توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
 
نماز کے احکام
ٍ نماز دینی اعمال میں سے بہترین عمل ہے۔ اگر یہ بارگاہ الہٰی میں قبول ہوگئی تو دوسری عبادات بھی قبول ہوجائیں گی اور اگر یہ قبول نہ ہوئی تو دوسرے اعمال بھی قبول نہ ہوں گے۔ جس طرح انسان اگر دن رات میں پانچ دفعہ نہر میں نہائے دھوئے تو اس کے بدن پر میل کچیل نہیں رہتی اسی طرح پنج وقتہ نماز بھی انسان کو گناہوں سے پاک کردیتی ہے اور بہتر ہے کہ انسان اول وقت میں نماز پڑھے جو شخص نماز کو معمولی اور غیر اہم سمجھے وہ اس شخص کی مانند ہے جونماز نہ پڑھتا ہو۔
حضور نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص نماز کو اہمیت نہ دے اور اسے معمولی چیز سمجھے وہ آخر ت میں عذاب کا مستحق ہے۔
ٍ ایک دن آپ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا لیکن رکوع اور سجود مکمل طور پر نہ بجالایا اس پر آپ نے فرمایا اگر یہ شخص اس حالت میں مرجائے جبکہ اس کے نماز پڑھنے کا یہ طریقہ ہے تو یہ ہمارے دین پر نہیں مرے گا۔پس انسان کو خیال رکھنا چاہیئے کہ نماز جلدی جلدی نہ پڑھے اور نماز کی حالت میں خدا کی یاد میں رہے اور خشوع و خصو ع اور وقار اور یکسوئی سے نماز پڑھے اور یہ خیال رکھے کہ کسی ہستی سے کلام کررہا ہے اور اپنے آپ کو خداوند عالم کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں حقیر اور ناچیز سمجھے ۔ اگر انسان نماز کے دوران پوری طرح ان باتوں کی طرف متوجہ رہے تو وہ اپنے آپ سے بے خبر ہوجاتا ہے جیسا کہ نماز کی حالت میں حضرت امیرالمومنین امام علی  کے پاؤں سے تیر کھنچ لیاگیا اور آپ کو خبر تک نہ ہوئی علاوہ ازیں نمازپڑھنے والے کو چاہیئے کہ تو بہ و استغفار کرے اور نہ صرف ان گناہوں کو جو نماز قبول ہونے میں مانع ہوتے ہیں۔مثلاً حسد ، تکبر ، غیبت ، حرام کھانا ، شراب پینا اور خمس و زکوٰة کا ادا نہ کرنا ۔ ترک کرے بلکہ تمام گناہ ترک کردے نیز بہتر ہے کہ جو کام نماز کا ثواب گھٹاتے ہیں وہ نہ کرے ۔ مثلا ً اونگھنے کی حالت میں یا پیشاب روک کر نماز کیلئے کھڑا نہ ہو اور نماز کے موقع پر آسمان کی طرف نہ دیکھے اور جو کام کرے نو نماز کا ثواب بڑھاتے ہیں مثلا ً عقیق کی انگوٹھی اور پاکیزہ لباس پہننا ، گنگھی اور مسواک کرنا اور خوشبو لگانا۔

واجب نمازیں
چھ نمازیں واجب ہیں :
(۱) روزانہ کی نمازیں
(۲) نماز آیات
(۳) نماز میت
(۴) خانہ کعبہ کے واجب طواف کی نماز
(۵) باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر احتیاط کی بنا پر واجب ہیں۔
(۶) جو نمازیں اجارہ ، منت ، قسم اور عہد سے واجب ہو جاتی ہیں نماز جمعہ روزانہ نمازوں میں سے ہے۔

روزانہ کی واجب نمازیں :
روزانہ کی واجب نمازیں پانچ ہیں:
ظہر اور عصر (ہر ایک چار رکعت) مغرب (تین رکعت) اور فجر (دو رکعت)
(۷۱۷) انسان سفر میں ہو تو ضروری ہے کہ چار رکعتی نمازیں ان شرائط کے ساتھ جو بعد میں بیان ہوں گی دو رکعت پڑھے۔

ظہراور عصر کی نماز کا وقت
(۷۱۸) ظہر اور عصر کی نماز کا وقت زوال آفتاب (ظہر شرعی ۱# ) کے بعد سے غروب آفتاب تک ہے لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر عصر کی نماز کو ظہر کی نماز سے پہلے پڑھے تو اس کی عصر کی نماز باطل ہے سوائے اس کے کہ وقت کے آخر تک ایک نماز سے زیادہ پڑھنے کا وقت باقی نہ ہو کیونکہ ایسی صورت میں اگر اس نے ظہر کی نماز نہیں پڑھی تو اس کی ظہر کی نماز قضا ہوگئی اور ضروری ہے کہ عصر کی نماز پڑھے اور اگر کوئی شخص اس وقت سے پہلے غلط فہمی کی بنا پر عصر کی پوری نماز ظہر کی نماز سے پہلے پڑھ لے تو اس کی نماز صحیح ہے اور ضروری ہے کہ پھر ظہرکی نماز پڑھے ۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ بعد میں پڑھی جانے والی چار رکعت کو مافی الذمہ کی نیت سے پڑھے۔
(۷۱۹) اگر کوئی شخص ظہر کی نماز پڑھنے سے پہلے غلطی سے عصر کی نماز شروع کردے اور نماز کے دوران اسے پتا چلے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے تو اسے چاہیئے کہ نیت نماز ظہر کی جانب پھیردے یعنی نیت کرے کہ جو کچھ میں پڑھ چکا ہوں اور پڑھ رہاہوں اور پڑھوں گا وہ تمام کی تمام نماز ظہر ہے اور جب نماز ختم کرے تو اس کے بعد عصر کی نماز پڑھے۔

نماز جمعہ اور اس کے احکام
(۷۲۰) جمعہ کی نماز صبح کی نماز کی طرح دورکعت ہے ۔ اس میں اور صبح کی نماز میں فرق یہ ہے کہ اس نماز سے پہلے دو خطبے بھی ہیں۔ جمعہ کی نماز واجب تخیری ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ اگر نماز جمعہ کی شرائط موجود ہوں تو جمعہ کی نماز پڑھے یا ظہر کی نماز پڑھے لہٰذا اگر انسان جمعہ کی نماز پڑھے تو وہ ظہر کی نماز کی کفایت کرتی ہے (یعنی پھر ظہر کی نماز پڑھنا ضروری نہیں)

جمعہ کی نماز واجب ہونے کی چند شرطیں ہیں
(۱) وقت کا داخل ہونا جو کہ زوال آفتاب ہے اور اس کا وقت اول زوال عرفی ہے پس جب بھی اس سے تاخیر ہوجائے ، اس کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور پھر ضروری ہے کہ ظہر کی نماز ادا کی جائے۔
(۲) نماز پڑھنے والوں کی تعداد جو کہ بمعہ امام پانچ افراد ہے اور جب تک پانچ مسلمان اکٹھے نہ ہوں جمعہ کی نماز واجب نہیں ہوتی۔
(۳) امام کا جامع شرائط امامت ہونا مثلاً عدالت وغیرہ جو کہ امام جماعت میں معتبر ہیں اور نماز جماعت کی بحث میں بتایا جائے گا اگر یہ شرط پوری نہ ہو تو جمعہ کی نماز واجب نہیں ہوتی۔

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی چند شرطیں ہیں
(۱) باجماعت پڑھا جانا پس یہ نماز فرادی ادا کرنا صحیح نہیں اور جب مقتدی نماز کی دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے امام کے ساتھ شامل ہوجائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور وہ اس کے بعد ایک رکعت فرادی پڑھ لے گا اور اگر وہ دوسری رکعت کے رکوع میں نماز میں شامل ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس نماز جمعہ پر اکتفا نہیں کرسکتا اور ضروری ہے کہ ظہر کی نماز پڑھے۔
(۲) نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا ۔ پہلے خطبے میں خطیب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے نیز نمازیوں کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی تلقین کرے اور قرآن مجید کا ایک چھوٹا سورہ پڑھے اور دوسرے خطبے میں ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بجالائے ۔ پھر حضرت رسول اکرم اور آئمہ علہیم السلام پر درود بھیجے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مومنین اور مومنات کیلئے استغفار (بخشش کی دعا) کرے۔ ضروری ہے کہ خطبے نماز سے پہلے پڑھے جائے ۔ پس اگر نماز دو خطبوں سے پہلے شروع کرلی جائے تو صحیح نہیں ہوگی اور زوال افتاب سے پہلے خطبے پڑھنے میں اشکال ہے اور ضروری ہے کہ جو شخص خطبے پڑھے وہ خطبے پڑھنے کے وقت کھڑا ہو لہٰذا اگر وہ بیٹھ کر خطبے پڑھے گا تو صحیح نہیں ہوگا اور دو خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فاصلہ دینا لازم ہے جو کہ ضروری ہے کہ چند لمحوں کیلئے ہو یہ بھی ضروری ہے کہ امام جماعت ہی خطبے پڑھے ۔ احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اسی طرح پیغمبر اکرم اور آئمہ مسلمین علیہم السلام پر درودو عربی زبان میں ہو اور اس سے زیادہ میں عربی معتبر نہیں ہے بلکہ اگر حاضرین کی اکثریت عربی نہ جانتی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ بطور خاص تقوی کے بارے میں وعظ و نصیحت کرتے وقت جو زبان حاضرین جانتے ہیں اسی میں تقویٰ کی نصیحت کرے۔
(۳) یہ کہ جمعہ کی دو نمازوں کے درمیان ایک فرسخ سے کم فاصلہ نہ ہو ۔ پس جب جمعہ کی دوسری نماز ایک فرسخ سے کم فاصلے پر قائم ہو اور دونمازیں بیک وقت پڑھی جائیں تو دونوں باطل ہوں گی اور اگر ایک نماز کو دوسری پر سبقت حاصل ہو خواہ وہ تکبیرة الاحرام کی حد تک ہی کیوں نہ ہو تو وہ (نماز جسے سبقت حاصل ہو) صحیح ہوگی اور دوسری باطل ہوگی لیکن اگر نماز کے بعد پتا چلے کہ ایک فرسخ سے کم فاصلے پر جمعہ کی ایک اور نماز اس نماز سے پہلے یا اس کے ساتھ ساتھ قائم ہوئی تھی تو ظہر کی نماز بجالانا واجب نہیں ہوگی ۔ جمعہ کی نماز کا قائم کرنا مذکورہ فاصلے کے اندر جمعہ کی دوسری نماز قائم کرنے میں اس وقت مانع ہوتا ہے جب وہ نماز خود صحیح اور جامع الشرائط ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر یہ جماعت مانع نہیں ہوتی۔
(۷۲۱) جب جمعہ کی ایک ایسی نماز قائم ہو جو شرائط کو پورا کرتی ہو اور نماز قائم کرنے والا امام وقت یا اس کا نائب خاص ہو تو اس صورت میں نماز جمعہ کیلئے حاضر ہونا واجب ہے ۔ اس صورت کے علاوہ حاضر ہونا واجب نہیں ہے پہلی صورت میں بھی چند افراد پر نماز میں شرکت واجب نہیں ہے۔
(۱) عورت
(۲) غلام
(۳) مسافر ،چاہے وہ مسافرایسا ہو جس کی ذمہ دار پوری نماز پڑھنا ہو جیسے وہ مسافر جس نے کسی مقام پر دس دن ٹھہرنے کا ارادہ کرلیا ہو۔
(۴) بیمار ، نابینا اور بوڑھے افراد
(۵) ایسے افراد جن کا فاصلہ قائم شدہ نماز جمعہ سے دو شرعی فرسخ سے زیادہ ہو۔
(۶) وہ افراد جن کیلئے جمعہ کی نماز میں بارش یا سخت سردی وغیرہ کی وجہ سے حاضر ہونا زحمت یا تکلیف کا باعث ہو۔

نماز جمعہ کے چند احکام
(۷۲۲) نماز جمعہ کے چند احکام یہ ہیں:
(۱) اس بنیاد پر کہ غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ واجب عینی نہیں ہے ، انسان اول وقت میں بلاتا خیر ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے۔
(۲) امام کے خطبے کے دوران باتیں کرنا مکروہ ہے لیکن اگر باتوں کی وجہ سے خطبہ سننے میں رکاوٹ ہو تو احتیاط کی بنا پر باتیں کرنا جائز نہیں ہے۔
(۳) احتیاط کی بنا پر دونوں خطبوں کا سننا واجب ہے لیکن جو لوگ خطبوں کے معنی نہ سمجھتے ہوں ان کیلئے سننا واجب نہیں ہے۔
(۴) جب امام جمعہ خطبہ پڑھ رہ اہو تو حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔

اوقات نماز کے احکام
مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت
(۷۲۳) اگر شک ہو کہ سورج غروب ہوا یا نہیں اور اس بات کا احتمال ہو کہ سورج پہاڑوں ، عمارتوں یا درختوں کے پیچھے چھپ گیا ہے تو ضروری ہے کہ جب تک مشرق کی طرف کی سرخی جو سورج غروب ہونے کے بعد نمودار ہوتی ہے ، انسان کے سر کے اوپر سے نہ گزرجائے ، مغرب کی نماز نہ پڑھے بلکہ اگر شک نہ ہو تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ مذکورہ وقت تک صبر کرے۔
(۷۲۴) مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت مختار شخص کیلئے آدھی رات تک رہتا ہے لیکن جن لوگوں کو کوئی عذر ہو مثلا ً بھول جانے کی وجہ سے یا نیند یا حیض یا ان جیسے وسرے امور کی وجہ سے آدھی رات سے پہلے نماز نہ پڑھ سکے ہوں تو ان کیلئے مغرب اور عشاء کی نماز کا وقت فجر طلوع ہونے تک باقی رہتا ہے ۔ لیکن ان دونوں نمازوں کے درمیان متوجہ ہونے کی صورت میں ترتیب معتبر ہے یعنی عشاء کی نماز کو جان بوجھ کر مغرب کی نماز سے پہلے پڑھے تو باطل ہے لیکن اگر عشاء کی نماز ادا کرنے کی مقدار سے زیادہ وقت باقی نہ رہاہو تو اس صورت میں لازم ہے کہ عشاء کی نماز کو مغرب کی نماز سے پہلے پڑھے۔
(۷۲۵) اگر کوئی شخص غلط فہمی کی بنا پر عشاء کی نماز مغرب کی نماز سے پہلے پڑھ لے اور نماز کے بعد اس امر کی جانب متوجہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور ضروری ہے کہ مغرب کی نماز اس کے بعد پڑھے۔
(۷۲۶) اگر کوئی شخص مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے بھول کر عشاء کی نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور نماز کے دوران اسے پتا چلے کہ اس نے غلطی کی ہے اور ابھی وہ چوتھی رکعت کے رکوع تک نہ پہنچا ہو تو ضروری ہے کہ مغرب کی نماز کی طرف نیت پھیرلے اور نماز کو تمام کرے اور بعد میں عشاء کی نماز پڑھے اور اگر چوتھی رکعت کے رکوع میں جاچکا ہو تو وہ یہ کرسکتا ہے کہ اسے عشاء کی نماز قرار دے کر ختم کرے اور بعد میں مغرب کی نماز بجالائے۔
(۷۲۷) عشاء کی نماز کا وقت مختار شخص کیلئے آدھی رات تک ہے اور رات کا حساب سورج غروب ہونے کی ابتداء سے طلوع فجر تک ہے ۔
(۷۲۸) اگر کوئی شخص اختیاری حالت میں مغرب اور عشاء کی نماز آدھی رات تک نہ پڑھے تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اذان صبح سے پہَے قضا اور ادا کی نیت کئے بغیر ان نمازوں کو پڑھے۔

صبح کی نماز کا وقت
(۷۲۹) صبح کی اذان کے قریب مشرق کی طرف سے ایک سفیدی اوپر اٹھتی ہے جسے فجر اول کہا جاتا ہے ۔ جب یہ سفیدی پھیل جائے تو وہ فجر دوم اور صبح کی نماز کا اول وقت ہے اور صبح کی نماز کا آخری وقت سورج نکلنے تک ہے۔

اوقات نماز کے احکام
(۷۳۰) انسان نماز میں اس وقت مشغول ہوسکتا ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ وقت داخل ہوگیا ہے یادو عادل مردوقت داخل ہونے کی خبر دیں بلکہ کسی ایسے شخص کی اذان یاگواہی پر بھی اکتفا کیا جاسکتا ہے جس کے بارے میں مکلف جانتا ہو کہ یہ وقت کا بڑی شدت سے خیال رکھتا ہے جب کہ اس کی بات پر اطمینان بھی آجائے۔
(۷۳۱) اگر کوئی شخص کسی فردی رکاوٹ مثلاً بینائی نہ ہونے یا قید خانے میں ہونے کی وجہ سے نماز کا اول وقت داخل ہونے کا یقن نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ نماز پڑھنے میں تاخیر کرے حتی کہ اسے یقین یا اطمینان ہو جائے کہ وقت داخل ہوگیا ہے۔ اسی طرح اگر وقت داخل ہونے کا یقین ہونے میں ایسی چیز مانع ہوجو عمومی ہو مثلاً بادل یا غبار وغیرہ ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کیلئے بھی یہی حکم ہے۔
(۷۳۲) اگر مذکورہ بالا کسی طریقے سے کسی شخص کو اطمینان ہوجائے کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے اور وہ نماز میں مشغول ہوجائے لیکن نماز کے دوران اسے پتا چلے کہ ابھی وقت داخل نہیں ہوا تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر نمازکے بعد پتا چلے کہ اس نے ساری نماز دقت سے پہلے پڑھی ہے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لیکن اگر نماز کے دوران اسے پتا چلے کہ وقت داخل ہوگیا ہے یا نماز کے بعد پتا چلے کہ نماز پڑھتے ہوئے وقت داخل ہوگیا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۳۳) اگر کوئی شخص اس امر کی جانب متوجہ نہ ہو کہ وقت کے داخل ہونے کا یقین کرکے نماز میں مشغول ہونا چاہئے لیکن نماز کے بعد اسے معلوم ہو کہ اس نے ساری نماز وقت میں پڑھی ہے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر اسے یہ پتا چل جائے کہ اس نے وقت سے پہلے نماز پڑھی ہے یا اسے یہ پتا نہ چلے وہ وقت میں پڑھی ہے یا وقت سے پہلے پڑھی ہے تو اس کی نماز باطل ہے بلکہ اگر نماز کے بعد پتا چلے کہ نماز کے دوران وقت داخل ہوگیا تھا تب بھی ضروری ہے کہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے۔
(۷۳۴) اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ وقت داخل ہوگیا ہے اور نماز پڑھنے لگے لیکن نما زکے دوران شک کرے کہ وقت داخل ہوا ہے یا نہیں تو اس کی نماز باطل ہے ۔ لیکن اگر نماز کے دوران اسے یقین ہو کہ وقت داخل ہوگیا ہے اور شک کرے کہ جتنی نماز پڑھی ہے وہ وقت میں پڑھی ہے یا نہیں تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۳۵) اگر نماز کا وقت اتنا تنگ ہو کہ نماز کے بعض مستحب افعال ادا کرنے سے نماز کی کچھ مقدار وقت کے بعد پڑھنی پڑتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ مستحب امور کو چھوڑ دے ۔ مثلاً اگر قنوت پڑھنے کی وجہ سے نماز کا کچھ حصّہ وقت کے بعد پڑھنا پڑتا ہو تو ضروری ہے کہ قنوت نہ پڑھے اور اگر پھر بھی قنوت پڑھ لے تو اسی صورت میں نماز صحیح ہوگی جب کم از کم ایک رکعت نماز وقت میں پڑھی گئی ہو۔
(۷۳۶) جس شخص کے پاس نماز کی فقط ایک رکعت ادا کرنے کا وقت ہواسے چاہیئے کہ نماز ادا کی نیت سے پڑھے ۔ البتہ اسے جان بوجھ کر نماز میں اتنی تاخیر نہیں کرنی چاہئے ۔
(۷۳۷) جو شخص سفر میں نہ ہو اگر اس کے پاس غروب آفتاب تک پانچ رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہئے کہ ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں پڑھے لیکن اگر اس کے پاس اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ صرف عصر کی نماز پڑھے اور بعد میں ظہر کی نماز قضا کرے اور اسی طرح اگر آدھی رات تک اس کے پاس پانچ رکعت پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہے کہ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھے اور اگر وقت اس سے کم ہو تو ضروری ہے کہ صرف عشاء کی نماز پڑھے اور بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر نماز مغرب پڑھے۔
(۷۳۸) جو شخص سفر میں ہواگر غروب آفتاب تک اس کے پاس تین رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہیئے کہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھے اور اگر اس سے کم وقت ہو تو ضروری ہے کہ صرف عصر پڑھے اور بعد میں نماز ظہر کی قضا کرے اور اگر آدھی رات تک اس کے پاس چار رکعت نماز پڑھنے کے اندازے کے مطابق وقت ہو تو اسے چاہیئے کہ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھے اور اگر نماز کے تین رکعت کے برابر وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ عشاء کی نماز پڑھے اور بعد میں مغرب کی نماز بجالائے تاکہ نماز مغرب کی ایک رکعت وقت میں انجام دی جائے اور اگر نماز کی تین رکعت سے کم وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ پہلے عشاء کی نماز پڑھے اور بعد میں مغرب کی نماز ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر پڑھے اور اگر عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد معلوم ہو جائے کہ آدھی رات ہونے میں ایک رکعت یا اس سے زیادہ رکعتیں پڑھنے کیلئے وقت باقی ہے تو اسے چاہئے کہ مغرب کی نماز فورا ادا کی نیت سے بجالائے۔
(۷۳۹) انسان کیلئے مستحب ہے کہ نماز اول وقت میں پڑھے اور اس کے متعلق بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور جتنا اول وقت کے قریب ہو بہتر ہے ماسوا اس کے کہ ا س میں تاخیر کسی وجہ سے بہتر ہو ۔ مثلاًاس لئے تھوڑا سا انتظار کرے کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے۔
(۷۴۰) جب انسان کے پاس کوئی ایسا عذر ہو کہ اگر اول وقت میں نماز پڑھنا چاہے تو تیمم کرکے نماز پڑھنے پر مجبور ہو ، تو اس صورت میں اگر وہ آخر وقت تک عذر کے دور ہونے سے مایوس ہو یا اس بات کا احتمال ہو کہ اگر تاخیر کی تو پھر تیمم بھی نہ کرپائے گا تو وہ اول وقت میں تیمم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے لیکن اگر مایوس نہ ہو تو ضروری ہے کہ اتنا انتظار کرے کہ اس کا عذر دور ہوجائے یا عذر کے دور ہونے سے مایوس ہو جائے اور اگر اس کا عذر دورنہ ہو تو آخر وقت میں نماز پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ اس قدر انتظار کرے کہ نماز کے صرف واجب افعال انجام دے سکے بلکہ اگر اس کے پاس مستحبات نماز مثلا اذان ، اقامت اور قنوت کیلئے بھی وقت ہو تو وہ تیمم کرکے ان مستحبات کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے اور تیمم کے علاوہ دوسری مجبوریوں کی صورت میں اگر چہ عذر دور ہونے سے مایوس نہ ہو ا ہو اس کیلئے جائز ہے کہ اول وقت میں نماز پڑھے۔
(۷۴۱) اگر ایک شخص نماز کے مسائل کا علم نہ رکھتا ہو اور ان کو سیکھے بغیر صحیح نماز کی ادائیگی پر قدرت نہ رکھتا ہو یا اسے نماز کے شکیات اور سہویات کا علم نہ ہو اور اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اسے نماز کے دوران ان مسائل میں سے کوئی نہ کوی مسئلہ پیش آئے گا اور اس کے نہ سیکھنے کی وجہ سے کسی واجب کی مخالفت یاکسی حرام کا ارتکاب کرنا پڑے گا تو ضروری ہے کہ انہیں سیکھنے کے لئے نماز کو اوّل وقت سے موخر کردے۔ لیکن اگر اس امید پر کہ نماز کو صحیح طریقے سے انجام دے لے گا تو اول وقت میں نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے ۔ پس اگر نماز میں کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ آئے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اگر کوئی ایسا مسئلہ پیش آجائے جس کا حکم نہ جانتا ہو تو اس کیلئے جائز ہے کہ جن دو باتوں کا احتمال ہو ان میں سے ایک کے مطابق اس امید پر عمل کرے کہ یہی اس کی ذمہ داری ہوگی اور نماز ختم کرے تاہم ضروری ہے کہ نماز کے بعد مسئلہ پوچھے اور اگر اس کی نماز باطل ثابت ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر صحیح ہو تو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔
(۷۴۲) اگر نماز کا وقت وسیع ہو اور قرض خواہ بھی اپنے قرض کا مطالبہ کررہا ہو تو اگر ممکن ہو تو ضروری ہے کہ پہلے قرضہ ادا کرے اور بعد میں نماز پڑھے اور اگر کوئی ایسا دوسرا واجب کام پیش آجائے جسے فوراً بجالاناضروری ہو تو اس کیلئے بھی یہی حکم ہے ۔ مثلاً اگر دیکھے کہ مسجد نجس ہوگئی ہے تو ضروری ہے کہ پہلے مسجد کو پاک کرے اور بعد میں نماز پڑھے اور اگر مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں پہلے نماز پڑھے تو گناہ کا مرتکب ہوگا لیکن اس کی نماز صحیح ہوگی۔

وہ نمازیں جو ترتیب سے پڑھنی ضروری ہیں
(۷۴۳) ضروری ہے کہ انسان نماز عصر ، ظہر کے بعد اور نماز عشاء مغرب کے بعد پڑھے۔ اگر جان بوجھ کر نماز عصر ، ظہر سے پہلے اور نماز عشاء ، مغرب سے پہلے پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۷۴۴) اگر کوئی شخص نماز ظہر کی نیت سے نماز پڑھنا شروع کرے اور نماز کے دوران اسے یاد آئے کہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو وہ نیت کو نماز عصر کی جانب نہیں موڑ سکتا بلکہ ضروری ہے کہ نماز توڑ کر نماز عصر پڑھے اور مغرب اور عشاء کی نماز میں بھی یہی صورت ہے۔
(۷۴۵) اگر نماز عصر کے دوران کسی شخص کو یقین ہو کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی ہے اور وہ نیت کو نماز ظہر کی طرف موڑ دے تو جونہی اسے یاد آئے کہ وہ نماز ظہر پڑھ چکا ہے تو اس صورت میں کہ اس نے نماز کے بعض اجزاء کو ظہر کی نیت سے انجام نہ دیاہو یا ظہر کی نیت سے انجام دیا ہو لیکن ان اجزاء کو عصر کی نیت سے دوبارہ انجام دے دے تو وہ نیت کو دوبارہ عصر کی طرف موڑ کر نماز کو مکمل کرسکتا ہے ۔ ہاں اگر وہ جزوایک رکعت ہو تو پھر ہر صورت میں نماز باطل ہے اسی طرح اگر وہ جزوایک رکعت کا رکوع ہو یا دو سجدے ہوں تو احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل ہے۔
(۷۴۶) اگر کسی شخص کو نماز عصر کے دوران شک ہو کہ اس نے نماز ظہر پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ عصر کی نیت سے نماز تمام کرے اور بعد میں ظہر کی نماز پڑھے لیکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز پڑھنے کی بعد سورج ڈوب جاتا ہو اور ایک رکعت نماز کیلئے بھی وقت باقی نہ بچتا ہو تو لازم نہیں ہے کہ نماز ظہر کی قضاپڑھے۔
(۷۴۷) اگر کسی شخص کو نماز عشاء کے دوران شک ہو جائے کہ اس نے مغرب کی نماز پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ عشاء کی نیت سے نماز ختم کرے اور بعد میں مغرب کی نماز پڑھے۔ لیکن اگر وقت اتنا کم ہو کہ نماز ختم ہونے کے بعد آدھی رات ہوجاتی ہو اور ایک رکعت نماز کا وقت بھی نہ بچتا ہو تو نماز مغرب کی قضا اس پر لازم نہیں ہے۔
(۷۴۸) اگر کوئی شخص نماز عشاء کی چوتھی رکعت کے رکوع میں پہنچنے کے بعد شک کرے کہ اس نے نماز مغرب پڑھی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ نماز مکمل کرے اور اگر بعد میں مغرب کی نماز کیلئے وقت باقی ہو تو مغرب کی نماز بھی پڑھے۔
(۷۴۹) اگر کوئی شخص ایسی نماز جواس نے پڑھ لی ہو احتیاطاً دوبارہ پڑھے اور نماز کے دوران اسے یاد آئے کہ اس نماز سے پہلے والی نماز نہیں پڑھی تو وہ نیت کو اس نماز کی طرف نہیں موڑ سکتا ۔ مثلاً جب وہ نماز عصر احتیاطاً پڑھ رہا ہو اگر اسے یاد آئے کہ اس نے نماز ظہر نہیں پڑھی تو وہ نیت کو نماز ظہر کی طرف نہیں موڑ سکتا۔
(۷۵۰) نماز قضا کی نیت ادا کی طرف اور نماز مستحب کی نیت نماز واجب کی طرف موڑنا جائز نہیں ہے ۔
(۷۵۱) اگر ادا نماز کا وقت وسیع ہو تو انسان نماز کے دوران یہ یاد آنے پر کہ اس کے ذمے کوئی قضا نماز ہے ، نیت کو نماز قضا کی طرف موڑ سکتا ہے ۔ بشرطیکہ نماز قضاکی طرف نیت موڑنا ممکن ہو۔ مثلا ً اگر وہ نماز ظہر میں مشغول ہو تو نیت کو قضائے صبح کی طرف اسی صورت میں موڑ سکتا ہے کہ تیسری رکعت کے رکوع میں داخل نہ ہوا ہو۔

مستحب نمازیں
(۷۵۲) مستحب نمازیں بہت سی ہیں جنہیں نفل نمازیں بھی کہتے ہیں۔ مستحب نمازوں میں سے روزانہ کی نفل نمازوں کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یہ نمازیں روز جمعہ کے علاوہ چونتیس رکعت ہیں جن میں سے آٹھ رکعت ظہر کی ، آٹھ رکعت عصر کی چار رکعت مغرب کی ، دو رکعت عشاء کی ، گیارہ رکعت نماز شب (یعنی تہجد) کی اور دو رکعت صبح کی ہوتی ہیں اور چونکہ احتیاط واجب کی بنا پر عشاء کی دو رکعت نفل بیٹھ کر پڑھنی ضروری ہیں اس لیے وہ ایک رکعت شمار ہوتی ہے لیکن جمعہ کے دن ظہر اور عصر کی سولہ رکعت نفل پر چار رکعت کا اضافہ ہو جاتا ہے بہتر ہے کہ یہ پوری پوری بیس رکعتیں زوال سے پہلے پڑھی جائیں ۔ سوائے دو رکعت کے جن کے زوال کے وقت پڑھا جانا بہتر ہے۔
(۷۵۳) نماز شب کی گیارہ رکعتوں میں سے آٹھ رکعتیں نافلہ شب کی نیت سے ، دو رکعت نماز شفع کی نیت سے اورایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھنی ضروری ہیں اور نافلہ شب کا مکمل طریقہ دعا کی کتابوں میں مذکور ہے۔
(۷۵۴) نفل نمازیں حالت اختیار میں بھی بیٹھ کر پڑھی جاسکتی ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ دو رکعتوں کو ایک رکعت سمجھا جائے البتہ بہتر ہے کہ انہیں کھڑے رہ کر پڑھے ۔ ضروری ہے کہ نماز عشاء کے نوافل احتیاط واجب کی بنا پر بیٹھ کر پڑھے۔
(۷۵۵) ظہر اور عصر کے نوافل سفر میں نہیں پڑھنی چاہئیں اور اگر عشاء کے نوافل رجا ء کی نیت سے پڑھے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

روزانہ کے نوافل کا وقت
(۷۵۶) ظہر کی نفل ، ظہر سے پہلے پڑھی جاتی ہے ۔ اس کا وقت اول ظہر سے ہے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک سے نماز ظہر اسے پہلے ادا کرنا ممکن ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص ظہر کی نفل اس وقت تک موخر کردے کہ شاخص کے سائے کی وہ مقدار جو ظہر کے بعدپیدا ہو سات میں سے دو حصوں کے برابر ہوجائے۔مثلاً شاخص کی لمبائی سات بالشت اور سایہ کی مقدار دوبالشت ہو تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ انسان ظہر کی نفل پہلے پڑھے سوائے اس کے کہ اس وقت تک نفل کی ایک رکعت مکمل کرچکا ہو کہ اس صورت میں نفل کو پہلے مکمل کرنا بہتر ہے۔
(۷۵۷) عصر کی نافلہ ، عصر کی نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور جب تک ممکن ہواسے عصر کی نماز سے پہلے پڑھا جائے اس کا وقت باقی رہتا ہے لیکن اگر کوئی شخص عصر کی نفلیں اس وقت تک موخر کردے کہ شاخص کے سائے کی وہ مقدار جو ظہر کے بعد پیدا ہو سات میں سے چار حصوں تک پہنچ جائے تو اس صورت میں بہتر ہے کہ انسان عصر کی نماز نافلہ سے پہلے پڑھ لے سوائے اس صورت میں کہ جس کا تذکرہ پچھلے مسئلے میں کیا گیا۔
(۷۵۸) مغرب کی نافلہ کا وقت نماز مغرب ختم ہونے کے بعد ہوتا ہے اور جہاں تک ممکن ہو اسے مغرب کی نماز کے بعد وقت کے اندر ہی انجام دے دیا جائے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس سرخی کے ختم ہونے تک جو سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان میں دکھائی دیتی ہے مغرب کی نافلہ میں تاخیر کرے تو اس وقت بہتر یہ ہے کہ پہلے عشاء کی نماز پڑھے۔
(۷۵۹) عشاء کی نافلہ کا وقت نماز ختم ہونے کے بعد سے آدھی رات تک ہے اور بہتر ہے کہ نماز عشاء ختم ہونے کے فوراً بعد پڑھی جائے۔
(۷۶۰) صبح کی نفلیں صبح کی نماز سے پہلے پڑھی جاتی ہیں اور اس کا وقت نماز شب کا وقت شروع ہونے کے اتنی دیر بعد شروع ہوتا ہے جس میں نماز شب ادا کی جاسکے اور اس وقت تک باقی رہتا ہے کہ جب تک صبح کی نماز سے پہلے اس کی ادائیگی ممکن ہو لیکن اگر کوئی شخص صبح کی نفلیں مشرق کی سرخی ظاہر ہونے تک نہ پڑھے تو اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ پہلے صبح کی نماز پڑھے۔
(۷۶۱) نماز شب کا اول وقت مشہور قول کی بنا پر آدھی رات ہے یہ اگر چہ احوط و بہتر ہے لیکن بعید نہیں ہے کہ اس کا وقت رات کی ابتداء سے شروع ہواور صبح کی اذان تک باقی رہے اور بہتر یہ ہے کہ صبح کی اذان کے قریب پڑھی جائے۔
(۷۶۲) اگر کوئی شخص اس وقت بیدار ہو جب صبح طلوع ہورہی ہو تو وہ ادا اور قضا کی نیت کے بغیر نماز شب ادا کرسکتا ہے۔

نماز غُفیلہ
(۷۶۳) مستحب نمازوں میں سے ایک نماز غفیلہ ہے جو مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس کی پہلی رکعت میں الحمد کے بعد کسی دوسری سورت کے بجائے یہ آیت پڑھنی ضروری ہے۔
وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَا دٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہ وَنَجَّیْنُہ مِنَ اْلغَمّ وَکَذلِک نُنْجِی الْمُوْمِنِیْنَ۔
اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد بجائے کسی اور سورت کے یہ آیت پڑھے :
وَعِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُھَا اِلَّاھُوَ وَیَعْلَمُ مَافِی الْبَرّ وَالْسَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّایَعْلَمُھَا وَلَاحَبَّةٍ فیِ ظُلُمَاتِ اْلَاْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّافِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنَ ۔
اور اس کی قنوت میں یہ پڑھے ۔
اَللّٰھُمّ َانِیُّ اَسْئَلَکُ بِمَفَاتِح اْلَغْیبِ الَّتِیْ لَا یَعْلَمُھَا اِلَّا اَنْتَ اَنْ تُصَلّیِ ْعَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَنْ تَفْعَلَ بِیْ کَذَا وَکَذَا
اور کَذَا کی بجائے اپنی حاجتیں بیان کرے اور اس کے بعد کہے :
اَلّٰلُھَّم اَنْتَ وَلِیُّ نِعْمَتِیْ وَالْقَادِرُ عَلٰی طَلَبَتِیْ تَعْلَمُ حَاجَتِیْ فَاَسْلَکُ َبِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمُ السَّلَامُ لَمَّا قَضَیتَھَا لِیْ۔

نماز میں بدن ڈھانپنا
(۷۷۶) ضروری ہے کہ مرد خواہ اسے کوئی بھی نہ دیکھ رہا ہو نماز کی حالت میں اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپے اور بہتر یہ ہے کہ ناف سے گھٹنوں تک بدن بھی ڈھانپے۔
(۷۷۷) ضروری ہے کہ عورت نماز کے وقت اپنا تمام بدن حتی کہ سراور بال بھی ڈھانپے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ اپنے آپ سے بھی چھپائے ، لہٰذا اگر عورت چادر اس طرح پہنے کہ اسے اپنا بدن نظر آرہا ہو تو اس میں بھی اشکال ہے ۔ البتہ چہر ے کا جتنا حصہ وضو میں دھویا جاتا ہے اور کلائیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں کا ظاہری حصہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے لیکن یہ یقین کرنے کیلئے کہ اس نے بدن کی واجب مقدار ڈھانپ لی ہے ضروری ہے کہ چہرے کی اطراف کا کچھ حصہ اور کلائیوں وٹخنوں سے نیچے کا کچھ حصہ بھی ڈھانپے۔
(۷۷۸) جب انسان بھولے ہوئے سجدے یا بھولے ہوئے تشہد کی قضا بجالارہا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح ڈھانپے جس طرح نماز کے وقت ڈھانپا جاتا ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ سجدہ سہو ادا کرنے کے وقت بھی اپنے آپ کو ڈھانپے۔
(۷۷۹) اگر انسان جان بوجھ کر نماز میں اپنی شرمگاہ نہ ڈھانپے تو اس کی نماز باطل ہے ۔ اگر مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر ایسا کرے جب کہ اس کا لاعلمی مسائل دین سیکھنے میں اس کی اپنی کوتاہی کا نتیجہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
(۷۸۰) اگر کسی شخص کو نماز کے دوران پتا چلے کہ اس کی شرمگاہ برہنہ ہے تو ضروری ہے کہ اپنی شرمگاہ چھپائے اور اس پر لازم نہیں ہے کہ نماز دوبارہ پڑھے ۔ لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ جب اسے پتا چلے کہ اس کی شرمگاہ برہنہ ہے تو اس کے بعد نماز کا کوئی جزانجام نہ دے ۔ لیکن اگر اسے نماز کے بعد پتا چلے کہ نماز کے دوران اس کی شرمگاہ برہنہ تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۸۱) اگر کسی شخص کا لباس کھڑے ہونے کی حالت میں اس کی شرمگاہ کو ڈھانپ لے لیکن ممکن ہوکہ دوسری حالت میں مثلاً رکوع اور سجود کی حالت میں نہ ڈھانپے تو اگرشرمگاہ کے برہنہ ہونے کے وقت اسے کسی ذریعے سے ڈھانپ لے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس لباس کے ساتھ نماز نہ پڑھے۔
(۷۸۲) انسان نماز میں اپنے آپ کو گھاس پھونس اور درختوں کے پتوں سے ڈھانپ سکتا ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان چیزوں سے اس وقت ڈھانپے جب اس کے پاس کوئی اور چیز نہ ہو۔
(۷۸۳) انسان کے پاس مجبوری کی حالت میں شرمگاہ چھپانے کیلئے کوئی چیز نہ ہو تو اپنی شرمگاہ کی کھال نمایاں نہ ہونے کیلئے گارایا اس جیسی کسی دوسری چیز کو لیپ پوت کراسے چھپائے۔
(۷۸۴) اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز ایسی نہ ہو جس سے وہ نماز میں اپنے آپ کو ڈھانپے اور ابھی وہ ایسی چیز ملنے سے مایوس بھی نہ ہو ا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ نماز پڑھنے میں تاخیر کرے اور اگر کوئی چیز نہ ملے تو آخر وقت میں اپنے وظیفے کے مطابق نماز پڑھے اور اگر وہ کسی چیز کے ملنے سے مایوس ہو تو اول وقت میں ہی نماز ادا کرسکتا ہے اور اس صورت میں اگر وہ اول وقت میں نماز پڑھے اور اس کا عذر آخر وقت تک باقی نہ رہے توضروری نہیں کہ نماز دوبارہ پڑھے۔
(۷۸۵) اگر کسی شخص کے پاس جو نماز پڑھنا چاہتا ہو اپنے آپ کو ڈھانپنے کیلئے درخت کے پتے ، گھاس ، گارایا کائی بھی نہ ہو اور آخر وقت تک کسی ایسی چیز کے ملنے سے مایوس ہو جس سے وہ اپنے آپ کو چھپا سکے اگر اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ کوئی ایسا شخص نہیں دیکھے گا جس سے شرمگاہ چھپاناواجب ہے تو وہ کھڑا ہو کر اسی طرح نماز پڑھے جس طرح اختیاری حالت میں رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر اسے اس بات کا احتمال ہو کہ کوئی ایسا شخص اسے دیکھ لے گا تو ضروری ہے کہ اس طرح نماز پڑھے کہ اس کی شرمگاہ نظر نہ آئے، مثلاً بیٹھ کر نماز پڑھے اور اگر اپنے آپ کو ایسے کسی فرد کے دیکھنے سے بچانے کیلئے مجبور ہو کہ قیام ، رکوع اور سجود تینوں کو ترک کردے ، یعنی تینوں حالتوں میں اس پر نظر پڑرہی ہو تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور رکوع وسجود کو بیٹھ کر انجام دے اور اگر صرف کسی ایک چیز کو ترک کرنے پر مجبور ہو تو صرف اسی کو ترک کرے ، لہٰذا اگر کھڑا ہونا ممکن ہے تو کھڑے رہ کر نماز پڑھے اور رکوع و سجود اشارے سے بجالائے اور اگر صرف قیام میں اس پر نظر پڑ رہی ہے تو بیٹھ جائے اور رکوع و سجود کو انجام دے ۔ اگرچہ اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایسی صورت میں بیٹھ کر پڑھی جانے والی نماز کے ساتھ ساتھ کھڑے ہو کر پڑھے جانی والی نماز بھی ادا کرے جس میں رکوع و سجود کو اشارے سے انجام دیا گیا ہو اور احتیاط لازم یہ ہے کہ برہنہ شخص نماز کی حالت میں اپنی شرمگاہ کو اپنے بعض اعضاء کے ذریعے مثلاً بیٹھا ہو تو دونوں رانوں سے اور کھڑا ہو تو دونوں ہاتھوں سے چھپالے۔

نمازی کے لباس کی شرائط
(۷۸۶) نماز پڑھنے والے کے لباس کی چھ شرطیں ہیں۔
(۱) پاک ہو۔
(۲) مباح ہو بنا براحتیاط واجب۔
(۳) مردار کے اجزاء سے نہ بنا ہو۔
(۴) درندے کے اجزاء سے بنا ہو انہ ہو بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر حرام گوشت حیوان کے اجزاء سے نہ بنا ہو۔
(۵۔۶) اگر نماز پڑھنے والا مرد ہو تو اس کا لباس خاص ریشم اور زردوزی کا بنا ہوا نہ ہو ان شرطوں کی تفصیل آئندہ مسائل میں بتائی جائے گی۔

پہلی شرط
(۷۸۷) نماز پڑھنے والے کا لباس پاک ہونا ضروری ہے اگر کوئی شخص حالت اختیار میں نجس بدن یا نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۷۸۸) اگر کوئی شخص مسائل دین سیکھنے میں اپنی کوتاہی کی وجہ سے یہ نہ جانتا ہو کہ نجس بدن اور لباس کے ساتھ نماز باطل ہے یا مثلا یہ نہ جانتا ہو کی منی نجس ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر چکا ہے تو اس کی قضاکرے۔
(۷۸۹) اگر کوئی شخص مسئلے سے لاعلمی کی بنا پر نجس لباس یا بدن کے ساتھ نماز پڑھ لے جب کہ مسائل دین سیکھنے میں کوتاہی نہ کہ ہو تو اس نماز کو دہرانا یا قضاء کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۷۹۰) اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو کہ اس کا بدن یا لباس نجس نہیں ہے اور اس کے نجس ہونے کے بارے میں اسے نماز کے بعد پتا چلے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۹۱) اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور اسے نماز کے دوران یا اس کے بعد یاد آئے چنانچہ اگر اس نے لاپروائی اور اہمیت نہ دینے کی وجہ سے بھلا دیا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے ۔ اس صورت کے علاوہ ضروری نہیں ہے کہ وہ نماز کو دوبارہ پڑھے ۔ لیکن اگر نماز کے دوران اسے یاد آئے تو ضروری ہے کہ اس حکم پر عمل کرے جو بعد والے مسئلے میں بیان کیا جائے گا۔
(۷۹۲) جو شخص وسیع وقت میں نماز میں مشغول ہو ، اگر نماز کے دوران اسے پتا چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس ہے اور اسے یہ احتمال ہو کہ نماز شروع کرنے کے بعد نجس ہوا ہے تو اس صورت میں اگر بدن یا لباس پاک کرنے یا لباس تبدیل کرنے یا لباس اتار دینے سے نماز نہ ٹوٹے تو نماز کے دوران بدن یا لباس پاک کرے یا لباس تبدیل کرے یا اگر کسی اور چیز نے کی اس شرمگاہ کو ڈھانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے لیکن جب صورت یہ ہو کہ اگر بدن یا لباس پاک کرے یا اگر لباس بدلے یا اتارے تو نماز ٹوٹی ہو یا اگر لباس اتارے تو ننگا ہو جاتا ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ دو بارہ پاک لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔
(۷۹۳)جو شخص تنگ وقت میں نماز میں مشغول ہو، اگر نماز کے دوران اسے پتا چلے کہ اس کا لباس نجس ہے اور اسے یہ احتمال ہو کہ نماز شروع کرنے کے بعد نجس ہوا ہے تو اگر صورت یہ ہو کہ لباس پاک کرنے یا بدلنے یا اتارنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو اور وہ لباس اتر سکتا ہو تو ضروری ہے کہ لباس کو پاک کرے یا بدلے یا اگر کسی اور چیز نے اس کی شرمگاہ کو ڈھانپ رکھا ہو تو لباس اتار دے اور نماز ختم کرے لیکن اگر کسی اور چیز نے اس کی شرمگاہ کو نہ ڈھانپ رکھا ہو اور وہ لباس پاک نہ کرسکتا ہو اور اسے بدل بھی نہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اسی نجس لباس کے ساتھ نماز کو ختم کرے۔
(۷۹۴) کوئی شخص جو تنگ وقت میں نماز میں مشغول ہو اور نماز کے دوران پتا چلے کہ اس کا بدن نجس ہے اور اسے یہ احتمال ہو کہ نماز شروع کرنے کے بعد نجس ہوا ہے تو اگر صورت یہ ہو کہ بدن پاک کرنے سے نماز نہ ٹوٹتی ہو تو بدن کو پاک کرے اور اگر نماز ٹوٹتی ہو تو ضروری ہے کہ اسی حالت میں نماز ختم کرے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۹۵) ایسا شخص جو اپنے بدن یا لباس کے پاک ہونے کے بارے یں شک میں مبتلا ہو اور جستجو کے بعد کوئی چیز نہ پاکر نماز پڑھے اور نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ اس کا بدن یا لباس نجس تھا تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر اس نے جستجو نہ کی ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیاہو تو اس کی قضا کرے۔
(۷۹۶) اگر کوئی شخص اپنا لباس دھوئے اور اسے یقین ہو جائے کہ لباس پاک ہو گیا ہے اس کے ساتھ نماز پڑھے اور نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ پاک نہیں ہوا تھا تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۹۷) اگر کوئی شخص اپنے بدن یا لباس میں خون دیکھے اور اسے یقین ہو کہ یہ نجس خون میں سے نہیں ہے مثلاً اسے یقین ہو کہ مچھر کا خون ہے لیکن نماز پڑھنے کے بعد اسے پتا چلے کہ یہ اس خون میں سے ہے جس کے ساتھ نماز نہیں پڑھی جاسکتی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۹۸) اگر کسی شخص کو یقین ہو کہ اس کے بدن یا لباس میں جو خون ہے وہ ایسا نجس خون ہے جس کے ساتھ نماز صحیح ہے مثلاً اسے یقین ہوکہ زخم اور پھوڑے کا خون ہے لیکن نماز کے بعد اسے پتا چلے کہ یہ ایسا خون ہے جس کے ساتھ نماز باطل ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۷۹۹) اگر کوئی شخص یہ بھول جائے کہ ایک چیز نجس ہے اور گیلا بدن یاگیلا لباس اس چیز سے چھو جائے اور اسی بھول کے عالم میں وہ نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد اسے یاد ائے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر اس کا گیلا بدن اس چیز کو چھو جائے جس کا نجس ہو نا وہ بھول گیا ہے اور اپنے آپ کو پاک کئے بغیر وہ غسل کرے اور نماز پڑھے تو اس کا غسل ونماز باطل ہیں ماسوائے اس صورت کے کہ غسل کرنے سے بدن بھی پاک ہو جائے اور پانی بھی نجس نہ ہوتا ہو جیسے کہ آب جاری میں غسل کررہا ہو اسی طرح اگر وضو کے گیلے اعضا کا کوئی حصہ اس چیز سے چھو جائے جس کے نجس ہونے کے بارے میں وہ بھول گیا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ اس حصے کو پاک کرے وہ وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کا وضو اور نماز دونوں باطل ہیں ماسوا ئے کُر اس صورت کے کہ وضو کرنے سے وضو کے اعضابھی پاک ہو جائیں اور پانی بھی نجس نہ ہو جیسے کر اور جاری پانی۔
(۸۰۰) جس شخص کے پاس صرف ایک لباس ہو اگر اس کا بدن اور لباس نجس ہو جائیں اور اس کے پاس ان میں سے ایک کو پاک کرنے کیلئے پانی ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ بدن کو پاک کرے اور نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے۔ لباس کو پاک کرکے نجس بدن کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر لباس کی نجاست بدن کی نجاست سے زیادہ ہو یا لباس کی نجاست بدن کی نجاست کے لحاظ سے زیادہ شدید ہو تو اسے اختیار ہے کہ لباس اور بدن میں سے جسے چاہے پاک کرے۔
(۸۰۱) جس شخص کے پاس نجس لباس کے علاوہ کوئی لباس نہ ہو ضروری ہے کہ نجس لباس کے ساتھ نماز پڑھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
(۸۰۲) جس شخص کے پاس دو لباس ہوں اگر وہ یہ جانتا ہو کہ ان میں سے ایک نجس ہے لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ کونسا نجس ہے اور اس کے پاس وقت ہو تو ضروری ہے کہ دونوں لباس کے ساتھ علیحدہ علیحدہ نماز پڑھے مثلاً اگر وہ ظہر اور عصر کی نماز پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ ہر ایک لباس سے ایک نماز ظہر اور ایک نماز عصر کی پڑھے لیکن اگر وقت تنگ ہو اور دونوں میں سے کوئی ایک بھی قوت احتمال یا محتمل کی اہمیت کے اعتبار سے غالب نہ ہو تو جس لباس کے ساتھ نماز پڑھ لے کافی ہے۔

