وهی هیں که جنهیں خدا مؤمن مانتاهے اور ان سے راضی هے پس جو افراد خیر امت اور مؤمن هوں اور الله ان سے راضی هو یعنی ان کے افعال ،رفتار و گفتار سے راضی هے پس ان کی سنت بھی حجت هوگی ۔
جب که پهلی اور دوسری آیت کا تعلق صحابی سے مخصوص نهیں بلکه اس میں تمام امت شامل هے انهی تین آیتوں میں سے تو یه آیت ان اصحاب سے مخصوص هے جو بیعت رضوان میں شریک تھے پس تمام صحابی اسمیں شامل نهیں هیں اس کےکیوں کی علاوه الله کی رضایت بیعت رضوان سے مربوط تھی یعنی خدا بیعت رضوان میں ان کے موقف سے راضی تھا اس کا مطلب یه نهیں که خدا ان کے تمام کاموں سے راضی رهے گا ۔
دانشمندان اهل سنت نے قرآن کے علاوه احادیث و روایات سے بھی استدلال کیا هے . جس میںمںی سب سے اهم اور معروف روایت یه هے ارشاد پیغمبر (ص)هے که :
“أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم”۔(مترجم) .7
“میرے اصحاب کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی هے اس میں جس کسی کی اقتداء کروگے هدایت پاؤگے ”۔ 8
جب که ابن حزم نے اسی روایت کو ساقط، مکذوب، اور غلط جاناهے اس کے علاوه بعض روایات میں یه آیا هے ۔
“اهل بیتی كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُم اهْتَدَيْتُم”۔.
“میرے اهل بیت کی مثال ستاروں جیسی هے ان میں جس کی اقتداء کروگے هدایت پاؤگے” ۔ 9
اور یه حدیث ثقلین جیسی متواتر حدیث سے بالکل هم آهنگ هے ۔ اس کے علاوه قرآن مجید میں ان اصحاب کا جو جنگ میں رسول کوپیٹھ دکھا کر بھاگ گئے یا وه اصحاب جنهوں نے دستورات پیغمبر (ص)سے سرپیچی کی هے یا ان پر اشکلالات کیئے هیں ان سب کا تذکره کیا اور بعض کو صریحاً فاسق قرار دیا هے ایک جگه فرمایا :
"*وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ "*
“اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے” ۔ 10
اور ایک جگه فرمایا:
"*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ "*
“ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔ 11
اهل سنت کے اکثر مفسرین نے کها یه آیت ولید عقبه کے بارے میں نازل هوئی اور ولیدا بن عقبه مسلماً صحابی پیغمبر(ص)هے ،ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں اس قول کو مورد اتفاق جانا هے اور کها هے که اس سلسلے میں روایات بهت زیاده هیں ۔ اس کے علاوه سوره، نور سوره احزاب ،سوره برائت اور سوره منافقوں میں ایسے افراد کا ذکر هے جو بظاهر مسلمان اور صحابی رسول تھےلیکن باطن میں مناقق تھے تھے،داستان افک کے جس کے سلسله میں سوره نور کی پندره آیتیں نازل هوئیں ان آیات میں جس گروه کی سرزنش کی گئی وه سب بظاهر مسلمان اور صحابی پیغمبر تھے بهر حال صحابه اپنے تمام احترام کے باوجود ان میں بعض صالح اور بعض غیر صالح افراد تھے اسی لئے سب کے اقوال کویکساں طور پر حجت نهیں مانا جاسکتا ۔
اس کے علاوه بعض مشهور اور سرشناس صحابه کے کام ایسے هیں جو کسی بھی طرح قابل توجیه نهیں هیں اور کوئی منطق اسے قبول نهیں کرسکتی کیا هم یه جانتے هیں که جنگ جمل کی آگ بھرکانے والے طلحه اور زبیر جیسے معروف صحابی تھے جنهوں نے امام وقت کے خلاف خروج کیا اور ستّره هزار مسلمانوں کے قتل کا سبب بنے کیا ایسے افعال کی کوئی منطقی دلیل هے ؟ کیا ایسے افراد کی سنت حجت هوسکتی هے ۔
اسی طرح هم یه بھی جانتےهیں که معاویه نے یهی کام اپنے وقت کے امام حضرت علی علیه السلام کے ساتھ انجام دیا جس کی وجه سے جنگ صفین میں ایک لاکھ مسلمان تهه تیغ هوئے کیا یه قتل و غارتگری توجیه کے قابل هے ؟
کیا ایسے افراد کو اب عادل مانا جائے گا ؟
کیا ایسے افراد کو مجتهد کهنا اور ان کے افعال کو خطائے اجتهادی کهه کر توجیه کرنا کوئی عقلی بات هے ؟ اگر ایسا هے تو هر دور میں اسی عنوان کےتحت هر قسم کے گناه کی تو جیه کی جاسکتی هے کیا کوئی دانشمند ایسی باتوں کو قبول کرسکتاهے ؟ بهرحال هم مصاحبت پیغمبر کی وجه سے صحابه کا احترام کرتے هیں لیکن انهیں تمام مسلمانوں کی طرح دو یاچند گروهوں میں تقسیم کرتے هیں اور ان میں سے ان افراد کی روایت قبول کرتے هیں جو عادل هوں ۔
--------------
1 . الموقعات شاطبی ، ج 4 ،ص 74 .
