استنباط کا تاریخچه:
اس سے پهلے که استنباط کے معنی و مفهوم بیان هو ، مناسب هے که ابتدائی اجتهاد و استنباط کی مختصر تاریخ بیان کریں تا که معلوم هو که طول تاریخ میں اجتهاد کن ادوار سے گذرا اور کن مراحل کو پشت سر گذارکر یهاں تک پهنچا .
اجتهاد تاریخ میں مختلف مراحل و ادوار سے گذراهے جیسا که محمد علی انصاری تاریخ حصر الاجتهاد نامی کتاب کے مقدمه میں لکھتے هیں :
بهت مشکل هے که اجتهاد کے تمام ادوار کو بطور کامل بیان کیا جائے لیکن کلی طور پر سنی اور شیعه مکتب فقه میں اس کی جستجو کی جاسکتی هے .
سنی مکتب :
حقیقت میں سنی مدرسه فقه تین تاریخی مراحل سے گذرا هے .
1- رسول خد(ص)کا دور .
2- صحابه و تابعیں کا دور.
3- ائمه اربعه کا دور .
4- باب اجتهاد کے انسداد کا دور ( تقلید کا دور ).
ان تمام مراحل کی تفصیل اس رساله کی قدرت سے باهر هے .
مقدمات استنباط :
فقهای شیعه کے نظریات:
شهید ثانی ، علم فقه کو باره علوم پر استورا جانتے هیں : تصریف لغت ، اشتقاق ،معانی بیان، بدیع، اصول فقه،منطق، رجال ،حدیث ،تفسیر آیات الاحکام .
صاحب معالم استنباط مطلق کو نو چیز پر متوقف جانتے هیں .
1- ادبیات عرب اعم از لغت و صرف و نحو سے آشنائی.
2- آیات الاحکام کا علم چاهیے وه مراجعه کتاب کے ذریعه هی کیوں نه هو .
3- سنت معصومین اور کتب حدیث کی جا کناری اور هر موضوع سے مربوط احادیث کو ڈھونڈنے اور مراجعه کرنے کی قدرت و صلاحیت.
4- علم رجال اور راویان کے حالات کی جانکاری.
5- اصول فقه کا علم او رمسائل اصول میں استنباط کی قدرت کیونکه استنباط احکام اسی علم پر متوقف هیں اور ایک مجتهد کے لئے یه علم تمام علوم سے مهم ترهے .
6- انعقاد اجماع کے موارد کی آشنائی.
7- علم منطق کی واقفیت کیونکه اقامه برهان اور صحت استدلال اسی پر متوقف هے .
8- فروع مسائل کو اصول کی جانب لوٹانے اورتعارض ادله کی صورت میں راجح کو مرجوح پر تشخیص دینے اور نتیجه گیری کی صورت .
9- دیگر امور کے علاوه فروع فقهی کا جاننا اس دور میں لازم هے.1
فاضل نے کتاب الوافیه کے تقریبا چالس صفحه اسی بحث سے مخصوص کیے هیں. وه بھی مجتهد کے لئے مذکوره علوم میں نو علوم کو لازم جانتے هیں ، لغت ،صرف ،نحو، اصول ، کلام اورعلوم عقلی ، تفسیر آیات الاحکام اور علوم نقلی میں احکام کی احادیث اور رجال کا علم .
--------------
1 . معالم الاصول ، المطالب التاسع فی الاجتهاد و التقلید.
پھر وه علم کلام کے سلسله میں فرماتے هیں :
بعض مسائل کلامی استنباط میں دخیل هیں جیسے تکلیف میں قدرت کی شرط کا هونا اور اسی طرح متکلم حکیم کے کلام میں خلاف ظاهر اراده کا قبیح هونا اور بعض دوسرے مسائل جیسے “خدا و رسول کا صدق گفتار صحت اعتقادیں دخیل هے نه که استنباط احکام” ان کی نظر میں احادیث احکام میں معتبر کتابوں کا هونا بھی کافی هے ان کی نظر میں دس علوم ایسے بھی هیں جن کی دخالت استنباط میں جزئی هے اور ان علوم کو استنباط کے تکمیل شرط میں قرار دیا جاسکتا هے که عبارت هیں:
1- معانی .
2- بیان.
3- بدیع ،که بعض موارد میں دلیل لفظی سے استفاده کے لئے ان تین علوم کی ضرورت هے .
4- ریاضیات کا علم،ریاضیات مالی اور اقتصادی مباحث بالخصوص ارث دین ارو وصیت کی بحث میں کام آتاهے .
5- علم هیئت، یه علم وقت اور قبله کی بحث میں بهت ضروری هے .
6- هندسه کا علم ، یه علم اندازه گیری کے کام آتا هے مثلا آب کرکی اندازه گیری کے لئے یه علم مددگار هے.
7- علم طب ، خاص طور پر نکاح کی بحث میں جهاں عورت اور مرد کے جسمانی عیوب کے مسائل پیش آتے هیں .
8- فروع فقهی کا علم یعنی مسائل فقهی اور اس سلسلے میں پیش کئے سوالات کی آشنائی ، حقیقت میں اس کام کے لئے قواعد کے مواقع ،موادر خلاف اور اقوال وفتاوا سے آشنائی .
9- فروع جزئی کو قواعد اور اصول کلی کی جانب لوٹانے کی قدرت لیکن فقهای معاصر کے نزدیک استنباط کے لئے صرف یه علم کافی هیں :
1- ادبیات عرب.
