تمهید
هماری گفتگو کا عنوان هے منابع استنباط فریقین کی نظر میں ، روشن هے که اس وسیع موضوع پر تحقیق کےلئے ایک مقاله نهیں بلکه ضخیم کتابوں کی ضرورت هے اسی لئے هم اس موضوع پر سرسری نگاه دوڑاتے هوئے صرف کلی مسائل کے بیان پر اکتفا کریں گے امید هے اهل تحقیق اس موضوسع کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرکے اس کے هر ایک گوشے پر مستقل تحقیق کریں گے ۔
چند اهم نکات
مقدمه میں لازم هے که اهم نکات کی جانب توجه دلائی جائے :
پهلانکته
صرف نظام تکوین هی نهیں بلکه نظام تشریع بھی خدا کے اختیار اور اس کے اراده کے تحت هے اسی لئے خدا کے علاوه کسی کو قانون سازی اور شرعی احکام کو وضع کرنے کا حق نهیں هے فقهاء کی تو دور کی بات هےخود انبیاء کو بھی حق نهیں ملا ان کی ذمه داری صرف تبلیغ کرنا اور احکام کو و اضح اور روشن طور پر بیان کرنا تھا چنانچه قرآن مجید میں ارشاد هے ،
*ما عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ* .۔
“"رسول پر تبلیغ کے علاوه کوئی ذمه دارری نهیں”" ۔. 1
ایک مقام پر ارشاد هے :
* قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُم مَّا أُرْسِلْتُ بِهِ *.
“"انهوں نے کها که علم تو بس الله کے پاس هے اور میں اسی کے پیغام کو پهنچادیتا هوں ”" 2
رسول خد(ص)که جسکی برتری تمام انبیاء پر ثابت اور مسلم هے انهیں بھی وضع احکام کا حق نهیں اسی لئے قرآن نےکهیں بھی انهیں شارع کی حیثیت سے نهیں پهچنوایا بلکه مبلغ کی حیثیت سے انهیں پهچنوایا هے چنانچه ارشاد رب العزت هے:
*يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ .*
“" اے پیغمبر! آپ اس حکم کوپهنچادیں جو آپ کے پرورد گار کی طرف سےنازل کیا گیا ”" 3
سورۂنحل میں آیا هے که غیر خدا کی جانب سے احکام وضع کیا جانا در حقیقت خداکی حاکمیت اور اس کی ولایت کا انکار کرنا هے اپنی جانب سے حلال و حرام کا تعین کرنا ذات خداوندی پر بهتان باندھنا هے خداوند عالم ایسے افراد کو خبردار کرتے هوئے ارشاد فرماتا هے :
*وَلاَ تَقُولُواْ لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَـذَا حَلاَلٌ وَهَـذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُواْ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللّهِ الْكَذِبَ لاَ يُفْلِحُونَ*.
“اور خبردار جو تمهاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی هیں اس کی بنا پر نه کهو که یه حلال هے اور یه حرام هے جواس طرح خدا پر جھوٹا بهتان باندھتے هیں ان کے لئے فلاح و کامیابی نهیں هے ”۔ 4
حاکمیت صرف اور صرف خدا سے مخصوص هے تنها وهی ذات هے جو کائنات کے سا تھ تکوینی نظام کو اپنی قدرت و تدبیر سے چلاتا هے خداکی اسی انحصار ی حاکمیت کو (توحید در خالقیت ) او رتوحید د رربوبیت ، سے تعبیر کیا جاتاهے ۔ خدا کے علاوه کسی اور کی حاکمیت کا تصور بھی نهیں کیا جاسکتا اسی لئے خداوند عالم بڑے تعجب او ر سوالیه انداز میں پو چھتا هے:
*هل مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاء وَالْأَرْضِ *۔.
“"کیا خدا کے علاوه بھی کوئی خالق هے جو آسمان و زمین سے روزی دیتا هو ”"۔ 5
قرآن مجید کئی مقام پر واضح او رمطلق طور پر بیان کرتا هے که حکم اور دستور دینا صرف خدا کا حق هے ۔
*وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ* ۔.
