فلسفہ نماز شب
  دوسری فصل

نمازشب کے فوائد
جب کسی فعل کے نتائج اور فوائدکے بارے میںگفتگوہوتی ہے تو ہر انسان کے ذہن میںفوراًیہ تصور پیداہوتا ہے کہ کیا چیز ہے کہ جس کے خاطرانسان ہرقسم کی زحمات کوبرداشت کرتاہے تاکہ اس فائدہ اورنتیجہ سے محروم نہ رہے لہٰذاضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے فائدہ کی حقیقت اورنتیجے کاخاکہ ذہن میںڈالیں تاکہ ہمیں اپنے کاموں میں زیادہ مطمئن ہوفائدہ اور نتیجہ کی دواصطلاح ہیں:
١)اصطلاح فقہی۔
٢)اصلاح عوامی وعرفی ۔
اصطلاح فقہی میںفائدہ اس چیزکو کہا جاتا ہے جوفعل کے مقدار سے ذیادہ ہو جیسے ایک شخص کسی کے ہاں مزدوری کرتاہے تواس کی اجرت کام کے گھنٹوں کی مقدارسے زیادہ ہو تواس وقت فائدہ کہا جاتا ہے لہذا اگر کوئی شخص کسی کے ہاں کام کرتاہو لیکن اجرت کی مقدارگھنٹوںکی مقدار سے کم ہوتواس کونقصان اورخسارہ کہاجاتا ہے.اسی طرح اگرکسی چیزکی اُجرت وقت کے مقدارکے برابرہو تواس وقت فائدہ اورنقصان دونوںتعبیراستعمال نہں ہوتے.
لیکن عرف اورعوامی اصطلاح میں فعل کے نتیجے کو فائدہ کہا جاتاہے چاہے وہ نتیجہ فعل کے مقدار سے کم ہویازیادہ ہویابرابرہواسی لیے عوامی اصطلاح میں فائدہ کا مفہوم فقہی اصطلاح سے زیادہ وسیع ہے اور ہماراموردبحث نمازشب کے فوائدکواصطلاح عرف میں بیان کرنامقصدہے کہ جس کوبیان کرنے سے عاشقین الٰہی کواطمینان حاصل ہواورفائدے کی حقیقت سے بھی آگاہ ہو ، لہٰذااس مختصرکتاب میں نماز شب کے فوائدکے اقسام کی طرف بھی اشارہ کیا جاتا ہے.
نماز شب کے اہم فائدے تین طرح کے ہیں:

١)دنیامیںنمازشب کے آثاراورفوائد۔
٢)نمازشب کے فوائدبرزخ میں۔
٣)نمازشب کے فوائداورنتائج آخرت میں۔
البتہ ان تین قسموں کوبعض علماء اورمحققین نے دوقسموں میں تقسیم کیئے ہیں:

نمازشب کے مادی فوائدیعنی دینوی فوائد کومادی کہا جاتا ہے اور اخروی فوائد۔
لہٰذااس تقسیم کے بنا پرعالم برزخ اورعالم آخرت سے مربوط فوائد کو معنوی کہاجاتا ہے۔لیکن وہ فوائدجودینوی اورمادی ہیںان کی خود متعددقسمیں ہیں۔

(١)نمازشب باعث صحت
اگرآپ نمازشب پڑھیں گے تو نماز شب آپ کی تندرستی اورصحت بدن کا باعث بنتا ہے کہ دنیا میںتندرستی اورصحت اتنااہم اوردوررس موضوع ہے جس کو ہرانسان شخصی اوراجتماعی طورپر سرمایہ اورنعمت سمجھتا ہے۔نیزدنیا کے ہرنظام خواہ اسلامی ہویاغیر اسلامی اسے ضروری اورمحبوب قرار دیتاہے لہٰذا اگرہم کڑی نظر سے دیکھیںاوردقت کریںتومعلوم ہوتا ہے کہ دنیاکے کسی گوشے میںایسی کوئی حکومت اورملک نہیں ہے کہ جس میںاس معاشرے کے صحت اور تندرستی کہ خاطر کوئی پروگرام اورشعبہ مقررنہ کیا گیا ہولہٰذاہرحکومت اورنظام کی کوشش یہی رہی ہے کہ معاشرہ ہر قسم کے امراض اور بیماریوںسے پاک ہواورا مراض سے روک تھام کی خاطر ایک ماہر شخص کو وزیر صحت کے نام سے مقررکیا جاتا ہے اور وزیر تعلیم کی کوشش اور جدو جہد بھی یہی رہی ہے کہ سائنس اور علم الطب میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنائے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ معاشرہ کے امراض اور بیماریوں کو صحیح طریقے سے ٹھیک کرسکیں لہٰذا ہر گورنمنٹ اور حکومت اپنی درآمدات کے حساب سے سب سے زیادہ رقم تندرستی کے لوازمات کو فراہم اور مہلک امراض سے تحفظ کرنے کی خاطر مقرر کرتی ہے تاکہ تندرستی اور صحت یابی سے معاشرہ محروم نہ رہے ۔
اس طرح ہر حکومت اور نظام انسان کی صحت اور تندرستی کو بحال رکھنے کی خاطر کھیلوں اور دیگر مفید تفریحی پروگرام کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے تاکہ معاشرہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت سے مالامال ہو ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دنیا میں تمام موضوعات سے اہم موضوع صحت اور تندرستی کا موضوع ہے لہٰذا اس موضوع میں کامیاب ہونے کی خاطرہر انسان ہزاروں زحمات اور تکالیف برداشت کرتا ہے اور کروڑوں روپیہ امراض سے بچنے اور تندرست رہنے کے لئے خرچ کرتا ہے چونکہ صحت اور تندرستی جیسی نعمت دنیا میں کمیاب ہے لیکن نظام اسلام اور باقی نظاموں میں صحت کے حوالے سے ایک فرق ہے وہ فرق یہ ہے کہ غیر اسلامی نظاموں میں صرف مادی صحت اور تندرستی مورد نظر ہے لیکن اسلامی نظام کی نگاہ انسان کے دونوں پہلؤں کی طرف ہے یعنی روح اور بدن دونوں کی تندرستی اور صحت یابی مورد نظر ہے صحت کے اصولوں کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جس کی رعایت کرنے سے انسان روحی اور جسمی تندرستی سے مالامال ہوسکتا ہے لہٰذا فقہ میں مستقل ایک بحث ہے کہ اگر کوئی شخص مریض ہو تو کیا علاج کروانا واجب ہے یا نہیں کہ اس مسئلہ میں مذاہب خمسہ کے آپس میں نظریات مختلف ہیں۔
١۔امام احمد نے اس مسئلہ کے بارے میں کہا ہے کہ علاج رخصۃٌ و ترکہ درجۃٌ اعلیٰ۔ یعنی علاج کرنا جائز ہے لیکن نہ کرنا بہتر ہے ۔
٢۔ شافعی نے کہاہے کہ التداوی افضل من ترکہ یعنی علاج کرنا نہ کرنے سے بہتر ہے۔
٣۔ ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ التداوی مؤاکد یعنی علاج کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
٤۔مالک نے کہا ہے کہ التداوی یستوی فعلہ و ترکہ یعنی علاج کرنا اور نہ کرنا مساوی ہے۔
٥۔ امامیہ کانظر یہ ہے کہ علاج کرنا واجب ہے۔ (١)
لہٰذاعلاج کے بارے میں جتنی روایات امام رضاعلیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے جن کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صحّت اورتندرستی کے موضوع کوکتنااہم اورضروری قراردیاگیاہے لہٰذاصحت اورتندرستی کوہمیشہ برقراررکھنے کے طریقوںمیںسے ایک شب بیداری اورنمازشب کاانجام دیناہے کہ جس کے بارے میںپیغمبر اکرم)ص(نے فرمایا:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)المسائل الطیبہ استاد:محسنی دامت عزہ.

''علیکم وصلوٰۃ اللّیل فانّہاسنّۃنبیکم ودأب الصالحین فعلیکم و مطرۃ الداء عن اجسادکم۔''(١)
آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نمازشب پڑھوکیونکہ نمازشب تمھارے نبی کی سیرت اورسنت ہے اورتم سے پہلے والے صالحین کی بھی سیرت ہے اورنمازشب پڑھنے سے تمھارے بدن کی بیماریاںدوراورٹھیک ہوجاتی ہے۔

تفسیروتحلیل روایت:
دنیامیںانسان کی عادت ہے کہ جب کوئی شخص کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے توفوراًکسی ڈاکٹرسے مراجعہ کرتاہے تاکہ علاج کرسکے لیکن بسااوقات کچھ امراض ایسے ہیںکہ جن کاعلاج ڈاکٹروںکی قدرت اورتجربے سے خارج ہے لہٰذاان امراض کولاعلاج امراض سے تعبیرکرتے ہیںچنانچہ یہ مطلب تجربے اور مشاہدات میںآچکاہے یعنی بہت سارے بیمارافرادکوڈاکٹروںنے لاعلاج قراردیاہے لیکن قوانین اسلام اورنظام اسلامی نے تمام امراض کے لےئ علاج اور دوائیوںکی نشاندہی کی ہے جسے نمازشب،دعاء وصدقات اوردیگرکارخیرکوانجام دینا۔
لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوتاہے اگرانسان کے بدن پرکوئی مرض ہوجوڈاکٹروںکے نزدیک قابل علاج ہویاقابل علاج نہ ہو،نمازشب ہرایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)علل الشرائع.

بیماریوںکے علاج کاذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف یوںاشارہ فرمایا:نمازشب مطرۃ الداء عن اجسادکم یعنی نمازشب بدن سے امراض کے ٹھیک ہونے کاوسیلہ ہے لہٰذاآپ اگرصحّت بدن اورتندرستی جسمی کے جوا ہاں ہیں اور لاعلاج امراض کے علاج کوبغیرکسی خرچ اورزحمت کے کرناچاہتے ہیںتونمازشب پڑھیںکہ جس کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے بدن کوتندرست اورنفسیاتی امراض کوٹھیک کرتی ہے اسی طرح دوسری روایت۔
مولیٰ امیرؑکایہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا:شب بیداری صحت یابی بدن اورتندرستی جسمی کاذریعہ ہے :
''قیام اللیل مصححۃ للبدن''( ١)
اگرچہ اس روایت میںنمازشب کوصریحاً باعث صحت اورتندرستی قرار نہیں دیابلکہ مطلق شب بیداری کے فوائدمیںسے ایک صحّت بدن قراردیاہے لیکن دوقرینوںسے معلوم ہوتاہے کہ قیام اللیل سے مراد نماز شب ہے. ایک قرینہ یہ ہے کہ اگر ہر قیام اللیل بدن کے تندرست اور صحت کا ذریعہ ہو تو نماز شب کے لئے قیام اللیل کرنا بطریق اولیٰ صحت اور تندرستی بدن کا ذریعہ ہے ۔
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ دوسری روایت میں قیام اللیل کی وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد نماز شب ہے لہٰذا ان دونوں قرینوں کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔کتاب الدعوات للراوندی ص٧٦.

اس روایت میں قیالم اللیل سے مراد نماز شب ہے کہ جس کے فوائد دنیوی میں سے ایک فائدہ صحت بدن اور تندرستی ہے ۔

تیسری روایت:
امام المسلمین والمتقین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ آپ نے فرمایا:
'' قیام اللیل مصححۃ للبدن و مرضاۃ للرب عزوجلّ وتعرض للرحمۃ وتمسک باخلاق اللنبیین'' (١)
آپ نے فرمایا کہ شب بیداری صحت بدن اور تندرستی انسان کا ذریعہ اور خداوند تبارک وتعالیٰ کی رضایت حاصل ہونے ، رحمت پرورگار سے مالامال ہونے اور سارے انبیاء کے رفتار و کردار سے منسلک ہونے کا سبب ہے ۔

توضیح وتفسیر:
اس روایت میں مولائے کائنات امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب کے چار فوائد کا ذکر فرمایا.
١۔ نماز شب پڑھنے سے صحت ٹھیک اور تندرستی بحال ہوتی ہے کہ اس مطلب کی طرف تین روایات میں اشارہ فرمایا
٢۔دوسرا مطلب کہ نماز شب رضایت الٰہی حاصل ہونے کا ذریعہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ بحار الانوار ج ٨٧.

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ایک آسان کام ہے کیونکہ پورے کائنات کے مخلوقات کی خلقت کا ہدف ہی رضایت الٰہی کو حاصل کرنا اور خدا کی بندگی کا شرف حاصل کرنا ہے لہٰذا رضایت خداوند حاصل کرنا بہت مشکل اور دشوار کام ہے لیکن اگر کوئی شخص اس مشکل کام کو باآسانی حاصل کرنا چاہتا ہے تو نماز شب انجام دے کیونکہ نماز شب رضایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے لہٰذا نماز شب کو نہ چھوڑیں تاکہ اس کے فوائد سے محروم نہ ہو.