دوسری شرط
(۸۰۳) نماز پڑھنے والے کا وہ لباس جس سے اس نے اپنی شرمگاہ کو ڈھانپا ہوا ہو احتیاط واجب کی بنا پر مباح ہونا ضروری ہے ۔ پس اگر ایک ایسا شخص جو جانتا ہو کہ غصبی لباس پہننا حرام ہے یا کوتاہی کہ وجہ سے مسئلہ کا حکم نہ جانتا ہو اور جان بوجھ کر اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔ لیکن اگر لباس میں وہ چیزیں شامل ہوں جو بہ تنہائی شرمگاہ کو نہیں ڈھانپ سکتیں اور اسی طرح وہ چیزیں جن سے اگرچہ شرمگاہ کو ڈھانپا جاسکتا ہو لیکن نماز پرھنے والے نے انہیں حالت نماز میں نہ پہن رکھا ہو مثلا ً بڑا رومال یا لنگوٹی جو جیب میں رکھی ہو اور اسی طرح وہ چیزیں جنہیں نمازی نے پہن رکھا ہو جب کہ اس کے پاس ایک مباح ستر پوش بھی ہو ایسی تمام صورتوں میں ان چیزوں کے غصبی ہونے سے نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا اگرچہ احتیاط ان کے ترک کردینے میں ہے۔
(۸۰۴) جو شخص یہ جانتا ہو کہ غصبی لباس پہننا حرام ہے لیکن اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم نہ جانتا ہوا گر وہ جان بوجھ کر غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو جیسا کہ سابقہ مسئلے میں تفصیل سے بتایا گیا ہے احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۸۰۵) اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے اور اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر وہ شخص خود اس لباس کو غصب کرے اور پھر بھول جاے کہ اس نے غصب کیا ہے اور اسی لباس میں نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۸۰۶) اگر کسی شخص کو علم نہ ہو یا بھول جائے کہ اس کا لباس غصبی ہے لیکن نماز کے دوران اسے پتا چل جائے اور اس کی شرمگاہ کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی ہواور وہ فوراً یا نماز کا تسلسل توڑے بغیر غصبی لباس اتار سکتا ہو تو ضروری ہے کہ فوراً لباس کو اتار دے اور اگر کسی اور چیز نے اس کی شرمگاہ کو ناظر محترم سے ڈھانپا ہو ا نہ ہو یا غصبی لباس فورا نہ اتار سکتا ہو تو اسی لباس کے ساتھ نماز کو جاری رکھے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
(۸۰۷) اگر کوئی شخص اپنی جان کی حفاظت کیلئے غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھے جب کہ آخر وقت تک وہ کسی اور لباس کے ساتھ نماز کے قابل نہ ہو سکے یا اس لباس کو پہننے کی مجبوری اس کے اپنے اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے نہ ہو مثلا خود اس نے وہ لباس غصب نہ کیا ہوا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اسی طرح اگر غصبی لباس کے ساتھ اس لئے نماز پڑھے تاکہ چوری نہ ہوجائے اور آخر وقت تک کسی اور لباس کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکے یا لباس کو اس لیے اپنے پاس رکھا ہو کہ پہلی فرصت میں اس کے مالک کو پہنچایا جاسکے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۸۰۸) اگر کوئی شخص اس رقم سے لباس خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کیا ہو جبکہ سودے میں رائج طریقہ کار کے مطابق ، قیمت اپنے ذمے لے لی ہو تو لباس اس کے لیے حلال ہے البتہ وہ ادا شدہ قیمت کے خمس کا مقروض ہوگا لیکن اگر اس نے عین اسی مال سے لباس خریدا ہو جس کا خمس ادا نہیں کیا تھا تو حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کیلئے وہی حکم ہے جو غصبی لباس کے ساتھ نماز پڑھنے کا ہے۔

تیسری شرط
(۸۰۹) ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا وہ لباس جس سے بہ تنہائی شرمگاہ کو چھپایا جاسکتاہے ، خون جہندہ رکھنے والے مردار کے اجزاء سے بنا ہوا نہ ہو ۔ یہی حکم احتیاط واجب کی بنا پر اس لباس کیلئے بھی ہے جو شرمگاہ چھپانے کیلئے ناکافی ہے بلکہ اگر لباس س مردہ حیوان مثلاً مچھلی اور سانپ سے تیار کیا جائے جس کا خون جہندہ نہیں ہوتا تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے۔
(۸۱۰) اگر نجس مردار کی ایسی چیز مثلاً گوشت اور کھال جس میں روح ہوتی ہے ، نماز پڑھنے والے کے ہمراہ ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۸۱۱) اگر حلال گوشت مردار کی کوئی ایسی چیز جس میں روح نہیں ہوتی ، مثلاً بال اور اون نماز پڑھنے والے کے ہمراہ ہو یا اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے جو ان چیزوں سے تیار کیا گیا ہو تو اس کے نماز صحیح ہے۔

چوتھی شرط
(۸۱۲) ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا لباس ان چیزوں کے علاوہ جو صرف شرمگاہ چھپانے کے لئے ناکافی ہے مثلا جراب ، درندوں کے اجزاء سے تیار کیا ہوا نہ ہو بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر کسی ایسے جانور کے اجزاء سے بنا ہو ا نہ ہو جس کا گوشت کھانا حرام ہے ۔ اسی طرح ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا لباس اور بدن حرام گوشت جانور کے پیشاب ، پاخانے ، پیسنے ، دودھ اور بال سے آلودہ نہ ہو لیکن اگر حرام گوشت جانور کا ایک بال اس کے لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح نماز گزار کے ہمراہ ان میں سے کوئی چیز اگر ڈبیہ وغیرہ میں بندرکھی ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۱۳) حرام گوشت جانور مثلاً بلی کے منہ یا ناک کا پانی یا کوئی دوسری رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگی ہو ، اگر وہ تر ہو تو نماز باطل ہے لیکن اگر خشک ہو اور اس کا عین جزوزائل ہوگیا ہو تو نماز صحیح ہے ۔
(۸۱۴) اگر کسی شخص کا بال یا پسینہ یامُنہ کا لعاب نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر لگا ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح مروارید ، موم اور شہد اس کے ہمراہ ہو تب بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔
(۸۱۵) اگر کسی کو شک ہو کہ لباس حلال گوشت جانور سے تیار کیا گیا ہے یا حرام گوشت جانور سے تو خواہ وہ مقامی طور پر تیار کیا گیا ہو یا درآمد کیا گیا ہو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔
(۸۱۶) یہ معلوم نہیں ہے کہ سیپی حرام گوشت حیوان کے اجزاء میں سے ہے لہٰذا سیپ کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔
(۸۱۷) گلہری کی پوستین پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے۔
(۸۱۸) اگر کوئی شخص ایسے لباس کے ساتھ نماز پڑھے جس کے متعلق وہ نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو ہ حرام گوشت جانور سے تیار ہو ا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔

پانچویں شرط
(۸۱۹) زردوزی کا لباس پہننا مردوں کیلئے حرام ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے لیکن عورتوں کیلئے نماز میں یا نماز کے علاوہ اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۲۰) سونا پہننا مثلاً سونے کی زنجیر گلے میں پہننا ، سونے کی انگوٹھی ہاتھ میں پہننا ، سونے کی گھڑی کلائی پر باندھنا اور سونے کی عینک لگانا مردوں کیلئے حرام ہے اور ان چیزوں کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے لیکن عورتوں کیلئے نماز میں اور نماز کے علاوہ ان چیزوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ۔
(۸۲۱) اگر کوئی شخص نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو کہ اس کی انگوٹھی یا لباس سونے کا ہے یا شک رکھتا ہو اور اس کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔

چھٹی شرط
(۸۲۲) ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے مرد کا وہ لباس جس سے بہ تنہائی شرمگاہ کو چھپایاجاسکتا ہے خالص ریشم کا نہ ہو اورنماز کے علاوہ بھی خالص ریشم پہننا مردوں کیلئے حرام ہے۔
(۸۲۳) اگر لباس کا تمام استریا اس کا کچھ حصہ خالص ریشم کا ہو تو مرد کیلئے اس کا پہننا حرام اور اس کے ساتھ نماز پڑھناباطل ہے۔
(۸۲۴) جس لباس کے بارے میں یہ علم نہ ہو کہ خالص ریشم کا ہے یا کسی اور چیز کا بنا ہوا ہے تو اس کا پہننا جائز ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۲۵) ریشمی رومال یا اسی جیسی کو ئی چیز مرد کی جیب میں ہو تو کوئی حرج نہیں ، وہ نماز کو باطل نہیں کرتی۔
(۸۲۶) عورت کیلئے نماز میں یا اس کے علاوہ ریشمی لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۲۷) مجبوری کی حالت میں خالص ریشمی اور زردوزی کا لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں علاوہ ازیں جو شخص لباس پہنے پر مجبور ہوتو ضروری ہے کہ ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برہنہ لوگوں کیلئے بتائے گئے ہیں۔
(۸۲۸) اگر کسی شخص کے پاس غصبی ،خالص ریشمی یا زردوزی کے لباس کے علاوہ کوئی اور لباس نہ ہو اور وہ لباس پہننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جو برہنہ لوگوں کے لیے بتائے گئے ہیں۔
(۸۲۹) اگر کسی کے پاس درندے کے اجزاء سے بنے ہوئے لباس کے علاوہ کوئی اور لباس نہ ہو اور وہ لباس پہننے پر مجبور ہو اور آخر وقت تک مجبوری باقی رہے تو اس لباس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر لباس پہننے پر مجبور نہ ہو تو ضروری ہے کہ ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جوبرہنہ لوگوں کیلئے بتائے گئے ہیں۔ اگراِ س کے پاس غیر درندہ حرام جانوروں کے اجزاء سے تیار شدہ لباس کے سوا دوسرا لباس نہ ہو اور وہ لباس پہنے پر مجبور نہ ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ دو دفعہ نماز پڑھے۔ ایک بار اسی لباس کے ساتھ اور ایک بار اس طریقے کے مطابق جس کا ذکر برہنہ لوگوں کے نماز میں بیان ہوچکا ہے۔
(۸۳۰) اگر کسی کے پاس ایسی چیز نہ ہو جس سے وہ اپنی شرمگاہوں کو نماز میں ڈھانپ سکے تو واجب ہے کہ ایسی چیز کرائے پر لے یا خریدے لیکن اگر اس پر اس کی حیثیت سے زیادہ خرچ اٹھتا ہو یا صورت یہ ہے کہ اس کام کیلئے خرچ برداشت کرے تو اس کی حالت تباہ ہوجائے تو ان احکام کے مطابق نماز پڑھے جوبرہنہ لوگوں کیلئے بتائے گئے ہیں۔
(۸۳۱) جس شخص کے پاس لباس نہ ہو اگر کوئی دوسرا شخص اسے لباس بخش دے یا ادھار دے دے تو اگر اس لباس کا قبول کرنا اس اس پر گراں نہ گزرتا ہو تو ضروری ہے کہ اسے قبول کرلے بلکہ اگر ادھار لینا یا بخشش کے طور پر طلب کرنا اس کیلئے تکلیف کا باعث نہ ہو تو ضروری ہے کہ جس کے پاس لباس ہو اس سے ادھار مانگ لے یا بخشش کے طور پر طلب کرے۔
(۸۳۲) اگر کوئی شخص ایسا لباس پہننا چاہے جس کا کپڑا ، رنگ یا سلائی اس کے اعتبار سے رواج کے مطابق نہ ہو تو اگر اس کا پہننا اس کی شان کے خلاف اور توہین کا باعث ہوتو اس کا پہننا حرام ہے ۔ لیکن اگر وہ اس لباس کے ساتھ نماز پڑھے تو چاہے اس کے پاس شرمگاہ چھپانے کیلئے فقط وہی لباس نہ ہو تو بھی اس کی نماز صحیح ہے۔
اگر مرد زنانہ لباس پہنے اور عورت مردانہ لباس پہنے اور اسے اپنی زینت قرار دے تو احتیاط کی بنا پر اس کا پہننا حرام ہے لیکن اس لباس کے ساتھ نماز پڑھنا ہر صورت میں صحیح ہے۔ مرد کیلئے زنانہ لباس پہننا اور عورت کیلئے مردانہ لباس پہننا حرام نہیں ہے اور نہ ہی اس سے نماز باطل ہوتی ے۔ البتہ احتیاط واجب کی بنا پر یہ جائز نہیں ہے کہ مرد اپنے آپ کو عورت کے رنگ وروپ میں ڈھال لے اسی طرح برعکس یعنی عورت اپنے آپ کو مرد کے روپ میں ڈھال لے۔
(۸۳۴) جس شخص کیلئے لیٹ کر نماز پڑھنا ضروری ہے ، ضروری نہیں ہے کہ جو لحاف یا چادر اس نے خود پر ڈال رکھی ہو وہ نمازی کے لباس کی شرائط پر پورا اترتی ہو سوائے اس کے عرفاً اسے پہنا وا کہا جاسکے۔ مثلاً اس نے چادر وغیرہ کو خود پر لپیٹ لیا ہو۔

جن صورتوں میں نمازی کا بدن اور لباس پاک ہونا ضروری نہیں
(۸۳۵) تین صورتوں میں جن کی تفصیل نیچے بیان کی جارہی ہے اگر نماز پڑھنے والے کا بدن یا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے:
(۱) اس کے بدن کے زخم ، جراحت یا پھوڑے کی وجہ سے اس کے لباس یا بدن پر خون لگ جائے۔
(۲) اس کے بدن یا لباس پر درہم کی مقدار سے کم خون لگ جائے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ درہم کی مقدار انگوٹھے کی اوپر والی گرہ کے برابر سمجھی جائے۔
(۳) وہ نجس بدن یا لباس کے ساتھ نماز پڑھنے پر مجبور ہو۔
علاوہ ازیں ایک اور صورت میں اگر نماز پڑھنے والے کا لباس نجس بھی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ اس کا چھوٹا لباس مثلاً موزہ اور ٹوپی نجس ہو۔
(ان چاروں صورتوں کے تفصیلی احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔)
(۸۳۶) اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر زخم یا جراحت یا پھوڑے کا خون ہو تو وہ اس خون کے ساتھ اس وقت تک نماز پڑھ سکتا ہے جب تک زخم یا جراحت یا پھوڑا ٹھیک نہ ہوجائے اور اگر اس کے بدن یا لباس پر ایسی پیپ ہو جو خون کے ساتھ نکلی ہو یا ایسی دوائی ہو جو زخم پر لگائی گئی ہو اور نجس ہوگئی ہو تو اس کیلئے بھی یہی حکم ہے۔
(۸۳۷) اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر ایسی خراش یا زخم کا خون لگا ہو جو جلدی ٹھیک ہو جاتا ہو اور جس کا دھونا آسان ہو اور جس کی مقدر ایک درہم کے برابر یا ا س زیادہ ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۸۳۸) اگر بدن یا لباس کی ایسی جگہ جو زخم سے فاصلے پر ہو زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن لباس یابدن کی وہ جگہ جو زخم کے اطراف میں ہے اگر اس زخم کی رطوبت سے نجس ہو جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۸۳۹) اگر کسی شخص کے بدن یا لباس کو بواسیر یا اس زخم سے جو منہ اور ناک وغیرہ کے اندر ہو خون لگ جائے تو وہ اس کے ساتھ نماز پڑھ سکتا ہے ۔ ا س بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بواسیر کے مسے باہر ہوں یا اندر۔
(۸۴۰) اگر کوئی ایسا شخص جس کے بدن پر زخم ہو اپنے بدن یا لباس پر ایسا خون دیکھے جو درہم سے زیادہ ہواور یہ نہ جانتا ہو کہ یہ خون زخم کا ہے یا کوئی اور خون ہے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس خون ے ساتھ نماز نہ پڑھے۔
(۸۴۱) اگر کسی شخص کے بدن پر چند زخم ہوں اور وہ ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہوں کہ ایک زخم شمار ہوتے ہوں تو جب تک وہ زخم ٹھیک نہ ہوجائیں ان کے خون کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ ایک دوسرے ے اتنے دور ہوں کہ ان میں سے ہر زخم ایک علیحدہ زخم شمار ہو تو جو زخم ٹھیک ہو جائے ضروری ہے کہ نماز کیلئے بدن اور لباس کو دھوکر اس زخم کے خون سے پاک کرے۔
(۸۴۲) اگر نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس پر سوئی کی نوک کے برابر بھی حیض کا خون لگا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔ احتیاط کی بنا پر نجس حیوانات مثلاً سور ، مردار اور حرام گوشت جانور نیز نفاس اور استحاضہ کے خون کی بھی یہی صورت ہے لیکن کوئی دوسرا خون مثلاً انسان کے بدن کے خون یا حلال گوشت حیوان کے خون کی چھینٹ ، چاہے بدن کے کے حصوں پر لگی ہو لیکن اس کی مجموعی مقدار ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۴۳) جو خون بغیر استر کے کپڑے پر گرے اور دوسری طرف پہنچ جائے وہ ایک خون شمار ہوتا ہے اور دونوں طرف میں جس طرف خون کی مقدار زیادہ ہو اس کے مطابق حکم لگایا جائے لیکن اگر کپڑے کی دوسری طرف الگ سے خون آلودہ ہوجائے تو ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ خون شمار کیا جائے۔ پس اگر وہ خون جو کپڑے کے سامنے کے رخ اور پچھلی طرف ہے مجموعی طور پر ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اور اگر اس سے زیادہ ہو تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے۔
(۸۴۴) اگر استر والے کپڑے پر خون گرے اور اس کے استر تک پہنچ جاے یا استر پر گرے اور کپڑے تک پہنچ جائے یا ایک کپڑے سے دوسرے کپڑے تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ ہر خون کو الگ شمار کیا جائے۔ پس اگر سب مل کر ایک درہم سے کم ہو تو نماز صحیح ہے ورنہ باطل ہوگی ۔ ہاں اگر کپڑے ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوے ہوں کہ لوگوں کے نزدیک ایک خون شمار ہو تو جس طرف خون کی مقدار زیادہ ہے اگر وہ ایک درہم سے کم ہو تو نماز صحیح ہے اور اگر ایک درہم کے برابر یااس سے زیادہ ہو تو نماز باطل ہے۔
(۸۴۵) اگر بدن یا لباس پر ایک درہم سے کم خون ہو اور کوئی رطوبت اس خون سے مل جائے اور آگے بڑھ کر اس کے اطراف کو آلودہ کردے تو اس کے ساتھ نماز باطل ہے خواہ خون اور جو رطوبت اس سے ملی ہے ایک درہم کے برابر نہ ہوں لیکن اگر رطوبت صرف خون سے ملے اور اس کے اطراف کو آلودہ نہ کرے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۴۶) اگر بدن یا لباس پر خون نہ ہو لیکن رطوبت کے ساتھ خون سے لگنے کی وجہ سے نجس ہو جائیں تو اگرچہ جو مقدار نجس ہوئی ہے وہ ایک درہم سے کم ہو تو اس کے ساتھ بھی نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔
(۸۴۷) بدن یا لباس پر جو خون ہو اگر وہ ایک درہم سے کم ہو اور کوئی دوسری نجاست اس سے آلگے مثلاً پیشاب کا ایک قطرہ اس پر گرجائے اور وہ بدن یا لباس کے پاک مقامات سے لگ جائے تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ اگر بدن اور لباس کے پاک مقامات تک نہ بھی پہنچے تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر اس میں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔
(۸۴۸) اگر نماز پڑھنے والے کا چھوٹا لباس مثلاً ٹوپی اور موزہ جس سے شرمگاہ کو نہ ڈھانپا جاسکتا ہو نجس ہو جب کہ اسے نجس مردار یا نجس العین حیوان مثلاً کتے (کے اجزا) سے نہ بنایا گیا ہو تو اس کے ساتھ نماز صحیح ہے اور اگر اسے نجس مردار یا نجس العین حیون کے اجزاء سے بنایاگیا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے ہاں اگر نجس انگوٹھی کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(۸۴۹) نجس چیز مثلاً نجس رومال ، چابی اور چاقو کا نماز پڑھنے والے کے پاس ہونا جائز ہے اسی طرح اگر نجس لباس اس کے پاس ہو تب بھی نماز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(۸۵۰) اگر کوئی شخص جانتا ہوکہ جو خون اس کے لباس یا بدن پر ہے وہ ایک درہم سے کم ہے لیکن اس امر کا احتمال ہو کہ یہ اس خون میں سے ہے جو معاف نہیں ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ اس خون کے ساتھ نماز پڑھے۔
(۸۵۱) اگر وہ خون جو ایک شخص کے لباس یا بدن پر ہو ایک درہم سے کم ہو اور اسے یہ علم نہ ہو کہ یہ اس خون میں سے ہے جو معاف نہیں ہے ، نماز پڑھ لے اور پھر اسے پتا چلے کہ یہ اس خون میں سے تھا جو معاف نہیں ہے تو اس کیلئے دوبارہ نماز پڑھنا ضروری نہیں اور اس وقت بھی یہی حکم ہے جب وہ یہ سمجھتا ہو کہ خون ایک درہم سے کم ہے اور نماز پڑھ لے اور بعد میں پتا چلے کہ اس کی مقدار ایک درہم یا اس سے زیادہ تھی ، اس صورت میں بھی دوبارہ نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ چیزیں جو نمازی کے لباس میں مستحب ہیں
(۸۵۲) فقہائے کرام اعلی اللہ مقامہم نے چند چیزیں نمازی کے لباس میں مستحب قرار دی ہیں کہ جن میں سے تحت الحنک کے ساتھ عمامہ ، عبا ، سفید لباس ، صاف ستھرا ترین لباس ، خوشبو لگانا اور عقیق کی انگوٹھی پہننا شامل ہیں۔

وہ چیزیں جو نمازی کے لباس میں مکروہ ہیں
(۸۵۳) فقہائے کرام اعلی اللہ مقامہم نے چند چیزیں نمازی کے لباس میں مکروہ قراردی ہیں جن میں سے سیاہ ، میلا اور تنگ لباس اور شرابی کا لباس پہننا یا اس شخص کا لباس پہننا جو نجاست سے پرہیز نہ کرتا ہو اور ایسا لباس پہننا جس پر چہرے کی تصوریر بنی ہو اس کے علاوہ لباس کے بٹن کھلے ہونا اور ایسی انگوٹھی پہننا جس پر چہرے کی تصویر بنی ہو ، شامل ہیں۔

نماز پڑھنے کی جگہ
نماز پڑھنے والے کی جگہ کی سات شرطیں ہیں :
پہلی شرط:
وہ جگہ احتیاط واجب کی بنا پر مباح ہو۔
(۸۵۴) جو شخص غصبی جگہ پر نمازپڑھ رہا ہو اگر چہ وہ خودقالین ، تخت اور اسی طرح کی دوسری چیز پر ہو ، احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے ۔ لیکن غصبی چھت کے نیچے اور غصبی خیمے تلے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۸۵۵) ایسی جگہ نماز پڑھنا جس کی منفعت کسی اور کی ملکیت ہو تو منفعت کے مالک کی اجازت کے بغیر وہاں نماز پڑھنا غصبی جگہ پر نماز پڑھنے کے حکم میں ہے ۔ مثلا کرائے کے مکان میں اگر مالک مکان یا کوئی اور شخص کرائے دار کی اجازت کے بغیر نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۸۵۶) اگر کوئی شخص مسجد میں بیٹھا ہواور دوسرا شخص اسے باہر نکال کر اس کی جگہ پر قبضہ کرے اور اس جگہ نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے اگرچہ اس نے گناہ کیا ہے۔
(۸۵۷) اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ نماز پڑھے جس کے غصبی ہونے کا اسے علم نہ ہو اور نماز کے بعد اسے پتا چلے یا ایسی جگہ نماز پڑھے جس کے غصبی ہونے کو وہ بھول گیا ہو اور نماز کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن کوئی ایسا شخص جس نے خود وہ جگہ غصب کی ہو اور وہ بھول جائے اور وہاں نماز پڑھی تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے۔
(۸۵۸) اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ یہ جگہ غصبی ہے اور اس میں تصرف حرام ہے لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ غصبی جگہ پر نماز پڑھنے میں اشکال ہے اور وہ وہاں نماز پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۸۵۹) اگر کوئی شخص واجب نماز سواری کی حالت میں پڑھنے پر مجبور ہو اور سواری کا جانور یا اس کی زین یا نعل غصبی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور اگر وہ شخص اس جانور پر سواری کی حالت میں مستحب نماز پڑھنا چاہیے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
(۸۶۰) اگر کوئی شخص کسی جائیداد میں دوسرے کے ساتھ شریک ہو اور اس کا حصہ جدانہ ہو تو اپنے شراکت دار کی اجازت کے بغیر وہ اس جائیداد پر تصرف نہیں کرسکتا اور اس پر نماز پڑھنا بھی احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہے۔
(۸۶۱) اگر کوئی شخص ایک ایسی رقم سے کوئی جائیداد خریدے جس کا خمس اس نے ادا نہ کیا ہو جب کہ سودے میں رائج طریقہ کار کے مطابق ، قیمت اپنے ذمے لے لی ہو تو جائیداد میں تصرف کرنا اس کے لیے حلال ہے اور وہ شخص ادا شدہ قیمت کے خمس کا مقروض ہوگا ۔ لیکن اگر وہ عین اسی مال سے جائیداد خریدے جس پر خمس واجب الادا تھا تو حاکم شرع کی اجازت کے بغیر اس گھر میں تصرف حرام اور حتیاط واجب کی بنا پر اس جگہ نماز باطل ہے۔
(۸۶۲) اگر کسی جگہ کا مالک زبان سے نماز پڑھنے کی اجازت دے دے اور انسان کو علم ہوکہ وہ دل سے راضی نہیں ہے تو اس کی جگہ پر نماز پڑھنا جائز نہیں اور اگر اجازت نہ دے لیکن انسان کو یقین ہو کہ وہ دل سے راضی ہے تو نماز پڑھنا جائز ہے۔
(۸۶۳) جس مرحوم نے زکوٰة اور اس جیسے دوسرے مالی واجبات ادا نہ کئے ہوں اس کی جائیداد میں کوئی ایسا تصرف کرنا جو واجبات کی ادائیگی میں مانع نہ ہو مثلا اس کے گھر میں نماز پڑھنا ، ورثاء کی اجازت سے جائز ہے اسی طرح اگر قرضدار کا قرض ادا کردیا جائے یا کوئی اپنے ذمے لے لے یا اتنی مقدار جدا کرلی جائے تو باقی جائیداد میں ایسا تصرف کرنا بھی جائز ہے جو اس جائیداد کو تلف کردے۔
(۸۶۴) اگر مرحوم کے بعض ورثاء کم سن یا مجنوں یا غیر حاضر ہوں تو ان کے دالی کی اجازت کے بغیر اس کی جائیداد میں تصرف حرام ہے اور اس میں نماز جائز نہیں ۔ ہاں ان معمولی تصرفات میں کوئی حرج نہیں جو میت کے غسل و کفن وغیرہ کے امور انجام دنے کا مقدمہ ہیں۔
(۸۶۵) کسی کی جائیداد میں نماز پڑھنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ اس کا مالک صریحاً اجازت دے یا کوئی ایسی بات کہے جس سے معلوم ہو کہ اس نے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ۔ مثلاً اگر کسی شخص کو اجازت دے کہ اس کی جائیداد میں بیٹھے یا سوئے تو اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس نے نماز پڑھنے کی اجازت بھی دیدی ہے یا مالک کے راضی ہونے پر دوسری وجوہات کی بنا پر اطمینان رکھتاہو۔
(۸۶۶) انتہائی وسیع وعریض زمین میں نماز پڑھنا جائز ہے اگرچہ اس کا مالک کم سن یا مجنون ہو یا وہاں نماز پڑھنے پر راضی نہ ہو اسی طرح ان باغات اور زمینوں میں کہ جن کے دروازے اور دیوارنہ ہوں ، ان کے مالک کی اجازت کے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ لیکن اگر اس صورت میں معلوم ہو کہ مالک راضی نہیں ہے تو ضروری ہے کہ تصرف نہ کرے اور اگر مالک کمسن یا مجنون ہو یا اس کے راضی نہ ہونے کا گمان ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ وہاں تصرف نہ کیا جائے اور نماز نہ پڑھی جائے۔

دوسری شرط
(۸۶۷) ضروری ہے کہ نمازی کی جگہ واجب نمازوں میں ایسی نہ ہو کہ تیز حرکت نمازی کے کھڑے ہونے یا اختیاری رکوع اور سجود کرنے میں مانع ہو بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کے بدن کو ساکن رکھنے میں بھی مانع نہ ہو اور اگر وہ وقت کی تنگی یا کسی اور وجہ سے ایسی جگہ مثلا بس ، ٹرک ، کشتی یا ریل گاڑی میں نماز پڑھے تو جس قدر ممکن ہو بدن کے ٹھہراؤ اور قبلے کی سمت کا خیال رکھے اور اگر ٹرانسپورٹ قبلے سے کسی دوسری طرف مڑ جائے تو اپنا منہ قبلے کی جانب موڑدے ۔ اگر مکمل طور پر قبلے کا خیال رکھنا ممکن نہ ہو تو کوشش کرے کہ 90 ڈگری سے کم اختلاف ہو ا گر یہ بھی ممکن نہ ہو تو صرف تکبیرة الاحرام کہتے وقت قبلے کا خیال رکھے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو قبلے کا خیال رکھنا ضروری نہیں۔
(۸۶۸) جب گاڑی ، کشتی یا ریل گاڑی وغیرہ کھڑی ہوئی ہوں تو ان میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ یہی حکم اس وقت بھی ہے جب چل رہی ہوں لیکن اس حد تک نہ ہل جل رہی ہو کہ نمازی کے بدن کے ٹھہراؤ میں حائل ہوں۔
(۸۶۹) گندم ، جواور ان جیسی دوسری اجناس کے ڈھیر پر جو ہلے جلے بغیر نہیں رہ سکتے نماز باطل ہے

تیسری شرط
ضروری ہے کہ انسان ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں نماز پوری پڑھ لینے کا احتمال ہو ۔ لیکن اگر کسی ایسی جگہ رجاء کی نیت سے نماز پڑھے جہاں اُسے اطمینان ہو کہ مثلا ہو اور بارش یا بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے وہاں پوری نماز نہ پڑھ سکے گا گو اتفاق سے پوری پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں۔
(۸۷۰) اگر کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں ٹھہرنا حرام ہو مثلا ً کسی ایسی مخدوش چھت کے نیچے جو عنقریب گرنے والی ہو تو گووہ گناہ کا مرتکب ہو گا لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔
(۸۷۱) کسی ایسی چیز پر نماز پڑھنا ، جس پر کھڑا ہو نا یا بیٹھنا حرام ہو ۔ مثلا ًقالین کے ایسے حصے پر جہاں اللہ تعالیٰ کا نام لکھا ہواگر قصد قربت میں مانع ہوجائے تو صحیح نہیں ہے۔

چوتھی شرط
جس جگہ انسان نماز پڑھے اس کی چھت اتنی نیچی نہ ہو کہ سیدھا کھڑا نہ ہوسکے اور نہ ہی وہ جگہ اتنی مختصر ہو کہ رکوع اور سجدے کی گنجائش نہ ہو۔
(۸۷۲) اگر کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھنے پر مجبور ہو جہاں بالکل سیدھا کھڑا ہونا ممکن نہ ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھے اور اگر رکوع اور سجودادا کرنے کا امکان نہ ہو تو ان کیلئے سرسے اشارہ کرے۔
(۸۷۳) ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اہل بیت علہیم السلام کی قبور مطہر کی جانب پشت کرکے ، اگر ان کی بے حرمتی ہوتی ہو تو نماز نہ پڑھے ۔ اس کے علاوہ کسی اور صورت میں اشکال نہیں ۔ لیکن نماز دونوں صورتوں میں صحیح ہے۔

پانچویں شرط
اگر نماز پڑھنے کی جگہ نجس ہو اور نجاست ایسی ہو جو نماز کو باطل کردینے والی ہو تو اتنی مرطوب نہ ہو کہ اس کی رطوبت نماز پڑھنے والے کے بدن یا لباس تک پہنچے ۔ لیکن اگر سجدے میں پیشانی رکھنے کی جگہ نجس ہو تو خواہ ہوخشک بھی ہ ونماز باطل ہے اور احتیاط مستحب ہے کہ نماز کی جگہ بالکل نجس نہ ہو۔

چھٹی شرط
احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ عورت مرد سے کم سے کم اتنا پیچھے کھڑی ہو کہ اس کے سجدہ کرنے کی جگہ سجدے کی حالت میں مرد کے دوزانو کے برابر فاصلے پر ہو۔
(۸۷۴) اگر کوئی عورت مرد کے برابر یا آگے گھڑی ہو اور دونوں بیک وقت نماز پڑھنے لگیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو دوبارہ پڑھیں ۔ یہی حکم ہے اگر ایک دوسرے سے پہلے نماز شروع کردے۔
اگر مرد اور عورت ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں یا عورت آگے کھڑی ہو اور دونوں نماز پڑھ رہے ہو لیکن دونوں کے درمیان دیوار یا پردہ یا کوئی اور ایسی چیز حائل ہو کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں یا ان کے درمیان دس ہاتھ سے زیادہ فاصلہ ہو تو دونوں کی نماز صحیح ہے۔

ساتویں شرط
نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگہ ، دوزانو اور پاؤں کی انگلیاں رکھنے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں کی مقدار سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو اس مسئلے کی تفصیل سجدے کے احکام میں آئے گی۔
(۸۷۶) نامحرم مرد اور عورت کا خلوت میں ایک ایسی جگہ ہونا جہاں گناہ میں مبتلا ہونے کا احتمال ہو حرام ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایسی جگہ نماز نہ پڑھیں۔
(۸۷۷) جس جگہ ستار بجایا جارہا ہو اور اس جیسی چیزیں استعمال کی جارہی ہو ں وہاں نماز پڑھنا باطل نہیں ہے گوان کا سننا اور استعمال کرنا گناہ ہے۔
(۸۷۸) احتیاط واجب یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں خانہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت کے اوپر واجب نماز نہ پڑھی جائے ۔ لیکن مجبوری کی حالت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۸۷۹) خانہ کعبہ کے اندر اور اس کی چھت کے اوپر نفلی نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر ہر رکن کے مقابل دو رکعت نماز پڑھی جائے۔

وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا مستحب ہے
(۸۸۰) اسلام کی مقدس شریعت میں بہت تاکید کی گئی ہے کہ نماز مسجد میں پڑھی جائے ۔ دنیا بھر کی ساری مسجدوں میں سب سے بہتر مسجد الحرام اور اس کے بعد مسجد نبوی ہے اور اس کے بعد مسجد کوفہ اور اس کے بعد مسجد بیت المقدس کا درجہ ہے ۔ اس کے بعد شہر کی جامع مسجد اور اس کے بعد محلے کی مسجد اور اس کے بعد بازار کی مسجد کا نمبر آتا ہے۔
(۸۸۱) عورتوں کیلئے بہتر ہے کہ نماز ایسی جگہ پڑھیں جو نامحرم سے محفوظ ہونے کے لحاظ سے دوسری جگہوں سے بہتر ہو خواہ وہ جگہ مکان یا مسجد یا کوئی اور جگہ ہو۔
(۸۸۲) آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے حرموں میں نماز پڑھنا مستحب ہے بلکہ مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور روایت ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے حرم پاک میں نماز پڑھنا دو لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
(۸۸۳) مسجد میں زیادہ جانا اور اس مسجد میں جانا جہاں لوگ بہت کم نماز پڑھنے آتے ہوں مستحب ہے اور اگر کوئی شخص مسجدکے پڑوس میں رہتا ہو اور کوئی عذر بھی نہ رکھتا ہو تو اس کیلئے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
(۸۸۴) جو شخص مسجد میں نہ آتا ہو ، مستحب ہے کہ انسان اس کے ساتھ مل کر کھانا نہ کھائے ، اپنے کاموں میں اس سے مشورہ نہ کرے ، اس کے پڑوس میں نہ رہے اور نہ اس سے عورت کا رشتہ لے اور نہ اسے رشتہ دے۔

وہ مقامات جہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے
(۸۸۵) چند مقامات پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
(۱) حمام۔
(۲) شورزدہ زمین۔
(۳) کسی انسان کے مقابل۔
(۴) اس دروازے کے مقابل جو کھلا ہو۔
(۵) سڑک اور گلی کوچے میں بشرطیکہ گزرنے والوں کیلئے باعث زحمت نہ ہو اور اگر انہیں زحمت ہو تو ان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا حرام ہے۔
(۶) آگ اور چراغ کے مقابل۔
(۷) باورچی خانے میں اور ہر اس جگہ جہاں آتش دان ہو۔
(۸) ایسے کنویں اور گڑھے کے مقابل جس میں پیشاب کیا جاتا ہو۔
(۹) جان دار کے فوٹو یا مجسمے کے سامنے مگر یہ کہ اسے ڈھانپ دیا جائے۔
(۱۰) ایسے کمرے میں جس میں جنب شخص موجود ہو۔
(۱۱) جس جگہ فوٹو ہو خواہ وہ نماز پڑھنے والے کے سامنے نہ ہو۔
(۱۲) قبر کے مقابل
(۱۳) قبر کے اوپر
(۱۴) دو قبروں کے درمیان
(۱۵) قبرستان میں۔
(۸۸۶) اگر کوئی شخص لوگوں کی رہگزر پر نماز پڑھ رہا ہو یا کوئی اور شخص اس کے سامنے کھڑا ہو تو نمازی کے لئے مستحب ہے کہ اپنے سامنے کوئی چیز رکھ لے اور اگر وہ چیز لکڑی یا رسی ہو تو بھی کافی ہے۔

مسجد کے احکام
(۸۸۷) مسجد کی زمین ، اندرونی اور بیرونی چھت اور اندرونی دیوار کو نجس کرنا حرام ہے اور جس شخص کو پتا چلے کہ ان میں سے کوئی مقام نجس ہو گیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کی نجاست کو فوراً دور کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسجد کی دیوار کے بیرونی حصے کو بھی نجس نہ کیا جائے اور اگر وہ نجس ہوجائے تو نجاست کا ہٹانا لازم نہیں لیکن اگر دیوار کا بیرونی حصہ نجس کرنا مسجد کی بے حرمتی کا سبب ہو تو قطعا حرام ہے اور اس قدر نجاست کا زائل کرنا کہ جس سے بے حرمتی ختم ہوجاے ضروری ہے۔
(۸۸۸) اگر کوئی شخص مسجد کو پاک کرنے پر قادر نہ ہو یا اسے مدد کی ضرورت ہو جو دستیاب نہ ہو تو مسجد کا پاک کرنا اس پر واجب نہیں لیکن یہ سمجھتا ہو کہ اگر دوسرے کو اطلاع دے گا تو یہ کام ہوجائے گا اور نجاست کو وہاں رہنے دینا بے حرمتی کا باعث ہو تو ضروری ہے کہ اسے اطلاع دے۔
(۸۸۹) اگر مسجد کی کوئی ایسی جگہ نجس ہوگئی ہو جسے کھودے یا توڑے بغیر پاک کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس جگہ کو کھودیں یا توڑیں جب کہ جزوی طور پر کھودنا یا توڑنا پڑے یا بے حرمتی ختم ہونا مکمل طور پر کھودنے یا توڑنے پرموقوف ہو ، ورنہ توڑنے میں اشکال ہے۔ جو جگہ کھودی گئی ہو اسے پُر کرنا اور جو جگہ توڑی گئی ہو اسے تعمیر کرنا واجب نہیں ہے لیکن مسجد کی کوئی چیز مثلاً اینٹ اگر نجس ہوگئی ہو تو ممکنہ صورت میں اسے پاک کرکے ضروری ہے کہ اس کی اصلی جگہ پر لگا دیا جائے۔
(۸۹۰) اگر مسجد غصب کرلی جائے اور اس کی جگہ گھر یا ایسی ہی کوئی چیز تعمیر کرلی جائے یا مسجد اس قدر ٹوٹ پھوٹ جاے کہ اسے مسجد نہ کہا جائے تو اسے نجس کرنا حرام نہیں اور اسے پاک کرنا واجب نہیں۔
(۸۹۱) آئمہ اہل بیت ٪میں سے کسی امام کا حرم نجس کرنا حرام ہے ۔ اگر ان کے حرموں میں سے کوئی حرم نجس ہو جائے اور اس کا نجس رہنا اس کی بے حرمتی کا سبب ہو تو اس کا پاک کرنا واجب ہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ خواہ بے حرمتی نہ ہوتی ہو تب بھی پاک کیا جائے۔
(۸۹۲) اگر مسجد کی چٹائی یا کارپٹ نجس ہو جائے تو ضروری ہے کہ اسے پاک کریں اور اگر نجس حصے کا کاٹ دینا بہتر ہو تو ضروری ہے کہ اسے کاٹ دیاجائے۔ البتہ ایک قابل توجہ حصے کا کاٹ دینا یا اس طرح پاک کرنا کہ اس میں نقص آجائے محل اشکال ہے سوائے اس کے کہ طہارت کو ترک کردینا بے حرمتی کا سبب ہو۔
(۸۹۳) اگر کسی عین نجاست یا نجس شدہ چیز کو مسجد میں لے جانے سے مسجدکی بے حرمتی ہوتی ہو تو اس کا مسجد میں لے جانا حرام ہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر بے حرمتی نہ ہوتی ہو تب بھی عین نجاست کو مسجد میں نہ لے جایا جائے سوائے ان چیزوں کے جو انسان کے ساتھ ہی مسجد میں داخل ہوجائیں جیسے زخم کا خون جو بدن یا لباس میں لگا ہواہو ۔
(۸۹۴) اگر مسجد میں مجلس عزاء کیلئے قنات تانی جائے اور فرش بچھایا جائے اور سیاہ پردے لٹکائے جائیں اور چائے کا سامان اس کے اندر لے جایا جائے تو اگر یہ چیزیں مسجدکیلئے نقصان دہ نہ ہوں اور نماز پڑھنے میں بھی مانع نہ ہوتی ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
(۸۹۵) احتیاط واجب یہ ہے کہ مسجد کی سونے سے زینت نہ کریں اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مسجد کو انسان اور حیوان کی طرح جانداروں کی تصویروں سے بھی نہ سجایا جائے۔
(۸۹۶) اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ بھی جائے تب بھی نہ تو اسے بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملکیت اور سٹرک میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
(۸۹۷) مسجد کے دروازوں ، کھڑکیوں اور دوسری چیزوں کا بیچنا حرام ہے اور اگر مسجد ٹوٹ پھوٹ جائے تب بھی ضروری ہے کہ ان چیزوں کی اسی مسجد کی مرمت کیلئے استعمال کیا جائے اور اگر اس مسجد کے کام کی نہ رہی ہوں تو ضروری ہے کہ کسی دوسری مسجد کے کام میں لایا جائے اور اگر دوسری مسجد وں کے کام کی بھی نہ رہی ہوں تو انہیں بیچا جاسکتا ہے اور جو رقم حاصل ہو وہ بصورت امکان اسی مسجد کی مرمت پر ورنہ کسی دوسری مسجد کی مرمت پر خرچ کی جائے۔
(۸۹۸) مسجد کی تعمیر کرنا اور ایسی مسجد کی مرمت کرنا جو مخدوش ہو مستحب ہے اور اگر مسجد اس قدر مخدوش ہو کہ اس کی مرمت ممکن نہ ہو تو اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کیا جاسکتا ہے بلکہ اگر مسجد ٹوٹی پھوٹی نہ ہو تب بھی اسی لوگوں کی ضرورت کی خاطر گرا کر وسیع کیا جاسکتا ہے۔
(۸۹۹) مسجد کوصاف ستھرا رکھنا اور اس میں چراغ جلانا مستحب ہے اور اگر کوئی شخص مسجد میں جانا چاہے تو مستحب ہے کہ خوشبو لگائے اور پاکیزہ اور قیمتی لباس پہنے اور اپنے جوتے کے تلوؤں کے بارے میں تحقیق کرے کہ کہیں نجاست تو نہیں لگی ہوئی نیز یہ کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں رکھے اور اسی طرح مستحب ہے کہ سب لوگوں سے پہلے مسجد میں آئے اور سب سے بعد میں نکلے۔
(۹۰۰) جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو مستحب ہے کہ دو رکعت نماز تحیت و احترام مسجد کی نیت سے پڑھے اور اگر واجب نمازیاکوئی اور مستحب نماز پڑھی تب بھی کافی ہے۔
(۹۰۱) اگر انسان مجبور نہ ہو تو مسجد میں سونا ، دنیاوی کاموں کے بارے میں گفتگو کرنا اور کوئی کام کاج کرنا اور ایسے اشعار پڑھنا جن میں نصیحت اور کام کی کوئی بات نہ ہو مکروہ ہے نیز مسجد میں تھوکنا ، ناک کی الائش پھینکنا اور بلغم تھوکنا بھی مکروہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں حرام ہے اس کے علاوہ گمشدہ (شخص یا چیز) کو تلاش کرنا اور آواز کو بلند کرنا بھی مکروہ ہے لیکن اذان کیلئے آواز بلند کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
(۹۰۲) دیوانے کو مسجد میں داخل ہونے دینا مکروہ ہے اور اسی طرح اس بچے کو بھی داخل ہونے دینا مکروہ ہے جو نمازیوں کیلئے باعث زحمت ہو یا احتمال ہو کہ وہ مسجد کو نجس کردے گا۔ ان دو صورتوں کے علاوہ بچے کو مسجد میں آنے دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات بہتری اسی میں ہوتی ہے اس شخص کا مسجد میں جانابھی مکروہ ہے جس نے پیاز ، لہسن یا ان سے مشابہ کوئی چیز کھائی ہو جس کی بُو لوگوں کو ناگوارگزرتی ہو۔
اذان اور اقامت
(۹۰۳) ہر مرد اور عورت کیلئے مستحب ہے کہ روزانہ کی واجب نمازوں سے پہلے اذان اور اقامت کہے اور ایسا کرنا دوسری واجب یا مستحب نمازوں کیلئے مشروع نہیں لیکن عید فطر اور عید قربان سے پہلے جبکہ نماز باجماعت پڑھیں تو مستحب ہے کہ تین مرتبہ "الصلوٰة"کہیں
(۹۰۴) مستحب ہے کہ بچے کی پیدائش کے پہلے دن یا ناف اکھڑنے سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے۔
(۹۰۵) اذان اٹھارہ جملوں پر مشتمل ہے:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ
چار مرتبہ
اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
دو مرتبہ
اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ
دو مرتبہ
حَیَّ عَلَی الصَّلَاةِ
دو مرتبہ
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ
دو مرتبہ
حَیَّ عَلَی خَیْرِ الْعَمَلِ
دو مرتبہ
اَللّٰہُ اکْبَرُ
دو مرتبہ
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
دو مرتبہ
اور اقامت کے سترہ جملے ہیں یعنی اذان کی ابتدا سے دو مرتبہ اللّٰہُ اکَبْرُاور آخر سے ایک مرتبہ لَا اِلٰہ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکم ہو جاتا ہے اور حَیَّ عَلَی خَیْرِ الْعَمَلِ کہنے کے بعد دو دفعہ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ کا اضافہ کر دینا ضروری ہے۔
(۹۰۶) اَشْھَدُاَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللّٰہِ۔اذان اور اقامت کا جزونہیں ہے ۔ لیکن اگر اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے بعد قربت کی نیت سے کہا جائے تو اچھا ہے۔

اذان اور اقامت کا ترجمہ
اَللّٰہُ اَکْبَرُ: یعنی خدائے تعالیٰ اس سے بزرگ تر ہے کہ اس کی تعریف کی جائے۔
اَشْھَدُاَنَّ لَّا اِلٰہِ الَّا اللّٰہ: یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ یکتا اور بے مثل اللہ کے علاوہ کوئی اور پرستش کے قابل نہیں ہے۔
اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ: یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغمبر اور اسی کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔
اَشْھَدُاَنَّ عَلِیًّا اَمِیْرَالْمُوْمِنِیْنَ وَلیُّ اللّٰہِ: یعنی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام مومنوں کے امیر اور تمام مخلوق پر اللہ کے ولی ہیں۔
حَیَّ عَلَی الصَّلَاةِ :یعنی نماز کی طرف جلدی کرو۔
حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ :یعنی رستگاری کیلئے جلدی کرو۔
حَیَّ عَلَی خَیْرِ الْعَمَلِ: یعنی بہترین کام کیلئے جو نماز ہے جلدی کرو۔
قَدْقَاَمَتِ الصَّلَاةُ : یعنی بالتحقیق نماز قائم ہوگئی۔
لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ: یعنی یکتا اور بے مثل اللہ کے علاوہ کوئی اور پرستش کے قابل نہیں۔
(۹۰۷) ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے جملوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اور اگر ان کے درمیان معمول سے زیادہ فاصلہ رکھا جائے تو ضروری ہے کہ اذان اور اقامت دوبارہ شروع سے کہی جائیں۔
(۹۰۸) اگر اذان یا اقامت میں آواز کو گلے میں گھمائے اور کیفیت یہ ہو کہ غنا ہو جائے یعنی اس طرح کہے جیسا کہ لہو و لعب اور کھیل کود کی محفلوں میں آواز نکالنے کا دستور ہے تو وہ حرام ہے اور اگر غنا نہ ہو تو مکروہ ہے۔
(۹۰۹) تمام صورتوں میں جب کہ نمازی مشترک وقت رکھنے والی دو نمازوں کو پے درپے ادا کرے ، اگر اس نے پہلے نماز کیلئے اذان کہی ہو تو بعد والی نماز کیلئے اذان ساقط ہے ۔ خواہ دو نمازوں کا جمع کرنا بہتر نہ ہو یا ہو مثلا عرفہ کے دن جو نویں ذی الحجہ کا دن ہے ، اگر ظہر کے فضیلت کے وقت میں نماز پڑھے تو ظہر اور عصر کی نمازوں کا جمع کرنا ، چاہے وہ شخص خود میدان عرفات میں نہ ہو اور عید قربان کی رات میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کا جمع کرنا اس شخص کیلئے جو مشعرالحرام میں ہو اور ان نمازوں کو عشاء کے فضیلت والے وقت میں جمع کرے۔ ان صورتوں میں اذان ساقط ہونے کی شرط یہ ہے کہ دو نمازوں کے درمیان زیادہ فاصلہ ہولیکن نفل اور تعقیبات پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ان صورتوں میں اذان مشروعیت کی نیت سے نہ کہی جائے بلکہ روز عرفہ اور مشعر والی صورتوں کیلئے بیان شدہ شرائط کے ہوتے ہوئے اذان کہنا خلاف احتیاط ہے اگرچہ مشروعیت کی نیت سے نہ ہو۔
(۹۱۰) اگر نماز جماعت کیلئے اذان اور اقامت کہی جاچکی ہو تو جو شخص اس جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہواس کیلئے اذان اور اقامت نہ کہے۔
(۹۱۱) اگر کوئی شخص نماز کیلئے مسجد میں جائے اور دیکھے کہ نماز جماعت ختم ہوچکی ہے تو جب تک صفیں ٹوٹ نہ جائیں اور لوگ منتشر نہ ہوجائیں وہ اپنی نماز کیلئے اذان اور اقامت نہ کہے یعنی ان دونوں کا کہنا مستحب تاکیدی نہیں بلکہ اگر اذان دینا چاہتا ہو تو بہتر یہ ہے کہ بہت آہستہ کہے ۔ اگر دوسری نماز جماعت قائم کرنا چاہتا ہو تو ہرگز اذان اور اقامت نہ کہے۔
(۹۱۲) پچھلے مسئلے میں مذکورہ صورت کے علاوہ چھ شرطوں کے ساتھ اذان اور اقامت ساقط ہوجاتی ہے ۔
(۱) نماز جماعت مسجد میں ہو اورا گر مسجد میں نہ ہو تو اذان اور اقامت سا قط نہیں ہوگی۔
(۲) اس نماز کیلئے اذان اور اقامت کہی جاچکی ہو۔
(۳) نماز جماعت باطل نہ ہو۔
(۴) اس شخص کی نماز اور نماز جماعت ایک ہی جگہ پر ہو لہٰذا اگر نماز جماعت مسجد کے اندر پڑھی جائے اور وہ شخص مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا چاہے تو مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کہے۔
(۵) نماز جماعت ادا ہو ۔ لیکن اس بات کی شرط نہیں کہ خود اس کی نماز بھی فرادی ہونے کی صورت میں ادا ہو۔
(۶) اس شخص کی نماز اور نماز جماعت کا وقت مشترک ہو ۔ مثلاً دونوں نماز ظہر یا دونوں نماز عصر پڑھیں یا نماز ظہر جماعت سے پڑھی جارہی ہو اور وہ شخص نماز عصر پڑھے یاوہ شخص ظہر کی نماز پڑھے اور جماعت کی نماز عصر کی نماز ہو اور اگر جماعت کی نماز غرض آخری وقت میں پڑھی جائے اور وہ چاہے کہ مغرب کی نماز ادا پڑھے تو اذان اور اقامت اس پر سے ساقط نہیں ہوگی۔
(۹۱۳) جو شرطیں سابقہ مسئلے میں بیان کی گئی ہیں اگر کوئی شخص ان میں سے تیسری شرط کے بارے میں شک کرے یعنی اسے شک ہو کہ جماعت کی نماز صحیح تھی یا نہیں تو اس پر سے اذان اور اقامت ساقط ہے لیکن اگر وہ دوسری پانچ شرائط میں سے کسی ایک کے بارے میں شک کرے تو بہتر ہے کہ اذان اور اقامت کہے البتہ اگر جماعت ہو تو ضروری ہے کہ رجاء کی نیت سے کہے۔
(۹۱۴) اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی اذان جو اعلان یا جماعت کی نماز کیلئے کہی جائے، سنے تو مستحب ہے کہ اس کا جو حصہ سنے خود بھی اسے آہستہ آہستہ دہرائے۔
(۹۱۵) اگر کسی شخص نے کسی دوسرے کے اذان اور اقامت سنی ہو خواہ اس نے ان جملوں کو دہرایا ہو یا نہ دہرایا ہو تو اگر اس اذان اور اقامت اور اس نماز کے درمیان جو وہ پڑھنا چاہتا ہو زیادہ فاصلہ نہ ہوا ہو اور اذان و اقامت سننے کی ابتداء ہی سے نماز ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنی نماز کیلئے اس اذان اور اقامت پر اکتفاء کرسکتا ہے ۔ لیکن یہ حکم اس نمازجماعت کیلئے محل اشکال ہے کہ جہاں اذان صرف امام جماعت نے یا صرف مامومین نے سنی ہو۔
(۹۱۶) اگر کوئی مرد ، عورت کے اذان کو لذت کے قصد سے سنے تو اس کی اذان ساقط نہیں ہوگی بلکہ عورت کی اذان سن کر اذان کا ساقط ہونا مطلقاً محل اشکال ہے۔
(۹۱۷) ضروری ہے کہ نماز جماعت کی اذان اور اقامت مرد کہے لیکن عورتوں کی نماز جماعت میں اگر عورت اذان اور اقامت کہہ دے تو کافی ہے اور ایسی جماعت میں عورت کے اذان و اقامہ پر اکتفاء کرنا جس کے مرد ، عورت کے محرم ہوں محل اشکال ہے۔
(۹۱۸) ضروری ہے کہ اقامت ، اذان کے بعد کہی جائے علاوہ ازیں اقامت میں معتبر ہے کہ کھڑے ہو کراور حدث سے پاک ہو کر (وضو یا غسل یاتیمم کرکے ) کہی جائے۔
(۹۱۹) اگر کوئی شخص اذان اور اقامت کے جملے بغیر ترتیب کے کہے مثلاً حی علی الفلاحکا جملہ حی علی الصلاة سے پہلے کہے تو ضروری ہے کہ جہاں سے ترتیب بگڑی ہو وہاں سے دوبارہ کہے۔
(۹۲۰) ضروری ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان فاصلہ نہ ہو اور اگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جائے کہ جو اذان کہی جاچکی ہے اسے اس اقامت کی اذان شمار نہ کیا جاسکے تو اذان باطل ہے ۔ علاوہ ازیں اگر اذان و اقامت کے اور نماز کے درمیان اتنا فاصلہ ہوجائے کہ اذان اور اقامت اس نماز کی اذان اور اقامت شمار نہ ہو تو اذان اور اقامت باطل ہوجائیں گے۔
(۹۲۱) ضروری ہے کہ اذان اور اقامت صحیح عربی میں کہی جائیں لہٰذا اگر کوئی شخص انہیں غلط عربی کاایک حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف کہے یا مثلاً ان کا ترجمہ اردو زبان میں کہے تو صحیح نہیں ہے۔
(۹۲۲) ضروری ہے کہ اذان اور اقامت ، نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد کہی جائیں اور اگر کوئی شخص عمداً یابھول کروقت سے پہلے کہے تو باطل ہے مگر ایسی صورت میں جب کہ وسط نماز میں وقت داخل ہو تو اس نماز پر صحیح کا حکم لگے گا کہ جس کا مسئلہ 732 میں ذکر ہوچکا ہے۔
(۹۲۳) اگر کوئی شخص اقامت کہنے سے پہلے شک کرے کہ اذان کہی ہے یا نہیں تو اذان کہے اور اگر اقامت کہنے میں مشغول ہوجائے اور شک کرے کہ اذان کہی ہے یا نہیں تو اذان کہنا ضروری نہیں۔
(۹۲۴) اگر اذان اور اقامت کہنے کے دوران کوئی جملہ کہنے سے پہلے ایک شخص شک کرے کہ اس نے اس سے پہلے والا جملہ کہا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ جس جملے کی ادائیگی کے بارے میں اسے شک ہوا ہوا سے ادا کرے لیکن اگر اسے اذان یا اقامت کا کوئی جملہ ادا کرنے کے دوران شک ہو کہ اس نے اس سے پہلے والا جملہ کہا ہے یا نہیں تو اس جملے کا کہنا ضروری نہیں۔
(۹۲۵) مستحب ہے کہ اذان کہتے وقت انسان قبلے کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اور وضو یا غسل کی حالت میں ہواور ہاتھوں کو کانوں پر رکھے اور آواز بلند کرے اور کھینچے اور اذان کے جملوں کے درمیان قدرے فاصلہ دے اور جملوں کے درمیان باتیں نہ کرے۔
(۹۲۶) مستحب ہے کہ اقامت کہتے وقت انسان کا بدن ساکن ہو اور اذان کے مقابلے میں اقامت آہستہ کہے اور اس کے جملوں کو ایک دوسرے سے ملا نہ دے لیکن اقامت کے جملوں کے درمیان اتنا فاصلہ نہ دے جتنا اذان کے جملوں کے درمیان دیتا ہے۔
(۹۲۷) مستحب ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان ایک قدم آگے بڑھے یا تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ جائے یا سجدہ کرے یا ذکر کرے یا دعا پڑھے یا تھوڑی دیر کیلئے ساکت ہوجائے یا کوئی بات کرے یا دو رکعت نماز پڑھے لیکن نماز فخر کی اذان اور اقامت کے درمیان کلام کرنا مستحب نہیں ہے۔
(۹۲۸) مستحب ہے کہ جس شخص کو اذان دینے پر مقرر کیا جائے وہ عادل اور وقت شناس ہو ، نیز یہ کہ بلند آہنگ ہو اور اونچی جگہ پر اذان دے۔

