جاودانگی اسلام :
خاتم النبین کی رسالت کی ایک خصوصیت یه هے که ان کی حکومت ان کی شریعت ان کے لائے گئے احکام همیشه باقی رهنے والے هیں-1 قرآن میں صریحًا یه بات آئی هے که خدا کی ذات وه ذات هے جس نے اپنے رسول کو هدایت اور آئین حق کے ساتھ بھیجا تاکه ، آئین محمد(ص)کو تمام آئین پر غالب قراردے . چاهے یه بات مشرکین پر گران کیوں نه گذرے. 2
دین اسلام کلی بھی هےاور دائمی بھی ، اسلام ایک ابدی مکتب هے جو کره زمین کے تمام انسانوں کے لئے نازل هوا هے جو روز قیامت تک اس دنیا میں آتے رهیں گے فقه میں استنباط شریعت کی بقا اور اس کی ترقی کی ضامن هے استنباط اسلام کے جاویدانی هونے کی ایک شرط هے اس لئے که هر موضوع اور هر نئے مسئله میں قرآن و سنت کی مدد سے استنباط کرکے نئے احکام کشف اور استخراج کئے جا سکتے هیں اور اس طرح دوسرے قوانین سے بے نیاز هو سکتے هیں اور صحیح استنباط هر زمانے میں اور قیامت تک آنے والے سوالوں کا جوا دینے کی صلاحیت رکھتاهے .
اسلام کا جهانی هونا :
پیامبر اسلام تمام انسانوں کے پیامبر هیں اس کی رسالت کا دایره اتنا وسیع هے جس میں ساری دنیا سمیٹ جاتی هے قرآن نے بھی اس حقانیت کی تصریح کردی هے خدانے پیغمبر (ص)کو حکم دیا که اپنی رسالت کے جهانی هونے کا اعلان کردیجئے ، کهه دیجئے ای لوگو میں تم سب کی جانب خدا کا فرستاده پیغمبر هوں. 3
اسلام ایسا دین هے که جو انسان کی زندگی تا قیام قیامت استوار نے کے لئے آیا هے. اسلام کے قوانین میں اتنی قدرت هے که همیشه هر ملیت کی راهنمائی اور ان کے امور کو اداره کرسکتا هے . اسلام اس عتبار سے ایک جهانی نظام هے اور کسی خاص جماعت یا معین مکان سے مخصوص نهیں هے اسلام میں صحیح استنباط کی روشنی تمام ضرورتوں کا کامل جواب هے .
--------------
1 . مجلسی ، بحارلانوار ، ج16 ،ص332 .
2 .سوره توبه ، آیه ، 33 ،سوره فتح ، آیه ،28 ، سوره صف آیه ، 9،سوره اعراف آیه،158 .
3 . سباء ، 28 .
جامعیت:
اسلام ایک جامع مذهب جس میں انسانی زندگی کےتمام ابعاد کو مورد توجه قرار دیا گیاهے ، اسلام انسان کی فردی اور اجتماعی مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتاهے قرآن بھی اس بات کی تصریح کرتے هوئے سوره نحل کی ایک آیت میں فرماتاهے :وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے-1 اسی بناپر همارا عقیده هے که اسلام ایک کامل اور جامع دین هے جو تمام ابعاد فردی، اجتماعی اقتصادی سیاسی اور ثقافتی اور تمام امور میں منظم نظام کا حامل هے اسلام میں انسان کی زندگی کا کوئی عمل حکم سے خالی نهیں هے .
صاحب کشف القناع کهتے هیں :تکلیف شرعی اور استقرار شریعت کے عقلی او رنقلی دالائل سے ثابت هوجانے کے بعد همارے لئے مسلم هے که زندگی کا کوئی ایسا مسئله نهیں هے جس میں خدا کا حکم اولی نه هو که اس میں اختلاف نهیں هے . 2
البته واضح هے که اسلام میں ان تمام نیازمندیوں کا جواب صرف استنباط کی روشنی میں ممکن هے مجتهد یں کرام جو اس فن کے ماهر هیں وه همیشه لوگوں کے فکری اور اجتماعی مشکلات کا جواب دیتے هیں . اس لئےمر جعیت اور استنباط مکتب اسلام کے لازمی امور میں شمار هوتے هیں .