٣۔تیسرا فائدہ :
جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے اچھے اور صالحین کی سیرت پر گامزن ہوتا ہے کیونکہ نماز شب سارے صالحین کی سیرت ہے لہٰذا دنیا میں ہر انسان اچھے اور نیک حضرات کی سیرت کو اپنانے کی کوشش میں ہوتا ہے اور ان کی سیرت پر چلنے کی خاطر ہر قسم کے حربے مادی ہو یا معنوی اور دیگر وسائل سے کمک لیتے ہیں تاکہ ان کی سیرت پر گامزن ہو لہٰذا ہر معاشرہ میں اگر کوئی شخص اس معاشرہ کے اصول و ضوابط کے پابند ہو امانتدار ہو اور دیگر ہر قسم کے عیب و نقص سے ظاہراً مبرّیٰ ہو تو دوسرے لوگ نہ صرف اس کو قابل احترام سمجھتے بلکہ اس کی سیرت کو اپنے لئے نمونہئ عمل قرار دینے کی کوشش بھی کرتے ہیں لہٰذا نماز شب صالحین کی سیرت ہے کہ صالحین کے مصداق اتم انبیاء اور اوصیاء ہے پس نماز شب کا تیسرا فائدہ صالحین کی سیرت پر گامزن رہنا یعنی خود کو دوسروں اور آئندہ آنے والوں کے لئے نمونہئ عمل بنانا کہ جس سے بڑھ کر کوئی نعمت اور مقام انسان کے لئے قابل تصور نہیں چنانچہ اس مطلب کی طرف پیغمبر اکرم)ص( نے اشارہ فرمایا:
'' علیکم قیام اللیل فإنّہ دأب الصالحین فیکم وإنّ قیام اللیل قربۃ الیٰ اﷲ ومنہاۃ عن الاثم''(٣)
یعنی تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ نماز شب نیکی کرنے والوں کی سیرت اور خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ اور گناہوں سے بچنے کا وسیلہ ہے نیز اسی مضمون کی روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوںنقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
''علیکم بصلاۃ اللیل فإنّہا سۃ نبیکم و دأب الصالحین و مطرۃ الدّاء عن اجسادکم۔ ''
جس کا ترجمہ اور تفصیل پہلے گذر چکی ہے لہٰذا پہلی روایت کی تحلیل اور حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم)ص(نے اس روایت میں نماز شب کے فوائد میں سے تین فائدوں کی طرف اشارہ فرمایا :
١۔نماز شب صالحین کی سیرت پر گامزن ہونے کا وسیلہ ہے
٢۔ نماز شب خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے کہ خدا سے قریب ہونےکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(٣) کنز العمال.

چاہت ہر انسان کی فطرت میں مخفی ہے لیکن عوامل خارجی کی وجہ سے کبھی بظاہر یہ چاہت مردہ نظر آتی ہے لہٰذا صرف مسلمانوں کی چاہت سمجھا جاتا ہے لیکن خدا سے قریب ہونے سے مراد قرب مکانی اور زمانی نہیں ہے بلکہ معنوی مراد ہے کیونکہ خدا مکان و زمان کا خالق ہے لہٰذا خدا زمان و مکان سے بالاتر ہے یعنی خدا من جمیع الجہات مجرد محض ہے اور نماز شب پڑھنے والے حضرات کا رتبہ بلند ہوتاہے اور خدا کے نزدیک وہ عزیز ہے

٢۔نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ
دوسرا فائدہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے کہ نماز شب گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے یعنی اگر نمازشب انجام دینگے تو خدا آپ کو نافرمانی سے نجات دیتا ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف خدا نے قرآن میں اشارہ فرمایا ہے :
(انّ الصلاۃ تنہیٰ عن الفحشاء والمنکر)
بیشک نماز ہی برائی اور نافرمانی سے نجات دیتی ہے کہ گناہ اور نافرمانی خدا اور انسان کے درمیان حجاب ہے کہ جس کی وجہ سے خالق حقیقی مخلوق سے دور اور مخلوق کو خالق حقیقی نظر نہیں آتا لہٰذا عبد اور مولا کے آپس کارابطہ ٹوٹ جانے کا سبب گناہ اور نافرمانی ہے لیکن اگر نماز شب انجام دی جائے تو یہ رابطہ دوبارہ بحال ہوجاتا ہے کیونکہ گناہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی زندگی کو تباہ کرتی ہے اور اس کی عمر میں کمی کا سبب بھی بنتی ہے جبکہ گناہ سے پرہیز کرنے سے زندگی آباد اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور اسی طرح نفسیاتی امراض کو ٹھیک کرنے کا بھی ذریعہ ہے تب بھی تو معصوم نے ایک روحی طبیب کی حیثیت سے فرمایا :(ومطرۃ ا لد اء عن اجسادکم) یعنی نماز شب بیماریوں کو ٹھیک کرتی ہے ۔

٣۔رحمت الٰہی کا ذریعہ
اسی طرح نماز شب کے مادی فوائد اور دنیوی زندگی سے مربوط نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے رحمت الٰہی شامل حال رہتی ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف آپ نے یوں اشارہ فرمایا وتعرض للرحمۃ نماز شب پڑھنے سے رحمت الٰہی ہمیشہ شامل حال ہوجاتا ہے کہ معمولاً رحمان اور رحیم کے بارے میں مفسرین نے کہا ہے کہ ان دو لفظوں کے مابین فرق ہے اگرچہ مادّہ اور مآخذ کے حوالے سے دونوں ایک ہیں لہٰذا فرمایا رحمت صفت عام ہے جو دنیوی زندگی سے مربوط ہے اور رحیم صفت خاص ہے جو ابدی زندگی سے مربوط اور مؤمنین کے ساتھ مختص ہے اور شاید اس روایت میں رحمت سے مراد مؤمنین کے ساتھ مختص والی رحمت ہو۔

٤۔رضایت الٰہی کا سبب
نماز شب کے مادی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ رضایت الٰہی کے حصول کا سبب بنتی ہے کہ اس مطلب کی طرف یوں اشارہ فرمایا: ومرضاۃ للرب عزوجل کہ ایک ہی روایت میں کئی فوائد کی طرف اشارہ فرمایا ہے :
١۔ رحمت الٰہی شامل حال ہونے کا ذریعہ ہے ۔
٢۔ صحت اور تندرستی کاسبب ہے۔
٣۔ انبیاء اور نیک افراد کی سیرت پر گامزن اور اخلاق حسنہ سے منسلک ہونے کا باعث ہے کہ ان تمام نتائج اور فوائد دنیوی کی طرف امیر المؤمنین علیہ السلام نے بھی یوں اشارہ فرمایا:
'' قیام اللیل مصححۃ للبدن و مرضاۃ للرب عزوجل وتعرض للرحمۃ و تمسک بالاخلاق۔''(١)
شب بیداری انسانی جسم کو تندرست رکھنے کا ذریعہ اور خداوند کی رضایت کا سبب اور رحمت الٰہی سے مستفیض اور اخلاق حسنہ سے متصف ہونے کا وسیلہ ہے لہٰذا نماز شب میں ہی انسان کی تمام کامیابیاں مخفی ہیں

٥۔نمازشب نورانیت کا سبب
نماز شب کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نمازی کے چہرے پر نورانیت آجاتی ہے کیونکہ نماز شب نور ہے چنانچہ اسی مطلب کی طرف امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے:
''ماترکت صلاۃ اللیل منذ سمعت قول النبی صلاۃ اللیل نور فقال ابن الکواء ولا لیلۃ الہریر قال ولا لیلۃ الہریر'' (٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار الانوار جلد ٨٧.
(٢)بحار الانوار ج٤١.

یعنی جب میںنے پیغمبر اکرم)ص( سے یہ بات سنی کہ نماز شب نور ہے تو کبھی بھی میں نے نماز شب کو ترک نہیں کیا اس وقت ابن کواء نے پوچھا کیا آپ نے لیلۃ الہریر کو بھی نہیں چھوڑا آپ نے فرمایا لیلۃ الہریر کو بھی نہیں چھوڑا ۔

توضیح و تحلیل روایت:
اس روایت سے دومطلب کا استفادہ ہوتا ہے ۔
١۔ نماز شب کی اہمیت اور فضیلت۔
٢۔ نماز شب کا نور قرار دیا جانا کہ یہ مطلب توضیح طلب ہے جو نماز شب کے مادی فوائد میں سے ایک ہے اور پیغمبر اکرم)ص( نے اس روایت میں نماز شب کو نور سے تشبیہ دی ہے یعنی نور میں جو فوائد مضمر ہیں وہی نماز شب میں بھی پوشیدہ ہیں حقیقت نور کے بارے میں حکماء اور دیگر محققین کے آراء مختلف ہیں کہ جن کو بیان کرنا اور تجزیہ و تحلیل کرنا اس کتاب کی گنجائش سے خارج ہے کیونکہ حقیقت نور کا مسئلہ ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے کہ جس کا خاکہ ہر عام و خاص کے ذہن میں ڈالنا بہت ہی مشکل ہے لہٰذا صرف یہاں اشارہ کرنا مقصود ہے کہ قرآن مجیدمیں خدا نے خود کو نور سے تعبیر کیا ہے اور قرآن کو بھی نور کہہ کر پکارا ہے اسی طرح پیغمبر اکرمؐ اور آئمہ معصومینؑ کو روایات اور آیات میں لفظ نور سے یاد کیاگیاہے نیزروایات میں علم اورنمازشب کو بھی لفظ نورسے تعبیرکیاگیاہے کہ ان چیزوں کو لفظ نور استعمال کرنے سے حقیقت نور کا تصور ذہن میں آجاتا ہے. یعنی نور ایک ایسی چیز ہے جو حق اور راہ راست کی نشاندہی کرے اور گمراہی اور ضلالت سے نجات دے. کیونکہ قرآن و سنت میں جن ہستیوں کو لفظ نور سے یاد کیا گیا ہے ان تمام کا کام راہ مستقیم کی نشاندہی کرنا اور لوگوں کو منزل مقصود پر پہنچانا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص نبوت یا امامت کا دعویٰ کرے لیکن حق اور راہ مستقیم کی نشاندہی کرنے سے عاجز رہے تو اس کو کاذب کہا جاتا ہے لیکن اگر دعویٰ کے ساتھ ساتھ راہ مستقیم اور حق کی نشاندہی کرے تو امام اور نبی کہا جاتا ہے اسی طرح اگر کوئی علم کا دعویٰ دار ہو لیکن اس کا علم حق اور باطل کی تشخیص نہ دے سکے تو وہ علم نہیں ہے بلکہ اس کو ہنر کہا جائے گا. لہٰذا جن چیزوں کو قرآن اور روایات نے لفظ نور سے تعبیر کیا ہے وہ تمام حق اور راہ مستقیم کی تشخیص کا ذریعہ ہیں. اسی لئے نماز شب کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب نور ہے یعنی حق اور راہ راست پر گامزن رہنے کا ذریعہ ہے۔

٦۔نماز شب گناہوں کے مٹ جانے کا سبب
نظام ا سلام کے اصول و ضوابط اور احکام خداوندی کے خلاف انجام دئے جانے والے کاموں کو گناہ کہا جاتا ہے کہ جسکی حقیقت اور اقسام کے بارے میں علماء اور مجتہدین کے آپس میں اختلاف ہے. لہٰذا بعض مجتہدین اور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ گناہ دو قسم کا ہے (١) کبیرہ (٢) صغیرہ ۔
چنانچہ اس مطلب کو حضرت استاد محترم آیت اﷲ فاضل لنکرانی حفظہ اﷲ نے درس کے دوران کئی دفعہ اشارہ فرماتے ہوئے کہا کہ گناہ کی دو قسمیں ہیں. (١) کبیرہ (١) صغیرہ . جسکی دلیل یہ ہے کہ اگر آیات قرآنی سے استفادہ نہ ہوئے تو روایات صحیح السند واضح طور پر اس مطلب کو بیان کرتی ہے. لیکن باقی مفسرین اور ہمارے استاد محترم مفسر قرآن عارف زمان نمونہئ علم و تقویٰ حضرت آیت اﷲ جوادی آملی حفظہ اﷲ نے سورہئ آل عمران کی ایک آیت کی تفسیر میں فرمایا:
اگرچہ کچھ آیات اور روایت سے گناہ کی دوقسم ہونے کا احتمال دیا جاسکتا ہے لیکن حقیقت میں گناہ ایک ہے جو مختلف مراتب کے حامل ہے لہٰذا گناہ ایسی چیز ہے کہ جس سے انسان کی ضمیر، فطرت اور باطنی خداداد صلاحیتیں کھوجاتی ہیں اسی لئے گنہکاروں کو جتنا بھی نصیحت کی جائے اور امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کیا جائے ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا چونکہ انسان پر نصیحت اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کے اثر ہونے کے لئے کچھ خاص اعضاء اور مواد عطاء کئے گئے ہیں کہ وہ اعضاء اور مواد گناہ کی وجہ سے مردہ ہو جاتے ہیں. لہٰذا گناہ کے عادی ہونے کے بعد جتنا بھی انہیں نصیحت کی جائے وہ مثبت اثر کرنے سے محروم رہتے ہیں لیکن اگر کوئی شخص گناہگار ہو اور نماز شب پڑھنے کی توفیق حاصل ہوجائے تو اس کا گناہ مٹ جاتا ہے اور بصیرت میں اضافہ اور انسان کا قلب دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نصیحت کو قبول کرنے لگتا ہے اور اس طرح وہ روز قیامت عقاب و سزا سے نجات پاسکتا ہے کہ اس مطلب کو حضرت امام حعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے:
''فی قولہ ان الحسنات یذہبن السیأت صلاۃ المؤمن باللیل تذہب بما عمل بالنہار من الذنب ''(١)
آپؑ سے انّ الحسنات کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا ان کے مصادیق میں سے ایک مؤمن کی نماز شب ہے کہ جس کو انجام دینے سے انسان کے دن میں انجام دئے گئے گناہ ختم ہوجاتے ہیں ۔
اور اس طرح آیات میںبھی ہے کہ گناہ کبیرہ سے اجتناب کرنے کے نتیجہ میں گناہ صغیرہ مٹ جاتے ہیں ۔

تحلیل و تفسیر:
ممکن ہے کہ اس روایت سے کوئی اس شبہ کا شکار ہوجائے کہ اگر رات کو گناہ کا مرتکب ہوا تو وہ گناہ نماز شب انجام دینے سے معاف نہیںہوتا کیونکہ مذکورہ حدیث میں امامؑ نے فرمایا ہے کہ تذہب بما عمل بالنہار من الذنب کہ اس شبہ کا جواب اس طرح دیا جاسکتا ہے کہ نماز شب گناہ کو ختم کرنے کاذریعہ بیان کرنے والی روایات میں سے ایک یہی ہے کہ جس میں دن کے گناہوں کو ذکر کیا گیاہے لیکن دوسری روایات میں تمام گناہوں کا ذکر ہے لہٰذا اس روایت میں منحصر نہیں ہے تاکہ کوئی اشکال کرے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ باقی روایات سے قطع نظر یعنی اگر کوئی اور روایات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) الکافی جلد٢.