نماز کے واجبات
واجبات نماز گیارہ ہیں :
(۱) نیت
(۲) قیام
(۳) تکبیرة الاحرام یعنی اللہ اکبر کہنا
(۴) رکوع
(۵) سجود
(۶) قرأت
(۷) ذکر
(۸) تشہد
(۹) سلام
(۱۰) ترتیب
(۱۱) موالات یعنی اجزائے نماز کا پے درپے بجالانا۔
(۹۲۹) نماز کے واجبات میں سے بعض اس کے رکن ہیں یعنی اگر انسان انہیں بجا نہ لائے تو خواہ ایسا کرنا عمداً ہو یا غلطی سے ہو نماز باطل ہو جاتی ہے اور بعض واجبات رکن نہیں ہیں یعنی اگر وہ غلطی سے چھوٹ جائیں تو نماز باطل نہیں ہوتی۔

نماز کے ارکان پانچ ہیں
(۱) نیت
(۲) تکبیرة الاحرام (یعنی نماز شروع کرتے وقت اَللّٰہُ اَکْبَرُکہنا)
(۳) رکوع سے متصل قیام یعنی رکوع میں جانے سے پہلے کھڑا ہونا
(۴) رکوع
(۵) ہر رکعت میں دو سجدے ۔ جہاں تک اضافے کا تعلق ہے اگر اضافہ عمداً ہو تو بغیر کسی شرط کے نماز باطل ہے اگر غلطی سے ہو تو رکوع میں یا ایک ہی رکعت کے دو سجدوں میں اضافے سے احتیاط لازم کی بنا پر نماز باطل ہے ورنہ باطل نہیں۔

نیّت
(۹۳۰) ضروری ہے کہ انسان نماز قربت کی نیت سے یعنی خداوندعالم کی بارگاہ میں پستی اور خضوع کے اظہا رکیلئے پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ نیت کو اپنے دل سے گزارے یا مثلاً زبان سے کہے کہ چار رکعت نماز ظہر پڑھتا ہوں ۔ قُرْبَةً اِلَی اللّٰہِ ۔
(۹۳۱) اگر کوئی شخص ظہر کی نماز میں یا عصر کی نماز میں نیت کرے کہ چار رکعت نماز پڑھتا ہوں لیکن اس امر کا تعین نہ کرے کہ نماز ظہر کی ہے یا عصر کی تو اس کی نماز باطل ہے البتہ اتنا بھی کافی ہے کہ نماز ظہر کو پہلی نماز اور عصر کی نماز کو دوسری نماز کے طور پر معین کرے۔ اسی طرح اگر کسی شخص پر نماز ظہر کی قضا واجب ہو اور وہ اس قضا نماز یا نماز ظہر کو "ظہر کے وقت " میں پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ جو نماز وہ پڑھے نیت میں اس کا تعین کرے۔
(۹۳۲) ضروری ہے کہ انسان شروع سے آخر تک اپنی نیت پر قائم رہے اگر وہ نماز میں اس طرح غافل ہو جائے کہ اگر کوئی پوچھے کہ وہ کیا کررہا ہے تو اس کی سمجھ میں نہ آئے کہ کیا جواب دے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۹۳۳) ضروری ہے کہ انسان فقط خداوندعالم کی بارگاہ میں اپنی پستی کے اظہار کیلئے نماز پڑھے پس جو شخص ریا کرے یعنی لوگوں کو د کھانے کیلئے نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے خواہ یہ نماز پڑھنا فقط لوگوں کو یا خدا اور لوگوں دونوں کو دکھانے کیلئے ہو۔
>اگر کوئی شخص نماز کا کچھ حصہ بھی اللہ تعالیٰ جل شانہ کے علاوہ کسی اور کیلئے بجالائے خواہ وہ حصہ واجب ہو مثلاً سورہ الحمد یا مستحب ہو مثلا قنوت ، اگر غیر خدا کا یہ قصد پوری نماز میں سرایت کرجائے مثلا ریا کاارادہ اس عمل میں ہو جو اس حصے پر مشتمل ہے یا کیفیت یہ ہو کہ اگر اس حصے کو دوبارہ انجام دیں تو نماز میں ایسا اضافہ ہو جاتا ہو جس سے نماز باطل ہو جاتی ہو ، تو نماز باطل ہے اگر نماز تو خدا کیلئے پڑھے لیکن لوگوں کو دکھانے کیلئے کسی خاص جگہ مثلا مسجد میں پڑھے یا کسی خاص وقت مثلاً اول وقت میں پڑھے یا کسی خاص قاعدے سے مثلاً باجماعت پڑھے تو اس کی نماز بھی باطل ہے۔

تکبیرة الاحرام
(۹۳۵) ہر نماز کے شروع میں اللّٰہ اکبرکہنا واجب اور رکن ہے اور ضروری ہے کہ انسان اللہ کے حروف اور اکبر کے حروف اور اللہ اور اکبر کے الفاظ پے درپے کہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ دو لفظ صحیح عربی میں کہے جائیں اور اگر کوئی شخص غلط عربی میں کہے یا مثلاً ان کا اردو میں ترجمہ کرکے کہے تو صحیح نہیں ہے۔
(۹۳۶) احتیاط مستحب یہ ہے کہ انسان نماز کی تکبیرة الاحرام کو اس چیز سے مثلا اقامت یا دعا سے جو وہ تکبیر سے پہلے پڑھ رہا ہو نہ ملائے۔
(۹۳۷) اگر کوئی شخص چاہے کہ اللہ اکبر کو اس جملے کے ساتھ جو بعد میں پڑھنا ہو مثلاً بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم سے ملائے تو بہتریہ ہے کہ اکبر کے آخری حرف "را " پر پیش دے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ واجب نماز میں اسے نہ ملائے۔
(۹۳۸) نماز میں تکبیرة الاحرام کہتے وقت ضروری ہے کہ انسان کا بدن ساکن ہو اور گر کوئی شخص جان بوجھ کر اس حالت میں تکبیرة الاحرام کہے کہ اس کا بدن حرکت میں ہو تو (اس کی تکبیر ) باطل ہے۔
(۹۳۹) ضروری ہے کہ تکبیر ، الحمد ، سورہ ، ذکر اور دعا اتنی آواز سے پڑھے کہ کم از کم خود سن سکے اور اگر اونچا سننے یا بہرہ ہونے کی وجہ سے یاشوروغل کی وجہ سے نہ سن سکے تو اس طرح کہنا ضروری ہے کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہو تو سن لے۔
(۹۴۰) جو شخص کسی بیماری کی بنا پر گونگا ہوجائے یااس کی زبان میں کوئی نقص ہو جس کی وجہ سے اللہ اکبر نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس طرح کہے اور اگر بالکل ہی نہ کہہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل میں کہے اور اس کیلئے انگلی سے اس طرح اشارہ کرے کہ جو تکبیر سے مناسبت رکھتا ہو اور اگر ہوسکے تو زبان اور ہونٹ کو بھی حرکت دے اور اگر کوئی پیدائشی گونگا ہو تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زبان اور ہونٹ کو اس طرح حرکت دے کہ جو کسی شخص کے تکبیر کہنے سے مشابہ ہو اور اس کے لیے اپنی انگلی سے بھی اشارہ کرے۔
(۹۴۱) اچھا ہے کہ انسان تکبیرة الاحرام سے پہلے رجا ء کی نیت سے کہے :
یَا مُحِِْسنُ قَدْ اَتَاکَ اْلُمِسْیٓ ءُ وَقَّدْ اَمَرْتَ الْمُحْسِنَ اَنْ یَّتَجَاوَزَعَنِ اْلُمِسْیٓ ءِ اَنْتَ الْمُحْسِنُ وَاَنَا الْمُسِیْ ٓءُ بِحَقّ مُحَمَّدٍ وَّاٰل مُحَمَّدٍصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وّتَجَاوَزْ عَنْ قَبِیْحِ مَا تَعْلَمُ مِنّیْ۔
(یعنی)اے اپنے بندوں پر احسان کرنے والے خدا! یہ گنہگار بندہ تیری بارگاہ میں آیا ہے اور تو نے حکم دیا ہے کہ نیک لوگ گناہگاروں سے درگزر کریں تو احسان کرنے والا ہے اور میں گناہگار ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد (علیہم السلام) کے طفیل ، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آل محمد (علیہم السلام) پر اپنی رحمتیں نازل فرما اور میری برائیوں سے جنہیں تو جانتا ہے درگزر فرما۔
(۹۴۲) مستحب ہے کہ نماز کی پہلی تکبیر اور نماز کی درمیانی تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کو کانوں کے برابر تک لے جائے۔
(۹۴۳) اگر کوئی شخص شک کرے کہ تکبیرة الاحرام کہی ہے یا نہیں جب کہ قرأت میں مشغول ہو چکا ہو تو اپنے شک کی پروانہ کرے اور اگر ابھی کچھ نہ پڑھا ہو تو ضروری ہے کہ تکبیر کہے۔
(۹۴۴) اگر کوئی شخص تکبیرة الاحرام کہنے کے بعد شک کرے کہ صحیح طریقے سے تکبیر کہی ہے یا نہیں تو خواہ اس نے آگے کچھ پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو اپنے شک کی پروانہ کرے۔

قیام یعنی کھڑا ہونا
(۹۴۵) تکبیرة الاحرام کہنے کے موقع پر قیام اور رکوع سے پہلے والا قیام قیام متصل برکوع۔ رکن ہے لیکن الحمد وسورہ پڑھنے کے موقع پر قیام اور رکوع کے بعد قیام رکن نہیں ہے جسے اگر کوئی شخص بھول چوک کی وجہ سے ترک کردے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۹۴۶) تکبیرة الاحرام کہنے سے پہلے اور اس کے بعد تھوڑی دیر کیلئے کھڑا ہونا واجب ہے تاکہ یقین ہوجائے کہ تکبیر قیام کی حالت میں کہی گئی ہے۔
(۹۴۷) اگر کوئی شخص رکوع کرنا بھول جائے اور الحمد اور سورہ کے بعد بیٹھ جائے اور پھر اسے یاد آئے کہ رکوع نہیں کیا تو ضروری ہے کہ کھڑا ہوجائے اور رکوع میں جائے۔ لیکن اگر سیدھا کھڑا ہوئے بغیر جھکے ہونے کی حالت میں رکوع کرے تو چونکہ وہ قیام متصل برکوع بجا نہیں لایا اس لیے اس کا یہ رکوع کفایت نہیں کرتا۔
(۹۴۸) جس وقت ایک شخص تکبیرة الاحرام یا قرأت کیلئے کھڑا ہو ضروری ہے کہ چل نہ رہا ہو اور کسی طرف نہ جھکے اور احتیاط لازم کی بنا پر بدن کو حرکت نہ دے ۔ اختیار کی حالت میں کسی جگہ ٹیک نہ لگائے لیکن اگر ایسا کرنا بہ امر مجبوری ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۹۴۹) اگر قیام کی حالت میں کوئی شخص بھولے سے چل پڑے یا کسی طرف جھک جائے یا کسی جگہ ٹیک لگا لے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۹۵۰) احتیاط واجب یہ ہے کہ قیام کے وقت انسان کے دونوں پاؤں زمین پر ہوں لیکن یہ ضروری نہیں کہ بدن کا بوجھ دونوں پاؤں پر ہو چنانچہ اگر ایک پاؤں پر بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۹۵۱) جو شخص ٹھیک طور پر کھڑا ہوسکتا ہوا گر وہ اپنے پاؤں ایک دوسرے سے اتنے جدارکھے کہ اسے کھڑا ہونا نہ کہا جاسکے تو اس کی نماز باطل ہے بلکہ اگر کھڑا ہونا کہا جاسکے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پیروں کو بہت زیادہ کھلا نہ رکھے۔
(۹۵۲) جب انسان نماز میں کوئی واجب ذکر پڑھنے میں مشغول ہوتو ضروری ہے کہ اس کا بدن ساکن ہو اور جب مستحب ذکر میں مشغول ہو تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے اور جس وقت وہ قدرے اگے یا پیچھے ہونا چاہے یا بدن کو دائیں یا بائیں جانب تھوڑی سی حرکت دینا چاہے تو ضروری ہے کہ اس وقت کچھ نہ پڑھے۔
(۹۵۳) اگر متحرک بدن کی حالت میں کوئی شخص مستحب ذکر پڑھے مثلاً رکوع ، سجدے میں جانے کے وقت تکبیر کہے اور اس ذکر کے قصد سے کہے جس کا نماز میں حکم دیا گیا ہے تو وہ ذکر صحیح نہیں لیکن اس کی نماز صحیح ہے ضروری ہے کہ انسان ۔ بِحُوْلِ اللّٰہِ وَقُوَّتِہ اَقُومُ وَاَقعُدُ۔اس وقت کہے جب کھڑا ہورہا ہو۔
(۹۵۴) ہاتھوں اور انگلیوں کو الحمد پڑھتے وقت حرکت دینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ انہیں بھربھی حرکت نہ دی جائے۔
(۹۵۵) اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ پڑھتے وقت یا تسبیحات پڑھتے وقت بے اختیار اتنی حرکت کرے کہ بدن کے ساکن ہونے کی حالت سے خارج ہوجائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بدن کے دوبارہ ساکن ہونے پر جو کچھ اس نے حرکت کی حالت میں پڑھا تھا ، دوبارہ پڑھے۔
(۹۵۶) نماز کے دوران اگر کوئی شخص کھڑے ہونے کے قابل نہ رہے تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور اگر بیٹھ بھی نہ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ لیٹ جائے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نہ ہو ضروری ہے کہ کوئی واجب ذکر نہ پڑھے۔
(۹۵۷) جب تک انسان کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ نہ بیٹھے مثلاً اگر کھڑا ہونے کی حالت میں کسی کا بدن حرکت کرتا ہو یا وہ کسی چیز پر ٹیک لگانے پر یا بدن کو تھوڑا سا ٹیڑھا کرنے پر مجبور ہو تو ضروری ہے کہ جیسے بھی ہوسکے کھڑا ہو کہ نماز پڑھے لیکن اگر وہ کسی طرح بھی کھڑا نہ ہوسکتا ہو تو ضروری ہے کہ سیدھا بیٹھ جائے اور بیٹھ کر نماز پڑھے۔
(۹۵۸) جب تک بیٹھ سکے ضروری ہے کہ وہ لیٹ کر نماز نہ پڑھے اور اگر وہ سیدھا ہو کر نہ بیٹھ سکے تو ضروری ہے کہ پہلو کے بل اس طرح لئے کہ اس کے بدن کا اگلا حصہ قبلہ رخ ہو۔احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ جب تک دائیں پہلو پر لیٹ سکتا ہو بائیں پہلو پر نہ لیٹے اور اگر دونوں طرف لیٹنا ممکن نہ ہو تو پشت کے بل اس طرح لیٹے کہ اس کے تلوے قبلے کی طرف ہوں۔
(۹۵۹) جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد کھڑا ہو سکے اور رکوع کھڑا ہو کر بجالاسکے تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور قیام کی حالت سے رکوع میں جائے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ رکوع بھی بیٹھ کر بجالائے۔
(۹۶۰) جو شخص لیٹ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر وہ نماز کے دوران اس قابل ہوجائے کہ بیٹھ سکے تو ضروری ہے کہ نماز کی جتنی مقدار ممکن ہو بیٹھ کر پڑھے اور اگر کھڑا ہوسکے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار ممکن ہو کھڑا ہو کر پڑھے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نہ ہوجائے ضروری ہے کہ کوئی واجب ذکر نہ پڑھے۔
(۹۶۱) جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو اگر نماز کے دوران اس قابل ہو جائے کہ کھڑا ہو سکے تو ضروری ہے کہ نماز کی جتنی مقدار ممکن ہو کھڑا ہو کر پڑھے لیکن جب تک اس کے بدن کو سکون حاصل نہ ہو جائے ضروری ہے کہ کوئی واجب ذکر نہ پڑھے۔
(۹۶۲) اگر کسی ایسے شخص کو جو کھڑا ہوسکتا ہو یہ خوف ہو کہ کھڑا ہونے سے بیمار ہوجائے گایا اسے کوئی تکلیف ہوگی تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر بیٹھنے سے بھی تکلیف کاڈر ہو تو لیٹ کر نماز پڑھ سکتاہے اگر جانتا ہو کہ مختصر وقت کیلئے ہی کھڑا ہوپائے گا تو ضروری ہے کہ قیام متصل برکوع کیلئے کھڑا ہو۔
(۹۶۳) اگر انسان آخر وقت تک کھڑے ہوکر نماز کی ادائیگی سے مایوس نہ ہ اور اول وقت میں نماز پڑھ لے اور آخر وقت میں کھڑا ہونے پر قادر ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ دوبارہ نماز پڑھے لیکن اگر کھڑا ہو کر نماز پڑھنے سے مایوس ہو اور اول وقت میں نماز پڑھ لے بعدازاں وہ کھڑے ہونے کے قابل ہ وجائے تو ضروری نہیں کہ دوبارہ نماز پڑھے۔
(۹۶۴) مستحب ہے کہ قیام کی حالت میں جسم سیدھا رکھے ، کندھوں کو نیچے کی طرف ڈھیلا چھوڑ دے ، ہاتھوں کو رانوں پر رکھے ، انگلیوں کو باہم ملا کر رکھے ، نگاہ سجدہ کی جگہ پر مرکوز رکھے ، بدن کا بوجھ دونوں پاؤں پر یکساں ڈالے ، خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہو، پاؤں آگے پیچھے نہ رکھے اور اگر مرد ہو تو پاؤں کے درمیان تین پھیلی ہوئی انگلیوں سے لے کر ایک بالشت تک کا فاصلہ رکھے اور عورت ہو تو دونوں پاؤں ملا کر رکھے۔

قرأت
(۹۶۵) ضروری ہے کہ انسان روزانہ کی واجب نمازوں کی پہلی اور دوسری رکعت میں پہلے الحمد اور پھر کسی ایک سورے کی تلاوت کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ ایک مکمل سورے کی تلاوت کرے والضحےٰ اور الم نشرح کی سورتیں اور اسی طرح سورہ فیل اور سورہ قریش احتیاط کی بنا پر نماز میں ایک سورت شمار ہوتی ہیں۔
(۹۶۶) اگر نماز کا وقت تنگ ہویا انسان کسی مجبوری کی وجہ سے سورہ نہ پڑھ سکتا ہو مثلاً اسے خوف ہو کہ اگر سورہ پڑھے گا تو چور یا درندہ یا کوئی اور چیز اسے نقصان پہنچائے گی یا اسے کوئی ضروری کام ہو تو اگر وہ چاہے تو سورہ نہ پڑھے بلکہ وقت تنگ ہونیکی صورت میں اور خوف کی بعض حالتوں میں ضروری ہے کہ وہ سورہ نہ پڑھے۔
(۹۶۷) اگر کوئی شخص جان بوجھ کر الحمد سے پہلے سورہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہوگی لیکن اگر غلطی سے الحمد سے پہلے سورہ پڑھے اور پڑھنے کے دوران یا د آئے تو ضروری ہے کہ سورہ کو چھوڑ دے اور الحمد پڑھنے کے بعد سورہ شروع سے پڑھے۔
(۹۶۸) اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ یا ان میں سے کسی ایک کا پڑھنا بھول جائے اور رکوع میں جانے کے بعد اسے یاد آئے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۹۶۹) اگر رکوع کیلئے جھکنے سے پہلے کسی شخص کو یاد آئے کہ اس نے الحمد اور سورہ نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ پڑھے اور اگر یہ یاد آئے کہ سورہ نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ فقط سورہ پڑھے لیکن اگر اسے یاد آئے کہ فقط الحمد نہیں پڑھی تو ضروری ہے کہ پہلے الحمد اور اس کے بعد دوبارہ سورہ پڑھے اور اگر جھک بھی جائے لیکن رکوع کی حد تک پہنچنے سے پہلے یاد آئے کہ الحمد اور سورہ یا فقط سورہ یا فقط الحمد نہیں پڑھی تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور اسی حکم کے مطابق عمل کرے۔
(۹۷۰) اگر کوئی شخص جان بوجھ کر فرض نماز میں ان چار سوروں میں سے کوئی ایک سورہ پڑھے جن میں آیہٴ سجدہ ہو اور جن کا ذکر مسئلہ ۳۵۴میں کیا گیا ہے تو واجب ہے کہ آیہ سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہ کرے ۔ لیکن اگر سجدہ بجالائے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نمازباطل ہے اور ضروری ہے کہ اسے دوبارہ پڑھے سوائے اس کے اس نے بھولے سے سجدہ کرلیا ہو اور اگر سجدہ نہ کرے تو اپنی نماز جاری رکھ سکتا ہے اگرچہ سجدہ نہ کرکے اس نے گناہ کیا ہے۔
(۹۷۱) اگر کوئی شخص ایسا سورہ پڑھنا شروع کردے جس میں سجدہ واجب ہو لیکن آیہ سجدہ پر پہنچے سے پہلے اسے خیال آجائے تو اس سورے کو چھوڑ کر کوئی اور سورہ پڑھ سکتا ہے اورآیہ سجدہ پڑھنے کے بعد خیال آئے تو ضروری ہے کہ جس طرح سابقہ مسئلہ میں کہا گیاہے عمل کرے۔
(۹۷۲) اگر کوئی شخص نماز کے دوران کسی دوسرے کو آیہ سجدہ پڑھتے ہوئے سنے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر واجب نماز پڑھ رہا ہو تو احتیاط کی بنا پر سجدے کا اشارہ کرے اور نماز ختم کرنے کے بعد اس کا سجدہ بجالائے ۔
(۹۷۳) مستحب نماز میں سورہ پڑھنا ضروری نہیں ہے خواہ وہ نماز منت ماننے کی وجہ سے واجب ہی کیوں نہ ہوگئی ہو لیکن اگر کوئی شخص بعض ایسی مستحب نمازیں ان کے احکام کے مطابق پڑھنا چاہے مثلا ً نماز و حشت کہ جن میں مخصوص سورتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو ضروری ہے کہ وہی سورتیں پڑھے۔
(۹۷۴) جمعہ کی نماز میں اور جمعہ کے دن فجر ، ظہر اور عصر کی نمازوں اور شب جمعہ کی عشاء کی نماز میں پہلی رکعت میں الحمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد سورہ منافقون پڑھنا مستحب ہے اگر کوئی شخص جمعہ کے دن کی نمازوں میں ان میں سے کوئی ایک سورہ پڑھنا شروع کردے تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا۔
(۹۷۵) اگر کوئی شخص الحمد کے بعد سورہ اخلاص یا سورہ کافرون پڑھنے لگے تو وہ اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ نہیں پڑھ سکتا البتہ اگر نماز جمعہ یا جمعہ کے دن کی نمازوں میں بھول کر سوہ جمعہ اور سوہ منافقون کی بجائے ان دو سورتوں میں سے کوئی سورہ پڑھے تو انہیں چھوڑ سکتا ہے اور سورہ جمعہ اور سورہ منافقون پڑھ سکتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ اگر نصف تک پڑھ چکا ہو تو پھر ان سوروں کو نہ چھوڑے۔
(۹۷۶) اگر کوئی شخص جمعہ کی نماز میں یا جمعہ کے دن کی نمازوں میں جان بوجھ کر سورہ اخلاص یا سورہ کافرون پڑھے تو خواہ وہ نصف تک نہ پہنچا ہو احتیاط واجب کی بنا پر انہیں چھوڑ کر سوہ جمعہ اور سوہ منافقون نہیں پڑھ سکتا۔
(۹۷۷) اگر کوئی شخص نماز میں سورہ اخلاص یا سورہ کافرون کے علاوہ کوئی دوسرا سورہ پڑھے تو جب تک نصف تک نہ پہنچاہواسے چھوڑ سکتا ہے اور دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے نصف تک پہنچنے کے بعد بغیر کسی وجہ کے اس سورہ کو چھوڑ کردوسرا سورہ پڑھنا احتیاط کی بنا پر جائز نہیں۔
(۹۷۸) اگر کوئی شخص کسی سورے کا کچھ حصہ بھول جائے یا بہ امر مجبوری مثلا وقت کی تنگی یا کسی اور وجہ سے اسے مکمل نہ کرسکے تو وہ اس سورہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا سورہ پڑھ سکتا ہے خواہ نصف تک ہی پہنچ چکا ہو یاوہ سورہ اخلاص یا سورہ کافرون ہی ہو اور بھول جانے کی صورت میں جتنی مقدار پڑھ چکا ہے اس پر بھی اکتفا کرسکتا ہے ۔
(۹۷۹) مرد پر احتیاط کی بنا پر واجب ہے کہ صبح ، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں الحمد اور سورہ بلند آواز سے پڑھے اور مرد اور عورت دونوں پر احتیاط کی بنا پر واجب ہے کہ نماز ظہر و عصر میں الحمد اور سورہ آہستہ پڑھیں۔
(۹۸۰) احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ مرد صبح ، مغرب اور عشاء کی نماز میں خیال رکھے کہ الحمد اور سورہ کے تمام کلمات حتی کہ ان کے آخری حرف تک بلند آواز سے پڑھے۔
(۹۸۱) صبح ، مغرب اور عشاء کی نماز میں عورت الحمد اور سورہ بلند آواز سے یا آہستہ جیسا چاہے پڑھ سکتی ہے لیکن اگر نامحرم اس کی آواز سن رہاہو اور اس کا سننا حرام ہو تو احتیاط کی بنا پر آہستہ پڑھے۔ اور کیفیت یہ ہو کہ اسے اپنی آواز سنانا حرام ہو تو ضروری ہے کہ آہستہ پڑھے اور اگر جان بوجھ کر بلند آواز سے پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۹۸۲) اگر کوئی شخص جس نماز کو بلند آواز سے پڑھنا ضروری ہے اسے عمداً آہستہ پڑھے یا جو نماز آہستہ پڑھنی ضروری ہے اسے عمداً بلند آواز سے پڑھے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے لیکن اگر بھول جانے کی وجہ سے یا مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا کرے تو صحیح ہے ۔ نیز الحمد اور سورہ پڑھنے کے دوران بھی اگر وہ متوجہ ہو جائے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے تو ضروری نہیں کہ نماز کا جو حصہ پڑھ چکا ہوا سے دوبارہ پڑھے۔
(۹۸۳) اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ پڑھنے کے دوران اپنی آواز معمول سے زیادہ بلند کرے مثلا ً ان سورتوں کو ایسے پڑھے جیسے کہ فریاد کررہا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۹۸۴) انسان کیلئے ضروری ہے کہ نماز کی قرأت کو صحیح پڑھے اور جو شخص کسی طرح بھی پورے سورہ الحمد کو صحیح نہ پڑھ سکتا ہو تو جس طرح بھی پڑھ سکتا ہو پڑھے جب کہ الحمد کی صحیح پڑھی جانے والی مقدار بھی ایک قابل تو جہ مقدار ہو ۔ لیکن اگر وہ مقدار بہت کم ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر قرآن کے دوسرے سوروں میں سے جس قدر صحیح پڑھ سکتا ہو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے اور اگر ایسا نہ کرسکتا ہو تو تسبیح کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھے اور اگر کوئی شخص الحمد کے بعد پڑھے جانے والے پورے سورہ کو نہ سیکھ سکتا ہو تو ضروری نہیں کہ اس کے بدلے کچھ پڑھے ہر حال میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ بجالائے۔
(۹۸۵) اگر کسی کو الحمد اچھی طرح یاد نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرے چاہے اس طرح سے کہ الحمد سیکھ لے ، کوئی اسے پڑھوائے اور وہ پڑھ لے ، نماز جماعت میں کسی کی اقتداء کرلے یا شک کی صورت میں نماز کو دہرالے اور اگر وقت تنگ ہو اور وہ اس طرح نماز پڑھ جیسا کہ گذشتہ مسئلے میں کہا گیاہے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر الحمد نہ سیکھنے میں اس کا اپنا قصور ہو تو اگر ممکن ہو تو عذاب سے بچنے کیلئے جماعت کے ساتھ نماز پڑھے۔
(۹۸۶) واجبات نماز سکھانے کی اجرت لینا احتیاط کی بنا پر حرام ہے لیکن مستحبات نماز سکھانے کی اجرات لینا جائز ہے۔
(۹۸۷) اگر کوئی شخص الحمد اور سورہ کا کوئی لفظ جان بوجھ کر یا جہل تقصیری کی وجہ سے نہ پڑھے یا ایک حرف کے بجائے دوسرا حرف کہے مثلاً ض کی بجائے ذ یا ز کہے یا زیر و زبر کا اس طرح خیال نہ رکھے کہ غلط ہو جائے یا تشدید نہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۹۸۸) اگر انسان نے کوئی لفظ جس طرح یاد کیا ہواسے صحیح سمجھتا ہو اور نماز میں اسی طرح پڑھے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ اس نے غلط پڑھا ہے تو اس کیلئے نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔
(۹۸۹) اگر کوئی شخص کسی لفظ کے زبر اور زیر سے واقف نہ ہو یا یہ نہ جانتا ہو کہ وہ لفظ (ہ) سے ادا کرنا چاہے یا (ح) سے تو ضروری ہے کہ کسی بھی طرح اپنی ذمہ داری پوری کردے مثلا سیکھ لے یا نماز کو جماعت سے پڑھ لے یا ایسے لفظ کو دو (یا دو سے زائد) طریقوں سے ادا کرے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ اس نے صحیح طریقے سے بھی پڑھ لیا ہے البتہ اس طریقے میں اس کی نماز اسی صورت میں صحیح ہوسکتی ہے کہ غلط اد کئے جانے والے جملے کو قرآن یا ذکر کہا جاسکے۔
(۹۹۰) علمائے تجوید کا کہنا ہے کہ اگر کسی لفظ میں واؤ ہو اور اس لفظ سے پہلے والے حرف پر پیش ہو اور اس لفظ میں واؤ کے بعد والا حرف ہمزہ ہو مثلاً سُوْئِٓتو پڑھنے والے کو چاہئیے کہ اس واؤ کو مد کے ساتھ کھینچ کر پڑھے اسی طرح اگر کسی لفظ میں الف ہو اور اس لفظ میں الف سے پہلے والے حرف پر زبر ہو اور اس لفظ میں الف کے بعد والا حرف ہمزہ ہو مثلا جَآءً تو ضروری ہے کہ اس لفظ کے الف کو کھینچ کر پڑھے۔ اگر کسی لفظ میں (ی) ہو اور اس لفظ میں (ی) سے پہلے حرف والے پر زیر ہو اور اس لفظ میں (ی) کے بعد والا حرف ہمزہ ہو مثلا حی ء تو ضروری ہے کہ (ی) کو مد کے ساتھ پڑھے اور اگر ان حروف واؤ الف اور یا کے بعد ہمزہ کے بجائے کوئی ساکن حرف ہو یعنی اس پر زبر ، زیر یا پیش (میں سے کوئی حرکت) نہ ہو تب بھی ان تینوں حروف کو مد کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن ظاہراًایسے معاملے کو مد کے ساتھ پڑھنے ضروری ہے لیکن ظاہراً ایسے معاملے میں قرأت کا صحیح ہونا مد پر موقوف نہیں لہٰذا جو طریقہ بتایا گیا ہے اگر کوئی اس پرعمل نہ کرے تب بھی اس کی نماز صحیح ہے لیکن ولاالضالین جیسے الفاظ میں جہاں تشدید اور الف کا پوری طور پر ادا ہونا مختصر مد پر موقوف ہے ضروری ہے کہ الف کو تھوڑا سا کھینچ کر پڑھے۔
(۹۹۱) احتیاط مستحب یہ ہے کہ انسان نماز میں وقف بحرکت اور وصل بکسون نہ کرے اور وقف بحرکت کے معنی یہ ہیں کہ کسی لفظ کے آخر میں زیر ، زبر اور پیش پڑھے اور اس لفظ اور اس کے بعد کے لفظ کے درمیان فاصلہ دے ۔ مثلاً کہے الرحمن الرحیم اور الرحیم اور الرحیم کے میم کو زیر دے اور اس کے بعد قدرے فاصلہ دے اور کہے مالک یوم الدین اور وصل مسکون بسکون کے معنی یہ ہیں کہ کسی لفظ کی زیر ، زبر یا پیش نہ پڑھے اور اس لفظ کو بعد کے لفظ سے جو ڑ دے ۔ مثلاً یہ کہے الرحمن الرحیم اور الرحیم کے میم کو زیرنہ دے اور فوراً مالک یوم الذین کہے۔
(۹۹۲) نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں فقط ایک دفعہ الحمد یا ایک دفعہ تسبیحات اربعہ پڑھی جاسکتی ہے یعنی نماز پڑھنے والا ایک دفعہ کہے ۔ سُبحَانَ اللّٰہ والحمدللّٰہ ولا الٰہَ اِلا اللّٰہ واللّٰہ اکبراور بہتر یہ ہے کہ تین دفعہ کہے ۔ وہ ایک رکعت میں الحمد اور دوسری رکعت میں تسبیحات بھی پڑھ سکتا ہے بہتر یہ ہے کہ دونوں رکعتوں میں تسبیحات پڑھے۔
(۹۹۳) اگر وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ تسبیحات اربعہ ایک دفعہ پڑھے اور اگر اس قدرروقت بھی نہ ہو تو ایک دفعہ سبحان اللہ کہنا کافی ہے۔
(۹۹۴) احتیاط کی بنا پر مرد اور عورت دونوں پر واجب ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد یا تسبیحات اربعہ آہستہ پڑھیں۔
(۹۹۵) اگر کوئی شخص تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد پڑھی تو واجب نہیں کہ اس کی بسم اللہ بھی آہستہ پڑھے لیکن مقتدی کیلئے احتیاط واجب یہ ہے کہ بسم اللہ بھی آہستہ پڑھے۔
(۹۹۶) جو شخص تسبیحات یادنہ کرسکتا ہو یا انہیں ٹھیک ٹھیک نہ پڑھ سکتا ہو تو ضروری ہے کہ وہ تیسری اور چوتھی رکعت میں الحمد پڑھے۔
(۹۹۷) اگر کوئی شخص نماز کی پہلی دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ آخری دو رکعتیں ہیں تسبیحات پڑھے لیکن رکوع سے پہلے اسے صحیح صورت کا پتا چل جائے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر اسے رکوع کے دوران یا رکوع کے بعد پتا چلے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۹۹۸) اگر کوئی شخص نماز کی آخری دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ پہلی دورکعتیں ہیں الحمدپڑھے یا نماز کی پہلی دو رکعتوں میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ آخری دو رکعتیں ہیں الحمد پڑھے تو اسے صحیح صورت کا خواہ رکوع سے پہلے پتا چلے یا بعد میں اس کی نماز صحیح ہے۔
(۹۹۹) اگر کوئی شخص تیسری یا چوتھی رکعت میں الحمد پڑھنا چاہتا ہو لیکن تسبیحات اس کی زبان پر آجائیں یا تسبیحات پڑھنا چاہتا ہو لیکن الحمد اس کی زبان پر آجائے تو اگر اس کے پڑھنے کا بالکل ارادہ نہ تھا تو ضروری ہے کہ اسے چھوڑ کر دو بارہ الحمد یا تسبیحات پڑھے لیکن اگر بطور کلی بلاارادہ نہ ہو جیسے کہ اس کی عادت وہی کچھ پڑھنے کی ہو جو اس کی زبان پر آیا ہے تو وہ اسی کو تمام کرسکتا ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۰۰۰) جس شخص کی عادت تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات پڑھنے کی ہواگر وہ اپنی عادت سے غفلت برتے اور اپنے وظیفے کی ادائیگی کی نیت سے الحمد پڑھنے لگے تو وہی کافی ہے اور اس کے لیے الحمد یا تسبیحات دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
(۱۰۰۱) تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات کے بعد استغفار کرنا مستحب ہے مثلا ً کہے استغفراللّٰہ ربی واتوب الیہ یا کہے اللّٰھم اغفرلی اور اگر نماز پڑھنے والا استغفار پڑھنے اور رکوع کیلئے جھکنے سے پہلے شک کرے کہ اس نے حمد یا تسبیحات کو پڑھایا نہیں تو ضروری ہے کہ حمد یا تسبیحات پڑھے اور اگر استغفار پڑھ رہاہو یا اس سے فارغ ہوچکا ہو اور اسے شک ہوجائے کہ اس نے الحمد یا تسبیحات پڑھی ہیں یا نہیں تو بھی احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ الحمد یا تسبیحات پڑھے۔
(۱۰۰۲) اگر تیسری یا چوتھی رکعت کے رکوع میں یارکوع میں جاتے ہوئے شک کرے کہ اس نے الحمد یا تسبیحات پڑھی ہیں یا نہیں تو اپنے شک کی پروانہ کرے۔
(۱۰۰۳) اگر نماز پڑھنے والا شک کرے کہ آیا اس نے کوئی آیت یا لفظ درست پڑھا ہے یا نہیں مثلا شک کرے کہ قل ھو اللہ احد درست پڑھا ہے یانہیں تو وہ اپنے شک کی پروانہ کرے لیکن اگر احتیاطا وہی آیت یا جملہ دوبارہ صحیح طریقے سے پڑھ دے تو کوئی حرج نہیں اور اگر کئی بار بھی شک کرے تو کئی بار پڑھ سکتاہے ہاں اگر وسوسے کی حد تک پہنچ جائے تو بہتر ہے کہ پھر تکرار نہ کرے۔
(۱۰۰۴) مستحب ہے کہ پہلی رکعت میں الحمد پڑھنے سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطٰنِ الرجیمکہے اور ظہر اور عصر کی پہلی اور دوسری رکعتوں میں بسم اللہ بلند آواز سے کہے اور الحمد اور سورہ کا ہر لفظ واضح طور پر پڑھے اور ہر آیت کے آخر پر وقف کرے یعنی اسے بعد والی آیت کے ساتھ نہ ملایاور الحمد اور سورہ پڑھتے وقت آیات کے معنوں کی طرف توجہ رکھے ۔ اگر جماعت سے نماز پڑھ رہاہو تو امام جماعت کے سورہ الحمد ختم کرنے کے بعد اور اگر فرادیٰ نماز پڑھ رہا ہو تو سورہ الحمد پڑھنے کے بعد کہے الحمد للہ رب العلمین اور سورہ قل ھو اللہ احد پڑھنے کے بعد ایک یاد و یا تین دفعہ کذالک اللہ ربی یا تین دفعہ کذالک اللہ ربنا۔ کہے اور سورہ پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر رکے اور اس ے بعد رکوع سے پہلے کی تکبیر کہے یا قنوت پڑھے ۔
(۱۰۰۵) مستحب یہ ہے کہ تمام نمازوں کی پہلی رکعت میں سورہ قدر اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھے۔
(۱۰۰۶) پنجگانہ نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں بھی انسان کا سورہ اخلاص کا نہ پڑھنا مکروہ ہے۔
(۱۰۰۷) ایک ہی سانس میں سورہ قل ھو اللہ احد کا پڑھنا مکروہ ہے۔
(۱۰۰۸) جو سورہ انسان پہلی رکعت میں پڑھے اسی کا دوسری رکعت میں پڑھنا مکروہ ہے لیکن اگر سورہ اخلاص دونوں رکعتوں میں پڑھے تو مکروہ نہیں ہے۔

نماز کے واجبات۲
رکوع
(۱۰۰۹) ضروری ہے کہ ہر رکعت میں قرأت کے بعد اس قدر جھکے کہ اپنی تمام انگلیوں ، من جملہ انگوٹھے کے سرے گھنٹے پر رکھ سکے اس عمل کو رکوع کہتے ہیں۔
(۱۰۱۰) اگر رکوع جتنا جھک جائے لیکن اپنی انگلیوں کے سرے گھٹنوں پر نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں ۔
(۱۰۱۱) اگر کوئی شخص رکوع عام طریقے کے مطابق نہ بجالائے مثلا بائیں یا دائیں جانب جھک جائے یا گھٹنے آگے کو بڑھا لے تو خواہ اس کے ہاتھ گھنٹوں تک پہنچ بھی جائیں اس کا رکوع صحیح نہیں ہے۔
(۱۰۱۲) ضروری ہے کہ جھکنا رکوع کی نیت سے ہو لہٰذا اگر کسی اور کام کیلئے مثلا کسی جانور کو مارنے کیلئے جھکے تو اسے رکوع نہیں سمجھ سکتا بلکہ ضروری ہے کہ کھڑا ہو اور دوبارہ رکوع کیلئے جھکے اور اس عمل کی وجہ سے رکن میں اضافہ نہیں ہوتا اور نماز باطل نہیں ہوتی۔
(۱۰۱۳) جس شخص کے ہاتھ یاگھٹنے دوسرے لوگوں کے ہاتھوں اور گھٹنوں سے مختلف ہوں مثلاً اس کے ہاتھ اتنے لمبے ہوں کہ اگر معمولی سا بھی جھکے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں یا اس کے گھٹنے دوسرے لوگوں کے گھٹنوں کے مقابلے میں نیچے ہوں اور اسے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچانے کیلئے بہت زیادہ جھکنا پڑتا ہو تو ضروری ہے کہ اتنا جھکے جتنا عموماً لوگ جھکتے ہیں۔
(۱۰۱۴) جو شخص بیٹھ کر رکوع کررہا ہو اسے اس قدر جھکنا ضروری ہے کہ اس کا چہرہ اس کے گھٹنوں کے بالمقابل جاپہنچے اور بہتر ہے کہ اتنا جھکے کہ اس کا چہرہ سجدے کی جگہ کے بالمقابل جاپہنچے۔
(۱۰۱۵) بہتر یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں رکوع میں تین دفعہ سبحان اللہ یا ایک دفعہ سبحان ربی العظیم وبحمدہ کہے اگرچہ کوئی بھی ذکر کافی ہے جو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اتنی ہی مقدار میں ہو لیکن وقت کی تنگی اور مجبوری کی حالت میں ایک دفعہ سبحان اللہ کہنا ہی کافی ہے جو شخص سبحان ربی العظیم کو اچھی طرح نہ پڑھ سکتا ہو ضروری ہے کہ کوئی اور ذکر مثلا تین بار سبحان اللہ کہے۔
(۱۰۱۶) ذکر رکوع مسلسل اور صحیح عربی میں پڑھنا ضروری ہے اور مستحب ہے کہ اسے تین یا پانچ یا سات دفعہ بلکہ اس سے بھی زیارت پڑھا جائے۔
(۱۰۱۷) رکوع کی حالت میں ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کا بدن ساکن ہو نیز ضروری ہے کہ وہ اپنے اختیار سے بدن کو اس طرح حرکت نہ دے کہ اس پر ساکن ہونا صادق نہ آئے حتی کہ احتیاط کی بنا پر اگر وہ واجب ذکر میں مشغول نہ ہو تب بھی یہی حکم ہے اور اگر جان بوجھ کر اس ٹھہراؤ کا خیال نہ رکھے تو چاہے سکون کی حالت میں ذکر ادا کرلے احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۰۱۸) اگر نماز پڑھنے والا اس وقت جب کہ رکوع کا واجب ذکر ادا کررہا ہو بھولے سے بے اختیار اتنی حرکت کرے کہ بدن کے سکون کی حالت میں ہونے سے خارج ہوجائے تو بہتر یہ ہے کہ بدن کے سکون حاصل کرنے کے بعد دوبارہ ذکر کو بجالائے لیکن اگر اتنی کم حرکت کرے کہ بدن کے سکون میں ہونے کی حالت سے خارج نہ ہو یا انگلیوں کو حرکت دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۰۱۹) اگر نماز پڑھنے والا اس سے پیشتر کہ رکوع جتنا جھکے اور اس کا بدن سکون حاصل کرے جان بوجھ کر ذکر رکوع پڑھنا شروع کردے تو اس کی نماز باطل ہے سوائے اس کے کہ سکون کے عالم میں دوبارہ ذکر ادا کردے ۔ البتہ اگر بھولے سے ہو تو ذکر کو دوبارہ ادا کرنا ضروری نہیں۔
(۱۰۲۰) اگر ایک شخص واجب ذکر کے ختم ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سررکوع سے اٹھالے تو اس کی نمازباطل ہے اور اگر سہواً سراٹھالے تو ذکر دہرانا ضروری نہیں۔
(۱۰۲۱) اگر ایک شخص ذکر کی مقدار کے مطابق حتی کہ ایک سبحان اللہ کہنے کی حد تک ہی رکوع کی حالت میں چاہے سکون کے بغیر ہی سہی ، نہ رہ سکتا ہو تو ذکر کہنا ضروری نہیں ہے البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ذکر کہے چاہے اس کا باقی ماندہ حصہ رکوع سے اٹھتے ہوئے قربت مطلقہ کی نیت سے کہے یا اس سے پہلے ہی ذکر کہنا شروع کردے۔
(۱۰۲۲) اگر کوئی شخص مرض وغیرہ کی وجہ سے رکوع میں اپنا بدن ساکن نہ رکھ سکے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن ضروری ہے کہ رکوع کی حالت سے خارج ہونے سے پہلے واجب ذکر اس طریقے سے ادا کرے جیسے اوپر بیا ن کیا گیاہے۔
(۱۰۲۳) جب کوئی شخص رکوع کیلئے نہ جھک سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کسی چیز کا سہارا لے کر رکوع بجالائے اور اگر سہارے کے ذریعے بھی معمول کے مطابق رکوع نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ اس قدر جھکے کہ عرفا اسے رکوع کہا جاسکے اور اگر اس قدر نہ جھک سکے تو ضروری ہے کہ رکوع کے لیے سر سے اشارہ کرے۔
(۱۰۲۴) جس شخص کو رکوع کیلئے سر سے اشارہ کرنا ضروری ہواگر وہ اشارہ کرنے پر قادر نہ ہو تو ضروری ہے کہ رکوع کی نیت کے ساتھ آنکھوں کو بند کرے اور ذکر رکوع پڑھے اور رکوع سے اٹھنے کی نیت سے آنکھوں کو کھول دے اور اگر اس قابل بھی نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر دل میں رکوع کی نیت کرے اور اپنے ہاتھ سے رکوع کیلئے اشارہ کرے اور ذکر رکوع پڑھے اور اس صورت میں اگر ممکن ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ اس کیفیت کے ساتھ ساتھ بیٹھ کر رکوع کیلئے اشارہ بھی کرے۔
(۱۰۲۵) جو شخص کھڑے ہو کر رکوع نہ کرسکے لیکن جب بیٹھا ہوا ہو تو رکوع کیلئے جھک سکتا ہو تو ضروری ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے اور رکوع کیلئے سر سے اشارہ کرے۔ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایک دفعہ پھر نماز پڑھے اور اس کے رکوع کے وقت بیٹھ جائے اور رکوع کیلئے جھک جائے۔
(۱۰۲۶) اگر کوئی شخص رکوع کی حد تک پہنچنے کے بعد جان بوجھ کر سر کو اٹھالے اور دوبارہ رکوع کرنے کی حد تک جھکے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۰۲۷) ضروری ہے کہ ذکر رکوع ختم ہونے کے بعد سیدھا کھڑا ہوجائے اور احتیاط واجب کی بنا پر جب اس کا بدن سکون حاصل کرلے تو اس کے بعد سجدے میں جائے اور اگر جان بوجھ کر کھڑا ہونے سے پہلے سجدے میں چلا جائے تو اس کی نماز باطل ہے اسی طرح اگر بدن کے سکون حاصل کرنے سے پہلے سجدے میں چلا جائے تو بھی احتیاط واجب کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۱۰۲۸) اگر کوئی شخص رکوع اد کرنا بھول جائے اور اس سے پیشتر کہ سجدے کی حالت میں پہنچے اسے یاد آجائے تو ضروری ہے کہ کھڑا ہو جائے اور پھر رکوع میں جائے۔ جھکے ہوئے ہونے کی حالت میں اگر رکوع کی جانب لوٹ جائے تو کافی نہیں۔
(۱۰۲۹) اگر کسی شخص کو پیشانی زمین پر رکھنے کے بعد یاد آئے کہ اس نے رکوع نہیں کیا تو اس کیلئے ضروری ہے کہ لوٹ جائے اور کھڑا ہونے کے بعد رکوع بجالائے ۔ اگر اسے دوسرے سجدے میں یاد آئے تو احتیاط لازم کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۰۳۰) مستحب ہے کہ انسان رکوع میں جانے سے پہلے جب سیدھا کھڑا ہو تکبیر کہے رکوع میں گھٹنوں کو پیچھے کی طرف دھکیلے ، پیٹھ کو ہموار رکھے گردن کو کھینچ کر پیٹھ کے برابر رکھے ، دونوں پاؤں کے درمیان دیکھے ، ذکر سے پہلے یا بعد میں درود پڑھے اور جب رکوع کے بعد اٹھے اور سیدھا کھڑا ہو تو بدن کے سکون کی حالت میں ہوتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہے۔
(۱۰۳۱) عورتوں کیلئے مستحب ہے کہ رکوع میں ہاتھ کو گھٹنوں سے اوپر رکھیں اور گھٹنوں کو پیچھے کی طرف نہ دھکیلیں۔