2 . الاصحابه فی تمیز الصحابه ، ج1،ص157 .
3 . .وهی مدک ،ص 162 .
4 . آل عمران ، 110 .
5 . بقره ، 143 .
6 . فتح ، 18 .
7 . (مترجم) 9- سنت صحابه کی حجیت پر دلیل نقل :
سنت صحابه کی حجیت پر جو دلیلیں نقل هوئی هیں بالخصوص جو روایات پیش کی گئی هیں ان میں سندی اشکال اور خود اهل سنت کے محدثیں کی جانب سے ان روایات کے جھوٹ اور جعلی هونے کی تصریح کے علاوه دلالت کے اعتبار سے بھی مخدوش هے کیونکه هم دیکھتے هیں که صحابه کی سیرت میں اختلاف بلکه تناقص پایاجاتا هے اور کسے ممکن هے سیرت کے اس آشکار اختلاف کے باوجود ان کی سیرت بطور مطلق حجت قرار پائے .
صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم(ص) سے انس نے روایت کی که پیغمبر(ص) نے فرمایا:
لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتیّ اذا عرفتهم اختلجوا دونی فاقول اصحابی فیقول لاتدری ما اخدثو بعدک .1
کسےممکن هے اس روایت کے هوتے هوئے صحابه کی عدالت اور ان کی سنت کو حجت ماناجائے اور کسی طرح اس صحابی کی سنت کو ثابت کی جائے که جس نے فقط کچھ دن پیغمبر(ص) کے ساتھ گذار هیں کیا مصاحبت کا مرتبه ایمان سے بڑھ کر هے ؟
جب ایمان کے لئے نهیں کها جاسکتا که ایمان عصمت اور گناهوں کے عدم ارتکاب کا باعث هے تو بھلا مصاحبت سے اسے معجزه کی کیسے امید رکھی جاسکتی هے .
قابل غور بات یه هے که اهل بیت علیهم السلام سے دوری اور رسول(ص) علم کے باب هے اور اهل بیت علیهم السلام کی روایتوں سے دوری نے انهیں شرعی احکام کے استنباط کرنے میں مشکل اور گرفتاری میں ڈال دیا اور پھر خلفاء کے اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے چکر میں عصمت صحابه جیسے امور کے قائل هوگئے اور انهی امور کو استنباط فقهی میں داخل کردیا جسکی وجه سے ایسی مشکلات کا شکار هوگئے جو آج تک ان کے دامن گیر هے .
--------------
1- (مترجم)صحيح بحاري ، كتاب الرقاق ، باب في الحوض ، حديث نمبر1441.
8 . میزان الاعتدال ، ج1 فص413/607 .
9 .الاحکام ابن حزم،ج6 ، ص810 .
10 . توبه ، 58 .
11 . حجرات ، 6 .