اس مطلب پر نہ بھی ہو تو پھر بھی نماز شب تمام گناہوں کو معاف کرنے اور مٹانے کے اسباب میں سے ہونے پر ذکر شدہ روایت جو مورد اعتراض واقع ہوئی ہے دلالت کرتی ہے کیونکہ اس روایت میں امام )ع( نے فرمایا تذہب بما عمل بالنہار یہ جملہ توضیحی ہے نہ احترازی چونکہ انسان معمولاً گناہوں میں دن کے وقت مرتکب ہوجاتا ہے اسی وجہ سے روایت میں نہار کے قید کو ذکر فرمایا ہے. لہٰذا اگر کوئی شخص رات کو گناہ کرے یا دن کو دونوں گناہوں کو نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خدا معاف کردیتاہے مگر کچھ ایسے گناہ ہیں کہ جن کے بارے میں دلیل خاص ہے کہ اگر کوئی مبتلاہو تو کسی بھی اور نیک کام کے ذریعہ سے وہ معاف نہیں ہو سکتا جیسے اﷲ تعالیٰ کا شریک ٹہرانا یا معصوم بچے کا قتل کرنا وغیرہ .....
دوسری روایت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
'' صلاۃ اللیل تکفّر ماکان من ذنوب النہار۔''(١)
نماز شب گناہوں کو مٹادیتی ہے کہ جو معمولاً دن کو کئے جاتے ہیں. تیسری روایات پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا :
'' ان قیام اللیل قربۃ الی اﷲ ومنہاۃ عن الاثم و تکفّر السیّآت ۔''(٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)تفسیر عیاشی ج٢ ص١٦٤
(٢) بحار ج٨٧، ص١٢٣.

شب بیداری خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ اور گناہوں سے بچنے کاوسیلہ ہے.

توضیح:
اس آخری روایت میں نماز شب کے تین فائدوں کی طرف اشارہ ملتاہے
١۔ گناہ سے بچنے کا وسیلہ ہے ۔
٢۔ خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے کہ ان دونوں مطالب کی طرف پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے ۔
٣۔ تکفّر السیّآت کہ اس مطلب کے بارے میں کئی روایات ذکر کی گئی ہے مزید تفصیلات انشاء اﷲ بعد میں آئیںگی .

٧۔نماز شب خوبصورتی کا سبب
دنیامیںحسن وجمال اورخوبصورتی کاموضوع روزمرّہ زندگی میںبہت اہم موضوع ہے جس کے متعلق ہزاروں محققین نے اس مو ضوع پر کتابیںادرمقالات لکھے ہیںنیز ڈاکٹرز حضرات حسن وخوبصوتی کی نعمت کوزیادہ سے زیادہ کرنے کی خاطر سالوںسال اس موضوع پر تحقیق کرنے کے بعدنت نئی ایجادات کسی دوائی یا کریم کی صورت میں متعارف کراتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جو خوبصورتی اور حسن و جمال کے لئے بہت مؤثر ہوتاہے یہی وجہ ہے لوگ ڈاکٹروں کے نسخے لیکر دکانوں اور میڈیکل اسٹوروں میں حسن و جمال اور خوبصورتی بڑھانے کی اشیاء کی خریداری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں چاہے غریب ہو یا امیر؛ یہ تمام شواہد خوبصورتی اور حسن و جمال کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن عصر حاضر میں جب حسن و جمال کا ذکر آتا ہے تو عورتوں کے حسن و جمال کا فوراً ذہن میں تصور پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا مرد حضرات خیال کرتے ہیں کہ حسن و جمال کا موضوع صرف عورتوں کے ساتھ ہی مخصوص ہے جب کہ انسان دقت کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا خیال خام خیالی کا نتیجہ ہے کیونکہ اسلام میں ہر قول و فعل تابع دلیل ہے اور روایات و آیات جو حسن و جمال سے مربوط ہے ان میں حسن و جمال کا ذکر صرف عورتوں ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ روایات اس کے برعکس دلالت کرتی ہیں یعنی خوبصورت اور حسین افراد کو خداوند عالم دوست رکھتا ہے چاہے حسین عورتیں ہو یا مرد۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خوبصورتی کا موضوع عورتوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لہٰذا مرد حضرات بھی اس نعمت سے مزین ہوسکتے ہیں لیکن حسن و جمال کی دوقسمیں ہیں۔
١۔ ذاتی خوبصورتی ۔
٢۔ عارضی خوبصورتی۔
یعنی ذاتی طور پر حسین نہیں لیکن اس کو حاصل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے لیکن دونوں قسموں کی کیفیت اور راہ حل ڈاکٹروں کی نظر میں مختلف ہے اور ان کے لوازمات کا فراہم کرنا شاید ہر خاص و عام کے بس سے باہر ہو لہٰذا اگر آپ کسی خرچ اور زحمت اور کسی نسخے کے بغیر خوبصورتی کے حصول یا اپنی خوبصورتی کو مزید برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں تو ایسے خواہشمند افراد کے لئے ہم ایک ایسی نایاب کریم کا تعارف کراتے ہیں کہ شاید اس سے مؤثرتر کوئی اور پاؤڈر یا کریم حسن و جمال کےلئے دنیا میں دستیاب نہ ہو کہ اس بہترین کریم کا نام نماز شب ہے کہ جس کو پڑھنا شریعت اسلام میں مستحب ہے لیکن اس کو انجام دینے سے آپ کا چہرا دنیا اور اخرت دونوں میں حسین اور جمیل بن سکتاہے یہی نماز شب کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے کہ جس کی طرف امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے:
''صلاۃ اللیل تبیض الوجہ و صلاۃ اللیل تطیب الریح و صلاۃ اللیل تجلب الرزق''(١)
نماز شب انسان کے چہرے کو خوبصورت اور جسم کو خوشبودار اور انسان کی دولت و رزق میں اضافہ کا باعث بنتی ہے ۔
تحلیل و تفسیر:
اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے نماز شب کے تین فوائد کا تذکرہ فرمایا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)علل الشرایع ص٣٦٣.

١۔ نماز شب خوبصورتی کا سبب ہے ۔
٢۔ نماز شب خوشبودار ہونے کا ذریعہ ہے ۔
٣۔ دولت اور رزق ملنے کا سبب ہے ۔
تینوں فوائد لوگوں کی نظر میں بہت اہم ہیں اگر آپ دقت کریں تو کسی خرچ کے بغیر نماز شب کے ذریعہ قدرتی طور پر آپ کی دولت اور آپ کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا جب کہ دولت مند بننے کی خاطر انسان پوری زندگی ہزاروں مشقتیں برداشت کرتاہے اسی طرح پیغمبر اکرم)ص( کی یہ حدیث مبارک بھی ہے کہ جس میں آپؐ نے فرمایا:
''من کثر صلاتہ باللیل حسن وجہہ بالنہار''(١)
اگر کوئی شخص نماز شب کثرت سے انجام دے تو دن کے وقت اس کا چہرہ حسین اور خوبصورت ہوجاتا ہے
تحلیل و تفسیر:
ان دونوں روایتوں کا آپس میں یہ فرق ہے کہ پہلی روایت میں جملہئ اسمیہ کی شکل میں کہ جو دوام اور ثبات پر دلالت کرتی ہے لیکن دوسری روایت میں جملہئ شرطیہ کے ساتھ خوبصورتی کا تذکرہ ہوا ہے اگر چہ نتیجہ کے حوالے سے دونوں روایتیں ایک ہیں کہ نمازشب چہرہ منور بنانے اور خوبصورتی کا سبب ہے اس طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)الفقیہ ج١ ص٤٧٤.

اگر روایت کے معانی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب کی وجہ سے چہرہ منور اور حسین ہوجاتا ہے لیکن نماز شب کے ذریعہ کیوں حسین و جمیل بن جاتا ہے؟! اس کا جواب معصوم)ع( نے یوں بیان فرمایا ہے:
'' لما سئل ما بال المجتہدین باللیل من احسن الناس وجہاً لأنّہم خلّوا باﷲ فکساہم اﷲ من نورہ ''(١)
جب امام زین العابدین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ نماز شب پڑھنے والوں کا چہرہ دوسرے تمام انسانوں کے چہروں سے زیادہ خوبصورت نظر آنے کی وجہ کیا ہے؟!
آپؑ نے فرمایا: کیونکہ نماز شب پڑھنے والے تنہائی میں خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے خدا اپنے نور سے ان کے چہروں کو منور کردیتاہے اس طرح اور بھی روایات ہیں کہ جو نماز شب سے انسانی چہرہ کے خوبصورت اور حسین ہونے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی ایک روایت پر اکتفاء کرتاہوں اگر اس پر اطمئنان نہ ہو تو اس کا بہترین راہ حل تجربہ ہے ایک ہفتہ تجربہ کرکے دیکھیں تو معلوم ہوجائے گا کہ نماز شب کی وجہ سے بدن میں تندرستی ،چہرا پرنور، دولت میں اضافہ اور دہن سے خوشبو آتی ہوئی محسوس ہوگی لہٰذا اس عظیم نعمت کو فراموش نہ کیجئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) علل الشرایع.

٨۔نماز شب باعث دولت
دنیا میں دو چیزوں کو بہت بڑی اہمیت سے دیکھا جاتاہے
١۔ دولت۔
٢۔ اولاد۔
لہٰذا اگر کسی کی دولت اور سرمایہ زیادہ ہو تو معاشرے میں اس کی شہرت اور عزت بھی اسی کے مطابق ہوا کرتی ہے اگر چہ ایمان کے حوالے سے وہ ضعیف الایمان ہویا کافر ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس کی عزت اور شہرت اس کی دولت و سرمایہ کی وجہ سے ہوتی ہے اسی لئے پورے معاشرے کی تقدیر اور تعلیمی، ثقافتی، سیاسی یا اجتماعی امور کو دولتمندوں کی دولت میں مخفی سمجھتے ہیں لیکن اگر ہم دنیامیں کڑی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ غریب طبقہ کے انسان کو چاہے وہ ایمان کے حوالے سے جتنا ہی امیر اور صوم وصلاۃ کا پابند ہی کیوں نہ ہو ،اجتماعی امور کا اہل نہیں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کی ہر کامیابی و ناکامی کا تعلق بھی اسی سرمایہ دار کے مرہون منت نظر آتاہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو کسی مقام کا اہل نہیں سمجھنے لگتا جبکہ ایسا نہیں ہے اوراسلام ایسے خام خیال اور کج فکری کی سختی کے ساتھ مذمت اور مخالفت کرتاہے۔
لہٰذا اگر آپ زحمت اور نقصانات کے بغیر دولت اور سرمایہ کے مالک بننا چاہتے ہیں تو نماز شب فراموش نہ کریں کیونکہ نماز شب دولت میں اضافہ اور ترقی کا بہترین ذریعہ ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :
'' وصلاۃ اللیل تجلب الرزق''(١)
یعنی نماز شب دولت اور سرمایہ میں اضافہ اور رزق میں زیادتی کا سبب بنتی ہے اسی طرح دوسری روایت میں امام نے فرمایا: کہ نماز شب دولت اور رزق کی ضامن ہے.
''کذب من زعم انّہ یصلی صلاۃ اللیل و ہو یجوع انّ صلاۃ اللیل تضمن رزق النہار''(٢)
وہ شخص جھوٹا ہے جو اس طرح گمان کرے کہ نماز شب انجام دینے کے بعد بھی وہ تنگ دست رہے گا کیونکہ رات کو انجام دی ہوئی نماز شب دن کی روزی کی ضامن ہوتی ہے
تفسیر و تحلیل:
معاملات میں ضمانت کا قانون معروف اور مشہور ہے کہ جس کی شرائط کو جاننے کے لئے فقہی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے لیکن یہاں ایک تذکر لازم ہے کہ ہر ضمانت میں تین چیزیں ضروری ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)میزان الحکمۃ ج٣.
(٢) بحار ج٨٧.

١۔ ضامن ۔
٢۔مضمون۔
٣۔ مضمون لہ ۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے نماز شب ضامن ہے دولت اور روزی کا آنا مضمون ہے اور نمازی مضمون لہ ہے لہٰذا آپ تجربہ کرکے دیکھ لیجئے کہ یہ روایت کہاں تک صحیح ہے اور کتنی مقدار سچائی اس میںمخفی ہے پھر فیصلہ کیجئے کیونکہ معصوم کاکلام ہمیشہ حقیقت پرمبنی ہوتاہے اورخلاف واقع کا ان کے کلام میں گنجائش نہیں ہے نیزاسی حوالے سے تیسری روایت ملتی ہے کہ جس میںامام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ'' صلاۃ اللیل تدرالرزق وتقض الدین ''یعنی نما زشب روزی میں اضافہ اورقرضہ کی ادائیگی کاسبب ہے اس روایت میںنمازشب کے دوفوائد کی طرف اشارہ فرمایاہے :
١۔ نماز شب روزی میں اضافہ اور زیادتی کاذریعہ ہے ۔
٢۔نمازسب پڑھنے سے اگرآپ مقروض ہیں توآپ کاقرضہ بھی اداہوجائیگااوریہی قرضہ دنیامیں لوگوں کو پریشانی اور ذلت و خواری میں مبتلا کردیتا ہے اور ان کی عزت و آبرو کے خاتمہ کا سبب بھی بنتا ہے اگر نماز شب انجام دے تو آپکی پریشانی ختم ہوسکتی ہے عزت و آبرو کو بھی خدا بحال فرمائے گا لہٰذا آزما کر دیکھیں کہ معصوم)ع( کے کلام میں کیا اثر ہیں؟