“الله هی حکم دینے والا هے کوئی ان کے حکم کو ٹالنے والا نهیں ”۔ 6
جس طرح تکوینی نظام میں خدا کی انحصاری حاکمیت کو توحید در خالقیت او رتوحید در ربوبیت سے تعبیر کیا جاتا هے بالکل اسی طرح نظام تشریع میں اس حاکمیت کو توحید د رحکومت سے تعبیر کیا جاتاهے یه مطلب بھی قرآن میں کئی مقامات پر پیش کیا گیا :
*إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ* ۔.
“بے شک حکم کرنے کا حق خدا کو هے اور اسی نے حکم دیا که اس کے علاوه کسی کی عبادت نه کی جائے که یهی مستحکم اور سیدھا دین هے ”۔ 7
صرف دو صورتوں میں غیر خدا کی جانب سے حکم صادر هوسکتا هے ، ایک یه که اسکا حکم کرنا الله کے اذن سے هو جیسے که جناب داوُد کو خطاب هوا :
*يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ *۔.
“" اے داؤد هم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا هے لهذ تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصله کرو ”"۔. 8
دوسرے یه که اس کے حکم کی بازگشت حکم خدا کی جانب هو یعنی در حقیقت اس کا حکم الله کی مشیت او راس کے حکم و اراده کے مطابق اور حمایت پرور دگار کے ساتھ هو یعنی مستقل اور دلخواهی کے همراه نه هو ۔
*وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ *۔.
“"اور پیغمبر آپ ان کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق بھی فیصله کریں ”"۔ 9
خدا کے علاوه کسی اور کے حکم کی شرط یه هے که اس کا حکم الله کے حکم اور مشیت کے مطابق هو ، اسی صورت میں غیر خدا کا حکم کرنا اوردستور دینا توحید در حکومت سے منافات نهیں رکھتا اس لئے که یه کام در حقیقت خدا کے اذن سے انجام پاتا هے خلاصه یه که هر صورت میں حق قانون اور حق حکومت خدا سے مخصوص هے ۔
--------------
1 . مائده ، 99 .
2 . احقاف ، 23 .
3 . مائده ، 67 .
4 . نحل ،116 .
5 . فاطر ، 3 .
6 . رعد ، 41 .
7 . یوسف ، 40 .
8 . ص ، 26 .
9 . مائده ، 49 .
دوسرا نکته
تمام فقهاء اسلام اپنے اختلاف مذهب کے باوجود اهم ترین منابع استنباط میں اشتراک نظر رکھتے هیں هر ایک کے نزدیک قرآن وسنت استنباط احکام کے اساسی ترین رکن شمار هوتے هیں ، ان کے اختلاف کی وجه صرف قرآن فهمی او رسنت کو سمجھنے کا فرق هے اجماع کی حجیت کے معیار اورعقل کی اهمیت و ارزش کا فرق هے ۔ان کے علاوه اور بھی فقهی منابع هیں جو تمام مذاهب اسلامی میں مورد اتفاق نهیں بلکه ان میں اختلاف پایا چاتا هے جیسے قیاس استحسان و غیره که ان کا ذکر آئنده مباحث میں هوگا ۔
تیسرا نکته
فقهائے اسلام منابع استنباط کے استعمال میں ایک خاص نظم کا لحاظ رکھتے هیں عام طور پر جو راسته یقین تک پهنچتا هے اسے تمام دوسرے راستوں پر مقدم رکھتے هیں اس کے بعد دلائل ظنی که جسے امارات کها جاتا هے رجوع کرتے هیں اگر اس کے باوجود شک و تردیدباقی ره جائے تب ادله احکام ظاهری کی نوبت آتی هے ۔
توضیح :
منابع استناط همیشه یقین آور نهیں هوتے بلکه بعض منابع صرف حکم شرعی کا گمان دلاتے هیں اور بعض اوقات شک وجدانی بھی بر طرف نهیں کرتے اسی لیے فقیه پر لازم هےکه ادله ظنی اور قواعد و اصول جو حالت شک میں انسان کے وظیفه ءعملی کو مشخص کرتے هیں ان اصول وقواعد کے اعتبار و ارزش کو مشخص کرے اور وه علم جس میں ان مباحث پر گفتگو هوتی هے "علم اصول" کهاجاتا هے اور وه حکم جو حالت شک میں ادله ءظنی اور اصول عملیه کے جاری
کرنے سے حاصل هوا اسے "حکم ظاهری" کهتے هیں لیکن احکام ظاهری کی حجیت کے دلائل کوقطع و یقین کے ذریعے ثابت هونا شرط هے اسی لئے مشهور کا کهنا هے :
ظنیة الطریق لاتنافی قطعیة الحکم ۔.