استنباط اصحاب کو استنباط کی تعلیم :
مکتب اهل بیت کی روایات میں صاف نظر آتاهے که خود پیغمبرگرامی اسلام(ص)اور ائمه معصومیں علیهم السلام نے اپنے صحابیوں کو استنباط اور اس کی روشوں کی تعلیم دی هے وه روایات جن میں آیاهے که خود ائمه علیهم السلام نے بنفس نفیس استنباط کے راستے کو انتخاب کیا اور استنباط کی صحیح راه اور فقه اسلامی کی روشنی کے ذریعه قرآن وسنت سے استنباط کیا اور اس شیوه پر اپنے اصحاب کو بھی تعلیم دی . یه روایات اس حقیقت سے پرده اٹھاتی هیں که ائمه اطهار علیهم السلام کے زمانے میں اصحاب امام کے درمیان استنباط رائج اور معمول تھا اور ائمه اپنے اصحاب کو اس کام کی دعوت کرتے اور بعض موارد میں امام سے سوال کے بجائے خود استنباط کرنے کا حکم دیتے تھے .اور کبھی کسی سوال کے جواب میں ان کویاد دلاتے تھے که یه حکم استدلال اور استنباط کے ذریعے قابل استخراج هے . اس دلیل کی وجه سے همارا اعتقاد هے که اسلام ایک کامل اور جامع دین هے جس کے پاس اجتماعی ، ثقافتی اقتصادی اور سیاسی پروگرام هیں حکم شرعی زندگی کی تمام آنے والی ضرورتوں کو پورا کرتاهے اور انسان کی زندگی میں کوئی حادثه بھی حکم سے خالی نهیں هے . 3
--------------
1 . نحل ، 89 .
2 . اسدالله تستری ، معروف به محقق کاظمی ، کشف القناع عن وجوه حجیۀ االاجماع ، ص 60 .
3 . یاد نامه علامه امینی ، ص273و 272 .
خثعمیه کا رسول خد(ص)سےسوال اور اس کاجواب :
ایک خاتون که جس کا نام خثعمیه تھا اس نے رسول خد(ص)سے سوال کیا که میرے والدکا حج واجب ره گیاهے اگر میں ان کی نیابت میں اس حج کو قضا کروں تو یه کام ان کے لئے فائده مند هے؟ پیغمبر(ص)نے فرمایا:اگرتمهارے والد کسی کے قرضدار تھے کیا اس قرضه کا اداکرنا تمهارے والد کے لئے فائده مند هے ؟ خثعمیه نے کها جی ضرورفائده مندهے رسول خد(ص)نے فرمایا:پس خدا کا دین قضا کو بجالانے کے لئے زیاده سزاوار هے-1 رسول خد(ص)نےاس روایات میں صغری اور جز کو کبری اور کلی پر تطبیق دی هے اور کلمه دین کی عمومیت سے دین کے هر قضا کو بجالانے کے وجوب کو بیان کیا هے.مرحوم مظفر(رح) نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد ان دلائل کے سلسلے میں جسے اهل سنت سنت پیامبر سے قیاس کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے هیں کهتے هیں:
یه بات که پیغمبرنے قضای حج کے حکم میں قیاس کا سهارا لیاهےمعنی نهیں رکھتی اس لئے که پیغمبرخود صاحب شریعت هیں اور احکام کو بذریعه وحی خدا سے دریافت کرتے هیں کیا پیغمبر(ص)قضای حج کے حکم سے آگاه نهیں تھے که انهیں اس حکم تک پهنچنے کے لئے قیاس کا سهارا لیناپڑا؟
ای برادران اهل سنت مالکم کیف تحکمون تمهیں کیاهواهے یه کسے حکم لگارهے هوحدیث کے صحیح هونے کی صورت میں اس حدیث کا مقصد خثعمیه کو تطبیق علم سے آگاه کرناهے اس چیز کو جس کے بارے میں اس نے پیغمبر سے سوال کیا هے اور وه عام وجوب قضا هے یعنی دین کے هر عمل کو ادا کرنا واجب هے . اس لئے که خثعمیه پر یه بات مخفی تھی که حج ایسادینی قرض هے جس کا میت کی جانب سے قضا کرنا واجب هے . اور جبکه خداکا دین اس قضا کا سب سے زیاده سزاوار هے. 2
حضرت علی کے کلام میں استنباط کی تعلیم:
فضل ابن شاذان نے الایضاح میں لکھا:اهل سنت کی روایت کے اعتبارسے قدامه بن مظعون نے شراب پی اور اجرای حدکا فرمان اس پر جاری هوا اس نے سوره مائده کی آیت سے استنادکیا لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُواْ إِذَا مَا اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّآمَنُواْ ثُمَّ اتَّقَواْ وَّأَحْسَنُواْ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ “جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے جو کچھ کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ متقی بن گئے اور ایمان لے آئے اور نیک اعمال کئے اور پرہیز کیااور ایمان لے آئے اور پھر پرہیز کیا اور نیک عمل کیا اور نیک اعمال کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے-3”
اورکها :مجھ پر حد جاری نهیں هوسکتی کیونکه میں اس آیت کا مصداق هوں ، عمرنے اس پر حد جاری نه کرنے کا فیصله کیا لیکن امام علینے عمر سے کها : اس آیت کے مصداق نه کھاتے هیں اور نه پیتے هیں سوائے اس چیز کے جوان پر خداکی جانب سے حلال هو ...اگرقدامه بن مظعون شراب کے حلال هونے کا دعوی کرے تو اسے قتل کردو اور اگر اقرار کرے که شراب حرام هے تو پھر شرب خمر کے جرم پر تازیانه لگاؤ عمرنے کها کتنے تازیانه لگاؤں؟ امام نےفرمایا:شرابخوار جب شراب پیتاهے تو هذیان بکتاهے اور جب هذیان بکتاهے تو تهمت لگاتاهے پس اس پر افترا اور تهمت کی حد جاری کرو، چنانچه اس کو اسی تازیانے لگائے گئے-4.