٩۔مشکلات برطرف ہونے میں مؤثر
پوری کائنات میں ہر انسان کی زندگی تین مراحل سے گذرتی ہے
١۔ بچپن۔
٢۔ جوانی ۔
٣۔ بڑھاپا ۔
کہ ان مراحل میں سے کسی ایک مرحلہ میں انسان کو ضرور مشکلات سے دوچار ہونا پڑتاہے لہٰذا کچھ محققین نے زندگی ہی کی تحلیل و تفسیر یوں کی ہے زندگی مشکلات اور آسائش کے مجموعہ کا نام ہے اور خدا نے بھی اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے کہ: (لقد خلقنا الانسان فی کبد )بے شک ہم نے تمام انسانوں کو مشکلات میں خلق کیاہے لہٰذا کائنات میں ایسے افراد بہت کم پائے جاتے ہیں کہ جو آغاز زندگی سے لیکر آخری زندگی تک کسی مجبوری یا سختی سے دوچار نہ ہوئے ہوں پس زندگی کے مراحل میں سے کسی ایک مرحلہ میں یا تمام مراحل میں مشکلات کا سامنا ہوسکتاہے لیکن ایسی مشکلات کو غیر مسلم اور ضعیف الایمان افراد بدبختی کی علامت سمجھتے ہیں جبکہ مسلمان اور مستحکم ایمان کے حامل اس کو رحمت الٰہی اور امتحان خداوندی سمجھتے ہیں اور جب کبھی مشکل سے دوچار ہوتے ہیں تو اسے دور کرنے کی خاطر اسلام نے اس کا راہ حل اس طرح بیان کیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :
'' کان علی اذا ھالہ شیئ فزع الی الصلاۃ ثم تلیٰ ہذہٖ الآیۃ (واستعینوا بالصبر والصلاۃ)(١)
ترجمہ: جب بھی حضرت علی علیہ السلام کسی مشکل سے دوچار ہوتے تھے تو آپؑ نماز کے ذریعہ اس کو برطرف کرتے تھے اور اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے او ر تم صوم و صلاۃ کے ذریعہ اپنی مشکلات کی برطرفی کے لئے مدد لو۔
اسی طرح دوسری روایت پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ جب بھی کوئی مشکل آپ کے اہلبیتؑ کو پیش آتی تھی تو اس کو دور کرنے کی خاطر پیغمبر اکرمؐ ان سے کہا کرتے تھے کہ آپ نماز مستحبی کے ذریعہ سے مشکلات کو برطرف کریں کہ یہ دستور میرے معبود کی طرف سے ہے (٢)
تیسری رویات :
پیغمبر اکرم)ص( کا یہ قول ہے کہ کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو مشکلات اور گرفتاری کی زنجیر سے آزاد ہو لیکن جب کسی سختی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو رات کے دو حصے گذر جانے کے بعد خدا کی طرف سے ایک فرشتہ نازل ہوتا ہے اور کہتا ہے اے لوگو! صبح نزدیک ہوچکی ہے خدا کی عبادت کے لئے اٹھو اسی وقت وہ اگر حرکت کرکے ذکر خدا میں مصروف ہو تو خدا ان کی گرفتاری کا ایک حصہ برطرف فرماتا ہے لیکن اگر اٹھ کر وضو کرکے نماز پڑھے تو پوری گرفتاری ختم ہوجاتی ہے گویا وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) وسائل ج٥.
(١)کتاب قصار الجمل ج١ ص٣٨٦.

شخص اس معصوم بچے کی مانند ہے کہ جو ہر گناہ سے بالکل پاک ہو ۔

تحلیل و تفسیر:
مذکورہ روایات سے بخوبی معلوم ہوا کہ نماز مستحبی اور نافلہ مشکلات کی برطرفی کے لئے بہت مؤثر ہیں اور سختیوں کی صورت میں آئمہئ معصومینؑ کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ دورکعت نماز مستحبی کو خدا وند تبارک وتعالیٰ کے لئے انجام دیا کرتے تھے اور اگر کوئی شخص اشکال کرے کہ ہماری مورد بحث نماز شب ہے جبکہ مذکورہ روایات نماز نافلہ سے مربوط ہیں اس کاجواب یہ ہے کہ روایات مذکورہ میں اطلاق پایا جاتا ہے جس میں نماز شب بھی شامل ہے اسی سے بخوبی اس بات کا استفادہ ہوتاہے کہ نماز شب کے دنیوی فوائد میں سے ایک مشکلات کی برطرفی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص مشکلات اور سختیوں سے نجات چاہتا ہے تو نماز شب جیسی نعمت کو فراموش نہ کریں۔

١٠۔خدا کی ناراضگی کے خاتمہ کا سبب
نماز شب کے فوائد میں سے ایک اور فائدہ کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں نماز شب رحمت الٰہی انسان کے شامل حال ہونے کا سبب ہے یعنی اگر آپ نماز شب سے محروم نہ رہے تو خدا ہی اپنے غضب اور ناراضگی سے نجات دلاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہوں کہ دنیامیں غضب الٰہی اور عذاب سے انسان کو نماز شب نجات دیتی ہے کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص(نے یوں ارشاد فرمایا:
''فإنّ صلاۃ اللیل تطفیئ غضب الرب تبارک و تعالیٰ''(١)
ترجمہ: بے شک نماز شب غضب الٰہی کو خاموش کرتی ہے یعنی جب خداوند کسی بندے سے ناراض ہو تو نماز شب انجام دینے سے خدا وند کی ناراضگی ختم ہوجاتی ہے اور جب ناراضگی اور غضب الٰہی ختم ہو تو رحمت الٰہی شامل حال ہوجاتی ہے لہٰذا اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز شب خدا کی ناراضگی کو ختم کرنے کابہترین ذریعہ ہے ۔

١١۔نماز شب استجابت دعا کا سبب
نماز شب کے فوائد میں سے ایک استجابت دعا ہے یعنی اگر انسان نماز شب انجام دے تو خدا نماز شب کی برکت سے اس کی دعا قبول فرماتاہے کہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے:
'' من قدّم اربعین رجلاً من اخوانہ فدعا لہم ثم دعا لنفسہ استجیب لہم فیہم و فی نفسہ'' (٢)
ترجمہ: اگر کوئی شخص وتر کے قنوت میں چالیس مؤمنین کا نام لیکر ان کے حق میں دعا مانگے تو خداوند اس کی دعا کودونوں کے حق میں مستجاب فرماتے ہیں ۔

تحلیل حدیث:
ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دعا انسان کی نفسیاتی بیماریوں کی دواء اور ہر مرض کے لئے مفیدہے لیکن دعا کی قبولیت میں بہت سی شرائط درکار ہیں لہٰذا ہر دعامستجاب نہیں ہوتی بلکہ کچھ دعاؤں کے نتائج و آثار ابدی زندگی میں رونما ہوجاتے ہیں جبکہ کچھ دعائیں بالکل قبول ہی نہیں ہوتی اور کچھ دعائیں کچھ مدت گذر جانے کے بعد قبول ہوجاتی ہیں لہٰذا نماز شب کے ساتھ کی ہوئی دعا یقینا جلد قبول ہو جاتی ہے اسی لئے انبیاء او ر آئمہ معصومینؑ اور مجتہدین کی سیرت یہی رہی ہے کہ وہ نماز شب کے ساتھ راز و نیاز کرتے تھے لہٰذا محترم قارئین آپ بھی تجربہ کیجئے کہ نماز شب دعا کی قبولیت میں کس قدر مؤثر ہے ۔

١٢۔نماز شب نورانیت قلب کا ذریعہ
نیز نماز شب کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے جسم میں نورانیت آجاتی ہے کہ اسی مطلب کو بیان کرنے والی روایات میں سے کچھ چہرے کی خوبصورتی سے مربوط تھی جن کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے لیکن دوسری کچھ روایات سے بخوبی استفادہ ہوتاہے کہ نماز شب جس طرح ظاہری اعضاء اور جوارح کو رعنا اور خوبصورت بناتی ہے اسی طرح قلب جیسے باطنی اعضاء اور جوارح کو بھی منور کردیتی ہے کہ انسان کے دل کو پورے اعضاء و جوارح میں مرکزیت حاصل ہے لہٰذا جب شیطان انسان پر مسلط ہونا چاہتا ہے تو سب سے پہلے انسان کے دل پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ باقی اعضاء پر بھی قبضہ جما سکے لیکن اگر کوئی نماز شب انجام دینگے تو انشاء اﷲ اس کا دل بھی نماز شب کی برکت سے منور اور شیطان کے قبضہ سے بچ سکتا ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں ارشاد فرمایا ہے:
'' ان العبد اذا تخلیٰ لسیدہ من جوف اللیل المظلم و ناجاہ اثبت اﷲ النور فی قلبہ''(١)
اگر کوئی بندہ اپنے مولا کے ساتھ رات کی تاریکی اور تنہائی میں راز ونیاز کرے تو خداوند اس کے دل کو نور سے منور کردیتا ہے ۔
تفسیر روایت:
معصومینؑ کے فرامین پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اعضاء اور جوارح میں قلب ہی ایسا عضو ہے کہ جسے پورے جسم میں مرکزیت حاصل ہے اسی لئے باقی تمام اعضاء ظاہری ہو یا باطنی دل کے تابع ہیں لہٰذا اگر قلب نورانی ہو تو باقی اعضاء بھی نورانی نظرآنے لگتے ہیں لیکن اگر برعکس ہو یعنی قلب نور سے منور نہ ہو تو باقی سارے اعضاء بھی نور سے محروم اور ایسے شخص کی تمام حرکات و سکنات بھی غیر الٰہی نظر آنے لگتے ہیں اور ممکن ہے کہ اسی محرومی کے نتیجے میں آہستہ آہستہ فرائض کے انجام دینے سے غافل اور گناہوں کا مرتکب ہو یہ تمام اثرات قلب کے نور سے محروم ہونے کا نتیجہ ہے پس اگر کوئی شخص قلب کو نور سے منور کرنا چاہتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے نماز شب نہ صرف چہرہ اور قلب کے لئے باعث نور ہے بلکہ پورے اعضاء و جوارح منور ہونے کے ساتھ نماز شب پڑھنے کی جگہ کو بھی منور کردیتی ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) میزان الحکمہ ج٣.

صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:
''ان البیوت التی یصلی فیہا باللیل بتلاوۃ القرآن یضیئ لأہل السماء کما تضیئ النجوم السماء لأہل الارض''(١)
ترجمہ: بے شک جب کسی گھر میںنماز شب قرآن کی تلاوت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے تو وہ گھر آسمان کی مخلوقات کو اس طرح منور نظر آتاہے جس طرح اہل زمین کو آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے نظر آتے ہیں ۔
تفسیر روایت:
طبیعی طور پر ہر انسان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے رہنے کی جگہ دوسروں کو خوبصورت نظر آئے لیکن اس مسئلہ میں دوسروںکی نظر ملاک قرار دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں یہ معیار اسلام کی نظر میں صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح معیار اسلام کی نظر میں خدا اورتمام مخلوقات ہیں لہٰذا آسمانی وملکوتی مخلوق کو اس وقت ہمارے رہنے کی جگہ منور نظر آئے گی کہ جب اس میں تلاوت قرآن اور نماز شب پڑھی جاتی ہو لہٰذا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز شب تین چیزوں کو منور کرنے کا ذریعہ ہے ۔
١۔انسان کا چہرہ۔
٢۔انسان کاقلب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) ثواب الاعمال ص٧٠.

٣۔ وہ جگہ جہاں نماز شب پڑھی جاتی ہے۔

١٣۔نماز شب باعث خوشبو
نماز شب کے دنیوی اور مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کسی کو نماز شب جیسی نعمت انجام دینے کی توقیق مل جائے تو اس سے معاشرے میں خوشبو آجاتی ہے یعنی نماز شب کی برکت سے وہ شخص ہر قسم کی آلودگی اور برائی سے صاف و ستھرا ہوجاتاہے اور اس کے وجود سے معاشرہ معطر اور خوشبو والا بن جاتا، لیکن اس بات کی تصدیق ضعیف الایمان اور ملحدین کی طرف سے مشکل نظر آتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں خوشبو کا آنا صرف پھولوں اور عطر وغیرہ سے ہی ممکن ہے نہ کسی انسانی عمل کی وجہ سے لیکن اگر انسان خوشبو کی حقیقت کی تحلیل و تفسیر کرے تو معلو م ہوجائے گا کہ خوشبو کی دو قسمیں ہیں:
١۔جسمی۔
٢۔روحی۔
ان دونوں قسموںمیں فرق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص روحی خوشبو کا مالک بن جائے تو جسمی خوشبو اس کا لازمہ ہے لیکن اگر کوئی شخص صرف جسمی خوشبو سے مالامال ہوجائے مگر روحی خوشبو سے محروم رہے تو شہوت اور تکبر کی کثرت اس کا لازمہ ہے لہٰذا تعجب نہ کیجئے اگر کوئی شخص واقعی مومن ہو تو یقینا اس سے خوشبو آجائے گی اگر چہ مادّی اور جسمی خوشبو کے وسائل و لوازمات سے استفادہ نہ بھی کرے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ فرشتے خدا کے محبوب ترین مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہونے کے باوجود نماز شب پڑھنے والے کی خوشبو کی وجہ سے اس کے عاشق ہوجاتے ہیں اور اس سے ملنے کی تمنا کرتے ہیں چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے۔
''صلاۃ اللیل تطیب الریح''(١)
ترجمہ:یعنی نماز شب انجام دینے والے افراد سے خوشبو آتی ہے ۔
اسی طرح دوسری روایت یہ ہے :
''صلاہ اللیل تحسن الوجہ و تحسن الخلق و تطیب الریح و تدر الرزق و تقضی الدین و تذہب بالہمّ وتجلّو البصر'' (٢)
نمازشب انسان کے چہرے کی خوبصورت ،اخلاق کی اچھائی ،خوشبو سے معطّر،دولت میں اضافہ ،قرضے کی ادائیگی،پریشانی کی برطرفی اورآنکھوں کی بصیر ت کابہترین وسیلہ ہے ۔
روایت کی توضیح :
امام ؐنے اس روایت میں دنیوی کئی فائد کی طرف اشارہ فرمایاہے کہ ان میں ایک خوشبودارہوناہے کہ جس کی مختصر تشریح ہوچکی ہے دوسرافائدہ یہ ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)میزان الحکمہ ج٥.
(٢)ثواب الاعمال.

