فلسفہ نماز شب
  چوتھی فصل:

جاگنے کے عزم پر سونے کا ثواب
گذشتہ بحث میں نیند کے اقسام اور ان کے فوائد کا مختصر ذکر کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ سونے کی دوقسمیں ہیں :
١) انسانی طریقہ پر سونا۔
٢) حیوانی طریقہ پر سونا اور انسانی طریقہ کی نیند خودتین قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:
١)اصول وضوابط اور نماز شب کو انجام دینے کے عزم کے بغیر سونا کہ ایسی نیند کو محققین نے صحت بدن کے لئے بھی مضر قراردیا ہے اور اسلام کی نظر میں ایسی نیند پر کوئی ثواب نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم )ص(کی روایت ہے کہ انما الاعمال باالنیۃ تما م کاموں کے دارومدار نیت پر ہے اور مؤمن کی نیت ان کے اعمال سے بہتر ہے۔
٢) دوسری قسم نیند وہ ہے جس میں اصول وضوابط کے ساتھ ساتھ نماز شب کے انجام دینے کی نیت بھی ہوئی ہے جبکہ اس پر نیند کا غلبہ ہونے کی وجہ سے وہ نماز شب ادا نہیں کر سکتا ایسی نیند پر صحت بدن کے لئے مفید ہونے کے علاوہ ثواب بھی دیا جاتاہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم )ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے :
''مامن عبد یحدث نفسہ بقیام ساعۃ من اللیل فینام منہا الا کان نومہ صدقۃ تصدق اللہ بھا علیہ وکتب لہ اجر ما نوی ''(١)
اگر خدا کے بندوں میں سے کوئی بندہ رات کو کچھ وقت نماز شب کے لئے جاگنے کی نیت پر سوجائے لیکن نیند کی وجہ سے نہ جاگ سکے تو وہ شخص باقی انسانوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کی نیند کو خدا اس کی طرف سے صداقہ قرار دیتا ہے اور جو نیت کی ہے اس کا ثواب اس کے نامہ عمل میں لکھا جاتاہے تیسری قسم نیند وہ ہے کہ انسان اصول ضوابط اور جاگنے کے عزم کے ساتھ سوجائے اور علمی طور پر نماز شب بھی انجام دینے ایسے بندے کوخدا دوثواب دیتا ہے اور خدا اپنے فرشتوں پر ایسے افراد کے ذریعے ناز کرتا ہے کہ جس مطلب کو متعدد روایات میں سابقہ مباحث میں ذکرکیا گیا ہے جن میں سے ایک یہ روایت ہے جو مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں نقل کیا ہے:
''ان ربک یباہی الملائکۃ ثلاثۃ نفر رجل قام من اللیل فیصلی وحدہ فسجد ونام وہو ساجد فیقول انظر واالی عبدی روحہ عندی وجسدہ ساجدی''(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کنز العمال .
(٢)بحار الانوار ج ٨٤ .

بے شک خداوند فرشتوں پر تین قسم کے انسانوں سے فخر کرتا ہے جن میں سے ایک وہ افراد ہے جو رات کو تنہائی میں نماز شب انجام دیتے ہیں سجدے کی حالت میں اس پر نیند غالب آتا ہے اس وقت خدا فرشتوں سے فرماتے ہیں میرے اس بندوں کی طرف دیکھو کہ جس کی روح میری طرف پرواز اور جسم سجدے میں مصروف ہے ۔

١۔نماز شب چھوڑنے کی ممانعت
نماز شب سے محروم ہونے کی صورت میں نماز شب کے دنیوی فوائد برزخی اور اخروی فائدے سے محروم ہونے کے علاوہ بہت سارے منفی نتائج بھی مترتب ہوجاتے ہیں کہ جن کی طرف بھی اختصار کے ساتھ اشارہ کرنا بہتر ہے ان میں سے ایک یہ ہے اگر نماز شب کو چھوڑدے تو دنیا میں دولت اور رزق سے محروم ہوتا ہے چنانچہ اس مسئلہ کو امام موسی ابن جعفر علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا :
''فاذ احرم صلاۃاللیل حرم بھا الرزق ''(١)
اگر کوئی شخص نماز شب انجام دینے سے محروم رہے تو وہ شخص دولت اور روزی سے محروم ہوجاتا ہے ۔

اعتراض وجواب
بے شک معصوم علیہ السلام کا کلام حکمت اور حقیقت سے خالی نہیںہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) بحار ج ٨٧ .

لیکن دور حاضر میں دنیا کی آبادی چھ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے لیکن اس آبادی میں سے صرف ایک ارب مسلمان ہیں جن میں سے بہت کم انسان ہے جو پابندی کے ساتھ نماز شب انجام دینے والے ہوں لیکن دولت اور سرمایہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب پڑھنے والوں سے نہ پڑھنے والے حضرات کی جیبیں زیادہ گرم ہیں لہٰذا امام علیہ السلام کا یہ فرمان دور حاضر کی حالات کے ساتھ سازگار نظر نہیں آتا ۔

جواب :
نظام اسلام ایک ایسا نظام ہے کہ جس میں تمام شبہات اور اعتراضات کا جواب ملتا ہے لہٰذا اگر ایسا اعتراض دشمنی اور عناد کی بنیاد پر نہ ہو تو قابل توجیہ ہے یعنی دولت اور رزق کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم کی دولت اس طرح کی ہے جو انسان تلاش اور کوشش کرنے کے نتیجہ میں مل جاتی ہے کہ جس میں مسلم غیر مسلم نماز شب پڑھنے والے نہ پڑھنے والے کا آپس میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں یہ دولت اور روزی نہیں ہے بلکہ کمائی اور ہمت و زحمت کا نتیجہ ہے دوسری قسم کی دولت اس طرح کی ہے جو انسان کی تلاش میں خود آتی ہے ایسی دولت اور رزق کو خدا نے اپنے مخصوص بندوں کے لئے مقرر کیاہے۔
لہٰذا ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء اور اوصیاء علہم السلام جووہ چاہتے تھے مل جاتا تھا پس اگر کوئی شخص نماز شب سے محروم ہو تو وہ ایسی دولت سے محروم رہتا ہے لہٰذا معصوم ؑکا کلام اور دور حاضر کے حالات میں کوئی ٹکراو نہیں ہے ۔

دوسرا منفی نتیجہ:
اگر ہم ایک انسان کامل اور باشعور ہستی ہونے کی حیثیت سے ائمہ معصومین ؑکی سیرت کا بغور مطالعہ کرلے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ جو مؤمن نماز شب جیسی بابرکت عبادت کو انجام دینے سے محروم رہے ہیں تو ان سے پیغمبر اکرم )ص( اور ائمہ معصومین علیہم السلام ناراضگی کا اظہار فرمایاہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
''لیس من شیعتنا من لم یصلی صلاۃ اللیل ''(١)
یعنی وہ شخص ہمارے پیروکار نہیں ہے جو نماز شب انجام نہیں دیتا اسی طرح دوسری روایت میں آپ نے فرمایا
'' لیس منا لم یصلی صلاۃ اللیل ''(٢)
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو نماز شب انجام نہیں دیتا۔
تیسری روایت میں پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا :
''یاعلی علیک بصلاۃ اللیل ومن استخف بصلاۃ اللیل فلیس منا۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار ج ٨٧ .
(٢) وسائل ج ٥.

''اے علی میں تمہیں نماز شب انجام دینے کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ شخص جو نماز شب کو اہمیت نہیں دیتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''
پس ان روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز شب کا ترک کرنا رسول اکرم )ص(اور ائمہ اطہار کی ناراضگی کا باعث ہے ۔