سنت تک پهنچنے کے راستے
جیساکه یه بات گذر چکی که قول وفعل تقریر معصوم کو سنت کهتے هیں اسی لئے اخبار اور احادیث سنت نهیں بلکه سنت کی حکایت کرتے هیں اور درحقیقت سنت تک پهنچنے کے راستے شمار هوتے هیں ۔
یهاں پر سنت کی تلاش اور اس تک پهنچنے کے بعض قطعی او ربعض غیر قطعی راستون کو پیش کیاجاتاهے -1۔
الف : سنت تک پهنچنے کے قطعی راستے
1- خبر تواتر
امت اسلامی اور معصومین کے درمیان زمانی فاصله کی وجه سے روایات متعدد واسطوں سے آئی هے ۔
1- اهل سنت کے ایک گروه نے خبر کی تین قسمیں کی هیں : ایک خبر وه هے که جس کی تصدیق واجب هے اورایک خبر وه هےکه جس کی تکذیب واجب هے اور ایک وه هے که جس میں توقف کیاجانا چاهیئے. ان کا کهنا جس خبر کی تصدیق واجب هے اس کی سات قسمیں هیں ۔
(1)خبرمتواتر
(2) خبر واحد
(3) خبر رسول الله (ص)
(4) خبر امت پیغمبر (ص)کیونکه امت کی عصمت پیغمبر (ص)کی جانب سے مختص هوچکی هے ضمنا هر اس شخص کی خبر جسے امت سچا اور راستگو مانتی هے وه اسی چوتھی قسم میں داخل هے ۔
(5) هر اس شخص کی خبر جو الله، رسول اور امت کی اخبار سے مطابقت رکھتی هو ۔
(6)هر وه خبر جسے مخبر و پیغمبر کے آگے بیان کرے اور پیغمبر اس کی تکذیب نه کریں ۔
(7) هروه خبر که جسے مخبر کسی جماعت کے آگے بیان کرے اور جماعت اس خبر کی تکذیب نه کرے البته اس شرط کے ساتھ که ان کا پشت پرده سازش اور باهم توافق کرنامحال هو ۔ لیکن وه خبر که جس کا تکذیب کرنا و اجب هے اس کی چار قسمیں هیں :
1- وه خبر جو عقل ضروری اور عقل نظری کے حکم یا حسن ومشاهده اور اخبار متواتر کے خلاف هو ۔
2- وه خبر جو کتاب وسنت واجماع کے مخالف هو ۔
3- وه خبر که جسے کثیر جماعت نے جھوٹی خبر قرار دیا هو او رعادتا اس خبر کے خلاف انکا پشت پرده توافق کرنا ناممکن هو ۔
4- ایسی خبر که جسے ایک کثیر جماعت نقل کرنے سے انکار کرے جبکه اس کے نقل کرنے کا امکان موجود هو ۔
اور خبر کی تیسری قسم :
وه خبر هے که جس میں خبر کا سچا اور جھوٹا هونا مشخص نه هو اور کتب حدیث میں اکثر اخبار اسی قسم کی هیں .
اسے او ریه اخبار امت تک پهنچتی هیں اور جنتا یه فاصله بڑھتا جائے اتنے هی واسطے بڑھتے جاتے هیں هر واسطه کو اصطلاحاً طبقه کها جاتا هے ۔ خبر متواتر وه خبر هے که ان طبقات میں سے هر ایک طبقه میں ایساگروه موجود هو که جس کا کذب وجعل حدیث پر توافق کرنا عام طور پر ناممکن هو اسی لئے خبر متواتر یقین آور هے 2۔
2- وه خبرواحد جو قرینه قطعیه کے همراه هو .