نمازشب انجام دینے سے اچھے اخلاق اورنیک سیرت کامالک بن جاتاہے چنانچہ اس مطلب کویوں ذکرفرمایاہے :وتحسن الخلق کہ خوش اخلاق اورنیک سیرتی کی اہمیت اورضرورت کے تمام انسان قائل ہیں اگرچہ کسی قانون اورمذہب سے منسلک نہ بھی ہو لہٰذااگرکوئی شخص خوش رفتار اوراچھے اخلاق کامالک بنناچاتاہے تونمازشب کوہرگزفراموش نہیں کرناچاہئے کیونکہ نمازشب کانتیجہ خوش اخلاقی اورنیک سیرتی ہے ۔

١٤۔نمازشب بصیرت میں اضافہ کاسبب
دنیوی فوائد میں سے ایک جسکا امامؑ نے مذکورہ روایت میں تذکرہ فرمایا ہے بصیرت اور بینائی میں اضافہ ہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا ہے:وتجلّواالبصر یعنی نماز شب کی وجہ سے آنکھوں کی بصیرت میں اضافہ ہوتاہے ۔
توضیح : دنیا میں انسان کو دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک اہم ترین نعمت بصیرت ہے کہ جس کی حفاظت کے لئے خود خدا نے ہی ایک ایسا نظام اور سسٹم مہیا فرمایا ہے کہ جس کی تحقیق کرنے والے حضرات اس سے واقف ہیں لہٰذا انسان کی کوشش بھی اسی کی حفاظت اور بقا رکھنے میں مرکوزہے پس اگر ہم بصیرت میں اضافہ اور نوراینیت میں ترقی کے خواہاں ہیں تو نماز شب پڑھنا ہوگا

١٥۔ قرضہ کی ادائیگی کا سبب نماز شب
نیز دنیوی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب قرضہ کی ادائیگی کا سبب ہے چنانچہ امام نے فرمایا و تقضی الدین یعنی نماز شب قرضہ کو ادا کرتی ہے کہ دنیا میں انسان کے لئے مشکل ترین کاموںمیں سے ایک قرضہ کی ادائیگی ہے کہ اس سے نجات ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لہٰذا مقروض حضرات کو ہمیشہ سرزنش اور اہانت کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر ہم اس سے نجات او معاشرے میں باوقار رہنا چاہتے ہیں تو نماز شب کا پابند رہنا ہوگا چنانچہ امام نے فرمایا: تدر الرزق نیز پریشانی کی برطرفی کا سبب بھی نماز شب ہے

١٦۔نماز شب دشمن پر غلبہ پانے کا ذریعہ
اگرہم نمازشب انجام دیناشروع کردیں توانشاء اﷲہم اپنے دشمنوں پرہمیشہ غالب اورہروقت ہماری قسمت میں فتح ونصرت ہوگی خواہ ہمارادشمن ظاہری ہویاباطنی اگرکوئی شخص نمازشب جیسے اسلحے کے ساتھ مسلّح ہوکرمیدان جنگ میں واردہوجائے تویقیناکامیابی اورفتح سے ہمکنارہوجائے گالہٰذامسلمانوں کابہترین اسلحہ یہی نمازشب ہے چنانچہ مولاعلی علیہ السلام کی سیرت طیبہ کومطالعہ کرنے سے اس مطلب کی وضاہت ہوجاتی ہے کہ آپ نے بہتّرجنگوںمیں دشمنوںسے مقابلہ کیااورہمیشہ مشکلات میں کامیاب ہوئے کہ اس کامیابی کے پیچھے نمازشب جیسے عظیم معنوی اسلحہ کی طاقت تھی کہ جس سے آپ مددلیاکرتے تھے اس طرح امام حسین علیہ السلام نے کربلامیں اس انسان ساز عظیم قربانی کے موقع پردشمنوں سے جنگ کرنے سے پہلے ایک رات کی مہلت مانگی تاکہ نمازشب انجام دیں اوراپنی بہن بی بی زینب سے نماز شب کی سفارش بھی کی لہٰذانمازشب کے فوائد میں سے ایک دشمنوں پرغلبہ ہے کہ اس مطلب کو امام )ع(نے یوںارشادفرمایا:صلاۃ ا لیل سلاح علیٰ الاعدائ(١)
یعنی نمازشب دشمنوںپرفتح پانے کے لئے بہترین اسلحہ ہے اسی مضمون کے مانندکچھ اورروایات کاتذکرہ پہلے ہوچکاہے ان تمام روایات کانتیجہ یہ ہے کہ نمازشب مشکلات کی برطرفی اوردشمنوںپرکامیابی کابہترین ذریعہ ہے اگرکسی کادشمن طاقت اوراسلحہ وغیرہ کے حوالے سے کسی پرغالب نظرآئے تواسے چاہئے کہ وہ نمازشب انجام دے کیونکہ نماز شب ہی انسان سے ہرلمحات پرحملہ آورہونے والے دشمن کودورکردیتی ہے کہ جس دشمن کوقرآن میں عدوء مبین کی تعبیرسے یادفرمایاہے۔
چنانچہ اس مطلب کوامام علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایاہے ''صلاۃ الیل کراہتہ الشیطان'' نمازشب پڑھنے والوں کوشیطان نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہے لہٰذاعدومبین ہے یعنی انسان کاآشکار دشمن شیطان ہے کہ اس کے بارے میں سب کااجماع ہے اگرچہ خودشیطان کی حقیقت کے بارے میںعلماء اورمحققین کے درمیان اختلاف نظرپائی جاتی ہے کہ جن کاخلاصہ یہ ہے شیطان کی حقیقت کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں ۔
١۔شیطان انسان کی مانندایک مستقل موجود ہے جوانسان کونظرنہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارج٨٧.

آتاہے لیکن ہمیشہ انسان پرمسلط رہتاہے لہٰذاانسان کی اعضاء وجوارح پرغیرشرعی تصرف کرتاہے جس اس کی حرکتیں شیطانی نظرآتاہے ۔
٢۔یہی دنیا عین شیطان ہے شیطان کوئی مستقل چیزنہیں ہے ۔
٣۔خودانسان ہی عین شیطان ہے ہمارے محترم استاد حضرت آیت اﷲمصباح یزدی نے اپنے فلسفہ اخلاق کے لیکچرمیں ان نظریات میں سے پہلے نظریے کوقبول کیاہے اورکہتے ہیںکہ شیطان ایک مستقل موجودہے لہٰذا مزید تفصیلات کے لئے ان کے فلسفہئ اخلاق کے موضوع پر لکھی ہوئی کتاب کی طرف مراجعہ فرمائےے۔
خلاصہ یہ ہے کہ شیطان کاوجوداوراس کاانسان کے لئے عدو مبین اورسب سے خطرناک دشمن ہوناایک واضح اورمسلم حقیقت ہے جس کاقرآن مجیدمیں بھی متعددبارذکرہواہے جیساکہ ارشادہے(انّ الشیطان لکم عدو مبین) اورخالق رحیم نے اس خطرناک اورعیاردشمن سے بچاؤکے متعددذریعے فراہم فرمایاہے جن میں سے ایک اہم ذریعہ نمازشب ہے ۔

١٧۔نمازشب باعث خیروسعادت
نماز شب کے مادّی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے مؤمن کو خیر و سعادت نصیب ہوتی ہے کہ علم اخلاق کے دانشمندوں نے خیر و سعادت کے اصول و ضوابط کے بارے میں مختلف نظریات کو ذکر کیا ہے کہ جن کی آراء کا تذکرہ کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا اختصار کے پیش نظر راقم الحروف اس کی طرف صرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کیونکہ نماز شب ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کی برکت سے دنیا میں ہی انسان سعادت مند بن جاتا ہے اور ہر باشعور انسان کی یہی کوشش رہی ہے کہ سعادت مند بن جائے اسی لئے انسان ہزاروں زحمتیں اور مشکلات اٹھاتا ہے تاکہ سعادت جیسی عظیم نعمت حاصل کرنے سے محروم نہ رہے پیغمبر اکرم)ص( نے جنگ تبوک میں اپنے صحابی معاذ ابن جمیل سے فرمایا کیا میں تجھے خیر و سعادت کے اسباب سے مطلع نہ کروں تو معاذ ابن جمیل نے کہا: یارسول اﷲ کیوں نہیں! اس وقت پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا روزہ رکھنے سے جہنم کی آگ سے نجات مل جاتی ہے اور صدقہ دینے کے نتیجے میں اشتباہات کا خسارہ ختم ہوجاتا ہے جبکہ اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرنے سے سعادت مند ہوجاتا ہے پھر اس آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:
( تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ )(١)
یعنی نماز شب پڑھنے والے اپنے پہلو کو بستروں سے دور کیا کرتے ہیں۔(٢) لہٰذا جو انسان باعزت اور سعادت مند ہونےکا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورہئ سجدہ آیت ١٦.
(٢)بحار ج٨٧.

١٨۔انسان کے اطمئنان کا ذریعہ
اسی طرح نماز شب کے فوائد مادّی میں سے ایک یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے سے انسان کو سکون اور آرام حاصل ہوجاتا ہے کہ آج انسان اکیسویں صدی میں داخل ہے اور آبادی چھہ ارب سے بھی تجاوز کرچکی ہے لیکن ان میں بہت سارے انسان سکون او ر آرام جیسی نعمت کے حصول کی خاطر منشیات اور مضر اشیاء کے عادی بن چکے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے وسائل انسان کو حقیقی آرام و سکون مہیا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کچھ عرصہ شراب اور دیگر مضر چیزوں کے استعمال سے سکون اور آرام پیدا ہونے کے بعد نتیجتاً خودکشی کرلیتا ہے یا پھر انسانیت کے دائرے سے ہی نکل جاتا ہے اسی لئے شریعت اسلام میں اس قسم کے مضر چیزوں کے استعمال کوحرام قراردیاگیاہے لہٰذااگرہم ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسلامی تعلیمات کاپوری طرح سے پابندہوجائے تومعلوم ہوتاہے کہ اس میں کس قدرلذت اورسکون ہے کہ جس کاہم اندازہ نہیں لگاسکتے اوراسی کے طفیل ہمارے نفسیاتی تمام امراض دور ہوجاتے ہیں کہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے:
صلاۃ اللیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔راحۃ الابدان (١)
یعنی نماز شب کی وجہ سے بدنوں میں آرام و سکون پید اہوجاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار ج٨٧

١٩۔نماز شب طولانی عمر کا ذریعہ
اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کے نزدیک عمر اور زندگی سے زیادہ محبوب کوئی اور چیز نظر نہیں آتی بہت سار ے محققین نے عمر میں ترقی اور اضافہ کی خاطر مختلف راستوں کو بیان کیا ہے لیکن جس حقیقی راستے کی نشاندہی اسلامی تعلیمات اور آئمہ معصومینؑ کے اقوال میں کی گئی ہے اس کا اور کسی محقق کی بات یا نظریہ میں ملنا مشکل ہے لہٰذا اگر قرآنی تعلیمات یا انبیاء اور آئمہ کے اقوال کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے ان کے فرمودات میں انسان کی روز مرہ زندگی کی تمام ضروریات کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے اگر چہ انسان یہ خیال کرے کہ نماز شب اور طولانی عمر کا آپس میں کیا رابطہ ہوسکتا ہے؟ لیکن انبیاء اور آئمہ کے اقوال اور ان کے عمل و کردار میں فائدہ ہی فائدہ ہے جس کی حقیقت کو درک کرنے سے اکثر لوگ قاصرہیں پس اگر انسان اپنی عمر میں ترقی دولت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو ایک مہم ترین سبب نماز شب ہے اس کو فراموش نہ کیجئے کہ اس مطلب کو امام رضا علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا: تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص آٹھ رکعت نماز شب پڑھے دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر (کہ جس کے قنوت میںستر دفعہ استغفراﷲ کا ذکر تکرار کیا جاتا ہے) انجام دیگا تو خداوند اسکو عذاب قبر اور جہنم کی آگ سے نجات اور اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔(١)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) بحار الانوار ج٨٧.