دلیل ظنی حکم کے قطعی هونے سے منافات نهیں رکھتی ۔
اهل سنت کے بعض علماء کے نزدیک دلائل استنباط کی ترتیب کچھ اس طرح هے :
ان کے نزدیک سب سے پهلی دلیل جو ایک مجتهد کو تما م دلائل سے بے نیاز کرتی هے اجماع هے اگر کسی مسئله پر اجماع موجود هو تو دوسری دلیلوں کی جستجو لازم نهیں هے اسی لئے اگر کتاب و سنت اجماع کے خلاف هوں تو کتا ب و سنت کی تاویل کرنی هوگی یا اس حکم کو مسنوخ تسلیم کرنا هوگا ۔
اجماع کے دوسرے مرتبه پر کتاب و سنت معتبر هے اور آخر میں خبرواحد و قیاس سے استفاده کیا جاتاهے ۔
مذکوره مقدمات اور نکات کے پیش نظر اپنی بحث کا آغاز ان منابع کے ذکر سے گریں گے جو فریقین کے نزدیک معتبر اور متفق هیں ۔
“ "فریقین کے مورد اتفاق منابع استباط ”"۔
الف: قرآن
احکام الهی کا اهم ترین اور بنیادی ترین منبع و مدرک قرآن هے ، قرآن عقائد، تاریخ، اخلاق او راحکام کامجموعه هے احکام سے مربوطه حصه کو اصطلاح میں آیات الاحکام “"یا ”" احکام القرآن کهتے هیں ۔
کها جاتاهے که قرآن میں من جمله پانج سو آیتیں احکام سے مربوط هیں لیکن بعض یه مانتے هیں قرآن کی اکثر آیات کسی نه کسی جهت سے استنباط احکام میں کام آتی هیں کبھی صریح طورپر احکام کا ذکر ملتا هے اور کبھی اسنتباط کے ذریعے انهیں کشف کیا جاتاهے استنباط میں کبھی ایک آیت کو دوسری آیت سے ملاکر حکم مشخص کیا جاتاهے اور کبھی کسی آیت کو ایسی روایت که جس میں اس کی تفسیر بیان کی گئی هو اضافه کیا جاتا هے اور احکام استنباط کئے جاتے هیں لیکن هماری نظر میں یه بات ایک قسم کی مبالغه آرائی هے "کشف الظنون " میں احکام القرآن کی سب سےپهلی کتاب شافعی کی کتاب مانی گئی جب که ابن ندیم نے "الفهرست"میں کلبی کی "حکام القرآن "کو پهلی کتاب شمار کیا هے ابو نصر محمد بن سائب بن بشربن کلبی امام صادق کےاصحاب اور مذهب امامیه کے بزرگ دانشمندوں میں شمار هوتے هیں شیخ آقابزرگ تهرانی اپنی کتاب"الذریعه " میں ندیم کی کتاب کا حواله دیتے هوئے لکھتے هیں که احکام القرآن کےسلسله میں سب سے پهلی کتاب محمد بن سائب کلبی نے لکھی نه که شافعی نے اس لئے که محمد بن سائب کلبی کی وفات142 هجری میں هوئی جب که شافعی نے 155 هجری میں وفات پائی ۔
آیات الاحکام سے مربوط کتابیں تو بهت زیاده هیں نه جانے تاریخ کے نشیب وفراز میں کتنی کتابیں تباه و برباد هو گئیں که جن کا کهیں صرف نام موجود هے اور بعض کے تو نام بھی نهیں معلوم انهی تباه شده نایاب کتابوں میں “النهایةفی تفسیر خمس مأه آیة” هے که جس کا ذکر صاحب کنز العرفان نے مکرر اپنی کتاب میں کیا اور اس سے مطالب بھی نقل کیے هیں . بهر حال قرآن سے تین مباحث همارے مدّ نظر هیں ۔
1- صدور قرآن کی بحث یعنی یه ثابت کرنا که قرآن خدا کی جانب سے هے ۔
2- عدم تحریف قرآن کی بحث ۔
3- احکام و استنباط پر قرآن سے استناد و دلیل پیش کرنا ۔
--------------
1 . - قرآن کی تعریف :
یهاں قران سے مراد یهی مقدس کتاب هے جو آج همارے اختیار میں هے اس کے الفاظ خدا کی جانب سے هیں مشهور کی نظر میں اس کی نگارش جمع و ترتیب اور تدوین سبھی کام رسول خد(ص) کےزمانے میں اور آپ هی کے حکم سے انجام پائے پھر یه کتاب مسلمانوں کے درمیاں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل هو رهی.