اس روایت سے واضح هوتاهے که قدامه نے سادگی سے آیت کے ذریعه استناد کرکےعمرکو فریب دے دیا اور وه حدجاری کرنےکے فیصله کو ترک کربیٹھے اور جس کی طرح حضرت علی نے عمر کو ان کی غلطی سے آگاه کیا اور کس طرح شرب خمر کی حد کو بیان کیا هے اور اس طرح عمر کو استنباط کا طریقه سکھایا .
--------------
1 . جناتی ، منابع احتیاط از دیدگاه ، مذاهب اسلامی ، ص 282 ؛ سید جعفر شهیدی و محمد رضا حکمی .
2 . محمد رضا ، مظفر(رح)، اصول الفقه، ج2،ص 171 .
3 . سوره مائده ، آیه ،93 .
4 .فضل بن شاذان ، الایضاح ، ص 101و102 .
فضل بن شاذان ایک اور روایت نقل کرتے هیں که:
جس میں امام علی نے قرآن کی روشنی میں عمر کو حمل کی حد اقل مدت کو کشف کرنے کا طریقه سکھایا فضل بن شاذان لکھتے هیں :
ان روایات میں جوتم نے ذکر کیں هیں کوئی بھی مخالف و موافق اس کا انکار نهیں کرسکتا انهی میں ایک روایت جریربن مغیره کی هے جو ابراهیم نخعی سے نقل هے که عمربن خطاب نے کسی عورت کے سنگساری کا حکم دیاجو شادی کے چھ مهنیے بعد هی صاحب اولاد هوئی اور شوهر نے اس بچه کو اپنانے سے انکار کیا.امام علی بھی وهیں موجود تھے آپ نے اس حکم پر اعتراض کیا اور فرمایا: اس عورت کا حکم قرآن میں موجود هے ، عمر نے کها کهاں هے اور کیاهے ؟امام نے فرمایا: قرآن میں آیاهے که “وحمله وفصاله ثلاثون شهرا” دوران حمل اور دودھ چھوڑنے کی مدت تیس مهنےهے -1 عمرنے کها یه کیا آیت هے ؟ امامنے فرمایا: خداوند عالم فرماتاهے :
“ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلاَدَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ” اور مائیں اپنی اولاد کو دو برس کامل دودھ پلائیں گی. 2
یه حکم ان خواتین کے لئے هے جو دو ھدینے کی مدت کو تکمیل کرنا چاهتی هیں اگر دودھ دینے کی مدت 24مهینے هوتو حمل اور بارداری کی مدت چھ مهینے سے کم نهیں هوگی عمر نےکها اگر علی نه هوتے تو عمر هلاک هوجاتاهے، پھر حکم دیا که اس عورت کو آزاد کیاجائے. 3
اس روایت میں بھی امام علینے ظاهر قرآن سے استنتاد کے ذریعے بارداری کی حد اقل مدت کو بیان کیا اور قرآن سے استنباط کا طریقه تفسیر قرآن بالقرآن کی روشنی میں سکھایا : اور عمرکو احکام دینی میں اشتباهی فتوی دینے سے روکا.
امام صادق نے استنباط کے شیوه کو بیان کیا هے :
موسی بن بکرکهتے هیں:
میں نے امام صادق سے عرض کیا که ایک شخص غشی اور بهوشی کی حالت میں ا یک ،دو یا تین دن تک پڑارهے ایسے شخص کو اپنی کتنی نمازوں کی قضاکرنا چاهیئے؟ امامنے فرمایا: کیا میں تمهیں بتلاؤں که یه مسئله اور اس کے اشتباه کو نظر میں لے آؤں ؟
پھر امامنے فرمایا: هروه چیزجو خدا انسان پر مسلط کرے لهذا خدا اپنے بندوں کے عذرکوماننے کا زیاده سزوارهے . اور یه بات ایسے در سے هے جس کے هر ایک درسے هزار در کھلتے هیں-4 .
امام صادق نےاس روایت میں اپنے صحابی کو استنباط احکام شرعی کی دعوت اور ایک کلی قاعده کی تعلیم دی هے تاکه وه خود دوسرے فروعات کو اس کلی حکم کے ذریعے کشف کرے اسی لئے فرمایا:یه بات ایسے در سے هے جس سے هزار باب کھلتے هیں .
--------------
1 . احقاق ، آیه15 .
2 . سوره بقره ، آیه 233 .
3 . فضل بن شاذان الایضاح،ص98 .
4 . کلینی ، اکافی ،ج 3 ، و فروع کافی ، ج 1 ص83و88 .
|