لہٰذا اس روایت کی بنا پر عمر میں ترقی ہونا حتمی ہے لیکن اس کے باوجود توفیق کا نہ ہونا ہماری بدقسمتی ہے

ب۔ عالم برزخ میں نماز شب کے فوائد

مقدمہ :
جب ہم دور حاضر کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم کو محققین اور فلاسفرنے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔
١۔عالم طبیعت :۔ کہ اس عالم کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ تمام حرکات و سکنات مادہ یا مادیات سے وابستہ ہے اور نماز شب کے کچھ فوائداس عالم سے مربوط ہیں کہ جن کا بیان ہوچکا ہے ۔
٢۔عالم برزخ :۔ کہ جس کا آغاز موت سے ہوتاہے اور اس کا انتہاء قیامت ہے یعنی عالم دنیا کے بعد اور عالم آخرت سے پہلے درمیانی اوقات کا نام عالم برزخ ہے کہ جس کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان دنیوی اور مادی لوازمات سے استفاہ نہیں کرسکتاہے ۔
٣۔عالم آخرت:۔کہ جس کی وضاحت عنقریب کی جائے گی (تاکہ خوش نصیب افراد نماز شب کے عادی ہوں اور اس کے نتائج سے مستفیض ہوں) لہٰذا اب ان فوائد کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتاہوں جو عالم برزخ سے مربوط ہیں۔

١۔نماز شب قبر میں روشنی کا ذریعہ
اگر انسان ایک لمحہ کے لئے عالم برزخ کا تصور کرے تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ عالم انسان کے لئے کتنا مشکل اور سخت عالم ہے کہ اس کی حقیقت کو ہم درک نہیں کرسکتے اور ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے صرف آئمہ معصومینؑ کے اقوال اور سیرت طیبہ کے مطالعات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عالم برزخ میں دوست و احباب اورتمام لوازمات زندگی اور مادی وسائل سے منقطع اور محروم ہوجاتاہے اسی لئے اس کو قیامت صغریٰ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ انسان اس میں ہر قسم کی سختیوں اور دشواریوں سے دوچار ہوگا ہم عالم برزخ کے عذاب اور اس کی سختیوں سے نجات کے خواہاں ہیں تو نماز شب جیسی عبادات کوانجام دینے میں کوتاہی نہیں کرنا ہوگی کیونکہ عالم برزخ میں ہونے والی سختیوں میں سے ایک قبر کی بھیانک تاریکی ہے کہ جس سے انسان کا موت کے آتے ہی سامنا ہوجاتاہے کہ تاریکی اور اندھیرا ایک ایسی بھیانک چیز ہے جس سے انسان دنیا میں خوف زدہ ہوجاتاہے کہ ایک لمحہ بھی تاریکی میں گذارنا اس کے لئے کتنا مشکل ہوجاتاہے اسی طرح جب انسان عالم برزخ میں پہنچے گاتو وہ لمحات بہت ہی سخت ہوںگے کیونکہ دنیا میں ہر قسم کی سہولیات جیسے بجلی سورج چاند ستارے اور دوسرے وسائل کا سلسلہ موجود ہے لہٰذا دنیوی اندھیرے اور تاریکی سے نجات مل سکتی ہے لیکن عالم برزخ میںان تمام ذرایع سے محروم ہوگا لہٰذا عالم برزخ کی تاریکی سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ اس غربت کے زاد راہ کا فکر کریں اور اس تاریک گھر (قبر) کی روشنی کا اس دنیا سے جانے سے پہلے بندوبست کریں اور قبر میں کام آنے والے اور قبر کی تاریکی کو نور میں بدلنے والے اعمال میں سے ایک مہم عمل نماز شب ہے نماز شب عالم برزخ میں بجلی کے مانند ہے اور اس کی وجہ سے قبر منور ہوگی چنانچہ اس مطلب کی طرف حضرت علی علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا اگر کوئی شخص پوری رات عبادت الٰہی میں بسر کرے یعنی رات کو تلاوت قرآن کریم اور نماز شب انجام دے کہ جس کے رکوع و سجود ذکر الٰہی پر مشتمل ہو تو خدا وند اس کی قبر کو نور سے منور کرتا ہے اور دل حسد کی بیماری اور دوسرے گناہوں کی آلودگیوں سے شفاء پاتا ہے اور اس کو قبر کے عقاب و عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات ملتی ہے، چنانچہ معصوم علیہ السلام نے فرمایا:
'' یثبت النور فی قبر ہ و ینزع الاثم والحسد من قلبہ ویجار من عذاب القبر و یعطی برأۃ من النار۔''(١)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح انسان کے لئے دنیا میں نور اور روشنی کے وسائل خدا نے مہیا فرمائے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی روشنی اور نور کے اسباب کو فراہم کیا لیکن دنیوی نور کے ذرایع مادّی ہیں جبکہ عالم برزخ کی روشنی اور نور کاذریعہ معنوی چیزیں ہیں جیسے نماز شب. لیکن نماز شب سے قبر میں نور حاصل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ثواب الاعمال ص١٠٢.

ہونے میں شرط یہ ہے کہ اس کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا جائے ۔
نیز حضرت پیغمبر ؐ کا یہ قول ہے:
'' صلاۃ اللیل سراج لصاحبہا فی ظلمۃ القبر''(١)
نماز شب قبر کی تاریکی میں نمازی کےلئے ایک چراغ کے مانند روشنی دیتی ہے ۔

٢۔ وحشت قبر سے نجات ملنے کا ذریعہ
نماز شب کے برزخی فوائد میں سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے سے خداوند انسانوں کو وحشت قبر سے نجات دیتا ہے اور یہاں وحشت قبر کی تفصیل و حالات بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا مذہب حق جو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اہل بیت اطہار کے نام سے موسوم ہے ان کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کیوجہ سے فنا نہیں ہوتاہے بلکہ موت کے بعد مزید دو زندگی کا آغاز ہوتا ہے
١۔ مثالی زندگی ۔
٢۔ابدی زندگی ۔
مثالی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے جو عالم برزخ میں گذارا جاتا ہے کہ اس عالم میں ہر انسان کو مختلف قسم کے عذاب اور طرح طرح کی سختیوں سے دوچار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) بحار ج٨٧ .

ہونا یقینی ہے جیسے وحشت قبر لیکن خدا اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے اسی لئے وہ انھیں اس عالم کی سختیوں سے نجات دینے کی خاطر کچھ مستحب اعمال کو انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے جیسے نماز شب یعنی اگر ہم نماز شب کو انجام دیں توعالم برزخ میںوحشت قبر جیسی سختیوں سے نجات پاسکیں گے.چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام یوں ارشاد فرمایا ہے:
'' صلّی فی سواد اللیل لوحشۃ القبر''(١)
یعنی رات کی تاریکی میں نماز انجام دو تاکہ قبر کی وحشت اور خوف سے نجات پاسکو اسی طرح دوسری روایت میںخداوند نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دستور دیتے ہوئے فرمایا:
'' قم فی ظلمۃ اللیل اجعل قبرک روضۃ من ریاض الجنان''(٢)
یعنی اے موسیٰ! تو رات کی تاریکی میں (نماز شب انجام دینے کی خاطر ) اٹھا کرو( تاکہ میں اس کے عوض میں) تیری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دوں۔
لہٰذا ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وحشت قبر یقینی ہے لیکن اگر توفیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار ج٨٧.
(٢) بحارج١٠٠.

شامل حال ہو تو اس کا علاج نماز شب ہے کیوں کہ اگر انسان غور کرے تو معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہی عالم برزخ اور آخرت کے لئے خلق کیا گیا ہے ۔

٣۔قبر کا ساتھی نماز شب
جب انسان اس دار فانی سے چل بسے تو اس کے عزیز و اقارب ہی تجہیز و تکفین ادا کرنے کے بعد سپرد خاک کرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور بس پھر آپ کا اس قبرستان کے اس ہولناک ماحول میں کوئی پرسان حال نہ ہوگا حتیٰ ماں باپ اور بھائی،فرزند ہونے کے باوجود اکیلے چھوڑجائیں گے اور پھر آپ ہی کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی کوٹھی یا بنگلہ میں ہی آئے گا اور آپ کے خون پسینہ کرکے کمائی ہوئی جائداد اور مال دولت تقسیم کرینگے جب کہ آپ قبر میں تنہائی کے عالم میں ہر قسم کے عذاب میں مبتلا ہونگے اور ادھر یہی افراد جو آپ کے مال و دولت اور جائیداد پر ناز کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان ہی میں سے کوئی ایک بھی ایک لمحہ کے لئے آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تاکہ آپ کو قبر کی وحشت اور مشکلات میں آپ کی مدد کریں لہٰذا احباب کی اس لاتعلقی کا اندازہ مرنے سے پہلے لگائیے جب کہ ہمارا حقیقی خالق ہمیشہ ہما رے فلاح و بہبود کا خواہاں ہیں اسی لئے آپ کو قبرمیں تنہائی سے نجات دینے کی خاطر آپ کے قبر کے ساتھی کا بھی تعارف کرایاہے کہ وہ باوفا ساتھی جو کبھی بھی آپ سے بے وفائی نہیں کریگا اور ہمیشہ آپ کا محافظ اور مددگار کی حیثیت سے آپ کے ہمراہ رہے گا وہ نماز شب ہے یعنی اگر آپ نماز شب انجام دینگے تو قبر میں تنہائی محسوس نہیں کرینگے کیونکہ نماز شب تنہائی کی سختی سے نجات دیتی ہے چنانچہ اس مطلب کو پیغمبر اکرم)ص( نے یوں بیان فرمایا ہے نماز شب ملک الموت اور نماز گذار کے درمیان ایک واسطہ اور قبر میں ایک چراغ اور جس مصلّے پر نماز شب پڑھی جاتی ہے وہ لباس نکیر و منکر کے لئے جواب دہ اور روز قیامت تک قبر کی تنہائی میں آپ کی ساتھی ہوگی۔ (١)
اور دنیا میں یہ عام رواج ہے کہ مخصوص ایام اور پروگراموں میں شرکت کرنے کی خاطر مخصوص لباس پہنا جاتاہے اور اسی طرح علماء عاملین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ جب وہ اپنے ملائے حقیقی کی عبادت کے لئے آمادہ ہوا کرتے ہیں تو خاص لباس پہن کر عبادت کرتے تھے تاکہ روز قیامت وہ لباس ان کے حق میں شہادت دے اسی لئے علماء اور مؤمنین موت کے وقت اپنی وصیتوں میں ایسے لباس کے بارے میں تاکید کرتے تھے جس لباس میںمیںنے خدا کی عبادت کی ہے وہ لباس میرے ہمراہ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وحشت قبر اور اس کی تنہائی اور تاریکی میں اس کی شفاعت کرسکیں لہٰذا مرحوم آیۃ اﷲ مرعشی نجفیؒ کے وصیت نامہ میں ایسے ہی الفاظ ملتے ہیں کہ آپ نے وصیت نامہ میں فرمایا:
میرا وہ لباس میرے ساتھ دفن کیا جائے کہ جس میں میں نے نماز شب پڑھی ہے اور اس رومال کو بھی میرے ساتھ دفن کرے کہ جس سے امام حسین علیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحار ج٨٧.

السلام کی مصیبت کو یاد کرکے بہائے گئے آنسو پونچھا کوجمع کیا . لہٰذا نماز شب کے اتنے فوائد ہونے کے بعد اس سے محروم ہونا شاید ہماری بدقسمتی ہے پالنے والا ہم سب کو نماز شب پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔

٤۔نماز شب مانع فشار قبر
جیسا کہ معلوم ہیںکہ عذاب الٰہی کی تین قسمیں ہیں :
١۔ دنیوی عذاب ۔
٢۔برزخی عذاب ۔
٣۔اخروی عذاب ۔
لیکن ہمارے درمیان معروف ہے کہ عذاب کا سلسلہ اس عالم دنیا اور عالم برزخ کے سفر طے کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے جبکہ یہ خام خیالی ہے کیونکہ اگر کوئی شخص اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو تو کچھ کی سزا دنیا ہی میں مل جاتی ہے اور اسی کو عذاب دنیوی کہا جاتا ہے اگر چہ انسان غفلت اور سستی کے نتیجے میں دنیوی عذاب کو درک کرنے سے عاجز رہتا ہے لہٰذا یہی وجہ ہے کہ جب خدا کی طرف سے کسی جرم کی سزا دینا میں دی جائے تو غافل انسان اس کی مختلف توجیہات سے کام لیتا ہے۔ جب کہ اس کی اصلی علت یہی نافرمانی ہوتی ہے ۔
اسی طرح کچھ دوسرے جرم ہیں کہ جس کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی بلکہ اس کی سزا عالم برزخ میں روبرو ہوتی ہے اور اسی طرح کچھ ایسے گناہ اور جرائم ہیں کہ جن کی سزا خداوند عالم آخرت میں دیتا ہے لہٰذا نماز شب واحد ذریعہ ہے جو انسان کو قبر کے تمام عذاب سے نجات دینے والی ہے لہٰذا نماز شب کے برزخی فوائد میں سے چوتھا فائدہ یہ ہے کہ نمازی کو قبر کے عذاب اور فشار قبر سے نجات دیتی ہے کہ فشار قبر اتنا سخت سزا ہے جو انسان کے بدن کے گوشت کو ہڈیوں سے الگ کردیتی ہے اس مطلب کو صحابی رسول اکرم)ص( جناب ابوذر نے یوںارشاد فرمایا ہے کہ ایک دن کعبہ کے نزدیک بیٹھے ہوئے لوگوں کو نصیحت کررہے تھے اور انھیں ابدی زندگی کی طرف ترغیب و تشویق دلارہے تھے اتنے میں لوگوں نے آپ سے پوچھا اے ابوذر وہ کونسی چیز ہے جو آخرت کے لئے زادراہ بن سکتی ہے تو آپنے فرمایا گرمی کے موسم میں روزہ رکھنے سے حساب و کتاب آسان ہوجاتاہے اور رات کی تاریکی میں دو رکعت نماز پڑھنے سے وحشت قبر سے نجات ملتی ہے اور صدقہ دینے سے انسان کی تنگ دستی دور اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔(١)
اسی طرح دوسری روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا کہ تم لوگ نماز شب انجام دو کیونکہ جو شخص رات کے آخری وقت میں گیارہ رکعت نماز انجام دے تو خداوند اس کو قبر کے عذاب اور جہنم کی آگ سے نجات عطا فرماتاہے۔ (٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)داستان ج٢ص٢٦.
(٢)بحار ج٨٧ص١٦١.