سجود
(۱۰۳۲) نماز پڑھنے والے کیلئے ضروری ہے کہ واجب اور مستحب نمازوں کی ہر رکعت میں رکوع کے بعد دو سجدے کرے سجدہ یہ ہے کہ خاص مشکل میں پیشانی کو خصوع کی نیت سے زمین پر رکھے اور نماز کے سجدے کی حالت میں واجب ہے کہ دونوں ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے زمین پر رکھے جائیں۔ احتیاط واجب کی بنا پر پیشانی سے مراد پیشانی کا درمیانی حصہ ہے یہ وہ مستطیل ہے جو پیشانی کے درمیانی حصے میں دوابروؤں سے لے کر سر کے بال اگنے کے مقام تک ، دو فرضی خط کھینچنے پر بنے گا۔
(۱۰۳۳) دو سجدے مل کر ایک رکن ہیں اور اگر کوئی شخص واجب نماز میں بھولے سے یا مسئلے سے لا علمی کی بنا پر ایک رکعت میں دونوں سجدے ترک کردے تو اس کی نماز باطل ہے اسی طرح اگر بھول کر یا جہل قصوری کی وجہ سے ایک رکعت میں دو سجدوں کا اضافہ کرے تو احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔ (جہل قصوری یہ ہوتاہے کہ انسان کے پاس اپنی لاعلمی کا معقول عذر موجود ہو)
(۱۰۳۴) اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ایک سجدہ کم یا زیادہ کردے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر سہو اً ایک سجدہ کم یا زیادہ کرے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوگی ۔ ہاں کم ہونے کی صورت کا حکم ، سجدہ سہو کے احکام میں بیان کیا جائے گا۔
(۱۰۳۵) جو شخص پیشانی زمین پر رکھ سکتا ہواگر جان بوجھ کر یا سہواً پیشانی زمین پر نہ رکھے تو خواہ بدن کے دوسرے حصے زمین سے لگ بھی گئے ہوں تو اس نے سجدہ نہیں کیا لیکن اگر وہ پیشانی زمین پر رکھ دے اور سہواً بدن کے دوسرے حصے زمین پر نہ رکھے یا سہواً ذکر نہ پڑھے تو اس کا سجدہ صحیح ہے۔
(۱۰۳۶) بہتر یہ ہے کہ اختیار کی حالت میں سجدے میں تین دفعہ سبحان اللّٰہ یا ایک دفعہ سبحان ربی الاعلٰی وبحمدہ پڑھے اور ضروری ہے کہ یہ جملے مسلسل اور صحیح عربی میں کہے جائیں اور ظاہر یہ ہے کہ کسی بھی ذکر کا پڑھنا کافی ہے لیکن احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ اتنی ہی مقدار میں ہو اور مستحب ہے کہ سبحان ربی الاعلٰی وبحمدہ تین یا پانچ یا سات دفعہ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ پڑھے۔
(۱۰۳۷) سجدے کی حالت میں ضروری ہے کہ نمازی کا بدن ساکن ہو اور حالت اختیار میں اسے اپنے بدن کو اس طرح حرکت نہیں دینا چاہئے کہ سکون کی حالت سے نکل جائے اور جب واجب ذکر میں مشغول نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۱۰۳۸) اگر اس سے پیشتر کہ پیشانی زمین سے لگے اور بدن سکون حاصل کرلے کوئی شخص جان بوجھ کر ذکر سجدہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے ، سوائے اس کے کہ سکون میں آنے کے بعد دوبارہ ذکر پڑھ لے اور اگر ذکر ختم ہونے سے پہلے جان بوجھ کر سرسجدے سے اٹھالے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۰۳۹) اگر اس سے پیشتر کہ پیشانی زمین پر لگے کوئی شخص سہواً ذکر سجدہ پڑھے اور اس سے پیشتر کہ سر سجدے سے اٹھائے اسے پتا چل جائے کہ اس نے غلطی کی ہے تو ضروری ہے کہ ساکن ہو جائے اور دوبارہ ذکر پڑھے۔ ہاں اگر پیشانی زمین پر لگ چکی ہو اور بدن ساکن ہونے سے پہلے بھولے سے ذکر پڑھا ہو تو دہرانا ضروری نہیں۔
(۱۰۴۰) اگر کسی کو سر سجدے سے اٹھالینے کے بعد پتا چلے کہ اس نے ذکر سجدہ ختم ہونے سے پہلے سر اٹھالیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۰۴۱) جس وقت کوئی شخص ذکر سجدہ پڑھ رہاہو اگر وہ جان بوجھ کر سات اعضائے سجدہ میں سے کسی ایک کو زمین پر سے اٹھائے اور اس کا یہ عمل اس آرام و سکون کے برخلاف ہو جس کا سجدے میں ہونا ضروری ہے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی یہی حکم احتیاط واجب کی بنا پر اس وقت ہے جب ذکر پڑھنے میں مشغول نہ ہو۔
(۱۰۴۲) اگر ذکر سجدہ ختم ہونے سے پہلے کوئی شخص سہواً پیشانی زمین پر سے اٹھالے تو اسے دوبارہ زمین پر نہیں رکھ سکتا اور ضروری ہے کہ اسے ایک سجدہ شمار کرے لیکن اگر دوسرے اعضا سہواً زمین پر سے اٹھالے تو ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ زمین پر رکھے اور ذکر پڑھے۔
(۱۰۴۳) پہلے سجدے کا ذکر ختم ہونے کے بعد ضروری ہے کہ بیٹھ جائے حتی کہ اس کا بدن سکون حاصل کرلے اور پھر دوبارہ سجدے میں جائے۔
(۱۰۴۴) نماز پڑھنے والے کی پیشانی رکھنے کی جگہ گھٹنوں اور پاؤں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چارملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند یا پست نہیں ہونی چاہئے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی پیشانی کی جگہ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ نیچی یا اونچی بھی نہ ہو۔
(۱۰۴۵) اگرکسی ایسی ڈھلوان جگہ میں اگرچہ اس کا جھکاؤ صحیح طور پر معلوم نہ ہو نماز پڑھنے والے کی پیشانی کی جگہ اس کے گھٹنوں اور پاؤں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند یا پست ہو تو اس کی نماز محل اشکال ہے۔
(۱۰۴۶) اگر نماز پڑھنے والا اپنی پیشانی کو غلطی سے ایک ایسی چیز پر رکھ دے جو گھٹنوں اور اس کے پاؤں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ بلند ہو اور ان کی بلندی اس قدر ہوکہ یہ نہ کہہ سکیں کہ سجدے کی حالت میں ہے تو ضروری ہے کہ سر کو اٹھائے اور ایسی چیز پر جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ نہ ہو رکھے اور اگر اس کی بلندی اس قدر ہو کہ کہہ سکیں کہ سجدے کی حالت میں ہے اور واجب ذکر پڑھنے کے بعد متوجہ ہو تو سر سجدے سے اٹھا کر نماز کو تمام کرسکتا ہے اگر واجب ذکر پڑھنے سے پہلے متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ پیشانی کو اس چیز سے کھینچ کر اس چیز پر رکھی کہ جس کی بلندی چار ملی ہوئی انگلیوں کے برابر یا اس سے کم ہو اور واجب ذکر پڑھے اور اگر پیشانی کو کھینچنا ممکن نہ ہوتو واجب ذکر کو اسی حالت میں پڑھے اور نماز کو تمام کرے اور ضروری نہیں کہ نماز کو دوبارہ پڑھے۔
(۱۰۴۷) ضروری ہے کہ نماز پڑھنے والے کی پیشانی اور اس چیز کے درمیان جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے کوئی دوسری چیز نہ ہو پس اگر سجدہ گاہ اتنی میلی ہو کہ پیشانی سجدہ گاہ کو نہ چھوئے تو اس کا سجدہ باطل ہے لیکن اگر سجدہ گاہ کا رنگ تبدیل ہوگیاہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۰۴۸) ضروری ہے کہ سجدے میں دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ممکنہ صورت میں پوری ہتھیلیوں کو زمین پر رکھے لیکن مجبوری کی حالت میں ہاتھوں کی پشت بھی زمین پر رکھے تو کوئی حرج نہیں اور اگر ہاتھوں کی پشت بھی زمین پر رکھنا ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھوں کی کلائیاں زمین پر رکھے اور اگر انہیں بھی نہ رکھ سکے تو پھر کہنی تک جوحصہ بھی ممکن ہو زمین پر رکھے اور اگریہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر بازو کا رکھنا کافی ہے۔
(۱۰۴۹) سجدے میں ضروری ہے کہ پاؤں کے دونوں انگوٹھے زمین پر رکھے لیکن ضروری نہیں کہ دونوں انگوٹھوں کے سرے زمین پر رکھے بلکہ ان کا ظاہری یا باطنی حصہ بھی رکھے تو کافی ہے اگر پاؤں کی دوسری انگلیاں یا پاؤں کا اوپر والا حصہ زمین پر رکھے یا ناخن لمبے ہونے کی بنا پر انگوٹھے زمین پر نہ لگیں تو نماز باطل ہے اور جس شخص نے کوتاہی اور مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اپنی نمازیں اس طرح پڑھی ہو ں ضروری ہے کہ انہیں دوبارہ پڑھے۔
(۱۰۵۰) جس شخص کے پاؤں کے انگوٹھوں کے سروں سے کچھ حصہ کٹا ہواہو تو ضروری ہے کہ جتنا باقی ہو وہ زمین پر رکھے اور اگر انگوٹھوں کا کچھ حصہ بھی نہ بچا ہو یا اتنا کم بچا ہو کہ اسے کسی بھی طرح زمین یا کسی اور چیز پر رکھنا ممکن نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ باقی انگلیوں کو زمین پر رکھے اور اگر اس کی کوئی بھی انگلی نہ ہو تو پاؤں کا جتنا حصہ بھی باقی بچا ہواسے زمین پر رکھے۔
(۱۰۵۱) اگر کوئی شخص معمول کے خلاف سجدہ کرے مثلاً سینے اور پیٹ کو زمین پر ٹکائے یا پاؤں کو کچھ لمبا کردے چنانچہ اگر کہا جائے کہ اس نے سجدہ کیا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن اگر کہا جائے کہ لیٹ گیا ہے اور اس پر سجدہ کرنا صادق نہ آتا ہو تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۰۵۲) سجدہ گاہ یا دوسری چیز جس پر نماز پڑھنے والا سجدے کرے ضروری ہے کہ جتنی مقدار پر سجدہ صحیح ہے اتنی مقدار پاک ہو لیکن اگر مثال کے طور پر سجدہ گاہ کو نجس فرش پر رکھ دے یا سجدہ گاہ کی ایک طرف نجس ہو اور وہ پیشانی پاک طرف رکھے یا سجدہ گاہ کے اوپر کی طرف کچھ حصہ پاک اور کچھ حصہ نجس ہو لیکن پیشانی کو نجس نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۰۵۳) اگر نماز پڑھنے والے کی پیشانی پر پھوڑا یا زخم یا اس طرح کی کوئی چیز ہو جس کی بنا پر وہ پیشانی زمین پر بغیر زورلگائے بھی نہ رکھ سکتا ہو مثلاً اگر وہ پھوڑا پوری پیشانی کو نہ گھیرے ہوئے ہو تو ضروری ہے کہ پیشانی کے صحت مند حصے سے سجدہ کرے اور اگر پیشانی کی صحت مند جگہ پر سجدہ کرنا اس بات پر موقوف ہو کہ زمین کو کھودے اور پھوڑے کو گڑھے میں اور صحت مند جگہ کی اتنی مقدار زمین پر رکھے کہ سجدے کیلئے کافی ہو تو ضروری ہے کہ اس کام کو انجام دے۔ (پیشانی کے معنی سجود کے مسائل کی ابتداء میں بیان کئے جاچکے ہیں ۔)
(۱۰۵۴) اگر پھوڑا یا زخم تمام پیشانی پر (جس کے معنی بیان کئے جاچکے ہیں) پھیلا ہوا ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ پیشانی کی دونوں اطراف کو ، جو پیشانی کے باقی ماندہ حصے یا کسی ایک جانب کو جس طرح بھی ممکن ہو زمین پر رکھے اور اگر یہ نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے چہرے کے کچھ حصہ سے سجدہ کرے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اگر ٹھوڑی سے سجدہ کر سکتا ہو تو ٹھوڑی سے سجدہ کرے اور اگر نہ کرسکتا ہو تو پیشانی کے دونوں اطراف میں سے ایک طرف سے سجدہ کرے اور اگر چہرے سے سجدہ کرنا کسی طرف بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ سجدے کیلئے اشارہ کرے۔
(۱۰۵۵) جو شخص بیٹھ سکتا ہو لیکن پیشانی زمین پر نہ رکھ سکتا ہو، اگر اتنا جھک سکتا ہو جسے عرفاً سجدہ کرنا کہا جاسکے تو ضروری ہے کہ اتنا جھکے اور سجدہ گاہ یا کسی دوسری چیز کو جس پر سجدہ صحیح ہو کسی بلند چیز پر رکھے اور اپنی پیشانی اس پر رکھے لیکن ضروری ہے کہ اگر ممکن ہو تو ہتھیلیوں اور گھٹنوں اور پاؤں کے انگوٹھوں کو معمول کے مطابق زمین پر رکھے۔
(۱۰۵۶) مذکورہ فرض میں اگر کوئی ایسی بلند چیز نہ ہو جس پر نماز پڑھنے والا سجدہ گاہ یا کوئی دوسری چیز جس پر سجدہ کرنا صحیح ہورکھ سکے اور کوئی شخص بھی نہ ہو جو مثلاً سجدہ گاہ کو اٹھائے اور پکڑے تاکہ وہ شخص اس پر سجدہ کرے تو ضروری ہے کہ سجدہ گاہ یا دوسری چیز کو جس پر سجدہ کررہا ہو ہاتھ سے اٹھائے اور اس پر سجدہ کرے۔
(۱۰۵۷) اگر کوئی شخص بالکل ہی سجدہ نہ کرسکتا ہو اور جتنا جھک سکتا ہو اسے سجدہ نہ کہا جاسکتا ہو تو ضروری ہے کہ سجدے کیلئے سرسے اشارہ کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو ضروری ہے کہ آنکھوں سے اشارہ کرے اور اگر آنکھوں سے بھی اشارہ نہ کرسکتا ہو تو ضروری ہے کہ دل میں سجدے کی نیت کرے اور احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ ہاتھ وغیرہ سے سجدے کیلئے اشارہ بھی کرے اور واجب ذکر ادا کرے۔
(۱۰۵۸) اگر کسی شخص کی پیشانی بے اختیار سجدے کی جگہ سے اٹھ جائے تو ضروری ہے کہ حتی الامکان اسے دوبارہ سجدے کی جگہ پر نہ جانے دے قطع نظر اس کے کہ اس نے سجدے کا ذکر پڑھا ہو تو یہ ایک سجدہ شمار ہوگا ۔ اگر سر کو نہ روک سکے اور بے اختیار دوبارہ سجدے کی جگہ پہنچ جائے تو وہی ایک سجدہ شمار ہوگا۔ لیکن اگر واجب ذکر ادا نہ کیاہو تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ ذکر ادا کرے لیکن ضروری ہے کہ اسے قربت مطلقہ کی نیت سے کہے اور اس کے جزونماز ہونے کا قصد نہ کرے۔
(۱۰۵۹) جہاں انسان کیلئے تقیہ کرنا ضروری ہے وہاں وہ قالین یا اس طرح کی چیز پر سجدہ کرسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ نماز کیلئے کسی دوسری جگہ جائے یا نماز کو اس لیے موخر کرے کہ اسی جگہ پر تقیہ کا سبب ختم ہونے کے بعد نماز ادا کرے ۔ لیکن اگر اسی مقام پر چٹائی یا کسی دوسری چیز جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو ا گروہ اس طرح سجدہ کرے کہ تقیہ کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو ضروری ہے کہ پھر وہ قالین یا اس سے ملتی جلتی چیز پر سجدہ نہ کرے
(۱۰۶۰) اگر کوئی شخص (پرندوں کے) پروں سے بھرے گدے یا اسی قسم کی کسی دوسری چیز پر سجدہ کرے جس پر جسم سکون کی حالت میں نہ رہے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۰۶۱) اگر انسان کیچڑ والی زمین پر نماز پڑھنے پر مجبور ہو اور بدن اور لباس کا آلودہ ہو جانا اس کیلئے مشقت کا موجب نہ ہو تو ضروری ہے کہ سجدہ اور تشہد معمول کے مطابق بجا لائے اگر ایسا کرنا مشقت کا موٴجب ہو تو قیام کی حالت میں سجدے کے لئے سر سے اشارہ کرے،کھڑے ہو کر پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہوگی ۔
(۱۰۶۲) پہلی رکعت میں اور مثلاً نماز ظہر ، نماز عصر اور نماز عشاء کی تیسری رکعت میں جس میں تشہد نہیں ہے احتیاط واجب یہ ہے کہ انسان دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر کیلئے سکون سے بیٹھے اور پھر کھڑا ہو۔

وہ چیزیں جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے
(۱۰۶۳) سجدہ زمین پر اور ان چیزوں پر کرنا ضروری ہے کہ جو کھائی اور پہنی نہ جاتی ہوں اور زمین سے اُگتی ہوں۔ مثلاً لکڑی اور درختوں کے پتوں پر سجدہ کرے ۔ کھانے اور پہننے کی چیزوں مثلاً گندم ، جواور کپاس پر اور ان چیزوں پر جو زمین کے اجزاء شمار نہیں ہوتیں مثلاً سونے ، چاندی اور اسی طرح کی دوسری چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے لیکن تارکول اور رفت (جو کہ گھٹیا قسم کا ایک تارکول ہے) کو مجبوری کی حالت میں دوسری چیزوں کے مقابلے میں کہ جن پر سجدہ کرنا صحیح نہیں سجدے کیلئے اولیت دے۔
(۱۰۶۴) انگور کے پتوں پر سجدہ کرنا جب کہ وہ کچے ہوں اور انہیں معمولا کھایا جاتا ہو جائز نہیں اس صور ت کے علاوہ ان پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۰۶۵) جو چیزیں زمین سے اگتی ہیں اور حیوانات کی خوراک ہیں مثلاً گھاس اوربھوسا ان پر سجدہ کرنا صحیح ہے۔
(۱۰۶۶) جن پھولوں کو کھایا نہیں جاتا ان پر سجدہ صحیح ہے بلکہ ان کھانے کی دواؤں پر بھی سجدہ صحیح ہے جو زمین سے اگتی ہیں انہیں کوٹ کریا ابال کران کا پانی پیتے ہیں ، مثلا ً گل بنفشہ اور گل گاؤ زبان ، پر بھی سجدہ صحیح ہے۔
(۱۰۶۷) ایسی گھاس جو بعض شہروں میں کھائی جاتی ہو اور بعض شہروں میں کھائی تو نہ جاتی ہو لیکن وہاں اسے اشیائے خوردنی میں شمار کیا جاتا ہو اس پر سجدہ صحیح نہیں اور احتیاط کی بنا پر کچے پھلوں پر بھی سجدہ کرنا صحیح نہیں۔
(۱۰۶۸) چونے کے پتھر اور جپسم پر سجدہ کرنا صحیح ہے بلکہ پختہ جپسم اور چونے اور اسی طرح اینٹ اور مٹی کے پے ہوئے برتنوں پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۰۶۹) اگر لکھنے کے کاغذ کو ایسی چیز سے بنایا جائے کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے مثلاً لکڑی اور بھوسے سے تو اس پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح اگر روئی یا کتان سے بنایا گیا ہو تو بھی اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے لیکن اگر ریشم یا ابریشم اور اسی طرح کی کسی چیز سے بنایا گیا ہو تو اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے ٹشو پیپر پر سجدہ صرف اسی صورت میں صحیح ہے جب انسان کو معلوم ہو کہ اسے ایسی چیز سے بنایا گیا ہے جس پر سجدہ صحیح ہے۔
(۱۰۷۰) سجدے کیلئے خاک شفا سب چیزوں سے بہتر ہے اس کے بعد مٹی مٹی کے بعد پتھر اور پتھر کے بعد گھاس ہے۔
(۱۰۷۱) اگر کسی پاس ایسی چیز نہ ہو جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے یا اگر ہو لیکن شدید سردی یا گرمی وغیرہ کی وجہ سے اس پر سجدہ نہ کرسکتا ہو تو ایسی صورت میں تارکول اور زفت کو سجدے کیلئے دوسری چیزوں پر اولیت حاصل ہے لیکن اگر ان پر سجدہ کرنا ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنے لباس یا کسی دوسری چیز پر کہ حالت اختیار میں جس پر سجدہ جائز نہیں سجدہ کرے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ جب تک اپنے کپڑوں پر سجدہ ممکن ہو کسی دوسری چیز پر سجدہ نہ کرے۔
(۱۰۷۲) کیچڑ پر اور ایسی نرم مٹی پر جس پر پیشانی سکون سے نہ ٹک سکے سجدہ کرنا باطل ہے۔
(۱۰۷۳) اگر پہلے سجدے میں سجدہ گاہ پیشانی سے چپک جائے تو ضروری ہے کہ دوسرے سجدے کیلئے اسے چھڑالے۔
(۱۰۷۴) جس چیز پر سجدہ کرنا ہو اگر نماز پڑھنے کے دوران وہ گم ہوجائے اور نماز پڑھنے والے کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو تو جو ترتیب مسئلہ 1071 میں بتائی گئی ہے اس پر عمل کرے خواہ وقت تنگ ہویاابھی اتنا وقت ہو کہ نمازتوڑ کردوبارہ پڑھی جاسکے۔
(۱۰۷۵) جب کسی شخص کو سجدے کی حالت میں پتا چلے کہ اس نے اپنی پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھی ہے جس پر سجدہ کرنا باطل ہے چنانچہ واجب ذکر ادا کرنے کے بعد متوجہ ہو تو سرسجدے سے اٹھائے اور اپنی نماز جاری رکھے اور اگر واجب ذکر ادا کرنے سے پہلے متوجہ ہو تو ضروری ہے کہ اپنی پیشانی کو کھینچ کر اس چیز پر کہ جس پر سجدہ کرنا صحیح ہے لائے اور واجب ذکر پڑھے لیکن اگر پیشانی لانا ممکن نہ ہوتو اسی حال میں واجب ذکر ادا کرسکتا ہے اور اس کی نماز دونوں صورتوں میں صحیح ہے۔
(۱۰۷۶) اگر کسی شخص کو سجدے کے بعد پتا چلے کہ اس نے اپنی پیشانی کسی ایسی چیز پر رکھی ہے جس پر سجدہ کرنا باطل ہے تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۰۷۷) اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو سجدہ کرنا حرام ہے عوام میں سے بعض لوگ جو ائمہ علیہم السلام کے مزارات مقدسہ کے سامنے پیشانی زمین پر رکھتے ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی نیت سے ایسا کریں تو کوئی حرج نہیں ورنہ محل اشکال ہے۔

سجدہ کے مستحبات اور مکروہات
(۱۰۷۸) چندچیزیں سجدے میں مستحب ہیں :
(۱) جو شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہا ہو وہ رکوع سے سراٹھانے کے بعد مکمل طور پر کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر نماز پڑھنے والا رکوع کے بعد پوری طرح بیٹھ کر سجدہ میں جانے کیلئے تکبیرکہے ۔
(۲) سجدے میں جاتے وقت مرد پہلے اپنی ہتھیلیاں اور عورت اپنے گھٹنے کو زمین پر رکھے۔
(۳) نمازی ناک کو سجدہ گاہ یا کسی ایسی چیز پر رکھے جس پر سجدہ کرنا درست ہو۔
(۴) نمازی سجدے کی حالت میں ہاتھ کی انگلیوں کو ملا کر کانوں کے پاس اس طرح رکھے کہ ان کے سرے رو ہوں۔
(۵) سجدے میں دعا کرے اللہ تعالیٰ سے حاجت طلب کرے اور یہ دعا پڑھے:
یَا خَیْرَ الْمَسْوُلِیْنَ وَیَا خَیْرَ الْمُعْطِیْنَ اَرْزُقْنِیْ وَارْزُقْ عَیَالِیْ مِنْ فَضْلِکَ فَاِنَّکَ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیمَِْ۔
(یعنی )اے سب میں سے بہتر جن سے کہ مانگا جاتا ہے اور اے ان سب سے برتر جو عطا کرتے ہیں مجھے اور میرے اہل وعیال کو اپنے فضل و کرم سے رزق عطا فرما کیونکہ تو ہی فضل عظیم کا مالک ہے۔
(۶) سجدے کے بعد بائیں ران پر بیٹھ جائے اور دائیں پاؤں کا اوپر والا حصہ (یعنی پشت) بائیں پاؤں کے تلوے پر رکھے۔
(۷) ہر سجدے کے بعد جب بیٹھ جائے اور بدن کو سکون حاصل ہوجائے تو تکبیر کہے۔
(۸) پہلے سجدے کے بعد جب بدن کو سکون حاصل ہوجائے تو ۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ کہے۔
(۹) سجدہ زیادہ دیر تک انجام دے اور بیٹھنے کے وقت ہاتھوں کو رانوں پر رکھے۔
(۱۰) دوسرے سجدے میں جانے کیلئے بدن کے سکون کی حالت میں اَللّٰہُ اَکْبَر کہے۔
(۱۱) سجدوں میں درود پڑھے۔
(۱۲) سجدے سے قیام کیلئے اٹھتے وقت پہلے گھٹنوں کو لگائیں اور ان کے بعد ہاتھوں کو زمین سے اٹھائے۔
(۱۳) مرد کہنیوں اور پیٹ کو زمین سے نہ لگائیں نیز بازوؤں کو پہلو سے جدا رکھیں۔
عورتیں کہنیاں اور پیٹ زمین پر رکھیں اور بدن کے اعضاء کو ایک دوسرے سے ملالیں۔ان کے علاوہ دوسرے مستحبات بھی ہیں جن کا ذکر مفصل کتابوں میں موجود ہے۔
(۱۰۷۹) سجدے میں قرآن مجید پڑھنا مکروہ ہے اور سجدے کی جگہ کو گرد و غبار جھاڑ نے کیلئے پھونک مارنا بھی مکروہ ہے بلکہ اگر پھونک مارنے کی وجہ سے دو حرف بھی منہ سے عمداً نکل جائیں تو احتیاط کی بنا پر نماز باطل ہے اور ان کے علاوہ اور مکروہات کا ذکر بھی مفصل کتابوں میں آیا ہے۔

قرآن مجید کے واجب سجدے
(۱۰۸۰) قران مجید کی چار سورتوں یعنی سورہ سجدة آیت 15 ، سورہ فصلت آیت 37 ، سورہ والنجم آیت 62 اور سورہ علق آیت 19 میں سجدہ ہے جسے اگر انسان پڑھے یا سنے تو آیت ختم ہونے کے بعد فوراًسجدہ کرنا ضروری ہے اور اگر سجدہ کرنا بھول جائے تو جب بھی اسے یاد آئے سجدہ کرے ہاں اگر آیہ سجدہ غیر اختیاری حالت میں سنے تو سجدہ واجب نہیں ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ سجدہ کیا جائے۔
(۱۰۸۱) اگر انسان سجدے کی آیت سننے کے وقت خود بھی وہ آیت پڑھے تو ضروری ہے کہ دو سجدے کرے۔
(۱۰۸۲) اگر نماز کے علاوہ سجدے کی حالت میں کوئی شخص آیہ سجدہ پڑھے یا سنے تو ضروری ہے کہ سجدے سے سراٹھائے اور دوبارہ سجدہ کرے۔
(۱۰۸۳) اگر انسان سوئے ہوئے شخص یا دیوانے یا ایسے بچے سے جو قرآن کی پہچان نہیں رکھتا ، سجدے کی آیت سنے یا اس پر کان دھرے تو سجدہ واجب ہے لیکن اگر گراما فون یا ٹیپ ریکارڈ سے سنے تو سجدہ واجب نہیں اور سجدے کی آیت ریڈیو پر ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے نشر کی جائے تب بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ریڈیو اسٹیشن سے براہ راست نشریات میں سجدے کی آیت پڑھے اور انسان اسے ریڈیو پر سنے تو سجدہ واجب ہے۔
(۱۰۸۴) قرآن کا واجب سجدہ کرنے کیلئے احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ انسان کی جگہ غصبی نہ ہو اور احتیاط مستحب کی بنا پر اس کے پیشانی رکھنے کی جگہ اس کے گھٹنوں اور پاؤں کی انگلیوں کے سروں کی جگہ سے چار ملی ہوئی انگلیوں سے زیادہ اونچی یا نیچی نہ ہو لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس نے وضو یا غسل کیا ہوا ہو یا قبلہ رخ ہویا اپنی شرمگاہ کو چھپائے یا اس کا بدن اور پیشانی رکھنے کی جگہ پاک ہو اس کے علاوہ جو شرائط نماز پڑھنے والے کے لباس کیلئے ضروری ہیں وہ شرائط قرآن مجید کا واجب سجدہ ادا کرنے والے کے لباس میں شرط نہیں ہیں۔
(۱۰۸۵) احتیاط واجب یہ ہے کہ قرآن مجید کے واجب سجدے میں انسان اپنی پیشانی سجدہ گاہ یا کسی ایسی چیز پر رکھے جس پر سجدہ کرنا صحیح ہو اور احتیاط مستحب کی بنا پر بدن کے دوسرے اعضاء زمین پر اس طرح رکھے جس طرح نماز کے سلسلے میں بتایا گیا ہے۔
(۱۰۸۶) جب انسان قرآن مجید کا واجب سجدہ کرنے کے ارادے سے پیشانی زمین پر رکھ دے تو خواہ وہ کوئی ذکر نہ بھی پڑھے تب بھی کافی ہے اور ذکر کا پڑھنا مستحب ہے اور بہتر ہے کہ یہ پڑھے :
لآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حَقّاً حَقّاً ، لَاَاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اِیْمَانًا وَّتَصْدِیْقًا ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ عُبُوْدِیَّة وَّرِقّاً ، سَجَدْتُّ لَکَ یَا ربِّ تَعَبُّدًا وَّرِقًّا ، مُسْتَنْکِفاًوَّلَامُسْتَکْبِراً ، بَلْ اَنَا عَبْدُذَلِیْلَ ضَعِیْفُ خَائِفُ مُّسْتَجِیْر۔

تشہد
(۱۰۸۷) سب واجب اور مستحب نمازوں کی دوسری رکعت میں ، نماز مغرب کی تیسری رکعت میں اور ظہر عصر اور عشاء کی چوتھی رکعت میں انسان کیلئے ضروری ہے کہ دوسرے سجدے کے بعد بیٹھ جائے اور بدن کے سکون کی حالت میں تشہد پڑھے یعنی کہے :
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَاشَرِیْکَ لَہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہْ اَلَّلُھَّم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ اور اگر کہے: اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّدَاً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ عَبْدُہ وَرَسوُلہْ
تو بھی کافی ہے ۔ نماز وتر میں بھی تشہد پڑھنا ضروری ہے۔
(۱۰۸۸) ضروری ہے کہ تشہد کے جملے صحیح عربی میں اور معمول کے مطابق مسلسل کہے جائیں۔
(۱۰۸۹) اگر کوئی شخص تشہد پڑھنا بھول جائے اور کھڑا ہوجائے اور رکوع سے پہلے اسے یاد آئے کہ اس نے تشہد نہیں پڑھا تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھے اور پھرد وبارہ کھڑا ہو اور اس رکعت میں جو کچھ پڑھنا ضروری ہے پڑھے اور نماز ختم کرے احتیاط مستحب کی بنا پر نماز کے بعد بے جاقیام کیلئے دو سجدہ سہو بجالائے اور اگر اسی رکوع میں یا اس کے بعد یاد آئے تو ضروری ہے کہ نماز تمام کرے اور نماز کے سلام کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر تشہد کی قضا کرے ۔ ضروری ہے کہ بھولے ہوئے تشہد کیلئے دو سجدہ سہو بجالائے۔
(۱۰۹۰) مستحب ہے کہ تشہد کی حالت میں انسان بائیں ران پر بیٹھے اور دائیں پاؤں کی پشت کو بائیں پاؤں کے تلوے پر رکھے اور تشہد سے پہلے کہے۔ اَلْحَمْدُ ِللّٰہِ یا کہے بِسْمِ اللّٰہِ وَبِاللّٰہِ وَالْحَمْدُ ِللّٰہِ وَخَیْرُالْاَسْماءِ لِلّٰہِ۔ اور یہ بھی مستحب ہے کہ ہاتھ رانوں پر رکھے اور انگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ملائے اور اپنے دامن پر نگاہ ڈالے اور تشہد میں صلوٰت کے بعد کہے۔ وَتَقَبَّلْ شَفَاعَتَہ وَارْفَعْ دَرَجَتَہْ ۔
(۱۰۹۱) مستحب ہے کہ عورتیں تشہد پڑھتے وقت اپنی رانیں ملا کر رکھیں۔

نماز کا سلام
(۱۰۹۲) نماز کی آخری رکعت کے تشہد کے بعد جب نمازی بیٹھا ہو اور اس کا بدن سکون کی حالت میں ہو تو مستحب ہے کہ وہ کہے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ اور اس کے بعد ضروری ہے کہ کہے ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَمْ اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَمْ کے جملے کے ساتھ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاُتْہ کے جملے کا اضافہ کرے یا یہ کہے۔ اَلسَّلَاُم عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ لیکن اگر اس سلام کو پڑھے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بعد اَلسَّلَامُ عَلَیْکَمْ بھی کہے۔
(۱۰۹۳) اگر کوئی شخص نمازکا سلام کہنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب ابھی نماز کی شکل ختم نہ ہوئی ہو اور اس نے کوئی ایسا کام بھی نہ کیا ہو جسے عمداً یا سہواً کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہو مثلاً قبلے کی طرف پیٹھ کرنا تو ضروری ہے کہ سلام کہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۰۹۴) اگر کوئی شخص نماز کا سلام کہنا بھول جائے اور اسے ایسے وقت یاد آئے جب نماز کی شکل ختم ہوگئی ہو یا اس نے کوئی ایسا کام کیا ہو جسے عمداً یا سہواً کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے مثلاً قبلے کی طرف پیٹھ کرنا تو اس کی نماز صحیح ہے۔

ترتیب
(۱۰۹۵) اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کی ترتیب الٹ دے مثلاً الحمد سے پہلے سورہ پڑھ لے یا رکوع سے پہلے سجدے بجالائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔
(۱۰۹۶) اگر کوئی شخص نماز کا کوئی رکن بھول جائے اور اس کے بعد کارکن بجالائے مثلاً رکوع کرنے سے پہلے سجدے بجالائے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہوجاتی ہے۔
(۱۰۹۷) اگر کوئی شخص نماز کا کوئی رکن بھول جائے اور ایسی چیز بجالائے جو اس کے بعد ہو اور رکن نہ ہو مثلاً اس سے پہلے کہ دو سجدے کرے تشہد پڑھ لے تو ضروری ہے کہ رکن بجالائے اور جو کچھ بھول کراس سے پہلے پڑھا ہوا سے دوبارہ پڑھے۔
(۱۰۹۸) اگر کوئی ایک ایسی چیز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس کے بعد کارکن بجالائے مثلاً الحمد بھول جائے اور رکوع میں چلا جائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۰۹۹) اگر کوئی شخص ایک ایسی چیز بھول جائے جو رکن نہ ہو اور اس چیز کو بجالائے جو اس کے بعد ہو اور وہ بھی رکن نہ ہو مثلا ً الحمد بھول جائے اور سورت پڑھ لے تو ضروری ہے کہ جو چیز بھول گیا ہو وہ بجالائے اور اس کے بعد وہ چیز جو بھول کر پہلے پڑھ لی ہو دوبارہ پڑھے۔
(۱۱۰۰) اگر کوئی شخص پہلا سجدہ اس خیال سے بجالائے کہ دوسرا سجدہ ہے یا دوسرا سجدہ اس خیال سے بجالائے کہ پہلا سجدہ ہے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اس کا پہلا سجدہ ، پہلا سجدہ اور دوسرا سجدہ دوسرا سجدہ شمار ہوگا۔

موالات
(۱۱۰۱) ضروری ہے کہ انسان نماز موالات کے ساتھ پڑھے یعنی نماز کے افعال مثلاً رکوع سجود اور تشہد تو اتر اور تسلسل کے ساتھ بجالائے اور جو چیز یں بھی نماز میں پڑھے معمول کے مطابق پے درپے پڑھے اور اگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ ڈالے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۱۰۲) اگر کوئی شخص نماز میں سہواً حروف یا جملوں کے درمیان فاصلہ دے اور فاصلہ اتنا نہ ہو کہ نماز کی صورت برقرار نہ رہے تو اگر وہ ابھی بعد والے رکن میں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضروری ہے کہ وہ حروف یا جملے معمول کے مطابق پڑھے اور اگر بعد کی کوئی چیز پڑھی جاچکی ہو تو ضروری ہے کہ اسے دہرائے اور اگر بعد کے رکن میں مشغول ہوگیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۱۰۳) رکوع وسجود کو لمبا کرنے اور نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھنے سے موالات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

قنو ت
(۱۱۰۴) تمام و ا جب اورمستحب نما ز و ں میں دو سر ی ر کعت کے ر کو ع سے پہلے قنو ت پڑ ھنا مستحب ہے لیکن نما ز شفع میں ضر ور ی ہے کہ ا سے رجا ء کی نیت سے پڑ ھے اور نما ز و تر میں بھی با و جو د اس کے کہ ایک ر کعت کی ہو تی ہے رکو ع سے پہلے قنو ت پڑ ھنا مستحب ہے نما ز جمعہ کی ہر ر کعت میں ا یک قنو ت نما ز آ یا ت میں پا نچ قنو ت نما ز عید الفطر و قر با ن کی
د و نو ں ر کعتو ں میں ملا کر چند قنو ت ہیں جس کی تفصیل کا تذ کر ہ اپنے مقام پر آ ئے گا
(۱۱۰۵)مستحب ہے کہ قنو ت پڑ ھتے و قت ہا تھ چہر ے کے سا منے او ر ہتھیلیا ں ا یک د و سر ی کے ساتھ ملا کر آ سما ن کی طر ف ر کھے اور ا نگو ٹھو ں کے علا و ہ با قی ا نگلیو ں کو آ پس میں ملا ئے اور نگا ہ ہتھیلیو ں پر ر کھے بلکہ احتیا ط وا جب کی بنا پر ہاتھ اٹھا ئے بغیر قنو ت نہیں ہو سکتا سوا ئے اس کے کہ مجبو ر ی ہو
(۱۱۰۶) قنو ت میں ا نسا ن جو ذکر بھی پڑ ھے خوا ہ ا یک د فعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ “بھی کہے کا فی ہے اور بہتر ہے کہ یہ د عا پڑھے :
”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْاَرَضِیْنَ السَّبْعِ وَمَا فِیْھِنَّ وَمَابَیْنَھُنَّ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“
(۱۱۰۷) مستحب ہے کہ ا نسان قنو ت بلند آوا ز سے پڑ ھے لیکن ا گر ا یک شخص جما عت کے ساتھ پڑ ھ ر ہا ہو تو اما م کی آواز سنے تو اس کا بلند آوا ز سے قنو ت پڑ ھنا مستحب نہیں ہے
(۱۱۰۸) اگر کو ئی شخص عمداً قنو ت نہ پڑ ھے تو ا س کی قضا نہیں ہے اور ا گر بھو ل جا ئے اور اس سے پہلے کہ ر کو ع کی حد تک جھکے اسے یا د آ جا ئے تو مستحب ہے کہ کھڑا ہو جا ئے اور قنو ت پڑ ھے اگر ر کو ع میں یا د آ ئے تو مستحب ہے کہ ر کو ع کے بعد قضا کر ے اور ا گر سجد ے میں یا د آ ئے تو مستحب ہے کہ سلا م کے بعد اس کی قضا کر ے ۔

نما ز کا تر جمہ
سو ر ہ الحمد کا تر جمہ
(۱) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ: ”بِسْمِ اللّٰہِ“ یعنی میں ا بتدا کر تا ہو ں خدا کے نا م سے اس ذا ت کے نا م سے جس میں تمام کما لا ت یکجا ہیں اور جو ہر قسم کے نقص سے منز ہ ہے ”اَلرَّحْمٰن“ اس کی ر حمت و سیع اور بے ا نتہا ہے ”الرَّحِیْم“ اس کی ر حمت ذا تی اور از لی و ابد ی ہے۔
”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“ یعنی ثنا ء اس خدا کی ذا ت سے مخصو ص ہے جو تمام مو جو دا ت کا پا لنے والا ہے اس کی ر حمت و سیع اور بے ا نتہا ہے اس کی رحمت ذا تی اور از لی و ابد ی ہے ۔
”اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ اس کی رحمت وسیع اور بے انتہا ہے، اس کی رحمت ذاتی اور ازلی وابدی ہے۔
”مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ یعنی وہ توا نا ذا ت کہ جزا کے د ن کی حکمرا نی اس کے ہا تھ میں ہے ۔
”اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ یعنی ہم فقط تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور فقط تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔
”اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ“ یعنی ہمیں راہِ راست کی جانب ہدایت فرما جو کہ دینِ اسلام ہے۔
”صِراَطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم“ یعنی ان لوگوں کے راستے کی جانب جنہیں تُو نے اپنی نعمتیں عطا کی ہیں جو انبیاء اور انبیاء ٪ کے جانشین ہیں۔
”غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ“ یعنی نہ ان لوگوں کے راستے کی جانب جن پر تیرا غضب ہوا نہ اُن کے راستے کی جانب جو گمراہ ہیں۔

سو ر ہ اخلا ص کا تر جمہ
(۱) بِسْمِ ا للّٰہِ ا لرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ”بِسْمِ اللّٰہ“یعنی میں ابتدا کرتا ہوں خدا کے نام سے، اس ذات کے نام سے جس میں تمام کمالات یکجا ہیں اور جو ہر قسم کے نقص سے منزہ ہے۔ ”اَلرَّحْمٰنِ“ اس کی رحمت وسیع اور بے انتہا ہے۔ ”الرَّحِیْمِ“ اس کی رحمت ذاتی اور ازلی و ابدی ہے۔
”قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ“(یعنی اے محمد ﷺ )آپ کہہ دیں کہ خدا یکتا ہے۔
”اللّٰہ الصَّمَدُ “ یعنی وہ خدا جو تمام موجودات سے بے نیاز ہے۔
”لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ“ یعنی نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
” وَلَمْ یَکُنْ لَہ کُفُوًا اَحَدٌ“ اور مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کے مثل اور ہم پلہ نہیں ہے۔
ر کو ع سجو داو ر ا ن کے بعد کے مستحب اذکا ر کا تر جمہ
”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدہ“ یعنی میر ا عظیم پر و ر دگا ر ہر عیب اور ہر نقص سے پا ک اور منزہ ہے میں اس کی ستائش میں مشغو ل ہو ں
”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی وَبِحَمْدِہ“ یعنی میرا پر و ر دگا ر جو سب سے بالا ترہے ہر عیب اور نقص سے پا ک اور منزہ ہے میں اس کی ستا ئش میں مشغو ل ہو ں
”سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ “ یعنی جو کو ئی خدا کی ستا ئش کر تا ہے خدا اسے سنتا ہے اور قبو ل کر تا ہے
”اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ“یعنی میں مغفر ت طلب کر تا ہو ں اس خد ا و ند سے جو میرا پا لنے والا ہے اور میں اس کی طر ف ر جو ع کر تا ہو ں ۔
”بِحَوْلِ اللّٰہِ وَقُوَّتِہ اَقُوْمُ وَاَقُعْدُ“یعنی میں خدا تعا لی کی مد د سے اٹھتااور بیٹھتا ہو ں۔

قنو ت کا تر جمہ
”لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ“ یعنی کو ئی خدا پر ستش کے لا ئق نہیں سوا ئے اس یکتا اور بے مثل خدا اکے جو صا حب حلم و کر م ہے۔
”لَااِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ الْعِلیُّ الْعَظِیْمُ“یعنی کو ئی خدا پر ستش کے لا ئق نہیں سوا ئے اس یکتا اور بے مثل خداکے جو بلند مر تبہ اور بز رگ ہے ۔
” سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْاَرَضِیْنَ السَّبْعِ “یعنی پا ک اور منز ہ ہے وہ خدا جو سا ت آسمانوں اور سا ت ز مینو ں کا پر و د گا ر ہے ۔
”وَمَافِیْھِنَّ وَمَابَیْنَھُنَّ وَرَبِّ الْعَرشِ الْعَظِیْمِ“یعنی وہ ہر ا س چیز کا پر و د گا ر ہے جو آسمانوں اور ز مینو ں میں اور ا ن کے در میا ن ہے اور عر ش عظیم کا پر ورد گا ر ہے ۔
”وَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“اور حمد و ثنا ء اس خدا کے لیے مخصو ص ہے جو تما م مو جو دا ت کا پا لنے والا ہے۔

تسبیحا ت ار بعہ کا تر جمہ
”سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اللّٰہُ وُاللّٰہُ اکْبَرُ“یعنی خدا تعا لی پا ک و منز ہ ہے اور ثنا ء اسی کے لیے مخصوص ہے اور اس بے مثل خدا کے علا وہ کو ئی پر ستش کے لا ئق نہیں اور وہ اس سے با لا تر ہے کہ اس کی تو صیف کی جا سکے۔

تشہد اور سلا م کا تر جمہ
”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ لَہ“یعنی ستا ئش پر ور د گا ر کے مخصو ص ہے اور میں گواہی د یتا ہو ں کہ سو ا ئے اس خدا کے جو یکتا ہے اور جس کا کو ئی شریک نہیں کو ئی پر ستش کے لا ئق نہیں ہے۔
”اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ“ اور میں گو ا ہی د یتا ہو ں کہ محمد ﷺ خد ا کے بندے اور اس کے رسو ل ہیں ۔
”اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ“یعنی اے خدا ر حمت بھیج محمد اورا ٓ ل محمد پر یعنی رسول ا للہ کی شفا عت قبو ل کر اور ا ٓ نحضر ت کا در جہ ا پنے نز د یک بلند کر۔
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ“ یعنی ا ے ا للہ کے رسو ل آ پ پہ ہما را سلا م ہو اور آ پ پر ا للہ کی ر حمتیں نا ز ل ہو ں۔
”اَلسَّلَامُ عَلَیْناوَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّلِحِیْنَ“یعنی ہم نما ز پڑ ھنے وا لو ں پر اور تمام صا لح بند و ں پر ا للہ کی سلا متی ہو۔
”اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ“ یعنی تم مو منین پر خدا کی طر ف سے سلا متی اور ر حمت و بر کت ہو اور بہتر یہ ہے کہ یہ دو سلام کہتے و قت ا جما لی طو ر نظر میں ر کھے اور ا ن دو سلا مو ں کو نما ز کا حصہ بنا تے و قت شا رع مقد س کا مقصود جو ا فر ا د تھے و ہی مر اد ہیں ۔

تعقیباتِ نما ز
(۱۱۰۹) مستحب ہے کہ نما ز پڑ ھنے کے بعد انسا ن کچھ د یر کے لیے تعقیبا ت یعنی ذ کر دعا اور قرآن مجید پڑ ھنے میں مشغول ر ہے بہتر ہے کہ اس سے پہلے وہ ا پنی جگہ سے حر کت کرئے اور اس کا و ضو غسل یا تیمم با طل ہو جا ئے رو بقبلہ ہو کر تقعیبا ت پڑ ھے یہ ضرو ر ی نہیں کہ تعقیبات عر بی میں ہو ں لیکن بہتر یہ کہ انسا ن وہ د عا ئیں پڑ ھے جو د عا وٴ ں کی کتابوں میں بتائی گئی ہیں اور تسبیح فا طمہ ا ن تعقیبا ت میں سے ہے جن کی بہت ز یا د ہ تاکید کی گئی ہے یہ تسبیح اس تر تیب سے پڑ ھنی چا ہئے ۳۴ د فعہ ا للہ ا کبر اس کے بعد ۳۳ د فعہ الحمد للہ اس کے بعد ۳۳ دفعہ سبحا ن ا للہ اور سبحا ن ا للہ الحمد للہ سے پہلے بھی پڑ ھا جا سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ الحمدللہ کے بعد پڑ ھے ۔
(۱۱۱۰) انسا ن کے لیے مستحب ہے کہ نما ز کے بعد سجد ہ شکر بجا لا ئے اور ا تنا کا فی ہے کہ شکر کی نیت سے پیشا نی ز مین پر ر کھے لیکن بہتر ہے کہ سو د فعہ یا رتین دفعہ شکر اللہ یا عفو ا کہے او ر یہ بھی مستحب ہے کہ جب بھی انسا ن کو کو ئی نعمت ملے یا کو ئی مصیبت ٹل جا ئے سجد ہ شکر بجا لا ئے ۔

پیغمبر اکر م ﷺپر درود
(۱۱۱۱) جب بھی ا نسا ن حضرت رسول اکرم ﷺ کا اسم مبا ر ک مثلا محمد احمد یاآنحضرت کا لقب اور کنیت مصطفی اور ا بو القا سم ز با ن سے اداکر ے یا سنے تو خوا ہ وہ نما ز میں ہی کیو ں نہ ہو مستحب ہے کہ در و د بھیجے۔
(۱۱۱۲) حضرت رسو ل ﷺ کا اسمِ مبا ر ک لکھتے و قت مستحب ہے کہ انسا ن در و د بھی لکھے اور بہتر ہے کہ جب بھی آ نحضرت کو یا د کر ے تو در ود بھیجے ۔