جو روایت حد تواتر تک نه پهنچے اسے اصطلاحاً خبرواحد کهتے هیں کبھی خبرواحد میں ایسے قرائن هوتے هیں جس سے یقین هوجاتا هے که یه خبر معصوم سے صادر هوئی هے ، اخباری علماء کے نزدیک کتب اربعه کی روایات ان خبرواحد جیسی هیں جو قرینه قطعیه کے همراه هوں . اسی لئے ان کی نظر میں کتب اربعه کی ساری روایات حجت هیں اور اسی لئے وه روایات کی صحیح ، ضعیف، مرسل اور مرفوع جیسی تقسیم بندی کو قبول نهیں کرتے اور یهی حال اهل سنت کے اکثر محدثین کا هے وه بھی صحاح سته خاص طور سے بخاری اور صحیح مسلم کی تمام روایات کو حجت مانتے هیں 3 ۔
3- اجماع
مذهب امامیه کا اجماع چونکه رائے معصوم کا کاشف هے اس لئے حجت هے اور اسی بناپر خبرمعصوم اور وه خبر جو محفوف به قرینهسے ملی هو کی مانند کاشف سنت هے لیکن اهل سنت کے نزدیک اجماع دلائل استنباط میں مستقل دلیل شمار هوتی هے ۔اسی لئے هم اهل سنت کی رعایت کرتے هوئے اسے آئنده صفحات میں مستقل عنوان کے تحت پیش کریں گے اور اس سلسله میں فریقین کے نظریات کو بیان کریں گے ۔
4- سیرۀ عقلاء
تمام لوگوں کا چاهے وه مسلمان هوں یا غیر مسلمان کسی فعل کو بطور مستمرمسلسل انجام دینا یا ترک کرنا سیره یا بنائے عقلاء کهلاتا هے مگر سیرۂ عقلا کے حکم شرعی هونے کےلئے معصوم کی تائید اور امضاءضروری هے اور معصوم کا کسی فعل کی انجام دهی سے روکنا اس فعل کی تائید او رامضا ء کےلئے کافی هے-4 کیونکه اگر وه فعل حرام هوتا تو امام کےلئے اس فعل سے روکنا لازم هوتا ۔
5- سیرۀمسلمین
وه افراد جو دین اسلام کے پابند هیں ان کا کسی فعل کو انجام دینا یا ترک کرنا ایک طرح سے مسلمانوں کاعملی اجماع شمار هوتا هے کسی عمل کی انجام دهی اور ترک عمل میں انکاا موقف اور ان کی روش سیرۂمسلمین کهلاتی هے یه سیرت اگر زمانه ءمعصوم سے متصل هو تو حجت هوگی کیونکه سیرت مسلمین اس بات کی دلیل هے که ان کی سیرت معصوم سے صادر دشده قول یا فعل سے ماخوذ هے لیکن اگر ان کی سیرت کا زمانه ء معصوم سے متصل هونا مشخص نه تو ایسی صورت میں وه سیرت حجت نهیں هوگی کیونکه شاید یه سیرت اسلامی سماج میں ایک عادت بن گئی هو اس لئے که بعض اوقات کسی شخص یا گروه کی خاص روش اور رفتار اس حدتک لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز هوتی هے جو دھیرے دھیرے ایک رسمی اور عمومی عادت بن جاتی هے . کسی عادت کی ابتداء میں علماء اور متدین افراد کی سهل انگاری او رغفلت کی وجه سے یا اس کے خلاف کوئی ٹھوس موقف اختیار نه کرنے کی وجه سے یاموقف تو اختیار کیا لیکن اس عادت کو مٹانے میں اس موقف کے کافی نه هونے کی وجه هے سے اکثر لوگ اس میں دلچسپی لینے لگتے هیں اور آهسته آهسته وه عادت اتنی مضبوط هوجاتی هے که اکثر افراد اس عادت کا احترام کرنے لگتے هیں آج مساجد کے خرچے اور تشریفاتی امور انهی سهل انگاریوں کا نتیجه هوں هیں جوآج ایک عادت بن گئی اور لوگ اسے هی سیرت مسلمین سمجھ بیٹھے هیں -5۔
ب: سنت دستیابی حاصل کرنے سنت کے غیر قطعی راستے
به بات گذرچکی هے که جس طرح کشف سنت کے کچھ قطعی راستے هیں اسی طرح کچھ غیر قطعی راستے بھی هیں که جن کا خود بخود کوئی اعتبار نهیں کیونکه حکم شرعی کی دلیل کا قطعی هونا لازمی هے صرف احتمال و گمان کی عقل کے نزدیک کوئی ارزش نهیں هے . قرآن ظن و گمان کی پیروی کو قابل قبول نهیں جانتا :
"*وَإِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا "*