٥۔نماز شب قبر میں آپ کی شفیع
جس طرح عالم دنیامیں کسی کی سفارش اور تعاون کے بغیر کوئی بھی مشکل برطرف نہیں ہوتی اسی طرح عالم برزخ میں بھی مشکلات اور سختیوں کو برطرف کرنے کے لئے مدد کی ضرورت یقینی ہے اگر چہ ان دو سفارشوں کے مابین فرق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا عالم دنیا کی سفارش مادی اسباب کا نتیجہ ہے جیسے کسی بڑی شخصیت کی سفارش جب وہ میسر نہ آئے تو پھر رشوت وغیرہ کے ذریعہ سے مشکلات کی برطرفی اور مقاصد کے حصول کے لئے ہر انسان کوشش کرتا ہے جب کہ عالم برزخ اور مثالی عالم کی سفارش معنوی اور صوری ذرایع کی ہوتی ہے۔
لہٰذا عالم برزخ میں دنیا کے اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کام نہیں آئیں گی بلکہ خدا کی نظر میںجو مقرب اور نیک حضرات ہیں وہی اس مشکل کو حل اور ہماری سفارش کرسکتے ہیں لہٰذا ایسے وسائل کے بارے میں بھی انسان کو شناخت و معرفت اور ان میںسے ایک معنوی تعلق جوڑنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے تبھی تو خدا وند عالم نے برزخ میں بھی مؤمن انسان کی شفاعت اور اس کی فلاح کے لئے کچھ دستورات دئے ہیں ان کو انسان پابندی کے ساتھ انجام دینے کی صورت میں اور محرمات سے اجتناب کرنے میں اور اخلاق حسنہ اپنانے میں اور اخلاق رذیلہ سے اپنے آپ دور رکھنے کی صورت میں اس کی تمام مشکلات برطرف ہوسکتی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے فرمایا:
صلاۃ اللیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شفیع صاحبہا(١)
یعنی نماز شب قبر کی وحشت ناک تنہائی میں نمازی کی شفیع ہوگی پس نماز شب قبر کے وحشت ناک تنہائی اور عالم غربت کی سختی کے وقت اور ملک الموت و نکیر و منکر کے سوال و جواب کے موقع پرآپ کی شفیع ہے لہٰذا آیات و روایات کی روشنی میں بخوبی یہ نتیجہ نکلتاہے کہ نماز شب کے فوائد عالم برزخ میں بہت زیادہ ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں چند فوائد پر اکتفاء کرینگے پس جب ہم دنیوی فوائد ااوربرزخی فوائد سے فارغ ہوگئے تونمازشب کے ایسے فوائد کی طرف بھی اشارہ کریں گے جوابدی زندگی سے مربوط ہیں کیونکہ ابدی زندگی کے فوائدمادی زندگی اورمثالی زندگی کے فوائدسے زیادہ اہم ہیں تاکہ مومنین کے لئے اطمئنان قلب کا باعث بنے ۔

ج۔عالم آخرت میں نماز شب کے فوائد

١۔جنت کادروازہ نمازشب
اخروی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ جوشخص علم جیسی نعمت سے بہرہ مندہواوراس کی نظروں سے کچھ کتابیں نما شب کے اخروی فوائد سے متعلق گذری ہوگی کہ دنیوی زندگی اورمثالی زندگی گزرنے کے بعد انسان کی ابدی زندگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)جامع آیات و احادیث ج٢ .

کاآغازہوجاتاہے کہ اس زندگی گزرنے کی جگہ مومن کے لئے جنت ہے لیکن اگرکافرہے توجہنم ہے.
لہٰذا جنت اور جہنم میں زندگی گذار نا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے یعنی انسان کے اعمال و کردارعلت ہے،جنت میں داخل ہونایا جہنم میں رہنا معلول ہے تب ہی توانسان کے اعمال و کردار دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے نیک اعمال اور بد اعمال. اگر انسان اس دنیا میں اچھے اعمال کا عادی ہو اور اسلام کی تعلیمات کا پابند ہو تو جنت میں ابدی زندگی سے ہمکنار ہوتے ہوئے ہمیشہ جنت میں رہے گا لیکن اگر اس دنیا میں برے اعمال کا عادی رہا ہو اور اسلامی تعلیمات سے دور ہو یعنی اپنی خواہشات کا تابع ہو تو اس کی ابدی زندگی کی جگہ جہنم جیسی بری جگہ ہوگی پس جنت و جہنم دو ایسے مقام کا نام ہے کہ جس کی زندگی مثالی زندگی اور مادّی زندگی سے مختلف ہے لہٰذا جنت و جہنم کی زندگی کو ابدی کہا جاتاہے جب کہ باقی زندگی کو موقتی اور تغییر پذیر زندگی کہا جاتاہے چنانچہ اس مطلب پر قرآن کی کئی آیات میں اشارہ ملتاہے مثلاً:
'' فیہا خالدون...'' یعنی جنت اور جہنم میں ہمیشہ رکھا جاتا ہے جب کہ ایسے الفاظ قرآن وسنت میں دنیوی زندگی کے بارے میں نظر نہیں آتے پس انسان غور سے کام لے تو بخوبی معلوم ہوتاہے کہ انسان کتنا غافل ہے کہ دنیا میں دنیوی زندگی سے اس قدر محبت رکھتاہے جبکہ یہ زندگی کچھ مدت کی زندگی ہے لیکن اگر یہی انسان خدا کا مطیع ہو تو فرشتوں سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے کہ اس تعبیر کی حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیوی زندگی کو ہی حقیقی زندگی مان لے توحیوانات سے بھی بدتر ہے لیکن اگر دنیوی زندگی کو ابدی زندگی کے لئے مقدمہ سمجھے تو فرشتوں سے بھی افضل ہے تبھی تو قرآن وسنت میں کئی مقام پر تدبر و تفکر سے کام لینے کی ترغیب ہوئی ہے تاکہ غافل انسان یہ نہ سمجھے کہ زندگی کا دار ومدار یہی زندگی ہے پس اگر کوئی ابدی زندگی کو آباد کرنے کا خواہاں ہے تو آج ہی نماز شب انجام دینے کا عزم کیجئے کیونکہ نماز شب جن فوائدپر مشتمل ہے شاید کوئی اور عمل نہ ہو لہٰذا نماز شب انجام دینے سے جنت کے دروازے ہمیشہ کےلئے کھل جاتے ہیں اور نمازی آسانی سے جنت میں داخل ہوسکتے ہیں چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( کا یہ ارشاد ہے: اے خاندان عبدالمطلب تم لوگ رات کے وقت جب تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہوجاتے ہیں تو شب بیداری کیا کرو اور خدا سے راز و نیاز کرو تاکہ جنت میں آسانی سے جاسکوں۔(١)
دوسری روایت میں پیغمبر )ص( نے فرمایا:
''من ختم لہ بقیام اللیل ثم مات فلہ الجنۃ ''(٢)
اگر کوئی شخص شب بیداری کا عادی ہو اور مرجائے تو خداوند اس کے عوض میں اس کو جنت عطا فرمائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)محاسن برقی ص٨٧.
(٢)وسائل ج٥.

نیز تیسری روایت جس میں حضرت پیغمبر اکرم)ص( نے جناب ابوذر سے فرمایا :
'' یا اباذر ایما رجل تطوع فی یوم ولیلۃ اثنتا عشرۃ رکعۃ سوی المکتوبۃ کان لہ حقاً واجباً بیت فی الجنۃ۔''
اے ابوذر اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے کے اوقات میں واجبات کے علاوہ بارہ رکعات مستحبی (نماز شب) بھی انجام دے تو خداوند اس کے بدلے میں اس کو جنت عطا کریگا (١)

تفسیر وتحلیل:
ان مذکورہ روایات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے خواہاں افراد کو چاہیے کہ وہ نماز شب کو ترک نہ کریں کیونکہ نماز شب کی خاطر جنت میں خداوندخوش نصیب افراد کو ایک خاص قسم کا قصر عطا کریگا ۔

٢۔جنت میں سکون کا ذریعہ
نماز شب کے فوائد اخروی میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کے نتیجے میں خداوند نمازی کو ابدی زندگی میں سکون جیسی نعمت عطا فرماتاہے کہ سکون جیسی نعمت کی نیاز تمام زندگی کے مراحل میں یقینی ہے چنانچہ دنیا میں ہر انسان کی طبیعت یہ ہے کہ زندگی سکون سے گذارے لہٰذا سکون کی خاطر طرح طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)مکارم الاخلاق ص٤٦١.

کی مشقتیں برداشت کرکے عدم سکون جیسی بلا سے جان بخشی کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص جنت میں زیادہ سے زیادہ آرام و سکون کا خواہاں ہو کہ انسانی فطرت اور عقل بھی یہی چاہتی ہے تو اس آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک عمل درکار ہے اور وہ عمل نماز شب ہے کہ جو اس مشکل کو حل کرسکتاہے یعنی سکون اور آرام جیسی نعمت سے زیادہ سے زیادہ مالامال ہوسکتاہے چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا: اطولکم قنوتاً فی الوتر اطولکم یوم القیامۃ فی الموقف ، تم لوگ نماز وتر کے قنوت کو جتنا زیادہ وقت تک انجام دوگے تو اتنا ہی خدا قیامت کے دن آرام و سکون میں اضافہ فرمائے گا(١)پس اسی روایت کی روشنی میں یہ کہہ سکتاہے کہ سکون جیسی نعمت کا ذریعہ بھی نماز شب ہے.

٣۔دائیں ہاتھ میں نامہئ اعمال دیا جانے کا سبب
نماز شب کے عالم آخرت سے مربوط نتائج میں سے اہم ترین نتیجہ یہ ہے کہ نماز شب انجام دینے کی وجہ سے خداوند قیامت کے حساب وکتاب کے دن نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دے گا کہ یہی قبولیت اعمال اور رضایت خدا کی علامت ہے لہٰذا اس مطلب کو روایت کی روشنی میں بیان کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کی بحث علم کلام میں مستقل ایک بحث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)بحارالانوار ج٨٧.

ہونے کے باوجود باقی مباحث کلامی کی بہ نسبت مشکل اور پیچیدہ ہے لہٰذا قیامت کی مباحث میں بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں کہ جن کی توضیح اور درک کرنا ہر عام و خاص کی بساط سے باہر ہے کہ انھیں میں سے ایک نامہئ اعمال ہے اگر چہ نامہئ اعمال کا مسئلہ اہم ترین مسئلہ بھی ہے کیونکہ بہت سی روایتیں اور آیات کی روشنی میں معلوم ہوتاہے کہ انسان کے تمام اعمال قیامت کے دن مجسم ہوکر حاضر ہوں گے نیز جن اعضاء و جوارح وہ اعمال انجام دئے گئے وہی اعضاء اسی پر گواہی دیتا ہے لہٰذا اس طرح کی باتیں نامہئ اعمال کے متعلق روایات اور آیات میں زیادہ ہیں اور اعمال کی حقیقت اور کیفیت کو درک کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے اگرچہ محقق ہی کیوں نہ ہو لہٰذا بوعلی سینا کا یہ قول ہے کہ میری تحقیقات معاد جسمانی کو ثابت کرنے سے قاصر رہی۔
لیکن میرا مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے لہٰذا میں سر تسلیم خم کرتا ہوں۔اور نامہئ اعمال کی اتنی اہمیت ہے کہ جنت اور جہنم کا فیصلہ ہی نامہئ اعمال کا نتیجہ ہے گویا مباحث معاد میں نامہئ اعمال کو ہی مرکزیت حاصل ہے لیکن اس کی حقیقت اور ماہیت روشن کرنا اس کتاب کی گنجائش سے خارج ہے لہٰذا مختصر یہ ہے کہ قیامت کے دن نامہئ اعمال یا دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ نامہئ اعمال جس ہاتھ میں دیا جائے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب محققین دے چکے ہیں لیکن پھر بھی ایک اشارہ لازم ہے کہ نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنّتی ہے اور اس کے سارے اعمال قبول ہونے کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ابدی زندگی آباد ہونے پر بھی دلیل ہے اسی طرح نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دینے کا مطلب بھی واضح ہے کہ خدا کی نظر میں اعمال قابل قبول نہ ہونے کی علامت ہے اسی لئے آئمہ معصومین علہیم السلام سے منقول بہت سی دعاؤں میں اس طرح کے جملات مذکور ہیں۔ کہ پالنے والے! روز قیامت میرا نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں لینے کی توفیق دے لہٰذا قیامت کے دن جن لوگوں کا نامہئ اعمال جب دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ خوش اور ان کے چہرے نور سے منور ہونگے لیکن جن لوگوں کے نامہئ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائیگا وہ خدا سے التجاء کریں گے:
اے خدا وند کاش میرے نامہئ اعمال پیش نہ کیا جاتا اے کاش آج میرے تمام گناہوں اور برائیوں کو اس طرح میدان میں آشکار نہ کیا جاتا لہٰذا ایسی بڑی مشکل میں مبتلاء ہونے کا سبب ہمارے برے اعمال ہیں چنانچہ اگر انسان روز قیامت ایسے شرمناک اور ہولناک حالات سے نجات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب انجام دے لہٰذا روایات میں وارد ہوا ہے اگر آپ نے نماز شب انجام دی تو خدا اس کے عوض میں ان کے نامہئ اعمال دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گانیز حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا اگر کوئی شخص رات کے آخری وقت میں خدا کی عبادت اور نماز شب پڑھنے میں مشغول رہے تو خدا اس کے بدلے میں روز قیامت اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں عطا فرمائے گا۔ اسی طرح دوسری روایات بھی آنحضرتؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر کوئی شخص رات کے چوتھائی حصے عبادات اور نماز شب انجام دینے میں گزارے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ اسے قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جوار میں جگہ عطا فرمانے کے علاوہ اس کے نامہئ اعمال کو دائیں ہاتھ میں دیگا۔(١)
لہٰذا خلاصہ یہ ہوا کہ نامہئ اعمال کے دائیں ہاتھ میں دئےے جانے، اعمال کے قبول ہونے خدا کی رضایت کے شامل حال ہونے اور جنت میں داخل کیا جانے جاودانی زندگی پانے اور تنگدست لوگوں کے امیر بننے کا سبب نماز شب ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں نماز شب انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔

٤۔پل صراط سے بامیدی عبور کا سبب
روز قیامت سے مربوط نماز شب کے فوائد میں سے ایک اور فائدہ یہ ہے اگر کوئی شخص نماز شب جیسی بابرکت عبادت کو انجام دے تو قیامت کے دن پل صراط سے بآسانی گذرسکتا ہے لیکن پل صراط خود کیا ہے اور اس کی سختی کے بارے میں شاید قارئین کرام جانتے ہوں روایات سے صراط کی کیفیت اس طرح روشن ہوتی ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو قیامت کے دن رونما ہونے والی مشکلات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ثواب الاعمال و عقابہاص١٠٠.

