سنت اهل بیت کی حجیت پر چند شبهات
ائمه معصومین علیهم السلام کی احادیث کی حجیت پر اهم ترین اعتراضات تین هیں :
پهلا اعتراض :
یه هے که دین اسلام پیغمبر (ص)کی حیات میں کامل هو چکا تھا جیسا که آیهء اکمال سے استفاده هوتا هے :
"*الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا" * 1
اسی طرح پیغمبر خد(ص)نے بھی فرمایا:
ِ“ مَا مِنْ شَيْءٍ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ وَ يُبَاعِدُكُمْ مِنَ النَّارِ إِلَّا وَ قَدْ أَمَرْتُكُمْ بِهِ وَ مَا مِنْ شَيْءٍ يُقَرِّبُكُمْ مِنَ النَّارِ وَ يُبَاعِدُكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا وَ قَدْ نَهَيْتُكُمْ عَنْه”۔.
“جو چیز تمهیں جنت سے نزدیک اور جهنم سے دور کرتی هے میں نے تمهیں اس کا حکم دیا اور جوچیز تمهیں جنت سے دور اور جهنم سے نزدیک کرنے والی هے اس سے روک دیا هے 2 ۔
اس کے معنی یه هوئے که وه سارے واجبات و محرمات جو تمهیں جنت اور جهنم تک لیےجانے والے هیں میں انهیں بیان کرچکا هوں ۔
اسی بناپر دین میں کوئی نقص نهیں هے جسے سنت معصومین سے دور کیا جائے پس خدا اور رسول کے علاوه کسی بھی شخص یا اشخاص کو مدرک شریعت نهیں مانا جاسکتا کیونکه ان کی سنت کو حجت ماننا گویا زمان پیغمبر میں دین کو ناقص جاننا هے اور یه خلاف قرآن و حدیث هے ۔
جواب :
یقینا پیغمبر کے زمانے میں دین کامل تھا اور اس کا کامل هونا قطعی هے لیکن پهلے همیں یه جاننا هوگا که اکمال سے کیا مراد هے ۔
اولا : یه اعتراض هم سے پهلے خود اهل سنت پر وارد هوتا هے جو سنت صحابه، قیاس، استحسان ، دین میں منطقه الفراغ کے وجود اور اجتهاد بالرائ کو حجت مانتے هیں انهیں بھی اپنے نظریه اور آیه ءاکمال کے درمیان تضاد کو بر طرف کرنا چاهیئے ۔
ثانیا : اکمال دین اور هے ابلاغ دین اور ، دین یقینا پیغمبر کے دور میں کامل هوگیا اور جو ائمه علیهم السلام نے لوگوں کو بیان کیا وه تکمیل دین کے عنوان سے نهیں بلکه تبلیغ دین کے عنوان سے تھا ان کے احکام و بیانات ان کی شخصی رائ کا نتیجه نهیں تھے که دین کو کامل کرتے بلکه به احکامات اس دین کی تبلیغ تھے جو رسول کے دور میں تکمیل هوچکا تھا ۔
امام باقر فرماتے هیں :
“لَوْ أَنَّا حَدَّثْنَا بِرَأْيِنَا ضَلَلْنَا كَمَا ضَلَّ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا وَ لَكِنَّا حَدَّثْنَا بِبَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّنَا بَيَّنَهَا لِنَبِيِّهِ (ص)فَبَيَّنَهُ لَنَا” .
“اگر هم اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر حکم دین کرتے تو هم انهی کی طرح گمراه هوجاتے جو هم سے پهلے گمراه هوگئے تھے لیکن همارے احکام اس هدایت الهیٰ کی روشنی میں هوتے هیں جو اس نے اپنے نبی کو عطاکی اور پھر پیغمبر نے همیں اس هدایت سے نوازا3۔
روایت میں آیا هے که امام موسی کاظم کے ایک صحابی جن کا نام سماعه تھا انهوں نے امام سے پوچھا : آپ جوکچھ فرماتے هیں وه قرآن و سنت کے مطابق هے یا آپ کی اپنی رائے هے ؟
حضرت نے جواب دیا :
“بَلْ كُلُّ شَيْءٍ نَقُولُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّتِهِ” .