“ گمان حق کے بارے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا ہے” ۔6
"*وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولـئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً"*
“ اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعتً بصارت اور قوائے قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا-7 ۔
لیکن اگر یه غیر قطعی راستے معقول هوجائیں اور ان کے اعتبار پر قطعی دلائل موجود هوں تو یهی غیر قطعی راستے حجت هوں گے اور ان پر عمل ظن و گمان کی پیروی نهیں هوگی ۔ وه غیر قطعی لیکن معتبر راستے کچھ اس طرح هیں :
1- خبرواحد
ایسی خبر که جس کے راوی تمام یا کسی ایک طبقه میں ایک یا ایک سے زیاده هوں لیکن حدتواتر تک نه پهنچیں تو ایسی خبر یقین آور نهیں هوگی او رایسی خبر کو اصطلاح میں خبرواحد کهتے هیں ۔
خبر واحد کی بحث منابع استنباط کے اهم ترین مباحث میں سے هے اور اس کی حجیت میں علماء کے درمیان اختلاف پایاجاتا هے سید مرتضیٰS ابن زهرهS ابن براجS طبرسی8 اور ابن ادریسS اس کی حجیت کا انکار کرتے هیں اهل سنت میں قدریه اور فرقه ظاهریه9 کے بعض افراد اسکی حجیت کے منکر هیں جب که شیخ طوسی اور فقهائے تشیع کے اکثر بزرگ افراد اسی طرح تمام اخباری او ر اهل سنت کے اکثر افراد خبرواحد کی حجیت کے قائل هیں 10 ۔
حجیت خبرواحد کے شرائط میں کوئی ایک مشخص رائے نهیں هے مسلک امامیه کے قدما ء اس خبر واحد کومعتبر مانتے هیں جو قرائن صحت کے همراه هو چاهے وه قرائن صحت داخلی هوں جیسے راوی کی وثاقت یا خارجی هوں جیسے کسی معتبر کتاب میں اس کا وجود یا کسی کتاب میں اس کی تکرار . ، اور روایت غیر معتبر اسی روایت کو مانتے هیں جس میں اس قسم کے قرائن موجود نه هوں11 لیکن چھٹی صدی سے شیعه علماء نے خبر واحد کی حجیت کےلئے راوی کی عدالت کو شرط قرار دیا هے اور بعض نے راوی کی وثاقت کو شرط قرار دیا اور اسی نظریه کی اساس پر روایات کی چار قسمیں کیں صحیح، حسن، موثق اورضعیف . البته اخباری کتب اربعه کی تمام روایات کو حجت مانتے هیں اور حدیث کی مذکوره تقسیم بندی کو غلط اور بے اثر جانتے هیں لیکن ان کے پاس اپنے نظریه کے اثبات میں کوئی قابل قبول دلیل نهیں هے ۔
روایت صحیح .
اهل سنت کے نزدیک وه خبر واحد که جس کی سند متصل هو ( یعنی جس کے سلسلهء سند میں کوئی افتاد گی نه هو ) اورجس کے راوی عادل مضبط اور مخفی عیب سے دور هوں ایسی روایت کو روایت صحیح کهتے هیں :
“" ماتصل سند بعدول ضابطین بلا شذوذ ولاعلة خفیة”"
روایت حسن .
اس روایت کوکهتے هیں جس روایت کے صدور اورا س کے رجالی شناخته شده هوں مگر روایت صحیح کی حدتک نه هوں ۔
“"ماعرف مخرجه و رجاله لاکرجال الصحیح”"
روایت ضعیف
وه روایت هے که جس میں روایت حسن کے درجات سے کوئی درجه نه هوں اور خود روایت ضعیف کے کئی مرتبے هیں ۔
“"ماقصر عن درجه الحسن وتفاوت درجاته فی الضعف بحسب بعده من شروط الصحة ”" 12
--------------
1 .المصتفیٰ، ج1 ،ص 144/142 .
2 . مصباح الاصول ،ج2 ،ص 192 .
3 . حدائق الناظره ، ج1 ،ص 23 .
4 . اصول القه ، ج2 ،ص 171 .
5 . اصول الفقه، ج2 ، ص 175 .
6 . نجم،28 .
7 . اسراء ،36 .
8 . کفایه الاصول ،ج2،ص79 .
9 . روضه الناظر ،ج1 ،ص313 .
10 . وهی مدرک ،
11 .مقباس الهدایه فی علم الدرایایه ،ج1،ص19/24 .
12 . امنی المطالب ، ص 17 .
|