میں سے ایک مشکل صراط کی صورت میں پیش آئے گی کیونکہ روایت میں صراط کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ بال سے زیادہ باریک ، تلوار سے زیادہ تیز، اور آگ سے زیادہ گرم ہوگا کہ جو خدا نے جہنم کے اوپر خلق کیا ہے تاکہ جنّت میں جانے سے پہلے اس سے عبور کرے کہ ایسے اوصاف کے حامل راستے کو عبور کرنا عام عادی انسانوں کے لئے یقینا بہت سخت اور مشکل امر ہے لیکن ایسے دشوار راہ سے اگر بہ آسانی گذرنا چاہے تو رات کے وقت خدا کی عبادت اور نماز شب انجام دے۔ کیونکہ نماز شب میں خدا نے ایسے فوائد مؤمنین کے لئے مخفی رکھا ہے کہ ہر مشکل امر کا راہ حل نماز شب ہے چنانچہ اس مسئلہ کو حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے اگر کوئی شخص رات کے تین حصے گذر جانے کے بعد نیند کی لذت چھوڑ کر اٹھے اور نماز شب انجام دے تو خداوند قیامت کے دن اس شخص کو مؤمنین کی پہلی صف میں قرار دے گا اور صراط سے عبور کے وقت آسانی، حساب و کتاب میں تخفیف اور کسی مشکل کے بغیر جنّت میں داخل کیا جائے گا۔(١)
پس نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ کرنا شاید ہماری قدرت سے خارج ہو اسی لئے بہت سی روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ نماز شب دنیا و قبر اور آخرت کے تمام مشکلات کے لئے راہ نجات ہے کہ اس طرح کی اہمیت اور ثواب اسلام میں شاید کسی اور عبادت اور کار خیر کو ذکر نہیں کیا ہے۔ تب ہی تو پورے انبیاء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ثواب الاعمال ص١٠٠

اور آئمہ ٪ اور دیگر مؤمنین کی سیرت طیبہ ہمیشہ یہی رہی ہیں کہ رات کے آخری وقت خدا سے راز و نیاز کیا کرتے تھے۔

٥۔جنت کے جس دروازے سے چاہیں داخل ہوجائیں
روایات اور آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جنت کے متعدد دروازے ہیں کہ ہر ایک دروازے کا مقام و منزلت دوسروں سے مختلف ہے۔ لہٰذا جنت ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں کسی قسم کا آپس میں ٹکراؤ یا الجھاؤ نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ ہر جنّتی کے مراتب اور درجات مختلف ہیں لہٰذا اسی بناء پر ہر ایک طبقے کا جنّت میں داخل ہونے کا الگ دروازہ مخصوص کیا گیا ہے لیکن اس قانون سے ایک گروہ مستثنیٰ ہے کہ وہ طبقہ ایسا خوش نصیب طبقہ ہے جو دنیا میں نماز شب کو انجام دیتا رہا ہے ایسے افراد جنّت کے آٹھ دروازے سے چاہے گذر سکتا ہے کہ اس مطلب کو حضرت علی علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو رات کے اوقات میں سے کوئی ایک وقت نماز میںگذاریں گے تو خداوند کریم اپنے محبوب ترین فرشتوں سے کہا کرتے ہیں میرے اس تہجد گذار بندے سے عام انسان کی طرح تم ملاقات نہ کرو بلکہ اس سے ایک خاص اہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ پیش آئیں اور خدا کے ہاں ان کا مقام ومنزلت دیکھ کر فرشتے تعجب کریں گے اور فرشتے انہی افراد سے عر ض کریں گے کہ آپ جنت کے جس دروازے سے چاہیں گذر سکتے ہیں.

٦۔آتش جہنم سے نجات کا باعث
قیامت کے مسائل میں سے سنگین ترین مسئلہ آتش جہنم ہے اور اسی حوالے سے قرآن و سنت اور انبیاء و آئمہ٪ کی تعلیمات سے یہ ملتا ہے کہ تم لوگ کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرو کہ جس کا نتیجہ آتش جہنم ہو لیکن جہنم کی آگ کی حقیقت دنیوی آگ کی مانند نہیں ہے اور جس طرح دنیوی آگ کی گرمائش اور جلن قابل تحمل نہیں تو جہنم کی آگ کیسے قابل تحمل ہوسکتی ہے جبکہ جہنم کی آگ کی تپش و جلن دنیوی آگ کی بہ نسبت نوگنا زیادہ ہوگی۔ لہٰذاآتش جہنم کی سختی کا اندازہ اور ان سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کا سبب یہی ہے پس اگر کوئی شخص ایسی آگ سے نجات چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نماز شب سے مدد مانگے چنانچہ اس مطلب کو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یوں ذکر فرمایا ہے کہ ہر وہ شخص جو عبادت الٰہی میں شب بیداری کریں گے تو خداوند اس کو جہنم کی سختیوں سے نجات دیتا ہے اور عذاب الٰہی سے محفوظ رہے گا۔(١)
اسی طرح قرآن کریم میں جہنم کی آگ کے متعلق متعدد آیات نازل ہوئی ہیں۔ جیسے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)ثواب الاعمال ص١٠٠.

(فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ أُعِدَّتْ لِلْکَافِرِینَ)(١)
پس تم اس آگ سے بچو کہ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہوں گی جو کافروں کے لئے خلق کیا ہے۔
نیز فرمایا:
( إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیرًا)(٢)
بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگا اور تم ان کی حمایت میں کوئی مددگار نہ پاؤگے۔
پس اگر کوئی انسان ایسی آگ سے نجات کا خواہاں ہے تو آج نماز شب انجام دینے کا عزم کریں۔

٧۔آخرت کی زادو راہ نماز شب
یہ امر طبیعی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے ملک یا شہر سے دوسرے شہر یا ملک کی طرف سفر کرنا چاہتا ہے تو سفر کے تمام ضروریات کو سفر سے پہلے مہیا کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہئ بقرۃ آیت ٢٤.
(٢)سورہئ نساء آیت ١٤٥

تاکہ سفر کے دوران کسی مشکل سے دوچار نہ ہو لیکن یہ بڑی تعجب کی بات ہے کہ انسان اس دنیا میں معمولی سفر شروع کرنے سے پہلے کچھ زادوراہ آمادہ کرتاہے لیکن جب اخروی سفر اور ابدی عالم کی طرف جانے لگتا ہے تو سفر کے ضروریات اور لوازمات سے بالکل غافل ہے جبکہ وہ یہ جانتا بھی ہے کہ یہ سفر کس قدر طولانی ہے اور زادوراہ کس قدر زیادہ ہونا چاہیے پس اگر کوئی شخص عالم آخرت کے سفر کا تصور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ سفر دنیوی سفر سے بہت زیادہ اور طولانی اورمشکل ہے لہٰذا اس سفر کے زادو راہ میں سے ایک نماز شب ہے۔
چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا وہ شخص خوش قسمت ہے جو سردی کے موسم میں رات کے اوقات میں سے کسی خاص وقت میں عالم آخرت کے زادو راہ مہیا کرنے میں گزارے اسی طرح دوسری روایت میں پیغمبر اکر م ؐنے فرمایا: ''فان صلاۃ اللیل تدفع عن اہلھا حرا النار لیوم القیامۃ''(١)
بے شک روز قیامت نماز شب نمازی کو جہنم کے حرارت سے نجات دیتی ہے پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب آخرت کے لئے ایک ایسا زخیرہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اتنی فضیلت اور اہمیت کے باوجود انجام نہ دینا ہماری غفلت وکوتا ہی کا نتیجہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کننرالعمال ج ٧.

٨۔نماز شب آخرت کی خوشی کا باعث اگر انسان دنیا میںخوف خدا میں آنسوبہا ئے تو روزقیامت اس کو کسی چیز کے خوف سے رونا نہیں پڑے گا اسی لئے سکونی نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے .
''قال قال رسول اللہ (ص)کل عین باکیۃ یوم القیامہ الا ثلاثۃ اعین عین بکت من خشۃ اللہ وعین غضت عن محارم اللہ وعین باتت ساہرۃ فی سبیل اللہ ''(١)
روز قیامت تین آنکھوںکے علاوہ باقی تمام آنکھیں اشک بارہونگی (١)وہ آنکھوں جو خوف خدا کی وجہ سے روتی رہی ہو(٢) وہ آنکھ جو حرام نگاہوں سے اجتناب کرتی رہی ہے (٣) وہ آنکھ جو راہ خدا میں شب بیداری کرتی رہی ہو اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا:
روز قیامت تمام آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے مگر تین آنکھیں، (١) جو محرمات الٰہی سے پرہیز کرتی رہی دوسری وہ آنکھیں جو رات کی تاریکی میں خوف خدا کے نتیجے میں گریہ وزاری میں رہی ہے تیسری وہ آنکھیں جو اطاعت الہٰی کے خاطر اپنے آپ کو نیند سے محروم کرکے شب بیداری کرتی رہی ہو لہٰذا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) خصال صدوق ص ٩٨ .

قرآن کریم میں بھی یوں فرمایا ہے :
(فلیضحکو اقلیلا والیبکواکثیرا۔)
یعنی زیادہ رویا کرو اور خوشحالی کم کرو۔
اسی طرح تمام انبیاء اور اوصیاء علیہم السلام کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ وہ آخرت کے خوف سے دنیا میں رویا کرتے تھے اور بہتیرین رونے کا وقت رات کی تاریکی ہے کہ جس وقت نماز شب انجام دیجاتی ہے پس دنیا میں جہنم کی آگ اور عذاب کے خوف میں رونا اور آنسو بہانا اخروی شرمندگی سے نجات کا باعث ہوگا۔

٩۔آخرت کی زینت نماز شب
ہر عالم میں کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہے لیکن ان کا آپس میں بہت بڑا فرق بھی ہے چنانچہ اس مطلب کو حضرت امام جفرصادق علیہ السلام نے یوں ارشاد فرمایا ہے :
''ان اللہ عزوجل قال المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا وان ثمان رکعات التی یصلیھا العبد اخراللیل زینۃ الاخرۃ۔''(١)
خدا نے فرمایا کہ اولاد اور دولت دنیوی زندگی کی زینت ہے لیکن آٹھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) بحار الانوار ج ٨٣ .

رکعات نماز جو رات کے آخری وقت میںانجام دی جاتی ہے وہ آخرت کی زینت ہے پس اس روایت سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ عالم دنیا میں لوگوں کی نظر میں زینت کا ذریعہ اولاد اور دولت سمجھا جا تا ہے جب کہ عالم آخرت میں باعث زینت نماز شب اور دوسرے اعمال صالحہ ہوں گے چنانچہ خدا نے اسی مذکورہ آیہ شریفہ کے ذیل میں یوں اشارہ فرمایا والباقیات الصالحات لہٰذا نماز شب انجام دینے والے روز قیامت دوسروں سے مزین اور منور نظر آتا ہے .

١٠۔جنت میں خصوصی مقام ملنے کا سبب
روایات کی روشنی میں یہ بات مسلم ہے کہ جنت میں ہر جنتی کا مقام ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہے کہ جس طرح دنیا میں ہر ایک کی جگہ اور منزل یکسان نہیں ہے اسی طرح جنت میں بھی سکونت کی جگہ اور دیگر سہولیات کے حوالے سے مختلف ہے لہٰذا اگر کوئی شخص دنیا میں نماز شب کا عادی اور نیک اعمال کے پابند ہوتو روز قیامت جنت میں اس کو ایسے خصوصی قصر دیا جائے گا کہ جو مختلف کمروں پر مشتمل ہونے کے علاوہ اس کی زینت فیروزہ یاقوت اور زبرجد جیسے قیمتی پھتروں سے کی گئی ہے چنانچہ اس مسئلہ کو پیغمبر اکرم)ص(نے یوں ارشاد فرمایا ہے :
''ان فی الجنۃ غرفا یری ظاہرہا من باطنہا وباطنہا من ظاہر ہا یسکنھا من امتی من اطاب الکلام واطعم الطعام وافش السلام وادام الصیام وصلی بااللیل والناس ینام ۔''
بے شک جنت میں کچھ اسے قصر بھی تیار کیا گیا ہے کہ جن کے باہر کی زینت اندرسے اور اندر کی زینت باہر سے نظر آئے گی کہ ایسے کمروں میں میری امت میں سے ان لوگوں کی سکونت ہوگی کہ جن کا سلوک دنیاء میں لوگوں کے ساتھ اچھا رہا اور لوگوں کو کھنا کھلایا اور سرعام یعنی کھلم کھلا لوگوں کو سلام کرنے کے عادی رہے ہو اور ہمیشہ روزہ رکھنے کے علاوہ رات کے وقت نماز شب انجام دیتے رہیں جب کہ باقی افراد خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں ۔

تحلیل وتفسیر:
اگر کوئی شخص دنیا میں نیک گفتاری کا مالک اور سلام کرنے کا عادی اور روزہ رکھنے پر پابند ہو تو خدا اس کے نیکی کا بدلہ روز قیامت ایسا گھر عطا فرمائے گا کہ جن کی خوبصورتی اور زینت کھلم کھلا نظر آئے گی اسی طرح نماز شب کی برکت سے جنت میں نماز شب انجام دینے والے ایسا گھر اور قصر کا مالک ہوگا نیز اگر دنیا میں نماز شب انجام دینے کی توفیق ہوئی ہو تو محشر کے میدان میں حساب وکتاب کے وقت نماز شب ایک بادل کی طرح اس شخص کی پیشانی پرسایہ کئے ہوئے نظر آئے گی چنانچہ پیغمبر اکرم)ص( نے ارشاد فرمایا :
'' صلاۃاللیل ظلا فوقہ ۔''
یعنی نماز شب اس کے سرپر سایہ کی طرح نمودار ہوگی وتاجاًعلی راسہ یعنی نماز شب قیامت کے دن ایک تاج کی مانند ظاہر ہوگی نیز فرمایا ولباسا علی بدنہ نماز شب اس کے بدن پر لباس کی مانند ایک پردہ ہے ونورا سعی بین یدیہ اور نماز شب نور بن کر اس کے سامنے روشن ہوجائے گی وسترا بینہ وبین النار اور نماز شب نمازی اور جہنم کے درمیان ایک پردہ ہے وحجۃ بین یدی اللہ تعالی۔
خدا اور نمازی کے درمیان دلیل اور برہان ہوگی، وثقلا فی المیزان اور نامہ اعمال کے سنگین ہونے کا سبب ہے پس خلاصہ نماز شب حساب وکتاب میزان عمل حشرو نشر کے مو قع پر کام آنے والا واحد ذریعہ ہے لہٰذا فراموش نہ کیجئے ۔