“هم جو کچھ بھی کهتے هیں وه قرآن اور سنت پیغمبر (ص)کے مطابق هوتا هے ” ۔ 4
ایک اور روایت میں آیا هے :
“بَلْ كُلُّ شَيْءٍ نَقُولُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَ سُنَّتِهِ” .
“هم اهل رائےنهیں هیں ( همارا هر قول پیغمبر(ص)کے قول کی نقل هے ) ” 5
بهرحال مدرسه اهل بیت کا عقیده یه هے که امام علم الهیٰ کا خزانه دار، محافظ شریعت اور وارث پیغمبر هے امام اسرار الهیٰ کا راز دار، حامل کتاب اور داعی الی الله هے ائمه معصومین وه هیں جو “ "لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ ” " فرمان الهیٰ سے تجاوز نهیں کرتے بلکه اس کے فرمان کے مطیع اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرتے هیں "*وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ" -6 ابن سعد طبقات میں نقل کرتا هے که علی علیه السلام سے سوال هوا :
آپ اکثر روایات رسول خد(ص)سے کیوں بیان کرتے هیں ؟
حضرت نے جواب دیا : اس لئے که میں جو بھی سوال کرتا پیامبر مجھے بتلاتے اور جهاں خاموش رهتا پیغمبر خود گفتگو کا آغاز کرتے ۔کوئی ایسی آیت ناز له نهیں هوئی جس کی شأن نزول مجھے معلوم نه هو 7۔
پیغمبر (ص)نے حضرت امیر سے فرمایا:جو چیز میں آپ کے لئے املا کرا رهاهوں اسے لکھئے حضرت علی نے کها :یارسول الله (ص)کیا آپ اس سے ڈرتے هیں که کهیں بھول نه جاؤں پیغمبر(ص)نے فرمایا : نهیں بلکه میں نے خدا سے دعا کی هے که آپ میرے علم کے حافظ رهیں ، اس لئے یه آپ کےلئے نهیں بلکه آپ کے بعد آنے والے اماموں کےلئے لکھئے پھر آپ نے امام حسن کی جانب اشاره کرکے فرمایا : آنے والے اماموں میں سب سے پهلا امام هے پھر حسین کی جانب اشاره کرکے کها یه دوسرا امام هے اور اسی کی نسل سے امامت کا سلسله چلے گا -8۔
اس آخری روایت سے ایک اور اشکال کا جواب بھی دیا جاسکتا هے وه یه هے که اهل سنت کهتے هیں : اکثر حدیثیں امام باقر اور امام صادق علیه هماالسلام سے نقل هیں جب که انهوں نے رسول کو درک نهیں کیا پس ان کی حدیثیں سند کے لحاظ سے مرسل هیں یعنی نقل روایات میں پیغمبر اور وه ائمه که جنهوں نے رسول کو درک نهیں کیا ان کے در میان کے واسطے ساقط هیں اور یه مشخص نهیں هے که ان احادیث کو کسی نے اهل بیت کےلئے پیغمبر سے نقل کیا اور ظاهر هے که خبر مرسل حجیت نهیں رکھتی ۔
جواب یه که: روایات میں ائمه کی جانب سے سلسلهء سند مشخص کیا جاچکا هے جیساکه امام صادق علیه اسلام هشام بن سالم ، حمادبن عثمان اور دوسروں سے فرمایاکرتے تھے :
”"حدیثی حدث ابی و حدیث ابی حدیث حدی و حدیث جدی ،حدیث الحسین و حدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن ،حدیث امیرالمؤمنین و حدیث امیرالمؤمنین حدیث رسول الله ،وحدیث رسول الله قول الله عزوجل“
"
“میری حدیث میرے بابا کی حدیث هے اور میرے بابا کی حدیث میرے جد کی حدیث هے اور میرے جد کی حدیث حسین علیه السلام کی حدیث اور حسین کی حدیث حسن مجتبیٰ کی حدیث هے اور حسن مجتبیٰ کی حدیث امیرالمؤمنین کی حدیث هے اور حضرت امیر کی حدیث رسول خدا کی حدیث هے اور رسول کی حدیث خدائے برترکا قول هے -9 ایک روایت میں نقل هواهے که جب جابر نے امام باقر سے کها که آپ اپنی حدیث کی سند بیان کیجیئے ”؟
امام علیه السلام نے فرمایا: میں اپنے والد اور رسول خدا سےحدیث نقل کرتاهوں پھر فرمایا:
وکلمات احدثک بهذا الاسناد
میری هر حدیث کی سند یهی هے ۔ 10
البته ائمهء اطهار اپنی احادیث کی سند همیشه پیغمبر تک نهیں پهنچاتے تھے بلکه اگر ان کی بزم میں اهل سنت بھی حاضر هوتے تو اس وقت آپ سند کو کامل کرتے تھے اور اپنی سند کو رسول تک پهنچاتے تھے اسی لئے بعض اهل سنت جو راویان اهل بیت میں شمار هوتے هیں غالبا ان کی روایات کیس سند رسول (ص)سے متصل هے ۔
--------------
1 . مائده ، 3 .