مبطلاتِ نما ز
(۱۱۱۳) با ر ہ چیز یں نما ز کو با طل کر تی ہیں اور ا نہیں مبطلا ت کہا جا تا ہے :
(۱) نما ز کے دو را ن نما ز کی شر طو ں میں سے کو ئی شر ط مفقود ہو جا ئے مثلا نما ز پڑ ھتے ہو ئے پتا چلے کہ جس کپڑ ے کو پہن کر وہ نما ز پڑ ھ ر ہا ہے وہ نجس ہے۔
(۲) نما ز کے دو را ن عمداً یا سہو ا یا مجبو ر ی کی و جہ سے انسا ن کسی ایسی چیز سے دو چا ر ہو جو وضو یا غسل کو با طل کر دے مثلا اس کا پیشا ب خطا ہو جا ئے اگر چہ احتیا ط کی بنا پر اس طر ح نما ز کے آ خر ی سجد ے کے بعد سہو ایا مجبو ر ی کی بنا پر ہو تا ہم جو شخص پیشا ب یا پا خا نہ نہ روک سکتا ہو ا گر نما زکے دو را ن میں اس کا پیشا ب یا پا خا نہ نکل جا ئے اور وہ اس طر یقے پرعمل کر ے جو ا حکا م و ضو کے ذ یل میں بتا یا گیا ہے تو اس کی نما ز با طل نہیں ہو گی اور اسی طر ح ا گر نما ز کے دوران مستحاضہ کو خون آ جا ئے تو ا گر اس نے استحاضہ سے متعلق احکا م کے مطابق عمل کیا ہو تو اس کی نما ز صحیح ہے ۔
(۱۱۱۴) جس شخص کو بے اختیا ر نیند آ جا ئے اگر اسے یہ پتا نہ چلے کہ وہ نما ز کے دو را ن سو گیا تھا یا اس کے بعد سو یا تو ضروری نہیں کہ نما ز دو با ر ہ پڑ ھے بشر طیکہ یہ جا نتا ہو کہ وہ نما ز میں پڑ ھا ہے وہ اس قد ر تھا کہ اسے عر ف میں نما ز کہیں ۔
(۱۱۱۵) اگر کسی شخص کو علم ہو کہ وہ ا پنی مر ضی سے سو یا تھا لیکن شک کر ے کہ نما ز کے بعد سویا تھا یا نماز کے دوران یہ بھول کر کہ نماز پڑھ رہا ہے سو گیا تھا تو اس شرط کے ساتھ جو سابقہ مسئلہ میں بیان کی گئی ہے اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۱۱۶) اگر کوئی شخص نیند سے سجدے کی حالت میں بیدار ہو جائے اور شک کرے کہ آیا نماز کے آخری سجدے میں ہے یا سجدہٴ شکر میں ہے تو چاہے اسے عِلم ہو کہ اپنے اختیار سے سو گیا تھا یا بے اختیار سو گیا تھا، اس کی نماز کو صحیح مانا جائے گا اور نماز کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ۔
(۳) یہ چیز مبطلا ت نما ز میں سے ہے کہ انسا ن ا پنے ہا تھو ں کو عا جز ی او ر ا د ب کی نیت سے با ند ھے لیکن اس کام کی و جہ سے نما ز با طل ہو نا احتیا ط کی بنا پر ہے اور ا گر مشروعیت کی نیت سے انجا م د ے تو اس کا م کے حرام ہو نے میں کو ئی اشکال نہیں ہے۔
(۱۱۱۷) اگر کو ئی شخص بھو لے سے یا مجبو ر ی سے یا تقیہ کی و جہ سے یا کسی اور کا م مثلا ہا تھ کھجانے اور ایسے ہی کسی کا م کے لئے ہا تھ پر ہا تھ ر کھ لے تو کو ئی حر ج نہیں ۔
(۴) مبطلا ت نماز میں ا یک یہ ہے کہ ا لحمد پڑھنے کے بعد آ مین کہے آ مین کہنے سے اس طر ح با طل ہو نا غیر مامو م میں ا حتیا ط کی بنا پر ہے اگرچہ آ مین کہنے کو حکم شر یعت سمجھتے ہو ئے آ مین کہے تو اس کے حر ام ہو نے میں کو ئی اشکا ل نہیں ہے بہر حا ل اگر آمین کو غلطی یا تقیہ کی و جہ سے کہے تو اس کی نما ز میں کو ئی حر ج نہیں ۔
(۵) مبطلا ت نما ز میں ہے کہ بغیر کسی عذ ر کے قبلے سے ر خ پھیر ے لیکن ا گر کسی عذ ر مثلا بھو ل کر یا بے اختیار ی کی بنا پر مثلا تیز ہوا کے تھپڑ ے اسے قبلے سے پھیر د یں چنانچہ ا گر دا ئیں یا با ئیں سمت نہ پہنچے تو اس کی نما ز صحیح ہے لیکن ضرو ر ی ہے کہ جیسے ہی عذ ر دو ر ہو جا ئے فو را ا پنا قبلہ درست کر ے اگر دا ئیں یا با ئیں طرف مڑ جا ئے یا قبلے کی طر ف پشت ہو جا ئے اگر اس کا عذر بھو لنے کی و جہ سے غفلت کی و جہ سے یا قبلہ کی پہچا ن میں غلطی کی و جہ سے ہو اور اس وقت متو جہ ہو یااسے یا د آ ئے کہ ا گر نما ز کو تو ڑ دے تو و قت گز ر نے سے پہلے اس نماز کو دو با ر ہ و قت میں ادا کر نا ممکن ہو چا ہے اس نما ز کی ا یک ر کعت ہی وقت میں ادا ہو سکے تو ضروری ہے کہ نما ز کو تو ڑ کر نئے سر ے سے ا دا کر ے ور نہ اسی نما ز پر ا کتفا کر ے اور اس پر قضا لا ز م نہیں یہی حکم اس و قت ہے جب قبلے سے اس کا پھرنا بے اختیا ر ی کی بنا پر ہو چنا نچہ قبلے سے پھر ے بغیر اگر نما ز کو دو با ر ہ و قت میں پڑ ھ سکتا ہو اگر چہ وقت میں ا یک ر کعت ہی پڑ ھی جا سکتی ہو تو ضر ور ی ہے کہ نماز کونئے سرے سے پڑھے ور نہ ضرو ر ی ہے کہ اسی نما ز کو تما م کر ے اعا د ہ اور قضا اس پر لا ز م نہیں ہے ۔
(۱۱۱۸) اگر فقط ا پنے چہر ے کو قبلے سے گھمائے لیکن اس کابدن قبلے کی طر ف ہو چنا نچہ اس حد تک گر د ن کو مو ڑ ے کہ اپنے سر کے پیچھے کچھ د یکھ سکے تو اس کے لیے بھی و ہی حکم ہے جو قبلے سے پھر جا نے والے کے لیے ہے جس کا ذ کر پہلے کیا جا چکا ہے اور ا گر ا پنی گر د ن کو اس حد تک نہ پھیرے لیکن ا تنا ہو کہ عر فا اسے زیا د ہ گر د ن پھیر نا کہا جا ئے تو ا حتیا ط وا جب کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ اس نما ز کو د ہر ا ئے ہا ں اگر ا پنی گر د ن کو گھما ئے بہت کم تو اس کی نما زبا طل نہیں ہو تی اگر چہ یہ کا م مکرو ہ ہے۔
(۶) مبطلا ت نما ز میں سے ایک یہ ہے کہ عمد ا با ت کر ے چا ہے وہ ایسا لفظ ہو کہ جس میں ا یک حر ف سے ز یا د ہ نہ ہو لیکن وہ حر ف با معنی ہو مثلا (ق) کہ جس کے عر بی زبان میں معنی حفا ظت کر و کے ہیں یا کو ئی اور معنی سمجھ میں آ تے ہو ں مثلا (ب) اس شخص کے جو ا ب میں کہ جو حروف تہجی کے حرفِ دو م کے با ر ے میں سوا ل کر ے ہا ں ا گر اس لفظ سے کو ئی معنی بھی سمجھ میں نہ آ تے ہو ں اور وہ دو یا دو سے زیادہ حر فو ں سے مر کب ہو تب بھی ا حتیا ط کی بنا پر (وہ لفظ ) نما ز کو باطل کر د یتا ہے ۔
(۱۱۱۹) اگر کو ئی شخص بھو لے سے ا یسا کلمہ کہے جس کے حر و ف ا یک یا اس سے ز یا د ہ ہو ں تو خوا ہ کلمہ معنی بھی ر کھتا ہو اس شخص کی نما ز با طل نہیں ہو تی لیکن ا حتیا ط کی بنا پر اس کے لیے ضروری ہے کہ جیسا کہ بعد میں ذ کر آ ئے گانما ز کے بعد سجد ہٴ سہو بجا لا ئے ۔
(۱۱۲۰) نما ز کی حا لت میں کھا نسنے یا ڈکا ر لینے میں کو ئی حر ج نہیں اور ا حتیا ط لا ز م کی بنا پر ضرور ی ہے کہ نما ز میں ا ختیا ر آہ نہ بھر ے اور نہ ہی گر یہ کر ے ”آ خ اور آ ہ “ اور ا ن ہی جیسے الفا ظ کا عمد ا کہنا نما ز کو با طل کر د یتا ہے
(۱۱۲۱) اگر کو ئی شخص کوئی لفظ ذکر کے قصد سے کہے مثلا ذکر کے قصد سے ا للہ ا کبر کہے اور اسے کہتے و قت آوا ز بلند کر ے تا کہ دو سر ے شخص کو کسی چیز کی طر ف متو جہ کر ے تو اس میں کوئی حر ج نہیں اسی طر ح ا گر کو ئی لفظ ذ کر کر کے قصد سے کہے اگر چہ جا نتا ہو کہ اس کا م کی و جہ سے کو ئی کسی مطلب کی طر ف متو جہ ہو جا ئے گا تو کو ئی حر ج نہیں لیکن اگر با لکل ذ کر کاقصد نہ کر ے یا د ونو ں چیز و ں کا اس اس طرح قصد کرے کہ لفظ کو بیک وقت دو معنی میں استعما ل کر ر ہا ہو تو اس کی نما ز با طل ہے ہا ں اگر ذ کر کا قصد کر ے جبکہ ذ کر کر نے کا سبب یہ ہو کہ وہ کسی کو متو جہ کر نا چا ہتا ہو تو اس کی نما ز صحیح ہے
(۱۱۲۲) نما ز میں قرآ ن پڑ ھنے اور دعا کرنے میں کو ئی حر ج نہیں لیکن احتیا ط مستحب یہ ہے کہ عر بی کے علا و ہ کسی ز با ن میں دعا نہ کرے (چا ر آ یتو ں کا حکم کہ جن میں وا جب سجد ہ ہے قرأت کے احکا م مسئلہ نمبر ۹۷۰میں بیا ن ہو چکا ہے )۔
(۱۱۲۳) اگر کو ئی شخص عمداً یا احتیا طا الحمد اور سو ر ہ کے کسی حصے یا ا ذکا ر کا ر نما ز کی تکرا ر کر ے تو کوئی حر ج نہیں
(۱۱۲۴)ضرو ر ی ہے کہ ا نسا ن نماز کی حا لت میں کسی کو سلا م نہ کر ے او ر ا گر کو ئی دو سرا شخص اسے سلا م کر ے تو ضرو ر ی ہے کہ جوا ب د ے لیکن جو ا ب سلا م کی ما نند ہو نا چا ہئے یعنی ضرور ی ہے کہ اصل سلا م پر اضا فہ نہ ہو مثلا جوا ب میں یہ نہیں کہنا چا ہئے کہ سلا م علیکم و ر حمتہ اللہ و بر کا تہ بلکہ ا حتیا ط لا ز م کی بنا پر ضرور ی ہے کہ ا گرسلا م کر نے وا لے نے علیکم یا علیک کو سلام کے لفظ سے پہلے نہ کہا ہو تو جوا ب میں علیکم یا علیک کے لفظ کو سلام کے لفظ سے پہلے نہ کہے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جواب مکمل طور پر اسی طر ح د ے کہ جس طر ح اس نے سلا م د یا ہو مثلا ا گر کہے سلا م علیکم تو جو ا ب میں کہے سلا م علیکم اور کہا ہو السلا م علیکم تو کہے السلا م علیکم اور ا گر کہا ہو سلام عیک تو کہے سلا م علیک لیکن علیکم السلا م کے جو ا ب میں علیکم السلا م السلام علیکم یا سلا م علیکم کہہ سکتا ہے ۔
(۱۱۲۵) ضرور ی ہے کہ انسا ن چا ہے نما ز کی حا لت میں ہو یا نہ ہو سلا م کا جو ا ب فو را د ے اور اگر جا ن بو جھ کر یا بھو لے سے سلا م کا جواب د ینے میں ا تنا تو قف کر ے کہ ا گر جوا ب د ے تو وہ اس سلا م کا جوا ب شما ر نہ ہو تو ا گر وہ نما ز کی حا لت میں ہو تو ضرور ی ہے کہ جواب نہ د ے اور ا گر نما ز کی حا لت میں نہ ہو تو جوا ب د ینا وا جب نہیں ہے
(۱۱۲۶)سلا م کا جوا ب اس طر ح د ینا ضرو ر ی ہے کہ سلا م کر نے و الا سن لے لیکن سلا م کرنے والا بہرا ہو یا سلا م کہہ کر جلد ی سے گز ر جائے چنا نچہ ممکن ہو کہ سلا م کا جوا ب د ینا اشارہ سے یا اسی طر ح کسی طر یقے سے اسے سمجھا سکے تو جو ا ب د ینا ضرو ر ی ہے اس صو ر ت کے علاوہ جوا ب د ینا نما ز کے علا و ہ کسی اور جگہ پر ضرو ر ی نہیں اور نما ز میں جا ئز نہیں ہے
(۱۱۲۷)و اجب ہے کہ نما زی سلا م کے جوا ب کو سلا م کی نیت سے کہے دعا کا قصد کر نے میں بھی کو ئی حرج نہیں یعنی خداو ند عا لم سے اس شخص کے لیے سلا متی چا ہے جس نے سلا م کیا ہو۔
(۱۱۲۸) اگر نا محر م عو ر ت یا مر د وہ بچہ جو ا چھے بر ے میں تمیز کر سکتا ہو نما ز پڑھنے و الے کو سلا م کر ے تو ضرو ر ی ہے کہ نما ز پڑھنے وا لا اس کے سلا م کا جوا ب د ے اورا گر عو ر ت سلا م علیک کہہ کر سلا م کر ے تو جوا ب میں کہہ سکتا ہے سلا م علیک یعنی کا ف کو ز یر د ے ۔
(۱۱۲۹) اگر نما ز پڑ ھنے و الا سلا م کا جو اب نہ د ے تو وہ گنہگا ر ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے ۔
(۱۱۳۰)اگر کو ئی شخص سلا م کر نے والے کو غلط سلا م کر ے تو ا حتیا ط وا جب کی بنا پر ضرور ی ہے کہ اس کے سلا م کا صحیح جواب د ے ۔
(۱۱۳۱) کسی ایسے شخص کے سلا م کا جوا ب د ینا جو مز اح اور تمسخر کے طور پر سلا م کر ے او ر ا یسے غیر مسلم مر د اور عو ر ت کے سلا م کا جو ا ب دینا جو ذمی نہ ہو ں وا جب نہیں ہے اور ا گر ذ می ہو ں تو احتیا ط و ا جب کی بنا پر ا ن کے جو ا ب میں صرف لفظ علیک کہا جا ئے
(۱۱۳۲) اگر کو ئی شخص کسی گر وہ کو سلا م کر ے تو ا ن سب پر سلا م کا جوا ب دینا وا جب ہے لیکن ا گرا ن میں سے ا یک شخص جوا ب د ے دے تو کا فی ہے ۔
(۱۱۳۳)اگر کو ئی شخص کسی گر و ہ کو سلا م کر ے اور جو ا ب ا یک ایسا شخص د ے جسے سلا م کر نے کا سلام کرنے والے نے ارا د ہ نہ ہو تو ( اس شخص کے جوا ب د ینے کے با و جو د ) سلا م کا جواب اس گر وہ پر وا جب ہے ۔
(۱۱۳۴) اگر کو ئی شخص کسی گر وہ کو سلا م کر ے اورا گر ا س گر وہ میں سے جو شخص نما ز میں مشغو ل ہو وہ شک کر ے کہ سلا م کر نے والے کا ار اد ہ اسے بھی سلا م کر نے کا تھا یا نہیں تو ضرو ر ی ہے کہ جوا ب نہ د ے اور ا گر نما ز پڑ ھنے وا لے کو یقین ہو کہ اس شخص کا ارا د ہ اسے بھی سلا م کر نے کا تھا لیکن کو ئی شخص سلا م کا جو ا ب دے دے تو اس صو ر ت میں بھی احتیا ط واجب کی بنا پر یہی حکم ہے لیکن اگر نما ز پڑھنے والے کو معلو م ہو کہ سلا م کر نے وا لے کا ا ر اد ہ اسے بھی سلا م کرنے کا تھا اور کو ئی دو سرا جوا ب نہ د ے یا شک کر ے کہ اس کے سلا م کا جوا ب د ے دیا گیا یا نہیں تو ضرو ر ی ہے کہ سلا م کا جوا ب دے ۔
(۱۱۳۵) سلا م کر نا مستحب ہے اور اس ا مر کی بہت تا کید کی گئی ہے کہ سو ا ر پید ل کو اور کھڑ ا ہو ا شخص بیٹھے ہو ئے کو اور چھو ٹا بڑ ے کو سلا م کرے ۔
(۱۱۳۶)اگر دو شخص آ پس میں ایک دو سر ے کو سلا م کر یں تو احتیاط وا جب کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ ان میں سے ہر ا یک دو سر ے کو ا ن میں سے ہر ا یک د وسر ے کو اس کے سلا م کا جوا ب دے ۔
(۱۱۳۷) اگر ا نسا ن نما ز نہ پڑ ھ ر ہا ہو تو مستحب ہے کہ سلا م کا جو اب اس سلا م سے بہتر الفا ظ میں د ے مثلا اگر کو ئی شخص سلا م علیکم کہے تو جوا ب میں کہے سلا م علیکم و ر حمة اللہ
(۷) نماز کے مبطلا ت میں سے ا یک آوا ز کے سا تھ اور جا ن بو جھ کر ہنسنا ہے اگر چہ بے اختیا ر ہنسے لیکن جن با تو ں کی و جہ سے ہنسے وہ اختیا ر ی ہو ں بلکہ احتیا ط کی بنا پر جن با تو ں کی و جہ سے ہنسی آ ئی ہو ا گر وہ اختیا ر ی نہ بھی ہو ں تب بھی ا گر نما ز کو د ہر ا نے جتنا و قت با قی ہو تو ضرور ی ہے کہ نما ز کو درہر ا ئے لیکن اگر جا ن بو جھ کر بغیر آو از یا سہو ا آوا ز کے سا تھ ہنسے تو اس کی نما ز میں کو ئی حر ج نہیں ۔
(۱۱۳۸) اگر ہنسی کی آ وا ز رو کنے کے لیے کسی شخص کی حا لت بد ل جا ئے مثلا اس کا ر نگ سر خ ہو جا ئے تو ا حتیا ط و ا جب یہ ہے کہ وہ نما ز دو با ر ہ پڑ ھے ۔
(۸) احتیا ط وا جب کی بنا پر یہ نما ز کے مبطلا ت میں سے ہے کہ انسا ن دنیا و ی کام کے لیے جا ن بو جھ کرآوا ز سے بغیر آ وا ز کے رو ئے لیکن اگرخو ف خدا سے یا اس کے اشتیا ق میں آخر ت کے لیے رو ئے تو خوا ہ آ ہستہ روئے یا بلند آو از سے روئے کو ئی حرج نہیں بلکہ یہ بہتر ین اعما ل میں سے ہے بلکہ ا گر خدا سے د نیا و ی حاجات کی برآور ی کے لیے اس کی با رگا ہ میں ا پنی پستی کے اظہا ر کے لئے روئے تو بھی کو ئی حرج نہیں ۔
(۹) نما ز با طل کر نے والی چیز و ں میں سے ہے کہ کو ئی ایسا کا م کر ے جس سے نما ز کی شکل با قی نہ رہے مثلا اچھلنا کو د نا اور اسی طر ح کا کو ئی عمل انجا م د ینا چا ہے ایسا کر نا عمداً ہو یا بھول چو ک کیو جہ سے ہو لیکن جس کا م سے نماز کی شکل تبد یل نہ ہو تی ہو مثلا ہاتھ سے اشا ر ہ کرنا اس میں کو ئی حر ج نہیں ہے
(۱۱۳۹) اگر کو ئی شخص نما ز کے دو را ن اس قد ر سا کت ہو جا ئے کہ لو گ یہ نہ کہیں کہ نما ز پڑ ھ رہا ہے تو اس کی نما ز با طل ہو جا تی ہے ۔
(۱۱۴۰)اگر کو ئی شخص نما ز کے دو را ن کو ئی کا م کر ے یا کچھ د یر سا کت ر ہے اور شک کر ے کہ اس کی نما ز ٹو ٹ گئی ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ نما ز کو دو با ر ہ پڑ ھے اور بہتر یہ ہے کہ نماز پو ر ی کر ے اور پھر دو با ر ہ پڑ ھے ۔
(۱۰)مبطلا ت نما ز میں سے ا یک کھا نا اور پینا ہے پس ا گر کو ئی شخص نما ز کے دو را ن اس طر ح کھا ئے یا پیئے کہ لو گ یہ نہ کہیں کہ نما ز پڑھ ر ہا ہے تو خو ا ہ اس کا فعل عمد اً ہو یا بھو ل چو ک کی و جہ سے ہو اس کی نما ز با طل ہو جا تی ہے البتہ جو شخص رو ز ہ ر کھنا چا ہتا ہو اگر وہ صبح کی اذا ن سے پہلے مستحب نما ز پڑ ھ ر ہا ہو اور پیا سا ہو ا ور اسے ڈر ہو کہ ا گر نما ز پو ر ی کر ے گا تو صبح ہو جا ئے گی تو ا گر پا نی اس کے سا منے دو تین قد م کے فا صلے پر ہو تو وہ نما ز کے دو را ن پا نی پی سکتا ہے لیکن ضرو ر ی ہے کہ کوئی ا یسا کا م مثلا قبلے سے منہ پھیر نا نہ کر ے جو نما ز کو باطل کر تا ہے ۔
(۱۱۴۱)اگر کسی کا جا ن بو جھ کر کھانا یا پینا نما ز کی شکل کو ختم نہ بھی کر ے تب بھی احتیا ط وا جب کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ نما ز کو دو با ر ہ پڑ ھے خوا ہ نما ز کا تسلسل ختم ہو یعنی یہ نہ کہا جا سکے کہ نما ز کو مسلسل پڑ ھ ر ہا ہے یا نما ز کا تسلسل ختم نہ ہو ۔
(۱۱۴۲) اگر کو ئی شخص نما ز کے دو را ن کو ئی ا یسی غذا نگل لے جو اس کے منہ یا دا نتو ں کے ریخوں میں ر ہ گئی ہو تو اس کی نما ز با طل نہیں ہو تی اسی طر ح اسی قند یا شکر یا ا نہیں جیسی کوئی چیز منہ میں ر ہ گئی ہو اور نما ز کی حا لت میں آہستہ آ ہستہ گھل کر پیٹ میں چلی جا ئے تو کو ئی حر ج نہیں۔
(۱۱) مبطلا ت نما ز میں دو ر کعتی یا تین ر کعتی نماز کی ر کعتو ں میں یا چا ر ر کعتی نما ز و ں کی پہلی دو ر کعتو ں میں شک کر نا بشرطیکہ نما ز پڑھنے والا شک کی حا لت پر با قی ر ہے
(۱۲) مبطلا ت نما ز میں سے یہ بھی ہے کہ کو ئی شخص نما زکا ر کن جا ن بو جھ کریا بھو ل کر کم کر د ے یا ا یک ایسی چیز کو جو ر کن نہیں ہے جا ن بو جھ کر گھٹا ئے یا جا ن بو جھ کر کو ئی چیز نما ز میں بڑ ھا ئے اسی طر ح اگر کسی ر کن مثلا ر کو ع یا د و سجد و ں کو ا یک ر کعت میں غلطی سے بڑ ھا دے تو ا حتیا ط وا جب کی بنا پر اس کی نما ز با طل ہو جا ئے گی البتہ بھولے سے تکبیرالاحر ام کی ز یا د تی نما ز کو با طل نہیں کر تی
(۱۱۴۳) اگر کو ئی شخص نما ز کے بعد شک کر ے کہ دو را ن نما ز اس نے کو ئی ایسا کا م کیا ہے یا نہیں جو نما ز کو با طل کر تا ہو تو اس کی نما ز صحیح ہے ۔

وہ چیز یں جو نما ز میں مکر وہ ہیں
(۱۱۴۴) کسی شخص کا نما ز میں ا پنا چہر ہ دا ئیں یا با ئیں جا نب ا تنا کم مو ڑ نا کہ وہ ا پنے پیچھے کی جانب مو جو د کسی چیز کو نہ د یکھ سکے اور ا گر ا پنے چہر ے کو ا تنا گھما ئے کہ اسے پیچھے کی چیز یں نظر آ سکیں تو جیسا کہ پہلے بیا ن ہو چکا اس کی نما ز با طل ہے یہ بھی مکر و ہ ہے کہ کو ئی شخص نما زمیں اپنی آ نکھیں بند کر ے یا دا ئیں با ئیں طر ف گھما ئے اور ا پنی دا ڑ ھی اور ہا تھو ں سے کھیلے اور انگلیا ں ا یک ددسر ے میں دا خل کر ے اور قر آ ن مجید اور کسی اور تحر یر کو د یکھے یہ بھی مکر وہ ہے کہ الحمد سو ر ہ اور ذکر پڑھتے و قت کسی کی با ت سننے کے لیے خا مو ش ہو جا ئے بلکہ ہر وہ کا م جو کہ خشو ع و خضوع کو ختم کر د ے مکروہ ہے ۔
(۱۱۴۵) جب انسا ن کو نیند آ ر ہی ہو او ر اس وقت بھی جب اس نے پیشا ب اور پا خا نہ رو ک ر کھا ہو نماز پڑ ھنا مکروہ ہے اور اسی طر ح نما ز کی حا لت میں مو ز ہ پہننا بھی مکروہ ہے جو پاؤں کو د با ئے اور اس کے علا وہ دو سر ے مکر و ہا ت بھی مفصل کتا بو ں میں بیا ن کیے گئے ہیں ۔
وہ صورتیں جن میں نماز واجب تو ڑ ی جا سکتی ہے
(۱۱۴۶)اختیا ر ی حالت میں واجب نماز کا تو ڑ نا احتیا ط وا جب کی بنا پر جا ئز نہیں ہے لیکن مال کی حفا ظت اور ما لی یا جسما نی ضر ر سے بچنے کے لیے نما زتو ڑ نے میں کو ئی حر ج نہیں بلکہ وہ تما م دینی اور د نیا و ی کا م جو نما ز ی کے لیے ا ہم ہوں ا ن کے لیے نما زتو ڑ نے میں کوئی حر ج نہیں۔
(۱۱۴۷)اگر ا نسا ن کی ا پنی جا ن کی حفا ظت یا کسی ایسے شخص کی جا ن کی حفا ظت جس کی جا ن کی حفا ظت وا جب ہو یا ایسے ما ل کی حفا ظت جس کی نگہدا شت وا جب ہو نما ز تو ڑ ے ممکن نہ ہو تو ضرو ر ی ہے کہ نماز تو ڑ د ے۔
(۱۱۴۸) اگر کو ئی شخص و سیع و قت میں نما ز پڑ ھنے لگے اور قر ض خوا ہ اس سے ا پنے قرض کا مطالبہ کر ے اور وہ اس کا قرض نما ز کے دو را ن ادا کر سکتا ہو تو ضرور ی ہے کہ اسی حالت میں ادا کر د ے اور ا گر بغیر نما ز تو ڑ ے قر ض چکا نا ممکن نہ ہو تو ضرو ر ی ہے کہ نما ز تو ڑد ے اور اس کا قر ض ا دا کر ے اور بعد میں نما ز پڑ ھے ۔
(۱۱۴۹) اگر کسی شخص کو نما ز کے دو را ن پتا چلے کہ مسجد نجس ہے اور و قت تنگ ہو تو ضرور ی ہے کہ نما ز تما م کر ے اور ا گر وقت و سیع ہواور مسجد کو پا ک کر نے سے نما ز نہ ٹو ٹتی ہو تو ضرو ری ہے کہ نماز کے د و را ن اسے پا ک کر ے اور بعد میں با قی نما ز اور ا گر نما ز ٹو ٹ جا تی ہو اور نما ز کے بعد مسجد کو پا ک کر نا ممکن ہو تو مسجد کو پا ک کر نے کے لیے اس کا نما ز تو ڑ نا جائز ہے او ر ا گر نما ز کے بعد مسجد کا پا ک کر نا ممکن نہ ہو تو اس کے لیے ضرور ی ہے کہ نما ز تو ڑ د ے اور مسجد کو پاک کرے اور بعد میں نما ز پڑھے ۔
(۱۱۵۰) جس شخص کے لیے نما ز کا تو ڑ نا ضرور ی ہو اگر وہ نما ز ختم کر ے تو وہ گنا ہگا ر ہے لیکن اس کی نما ز صحیح ہے اگر احتیاط مستحب ہے کہ نما ز دو با ر ہ پڑ ھے
(۱۱۵۱) اگر کسی شخص کو قر ا ت یا رکو ع کی حد تک جھکنے سے پہلے یا د آ جا ئے کہ و ہ اذا ن اور اقامت یا فقط اقا مت کہنا بھول گیا ہے اور نما ز کا و سیع و قت ہو تو مستحب ہے کہ ا نہیں کہنے کے لیے نما ز تو ڑ د ے بلکہ اگر نما ز ختم ہو نے سے پہلے اسے یا د آ ئے کہ ا نہیں بھو ل گیا تھا تب بھی مستحب ہے کہ ا نہیں کہنے کیلئے نما ز تو ڑ د ے۔

شکیا ت نما ز
نما ز کی شکیا ت ۲۲ قسمیں ہیں ا ن میں سے سا ت اس قسم کے شک ہیں جو نما ز کو با طل کر تے ہیں او ر چھ اس قسم کے ہیں جن کی پر وا ہ نہیں کر نی چا ہئے اور با قی نوقسم کے شک ہیں جو صحیح ہیں ۔

وہ شک جو نما ز کو باطل کر تے ہیں
(۱۱۵۲) جو شک نماز کو با طل کر تے ہیں وہ یہ ہیں
(۱) دو ر کعتی وا جب نما ز صبح اور نما ز مسا فر کی ر کعتو ں کی تعدا د کے با ر ے میں شک البتہ نما ز مستحب اور احتیا ط کی رکعتوں کی تعد ا د کے با ر ے میں شک نما ز کو با طل نہیں کر تا ۔
(۲)تین ر کعتی نما زکی تعدا د کے با ر ے میں شک ۔
(۳) چا ر ر کعتی نما ز کے با ر ے میں کو ئی شک کر ے کہ اس نے ا یک ر کعت پڑ ھی ہے یا زیا دہ پڑھی ہیں ۔
(۴) چا ر ر کعتی نما ز میں دو سر ے سجد ے میں دا خل ہو نے سے پہلے نما ز ی شک کرے کہ اس نے دو ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا اس سے زیا د ہ پڑ ھی ہیں ۔
(۵) دو اور پا نچ ر کعتو ں میں یا د و اور پا نچ ر کعتو ں میں شک کر ے ۔
(۶) تین اور چھ ر کعتو ں میں یا تین اور چھ سے ز یا دہ ر کعتو ں میں شک کر ے ۔
(۷) چا ر اور چھ ر کعتو ں کے در میا ن شک یا چا ر اور چھ سے زیا دہ ر کعتو ں کے درمیان شک جس کی تفصیل آ گے آ ئیگی
(۱۱۵۳) اگر ا نسا ن کو نما ز با طل کر نے والے شکوک میں سے کوئی شک پیش آ ئے تو بہتر یہ ہے کہ جیسے ہی اس کا شک مستحکم ہو نما ز نہ تو ڑ ے بلکہ اس قد ر غور و فکر کر ے کہ نما ز کی شکل بر قر ا ر نہ ر ہے یا یقین یا گما ن حاصل ہو نے سے نا ا مید ہو جا ئے ۔

وہ شک جن کی پر و انہیں کر نی چا ہیئے
(۱۱۵۴) وہ شکو ک جن کی پر وا نہیں کر نی چا ہئے مند ر جہ ذیل ہیں
(۱) اس فعل میں شک کی بجا لا نے کا مو قع گز ر گیا ہو مثلا انسان ر کو ع میں شک کرے کہ اس نے الحمد پڑ ھی ہے یا نہیں
(۲) سلا م کے بعد شک
(۳) نما ز کا و قت گز ر جا نے کے بعد شک
(۴) کثیر الشک کا شک یعنی اس شخص کا شک جو بہت زیا د ہ شک کر تا ہے
(۵) ر کعتو ں کی تعد ا د کے با ر ے میں ا ما م کا شک جبکہ ما مو م ا ن کی تعدا دجا نتا ہو اور اسی طرح ما مو م کا شک جبکہ ا ما م نماز کی رکعتو ں کی تعد ا د جا نتا ہو
(۶) مستحب نما ز و ں اور نما ز احتیا ط میں شک

(۱)جس فعل کا مو قع گز ر گیا ہو اس میں شک کر نا
(۱۱۵۵) اگر نما ز ی نما ز کے دو را ن شک کر ے کہ اس نے نما ز کا ا یک وا جب فعل انجا م دیا ہے یا نہیں مثلا اسے شک ہو کہ ا لحمد پڑھی ہے یا نہیں مثلا اسے شک ہو کہ ا لحمد پڑ ھی ہے یا نہیں جبکہ اس عمل کو عمد ا تر ک کر کے جس کا م میں مشغو ل ہو اس کا م میں شرعا مشغو ل نہیں ہونا چا ہئے مثلا سو رہ پڑ ھتے و قت شک کر ے کہ الحمد پڑ ھی ہے یا نہیں تو ضرو ر ی ہے کہ اپنے شک کی پر و انہ کر ے اس صو رت کے علا و ہ ضر ور ی ہے کہ جس چیز کی ا نجا م د ہی کے با ر ے میں شک ہو بجا لا ئے ۔
(۱۱۵۶) اگر نما ز ی کو ئی آ یت پڑ ھتے ہو ئے شک کر ے کہ اس نے پہلے کی آ یت پڑ ھی ہے یا نہیں یا جس و قت آ یت کا ا ٓ خر ی حصہ پڑ ھ ر ہا ہو شک کر ے کہ پہلا حصہ پڑ ھا ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے ۔
(۱۱۵۷) اگر نما ز ی ر کو ع یا سجو د کے بعد شک کر ے کہ ا ن کے وا جب افعا ل ۔۔ مثلا ذکر اور بد ن کا سکو ن کی حا لت میں ہو نا ۔ اس نے انجا م دیئے ہیں یا نہیں تو ضرو ر ی ہے کہ ا پنے شک پر وا نہ کر ے ۔
(۱۱۵۸) اگر نمازی سجدے میں جاتے وقت شک کرے کہ رکوع بجا لایا ہے یا نہیں یا شک کرے کہ رکوع کے بعد کھڑا ہوا تھا یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پروا نہ کرے۔
(۱۱۵۹) اگر نما ز ی کھڑ ا ہو تے و قت شک کر ے کہ سجد ہ یا تشہد بجا لا یا ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ ا پنے شک کی پروا نہ کر ے۔
(۱۱۶۰)جو شخص بیٹھ کر یا لیٹ کر نما ز پڑھ ر ہا ہو اگر ا لحمد یا تسبیحا ت پڑ ھنے کے وقت شک کرے کہ سجد ہ یا تشہد بجا لا یا ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ ا پنے شک کی پر ا ہ نہ کر ے اور ا گر الحمد یا تسبیحا ت میں مشغو ل ہو نے سے پہلے شک کر ے کہ سجدہ یا تشہد بجا لا یا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ بجا لا ئے ۔
(۱۱۶۱) اگر نما ز ی شک کر ے کہ نما ز کا کو ئی ا یک ر کن بجا لا یا ہے یا نہیں اور اس کے بعد آ نے وا لے فعل میں مشغو ل نہ ہو ا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ اسے بجا لا ئے مثلا اگر تشہد پڑھنے سے پہلے شک کر ے کہ دو سجد ے بجا لا یا ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ بجا لا ئے اور اگر بعد میں اسے یا د آ ئے کہ وہ اس ر کن کو ا نجا م د ے چکا تھا تو ا یک ر کن بڑھ جا نے کی و جہ سے احتیا ط لا ز م کی بنا پر اس کی نماز با طل ہے ۔
( ۱۱۶۲) اگر نما ز ی شک کر ے کہ ا یک ایسا عمل جو نماز کا ر کن نہیں ہے بجا لا یا ہے یا نہیں اور اس کے بعد آنے وا لے فعل میں مشغول نہ ہو ا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ اسے بجا لا ئے مثلا اگر سو ر ہ پڑ ھنے سے پہلے شک کر ے کہ ا لحمد پڑ ھی ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ الحمد پڑ ھے اور ا گر اسے انجا م د ینے کے بعد اسے یا د آ ئے کہ اسے پہلے ہی بجا لا چکا تھا تو چو نکہ رکن زیا د ہ نہیں ہو ا اس لئے اس کی نما ز صحیح ہے ۔
(۱۱۶۳) اگر نما ز ی شک کر ے کہ ا یک ر کن بجا لا یا ہے یا نہیں مثلا جب تشہد پڑ ھ رہا ہو شک کر ے کہ دو سجد ے بجا لایا ہے یا نہیں اورا پنے شک کی پر وا نہ کر ے اور بعد میں اسے یا د آئے کہ ر کن کو بجا نہیں لا یا تو ا گر وہ بعد وا لے ر کن میں مشغو ل نہ ہو ا ہوتو ضرور ی ہے کہ اس رکن کو بجا لا ئے اور ا گر بعد وا لے ر کن میں مشغو ل ہو گیا ہو تو اس کی نما ز احتیا ط لا ز م کی بنا پر باطل ہے مثلا ا گر بعد وا لی ر کعت کے ر کو ع سے پہلے یا د آ ئے کہ دو سجد ے نہیں بجا لا یا تو ضروری ہے کہ بجا لا ئے اور ا گر ر کو ع میں یا اس کے بعد یا د آ ئے تو جیسا کہ بتا یا جا چکا ہے اس کی نما ز با طل ہے
(۱۱۶۴) اگر نما ز ی شک کر ے کہ وہ ا یک غیر ر کنی عمل بجا لا یا ہے یا نہیں اور اس کے بعد والے عمل میں مشغو ل ہو چکا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے مثلا جس و قت سورہ پڑ ھ ر ہا ہوشک کر ے کہ ا لحمد پڑ ھی ہے یا نہیں تو ضرو ر ی ہے کہ ا پنے شک کی پر وا نہ کرے البتہ ا گر اسے کچھ یا د میں آ جا ئے کہ اس عمل کو بجا نہیں لا یا اور ا بھی بعد وا لے ر کن میں مشغو ل نہ ہو ا ہو تو ضرو ری ہے کہ ا س عمل کو اور اس کے بعد وا لے اعما ل کو بجا لا ئے اور ا گر بعد وا لے ر کن میں مشغول ہو گیا ہو تو ا س کی نما ز صحیح ہے اس بنا پر مثلا اگر قنو ت میں اسے یا د آ جائے کہ اس نے الحمد نہیں پڑ ھی تھی تو ضرور ی ہے کہ الحمد و سو ر ہ دو نو ں پڑ ھے اور ا گر یہ با ت اسے رکو ع میں یا د آ ئے تو اس کی نما ز صحیح ہے ۔
(۱۱۶۵) اگر نما ز ی شک کر ے کہ اس نے نما ز کا سلا م پڑ ھا ہے یا نہیں اور تعقیبا ت یا د وسر ی نما ز میں مشغو ل ہو جا ئے یا کو ئی ایسا کا م کر ے جو نما ز کو بر قرا ر نہیں ر کھتا اور وہ حا لت نما ز سے خا ر ج ہو گیا ہو تو ضر وری ہے کہ ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے اور ا گر ا ن صو ر تو ں سے پہلے شک کر ے تو ضرور ی ہے کہ سلا م پڑ ھے اور ا گر شک کر ے کہ سلا م در ست پڑھا ہے یا نہیں تو جہا ں بھی ہو اپنے شک کی پر وا نہ کر ے

(۲)سلا م کے بعد شک کر نا
(۱۱۶۶) اگر نما ز ی سلا م کے بعد شک کر ے کہ اس نے نما ز صحیح طو ر پر پڑ ھی ہے یا نہیں مثلا شک کر ے کہ ر کو ع ادا کیا ہے یا نہیں یا چا ر ر کعتی نما ز کے سلا م کے بعد شک کر ے کہ چا ر ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا پا نچ تو وہ ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے لیکن ا گر د و نو ں طر ف نما ز کے با طل ہو نے کا شک ہو مثلا چا ر ر کعتی نما ز سلا م کے بعد شک کر ے کہ تین ر کعت پڑ ھی ہیں یا پانچ ر کعت تو اس کی نما ز با طل ہے

(۳)وقت کے بعد شک کر نا
(۱۱۶۷) اگر کو ئی شخص نما ز کا وقت گز ر نے کے بعد شک کر ے کہ اس نے نما ز پڑ ھی ہے یا نہیں یا گما ن کر ے کہ نہیں پڑھی تو اس نما ز کا پڑ ھنا لا ز م نہیں لیکن ا گر و قت گز ر نے سے پہلے شک کر ے کہ نما ز پڑ ھی ہے یا نہیں تو خوا ہ گما ن کر ے کہ پڑ ھی ہے پھر بھی ضرو ر ی ہے کہ ہو نماز پڑ ھے ۔
(۱۱۶۸) اگر کو ئی شخص و قت گز ر نے کے بعد شک کر ے کہ اس نے نما زدرست پڑ ھی ہے یا نہیں توا پنے شک کی پر وا نہ کر ے
(۱۱۶۹) اگر نما ز ظہر اور عصر کا و قت گز ر جا نے کے بعد نما ز ی کی جا ن لے کہ چا ر ر کعت نما ز پڑھی ہے لیکن یہ معلو م نہ ہو کہ ظہر کی نیت سے پڑ ھی ہے یا عصر کی نیت سے تو ضرو ر ی ہے کہ چار ر کعت نما ز قضا اس نما ز کی نیت سے پڑ ھے جو اس پر وا جب ہے ۔
(۱۱۷۰) اگر مغر ب اور عشا ء کی نما زکا و قت گز ر نے کے بعد نما ز ی کو پتا چلے کہ اس نے ایک نما ز پڑھی ہے لیکن یہ عِلم نہ ہو کہ تین رکعتی نماز پڑھی ہے یا چا ر رکعتی تو ضرو ر ی ہے کہ مغر ب اور عشا ء دو نو ں کی قضا کر ے ۔

(۴)کثیر الشک کا شک کر نا
(۱۱۷۱) کثیر الشک وہ شخص ہے جو بہت زیا د ہ شک کر ے یعنی وہ شخص جو تو جہا ت کے با نٹنے والے اسبا ب کی مو جو د گی کے ا عتبا ر سے ا پنے ہی جیسے لو گو ں کے مقا بلے میں شک کر تا ہے صر ف وہی شخص کثیر الشک نہیں ہے کہ شک کر نا جس کی عا د ت بن چکی ہو بلکہ وہ شخص بھی کثیرالشک ما نا جا ئے گا جو اس عا ر ضے میں مبتلا ہو ر ہا ہو ۔
(۱۱۷۲)اگر کثیر ا لشک نما ز کے ا جز ا ء میں سے کسی جز و کے ا نجا م د ینے کے با ر ے میں شک کر ے تو اسے یو ں سمجھنا چاہئے کہ اس جز و کو ا نجا م د ے دیا ہے مثلا اگر شک کر ے کہ ر کو ع کیا ہے یا نہیں تو اسے سمجھنا چا ہئے کہ ر کو ع کر لیا ہے اور ا گر کسی ا یسی چیز کے با ر ے میں شک کر ے جو مبطل نما ز ہے مثلا شک کر ے کہ صبح کی نما زدو ر کعت پڑ ھی ہے یا تین ر کعت تو یہی سمجھے کہ نما ز ٹھیک پڑھی ہے ۔
(۱۱۷۳) جس شخص کو نما ز کے کسی خا ص جز و کے با ر ے میں ا تنا ز یا د ہ شک ہو تا ہو کہ شک کی کثر ت اسی جز و سے مخصوص ہو کر ر ہ جا ئے اگر وہ نما ز کے کسی دو سر ے جز و کے با ر ے میں شک کر ے تو ضرور ی ہے کہ شک کے احکا م پر عمل کر ے مثلا کسی کو زیا د ہ شک ا س با ت میں ہو تا ہو کہ سجدہ کیا ہے یا نہیں اگر اسے رکو ع کر نے کے بعد شک ہو تو ضرور ی ہے کہ شک کے حکم پر عمل کر ے یعنی اگر ا بھی سجد ے میں نہ گیا ہو تو ر کو ع کرے اور اگر سجدے میں گیا ہو تو شک کی پروانہ کرے۔
(۱۱۷۴) جو شخص کسی مخصو ص نما ز مثلا ظہر کی نما ز میں اس طر ح ز یا د ہ شک کر تا ہو کہ کثر ت شک اسی ظہر کی نما ز سے مخصو ص ہو کر ر ہ جا ئے اگر وہ کسی دو سر ی نما زمثلا عصر کی نما ز میں شک کر ے تو ضرور ی ہے کہ شک کے احکا م پر عمل کر ے ۔
(۱۱۷۵) جو شخص کسی مخصو ص جگہ پر نما ز پڑ ھتے و قت اسی کیفیت کے سا تھ ز یا د ہ شک کر تا ہو جس کا تذ کر ہ پچھلے مسئلے میں ہو ا اگر وہ کسی دو سر ی جگہ نما ز پڑ ھے اور اسے شک پیدا ہو تو ضرور ی ہے کہ شک کے احکا م پر عمل کر ئے ۔
(۱۱۷۶) اگر کسی شخص کو ا س با ر ے میں شک ہو کہ وہ کثیر الشک ہو گیا ہے یا نہیں تو ضرور ی ہے کہ شک کے احکا م پر عمل کر ے اور کثیر الشک شخص کو جب تک یقین نہ ہو جا ئے کہ لو گو ں کی عا م حا لت پر لو ٹ آ یا ہے اور اس کے شک کی بنیا د یہ ہو کہ آ یا اس کی حا لت تبد یل ہو ئی یا نہیں یہ نہ ہو کہ کثیر الشک کے معنی کیا ہو تے ہیں تو ضرور ی ہے کہ اپنے شک کی پر وا نہ کر ے ۔
(۱۱۷۷) اگر کثیر الشک شخص شک کر ے کہ ا یک ر کن بجا لا یا ہے یا نہیں او روہ اس شک کی پروا بھی نہ کر ے اور پھر اسے یا د آ ئے کہ وہ ر کن بجا نہیں لایا اور اس کے بعد ر کن میں مشغو ل نہ ہو ا ہو تو ضرور ی ہے کہ اس ر کن کو اور جو کچھ اس کے بعد ہے بجا لا ئے اور ا گر بعد کے ر کن میں مشغو ل ہو گیا ہو تو ا س کی نما ز احتیا ط کی بنا پر با طل ہے مثلا اگر شک کر ے کہ ر کو ع کیا ہے یا نہیں اور اس شک کی پر وا نہ کر ے اور دو سر ے سجد ے سے پہلے اسے یا د آ ئے کہ ر کو ع نہیں کیا تھا تو ضرو ر ی ہے کہ ر کو ع کر ے او ر ا گر دو سر ے سجد ے کے دو را ن اسے یا د آ ئے تو اس کی نما ز احتیا ط کی بنا پر با طل ہے ۔
(۱۱۷۸) جو شخص زیا د ہ شک کر تا ہو اگر وہ شک کر ے کہ کو ئی ایسا عمل جو ر کن نہ ہو انجا م دیا ہے یا نہیں اور اس شک کی پر وا نہ کر ے اور بعدمیں اسے یا د آ ئے کہ وہ عمل انجا م نہیں دیا تو ا گر انجام د ینے کے مقام سے ا بھی نہ گز ر ا ہو تو ضرور ی ہے کہ اسے اور اس کے بعد وا لے افعا ل کو انجا م دے اور ا گر اس کے مقا م سے گز ر گیا ہو تو اس کی نما ز صحیح ہے مثلا اگر شک کر ے کہ الحمد پڑ ھی ہے یا نہیں اور شک کی پر وا نہ کر ے مگر قنو ت پڑ ھتے ہو ئے اسے یا د آ ئے کہ الحمد نہیں پڑ ھی تو ضرور ی ہے کہ الحمد اور سو ر ہ پڑ ھے اور ا گر ر کو ع میں یا د آ ے تو اس کی نما ز صحیح ہے۔

(۵)امام اور مقتد ی کا شک
(۱۱۷۹) اگر ا ما م جما عت نما ز کی ر کعتو ں کی تعد ا د کے با ر ے میں شک کر ے مثلا یہ شک کرے کہ تین ر کعتیں پڑھی ہیں یا چا ر ر کعتیں اور مقتد ی کو یقین یا گما ن ہو کہ چا ر ر کعتیں پڑ ھی ہیں اور وہ با ت اما م جما عت کے علم میں لے آ ئے کہ چا ر ر کعتیں پڑ ھی ہیں تو ا مام کو چا ہئے کہ نما ز کو تمام کر ے اور نما ز احتیا ط کا پڑ ھنا ضرور ی نہیں اور ا گر امام کو یقین یا گما ن ہو کہ کتنی رکعتیں پڑ ھی ہیں اور مقتد ی نما ز کی ر کعتو ں کی تعدا د کے با ر ے میں شک کر ے تو اسے چاہئے کہ ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے یہی حکم امام مقتد ی کے لیے نما ز کے افعا ل کے با ر ے میں شک مثلا سجدو ں کی تعدا د کے شک کے بارے میں ہے ۔

(۶) مستحب نما ز میں شک
(۱۱۸۰)اگر کو ئی شخص مستحب نما ز کی ر کعتو ں میں شک کر ے اگر شک کا ز یا د ہ والا عد د جو نما ز کو با طل کر تا ہے تو ضرور ی ہے کہ یہ سمجھ لے کہ کم ر کعتیں پڑ ھی ہیں مثلا اگر صبح کی نفلو ں میں شک کر ے کہ دو ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا تین تو یہی سمجھے کہ دو پڑ ھی ہیں اگر تعدا د کی ز یا د تی والا شک نما ز کو با طل نہ کر ے مثلا اگر نما ز ی شک کر ے کہ دو رکعتیں پڑ ھی ہیں یا ایک پڑ ھی ہے تو شک کی جس طر ف پر بھی عمل کر ے اس کی نما ز صحیح ہے ۔
(۱۱۸۱)ر کن کا کم ہو نا نفل نما ز کو با طل کر د یتا ہے لیکن ر کن کا زیا د ہ ہو نا اسے با طل نہیں کرتا پس ا گر نما ز ی نفل کے افعا ل میں سے کو ئی فعل بھو ل جا ئے اور یہ با ت اسے اس و قت یا د آئے جب وہ اس کے بعد وا لے ر کن میں مشغو ل ہو چکا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ اس فعل کو ا نجا م دے او ر دو با ر ہ اس ر کن کو انجام د ے مثلا ا گر رکوع کے دو را ن اسے یا د آ ئے کہ سو ر ہ حمد نہیں پڑ ھی تو ضرو ر ی ہے کہ وا پس لوٹے اور حمد پڑ ھے اور دو با ر ہ ر کوع میں جا ئے ۔
(۱۱۸۲) اگر کو ئی شخص نفل کے افعا ل میں سے کسی فعل کے متعلق شک کر ے خوا ہ فعل ر کنی ہو یا غیر ر کنی اور اس کا مو قع نہ گز را ہو تو ضرو ر ی ہے کہ اسے انجا م د ے اور اگر مو قع گز ر گیا ہو تو اپنے شک کی پر وا نہ کر ے ۔
(۱۱۸۳)اگر کسی شخص کو دو ر کعتی مستحب نما ز میں تین یا زیا د ہ ر کعتو ں کے پڑ ھ لینے کا گما ن ہو تو چا ہئے کہ اس گما ن کی پروا نہ کر ے اور اس کی نما ز صحیح ہے لیکن ا گر اس کا گما ن د ور کعتو ں کا یا اس سے کم ہو توا حتیا ط و ا جب کی بنا پر اسی گما ن پر عمل کر ے مثلا اگر اسے گما ن ہو کہ ا یک رکعت پڑ ھی ہے تو ضرور ی ہے کہ احتیا ط کے طور پر ا یک ر کعت اور پڑ ھے ۔
(۱۱۸۴) اگر کو ئی شخص نفل نما ز میں کو ئی ایسا کا م کر ے جس کے لیے وا جب نما ز میں سجد ہ سہو وا جب ہو جا تا ہو یا ا یک سجد ہ بھو ل جا ئے تو اس کے لیے ضرو ر ی ہے کہ نما ز کے بعد سجد ہ سہو یا سجد ے قضا بجا لا ئے ۔اگر کو ئی شخص شک کر ے کہ مستحب نما ز پڑ ھی ہے یا نہیں اور اس کا کو ئی مقر ر و قت نہ ہو جیسے” نما زجعفر طیا ر“ تو اسے سمجھ لینا چا ہئے کہ نہیں پڑ ھی اگر اس مستحب نما ز کا یو میہ نوا فل کی طر ح و قت مقر ر ہو اور اس وقت کے گز ر نے سے پہلے شک کر ے کہ اسے انجا م دیا ہے یا نہیں تو ا س کیلئے بھی یہی حکم ہے لیکن اگروقت گز ر نے کے بعد شک کر ے کہ وہ نماز پڑ ھی ہے یا نہیں تو ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے ۔

صحیح شکو ک
(۱۱۸۶) چند صو ر تو ں میں ا گر کسی کو چا ر ر کعتی نما ز کی ر کعتو ں کی تعدا د کے با ر ے میں شک ہو تو ضرور ی ہے کہ فو راً غو ر و فکر کر ئے اور ا گر یقین یا گما ن شک کی کسی ا یک طر ف ہو جا ئے تو اسی کو اختیا ر کر ے اور نما ز کو تمام کر ے و ر نہ ا ن احکا م کے مطا بق عمل کر ے جو ذیل میں بتائے جا ر ہے ہیں ۔