2- علم رجال .
3- اصول فقه .
اور مجتهد کے لئے ضروری نهیں که وه ادبیات عرب میں صاحب نظر هو پس اس اعتبار سے استنباط کے لئے صرف رجال اور اصول فقه کافی هیں .
مقدمات استنباط اهل سنت کی نظر میں :
اهل سنت کی نظر میں استنباط کے عمومی شرائط کچھ اس طرح هیں .
1- بلوغ .
2- عقل .
3- نظافت .
4- ایمان .
اور استنباط کے اساسی شرائط میں وه علوم هیں که جن سے آگاههی لازم هے .
1- ادبیات عرب.
2- قرآن کریم .
3- سنت نبوی .
4- اصول فقه .
5- قواعد فقهی .
6- استعداد فطری .
استنباط کے تکمیلی شرائط :
1- مورد استنباط دلیل قطعی سے فاقد هو .
2- فقها ءکے موارد اختلاف امور سے آگاهی .
3- عرف سے واقفیت (عرف در زمان حاضر).
4- اصل برائت سے آشنا ئی.
5- عدالت اور صلاحیت .
6- ورع اور تقوا .
7- درگاه رب العزت میں الهام صواب کے لئے نیازی مندی احساس .
8- اعتماد به نفس .
9- عمل اور علم و گفتار میں موافقت .
ضرورت استنباط:
وه موضوعات که جس پر گفتگو هوجانی چاهیئے ان میں سے ایک بحث اهمیت و ضرورت استباط هے . مکتب اسلام استنباط پذیر مکتب هے اور استنباط اسلام میں ایک لازم عمل هے فقه شیعه میں صدر اسلام هی سے استنباط کا دروازه کھلا تھا اور آج بھی کھلا هے اور همیشه زنده مجتهد کی تقلید واجب هے اسی بناپر فقه تشیع زنده اور کامل فقه هے اور هر زمانے میں تمام مشکلات کا جواب دینے والی هے مسلمانوں نے قرن اول هی سے استنباط کرنا شروع کردیا تھا استنباط اپنے صحیح مفهوم کے ساتھ اسلام کے لازمی امور میں سے ایک هے . اس کے کلیات کچھ اس طرح تنظیم هوئے هیں که یه کلیات استنباط پذیر هیں . استنباط یعنی اصول کلی اور اصول ثابت کا کشف کرنا اور انهیں جزئی اورمتغیر موارد پر تطبیق دینا هے . استنباط پذیر کلیات کے علاوه عقل کا منابع اسلامی قرار پانے سے استنباط آسان هوگیاهے ، 1
اسلام میں استنباط کی ضرورت کے اثبات کے لئے کافی دلائل موجود هیں جس میں سے هم اس حصه میں صرف پانچ دلیلوں کو پیش کریں گے .
الف : خاتمیت؛
ب: احکام اسلام اور ان کے اهداف کا کلی هونا؛
ج: ابدی هونا؛
د: جهان شمول هونا ؛
ھ: جامعیت.
--------------
1 . مرتضی مطهری ، مقدمه چستی اسلام،3 و حی نبوت ، ص150
خاتمیت :
هر مسلمان جوپیغمبر(ص)کی رسالت اور خاتمیت کا مقصد هے اسے شرع وعقل کی روشنی میں استنباط کو بھی ماننا پڑے گا قراں مجید میں ختم نبوت کے سلسله میں آیا هے مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ” محمد تمہارے مُردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن و ہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء علیھم السّلام کے خاتم ہیں. 1
آیت کا تیور بتارها هے که اس آیت کے نزول سے پهلے بھی پیغمبر اسلام کے ذریعه نبوت کا اختتام مسلمانوں کےدرمیان ایک شناخته شده بات تھی ، مسلمان جس طرح آپ کو رسول خدا جانتے تھے اسی طرح آپ کے خاتم الانبیاء هونے سےبھی واقف تھے یه آیت فقط اس بات کی یاد آوردی کرادتی هےت که پیغمبر کو فلاں شخص کے منه بولےباپ سے مت پکارو بلکه اسے اسی حقیقی عنوان یعنی رسول الله اور خاتم النبین سے خطاب کرو. 2
احکام اسلامی اور اس کے اهداف کا کلی هونا:
رسول اکرم (ص)نے اپنے اور اپنے کلام کے بارےمیں فرمایا: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَمجھے جامع اور کلی کلام عطا کیا گیا . 3
عبدالله ا بن عباس کهتے هیں :میں نے رسول خدا سے سناکه آپ نے فرمایا: أَعْطَانِي اللَّهُ خَمْساً وَ أَعْطَى عَلِيّاً خَمْساً أَعْطَانِي جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَ أَعْطَى عَلِيّاً جَوَامِعَ الْعِلْمِ و.4. آیات قرآن سے استفاده هوتا هے که قرآن میں اصول احکام اور کلی قواعد بیان کئے گئے هیں اور مجتهد خاتم النبین کے دور میں اصول احکام اور قواعد کلی کی مدد سے استنباط کرتے هوئے احکام جزئی کو کشف کرسکتے هیں . 5
--------------
1 .احزاب ، 40 .
2 . مرتضیٰ مطهری ختم نبوت ، ص10 .
3 . مجلسی ، بحارالانوار ،ج16، ص 323 .
4 .مجلسی ، گذشته،ص317 .
5 .محمد ابراهیم جناتی ، منابع استناط از دیدگاه اسلامی ، ص 288.
|