2 . کافی ،ج2 ص74 ، کنزالعمال ،ج4 ،ص24 .
3 . بصائر الدرجات ، ص 319 ، بحارالانوار ،ج2 ، ص 172 ، ایسی روایت کنزالعمال کی تیرهویں جلد ،164 پر امیرالمؤمنین سے نقل هوئی هے .
4 .بصائر الدرجات ، ص321 ، بحارالانوار ،ج2 ، ص174 .
5 . کافی ، ج1 ، ص57 .
6 . انبیاء ، 27 .
7 . طبقات ابن سعد ، ج 2 ص 338 .
8 . ینابیع الموده ، ج1،ف ص73 .
9 . کافی ،ج1،ص53 .
10 . امالی مفید ، ص42 .
دوسرا اشکال :
اگر پیغمبر وه احکام جسے ائمه علیهم السلام لوگوں تک بیان کرنے والے هیں جانتے تھے اور آپ نے انهیں ابلاغ نهیں کیا گویا انهوں نے حق کو چھپایاهے جبکه کتمان حق حرام هے جیساکه قرآن میں آیاهے :
*لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَكْتُمُونَهُ *. 1
یا ایک مقام پر فرماتا :
*إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَـئِكَ يَلعَنُهُمُ اللّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ *. 2
“جو لوگ ہمارے نازل کئے ہوئے واضح بیانات اور ہدایات کو ہمارے بیان کردینے کے بعد بھی چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں”۔
بنابر این چونکه پیغمبر کو تمام احکام کا علم هے اور ان کا وظیفه ابلاغ هے پس ان پر لازم هے که وه احکام کو لوگوں تک پهنچائیں نه یه که اپنے وظیفه کو دوسروں کے حوالے کردے که وه احکام بیان کریں ۔
جواب :
سب سے پهلی بات تو یه هے که "کتمان ما انزل الله" سے مراد اس چیز کا مخفی کرنا هے که جس کا اعلان کرنا واجب هو اور ابلاغ احکام کے خاص شرائط اور قوانین هی جو که زمان و مکان طرز بیان کے لحاظ سے اور یه که یه احکام کسے بیان کرنے هیں ا هے ان میں ان سب امور کی رعایت لازم هے ۔
توضیح مطلب :
بعض احکام ایسے هیں که جس کا موضوع محقق نهیں هے یا بیان احکام کی مصلحت نهیں هے ، اسی لئے خود رسول اسلام کے دور میں احکام تدریجا بیان هوتے تھے . باوجود یکه پیغمبر احکام سے آگاه تھے لیکن موضوع یا مصلحت کے نه هونے کی وجه سے بیان کرنے سے گریز کرتے لیکن کسی نے پیغمبر پر یه اعتراض نهیں کیا که آپ تمام احکام کو جاننے کے باوجود کیوں اتنی تاخیر سے تدریجی طور پر 23 سال کے عرصه میں بیان کیا اور کیوں حق کو چھپایا ؟ اس لئے سب جانتے هیں که ایک هی زمانے میں تمام احکام بیان کرنا لوگوں کےلئے سنگیں تھا او ردین سے فرار کا سبب بن سکتا تھا اسی لئے پیغمبر نے اسے تدریجی طور پر بیان کیا اور بعض احکام کے ابلاغ کی ذمه داری اهل بیت کے سپرد کی ۔
اس کے علاوه الهیٰ پیغام کے ابلاغ کا مطلب یه نهیں هے که احکام کو ایک ایک مسلمان کے کان میں سنایاجائے بلکه اگر ایک خاص گروه تک اسے پهنچایا جائے جو دوسروں تک ابلاغ کرنے والے هیں ان پر بھی ابلاغ و بیان اور عدم کتمان صادق آئے گا ورنه یه اشکال تمام پیغمبروں اور تمام جاننے والوں پر وارد هوگا که انهوں نے کیوں حق کو چھپایاهے ؟