2 .الاتقان ،ج4 ،اللباب فی اصول الفقه ،ص 51 .
3 . - دین و شریعت کی شناخت میں قرآن کی مرجعیت:
قرآن خود اپنی تعریف میں کهتاهے :
قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَى طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ
“حق و انصاف اور سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والی ہے”
اور قرآن بھی اسی حقیقت پر مشتمل هے جس حقیقت پر گذشته پیغمبروں کی شریعت تھی چنانچه قرآن اس سلسلے میں فرماتاهے : شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاء وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ 2 “ اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نصیحت نوح کو کی ہے اور جس کی وحی پیغمبرنے تمہاری طرف بھی کی ہے اور جس کی نصیحت ابراہیم علیه السّلام موسٰی علیه السّلام اور عیسٰی علیه السّلام کو بھی کی ہے”
اسی با ت کو بطور جامع فرماتاهے : وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاء وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ 3 “ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے”
ان مذکوره آیات کا خلاصه یه هے که قرآن تمام آسمانی کتابوں کے مقاصد کی حقیقت پر مشتمل هے . یهی نهیں بلکه اس سے کهیں زیاده حقائق اپنے اندر سموئے هوئے هیں اور اعتقاد وعمل سے مربوط هر وه چیز جو راه سعادت کو طے کرنے کے لئے ضروری هے اس کتاب میں کامل طور پر بیان کئی گئی هے اور اس کا یهی کامل و تمام هونا اس بات کی بهتریں دلیل هے که اس کی صحت و اعتبار کسی خاص زمانے سے مخصوص نهیں هے دین و شریعتت کی شناخت میں قرآن کی مرجعیت پر مذکوره آیات کے علاوه متعدد روایات میں بھی تاکید آئی هے ان میں سے بعض روایت هم یهاں نقل کرتے هیں.
امام صادق فرماتے هیں :
“مَا مِنْ أَمْرٍ يَخْتَلِفُ فِيهِ اثْنَانِ إِلَّا وَ لَهُ أَصْلٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَكِنْ لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُ الرِّجَالِ”4
اور امام باقر سے نقل هواهے :
“إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمْ يَدَعْ شَيْئاً يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْأُمَّةُ إِلَّا أَنْزَلَهُ فِي كِتَابِهِ وَ بَيَّنَهُ لِرَسُولِهِ ص وَ جَعَلَ لِكُلِّ شَيْءٍ حَدّاً وَ جَعَلَ عَلَيْهِ دَلِيلًا يَدُلُّ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ عَلَى مَنْ تَعَدَّى ذَلِكَ الْحَدَّ حَدّاً ”5
رسول خد(ص) نے بھی ایک حدیث میں قرآن کی تعریف میں فرمایا:
“وَ هُوَ الدَّلِيلُ يَدُلُّ عَلَى خَيْرِ سَبِيلٍ وَ هُوَ كِتَابٌ فِيهِ تَفْصِيلٌ وَ بَيَانٌ وَ تَحْصِيلٌ وَ هُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ وَ لَهُ ظَهْرٌ وَ بَطْنٌ فَظَاهِرُهُ حُكْمٌ وَ بَاطِنُهُ عِلْمٌ ظَاهِرُهُ أَنِيقٌ وَ بَاطِنُهُ عَمِيق”6
اسی طرح امام صادق سے روایت هے که :
“كُلُّ شَيْءٍ مَرْدُودٌ إِلَى الْكِتَابِ وَ السُّنَّةِ وَ كُلُّ حَدِيثٍ لَا يُوَافِقُ كِتَابَ اللَّهِ فَهُوَ زُخْرُفٌ”7
اب یه بات واضح هوگئی که قرآن شناخت دین بالخصوص شریعت اور اسلام کے عملی احکام کی شناخت کا اساس ترین منبع هے. اس خصوصیات کے پیش نظر اس کتاب آسمانی سے مربوط چند مباحث کو ذیل میں پیش کرتے هیں .