وہ نو صو ر تیں یہ ہیں :
(۱) دو سر ے سجد ے کے دو را ن شک کر ے کہ دو ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا تین اس صورت میں اسے یو ں سمجھ لینا چا ہئے کہ تین ر کعتیں پڑ ھی ہیں اور ا یک اور ر کعت پڑھے پھر نما ز کو تمام کر ے او ر ا حتیا ط واجب کی بنا پر نما ز کے بعد ا یک ر کعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر بجا لا ئے احتیا ط وا جب کی بنا پر بیٹھ کر د و ر کعت نما ز احتیا ط کا فی نہ ہو گی ۔
(۲)دو سر ے سجد ے کے دو را ن اگر شک کر ے کہ دو ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا چا ر تو یہ سمجھ لے کہ چا ر پڑ ھی ہیں اور نما ز کو تما م کر ے اور بعد میں دو ر کعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر بجا لا ئے ۔
(۳) اگر کسی شخص کو دو سر ے سجد ے کے دو را ن شک ہو جا ئے کہ دو ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا تین یا چا ر تو اسے یہ سمجھ لینا چا ہئے کہ چا ر پڑ ھی ہیں اور وہ نما زختم ہو نے کے بعد دو رکعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر اور بعد میں دو ر کعت بیٹھ کر بجا لا ئے ۔
(۴)اگر کسی شخص کو دوسر ے سجد ے کے دو را ن کہ اس نے چا ر ر کعتیں پڑ ھی ہیں یا پانچ تو وہ یہ سمجھے کہ چا ر پڑھی ہیں اور اس بنیا د پر نما ز پو ر ی کر ے اور نما ز کے بعد دو سجدہ سہو بجا لا ئے یہی حکم ہر اس صو ر ت میں ہے جہا ں کم ا ز کم شک چا ر ر کعت پر ہو مثلا چا ر اور چھ رکعتوں کے در میا ن شک ہو اور ہر اس صو ر ت میں جہا ں چا ر اور اس سے کم او ر اس سے زیا د ہ رکعتو ں میں دو سر ے سجد ے کے دوران شک کر ے تو اسے چا ر ر کعتیں قرار د ے کر دو نو ں شک کے اعما ل ا نجا م د ے سکتا ہے یعنی اس احتما ل کی بنا پر کہ چا ر ر کعت سے کم پڑ ھی ہیں نما ز احتیا ط پڑ ھے اور اس احتما ل کی بنا پر کہ چا ر رکعت سے زیا د ہ پڑ ھی ہیں بعد میں دو سجد ہ سہو بھی کر ے تما م صو ر تو ں میں اگر پہلے سجدے کے بعد اور دو سر ے سجد ے میں داخل ہو نے سے پہلے سا بقہ چا ر شک میں سے ایک اسے پیش آ ئے تو اس کی نما ز باطل ہے ۔
(۵) نما ز کے دو را ن جس وقت بھی کسی کو تین ر کعت اورچا ر ر کعت کے در میا ن شک ہو تو ضرو ر ی ہے کہ سمجھ لے کہ چا ر ر کعتیں پڑ ھی ہیں اور نما ز کو تما م کر ے اور بعد میں ایک ر کعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر یا بیٹھ کرپڑھے ۔
(۶)اگر قیا م کے دو را ن کسی کو چا ر ر کعتو ں اور پا نچ ر کعتو ں کے با ر ے میں شک ہو جا ئے تو ضرو ر ی ہے کہ بیٹھ جا ئے اور تشہد اور نما ز کا سلا م پڑ ھے اور ا یک ر کعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر یا د ورکعت بیٹھ کر پڑ ھے ۔
(۷) اگر قیا م کے دورا ن کسی کو تین اور پا نچ ر کعتو ں کے با ر ے میں شک ہو جا ئے تو ضرور ی ہے کہ بیٹھ جائے اور تشہد اور نما ز کا سلا م پڑ ھے اور دو ر کعت نما ز احتیا ط کھڑے ہو کر پڑ ھے ۔
(۸) اگر قیا م کے دو را ن کسی کو تین چا ر اور پا نچ ر کعتو ں کے با ر ے میں شک ہو جائے تو ضرو ر ی ہے کہ بیٹھ جا ئے اور تشہد پڑ ھے اور سلا م کے بعد دو ر کعت نما ز احتیاط کھڑ ے ہو کو اور بعد میں دو ر کعت نما ز بیٹھ کر پڑھے ۔
(۹) اگر قیام کے دو را ن کسی کو پا نچ اور چھ ر کعتو ں کے با ر ے میں شک ہو جا ئے تو ضرور ی ہے کہ بیٹھ جا ئے اور تشہد اور نما ز کا سلا م پڑھے اور دو سجد ہ سہو بجا لا ئے ۔
(۱۱۸۷)اگر کسی کو صحیح شک میں شک ہو جا ئے اور نما ز کا و قت ا تنا تنگ ہو کہ نما ز از سر نو پڑ ھ سکے تو ضرور ی ہے کہ نما ز نہ تو ڑے اور جو مسئلہ بیا ن کیا گیا ہے اس کے مطا بق عمل کر ے لیکن اگر نما ز کا و قت و سیع نہ ہو تونما ز تو ڑ کر نئے سر ے سے بھی پڑ ھ سکتا ہے
(۱۱۸۸) اگر نماز کے دو را ن انسا ن کو ا ن شکو ک میں سے کو ئی شک لا حق ہو جا ئے جن کے لیے نما ز احتیا ط وا جب ہے اور وہ نما ز کو تما م کرے تو ا حتیا ط مستحب یہ ہے کہ نماز احتیا ط پڑھے اور نما ز احتیا ط پڑھے بغیر از سر نو نما ز نہ پڑ ھے اور ا گر کوئی ایسا فعل ا نجا م سے پہلے جو نما ز کو باطل کر تا ہو از سر نو نما ز پڑ ھے او ر ا حتیا ط وا جب کی بنا پر اس کی دو سر ی نما ز بھی با طل ہے لیکن اگر کو ئی ایسا فعل انجا م د ینے کے بعد جو نما ز کو با طل کر تا ہو نما ز میں مشغو ل ہو جا ئے تو اس کی دو سر ی نما ز صحیح ہے۔
(۱۱۸۹)جب نما ز کو با طل کر نے وا لے شکو ک میں سے کو ئی شک ا نسا ن کو لا حق ہو جا ئے اور وہ جا نتا ہو کہ بعد کی حا لت میں منتقل ہو جانے پر اس کے لیے یقین یا گما ن پیدا ہو جا ئے گا تو اس صو ر ت میں جبکہ اس کا با طل شک شر وع کی دو ر کعت میں ہوا س کے لئے شک کی حا لت میں نما زجا ر ی ر کھنا جا ئز نہیں ہے مثلا اگر قیا م کی حا لت میں اسے شک ہو کہ اس نے ا یک رکعت نما ز پر ھی ہے یا زیا د ہ پڑھی ہیں اور وہ جا نتا ہو کہ ا گر ر کو ع میں جا ئے تو کسی ا یک طر ف یقین یا گمان پیدا کر ے گا تو ا س حا لت میں اس کے لیے ر کوع کر نا جا ئز نہیں ہے اور با قی باطل شکو ک میں ا پنی نما ز جا ر ی ر کھ سکتا ہے تا کہ اسے یقین یا گما ن حاصل ہو جا ئے ۔
(۱۱۹۰) اگر کسی شخص کا گما ن پہلے ایک طر ف سے ز یا د ہ ہو اور بعد میں اس کی نظر میں دو نو ں اطرا ف برا بر ہو جا ئیں تو ضرور ی ہے کہ شک کے احکا م پر عمل کرے اور اگر پہلے دونوں اطراف اس کی نظر میں برابر ہوں تو احکام کے مطا بق جو کچھ اس کا فر یضہ ہے اس پر عمل کی بنیاد ر کھے اور بعد میں اس کا گما ن دو سر ی طر ف چلا جائے تو ضرو ر ی ہے کہ اس طرف کو اختیار کر ے اور نما ز کو تمام کر ے
(۱۱۹۱) جو شخص یہ نہ جا نتا ہو کہ اس کا گما ن ا یک طر ف زیا د ہ ہے یا دو نو ں ا طر ا ف اس کی نظر میں برا بر ہیں تو ضرور ی ہے کہ شک کے احکام پر عمل کر ے ۔
(۱۱۹۲) اگر کسی شخص کو نما ز کے با ر ے بعد معلو م ہو کہ نما ز کے دو را ن وہ تر د د کی حا لت میں تھا کہ مثلا اس نے دو ر کعتیں پڑھی ہیں یا تین ر کعتیں پڑ ھی ہیں اور ا س نے ا پنے ا فعا ل کی بنیا د تین ر کعتو ں پر ر کھی ہو لیکن اسے یہ علم نہ ہو کہ اس کے گما ن میں یہ تھا کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا دو نو ں ا طرا ف اس کی نظر میں برا بر تھیں تو نماز احتیا ط پڑھنا ضرو ر ی نہیں ہے ۔
(۱۱۹۳) اگر قیا م کے بعد شک کر ے کہ دوسجد ے ادا کئے تھے یا نہیں اور اسی وقت اسے ان شکو ک میں کو ئی شک ہو جائے جو سجد ے تمام ہو نے کے بعد لا حق ہوتا تو صحیح ہو تا مثلا وہ شک کر ے کہ میں نے دو ر کعت پڑھی ہیں یا تین اور وہ اس شک کے مطا بق عمل کر ے تو اس کی نما ز صحیح ہے لیکن ا گر تشہد پڑھتے وقت ان شکو ک میں سے کو ئی شک لا حق ہو جائے تو ا گر ا س کا شک یہ ہو کہ دو پڑ ھی ہیں یا تین تو اس کی نما ز باطل ہے اور ا گر اس کا شک یہ ہو کہ دو پڑ ھی ہیں یا چا ر یا یہ ہو کہ دو پڑھی ہیں تین پڑھی ہیں یاچا ر تو ا س کی نما ز صحیح ہے اور ضروری ہے کہ شک کے احکا م کے مطا بق عمل کر ے
(۱۱۹۴) اگر کو ئی شخص تشہد میں مشغو ل ہو نے سے پہلے یا ا ن ر کعتو ں میں جن میں تشہد نہیں ہے قیا م سے پہلے شک کرے کہ ا یک یا دو سجد ے بجا لا یا ہے یا نہیں اور اسی و قت اسے شکو ک میں سے کو ئی شک لا حق ہو جا ئے جو دو سجد ے تما م ہو نے کے بعد صحیح ہو تو اس کی نما ز با طل ہے۔
(۱۱۹۵) اگر کو ئی شخص قیا م کی حا لت میں تین اور چا ر ر کعتوں کے با ر ے میں یا تین چار اور پانچ ر کعتو ں کے با ر ے میں شک کر ے اور اسے یہ بھی یا د آ جا ئے کہ اس نے اس سے پہلی رکعت کا ا یک سجد ہ یا دو نو ں سجد ے ادا نہیں کئے تو اس کی نما ز با طل ہے ۔
(۱۱۹۶) اگر کسی شک کا ز ا ئل ہو جا ئے اور کو ئی دو سرا شک اسے لا حق ہو جا ئے مثلا پہلے شک کر ے کہ دو ر کعتیں پڑھی ہیں یا تین ر کعتیں پڑھی ہیں یا چا ر ر کعتیں تو ضرو ر ی ہے کہ دوسرے شک کے مطا بق احکا م پر عمل کر ے ۔
(۱۱۹۷) جو شک نما ز کے بعد شک کر ے کہ نما ز کی حا لت میں مثا ل کے طو ر پر اس نے دو یا چار ر کعتو ں کے با ر ے میں شک کا تھا ہا تین اور چا ر ر کعتو ں کے با ر ے میں شک کیا تھا تو دونو ں شکو ک کے حکم پر عمل کر سکتا ہے اور نما ز کو با طل کرنے وا لے کسی کا کا م کو ا نجا م د ے کر وہ نما ز دو با رہ بھی پڑھ سکتا ہے ۔
(۱۱۹۸) اگر کسی شخص کو نما ز کے بعد پتا چلے کہ نما ز کی حا لت میں اسے کو ئی شک لا حق ہو گیا تھا لیکن یہ نہ جا نتا ہو کہ وہ شک نما ز کو با طل کر نے وا لے شکو ک میں سے تھا صحیح شکو ک میں سے تھاتو ضرو ر ی ہے کہ نما ز کو دو با ر ہ پڑھے اور ا گر یہ جانتا ہو کہ وہ شک صحیح شکو ک میں سے تھا لیکن یہ صحیح نہ جا نتا ہو کہ اس کا تعلق صحیح شکو ک کی کو نسی قسم سے تھا تو اس کے لیے جائز ہے کہ نما ز دو با ر ہ پڑھے ۔
(۱۱۹۹) جو شخص نما ز بیٹھ کر پڑ ھ ر ہا ہو اگر اسے ایسا شک لا حق ہو جا ئے جس کے لیے ا یک رکعت نما زاحتیا ط کھڑ ے ہو کر یا دو ر کعت نما ز بیٹھ کر پڑھنی چا ہئے تو ضرو ر ی ہے کہ ا یک رکعت بیٹھ کر پڑھے اور ا گر وہ ایسا شک کرے جس کے لیے اسے دو ر کعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر پڑ ھنی چا ہئے تو ضر ور ی ہے کہ دو ر کعت بیٹھ کر پڑھے ۔
(۱۲۰۰) جو شخص کھڑ ے ہو کر نما ز پڑھتا ہو اگر نما ز ا حتیا ط پڑھنے کے وقت کھڑا ہو نے سے عاجز ہو جا ئے تو ضرو ری ہے کہ نماز احتیا ط اس شخص کی طر ح پڑھے جو بیٹھ کر پڑھتا ہے اور جس کا حکم سا بقہ مسلے میں بیا ن ہو چکا ہے ۔
(۱۲۰۱) جو شخص بیٹھ کر نما ز پڑ ھتا ہو اگر نما ز احتیا ط پڑ ھنے کے و قت کھڑا ہو سکے تو ضرور ی ہے کہ اس شخص کے و ظیفے کے مطا بق عمل کر ے جو کھڑا ہو کر نما ز پڑھتا ہے

نما ز احتیا ط پڑ ھنے کا طر یقہ
(۱۲۰۲)جس شخص پر نما ز احتیا ط وا جب ہو ضرور ی ہے کہ نما ز کے سلا م کے فو را بعد نما ز احتیا ط کی نیت کر ے اور تکبیر کہے پھر الحمد پڑ ھے رکوع اور دو سجد ے بجا لا ئے پس اگر اس پر ا یک رکعت نما ز احتیا ط وا جب ہو تو دو سجدو ں کے بعد تشہد اور سلا م پڑھے اگراس پر دو ر کعت نما ز احتیا ط وا جب ہو تو سجد و ں کے بعد پہلی ر کعت کی طر ح ا یک اور ر کعت بجا لا ئے اور تشہد کے بعد سلا م پڑھے ۔
(۱۲۰۳) نما ز احتیا ط میں سو ر ہ اور قنو ت نہیں ہیں ضرور ی ہے کہ اس کی نیت ز با ن پر نہ لا ئے اور احتیا ط لا ز م کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ یہ نما ز آ ہستہ پڑ ھے اور احتیا ط مستحب یہ ہے کہ اس کی بسم ا للہ بھی ا ٓ ہستہ پڑ ھے ۔
(۱۲۰۴) اگر کسی شخص کو نما ز احتیا ط پڑ ھنے سے پہلے معلو م ہو جا ئے کہ جو نما ز اس نے پڑ ھی تھی و ہ صحیح تھی تو اس کے لیے نما ز احتیا ط پڑ ھنا ضرو ر ی نہیں اور ا گر نما ز احتیا ط کے دو را ن بھی یہ علم ہو جا ئے تو اس نما ز کوتمام کر نا ضرور ی نہیں ۔
(۱۲۰۵) اگر نما ز احتیا ط پڑھنے سے پہلے کسی شخص کو معلو م ہو جا ئے کہ اس نے نما ز کی ر کعتیں کم پڑ ھی تھیں اور نما ز پڑ ھنے کے بعد اس نے کو ئی ایسا کا م نہ کیا جو نما ز کو با طل کر تا ہو تو ضروری ہے کہ نما ز کا جو حصہ نہ پڑھا ہو اسے پڑ ھے اور بے محل سلا م کے لیے احتیا ط لا ز م کی بنا پر دو سجد ے دو سجد ہ سہو ادا کر ے اور ا گر اس سے کو ئی ایسا فعل سر زد ہو ا ہے جو نما ز کو باطل کر تا ہو مثلا قبلے کی جا نب پیٹھ کی ہو تو ضرو ر ی ہے کہ نما ز دو با ر ہ پڑ ھے ۔
(۱۲۰۶) اگر کسی شخص کو نما ز احتیا ط کے بعد پتا چلے کہ اس کی نما ز میں کمی نما ز احتیا ط کے برا بر تھی مثلا تین ر کعتو ں اور چا ر ر کعتو ں کے درمیان شک کی صو رت میں ا یک ر کعت نما ز احتیا ط پڑھے اور بعد میں پتا چلے کہ اس نے نما ز کی تین ر کعتیں پڑھی تھیں تو اس کی نما ز صحیح ہے ۔
(۱۲۰۷) اگر کسی شخص کو نما ز احتیا ط پڑ ھنے کے بعد پتا چلے کہ نما ز میں جو کمی ہو ئی تھی وہ نما ز احتیا ط سے کم تھی مثلا تین ر کعتو ں اور چا ر ر کعتو ں کے مابین شک کی صو ر ت میں ا یک ر کعت نما ز احتیا ط پڑھے اور بعد میں معلو م ہو کہ اس نے نماز کی تین ر کعتیں پڑھی تھیں تو ضرور ی ہے کہ نما ز دو با ر ہ پڑھے۔
(۱۲۰۸) اگر کسی شخص کو نما ز احتیا ط کے بعد پتا چلے کہ نما ز میں جو کمی ہو ئی تھی وہ نما زاحتیا ط سے زیا د ہ تھی مثلا تین ر کعتو ں اور چا ر ر کعتو ں کے ما بین شک کی صو ر ت میں ا یک ر کعت نما ز احتیا ط پڑھے اور بعد میں معلو م ہو کہ نما ز کی د و ر کعتیں پڑھی تھیں اور نما ز احتیا ط کے بعد کے بعد کو ئی ایسا کا م کیا ہو جو نما ز کو با طل کر تا ہے مثلا قبلے کی جانب پیٹھ کی ہو تو ضرو ر ی ہے کہ نما ز دو با ر ہ پڑ ھے اور کو ئی ایسا کا م نہ کیا ہو جو نما ز کو باطل کر تا ہو تو اس صو ر ت میں بھی احتیا ط لا ز م یہ ہے کہ نمازدوبا ر ہ پڑھے اور با قی ما ند ہ ا یک ر کعت اضا فہ کر نے پر ا کتفا نہ کر ے ۔
(۱۲۰۹) اگر کو ئی شخص دوتین اور چا ر ر کعتو ں میں شک کر ے اور کھڑ ے ہو کر دو ر کعت نما ز احتیا ط پڑھنے کے بعداسے یا د آ ئے کہ اس نے نما ز کی دو ر کعتیں پڑھی تھیں تو اس کے لیے بیٹھ کر دو رکعت نما ز احتیا ط پڑھنا ضرو ر ی نہیں ۔
(۱۲۱۰) اگر کو ئی شخص تین یا چا ر ر کعتوں میں شک کر ے اور جس و قت وہ ا یک ر کعت نما ز احتیا ط کھڑ ے ہو کر پڑ ھ ر ہا ہو اسے یا د آ ئے کہ ا س نے نما ز کی تین ر کعتیں پڑھی تھیں تو ضروری ہے کہ نما ز احتیاط چھو ڑ د ے چنا نچہ ر کو ع میں دا خل ہو نے سے پہلے اسے یا د آیا ہوتو ایک ر کعت ملاکر پڑ ھے اور اس کی نما ز صحیح ہے اور ا حتیا ط لا ز م کی بنا پر ز ا ئد سلا م کیلئے دو سجدے سہو بجا لا ئے اور ا گر رکوع میں داخل ہو نے کے بعد یا آ ئے تو ضرو ر ی ہے کہ نما ز کو دو با ر ہ پڑ ھے اور ا حتیا ط کی بنا پر با قی ما ندہ ر کعت کا اضا فہ کر نے پر ا کتفا نہیں کر سکتا ۔
(۱۲۱۱)اگر کو ئی شخص دو تین اور چا ر ر کعتو ں میں شک کر ے اور جس و قت وہ دو ر کعت نما ز احتیاط کھڑ ے ہو کر پڑ ھ ر ہا ہو اسے یا د آ ئے کہ اس نے اس نما ز کی تین ر کعتیں پڑ ھی تھیں تو یہا ں بھی با لکل یہی حکم جا ر ی ہو گا جس کا ذکر سا بقہ مسئلے میں کیا گیا ہے ۔
(۱۲۱۲) اگر کسی شخص کو نما ز احتیا ط کے دو را ن پتا چلے کہ اس کی نما ز میں کمی نما ز احتیا ط سے زیاد ہ یا کم تھی تو یہا ں بھی وہی حکم جار ی ہو گا جس کا ذکر مسئلہ۱۲۱۰میں کیا گیا ہے ۔
(۱۲۱۳) اگر کو ئی شخص شک کر ے کہ جو نما ز احتیا ط اس پر وا جب تھی وہ اسے بجا لایا ہے یا نہیں نما ز کا و قت گز رجا نے کی صو ر ت میں ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے اور ا گر با قی و قت ہو تو اس صورت میں جبکہ شک اور نما ز کے درمیا ن ز یادہ وقفہ بھی نہ گز را ہو وہ کسی اورکا م میں مشغو ل بھی نہ ہو گیا ہو اور اس نے کو ئی ایسا کا م بھی نہ کیا ہو مثلا قبلے سے منہ مو ڑ نا جو نما ز کو با طل کر تا ہو توضرو ر ی ہے کہ نما ز احتیا ط پڑھے اورا گر کو ئی ایسا کا م کیا ہو جو نما ز کو با طل کر تا ہو یا وہ کسی اور کا م میں مشغو ل ہو چکا ہو یا نما ز اوراس کے شک کے در میا ن ز یا د ہ و قفہ ہو گیا ہوتو احتیا ط لاز م کی بنا پر نما ز دو با ر ہ پڑھنا ضرور ی ہے ۔
(۱۲۱۴) اگر کوئی شخص نمازاحتیا ط میں ا یک ر کعت کی بجا ئے دو ر کعت پڑھ لے تو نما ز احتیا ط با طل ہو جا تی ہے اور ضروری ہے کہ دو بارہ اصل نما ز پڑھے اور ا گر وہ نما ز میں کو ئی ر کن بڑھا دے تو احتیا ط لا ز م کی بنا پر اس کا بھی یہی حکم ہے ۔
(۱۲۱۵)اگر کسی شخص کو نما ز احتیا ط پڑھتے ہو ئے اس نما ز کے ا فعا ل میں سے کسی کے متعلق شک ہو جا ئے توا گر اس کا مو قع نہ گز را ہو تو اسے ا نجا م د ینا ضرو ر ی ہے اور ا گر اس کا مو قع گزر گیا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ ا پنے شک کی پر وا نہ کر ے مثلا ا گر شک کر ے کہ ا لحمد پڑ ھی ہے یا نہیں اورا بھی رکو ع میں نہ گیا ہو تو ضرور ی ہے کہ الحمد پڑ ھے اور اگر ر کو ع میں جاچکا ہو تو ضرور ی ہے کہ ا پنے شک کی پروا نہ کر ے ۔
(۱۲۱۶) اگر کو ئی شخص نما ز احتیا ط کی ر کعتو ں کے با ر ے میں شک کر ے اور زیا د ہ ر کعتو ں کی طرف شک کر نا نما ز کو باطل کر تا ہو توضرور ی ہے کہ شک کی بنیا د کم پر ر کھے اور ا گر زیا د ہ رکعتوں کی طر ف شک کر نا نما ز کو با طل نہ کر تا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی زیا د ہ پر ر کھے مثلا جب وہ دو رکعت نما ز احتیا ط پڑ ھ رہا ہو ا گر شک کر ے کہ دو ر کعتیں پڑھی ہیں یا تین تو چو نکہ زیاد تی کی وجہ سے شک کر نا نما ز کو با طل کر تا ہے اس لئے اسے چا ہئے کہ سمجھ لے کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں او ر اگر شک کر ے کہ ا یک ر کعت پڑھی ہے یا دو ر کعتیں پڑھی ہیں تو چو نکہ زیادتی کی طر ف شک کر نا نما ز کو با طل نہیں کرتا اس لئے اسے سمجھنا چا ہئے کہ دو ر کعتیں پڑھی ہیں ۔
(۱۲۱۷) اگر نما ز احتیا ط میں کو ئی ایسی چیز جو ر کن نہ ہو سہواً کم یا ز یا دہ ہو جا ئے تو اس کے لیے سجد ہ سہو نہیں ہے۔
(۱۲۱۸) اگرکو ئی شخص نما زاحتیا ط کے سلام کے بعد شک کر ے کہ وہ اس نما ز کے ا جز ا ء اورشرائط میں سے کو ئی جزویا شرط انجا م د ے چکا ہے یا نہیں تووہ اپنے شک پر وا نہ کر ے ۔
(۱۲۱۹) اگر کو ئی شخص نماز احتیا ط میں تشہد پڑھنا یا ا یک سجد ہ کر نا بھو ل جائے اور تشہد یا سجدے کاا پنی جگہ پر تدا رک بھی ممکن نہ ہو تو احتیا ط وا جب یہ ہے کہ سلا م نما ز کے بعد سجد ے کی قضا کر ے البتہ تشہد کی قضا ضر ور ی نہیں ہے
(۱۲۲۰) اگر کسی پر نما ز احتیاط اور ا یک سجد ے کی قضا یا دو سجد ہ سہو وا جب ہو ں تو ضرور ی ہے کہ پہلے نما ز ا حتیا ط بجا لائے ۔
(۱۲۲۱) نما ز کی ر کعتو ں کے با ر ے میں گما ن کاحکم یقین کے حکم کی طر ح ہے مثلا ا گر کوئی شخص یہ نہ جا نتا ہو کہ ا یک رکعت پڑھی ہے یا دو رکعتیں پڑھی ہیں اور گما ن کر ے کہ دو ر کعتیں پڑھی ہیں تو وہ سمجھے کہ دو ر کعتیں پڑھی ہیں اور اگر چا ر ر کعتیں نما ز میں گما ن کر ے کہ چا ر رکعتیں پڑھی ہیں تو اسے نما ز احتیاط پڑھنے کی ضرو ر ت نہیں لیکن افعال کے با ر ے میں گما ن کر نا شک کا حکم رکھتا ہے پس ا گر و ہ گما ن کرے کہ ر کو ع کیا ہے اور ابھی سجد ے میں داخل نہ ہو ا ہو تو ضرور ی ہے کہ رکو ع کو ا نجا م د ے اورا گر وہ گما ن کر ے کہ ر کو ع کیا ہے اور ا بھی سجد ہ میں داخل نہ ہو ا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ ر کو ع کو ا نجا م د ے اور ا گر گما ن کر ے کہ الحمد نہیں پڑھی اورسو ر ے میں دا خل ہو چکا ہو تو گما ن کی پر وا ہ نہ کر ے اور اس کی نما ز صحیح ہے ۔
(۱۲۲۲)روزا نہ کی وا جب نما ز و ں اور دو سر ی وا جب نما زوں کے با رے میں شک سہو اور گمان کے حکم میں کو ئی فر ق نہیں ہے مثلا ا گر کسی شخص کو نما ز آیا ت کے دو را ن شک ہو کہ ایک ر کعت پڑھی ہے یا دو رکعتیں تو چو نکہ اس کا شک دو ر کعتی نما ز میں ہے لہذا اس کی نما ز باطل ہے اور ا گر وہ گما ن کرے کہ دو سر ی ر کعت ہے یا پہلی ر کعت تو ا پنے گما ن کے مطابق نما ز کو تمام کر ے ۔

سجدہٴ سہو
(۱۲۲۳)ضرور ی ہے کہ انسا ن سلا م کے بعد دو چیز و ں کے لیے اس طر یقے کے مطا بق جس کا ا ٓ ئند ہ ذکرہو گا وہ سجدہ سہو بجا لا ئے ۔
(۱) تشہد بھو ل جانا ۔
(۲)چا ر ر کعتی نما ز میں دو سر ے سجدے کے دور ان شک کرنا کہ چا ر ر کعتیں پڑھی ہیں یا پا نچ یاشک کر نا کہ چا ر ر کعتیں پڑھی ہیں یا چھ با لکل اسی طر ح جیسا کہ صحیح شکوک کے نمبر ۴میں گز ر چکا ہے ۔
اور تین صو ر تو ں میں احتیا ط وا جب کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ دو سجد ہ سہو بجا لا ئے :
(۱) نما ز کے بعد ا جما لی طو ر پر معلو م ہو جا ئے کہ کو ئی چیز کم یا زیاد ہ ہو گئی ہے جبکہ نما ز پر صحیح ہو نے کا حکم ہو۔
(۲) نما ز کی حا لت میں بھو لے سے کو ئی با ت کر نا ۔
(۳) جہا ں سلا م نہ پڑھنا ضرور ی ہو وہا ں بھو لے سے سلا م پڑ ھ لینا ۔
احتیا ط مستحب یہ ہے کہ ا گر ا یک سجد ہ بھو ل جا ئے تو جہا ں کھڑا ہو ناضرو ر ی ہو مثلا الحمد اور سو ر ہ پڑھتے وقت وہا ں غلطی سے بیٹھ جا نا جہا ں بیٹھا ضرو ر ی ہو مثلا تشہد پڑھتے وقت وہا ں غلطی سے کھڑاہوجا ئے اور دو سجد ے سہو ا دا کر ے بلکہ ہر اس چیز کے لئے جو غلطی سے نما ز میں کم یا زیادہ ہو جا ئے دو سجدہ سہو کر ے ا ن چند صو رتو ں کے ا حکام آ ئند ہ مسائل میں بیا ن ہو ں گے۔
(۱۲۲۴) اگر انسان غلطی سے یا اس خیا ل سے کہ وہ نما ز پڑ ھ چکا ہے کلا م کر ے تو احتیا ط کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ دو سجدہ سہو کر ے ۔
(۱۲۲۵)اس آ وا ز کے لیے جو کھا نسنے سے پیدا ہو تی ہے سجد ہ سہو وا جب نہیں لیکن اگر کوئی غلطی سے نا لہ و بکا کر ے آ ہ بھرے یا آ ہ کرکہے کہ احتیا ط کی بنا پر سجد ہ سہو کر ے ۔
(۱۲۲۶)اگر کو ئی شخص ا یک ایسی چیز کو جو اس نے بھو لے سے پڑ ھی ہو دو با ر ہ صحیح طو ر پڑھتے تو اس کے دو بار ہ پڑ ھنے پر سجد ہ سہو وا جب نہیں ہے۔
(۱۲۲۷)اگر کو ئی شخص نما ز میں غلطی سے کچھ دیر با تیں کر تا ر ہے اور مکمل گفتگو ا یک غلطی کی بنیاد پر ہو تو اس کے لیے نما ز کے سلا م کے بعد دو سجد ہ سہو کا فی ہیں ۔
(۱۲۲۸)اگر کو ئی شخص غلطی سے تسبیحا ت ار بعہ نہ پڑ ھے تو ا حتیا ط مستحب یہ ہے کہ نما ز کے بعد دو سجد ہ سہو بجالا ئے ۔
(۱۲۲۹)جہا ں نما ز کاسلا م نہیں کہنا چا ہئے ا گر کوئی شخص غلطی سے السلا م علینا و علی عبا د اللہ الصا لحین۔کہہ د ے یا السلا م علیکم کہے تو ا گر اس نے و رحمتہ اللہ و بر کا تہ نہ کہا ہو تب بھی احتیا ط لا ز م کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ دو سجد ہ سہو کر ے لیکن اگر غلطی سے السلا م علیک ایھاالبنی ورحمةاللّٰہ وبرکاتہ کہے تو ا حتیا ط مستحب یہ ہے کہ دو سجد ہ بجا لا ئے لیکن اگر غلطی سے سلا م پڑ ھ لے تو اس کے دو یا زیا د ہ حر وف ز با ن سے ا دا کر ے تو احتیا ط وا جب یہ ہے کہ دو سجد ہ سہو ادا کر ے۔
(۱۲۳۰)جہا ں سلا م نہیں پڑھنا چا ہئے ا گرکو ئی شخص وہا ں غلطی سے تینو ں سلا م پڑھ لے تو اس کے لیے دو سجد ہ سہو کا فی ہیں ۔
(۱۲۳۱) اگر کو ئی شخص ا یک سجد ہ یا تشہد بھو ل جا ئے اور بعد کی ر کعت کے رکو ع سے پہلے اسے یا د آ ئے تو ضرو ر ی ہے کہ پلٹے اور بجا لا ئے اور نما ز کے بعد احتیا ط مستحب کی بنا پر بے جا قیا م کے لیے دو سجد ہ سہو کر ے
(۱۲۳۲)اگر کسی شخص کو ر کو ع میں یا اس کے بعد یا د آ ئے کہ وہ اس سے پہلی ر کعت میں ا یک سجد ہ یا تشہد بھو ل گیا ہے تو ضرور ی ہے کہ سلا م نما ز کے بعد سجد ے کی قضا کر ے اور تشہد کے لیے دو سجد ہ سہو کر ے ۔

سجدہٴ سہو کا طر یقہ
(۱۲۳۳) اگر کوئی شخص نماز کے سلام کے بعد جان بوجھ کو سجدہٴ سہو نہ کرے تو اس نے گناہ کیا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ جس قدر جلدی ہو سکے اسے ادا کرے اور اگر اس نے بھول کر سجدہ سہو نہیں کیا تو جس وقت بھی اسے یاد آئے ضروری ہے کہ فوراً سجدہ کرے اور اس کے لئے نماز کا دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں۔
(۱۲۳۴) اگر کوئی شخص شک کرے کہ مثلاً اس پر دو سجدہٴ سہو واجب ہوئے ہیں یا نہیں تو ان کا بجا لانا اس کے لئے ضروری نہیں۔
(۱۲۳۵) اگر کوئی شخص شک کرے کہ مثلاً اس پر دو سجدہٴ سہو واجب ہوئے ہیں یا چار تو اس کا دو سجدے ادا کرنا کافی ہے۔
(۱۲۳۶) اگر کسی شخص کو علم ہو کہ دو سجدہٴ سہو میں سے ایک سجدہٴ سہو نہیں بجا لایا اور زیادہ فاصلہ ہو جانے کی وجہ سے اس کا تدارک بھی ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ دو سجدہٴ سہو بجا لائے اور اگر اسے عِلم ہو کہ اس نے سہواً تین سجدے کئے ہیں تو ضروری ہے کہ دوبارہ دو سجدہٴ سہو بجا لائے۔

سجدہٴ سہو کا طریقہ
(۱۲۳۷)سجد ہ سہو کا طر یقہ یہ ہے کہ سلا م نما ز کے بعد انسا ن فور ا سجد ہ سہو کی نیت کر ے اور احتیا ط لا ز م کی بنا پر پیشا نی کسی ایسی چیز پر ر کھ د ے جس پر سجد ہ کر نا صحیح ہو اور احتیا ط مستحب یہ ہے کہ سجد ہ سہو میں ذکر پڑھے اور بہتر ہے کہ کہے :
بسم ا للّٰہ و با للّٰہ السلا م علیک ایھا النبی ورحمتہ اللّٰہ وبرکاتہاس کے بعد اسے چا ہئے کہ بیٹھ جا ئے اور دو با ر ہ سجد ے میں جا ئے اور مذکو ر ہ ذکر پڑھے اور بیٹھ جا ئے اور تشہد کے بعد کہے السلا م علیکم اور ا و لی یہ ہے کہ و ر حمتہ اللہ و بر کتہ کا اضا فہ کر ے ۔

بھو لے ہو ئے سجد ے اور تشہد کی قضا
(۱۲۳۸)اگر انسا ن سجد ہ اور تشہد بھو ل جا ئے اور نماز کے بعد ا ن کی قضا بجا لا ئے تو ضرور ی ہے کہ وہ نما ز کی تما م شرائط مثلا بد ن اور لبا س کا پا ک ہو نا اور ر و بقبلہ ہو نا اوردیگر شرائط پو ر ی کر تا ہو ۔
(۱۲۳۹)اگر ا نسا ن کئی دفعہ سجد ہ کر نا بھو ل جا ئے مثلا ا یک سجدہ پہلی ر کعت میں اور ا یک سجد ہ دو سر ی ر کعت میں بھو ل جا ئے تو ضرو ری ہے کہ نما ز کے دو را ن سجد و ں کی قضا بجا ئے اور احتیا ط مستحب یہ ہے کہ بھو لی ہو ئی ہر چیز کے لیے احتیاطاً دو سجد ے سہو کر ے۔
(۱۲۴۰)اگر انسا ن ا یک تشہد بھو ل جا ئے تو احتیا طا ً ہر ا یک کے لیے دو سجد ہ سہو بجا لا ئے ضرور ی ہے کہ بھو لے ہوئے تشہد کے لیے دو سجد ہ سہو بجا لا ئے لیکن بھو لے ہو ئے سجد ے کے لیے سجد ہ سہو انجا م دینا ضرو ر ی نہیں ہا ں بہتر ہے۔
(۱۲۴۱)اگر ا نسا ن دو ر کعتو ں میں سے دو سجد ے بھو ل جا ئے تو اس کے لیے ضرور ی نہیں کہ قضا کر تے و قت تر تیب سے بجا لا ئے ۔
(۱۲۴۲) اگر ا نسا ن کے سلا م اور سجد ے کی قضا کے در میان کو ئی ا یسا کا م کر ے جس کو عمداً یا سہواً کر نے سے نما زبا طل ہو جا تی ہے مثلا پیٹھ قبلے کی طر ف کر ے تو احتیا ط مستحب یہ ہے کہ سجد ے کی قضا کے بعد دو با ر ہ نما زپڑ ھے
(۱۲۴۳)اگر کسی شخص کو نماز کے بعد یادآ ئے کہ آ خر ی ر کعت کا ا یک سجد ہ بھول گیا ہے اور نما ز تو ڑ نے وا لا کو ئی کا م مثلا حد ث اس سے سر زد نہ ہو ا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ سجدہ اور اس کے بعد کی چیز یں یعنی تشہد اور سلا م ا نجا م د ے اور احتیاط وا جب کی بنا پر بے محل سلا م کے لیے دو سجدہ سہو کر ے ۔
(۱۲۴۴) اگر ا یک شخص نماز کے سلا م اورسجد ے کی قضا کے در میان کو ئی ایسا کا م کر ے جس کے لیے سجد ہ سہو وا جب ہو جا تا ہو مثلا بھو لے سے کلا م کر ے تو احتیا ط واجب کی بنا پر ضرو ر ی ہے کہ پہلے سجد ے کی قضا کر ے اور بعد میں دو سجدہ سہو کر ے ۔
(۱۲۴۵)اگر کسی شخص کو یہ علم نہ ہو کہ نما ز میں سجد ہ بھو لا ہے یا تشہد تو ضرو ر ی ہے کہ سجد ے کی قضا کر ے اور وہ سجد ہ سہو ادا کر ے اور ا حتیا ط مستحب یہ ہے کہ تشہد کی بھی قضا کر ے ۔
(۱۲۴۶)اگر کسی شخص کو شک ہو کہ سجد ہ یا تشہد بھو لا ہے یا نہیں تو اس کے لیے ا ن کی قضا کر نا یا سجد ہ سہو ادا کر نا وا جب نہیں ہے ۔
(۱۲۴۷)اگر کسی شخص کو علم ہو کہ سجد ہ بھو ل گیا ہے اور شک کر ے کے بعد کی ر کعت کے ر کو ع سے پہلے اسے یا د آ یا تھا اور اسے بجا لا یا تھا یا نہیں تو احتیا ط مستحب یہ ہے کہ اس کی قضا کرے۔
(۱۲۴۸) جس شخص پر سجد ے کی قضا ضرو ری ہو ا گر کسی د و سر ے کا م کی و جہ سے اس پر سجد ہ سہو وا جب ہو جا ئے تو ضروری ہے کہ احتیا ط کی بنا پر نما ز اد ا کر نے سے پہلے سجد ے کی قضا کر ے اور اس کے بعد سجد ہ سہو کر ے ۔
(۱۲۴۹)اگرکسی شخص کو شک ہو کہ نما ز پڑھنے کے بعد بھو لے ہو ئے سجد ے کی قضا بجالا یاہے یا نہیں اور نما ز کا و قت نہ گز ر ا ہو تو ضرو ر ی ہے کہ سجد ے کی قضا کر ے بلکہ اگر نما ز کا و قت گز ر بھی گیا ہو تو احتیا ط وا جب کی بنا پر اس کی قضا کرناضرور ی ہے ۔

نماز کے اجزاء اور شرائط کو کم زیادہ کرنا
(۱۲۵۰)جب نماز کے واجبات میں سے کوئی چیز جان بوجھ کر کم یا زیادہ کی جائے تو خواہ وہ ایک حرف ہی کیوں نہ ہو نماز باطل ہے۔
(۱۲۵۱)اگر کوئی شخص مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز کے واجب ارکان میں سے کوئی ایک کم کر دے تو نماز باطل ہے۔ ہاں جاہل قاصر یعنی وہ شخص جس نے کسی قابل اعتماد شخص کی بات یا کسی معتبر رسالے کی تحریر پر بھروسہ کیا ہو اور بعد میں معلوم ہوا ہو کہ اس شخص یا رسالے سے غلطی ہوئی تھی ، اگر کسی غیر رُکنی واجب کو کم کرے تو نماز باطل نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اگرچہ کوتاہی کی وجہ سے ہو صبح اور مغرب اور عشاء کی نمازوں میں الحمد اور سورہ آہستہ پڑھے یا ظہر اور عصر کی نمازوں میں الحمد اور سورہ آواز سے پڑھے یا سفر میں ظہر، عصر اور عشاء کی نمازوں کی چار رکعتیں پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۲۵۲)اگر نماز کے دوران یا اس کے بعد کسی شخص کو معلوم ہو جائے کہ اس کا وضو یا غسل باطل تھا یا وضو یا غسل کے بغیر کے نماز پڑھنے لگا ہے تو ضروری کہ نماز توڑ دے اور دوبارہ وضو یا غسل کے ساتھ پڑھے اور اگر نماز کا وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا کرے۔
(۱۲۵۳)اگر کسی شخص کو رکوع میں پہنچنے کے بعد یاد آئے کہ پہلے والی رکعت کے دو سجدے بھول گیا ہے تو اس کی نماز احتیاط کی بنا پر باطل ہے اور اگر یہ بات اسے رکوع میں پہنچنے سے پہلے یاد آئے تو ضروری ہے کہ واپس مڑے اور دو سجدے بجا لائے اور پھر کھڑا ہو جائے اور الحمد اور سورہ یا تسبیحات پڑھے اور نماز کو تمام کرے اور نماز کے بعد احتیاط مستحب کی بنا پر بے محل مقام کے لیے دو سجدہٴ سہوکرے۔
(۱۲۵۴)اگر کسی شخص کو اَلسَّلَامُ عَلَیْنَااور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے سے پہلے یاد آئے کہ وہ آخری رکعت کے دو سجدے بجا نہیں لایا تو ضروری ہے کہ دو سجدے بجالائے اور دوبارہ تشہد اور سلام پڑھے۔
(۱۲۵۵)اگر کسی شخص کو نماز کے سلام سے پہلے یاد آئے کہ اس کے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں تو ضروری ہے کہ جتنا حصہ بھول گیا ہو اسے بجا لائے۔
(۱۲۵۶)اگر کسی کو نماز کے سلام کے بعد یاد آئے کہ اس نے نماز کے آخری حصے کی ایک یا ایک سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھیں اور اس سے ایسا کام بھی سرزد ہو چکا ہو کہ اگر وہ نماز میں عمداً یا سہواً کیا جائے تو نماز کو باطل کر دیتا ہو، مثلاً اس نے قبلے کی طرف پیٹھ کی ہو تو اس کی نما باطل ہے اور اگر اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا ہو جس کا عمداً یا سہواً کرنا نماز کو باطل کرتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنا حصہ پڑھنا بھول گیا ہو اسے فوراً بجا لائے اور زائد سلام کے لیے احتیاط لازم کی بنا پر دو سجدہٴ سہو کرے۔
(۱۲۵۷)جب کوئی شخص نماز سلام کے بعد ایک ایسا کام انجام دے جو اگر نماز کے دوران عمداً یا سہواً کیا جائے تو نماز کو باطل کر دیتا ہو، مثلاً پیٹھ قبلے کی طرف کرے اور بعد میں اسے یاد آئے کہ وہ دو آخری سجدے بجا نہیں لایا تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر نماز کو باطل کرنے والا کوئی کام کرنے سے پہلے اسے یہ بات یاد آئے تو ضروری ہے کہ جو دو سجدے ادا کرنا بھول گیا ہے انہیں بجا لائے اور دوبارہ تشہد اور سلام پڑھے اور جو سلام پہلے پڑھ چکا ہو اس کے لیے احتیاط واجب کی بنا پر دو سجدہٴ سہو کرے۔
(۱۲۵۸)اگر کسی شخص کو پتا چلے کہ اس نے نماز وقت سے پہلے پڑھ لی ہے تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا کرے۔ اگر یہ پتا چلے کہ قبلے کی طرف پیٹھ کر کے پڑھی ہے یا ۹۰ ڈگری یا اس سے زیادہ ہٹ کر پڑھی ہے اور ابھی وقت نہ گزرا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر چکا ہو اور تردد کا شکا ہو یا حکم سے لاعلم ہو تو ضروری ہے ورنہ قضا ضروری نہیں۔ اگر پتا چلے کہ ۹۰ ڈگری سے کم ہٹ کر نماز پڑھی ہے اور قبلے کی سمت تبدیل کرنے کا اس کے پاس کوئی معقول عذر نہ ہو، مثلاً قبلے کی سمت تلاش کرنے میں یا مسئلہ معلوم کرنے میں کوتاہی کی ہو تو احتیاط کی بنا پر دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے۔ چاہے وقت باقی ہو یا گزر چکا ہو۔ ہاں اگر اس کے پاس معقول عذر موجود ہو تو نماز کو دہرانا ضروری نہیں۔

مسافر کی نماز
ضروری ہے کہ مسافر ظہر، عصر اور عشاء کی نماز آٹھ شرطیں ہوتے ہوئے قصر بجا لائے یعنی دو رکعت پڑھے۔

پہلی شرط
اس کا سفر آٹھ شرعی فرسخ (تقریباً ۴۴ کلو میٹر) سے کم نہ ہو۔
(۱۲۵۹)جس شخص کے جانے اور واپس آنے کی مجموعی مسافت ملا کر آٹھ فرسخ ہو اور خواہ اس کے جانے کی یا واپسی کی مسافت چار فرسخ سے کم ہو یا نہ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ لہٰذا اگر جانے کی مسافت تین فرسخ اور واپس کی پانچ فرسخ یا اس کے برعکس ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر یعنی دو رکعتی پڑھے۔
(۱۲۶۰)اگر سفر پر جانے اور واپس آنے کی مسافت آٹھ فرسخ ہو تو اگرچہ جس دن وہ گیا وہ اسی دن یا اسی رات کو واپس پلٹ کر نہ آئے، ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اس صورت میں بہتر ہے کہ احتیاطاً پوری نماز بھی پڑھے۔
(۱۲۶۱)اگر ایک مختصر سفر آٹھ فرسخ سے کم ہو یا انسان کو علم نہ ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یانہیں تو اسے نماز قصر کر کے نہیں پڑھنی چاہئے اور اگر شک کرے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے یا نہیں تو اس کے لیے تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۶۲)اگر ایک عادل یا قابل اعتماد شخص کسی کو بتائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اور وہ اس کی بات سے مطمئن ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۶۳)ایسا شخص جسے یقین ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اگر نماز قصر کر کے پڑھے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ آٹھ فرسخ نہ تھا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا بجا لائے۔
(۱۲۶۴)جس شخص کو یقین ہو کہ جس جگہ وہ جانا چاہتا ہے وہاں کا سفر آٹھ فرسخ نہیں یا شک ہو کہ آٹھ فرسخ ہے یا نہیں اور راستے میں اسے معلوم ہو جائے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ تھا تو گو تھوڑا سا سفر باقی ہو، ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر پوری نماز پڑھ چکا ہو تو ضروری ہے کہ دوبارہ قصر پڑھے۔ لیکن اگر وقت گزر گیا ہو تو قضا ضروری نہیں ہے۔
(۱۲۶۵)اگر دو جگہوں کا درمیانی فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور کوئی شخص کئی دفعہ ان کے درمیان جائے اور آئے تو خواہ ان تمام مسافتوں کا فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ بھی ہو جائے تو اسے نماز پوری پڑھنی ضروری ہے۔
(۱۲۶۶)اگر کسی جگہ جانے کے دو راستے ہوں اور ان میں سے ایک راستہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دوسرا آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ ہو تو اگر انسان وہاں اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے ارو اگر اس راستے سے جائے جو آٹھ فرسخ سے کم ہے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۶۷)آٹھ فرسخ کی ابتداء اس جگہ سے حساب کرنا ضروری ہے جہاں سے گزر جانے کے بعد آدمی مسافر شمار ہوتا ہے اور غالباً وہ جگہ شہر کی انتہا ہوتی ہے لیکن بعض بہت بڑے شہروں میں ممکن ہے کہ دو شہر کا آخری محلّہ ہو جبکہ سفر کی انتہا وہ آخری مقام سمجھا جائے گا جہاں تک انسان کو جانا ہے۔

دوسری شرط
مسافر اپنے سفر کی ابتدا سے ہی آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو یعنی یہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک کا فاصلہ طے کرے گا، لہٰذا اگر وہ اس جگہ تک کا سفر کرے جو آٹھ فرسخ سے کم ہو اور وہاں پہنچنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانے کا ارادہ کرے جس کا فاصلہ طے کردہ فاصلے سے ملا کر آٹھ فرسخ ہو جاتا ہو تو چونکہ وہ شروع سے آٹھ فرسخ طے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس لیے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر وہ وہاں سے آٹھ فرسخ آگے جانے کا ارادہ کرے یا اتنا فاصلے طے کرنے کا ارادہ کرے جو واپسی ملا کر آٹھ فرسخ بن جاتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے۔
(۱۲۶۸)جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ اس کا سفر کتنے فرسخ کا ہے، مثلاً کسی گمشدہ (شخص یا چیز) کو ڈھونڈنے کے لیے سفر کر رہا ہو اور نہ جانتا ہو کہ اسے پا لینے کے لیے اسے کہاں تک جانا پڑے گا توضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر واپسی پر اس کے وطن یا اس جگہ تک کا فاصلہ جہاں وہ دس دن قیام کرنا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ مزید برآن اگر وہ سفر کے دوران ارادہ کر لے کہ وہ اتنی مسافت طے کرے گا جو واپسی ملا کر آٹھ فرسخ بن جائے گی تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۶۹)مسافر کو نماز قصر کر کے اس میں پڑھنی ضروری ہے کہ جب اس کا آٹھ فرسخ طے کرنے کا پختہ ارادہ ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص شہر سے باہر جا رہا ہو اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر کوئی ساتھی مل گیا تو آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جاؤں گا اور اسے اطمینان ہو کہ ساتھی مل جائےء گا تو اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اور اگر اسے اس بارے میں اطمینان نہ ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۰)جو شخص آٹھ فرسخ سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ اگرچہ ہر روز تھوڑا سافاصلہ طے کرے، جب حد ترخص… جس کے معنی مسئلہ ۱۳۰۵ میں آئیں گے… تک پہنچ جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ لیکن اگر ہر روز بہت کم فاصلہ طے کرے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اپنی نماز پوری بھی پڑھے اور قصر بھی پڑھے۔
(۱۲۷۱)جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے احتیاط میں ہو، مثلاً بیوی بچے یا نوکر یا قیدی اگر اسے علم ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ کا ہے تو ضروری ہے کہ ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر اسے علم نہ ہو تو پوری نماز پڑھے اور اس بارے میں پوچھنا ضروری نہیں، اگرچہ بہتر ہے۔
(۱۲۷۲)جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہو اگر وہ جانتا ہو یا گمان رکھتا ہو کہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے سے اس سے جدا ہو جائے گا اور سفر نہیں کرے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۳)جو شخص سفر میں کسی دوسرے کے اختیار میں ہواگر اسے اطمینان نہ ہو کہ چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اس سے جدا ہو جائے گا اور سفر جاری نہیں رکھے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر اسے اطمینان ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔

تیسری شرط
راستے میں مسافر اپنے ارادے سے پھر نہ جائے۔ پس اگر دوچار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنا ارادہ بدل دے یا اس کا ارادہ متزلزل ہو جائے اور طے شدہ فاصلہ، واپسی کا فاصلہ ملا کر آٹھ فرسخ سے کم ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۴)اگر کوئی شخص کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد جو کہ واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور پختہ ارادہ کر لے کہ اسی جگہ رہے گا یا دس دن گزرنے کے بعد واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور پختہ ارادہ کر لے کہ اسی جگہ رہے گا یا دس دن گزرنے کے بعد واپس جائے گا یا واپس جانے اور ٹھہرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پائے تو ضروری کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۷۵)اگر کوئی شخص کچھ فاصلہ طے کر نے کے بعد جو کہ واپسی کے سفر کو ملا کر آٹھ فرسخ ہو سفر ترک کر دے اور واپس جانے کا پختہ ارادہ کر لے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ اگرچہ وہ اس جگہ دس دن سے کم مدت کے لئے ہی رہنا چاہتا ہو۔
(۱۲۷۶)اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ جانے کے لیے جو آٹھ فرسخ دُور ہو سفر شروع کرے اور کچھ راستہ طے کرنے کے بعد کسی اور جگہ جانا چاہے اور جس جگہ سے اس نے سفر شروع کیا ہے وہاں سے اس جگہ تک جہاں وہ اب جانا چاہتا ہے آٹھ فرسخ بنتے ہوں تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۷۷)اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ تک فاصلہ طے کرنے سے پہلے متردد ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور دوران تردد سفر نہ کرے اور بعد میں باقی راستہ طے کرنے کا پختہ ارادہ کر لے تو ضروری ہے کہ سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔
(۱۲۷۸)اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے تردد کا شکار ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور حالت تردد میں کچھ فاصلہ طے کر لے اور بعد میں پختہ ارادہ کر لے کہ آٹھ فرسخ مزید سفر کرے گا یا ایسی جگہ جائے کہ جہاں تک اس کا جانا اور آنا آٹھ فرسخ ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ سفر کے خاتمے تک نماز قصر پڑھے۔
(۱۲۷۹)اگر کوئی شخص آٹھ فرسخ کا فاصلہ طے کرنے سے پہلے متردد ہو جائے کہ باقی راستہ طے کرے یا نہیں اور حالت تردد میں کچھ فاصلہ طے کر لے اور بعد میں پختہ ارادہ کر لے کہ باقی راستہ بھی طے کرے گا، چنانچہ تردد کے عالم میں طے شدہ تعداد کو نکال کر باقی آنے اور جانے کا کل فاصلہ آٹھ فرسخ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھے اور اگر آٹھ فرسخ نہ بنتا ہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

چوتھی شرط
مسافر آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنے اور وہاں توقف کرنے یا کسی جگہ دس دن یا اس سے زیادہ دن رہنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔ پس جو شخص یہ چاہتا ہو کہ آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے اور وہاں توقف کرے یا دس دن کسی جگہ پر رہے تو ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ ہاں اگر اپنے وطن سے توقف کیے بغیر گزرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ احتیاطاً نماز قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۸۰)جس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرے گا یا نہیں یا کسی جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کرے گا یا نہیں تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۸۱)وہ شخص جو آٹھ فرسخ تک پہنچنے سے پہلے اپنے وطن سے گزرنا اور وہاں توقف کرنا چاہتا ہو یا کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اور وہ شخص بھی جو وطن سے گزرنے یا کسی جگہ دس دن رہنے کے بارے میں متردد ہو ، اگر وہ دس دن کہیں رہنے یا وطن سے گزرنے کا ارادہ ترک بھی کر دے تب بھی ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ لیکن اگر باقی ماندہ راستہ چاہے واپسی کا راستہ ملا کر آٹھ فرسخ کا راستہ چاہے واپسی کا راستہ ملا کر آٹھ فرسخ ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔

پانچویں شرط
مسافر حرام کام کے لئے سفر نہ کرے اور اگر حرام کام مثلاً چوری کرنے کے لئے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ اگر خود سفر ہی حرام ہو مثلاً اس سفر میں اس کے لئے کوئی ایسا ضرر مضمر ہو جو خون یا کسی عضو کے ناقص ہونے کا باعث ہو یا عورت شوہر کی اجازت کے بغیر ایسے سفر پر جائے جو اس پر واجب نہ ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ لیکن اگر حج کے سفر کی طرح واجب ہو تو نماز قصر کر کے پڑھنے ضروری ہے۔
(۱۲۸۲)جو سفر واجب نہ ہو اگر ماں باپ کی اولاد سے محبت کی وجہ سے ان کے لیے اذیت کا باعث ہو تو حرام ہے اور ضروری ہے کہ انسان اس سفر میں پوری نماز پڑھے اور (رمضان کا مہینہ ہو تو ) روزہ بھی رکھے۔
(۱۲۸۳۰)جس شخص کا سفر حرام نہ ہو اور وہ کسی حرام کام کے لیے بھی سفر نہ کر رہا ہو، وہ اگرچہ سفر میں گناہ بھی کرے، مثلاً غیبت کرے یا شراب پئے تب بھی ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۸۴)اگر کوئی شخص کسی واجب کام کو ترک کرنے کے لیے سفر کرے تو خواہ سفر میں اس کی کوئی دوسری غرض ہو یا نہ ہو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔ پس جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرض چکا سکتا ہو اور قرض خواہ مطالبہ بھی کرے تو اگر وہ سفر کرتے ہوئے اپنا قرض ادا نہ کر سکے اور قرض چکانے سے فرار حاصل کرنے کے لیے سفر کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن اگر اس کا سفر کسی اور کام کے لیے ہو تو اگرچہ وہ سفر میں ترک واجب کا مرتکب بھی ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۸۵)اگر کسی شخص کا سفر میں سواری کا جانور یا سواری کی کوئی اور چیز جس پر وہ سوارہو غصبی ہو اور مالک سے فرار ہونے کے لیے سفر کر رہا ہو یا وہ غصبی زمین پر سفر کر رہا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۸۶)جو شخص کسی ظالم کے ساتھ سفر کر رہا ہو اگر وہ مجبور نہ ہو اور اس کا سفر کرنا ظالم کے ظلم کرنے میں مدد کا موجب ہو تو اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے اور اگر مجبور ہو یا مثال کے طور پر کسی مظلوم کو چھڑانے کے لیے اس ظالم کے ساتھ سفر کرے تو اس کی نماز قصر ہو گی۔
(۱۲۸۷)اگر کوئی شخص سیروتفریح کی غرض سے سفر کرے تو اس کا سفر حرام نہیں ہے اور ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۸۸)اگر کوئی شخص موج میلے اور سیر وتفریح کے لیے شکار کو جائے تو اگرچہ اس کا جانا حرام نہیں ہے لیکن اس کی نماز جاتے وقت پوری ہے اور واپسی پر اگر مسافت کی حد پوری ہو تو قصر ہے۔ اس صورت میں کہ اس کی حدِ مسافت پوری ہو اور شکار پر جانے کی مانند نہ ہو لہٰذا اگر حصولِ معاش کے لیے شکار کو جائے تو اس کی نماز قصر ہے اور اگر کمائی اور افزائش دولت کے لیے جائے تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اگرچہ اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز قصر کر کے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۸۹)اگر کوئی شخص گناہ کا کام کرنے کے لیے سفر کرے اور سفر سے واپسی کے وقت فقط اس کی واپسی کا سفر آٹھ فرسخ ہو یا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر اس نے توبہ نہ کی ہو تو نماز قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۹۰)جس شخص کا سفر گناہ کا سفر ہو اگر وہ سفر کے دوران گناہ کا ارادہ ترک کر دے تو خواہ باقی ماندہ مسافت یا کسی جگہ جانا اور واپس آنا آٹھ فرسخ ہو یا نہ ہو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۹۱)جس شخص نے گناہ کرنے کی غرض سے سفر نہ کیا ہو اگر وہ راستے میں طے کرے کہ بقیہ راستہ گناہ کے لیے طے کرے گا تو ضروری ہے کہ نمازپوری پڑھے۔ البتہ اس نے جو نمازیں قصر کر کے پڑھی ہوں وہ صحیح ہیں۔

چھٹی شرط
ان لوگوں میں سے نہ ہو جن کے قیام کی کوئی (مستقل ) جگہ نہیں ہوتی اور ان کے گھر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ یعنی ان صحرا نشینوں (خانہ بدوشوں) کی مانند جو بیابانوں میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں کہیں اپنے اور اپنے مویشیوں کے لیے دانہ پانی دیکھتے ہیں وہیں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ایسے لوگ ایسے سفر میں پوری نماز پڑھیں۔
(۱۲۹۲)اگر کوئی صحرا نشین مثلاً جائے قیام اور اپنے حیوانات کے لیے چراگاہ تلاش کرنے کے لیے سفر کرے اور مال و اسباب اس طرح اس کے ہمراہ ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کا گھر اس کے ہمرا ہ ہے تو وہ پوری نماز پڑھے، ورنہ اگر اس کا سفر آٹھ فرسخ ہو تو نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۹۳)اگر کوئی صحرا نشین مثلاً حج، زیارت، تجارت یا ان سے ملتے جلتے کسی مقصد سے سفر کرے تو اگر نہ کہا جا سکے کہ اس کا گھر اس کے ساتھ نہیں ہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر یہ کہا جا سکے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔

ساتویں شرط
وہ شخص ”کثیر السفر“ نہ ہو۔ پس وہ شخص جس کا پیشہ سفر سے ہی وابستہ ہے جیسے ڈرائیور، ملاح ، گلہ بان اور ڈاکیہ وغیرہ یا وہ شخص جو زیادہ سفر کرتا ہو چاہے اس کا پیشہ سفر سے وابستہ نہ ہو جیسے وہ شخص جو ہفتے میں تین دن سفر میں گزارتا ہو، چاہے اس کا سفر تفریح یا سیاحت کے لیے ہو، ایسے افراد کے لیے ضروری ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھیں۔
(۱۲۹۴)جس شخص کا پیشہ سفر میں ہو اگر وہ کسی دوسرے مقصد مثلاً حج یا زیارت کے لیے سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر عرف عام میں کثیر السفر کہلاتا ہو مثلاً وہ شخص جو ہمیشہ ہفتے میں تین دن سفر میں رہتا ہو تو قصر نہ کرے، لیکن اگر مثال کے طور پر ڈرائیور اپنی گاڑی زیارت کے لیے کرائے پر چلائے اور ضمناً خود بھی زیارت کرے تو ہر حال میں ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۲۹۵)وہ قافلہ سالار جو حاجیوں کو مکہ پہنچانے کے لیے سفر کرتا ہو اگر اس کا پیشہ سفر کرنا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر اس کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو اور صرف حج کے دنوں میں قافلہ لے جانے کے لیے سفر کرتا ہو تو اگر اس کے سفر کی مدت کم ہو مثلاً دو تین ہفتے ہو تو نماز قصر پڑھے جبکہ اگر اس کے سفر کی مدت طولانی ہو جیسے تین ماہ تو نماز تمام پڑھے اور اگر شک کرے کہ اسے ”کثیرالسفر“ کہا جائے گا یا نہیں تو احتیاط کرتے ہوئے قصر بھی پڑھے اور پوری بھی ۔
(۱۲۹۶)ڈرائیور یا اس جیسے کسی اور پیشے کا پیشہ ور کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ ڈرائیونگ جاری رکھنے کا ارادہ ہو اور درمیان میں آرام کا وقفہ معمول کے مطابق ڈرائیوروں کے آرام کے وقفے سے زیادہ نہ ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص مثلاً ہفتے میں ایک دن سفر پر جائے تو اسے ڈرائیور نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ ”کثیر السفر“ ایک ایسے شخص کو کہا جا سکتا ہے جو ہر ہفتے کم از کم تین دن یا ہر مہینے دس دن سفر میں رہتا ہو اور کم از کم ایک سال چھ ماہ یا دو یا دو سے زیادہ سالوں میں تین ماہ اسی کیفیت میں رہنے کا ارادہ ہو (البتہ پہلے مہینے میں ضروری ہے کہ احتیاط کرتے ہوئے دونوں ذمہ داریوں کو ادا کرے)۔ ایسا شخص کثیر السفر نہیں ہے جو ہر ہفتے ایک دن سفر میں رہتا ہو۔ البتہ جو شخص ہر ہفتے دو دن سفر میں رہتا ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ قصر بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۹۷)جس شخص کا پیشہ سال کے کچھ حصے میں سفر کرنا ہو مثلاً ایک ڈرائیور جو صرف گرمیوں یا سردیوں کے دنوں میں اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا ہو ضروری ہے اس سفر میں نماز پوری پڑھے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ قصر کرکے بھی پڑھے اور پوری بھی پڑھے۔
(۱۲۹۸)ڈرائیور اور پھیری والا جو شہر کے آس پاس دو تین فرسخ میں آتا جاتا ہو اگر وہ اتفاقاً آٹھ فرسخ کے سفر پر چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۲۹۹)جس کا پیشہ ہی مسافرت ہے اگر دس دن یا اس سے زیادہ عرصے اپنے وطن میں رہ جائے تو خواہ وہ ابتدا سے دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو یابغیر ارادے کے اتنے دن رہے تو ضروری ہے کہ دس دن کے بعد جب پہلے سفر پر جائے تو نماز پوری پڑھے اور اگر اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ رہنے کا قصد کر کے یا بغیر قصد کے دس دن وہاں مقیم رہے تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ البتہ ساربان اور ڈرائیور جو اپنی گاڑی کرائے پر چلاتا ہے، ان کے لیے خاص طور پر حکم ہے کہ ایسی صورت میں احتیاط مستحب کی بنا پر جب دس دن قیام کے بعد پہلے سفر پر نکلیں تو نماز قصر بھی پڑھیں اور پوری بھی۔
(۱۳۰۰)جس شخص کا پیشہ مسافرت ہو اس کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ کم از کم تین بار مسافرت کرے تاکہ اس کی نماز پوری ہو بلکہ جیسے ہی اسے ڈرائیور وغیرہ کہا جا سکے تو چاہے پہلا سفر ہی کیوں نہ ہو اس کی نماز پوری ہے۔
(۱۳۰۱)ڈرائیور اور ساربان کی طرح جن کا پیشہ سفر کرنا ہے اگر معمول سے زیادہ سفر ان کی مشقت اور تھکاوٹ کا سبب ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر پڑھیں۔
(۱۳۰۲)سیاح کہ جو شہر بہ شہر سیاحت کرتا ہو اور جس نے اپنے لئے کوئی وطن معین نہ کیا ہو وہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۳۰۳)جس شخص کا پیشہ سفر کرنا نہ ہو اگر مثلاً کسی شہر یا گاؤں میں اس کا کوئی سامان ہو اور وہ اسے لینے کے لیے سفر پر سفر کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ مگر یہ کہ کثیر السفر بن جائے جس کے معنی مسئلہ ۱۲۹۶ میں ذکر ہو چکے ہیں۔
(۱۳۰۴)جو شخص ترک وطن کر کے دوسرا وطن اپنانا چاہتا ہو اگر اسے کوئی ایسا نام نہ دیا جا سکے جو اس کی نماز کے
پورا ہونے کا سبب ہو جیسے کثیر السفر یا خانہ بدوش تو سفر کی حالت میں اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے

آٹھویں شرط
اگر سفر کا آغاز اپنے وطن سے کرنے تو حد ترخص تک پہنچ جائے لیکن وطن کے علاوہ حد ترخص معتبر نہیں ہے اور جونہی کوئی شخص اپنی اقامت گاہ سے نکلے اس کی نماز قصر ہے۔
(۱۳۰۵)حدِ ترخص وہ جگہ ہے جہاں سے اہل شہر حتیٰ کہ وہ افراد جو شہر کے مضافات میں شہر کے باہر رہتے ہیں مسافر کو نہ دیکھ سکیں اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل شہر کو نہ دیکھ سکے۔
(۱۳۰۶)جو مسافر اپنے وطن واپس آ رہا ہو جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ پہنچے قصر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ ایسے ہی مسافر جو مسافر وطن کے علاوہ کسی اور جگہ دس دن ٹھہرنا چاہتا ہو وہ جب تک اس جگہ نہ پہنچے اس کی نماز قصر ہے۔
(۱۳۰۷)اگر شہر اتنی بلندی پر واقع ہو کہ وہاں کے باشندے دُور سے دکھائی دیں یا اس قدر نشیب میں واقع ہو کہ اگر انسان تھوڑا سا دور بھی جائے تو وہاں کے باشندوں کو نہ دیکھ سکے تو اس شہر کے رہنے والوں میں سے جو شخص سفر میں ہو جب وہ اتنا دُور چلا جائے کہ اگر وہ شہر ہموار زمین پر ہوتا تو وہاں کے باشندے اس جگہ سے دیکھے نہ جا سکتے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر راستے کی بلندی یا پستی معمول سے زیادہ وہ تو ضروری ہے کہ معمول کا لحاظ رکھے۔
(۱۳۰۸)کوئی شخص کشتی یا ریل میں بیٹھے اور حدِ ترخص تک پہنچنے سے پہلے پوری نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے تو اگر تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے حدِ ترخص تک پہنچ جائے تو قصر نماز پڑھنا ضروری ہے۔
(۱۳۰۹)جو صورت پچھلے مسئلے میں گزر چکی ہے اس کے مطابق اگر تیسری رکعت کے رکوع کے بعد حدِ ترخص تک پہنچے تو ضروری ہے کہ اسے دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور پہلی نماز کو مکمل کرنا ضروری نہیں۔
(۱۳۱۰)اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ وہ حدِ ترخص تک پہنچ چکا ہے اور نماز قصر کر کے پڑھے اور اس کے بعد معلوم ہو کہ نماز کے وقت حدِ ترخص تک نہیں پہنچا تھا تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ چنانچہ جب تک حدِ ترخص تک نہ پہنچا ہو تو نماز پوری پڑھنا ضروری ہے اور اس صورت میں جب کہ حدِ ترخص سے گزر چکا ہو نماز قصر کر کے پڑھے اور اگر وقت نکل چکا ہو تو نماز کو اس کے فوت ہوتے وقت جو حکم تھا اس کے مطابق ادا کرے۔
(۱۳۱۱)اگر مسافر کی قوت باصرہ غیر معمولی ہو تو اسے اس مقام پر پہنچ کر نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے جہاں سے متوسط قوت کی آنکھ اہل شہر کو نہ دیکھ سکے۔
(۱۳۱۲)اگر مسافر کو سفر کے دوران شک ہو کہ حدِ ترخص تک پہنچا ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے۔
(۱۳۱۳)جو مسافر سفر کے دوران اپنے وطن سے گزر رہا ہو اگر وہاں توقف کرے تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور اگر توقف نہ کرے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ قصر اور پوری نماز دونوں پڑھے۔
(۱۳۱۴)جو مسافر اپنی مسافرت کے دوران اپنے وطن پہنچ جائے اور وہاں کچھ دیر ٹھہرے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے پوری نماز پڑھے لیکن اگر وہ وہاں سے آٹھ فرسخ کے فاصلے پر جانا چاہے یا مثلاً چار فرسخ جانا اور پھر چارفرسخ واپس آنا چاہے تو جس وقت وہ حدِترخص پر پہنچے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۱۵)جس جگہ کو انسان نے اپنی مستقل سکونت اور بودوباش کے لئے منتخب کیا ہو وہ اس کا وطن ہے خواہ وہ وہاں پیدا ہو ا ہو یا اور وہ اس کا آبائی وطن یا اس نے خود اس جگہ کو زندگی بسر کرنے کے لیے اختیار کیا ہو۔
(۱۳۱۶)اگر کوئی شخص ارادہ رکھتا ہو کہ تھوڑی سی مدت ایک ایسی جگہ رہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور بعد میں کسی اور جگہ چلا جائے تو وہ اس کا وطن تصور نہیں ہوتا۔
(۱۳۱۷)اگر انسان کسی جگہ کو زندگی گزارنے کے لیے اختیار کرے اگرچہ وہ ہمیشہ رہنے کا قصد نہ رکھتا ہو تاہم ایسا ہو کہ عرف عام میں اسے وہاں مسافر نہ کہیں اور اگرچہ وقتی طور پر دس دن یا دس دن سے زیادہ دوسری جگہ رہے اس کے باوجود پہلی جگہ ہی کو اس کی زندگی گزارنے کی جگہ کہیں گے اور وہی جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے۔
(۱۳۱۸)جو شخص دو مقامات پر زندگی گزراتا ہو، مثلاً چھ مہینے ایک شہر میں اور چھ مہینے دوسرے شہر میں رہتا ہو تو دونوں مقامات اس کا وطن ہیں۔ نیز اگر اس نے دو مقامات سے زیادہ مقامات کو زندگی بسر کرنے کے لیے اختیار کر رکھا ہو تو وہ سب اس کا وطن شمار ہوتے ہیں۔
(۱۳۱۹)بعض فقہاء نے کہا ہے کہ جو شخص کسی ایک جگہ سکونتی مکان کا مالک ہو اگر وہ مسلسل چھ مہینے وہاں رہنے کے ارادے سے رہے تو جس وقت تک مکان اس کی ملکیت میں ہے یہ جگہ اس کے وطن کا حکم رکھتی ہے ۔ پس جب بھی وہ سفر کے دوران وہاں پہنچے ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے لیکن یہ حکم ثابت نہیں ہے۔
(۱۳۲۰)اگر ایک شخص کسی ایسے مقام پر پہنچے جو کسی زمانے میں اس کا وطن رہا ہو اور بعد میں اس نے اسے ترک کر دیا ہو تو خواہ اس نے کوئی نیا وطن اپنے لیے منتخب نہ بھی کیا ہو تو ضروری ہے کہ وہاں پوری نماز نہ پڑھے۔
(۱۳۲۱)اگر کسی مسافر کا کسی جگہ پر مسلسل دس دن رہنے کا ارادہ ہو یا وہ جانتا ہو کہ بہ امر مجبوری دس دن تک ایک جگہ رہنا پڑے گا تو وہاں اسے پوری نماز پڑھنی ضروری ہے۔
(۱۳۲۲)اگر کوئی مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری نہیں ہے کہ اس کا ارادہ پہلی رات یا گیارہویں رات وہاں رہنے کا ہو، جونہی وہ ارادہ کرے کہ پہلے دن کے طلوع آفتاب سے دسویں دن کے غروب آفتاب تک وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور مثال کے طور پر اس کا ارادہ پہلے دن کی ظہر سے گیارہویں دن کی ظہر تک وہاں رہنے کا ہو تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
(۱۳۲۳)جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اسے اس صورت میں پوری نماز پڑھنی ضروری ہے جب وہ سارے کے سارے دن ایک جگہ رہنا چاہتا ہو۔ پس اگر وہ مثال کے طور پر چاہے کہ دس دن نجف اور کوفہ یا تہران اور شمیران (یا کراچی اور حیدر آباد) میں رہے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۲۴)جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنا چاہتا ہو اگر وہ شروع سے ہی قصد رکھتا ہو کہ ان دس دنوں کے درمیان اس جگہ کے آس پاس ایسے مقامات پر جائے گا جو عرفاً دوسری جگہ سمجھی جاتی ہے اور جس کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو تو اگر اس کے جانے اور آنے کی مدت عرف میں دس دن قیام کے منافی نہ ہو تو پوری نماز پڑھے اور اگر منافی ہو تو نماز قصر کر کے پڑھے۔ مثلاً اگر ابتداء ہی سے ارادہ ہو کہ ایک پورے دن یا ایک پوری رات کے لیے وہاں سے نکلے گا تو یہ ٹھہرنے کے قصد کے منافی ہے اور ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے لیکن اگر اس کا قصد یہ ہو کہ مثلاً آدھے دن بعد نکلے گا اور پھر فوراً لوٹے گا اگرچہ اس کی واپسی رات ہونے کے بعد ہو تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ مگر اس صورت میں کہ اس کا اس طرح نکلنا اتنا تکرار ہو کہ عرفاً یہ کہا جائے کہ دو یا اس سے زیادہ جگہ قیام پذیر ہے۔
(۱۳۲۵)اگر کسی مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا مصمم ارادہ نہ ہو، مثلاً اس کا ارادہ یہ ہو کہ اگر اس کا ساتھی آگیا یا رہنے کو اچھا مکان مل گیا تو دس دن وہاں رہے گا تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۲۶)جب کوئی شخص کسی جگہ دس دن رہنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو اگر اسے اس بات کا احتمال ہو کہ اس کے وہاں رہنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو گی اور اس کا یہ احتمال عقلاء کے نزدیک معقول ہو تو ضروری ہے کہ نماز قصر کرکے پڑھے۔
(۱۳۲۷)اگر مسافر کو علم ہو کہ مہینہ ختم ہونے میں مثلاً دس یا دس سے زیادہ دن باقی ہیں اور کسی جگہ مہینے کے آخرت تک رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔ لیکن اگر اسے علم نہ ہو کہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی ہیں اور مہینے کے آخر تک وہاں رہنے کا ارادہ کرے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ اگرچہ جس وقت اس نے ارادہ کیا تھا اس وقت سے مہینے کے آخری دن تک دس یا اس سے زیادہ دن بنتے ہوں۔
(۱۳۲۸)اگر مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی نمازپڑھنے سے پہلے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا مذبذب ہو کہ وہاں رہے یا کہیں اور چلا جائے تو ضروری ہے کہ نماز قصر کر کے پڑھے۔ لیکن اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے یا مذبذب ہو جائے تو ضروری ہے کہ جس وقت تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔
(۱۳۲۹)اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو روزہ رکھ لے اور ظہر کے بعد وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے جبکہ اس نے ایک چار رکعتی نماز پڑھ لی ہو تو جب تک وہاں رہے اس کے روزے درست ہیں اور ہے کہ اپنی نمازیں پوری پڑھے اور اگر اس نے چار رکعتی نماز نہ پڑھی ہو تو احتیاطاً اس دن کا روزہ پورا کرنا نیز اس کی قضا رکھنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور بعد کے دنوں میں وہ روزہ بھی نہیں رکھ سکتا۔
(۱۳۳۰)اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو وہاں رہنے کا ارادہ ترک کر دے اور شک کرے کہ وہاں رہنے کا ارادہ ترک کرنے سے پہلے ایک چار رکعتی نماز پڑھی تھی یا نہیں تو ضروری ہے کہ اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۱)اگر کوئی مسافر نماز کو قصر کر کے پڑھنے کی نیّت سے نماز میں مشغول ہو جائے اور نماز کے دوران مصمم ارادہ کرلے کہ دس یا اس سے زیادہ دن وہاں رہے گا توضرور ی ہے کہ نماز کو چار رکعتی پڑھ کر ختم کرے۔
(۱۳۳۲)اگر کوئی مسافر جس نے ایک جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو پہلی چار رکعتی نماز کے دوران اپنے ارادے سے باز آجائے اور ابھی تیسری رکعت میں مشغول نہ ہو اہو تو ضروری ہے کہ دو رکعتی پڑھ کر ختم کرے اور اپنی باقی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور اسی طرح اگر تیسری رکعت میں مشغول ہو گیا اور رکوع میں نہ گیا ہو تو ضروری ہے کہ بیٹھ جائے اور نماز کو بصورت قصر ختم کرے اور اگر رکوع میں چلا گیا ہو تو اپنی نماز توڑ سکتا ہے یا مکمل کر سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس نماز کو دوبارہ قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۳)جس مسافر نے دس دن کسی جگہ رہنے کا ارادہ کیا ہو اگر وہاں دس دن سے زیادہ دن رہے تو جب تک وہاں سے سفر نہ کرے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے اور یہ ضروری نہیں کہ دوبارہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے۔
(۱۳۳۴)جس مسافر نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو تو ضروری ہے کہ واجب روزے رکھے اور مستحب روزہ بھی رکھ سکتا ہے اور ظہر، عصر اور عشاء کی نفلیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
(۱۳۳۵)اگر ایک مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی ادا نماز پڑھنے کے بعد وہاں دس دن رہنے کے بعد اگرچہ اس نے ایک بھی پوری نماز نہ پڑھی ہو یا چاہے کہ ایک ایسی جگہ جائے جو چار فرسخ سے کم فاصلے پر ہو اور پھر لوٹ آئے اور اپنی پہلی جگہ پر دس دن یا اس سے کم مدت کے لیے رہے تو ضروری ہے کہ جانے کے وقت سے واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔ لیکن اگر اس کا اپنی اقامت کے مقام پر واپس آنا فقط اس وجہ سے ہو کہ وہ اس سفر کے راستے میں واقع ہو اور اس کا سفر شرعی مسافت کا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جانے اور آنے کے دوران اور ٹھہرنے کی جگہ میں نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۶)اگرکوئی مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی نماز ادا پڑھنے کے بعد چاہے کہ کسی اور جگہ چلا جائے جس کیا فاصلہ آٹھ فرسخ سے کم ہو اور دس دن وہاں رہے تو ضروری ہے کہ دوران سفر اور اس جگہ جہاں پر وہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اپنی نمازیں پوری پڑھے۔ لیکن اگر وہ جگہ جہاں وہ جانا چاہتا ہو آٹھ فرسخ یا اس سے زیادہ دُور ہو تو ضروری ہے کہ دورانِ سفر اپنی نمازیں قصر کر کے پڑھے اور اگر وہ وہاں دس دن نہ رہنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ جتنے دن وہاں رہے ان دنوں کی نمازیں بھی قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۳۷)اگر کوئی مسافر جس نے کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہو ایک چار رکعتی ادا نماز پڑھنے کے بعد کسی ایسی جگہ جانا چاہے جس کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو اور مذبذب ہو کہ اپنی پہلی جگہ پر واپس آئے یا نہیں یا اس جگہ واپس آنے سے بالکل غافل ہو یا یہ ارادہ ہو کہ واپس جائے گا لیکن مذبذب ہو کہ دس دن اس جگہ ٹھہرے یا نہیں یا وہاں دس دن رہنے اور وہاں سے سفر کرنے سے غافل ہو تو ضروری ہے کہ جانے کے وقت سے واپسی تک اور واپسی کے بعد اپنی نمازیں پوری پڑھے۔
(۱۳۳۸)اگر کوئی مسافر اس خیال سے کہ اس کے ساتھی کسی جگہ دس دن رہنا چاہتے ہیں اس جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرے اور ایک چار رکعتی ادا نماز پڑھنے کے بعد اسے پتاچلے کہ اس کے ساتھیوں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تو اگرچہ وہ خود بھی وہاں رہنے کا خیال ترک کر دے تو ضروری ہے کہ جب تک وہاں رہے نماز پوری پڑھے۔
(۱۳۳۹)اگر کوئی مسافر اتفاقاً کسی جگہ تیس دن رہ جائے مثلاً تیس کے تیس دنوں میں وہاں سے چلے جانے یا وہاں رہنے کے بارے میں مذبذب رہا ہو تو تیس دن گزرنے کے بعد اگرچہ وہ تھوڑی مدت ہی وہاں رہے ضروری ہے کہ نماز پوری پڑھے۔
(۱۳۴۰)جو مسافر نو دن یا اس سے کم مدت کے لیے ایک جگہ رہنا چاہتا ہو اگر وہ اس جگہ نو دن یا اس سے کم مدت گزارنے کے بعد نو دن یا اس سے کم مدت کے لیے دوبارہ وہاں رہنے کا ارادہ کرے اور اسی طرح تیس دن گزر جائیں تو ضروری ہے کہ اکتیسویں دن پوری نماز پڑھے۔
(۱۳۴۱)تیس دن گزرنے کے بعد مسافر کو اس صورت میں نماز پوری پڑھنی ضروری ہے جب وہ تیس دن ایک ہی جگہ رہا ہو۔ پس اگر اس نے اس مدت کا کچھ حصہ ایک جگہ اور کچھ حصہ دوسری جگہ گزارا ہو تو تیس دن کے بعد بھی اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے۔

متفرق مسائل نماز مسافر
(۱۳۴۲)مسافر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور کوفہ کے پورے شہروں میں اور حضرت سیّد الشہداء علیہ السلام کے حرم میں بھی قبر مطہر کے سے تقریباً ساڑھے گیارہ میٹر کے اطراف میں نماز پوری پڑھ سکتا ہے۔
(۱۳۴۳) اگر کوئی ایسا شخص جسے معلوم ہو کہ وہ مسافر ہے اور اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے ان چار جگہوں کے علاوہ جن کا ذکر سابقہ مسئلے میں کیا گیا ہے کسی اور جگہ جان بوجھ کر پوری نماز پڑھے تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر بھول جائے کہ مسافر کو نماز قصر کر کے پڑھنی چاہئے اور پوری نماز پڑھ لے تو اس کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ لیکن بھول جانے کی صورت میں اگر اسے نماز کے وقت کے بعد یہ بات یاد آئے تو اس نماز کا قضا کرنا ضروری نہیں۔
(۱۳۴۴)جو شخص جانتا ہو کہ وہ مسافر ہے اور اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے، اگر وہ غلطی سے پوری نماز پڑھ لے اور بروقت متوجہ ہو جائے تو نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر وقت گزرنے کے بعد متوجہ ہو تو احتیاط کی بنا پر قضا کرنا ضروری ہے۔
(۱۳۴۵)جو مسافر یہ نہ جانتا ہو کہ اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے ، اگر وہ پوری نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۳۴۶)جو مسافر جانتا ہو کہ اسے نماز قصر کر کے پڑھنی چاہئے، اگر وہ قصر نماز کے بعض خصوصیات سے ناواقف ہو، مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ آٹھ فرسخ کے سفر میں نماز قصر کے پڑھنی ضروری ہے تو اگر وہ پوری نماز پڑھ لے اور نماز کے وقت میں اس مسئلے کا پتا چل جائے تو احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ نماز پڑھے اور اگر دوبارہ نہ پڑھے تو اس کی قضا لیکن اگر نماز کا وقت گزرنے کے بعد اسے معلوم ہو تو اس نماز کی قضا نہیں ہے۔
(۱۳۴۷)اگر ایک مسافر جانتا ہو کہ اسے نماز قصر کر کے پڑھنی چاہیئے اور وہ اس گمان میں پوری نماز پڑھ لے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ سے کم ہے تو جب اسے پتا چلے کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ کا تھا تو ضروری ہے کہ جو نماز پوری پڑھی ہو اسے دوبارہ قصر کر کے پڑھے اور اگر اسے اس بات کا پتا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد چلے تو قضا ضروری نہیں۔
(۱۳۴۸)اگر کوئی شخص بھول جائے کہ وہ مسافر ہے اور پوری نماز پڑھ لے اور اسے نماز کے وقت کے اندر ہی یاد آ جائے تو اسے چاہئے کہ قصر کر کے پڑھے اور اگر نماز کے وقت کے بعد یاد آئے تو اس کی نماز قضا ا س پر واجب نہیں۔
(۱۳۴۹)جس شخص کو پوری نماز پڑھنی ضروری ہے اگر وہ اسے قصر کر کے پڑھے تو اس کی نماز ہر صورت میں باطل ہے۔ اگرچہ یہ حکم… ایسے مسافر کے لیے ہے جو کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ رکھتا ہو اور مسئلے کا حکم نہ ہو جاننے کی وجہ سے نماز قصر کر کے پڑھی ہو… احتیاط واجب کی بنا پر ہے۔
(۱۳۵۰)اگر ایک شخص چار رکعتی نماز پڑھ رہا ہو اور نماز کے دوران اسے یاد آئے کہ وہ تو مسافر ہے یا اس امر کی طرف متوجہ ہو کہ اس کا سفر آٹھ فرسخ ہے اور وہ ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہ گیا ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعتوں پر ہی تمام کر دے اور اگر تیسری رکعت مکمل کر چکا ہو تو اس کی نماز باطل ہے اور اگر تیسری رکعت کے رکوع میں جا چکا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور اگر اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کے لیے بھی وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو نئے سِرے سے قصر کر کے پڑھے اور اگر وقت نہ ہو تو نماز کو قصر صورت میں قضا کرے۔
(۱۳۵۱)اگر کسی مسافر کو ”نماز مسافر“ کی بعض خصوصیات کا عِلم نہ ہو مثلاً وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اگر چار فرسخ تک جائے اور واپسی میں چار فرسخ کا فاصلہ طے کرے تو اسے نماز قصر کر کے پڑھنی ضروری ہے اور چار رکعت والی نماز کی نیت سے نماز میں مشغول ہو جائے اور تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے مسئلہ اس کی سمجھ میں آ جائے تو ضروری ہے کہ نماز کو دو رکعتوں پر ہی تمام کر دے اور اگر وہ رکوع میں اس کی امر کی جانب متوجہ ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے اور اس صورت میں اگر اس کے پاس ایک رکعت پڑھنے کے لئے بھی وقت باقی ہو تو ضروری ہے کہ نماز کو نئے سِرے سے قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۵۲)جس مسافر کو پوری نماز پڑھنی ضروری ہو اگر وہ مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے دو رکعتی نماز کی نیت سے نماز پڑھنے لگے اور نماز کے دوران مسئلہ اس کی سمجھ میں آ جائے تو ضروری ہے کہ چار رکعتیں پڑھ کر نماز کو تمام کرے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز ختم ہونے کے بعد دوبارہ اس نماز کو چار رکعتی پڑھے۔
(۱۳۵۳)جس مسافر نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو اگر وہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اپنے وطن پہنچ جائے یا ایسی جگہ پہنچے جہاں دس دن رہنا چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ پوری نماز پڑھے اور جو شخص مسافر نہ ہو اگر اس نے نماز کے اوّل وقت میں نماز نہ پڑھی ہو اور سفر اختیار کرے تو ضروری ہے کہ سفر میں نماز قصر کر کے پڑھے۔
(۱۳۵۴)جس مسافر کو نماز قصر کر کے پڑھنا ضروری ہو اگر اس کی ظہر، عصر یا عشاء کی نماز قضا ہو جائے تو اگرچہ وہ اس کی قضا اس وقت بجا لائے جب وہ سفر میں نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کی دو رکعتی قضا کرے۔ اگر ان تین نمازوں میں سے کسی ایسے شخص کی کوئی نماز قضا ہو جائے جو مسافر نہ ہو تو ضروری ہے کہ چار رکعتی قضا بجا لائے اگرچہ یہ قضا اس وقت بجا لائے جب وہ سفر میں ہو۔
(۱۳۵۵)مستحب ہے کہ مسافر ہر قصر نماز کے بعد تیس مرتبہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اکْبَرُ“ کہے اور اگرچہ یہ ذکر ہر واجب نماز کی تعقیب میں مستحب ہے لیکن اس مورد میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے بلکہ بہتر ہے کہ مسافر ان نمازوں کی تعقیب میں یہی ذکر ساٹھ مرتبہ پڑھے۔

قضا نماز
(۱۳۵۶)جس شخص نے اپنی یومیہ نمازیں ان کے وقت میں نہ پڑھی ہوں تو ضروری ہے کہ ان کی قضا بجا لائے اگرچہ وہ نماز کے پورے وقت کے دوران سویا رہا ہو یا اس نے مدہوشی کی وجہ سے نماز نہ پڑھی ہو اور یہی حکم ہر دوسری واجب نماز کا ہے جسے اس کے وقت میں نہ پڑھا ہو۔ حتیٰ کہ احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم اس نماز کا جو منت ماننے کی وجہ سے معین وقت میں اس پر واجب ہو چکی ہو۔ لیکن نماز عید الفطر اور نماز عید قربان کی قضا نہیں ہے۔ ایسے ہی جو نمازیں کسی عورت نے حیض یا نفاس کی حالت میں نہ پڑھی ہوں ان کی قضا واجب نہیں خواہ وہ یومیہ نمازیں ہو یا کوئی اور ہوں اور نماز آیات کی قضا کا حکم بعد میں آئے گا۔
(۱۳۵۷)اگر کسی شخص کو نماز کے وقت کے بعد پتا چلے کہ جو نماز اس نے پڑھی تھی وہ باطل تھی تو ضروری ہے کہ اس نماز کی قضا کرے۔
(۱۳۵۸)جس شخص کی نماز قضا ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کی قضا پڑھنے میں کوتاہی نہ کرے البتہ اس کا فوراً پڑھنا واجب نہیں ہے۔
(۱۳۵۹)جس شخص پر کسی نماز کی قضا واجب ہو وہ مستحب نماز پڑھ سکتا ہے۔
(۱۳۶۰)اگر کسی شخص کو احتمال ہو کہ قضانماز اس کے ذمے ہے یا جو نمازیں پڑھ چکا ہے وہ صحیح نہیں تھیں تو مستحب ہے کہ احتیاطاً ان نمازوں کی قضا کرے۔
(۱۳۶۱)یومیہ نمازوں کی قضا میں ترتیب لازم نہیں ہے سوائے ان نمازوں کے جن کی ادا میں ترتیب ہے۔ مثلاً ایک دن کی نماز ظہر و عصر یا مغرب و عشاء۔
(۱۳۶۲)اگر کوئی شخص چاہے کہ یومیہ نمازوں مثلاً نمازِ آیات کی قضا کرے یا مثال کے طور پر چاہے کہ کسی ایک یومیہ نماز کی اور چند غیر یومیہ نمازوں کی قضا کرے تو ان کا ترتیب کیساتھ قضا کرنا ضروری نہیں ہے۔
(۱۳۶۳)اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ اس نے ایک چار رکعتی نماز نہیں پڑھی لیکن یہ علم نہ ہو کہ وہ ظہر کی نماز تھی یا عشاء کی تو اگر وہ ایک چار رکعتی نماز اس نماز کی قضا کی نیت سے پڑھے جو اس نے نہیں پڑھی تو کافی ہے اور اسے احتیاط ہے کہ وہ نماز بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ پڑھے۔
(۱۳۶۴) مثال کے طور پر اگر کسی کی چند صبح کی نمازیں یا چند ظہر کی نمازیں قضا ہو گئی ہوں اور وہ ان کی تعداد نہ جانتا ہو یا بھول گیا ہو مثلاً یہ نہ جانتا ہو کہ دو تین تھیں، چار تھیں یا پانچ تو اگر وہ چھوٹے عدد کے حساب سے پڑھ لے تو کافی ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ اتنی پڑھے کہ اسے یقین ہو جائے کہ ساری قضا نمازیں پڑھ لی ہیں۔ مثلاً اگر وہ بھول گیا ہو کہ اس کی کتنی نمازیں قضا ہوئی تھیں اور اسے یقین ہو کہ دس سے زیادہ نہ تھیں تو احتیاطاً صبح کی دس نمازیں پڑھے۔
(۱۳۶۵) جس شخص کی گزشتہ دنوں کی فقط ایک نماز قضا ہوئی ہو اس کے لیے بہتر ہے کہ اگر اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نہ ہو رہا ہو تو پہلے قضا پڑھے اور اس کے بعد اس دن کی نماز میں مشغول ہو۔ نیز اگر اس کی گزشتہ دنوں کی کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو لیکن اسی دن کی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں قضا ہوئی ہوں تو اگر اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نہ ہو رہا ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس دن کی قضا نمازیں ادا نماز سے پہلے پڑھے۔
(۱۳۶۶)اگر کسی شخص کو نماز پڑھتے ہوئے یاد آئے کہ اسی دن کی ایک یا زیادہ نمازیں اس سے قضا ہو گئی ہیں یا گزشتہ دنوں کی صرف ایک قضا نماز اس کے ذمے ہے تو اگر وقت وسیع ہو اور نیت کو قضا نماز کی طرف پھیرنا ممکن ہو اور اس دن کی نماز کی فضیلت کا وقت ختم نہ ہو رہا تو بہتر یہ ہے کہ قضا نماز کی نیت کر لے۔ مثلاً اگر ظہر کی نماز میں تیسری رکعت کے رکوع سے پہلے اسے یاد آئے کہ اس دن کی صبح کی نماز قضا ہوئی ہے اور ظہر کی نماز کا وقت فضیلت بھی تنگ نہ ہو تو نیت کو صبح کی نماز کی طرف پھیر دے اور نماز کو دو رکعتی تمام کرے اور اس کے بعد نماز ظہر پڑھے۔ ہاں اگر وقت فضیلت تنگ ہو یا نیت کو قضا نماز کی طرف نہ پھیر سکتا ہو مثلاً نماز ظہر کی تیسری رکعت کے رکوع میں اسے یآد آئے کہ اس نے صبح کی نماز نہیں پڑھی تو چونکہ اگر وہ نماز صبح کی نیت کرنا چاہے تو ایک رکوع جو کہ رکن ہے زیادہ ہو جاتا ہے اس لیے نیت کو صبح کی قضا کی طرف نہ پھیرے۔
(۱۳۶۷) اگر گزشتہ دنوں کی قضا نمازیں ایک شخص کے ذمے ہوں اور اس دن کی ایک یا ایک سے زیادہ نمازیں بھی اس سے قضا ہو گئی ہوں اور ان سب نمازوں کو پڑھنے کے لیے اس کے پاس وقت نہ ہو یا وہ ان سب کو اسی دن نہ پڑھنا چاہتا ہو تو مستحب ہے کہ اس دن کی قضا نمازوں کو ادا نماز سے پہلے پڑھے۔
(۱۳۶۸) جب تک انسان زندہ ہے خواہ وہ اپنی قضا نمازیں پڑھنے سے قاصر ہی کیوں نہ ہو کوئی دوسرا شخص اس کی قضا نمازیں نہیں پڑھ سکتا۔
(۱۳۶۹)قضا نماز باجماعت بھی پڑھی جا سکتی ہے خواہ امام جماعت کی نماز ادا ہو یا قضا ہو اور یہ ضروری نہیں کہ دونوں ایک ہی نماز پڑھیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص صبح کی قضا نماز کو امام کی نماز ظہر یا نماز عصر کے ساتھ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۳۷۰)مستحب ہے کہ سمجھدار بچے کو (یعنی اس بچے کو جو بُرے بھلے کی سمجھ رکھتا ہو) نماز پڑھنے اور دوسری عبادات بجا لانے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مستحب ہے کہ اسے قضا نمازیں پڑھنے پر بھی آمادہ کیا جائے۔

باپ کی قضا نمازیں جو بڑے بیٹے پر واجب ہیں
(۱۳۷۱)اگر باپ نے اپنی کچھ نمازیں نہ پڑھی ہوں اور ان کی قضا پڑھنے پر قادر ہو تو اگر اس نے امر خداوندی کی نافرمانی کرتے ہوئے اُن کو ترک نہ کیا ہو تو احتیاط کی بنا پر اس کے بڑے بیٹے پر واجب ہے کہ باپ کے مرنے کے بعد اس کی قضا نمازیں پڑھے یا کسی کو اجرت دے کر پڑھوائے اور ماں کی قضا نمازیں اس پر واجب نہیں ، اگرچہ بہتر ہے۔
(۱۳۷۲)اگر بڑے بیٹے کو شک ہو کہ کوئی قضا نماز اس کے باپ کے ذمے تھی یا نہیں تو پھر اس پر کچھ بھی واجب نہیں۔
(۱۳۷۳)اگر بڑے بیٹے کو معلوم ہو کہ اس کے باپ کے ذمے قضا نمازیں تھیں اور شک ہو کہ اس نے وہ پڑھی تھیں یا نہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ ان کی قضا بجا لائے۔
(۱۳۷۴)اگر یہ معلوم نہ ہو کہ بڑا بیٹا کون سا ہے تو باپ کی نمازوں کی قضا کسی بیٹے پر بھی واجب نہیں ہے۔ لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ بیٹے باپ کی قضا نمازیں آپس میں تقسیم کر لیں یا انہیں بجا لانے کے لیے قرعہ اندازی کر لیں۔
(۱۳۷۵)اگر مرنے والے نے وصیت کی ہو کہ اس کی نمازوں کے لیے کسی کو اجیر بنایا جائے (یعنی کسی سے اجرت پر نمازیں پڑھوائی جائیں) اور اس کی وصیت شرعاً صحیح ہو تو اس کے بڑے بیٹے پر کچھ واجب نہیں ہے۔
(۱۳۷۶)اگر بڑا بیٹا اپنی ماں کی قضا نمازیں پڑھنا چاہے تو ضروری ہے کہ بلند آواز سے یا آہستہ نماز پڑھنے کے بارے میں اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے۔ پس ضروری ہے کہ اپنی ماں کی صبح، مغرب اور عشاء کی قضا نمازیں بلند آواز سے پڑھے۔
(۱۳۷۷)جس شخص کے ذمے کسی نماز کی قضا ہو، اگر وہ باپ اور ماں کی نمازیں بھی قضا کرنا چاہے تو ان میں سے جو بھی پہلے بجا لائے صحیح ہے۔
(۱۳۷۸)اگر باپ کے مرنے کے وقت بڑا بیٹا نابالغ یا دیوانہ ہو تو اس پر واجب نہیں کہ جب بالغ یا عاقل ہو جائے تو باپ کی قضا نمازیں پڑھے۔
(۱۳۷۹)اگر بڑا بیٹا باپ کی قضا نمازیں پڑھنے سے پہلے مر جائے تو دوسرے بیٹے پر کچھ واجب نہیں ۔