تیسرا اشکال
شیعوں کے عقیده کے اعتبار سے ائمهء اطهار مقام عصمت پر فائز هیں اور ان کاعلم اور ان کی حقانیت مسلم هے پس اگر ایسا هے تو پھر ان سے منقول روایات میں تناقض و تعارض نهیں پایاجانا چاهیئے کیونکه تعارض و تناقض ان کے علمی مقام اور عظمت سے سازگار نهیں هے جب که شیعوں کی کتابوں میں احادیث میں تعارض اور تناقض پایا جاتاهے ؟
جواب:
اولا: تعارض کا مسئله صرف ائمهء کی احادیث هی نهیں بلکه احادیث نبوی میں بھی موجود هے اور اهل سنت نے بھی اپنی اصولی کتابوں میں تعارض روایات اور کیفیت جمع و ترجیح سے بحث کی هے ۔
ثانیا: مختلف عوامل هیں جو تعارض اخبار کا سبب بنتے هیں جس میں سے بعض اسباب کی جانب یهاں اشار ه کیا جاتاهے :
1- راوی کا فهم روایات میں غلطی کرنا ۔
اکثر موارد میں نصوص میں کوئی تعارض نهیں تھا بلکه راوی نے پیغمبر (ص)یا امام کے کلام کو سمجھنے میں غلطی کے شکار هوئے هیں ۔
2- قرینه لفظ اور حال کا ضایع هوجانا ۔
صدور روایات کے زمانے میں ان روایات کے ساتھ کچھ قرائن تھے خاص طورسے قرینه و سیاق جو که تقطیع روایات کی وجه سے ضایع هوگئے جس کی وجه سے روایات میں تعارض پیداهوگیا ۔
3- راویوں کا نقل معنیٰ کرنا تعارض کا سبب بنا ۔
4- پیغمبر اکرم (ص)اور ائمه ء علیهم اسلام کا احکام کو تدریجا بیان کرنا ۔
5- ظالم حکام سے تقیه کا مسئله سبب بنا که ائمه کے اقوال یا رفتار میں تعارض کا توهم پایاجائے ۔
6- مخاطب کی رعایت کرنا ۔
بعض اوقات سوال کرنے اوالے کی وضعیت اور شرائط ایسے هوتے هیں جودوسروں سے فرق کرتے هیں اور اس کے سوال کا جواب اس کی شرائط کے مطابق هوتا هے لیکن وه شخص اپنے سے مربوط جواب کو بصورت مطلق سب کے لئے نقل کرتا هے که فلاںمسئله میں امام کا قول یه هے ۔
7- کلام امام میں مخالفین اور مغرضین کی جانب سے تحریف کیاجانا ۔
اس لئے که همیشه هر دور میں مغرض اور منافق افراد رهے هیں یهاں تک خود پیغمبر کے دور میں ایسے افراد تھے جو احادیث میں تحریف کرتے تھے ۔ چنانچه رسول خدا (ص)سے نقل هوا هے که آپ نے فرمایا:
“" کثرت علیّ الکذبه ”"
“مجھ پر جھوٹ باند ھنے والے زیاده هوگئے هیں ” ۔ 3
ایک اور مقام پر فرماتے هیں :
“من قال علی مالم اقل فلیتبوا مقعده من النار”
“جو کوئی میری جانب اس چیز کی نسبت دے جو میں نے نهیں کهی اس کا ٹھکانه جهنم هے ” ۔4
تاریخ اور روایات میں ایسے افراد کا نام آتاهے جن کی احادیث میں دست کاری اور تحریف کی ترویج کی وجه سے سرزنش اور مذمت کی گئی هے ۔
8- حکومت کے وقتی احکام
جیسے امیرالمؤمنین کی حکومت کے دور میں اونٹ پر وجوب زکوٰة کا خاص حکم تھا ایک مدت کے بعد ختم هوگیا ۔
--------------
1 . آل عمران ، 187.
2 . بقره ،159 .
3 . غیبت نعمانی ، ص76 ، احتجاج طبرسی ،ج1،ص393، کنز العمال،ج16،ص555 .
4 .کنز العمال ،ج10،ص290
|