(مترجم)
--------------
1 . سوره ،احقاف ، آیه ،30 .
2 . سوره شوری ، آیه 13 .
3 . سوره نحل ، آیه 89 .
4 . اصول کافی ، کتاب فضل العلم ، باب الرد الی الکتاب و السنه ، حدیث 6 .
5 . اصول کافی ج1، ص .60 .
6 .گذشته حواله ،حدیث 2.
7 . اصول کافی ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنه و شواهد الکتاب ، حدیث 3 .
4 . علامه طباطبائی ، محمد حسین ، اسلام میں قرآن ، ص 27 .
قرآن الله کا کلام هے .
"قرآن الله کا کلام هے "یه بحث ایک کلامی بحث هے جس میں شواهد و دلائل کی روشنی میں یه ثابت کیا جاتاهے که قرآن الله کا کلام هے ۔ تمام مسلمانوں کا عقیده بھی یهی هے وه قرآن کو الله کی وحی مانتے هیں-1 جو اس نے اپنے حبیب ، حضرت محمد مصطفی(ص) پر نازل کی ، وقت نزول پیغمبر(ص)کو یه یقین حاصل تھا که یه کلام الله کی جانب سے هے اور نزول و دریافت کے بعد پیغمبر(ص)خدا بغیر کسی کم و کاست کے اسے لوگوں تک پهنچایا کرتے اور ان پر تلاوت کرتے تھے اس وقت سے آج تک قرآن میں کوئی تغیر و تبدل اور کوئی تحریف نهیں هوئی ، آج جو کتاب همارےهاتھ میں هے یه وهی حقیقی قرآن اور الله کا واقعی کلام هے یهاں تک که بعض افراد کے عقیده کے مطابق آیات و سور کی ترتیب اور ان کا آغاز و اختتام سب اسی ترتیب سے هے جس ترتیب سے قرآن نازل هوا اور یه قرآن وهی قرآن هے جسے خدانے جبرئیل امین کے ذریعے پیغمبر امین پر بھیجا تھا۔ 2
قرآن کے وحی الهی هونے کا مطلب یه نهیں هے قرآن صرف معنی و مفهوم میں وحی هو بلکه اس کے تمام الفاظ بھی الله هی کی جانب سے هیں یهیں سے قرآن اور روایات کے درمیان فرق واضح هوجاتاهے اس لئے که اکثر احادیث عینًا پیامبر و ائمه علیهم السلام کے کلمات نهیں هیں بلکه اصحاب نے پیامبر سے جو کچھ سنا اسے اپنے الفاظ میں نقل معنی کیا هے ائمه علیهم السلام نے تغیر عبارات و الفاظ کی اس شرط کے ساتھ اجازت دی که معنی و مفهوم حدیث باقی رهے-3 فقهائے امامیه محدثین او راکثر اهل سنت احادیث میں نقل معنی کو جایز جانتے هیں فقط اهل سنت کے بعض محدثین اسے جایز نهیں جانتے ۔
لیکن قرآن میں نقل معنی جایز نهیں هیں پیغمبر خدا نے تمام آیتوں کو ویسے هی بیان کیا جیسے وه نازل هوئیں ، یهاں تک که وه آیتیں جس میں خدانے صرف پیغمبر کو خطاب کیا اور کلمه قل کے ذریعه رسول کو مورد خطاب قرار دیتے هوئے اپنے پیغام کو پهنچایا او رکها “قل هو الله احد” اے رسول !آپ کهدیجئے الله ایک هے یهاں پیغمبر خدا اگر چاهتے تو کلمه قل کو حذف کرکے خود پیغام کو لوگوں تک پهنچادیتے اور کهتے (هو الله احد) الله ایک هے ۔ لیکن پیغمبر جب لوگوں کے لئے آیات کی تلاوت کرتے تو جیسے آپ نے آیت کو دریافت کیا ویسے هی بغیر کسی حذف و اضافه کے اسے پهنچادیتے اس لیئے که کسی کو یه حق حاصل نهیں هے که قرآن سے کسی کلمه کو کم یا زیاد ه کرے یا فقط نقل معنی کرے ۔ 4
رسول (ص)کی جانب سے عدم تحریف کی دوسری مثال که جس میں خدانے فرمایا :
“*لتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا” * . 5
اور دوسری جگه فرمایا :
“*وَلِتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا” * . 6
پهلی آیت میں من سے پهلے واو نهیں هے اور دوسری آیت میں و او کا ذکر هے پیغمبر نے اس دو قسم کی وحی کو حفظ امانت کے ساتھ بغیر کسی تغیر کے لوگوں تک پهنچایا هے .
علم کلام اور علوم قرآن میں بے شمار دلائل هیں که جس کے ذریعه حقانیت قرآنی کو ثابت کیا گیا حقانیت اس معنی میں که موجود ه قرآن جو همارےدرمیان هے یه وهی قرآن هے جو پیغمبر اکرم(ص)پر نازل هوا تھا اس مطلب کو صدر اسلام سے لے کر آج تک وجوه اعجاز او رتواتر کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا هے مرحوم جواد بلاغی نے وجوه اعجاز کی تعداد باره اور صاحب مناهل العرفان نے چوده اور بعض نے جیسے که سیوطی نے "معرک الاقران میں 35 وجوه اعجاز بیان کیے هیں ۔
--------------
1 . (مترجم ) 3- موجوده قرآن کی حجیت :
قرآن کا شمار دلیل نقلی میں هوتاهے ، اور هر دلیل نقلی میں سند و دلالت کی بحث لازم هے . محققین کے نزدیک اس بات میں کوئی شک نهیں که جو قرآن آج همارے هاتھوں میں هے یه وهی قرآن هے جو پیغمبر اکرم(ص) اور ائمه علیهم السلام کے زمانے میں لوگوں کے درمیان موجود تھا . اس لئے که موجوده قرآن تواتر کے ذریعے نقل هوا هے یعنی مسلمانوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک پهنچا اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی نهیں هوئی هے . اس کے علاوه ائمه علیهم السلام نے لوگوں کے هاتھوں میں موجوده قرآن کی حجیت کی تائید کی هے .
اصولیوں کے نزدیک موجوده قرآن کی حجیت ایک اصل مسلم هے اسی لئے جب علم اصول میں ادله استنباط کی بات آتی هے تو وهاں حجیت قرآن پر بحث نهیں کی جاتی کیونکه اسےتصدیق مبادی ی کے عنوان سے استنباط احکام کے لئے قبول کیا جا چکاهے .
عظیم شیعه فقیه صاحب مفتاح الکرامه سید محمد جواد عاملی تواتر قرآن کے سلسله میں دوسرے فقهاء کے بیانات نقل کرنے کے بعد کهتے هیں بحکم عادت قرآن کی تمام تفاصیل یعنی اس کے اجزاء، الفاظ ،حرکات و سکنات اور هر آیت کا اپنے مقام میں قرار پانا یه سب تواتر سے ثابت هونا چاهئیے کیونکه نقل قرآن کے لئے انگیزه اور علت موجود تھے ، اس لئے که قرآن تمام احکام کی اساس اور معجزه دین شمار هوتاهے .
--------------
1- (مترجم) مفتاح الکرامه ، ج 2 ، ص 390 .)
2 . اصول الفقه ، ج2 ،ص 51 .
3 . الفوائد الحایریه ، وحید بهبهانی ، ص284 .
4 . معالم الدین ، ص2
5 . شوری ،7 .
6 . انعام ، 92
|
|