نمازجماعت
(۱۳۸۰)یومیہ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے اور صبح، مغرب و عشاء کی نمازوں کے لئے ، خصوصاً مسجد کے پڑوس میں رہنے والے اور مسجد کی اذان کی آواز سُننے والے کے لیے بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح مستحب ہے کہ باقی واجب نمازوں کو بھی جماعت سے ادا کیا جائے۔ البتہ نماز طواف اور چاند و سورج گہن کے علاوہ نماز آیات میں یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ شریعت نے جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے یا نہیں۔
(۱۳۸۱)معتبر روایات کے مطابق با جماعت نماز فرادیٰ نماز سے پچیس گناہ افضل ہے۔
(۱۳۸۲)بے اعتنائی برتتے ہوئے نماز جماعت میں شریک نہ ہونا جائز نہیں ہے اور انسان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ بغیر عذر کے نماز جماعت کو ترک کرے۔
(۱۳۸۳) مستحب ہے کہ انسان صبر کرے تا کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے اور وہ باجماعت نماز جو مختصر پڑھی جائے اس فرادیٰ نماز سے بہتر ہے جو طول دے کر پڑھی جائے اور نماز با جماعت اس نماز سے بہتر ہے جو اوّل وقت میں فرادیٰ یعنی تنہا پڑھی جائے اور وقت فضیلت کے بعد پڑھی جانے والی جماعت کا، فضیلت کے وقت میں پڑھی جانے والی فرادیٰ سے بہتر ہونا معلوم نہیں۔
(۱۳۸۴) جب جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جانے لگے تو مستحب ہے کہ جس شخص نے تنہا نماز پڑھی ہو وہ دوبارہ جماعت کے ساتھ پڑھے اور اگر اسے بعد میں پتا چلے کہ اس کی پہلی نماز باطل تھی تو دوسری نماز کافی ہے۔
(۱۳۸۵)اگر امام جماعت یا مقتدی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد اسی نماز کو دوبارہ جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہے تو اگرچہ اس کا مستحب ہونا ثابت نہیں۔ لیکن رجاً دوبارہ پڑھنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
(۱۳۸۶)جس شخص کو نماز میں اس قدر وسوسہ ہوتا ہو کہ اس نماز کے باطل ہونے کا موجب بن جاتا ہو اور صرف جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے اسے وسوسے سے نجات ملتی ہو تو ضروری ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ پڑھے۔
(۱۳۸۷) اگر باپ یا ماں اپنی اولاد کو حکم دیں کہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ نما زجماعت کے ساتھ پڑھے۔ البتہ جب بھی والدین کی طرف سے کوئی حکم یا روک ٹوک محبت کی وجہ سے ہو اور اس کی مخالفت سے انہیں اذیّت ہوتی ہو تو اولاد کے لیے ان کی مخالفت کرنا حرام ہے۔
(۱۳۸۸)مستحب نماز کسی بھی جگہ احتیاط کی بنا پر جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جا سکتی لیکن نماز استسقاء جو طلبِ باران کے لیے پڑھی جاتی ہے جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں اور اسی طرح وہ نماز بھی جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں جو پہلے واجب رہی ہو اور پھر کسی وجہ سے مستحب ہو گئی ہو، مثلاً نمازِ عیدالفطر اور نماز عید قربان جو امام مہدی - کے زمانے تک واجب تھی اور ان کی غیبت کی وجہ سے مستحب ہو گئی ہے۔
(۱۳۸۹)جس وقت امام جماعت یومیہ نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو اس کی اقتدا کوئی سی بھی یومیہ نماز میں کی جاسکتی ہے۔
(۱۳۹۰)اگر امام جماعت یومیہ نماز میں سے قضا شدہ اپنی یا کسی دوسرے شخص کی ایسی نماز کی قضا پڑھ رہا ہو جس کا قضا ہونا یقینی ہو تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی یا کسی دوسرے کی نماز احتیاطاً پڑھ رہا ہو تو اس کی اقتدا جائز نہیں۔ مگر یہ کہ مقتدی بھی احتیاطاً پڑھ رہا ہو اور امام کی احتیاط کا سبب مقتدی کی احتیاط کا بھی سبب ہو لیکن ضروری نہیں ہے کہ مقتدی کی احتیاط کا کوئی دوسرا سبب نہ ہو۔
(۱۳۹۱)اگر انسان کو یہ علم نہ ہو کہ جو نماز امام پڑھ رہا ہے وہ واجب پنجگانہ نمازوں میں سے ہے یا مستحب نماز ہے تو اس نماز میں اس امام کی اقتدا نہیں کی جا سکتی۔
(۱۳۹۲)جماعت کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان اور اسی طرح ایک مقتدی اور دوسرے ایسے مقتدی کے درمیان جو اس مقتدی اور ماام کے درمیان واسطہ ہو کوئی چیز حائل نہ ہو اور حائل چیز سے مراد وہ چیز ہے جو انہیں ایک دوسرے سے جدا کرے خواہ دیکھنے میں مانع ہو جیسے کہ پردہ یا دیوار وغیرہ یا دیکھنے میں حائل نہ ہو جیسے شیشہ۔ پس اگر نماز کی تمام یا بعض حالتوں میں امام اور مقتدی کے درمیان یا مقتدی اور دوسرے ایسے مقتدی کے درمیان جو اتصال کا ذریعہ ہو کوئی ایسی چیز حائل ہو جائے تو جماعت باطل ہو گی اور جیسا کہ بعد میں ذکر ہو گا عورت اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔
(۱۳۹۳) اگر پہلی صف کے لمبا ہونے کی وجہ سے اس کے دونوں طرف کھڑے ہونے والے لوگ امام جماعت کو نہ دیکھ سکیں تب بھی وہ اقتدا کر سکتے ہیں اور اسی طرح اگر دوسری صفوں میں سے کسی صف کی لمبائی کی وجہ سے اس کے دونوں طرف کھڑے ہونے والے لوگ اپنے سے آگے والی صف کو نہ دیکھ سکیں تب بھی وہ اقتدا کر سکتے ہیں۔
(۱۳۹۴)اگر جماعت کی صفیں مسجد کے دروازے تک پہنچ جائیں تو جو شخص دروازے کے سامنے صف کے پیچھے کھڑا ہو اس کی نماز صحیح ہے۔ نیز جو اشخاص اس شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر امام جماعت کی اقتدا کر رہے ہوں ان کی نماز بھی صحیح ہے بلکہ ان لوگوں کی نماز بھی صحیح ہے جو دونوں طرف کھڑے نماز پڑھ رہے ہوں اور کسی دوسرے مقتدی کے توسط سے جماعت سے متصل ہوں۔
(۱۳۹۵) جو شخص ستون کے پیچھے کھڑا ہو اگر وہ دائیں یا بائیں طرف سے کسی دوسرے مقتدی کے توسط سے امام جماعت سے اتصال نہ رکھتا ہو تو وہ اقتداء نہیں کر سکتا۔
(۱۳۹۶)امام جماعت کے کھڑے ہونے کی جگہ ضروری ہے کہ مقتدی کی جگہ سے زیادہ اونچی نہ ہو لیکن اگر معمولی اونچی ہو تو حرج نہیں۔ نیز اگر ڈھلوان زمین ہو اور امام اس طرف کھڑا ہو جو زیادہ بلند ہو تو اگر ڈھلوان زیادہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۳۹۷)اگر مقتدی کی جگہ امام کی جگہ سے اونچی ہو تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر اس قدر اونچی ہو کہ یہ نہ کہا جا سکے کہ وہ ایک جگہ جمع ہوئے ہیں تو جماعت صحیح نہیں ہے۔
(۱۳۹۸)اگر جماعت میں اتصال کا ذریعہ ایک سمجھدار بچّہ یعنی ایسا بچّہ جو اچھے بُرے کی سمجھ رکھتا ہو اور وہ لوگ نہ جانے ہوں کہ اس کی نماز باطل ہے تو اقتدا کر سکتے ہیں۔ یہی حکم غیر شیعہ اثناء عشری شخص کے لئے اس صورت میں ہے جب اس کے مذہب کے مطابق اس کی نماز غلط نہ ہو۔
(۱۳۹۹)امام کی تکبیر کے بعد اگر اگلی صف کے لوگ نماز کے لیے تیار ہوں اور تکبیر کہنے ہی والے ہوں تو جو شخص پچھلی صف میں کھڑا ہو وہ تکبیر کہہ سکتا ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ انتظارکرے تاکہ اگلی صف والے تکبیر کہہ لیں۔
(۱۴۰۰)اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ اگلی صفوں میں سے ایک صف کی نماز باطل ہے تو وہ پچھلی صفوں میں اقتدا نہیں کر سکتا لیکن اگر اسے یہ علم نہ ہو کہ اس صف کے لوگوں کی نماز صحیح ہے یا نہیں تو اقتدا کر سکتا ہے۔
(۱۴۰۱)جب کوئی شخص جانتا ہو کہ امام کی نماز باطل ہے ، مثلاً اسے علم ہو کہ امام وضو سے نہیں ہے تو خواہ امام خود اس امر کی جانب متوجہ نہ بھی ہو وہ شخص اس کی اقتدا نہیں کر سکتا۔
(۱۴۰۲)اگر مقتدی کو نماز کے بعد پتا چلے کہ امام عادل نہ تھا یا کافر تھا یا کسی وجہ سے مثلاً وضو نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نماز باطل تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۰۳)اگرکوئی شخص نماز کے دوران شک کرے کہ اس نے اقتدا کی ہے یا نہیں چنانچہ علامتوں کی وجہ سے اسے اطمینان ہو جائے کہ اقتدا کی ہے، تو ضروری ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ ہی ختم کرے، بصورت دیگر ضروری ہے کہ نماز فرادیٰ کی نیت سے ختم کرے۔
(۱۴۰۴)اگر نماز کے دوران مقتدی کسی عذر کے بغیر فرادیٰ کی نیت کرے تو اس کی جماعت کے صحیح ہونے میں اشکال ہے لیکن اس کی نماز صحیح ہے۔ مگر یہ کہ اس نے فرادیٰ نماز میں اس کا جو فریضہ ہے، اس پر عمل نہ کیا ہو۔ تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ نماز کو دہرائے۔ لیکن اگر کسی ایسی چیز کو کم یا زیادہ کر دیا جو عذر کی صورت میں نماز کو باطل نہیں کرتی۔ مثلاً اگر نماز کی ابتدا سے فرادیٰ کی نیت نہ ہو اور قرأت بھی نہ کی ہو لیکن رکوع میں اسے قصد کرنا پڑے تو ایسی صورت میں فرادیٰ کی نیت سے نماز ختم کر سکتا ہے اور اسے دوبارہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح اگر پیش نماز کی پیروی کے لیے ایک سجدہ زیادہ ہو گیا ہو تو بھی یہی حکم ہے۔
(۱۴۰۵)اگر مقتدی امام کے الحمد اور سورہ پڑھنے کے بعد کسی عذر کی وجہ سے فرادیٰ کی نیت کرے تو الحمد اور سورہ پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی عذر کے بغیر یا (امام کے) الحمد اور سورہ ختم کرنے سے پہلے فرادیٰ کی نیت کرے تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ مکمل الحمد اور سورہ پڑھے۔
(۱۴۰۶)اگر کوئی شخص نماز جماعت کے دوران فرادیٰ کی نیت کرے تو پھر وہ دوبارہ جماعت کی نیت نہیں کر سکتا۔ یہی حکم احتیاط واجب کی بنا پر اس وقت ہے جب مذبذب ہو کہ فرادیٰ کی نیت کرے یا نہ کرے اور بعد میں نماز کو جماعت کے ساتھ تمام کرنے کا مصمم ارادہ کرے۔
(۱۴۰۷)اگر کوئی شخص شک کرے کہ نماز کے دوران اس نے فرادیٰ کی نیت کی ہے یا نہیں تو ضروری ہے کہ یہ سمجھ لے کہ اس نے فرادیٰ کی نیت نہیں کی۔
(۱۴۰۸)اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں ہو اور امام کے رکوع میں شریک ہو جائے اگرچہ امام نے رکوع کا ذکر پڑھ لیا ہو اس شخص کی نماز صحیح ہے اور وہ ایک رکعت شمار ہو گی لیکن اگر وہ شخص بقدر رکوع کے جھکے تاہم امام کو رکوع میں نہ پا سکے تو وہ شخص اپنی نماز فرادیٰ کی نیت سے ختم کر سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ اگلی رکعت میں امام سے ملنے کے لیے نماز کو توڑ دے۔
(۱۴۰۹)اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں ہو اور بقدر رکوع کے جھکے اور شک کرے کہ امام کے رکوع میں شریک ہوا ہے یا نہیں تو اگر یہ شک رکوع ختم کرنے کے بعد ہوا ہو تو اس کی جماعت صحیح ہے۔ اس کے علاوہ دوسری صورت میں نماز فرادیٰ کی نیت سے پوری کر سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ اگلی رکعت میں امام سے ملنے کے لیے نماز توڑ دے۔
(۱۴۱۰)اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام رکوع میں ہو اور اس سے پہلے کہ وہ بقدر رکوع جھکے، امام رکوع سے سر اُٹھا لے تو اسے اختیار ہے کہ فرادیٰ کی نیت کر کے نماز پوری کرے یا قربت مطلقہ کی نیت سے امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور سجدے کے بعد قیام کی حالت میں تکبرة الاحرام اور کسی ذکر کا قصد کیے بغیر دوبارہ تکبیر کہے اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھے یا اگلی رکعت میں جماعت میں شریک ہونے کے لیے نماز توڑ دے۔
(۱۴۱۱)اگر کوئی شخص نماز کی ابتدا میں یا الحمد اور سورہ کے دوران اقتدا کرے اور اتفاقاً اس سے پہلے کہ وہ رکوع میں جائے امام اپنا سر رکوع سے اُٹھا لے تو اس شخص کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۱۲)اگر کوئی شخص نماز کے لیے ایسے وقت پہنچے جب امام نماز کا آخری تشہد پڑھ رہا ہو اور وہ شخص چاہتا ہو کہ نماز جماعت کا ثواب حاصل کرے تو ضروری ہے کہ نیت باندھے اور تکبیرة الاحرام کہنے کے بعد بیٹھ جائے اور قربت مطلقہ کی نیت سے تشہد امام کے ساتھ پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط واجب کی بنا پر سلام نہ کہے اور انتظار کرے تاکہ امام نماز کا سلام پڑھ لے۔ اس کے بعد وہ شخص کھڑا ہو جائے اور دوبارہ نیت کئے بغیر اور تکبیر کہے بغیر الحمد اور سورہ پڑھے اور اسے اپنی نماز کی پہلی رکعت شمار کرے۔
(۱۴۱۳)مقتدی کو امام سے آگے نہیں کھڑا ہونا چاہئے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر مقتدی زیادہ ہوں تو امام کے برابر نہ کھڑے ہوں۔ لیکن اگر مقتدی ایک آدمی ہو تو امام کے برابر کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۴۱۴)اگر امام مرد اور مقتدی عورت ہو تو اگر اس عورت اور امام کے درمیان یا عورت اور دوسرے مرد مقتدی کے درمیان جو عورت اور امام کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہو، پردہ وغیرہ لٹکا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۴۱۵)اگر نماز شروع ہونے کے بعد امام اور مقتدی کے درمیان یا مقتدی اور اس شخص کے درمیان جس کے توسط سے مقتدی امام سے متصل ہو پردہ یا کوئی دوسری چیز حائل ہو جائے تو جماعت باطل ہو جاتی ہے اور لازم ہے کہ مقتدی فرادیٰ نماز کے وظیفے پر عمل کرے۔
(۱۴۱۶)احتیاط واجب ہے کہ مقتدی کے سجدے کی جگہ اور امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کے بیچ ایک لمبے ترین قدم سے زیادہ فاصلہ نہ ہو اور اگر انسان ایک ایسے مقتدی کے توسط سے جو اس کے آگے کھڑا ہو امام سے متصل ہو تب بھی یہی حکم ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ اور اس سے آگے والے شخص کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درمیان اس سے زیادہ فاصلہ نہ ہو جو انسان کے حالت سجدہ میں جانے پر ہوتا ہے۔
(۱۴۱۷)اگر مقتدی کسی ایسے شخص کے توسط سے امام سے متصل ہو جس نے اس کے دائیں طرف یا بائیں طرف اقتدا کی ہو اور سامنے سے امام سے متصل نہ ہو تو احتیاط واجب کی بناپر ضروری ہے کہ اس شخص سے جس نے اس کی دائیں طرف یا بائیں طرف اقتدا کی ہو ایک لمبے ترین قدم سے زیادہ فاصلے پر نہ ہو۔
(۱۴۱۸)اگر نماز کے دوران مقتدی اور امام یا مقتدی اور اس شخص کے درمیان جس کے توسط سے مقتدی امام سے متصل ہو ایک لمبے ترین قدم سے زیادہ فاصلہ ہو جائے تو وہ اپنی نماز فرادیٰ کی نیت سے جاری رکھ سکتا ہے۔
(۱۴۱۹)جو لوگ اگلی صف میں ہوں اگر ان سب کی نماز ختم ہو جائے اور وہ فوراً دوسری نما ز کے لیے امام کی اقتدا نہ کریں تو پچھلی صف والوں کی نیت جماعت باطل ہو جاتی ہے بلکہ اگر فوراً ہی اقتدا کر لیں تب بھی پچھلی صف کی جماعت صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۱۴۲۰)اگر کوئی شخص دوسری رکعت میں اقتدا کرے تو اس کے لیے الحمد اور سورہ پڑھنا ضروری نہیں۔ البتہ قنوت اور تشہد امام کے ساتھ پڑھے اور احتیاط یہ ہے کہ تشہد پڑھتے وقت ہاتھوں کی انگلیاں اور پاؤں کے تلوؤں کا اگلا حصہ زمین پر رکھے اور گھٹنے اٹھا لے اور تشہد کے بعد ضروری ہے کہ امام کے ساتھ کھڑ اہو جائے اور الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر سورے کے لیے وقت نہ رکھتا ہو تو الحمد کو تما م کرے اور اور رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے اور اگر پوری الحمدپڑھنے کے لیے وقت نہ ہو و الحمد کو ادھورا چھوڑ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ نماز کو فرادیٰ کی نیت سے پڑھے۔
(۱۴۲۱)اگر کوئی شخص اس وقت اقتدا کرے جب امام چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت پڑھا رہا ہو تو ضروری ہے کہ اپنی نماز کی دوسری رکعت میں جو امام کی تیسری رکعت ہو گی دو سجدوں کے بعد بیٹھ جائے اور واجب مقدار میں تشہد پڑھے اور پھر کھڑا ہو اور اگر تین دفعہ تسبیحات پڑھنے کا وقت نہ رکھتا ہو تو ضروری ہے کہ ایک دفعہ پڑھے اور رکوع میں اپنے آپ کو امام کے ساتھ شریک کرے۔
(۱۴۲۲)اگر امام تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور مقتدی جانتا ہو کہ اگر اقتدا کرے گا اور الحمد پڑھے گا تو امام کے ساتھ رکوع میں شامل نہ ہو سکے گا تو احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ امام کے رکوع میں جانے تک انتظار کرے اس کے بعد اقتدا کرے۔
(۱۴۲۳)اگر کوئی شخص امام کے تیسری یا چوتھی رکعت میں قیام کی حالت میں ہونے کے وقت اقتدا کرے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر سورہ پڑھنے کے لیے وقت نہ ہو تو ضروری ہے کہ الحمد تمام کرے اور رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے اور اگر پوری الحمد پڑھنے کے لیے وقت نہ ہو تو الحمد کو ادھورا چھوڑ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ فرادیٰ کی نیت سے نماز پوری کرے۔
(۱۴۲۴)اگر ایک شخص جانتا کہ اگر وہ سورہ یا قنوت پڑھے تو رکوع میں امام کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا اور وہ عمداً سورہ یا قنوت پڑھے اور رکوع میں امام کے ساتھ شریک نہ ہو تو اس کی جماعت باطل ہو جاتی ہے اور ضروری کہ و ہ فرادیٰ طور پر نماز پڑھے۔
(۱۴۲۵) جس شخص کو اطمینا ن ہو کہ اگر سورہ شروع کرے یا اسے تمام کرے تو وہ رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو جائے گا تو اگر زیادہ دیر نہ ہو رہی ہو تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ سورہ شروع کرے یا اگر شروع کیا ہو تو اسے تمام کرے لیکن اگر اتنی زیادہ دیر ہو رہی ہو کہ اسے امام کا مقتدی نہ کہا جا سکے تو ضروری ہے کہ اسے شروع نہ کرے اور اگر شروع کر چکا تو اسے پورا نہ ورنہ اس کی جماعت باطل ہو جائے گی۔ البتہ اگر اس نے مسئلہ ۱۴۲۳ میں بتائے گئے طریقے کے مطابق وظیفے کے مطابق عمل کیا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۲۶) جو شخص یقین رکھتا ہو کہ سورہ پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو جائے گا اور امام کی اقتدا ختم نہیں ہو گی، لہٰذا اگر وہ سورہ پڑھ کر امام کے ساتھ رکوع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی جماعت صحیح ہے۔
(۱۴۲۷)اگر امام قیام کی حالت میں ہو اور مقتدی کو علم نہ ہو کہ وہ کونسی رکعت میں ہے تو وہ اقتدا کر سکتا ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے ، لیکن ضروری ہے کہ انہیں قربة کی نیت سے پڑھے۔
(۱۴۲۸)اگر کوئی شخص اس خیا ل سے کہ امام پہلی یا دوسری رکعت میں ہے الحمد اور سورہ نہ پڑھے اور رکوع کے بعد اسے پتا چل جائے کہ امام تیسری یا چوتھی رکعت میں تھا تو مقتدی کی نماز صحیح ہے۔ لیکن اگر اسے رکوع سے پہلے اس بات کا پتا چل جائے تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے اور اگر وقت تنگ ہو تو مسئلہ ۱۴۲۳ کے مطابق عمل کرے۔
(۱۴۲۹)اگر کوئی شخص یہ خیال کرتے ہوئے الحمد اور سورہ پڑھے کہ امام تیسری یا چوتھی رکعت میں ہے اور رکوع سے پہلے یا اس کے بعد اسے پتا چلے کہ امام پہلی یا دوسری رکعت میں تھا تو مقتدی کی نماز صحیح ہے اور اگر یہ بات اسے الحمد اور سورہ پڑھتے ہوئے معلوم ہو تو ان کا تمام کرنا اس کے لیے ضروری نہیں۔
(۱۴۳۰)اگر کوئی شخص مستحب نماز پڑھ رہا ہو اور جماعت قائم ہو جائے اور اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ اگر مستحب نماز کو تمام کرے گا تو جماعت کے ساتھ شریک ہو سکے گا تو مستحب یہ ہے کہ جو نماز پڑھ رہا ہو اسے چھوڑ دے اور نماز جماعت میں شامل ہو جائے چاہے یہ کام پہلی رکعت میں شریک ہونے کے لیے ہی کرے۔
(۱۴۳۱)اگر کوئی شخص تین رکعتی یا چار نماز پڑھ رہا ہو اور جماعت قائم ہو جائے اور وہ ابھی تیسری رکعت کے رکوع میں نہ گیا ہو اور اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ اگر نماز کو پورا کرے گا تو جماعت میں شریک ہو سکے تو مستحب ہے کہ مستحب نماز کے نیت کے ساتھ اس نماز کو دو رکعت پر ختم اور جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے۔
(۱۴۳۲)اگر امام کی نماز ختم ہو جائے اور مقتدی تشہد یا پہلا سلام پڑھنے میں مشغول ہو تو اس کے لیے فرادیٰ یعنی تنہا نماز کی نیت کرنا لازم نہیں۔
(۱۴۳۳)جو شخص امام سے ایک رکعت پیچھے ہو اس کے لیے بہتر ہے کہ جب امام آخری رکعت کا تشہد پڑھ رہا ہو تو ہاتھوں کی انگلیوں اور پاؤں کے تلوؤں کا اگلا حصہ زمین پر رکھے اور گھنٹوں کو بلند کرے اور امام کے سلام پڑھنے تک انتظار کرے اور پھر کھڑا ہو جائے اور اگر اسی وقت فرادیٰ کا قصد کرنا چاہئے تو کوئی حرج نہیں ۔

امام جماعت کی شرائط
(۱۴۳۴)امام جماعت کے لیے ضروری ہے کہ بالغ، عاقل، شیعہ اثنا عشری، عادل اور حلال زادہ ہو نماز صبح پڑھ سکتا ہو نیز اگر مقتدی مرد ہو تو اس کا امام بھی مرد ہونا ضروری ہے اور دس سالہ بچّے کی اقتدا صحیح ہونا اگرچہ وجہ سے خالی نہیں، لیکن اشکال سے بھی خالی نہیں ہے۔ عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان واجبات کو انجام دے اور حرام کاموں کو ترک کرے اور کسی کا حسن ظاہر ہی اس اس کی علامت ہے جبکہ اس کے برخلاف بات کی اطلاع نہ ہو۔
(۱۴۳۵)جو شخص پہلے ایک امام کو عادل سمجھتا تھا ، اگر شک کرے کہ وہ اب بھی اپنی عدالت پر قائم ہے یا نہیں تب بھی اس کی اقتدا کر سکتا ہے۔
(۱۴۳۶)جو شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا نہیں کر سکتا جو بیٹھ کر یا لیٹ کر نماز پڑھتا ہو اور جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ کسی ایسے شخص کی اقتدا نہیں کر سکتا جو لیٹ کر نماز پڑھتا ہو۔
(۱۴۳۷)جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو وہ اس شخص کی اقتدا کر سکتا ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو لیکن جو شخص لیٹ کر نماز پڑھتا ہو اس کا کسی بھی شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا محل اشکال ہے، چاہے امام کھڑا ہوا ہو، بیٹھا ہوا ہو یا لیٹ کر نماز پڑھا رہا ہو۔
(۱۴۳۸)اگر امام جماعت کسی عذر کی وجہ سے نجس لباس یا تیمم یا جبیرے کے وضو سے نماز پڑھے تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے۔
(۱۴۳۹)اگر امام کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے پیشاب اور پاخانہ نہ روک سکتا ہو تو اس کی اقتداء کی جا سکتی نیز جو عورت مستحاضہ نہ ہو وہ مستحاضہ عورت کی اقتدا کر سکتی ہے۔
(۱۴۴۰)بہتر ہے کہ جو شخص جذام یا برص کا مریض ہو وہ امام جماعت نہ بنے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جس
(۱۴۴۱)شخص پر شرعی حد جاری ہو چکی ہواور وہ توبہ بھی کر چکا ہو اس کی اقتدا نہ کی جائے۔

نماز جماعت کے احکام
نماز کی نیت کرتے وقت ضروری ہے کہ مقتدی امام کو معین کرے لیکن امام کا نام جاننا ضروری نہیں اور اگر نیت کرے کہ میں موجو دہ امام جماعت کی اقتدا کرتا ہوں تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۴۲)ضروری ہے کہ مقتدی الحمد اور سورہ کے علاوہ نماز کی سب چیزیں خود پڑھے۔ لیکن اگر اس کی پہلی اور دوسری رکعت امام کی تیسری اور چوتھی رکعت ہو تو ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ بھی پڑھے۔
(۱۴۴۳)اگر مقتدی نماز صبح، مغرب وعشاء کی پہلی اور دوسری رکعت میں امام کی الحمد اور سورہ پڑھنے کی آواز سُن رہا ہو تو خواہ کلمات کو ٹھیک طرح نہ سمجھ سکے ضروری ہے کہ الحمد اور سورہ نہ پڑھے اور اگر امام کی آواز نہ سن پائے تو مستحب ہے کہ الحمد اور سورہ پڑھے، لیکن ضروری ہے کہ آہستہ پڑھے اور اگر سہواً بلند آواز سے پڑھے تو کوئی حرج نہیں۔
(۱۴۴۴)اگر مقتدی امام کی الحمد اور سورہ کی قرأت کے بعض کلمات سُن لے تو جس قدر نہ سُن سکے وہ پڑھ سکتا ہے۔
(۱۴۴۵)اگر مقتدی سہواً الحمد اور سورہ پڑھے یا یہ خیال کرتے ہوئے کہ جو آواز سُن رہا ہے وہ امام کی نہیں ہے الحمد اور سورہ پڑھے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ امام کی آواز تھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۴۶)اگر مقتدی شک کرے کہ امام کی آواز سن رہا ہے یا نہیں یاکوئی آواز سنے اور نہ جانتا ہو کہ امام کی آواز ہے یا کسی اور کی تو وہ الحمد اور سورہ پڑھ سکتا ہے۔
(۱۴۴۷)مقتدی کو نماز ظہر و عصر کی پہلی اور دوسری رکعت میں احتیاط کی بنا پر الحمد اور سورہ نہیں پڑھنا چاہئے اور مستحب ہے کہ ان کی بجائے کوئی ذکر پڑھے۔
(۱۴۴۸)مقتدی کو تکبیرة الاحرام امام سے پہلے نہیں کہنی چاہئے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ جب تک امام تکبیر مکمل نہ کرلے، مقتدی تکبیر نہ کہے۔
(۱۴۴۹)اگر مقتدی سہواً امام سے پہلے سلام کہہ دے تو اس کی نماز صحیح ہے اور ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ امام کے ساتھ سلام کہے بلکہ اگر جان بوجھ کر بھی امام سے پہلے سلام کہہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۴۵۰)اگر مقتدی تکبیرة الاحرام کے علاوہ نماز کی دوسری چیزیں امام سے پہلے پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر انہیں سن لے یا یہ جان لے کہ امام انہیں کس وقت پڑھتا ہے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ امام سے پہلے نہ پڑھے۔
(۱۴۵۱)ضروری ہے کہ مقتدی جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے اس کے علاوہ نماز کے دوسرے افعال مثلاً رکوع اور سجود امام کے ساتھ یا اس سے تھوڑی دیر بعد بجا لائے اور اگر وہ ان افعال کو عمداً امام سے پہلے یا اس سے اتنی دیر بعد میں انجام دے کہ اسے امام کی متابعت کرنا نہ کہا جا سکے تو اس کی جماعت باطل ہو گی۔ لیکن اگر مسئلہ نمبر ۱۴۰۴ میں بتائی گئی تفصیل کے مطابق فرادیٰ شخص کے وظیفے پر عمل کرے تو اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۵۲)اگر مقتدی بھول کر امام سے پہلے رکوع سے سر اُٹھا لے اور امام رکوع میں ہی ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ رکوع میں چلا جائے اور امام کے ساتھ ہی سر اُٹھائے۔ اس صورت میں رکوع کی زیادتی جو کہ رکن ہے نماز کو باطل نہیں کرتی اور اگر وہ عمداً دوبارہ رکوع میں نہ جائے تواس کی جماعت احتیاط واجب کی بنا پر باطل ہو جائے گی، البتہ اس کی نماز مسئلہ ۱۴۰۴ میں بتائی گئی تفصیل کے مطابق صحیح ہو گی۔ لیکن اگر وہ دوبارہ رکو ع میں جائے اور اس سے پیشتر کہ وہ امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہو امام سر اُٹھا لے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۴۵۳)اگر مقتدی سہواً سر سجدے سے اُٹھا لے اور دیکھے کہ امام ابھی سجدے میں ہے تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ دوبارہ سجدے میں چلا جائے اور اگر دونوں سجدوں میں ایسا ہی اتفاق ہو جائے تو دو سجدوں کے زیادہ ہو جانے کی وجہ سے جو رُکن ہے نماز باطل نہیں ہوتی۔
(۱۴۵۴)جو شخص سہواً امام سے پہلے سجدے سے سر اُٹھا لے اگر اسے دوبارہ سجدے میں جانے پر معلوم ہو کہ امام پہلے ہی سر اٹھا چکا ہے تو اس کی نماز صحیح ہے۔ لیکن اگر دونوں سجدوں میں ایسا ہی اتفاق ہو جائے تو احتیاط کی بنا پر اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۴۵۵)اگر مقتدی غلطی سے رکوع یا سجدے سے سر اٹھائے اور سہواً یا اس خیال سے کہ دوبارہ رکوع یا سجدے میں لوٹ جانے سے امام کے ساتھ شریک نہ ہو سکے گا رکوع یا سجدے میں نہ جائے تو اس کی جماعت اور نماز صحیح ہے۔
(۱۴۵۶)اگر مقتدی سجدے سے سر اٹھا لے اور دیکھے کہ امام سجدے میں ہے اور اس خیال سے کہ یہ امام کا پہلا سجدہ ہے اور اس نیت سے کہ امام کے ساتھ سجدہ کرے، سجدے میں چلا جائے اور بعد میں اسے معلوم ہو کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ تھا تو یہ مقتدی کا دوسرا سجدہ شمار ہو گا اور اگر اس خیال سے سجدے میں جائے کہ یہ امام کا دوسرا سجدہ ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ یہ امام کا پہلا سجدہ تھا تو ضروری ہے کہ اس نیت سے سجدہ تمام کرے کہ امام کے ساتھ سجدہ کر رہا ہوں اور پھر دوبارہ امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور دونوں صورتوں میں بہتر یہ ہے کہ نماز کو جماعت کے ساتھ تمام کرے اور پھر دوبارہ بھی پڑھے۔
(۱۴۵۷)اگر کوئی مقتدی سہواً امام سے پہلے رکوع میں چلا جائے اور صورت یہ ہو کہ اگر دوبارہ قیام کی حالت میں آجائے تو امام کی قرأت کا کچھ حصہ سن سکے تو اگر دوسرا اٹھا لے اگر وہ سر اُٹھائے اور دوبارہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے تو اس کی نماز صحیح ہے اور اگر وہ جان بوجھ کر دوبارہ قیام کی حالت میں نہ آئے تو اس کی جماعت کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔ البتہ مسئلہ ۱۴۰۴ میں بتائی گئی تفصیل کے مطابق اس کی نماز صحیح ہے۔
(۱۴۵۸)اگر مقتدی سہواً امام سے پہلے رکوع میں چلا جائے اور صورت یہ ہو کہ اگر دوبارہ قیام کی حالت میں آئے تو امام کی قرأت کا کوئی حصہ نہ سن سکے تو ضروری ہے کہ رکوع کا ذکر کہے اور اگر رکوع کا ذکر پڑھنا اس بات کا باعث ہو کہ گویااس نے رکوع میں امام کی متابعت نہیں کی ہے تو اپنا سر اٹھا لے اور امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور اس کی جماعت اور نماز صحیح ہے اور اگر وہ عمداً دوبارہ قیام کی حالت میں نہ آئے تو اس کی نماز مسئلہ نمبر ۱۴۰۴ میں بتائی گئی تفصیل کے مطابق صحیح ہے۔
(۱۴۵۹)اگر مقتدی غلطی سے امام سے پہلے سجدے میں چلا جائے تو ضروری ہے کہ سجدے کا ذکر پڑھے اور اگر سجدے کا ذکر پڑھنا اس بات کا باعث ہو کہ گویا سجدے میں امام کی متابعت نہیں کی تو اپنا سر اٹھا لے اور امام کے ساتھ سجدے میں جائے اور اس کی جماعت اور نماز صحیح ہے اور اگر عمداً سجدے سے سر نہ اٹھائے تو اس کی نماز مسئلہ نمبر ۱۴۰۴ میں بتائی گئی تفصیل کے مطابق صحیح ہے۔
(۱۴۶۰)اگر امام غلطی سے ایک ایسی رکعت میں قنوت پڑھ دے جس میں قنوت نہ ہو یا ایک ایسی رکعت میں جس میں تشہد نہ ہو غلطی سے تشہد پڑھنے لگے تو مقتدی کو قنوت اور تشہد نہیں پڑھنا چاہئے لیکن وہ امام سے پہلے نہ رکوع میں جا سکتا ہے اور نہ امام کے کھڑا ہونے سے پہلے کھڑا ہو سکتا ہے بلکہ ضروری ہے کہ امام کے تشہد اور قنوت ختم کرنے تک انتظار کرے اور باقی ماندہ نماز اس کے ساتھ پڑھے۔

جماعت اور امام مقتدی کے فرائض
(۱۴۶۱)اگر مقتدی صرف ایک مرد ہو تو مستحب ہے کہ وہ امام کی دائیں طرف کھڑا ہو اور اگر ایک عورت ہو تب بھی مستحب ہے کہ امام کے دائیں طرف کھڑی ہو لیکن ضروری ہے کہ امام سے کم از کم اتنا پیچھے کھڑی ہو کہ اس کے سجدہ کرنے کی جگہ امام سے اس کے سجدے کی حالت میں دو زانوں کے فاصلے پر ہو۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت یا ایک مرد اور چند عورتیں ہوں تو مستحب ہے کہ مرد امام کی دائیں طرف اور عورت یا عورتیں امام کے پیچھے کھڑی ہوں۔ اگر چند مرد اور ایک یا چند عورتیں ہوں تو مردوں کا امام کے پیچھے اور عورتوں کا مردوں کے پیچھے کھڑا ہونا مستحب ہے۔
(۱۴۶۲)اگر امام اور مقتدی دونوں عورتیں ہوں تو احتیاط واجب یہ ہے کہ سب ایک دوسری کے برابر برابر کھڑی ہوں اور امام مقتدیوں سے آگے نہ کھڑی ہو۔
(۱۴۶۳)مستحب ہے کہ امام صف کے درمیان میں آگے کھڑا ہو اور صاحبانِ علم و فضل اور تقویٰ و ورع پہلی صف میں کھڑے ہوں۔
(۱۴۶۴)مستحب ہے کہ جماعت کی صفیں منظم ہوں اور جو اشخاص ایک صف میں کھڑے ہوں ان کے درمیان فاصلہ نہ ہو اور ان کے کندھے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔
(۱۴۶۵)مستحب ہے کہ ”قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ“ کہنے کے بعد مقتدی کھڑے ہو جائیں۔
(۱۴۶۶)مستحب ہے کہ امام جماعت اس مقتدی کی حالت کا لحاظ کرے جو دوسروں سے کمزور ہو اور قنوت اور رکوع اور سجود کو طول نہ دے بجز اس صورت کے کہ اسے علم ہو کہ تمام وہ اشخاص جنہوں نے اس کی اقتدا کی ہے طول دینے کی جانب مائل ہیں۔
(۱۴۶۷)مستحب ہے کہ امام جماعت الحمد اور سورہ، نیز بلند آواز سے پڑھے جانے والے اذکار پڑھتے ہوئے اپنی آوز کو اتنا بلند کرے کہ دوسرے سن سکیں لیکن ضروری ہے کہ آواز مناسب حد سے زیادہ بلند نہ کرے۔
(۱۴۶۸)اگر امام کو حالتِ رکوع میں معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص ابھی ابھی آیا ہے اور اقتدا کرنا چاہتا ہے تو مستحب ہے کہ رکوع کو معمول سے دگنا طول دے اور پھر کھڑا ہو جائے خواہ اسے معلوم ہو جائے کہ کوئی دوسرا شخص بھی اقتدا کے لیے آیا ہے۔

نمازِ جماعت کے مکروہات
(۱۴۶۹)اگر جمات کی صفوں میں جگہ ہو تو انسان کے لیے تنہا کھڑ اہونا مکروہ ہے۔
(۱۴۷۰)مقتدی کا نماز کے اذکار کو اس طرح پڑھنا کہ امام سن لے مکروہ ہے۔
(۱۴۷۱)جو مسافر ظہر، عصر اور عشاء کی نمازیں قصر کر کے پڑھتا ہو اس کے لیے مکروہ ہے کہ ان نمازوں میں ایسے شخص کی اقتدا کرے جو مسافر نہیں ہے اور جو مسافر نہ ہو اس کے لیے مکروہ ہے ان نمازوں میں کسی مسافر کی اقتداء کرے۔

نمازِ آیات
(۱۴۷۲)نمازِ آیات جس کے پڑھنے کا طریقہ بعد میں بیان ہو گا، تین چیزوں کی وجہ سے واجب ہوتی ہے:
۱) سورج گرہن
۲) چاند گرہن، اگرچہ اس کے کچھ حصے کو ہی گرہن لگے اور خواہ انسان پر اس کی وجہ سے خوف بھی طاری نہ ہوا ہو۔
۳) زلزلہ، احتیاط واجب کی بنا پر، اگرچہ اس سے کوئی بھی خوفزدہ نہ ہوا ہو۔
البتہ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، سرخ وسیاہ آندھی اور انہی جیسی دوسری آسمانی نشانیاں جن سے اکثر لوگ خوفزد ہہو جائیں اور اسی طرح زمین کے حادثات مثلاً زمین کا دھنس جانا اور پہاڑوں کا گِرنا جن سے اکثر لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں ان صورتوں میں بھی احتیاط مستحب کی بنا پر نماز آیات ترک نہیں کرنا چاہیئے۔
(۱۴۷۳)جن چیزوں کے لیے نمازِ آیات پڑھنا واجب ہے اگر وہ ایک سے زیادہ وقوع پذیر ہو جائیں تو ضروری ہے کہ انسان ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک نمازِ آیات پڑھے۔ مثلاً سورج کو بھی گرہن لگ جائے اور زلزلہ بھی آجائے تو دونوں کے لیے دو الگ الگ نمازیں پڑھنی ضروری ہیں۔
(۱۴۷۴)اگر کسی شخص پر کئی نمازِ آیات واجب ہوں خواہ وہ سب ایک ہی چیز کی وجہ سے واجب ہوئی ہوں، مثلاً سورج کو تین دفعہ گرہن لگا ہو اور اس نے اس کی نمازیں نہ پڑھی ہوں یا مختلف چیزوں کی وجہ سے مثلاً سورج گرہن اور چاند گرہن اور زلزلے کی وجہ سے اس پر واجب ہوئی ہوں تو ان کی قضا کرتے وقت یہ ضروری نہیں کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ کونسی قضا کونسی چیز کے لیے کر رہا ہے۔
(۱۴۷۵)جن چیزوں کے لیے نمازِ آیات پڑھنا واجب ہے وہ جس علاقے میں وقوع پذیر ہوں اور محسوس کی جائیں فقط اسی علاقے کے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ نماز آیات پڑھیں اور دوسرے مقامات کے لوگوں کے لیے اس کا پڑھنا واجب نہیں ہے۔
(۱۴۷۶)جب سورج یا چاند کو گرہن لگنے لگے تو نمازِ آیات کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اپنی سابقہ حالت پر لوٹ نہ آئیں … اگرچہ بہتر یہ ہے کہ اتنی تاخیر نہ کرے کہ گرہن ختم ہونے لگے… لیکن نمازِ آیات کی تکمیل سورج یا چاند گرہن ختم ہونے کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔
(۱۴۷۷)اگر کوئی شخص نمازِ آیات پڑھنے میں اتنی تاخیر کر دے کہ چاند یا سورج، گرہن سے نکلنا شروع ہو جائے تو ادا کی نیت کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر اس کے مکمل طور پر گرہن سے نکل جانے کے بعد نماز پڑھے تو پھر ضروری ہے ہے کہ قضا کی نیت کرے۔
(۱۴۷۸)اگر چاند یا سورج کو گرہن لگنے کی مدت ایک رکعت نماز پڑھنے کے برابر یا ا س سے بھی کم ہو تو جو نماز وہ پڑھ رہا ہے ادا ہے اور یہی حکم ہے اگر ان کے گرہن کی مدت اس سے زیادہ ہو لیکن انسان نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ گرہن ختم ہو نے میں ایک رکعت پڑھنے کے برابر یا اس سے کم وقت باقی ہو۔
(۱۴۷۹)جب کبھی زلزلہ، بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک اور اسی جیسی چیزیں وقوع پذیر ہوں اور انسان احتیاط کرنا چاہیئے تو اگر ان کا وقت وسیع ہو تو نمازِ آیات کو فوراً پڑھنا ضروری نہیں ہے بصورتِ دیگر زلزلے جیسی چیزوں میں ضروری ہے کہ فوراً نمازِ آیات پڑھے یعنی اتنی جلدی پڑھے کہ لوگوں کی نظروں میں تاخیر کرنا شمار نہ ہو اور اگر تاخیر کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ بعد میں ادا اور قضا کی نیت کئے بغیر پڑھے۔
(۱۴۸۰)اگر کسی شخص کو چاند یا سورج گرہن لگنے کا پتا نہ چلے اور ان کے گرہن سے باہر آنے کے بعد پتا چلے کہ پورے سورج یا پورے چاند کو گرہن لگا تھا تو ضروری ہے کہ نمازِ آیات کی قضا کرے۔ لیکن اگر اسے یہ پتا چلے کہ کچھ حصے کو گرہن لگا تھا تو نمازِ آیات کی قضا اس پر واجب نہیں ہے۔
(۱۴۸۱)اگر کچھ لوگ یہ کہیں کہ چاند کو یا سورج کو گرہن لگا ہے اور انسان کو ذاتی طور پر ان کے کہنے سے یقین یا اطمینان حاصل نہ ہو اس لیے وہ تمام آیات نہ پڑھے اور بعد میں پتا چلے کہ انہوں نے ٹھیک کہا تھا تو ا س صورت میں جبکہ پورے چاند کو یا پورے سورج کو گرہن لگا ہو تو نمازِ آیات کا پڑھنا اس پر واجب نہیں ہے اور یہی حکم اس صورت میں ہے جبکہ دو آدمی جن کے عادل ہونے کے بارے میں علم نہ ہو یہ کہیں کہ چاند کو یا سورج کو گرہن لگا ہے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ عادل تھے۔
(۱۴۸۲)اگر انسان کو ماہرین فلکیات کے کہنے پر جو علمی قاعدے کی رو سے سورج کو چاند کو گرہن لگنے کا وقت جانتے ہوں اطمینان ہو جائے کہ سورج کو یا چاند کو گرہن لگا ہے تو ضروری ہے کہ نمازِ آیات پڑھے اور اسی طرح وہ اگر کہیں کہ چاند کو یا سورج کو فلاں وقت گرہن لگے گا اور اتنی دیر تک رہے گا اور انسان کو ان کے کہنے سے اطمینان حاصل ہو جائے تو ان کے کہنے پر عمل کرنا ضروری ہے۔
(۱۴۸۳)اگر کسی شخص کو علم ہو جائے کہ چاند یا سورج کو گرہن لگنے کی وجہ سے جو نمازِ آیات اس نے پڑھی ہے وہ باطل تھی تو ضروری ہے کہ دوبارہ پڑھے اور اگر وقت گزر گیا ہو تو اس کی قضا بجالائے۔
(۱۴۸۴)اگر یومیہ نماز کے وقت نمازِآیات بھی انسان پر واجب ہو جائے اور اس کے پاس دونوں کے لیے وقت ہو تو جو بھی پہلے پڑھ لے کوئی حرج نہیں۔ اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کا وقت تنگ ہو تو پہلے وہ نماز پڑھے جس کا وقت تنگ ہو اور اگر دنوں کا وقت تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پہلے یومیہ نماز پڑھے۔
(۱۴۸۵)اگر کسی شخص کو یومیہ نماز پڑھتے ہوئے علم ہو جائے کہ نمازِ آیات کا وقت تنگ ہے اور یومیہ نماز کا وقت بھی تنگ ہو تو ضروری ہے کہ پہلے یومیہ نماز کو تمام کرے اور بعد میں نمازِ آیات پڑھے اور اگر یومیہ نماز کا وقت تنگ نہ ہو تو اسے توڑ دے اور پہلے نمازِ آیات اور اس کے بعد یومیہ نماز بجا لائے۔
(۱۴۸۶)اگر کسی شخص کو نمازِ آیات پڑھتے ہوئے علم ہو جائے کہ یومیہ نماز کا وقت تنگ ہے تو ضروری ہے کہ نمازخ آیات کو چھوڑ دے اور یومیہ نماز پڑھنے میں مشغول ہو جائے اور یومیہ نماز کو تمام کرنے کے بعد اس سے پہلے کہ کوئی کام کرے جو نماز کو باطل کرتا ہو باقی ماندہ نمازِ آیات وہیں سے پڑھے جہاں سے چھوڑی تھی۔
(۱۴۸۷)جب عورت حیض یا نفاس کی حالت میں ہو اور سورج یا چاند کو گرہن لگ جائے یا زلزلہ آ جائے تو اس پر نمازِ آیات واجب نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قضا ہے۔

نمازِ آیات پڑھنے کا طریقہ
(۱۴۸۸)نمازِ آیات کی دو رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں۔ اس کے پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نیّت کرنے کے بعد انسان تکبیر کہے اور ایک دفعہ الحمد اور ایک پورا سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور پھر رکوع سے سر اُٹھائے پھر دوبارہ ایک دفعہ الحمد اور ایک سورہ پڑھے اور پھر رکوع میں جائے۔ اس عمل کو پانچ دفعہ انجام دے اور پانچویں رکوع سے قیام کی حالت میں آنے کے بعد دو سجدے بجا لائے اور پھر اُٹھ کھڑا ہو اور پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت بجا لائے اور تشہد اور سلام پڑھ کر نماز تمام کرے۔
(۱۴۸۹)نمازِ آیات میں یہ بھی ممکن ہے کہ انسان نیّت کرنے اور تکبیر اور الحمد پڑھنے کے بعد ایک سورے کی آیتوں کے پانچ حصے کرے اور ایک آیت یا اس سے کچھ زیادہ پڑھے بلکہ ایک آیت سے کم بھی پڑھ سکتا ہے لیکن احتیاط کی بناء پر ضروری ہے کہ مکمل جملہ ہو، سورے کی ابتداء سے شروع کرے اور بسم اللہ کہنے پر اکتفاء نہ کرے اور اس کے بعد رکوع میں جائے اور پھر کھڑا ہو جائے اور الحمد پڑھے بغیر اسی سورہ کا دوسرا حصہ پڑھے اور رکوع میں جائے اور اسی طرح اس عمل کو دُہراتا رہے حتیٰ کہ پانچویں رکوع سے پہلے سورہ کو ختم کر دے۔ مثلاً سورہٴ فلق میں پہلے بسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ْذُ بِرَبِّ الفْلَق ڑھے اور رکوع میں جائے۔ اس کے بعد کھڑا ہو اور پڑھے مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ Oاور دوبارہ رکوع میں جائے اور رکوع کے بعد کھڑا ہو اور پڑھے وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَOپھر رکوع میں جائے اور پھر کھڑا ہو اور پڑھے وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقدO اور رکوع میں چلا جائے اور پھر کھڑا ہو جائے اور پڑھے وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ O اور اس کے بعد پانچویں رکوع میں جائے اور (رکوع سے) کھڑا ہونے کے بعد دو سجدے کرے اور دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح بجا لائے اور اس کے دوسرے سجدے کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔ یہ بھی جائز ہے کہ سورے کو پانچ سے کم حصوں میں تقسیم کرے لیکن جس وقت بھی سورہ ختم کرے لازم ہے کہ بعد والے رکوع سے پہلے الحمد پڑھے۔
(۱۴۹۰)اگر کوئی شخص نمازِ آیات کی ایک رکعت میں پانچ دفعہ الحمد اور سورہ پڑھے اور دوسری رکعت میں ایک دفعہ الحمد پڑھے اور سوہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کر دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
(۱۴۹۱)جو چیزیں یومیہ نماز میں واجب اور مستحب ہیں وہ نماز آیات میں بھی واجب اور مستحب ہیں۔ البتہ اگر نمازِ آیات جماعت کے ساتھ ہو رہی ہو تو اذان اور اقامت کی بجائے تین دفعہ بطور رجاء ”الصلوٰة“ کہا جائے لیکن اگر یہ نماز آیات جماعت کے ساتھ نہ پڑھی جا رہی ہو تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ سورج اور چاند گرہن کے علاوہ نمازِ آیات کا جماعت کے ساتھ پڑھا جانا ثابت نہیں ہے کہ شریعت نے اس کی اجازت دی ہو۔
(۱۴۹۲)نمازِ آیات پڑھنے والے کیلئے مستحب ہے کہ رکوع سے پہلے اور اس کے بعد تکبیر کہے اور پانچویں اور دسویں رکوع کے بعد تکبیر کہنا مستحب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کہ ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ کہے۔
(۱۴۹۳)دوسرے، چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع سے پہلے قنوت پڑھنا مستحب ہے اور اگر قنوت صرف دسویں رکوع سے پہلے پڑھ لیا جائے تب بھی کافی ہے۔
(۱۴۹۴)اگر کوئی شخص نمازِ آیات میں شک کرے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے۔
(۱۴۹۵)اگر (کوئی شخص جو نمازِ آیات پڑھ رہا ہو،) شک کرے کہ وہ پہلی رکعت کے آخری رکوع میں ہے یا دوسری رکعت کے پہلے رکوع میں اور کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اس کی نماز باطل ہے۔ لیکن اگر مثال کے طور پر شک کرے کہ چار رکوع بجا لایا ہے یا پانچ اور اس کا یہ شک سجدے میں جانے کیلئے جھکنے سے پہلے ہو تو جس رکوع کے بارے میں اسے شک ہو کہ بجا لایا ہے یا نہیں اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر سجدے کیلئے جھک گیا ہو تو ضروری ہے کہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے۔
(۱۴۹۶)نمازِ آیات کا ہر رکوع رکن ہے اور اگر ان میں عمداً کمی یا بیشی کرے تو نماز باطل ہے۔ یہی حکم ہے اگر سہواً کمی ہو یا احتیاط کی بناء پر زیادہ ہو۔

عید الفطر اور عید قربان کی نماز
(۱۴۹۷)امام عصر - کے زمانہٴ حضور میں عیدا الفطر و عید قربان کی نمازیں واجب ہیں اور ان کا جماعت کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔ لیکن ہمارے زمانے میں جبکہ امام عصر - غیبت میں ہیں، یہ نمازیں مستحب ہیں اور باجماعت و فرادیٰ دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہیں۔
(۱۴۹۸)نماز عید الفطر و قربان کا وقت عید کے دن طلوع آفتاب سے ظہر تک ہے۔
(۱۴۹۹)عید قربان کی نماز سورج چڑھ آنے کے بعد پڑھنا مستحب ہے اور عید الفطر میں مستحب ہے کہ سورج چڑھ آنے کے بعد افطار کیا جائے، فطرہ دیا جائے اور بعد نمازِ عید ادا کی جائے۔
(۱۵۰۰)عید الفطر و قربان کی نماز دو رکعت ہے جس کی ہر رکعت میں الحمد و سورہ کے بعد تین تکبیریں کہی جائیں اور بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں پانچ تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک قنوت پڑھے اور پانچویں تکبیر کے بعد ایک اور تکبیر کہے اور رکوع میں چلا جائے اور پھر دو سجدے بجا لائے اور اٹھ اکھڑ اور دوسری رکعت میں چار تکبیریں کہے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان قنوت پڑھے اور چوتھی تکبیریں کے بعد ایک اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور رکوع کے بعد دو سجدے کرے اور تشہد پڑھے اور سلام کہہ کر نماز کو تمام کر دے۔
(۱۵۰۱)عید الفطر وقربان کی نماز کے قنوت میں جو دعا اور ذکر بھی پڑھا جائے کافی ہے لیکن بہتر ہے کہ یہ دعا پڑھی جائے:
”اَللّٰھُمَّ اَھْلَ الْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَةِ وَاَھْلَ الْجُوْدِ وَالْجَبَرْوْتِ وَاَھْلَ الْعَفْوِ وَالرَّحْمَةَ وَ اَھْلَ التًقْویٰ وَالْمَغْفِرَةِ اَسْئَلُکَ بِحَقِّ ھٰذَا الْیَوْمِ الَّذِیْ جَعَلْتَہ لَلْمُسْلَمِیْنَ عیِْدًا وَّلِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ ذُخْرًا وَّشَرَفًا وَّ کَرَامَةً وَّ مَزِیْدًا اَنْ تُصَلِّیْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَنْ تُدْخِلَنِیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیْہِ مُحَمَّدًا وَاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ اَنْ تُخْرِجَنِیْ مِنْ کُلِّ سُوْءٍ اَخْرَجْتَ مِنْہُ مُحَمّدًا وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ صَلَواتُکَ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَیْرَ مَا سَئَلَکَ بِہ عِبَادَکَ الصَّالِحُوْنَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْہُ عِبَادُکَ الْمُخَلِصُوْنَ۔“
(۱۵۰۲)امام عصر - کے زمانہٴ غیبت میں اگر نماز عید الفطر و قربان جماعت سے پڑھی جائے تو احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کے بعد دو خطبے پڑھے جائیں اور بہتر یہ ہے عید الفطر کے خطبے میں فطرے کے احکام بیان ہوں اور عید قربان کے خطبے میں قربانی کے احکام بیان کئے جائیں۔
(۱۵۰۳) عید کی نماز کے لئے کوئی سورہ مخصوص نہیں ہے لیکن بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں (الحمد کے بعد) سورہٴ شمس (۹۱ واں سورہ) پڑھا جائے اور دوسری رکعت میں (الحمد کے بعد ) سورہٴ غاشیہ (۸۸ واں سورہ) پڑھا جائے یا پہلی رکعت میں سورہٴ اعلیٰ (۸۷ واں سورہ) اور دوسری رکعت میں سورہٴ شمس پڑھا جائے۔
(۱۵۰۴)نماز عید صحرا میں پڑھنا مستحب ہے لیکن مکّہ مکرمہ میں مستحب ہے کہ مسجد الحرام میں پڑھی جائے۔
(۱۵۰۵)مستحب ہے کہ نماز عید کے لیے پیدل اور پا برہنہ اور باوقار طور پر جائیں اور نماز سے پہلے غسل کریں اور سفید عمامہ سر پر باندھیں۔
(۱۵۰۶)مستحب ہے کہ نماز عید میں زمین پر سجدہ کیا جائے اور تکبیریں کہتے وقت ہاتھوں کو بلند کیا جائے اور جو شخص نماز عید پڑھ رہا ہو خواہ وہ امام جماعت ہو یا فرادیٰ نماز پڑھ رہا ہو، نماز بلند آواز سے پڑھے۔
(۱۵۰۷)مستحب ہے کہ عیدالفطر کی رات کو مغرب و عشاء کے بعد اور عیدالفطر کے دن نماز صبح کے بعد اور نماز عیدالفطر کے بعد یہ تکبیریں کہی جائیں:
”اللّٰہ اکبراللّٰہ اکبر ، لا اِلہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد، اللّٰہ اکبر علی ماھدانا“۔
(۱۵۰۸)عید قربان میں دس نمازوں کے بعد جن میں سے پہلی نماز عید کے دن نماز ظہر ہے اور آخری بارہویں تاریخ کی نماز صبح ہے ان تکبیرات کا پڑھنا مستحب ہے جن کا ذکر سابقہ مسئلے میں ہو چکا ہے اور ان کے بعد ”اللّٰہ اکبر علی مارزقنا بھیمة الانعام والحمد للّٰہ علی ما ابلانا“ پڑھنا بھی مستحب ہے لیکن اگر عید قربان کے موقع پر انسان منیٰ میں ہو تو مستحب ہے کہ یہ تکبیریں پندرہ نمازوں کے بعد پڑھے جن میں سے پہلی نماز عید کے دن نماز ظہر ہے اور آخری تیرہویں ذی الحجہ کی نماز صبح ہے۔
(۱۵۰۹) احتیاط مستحب یہ ہے کہ عورتیں نماز عید پڑھنے کے لئے نہ جائیں لیکن یہ احتیاط عمر رسیدہ عورتوں کے لیے نہیں ہے۔
(۱۵۱۰)نماز عید میں بھی دوسری نمازوں کی طرح مقتدی کو چاہئے کہ الحمد اور سورہ کے علاوہ نماز کے اذکار خود پڑھے۔
(۱۵۱۱)اگر مقتدی اس وقت پہنچے جب امام نماز کی کچھ تکبیریں کہہ چکا ہو تو امام کے رکوع میں جانے کے بعد ضروری ہے کہ جتنی تکبیریں اور قنوت اس نے امام کے ساتھ نہیں پڑھیں انہیں پڑھے اور اگر ہر قنوت میں ایک دفعہ ”سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ“کہہ دے تو کافی ہے اگر اتنا وقت نہ ہو تو صرف تکبیریں کہے اور اگر اتنا وقت بھی ہو تو کافی ہے کہ متابعت کرتے ہوئے رکوع میں چلا جائے۔
(۱۵۱۲)اگر کوئی شخص نماز عید میں اس وقت پہنچے جب امام رکوع میں ہو تو وہ نیّت کر کے اور نماز کی پہلی تکبیر کہہ کر رکوع میں جا سکتا ہے۔
(۱۵۱۳)اگر کوئی شخص نماز عید میں ایک سجدہ بھول جائے تو ضروری ہے کہ نماز کے بعد اسے بجا لائے۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا فعل نماز عید میں سرزد ہو جس کے لئے یومیہ نماز میں سجدہٴ سہو لازم ہے تو نماز عید پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ دو سجدہٴ سہو بجا لائے۔

نماز کے لئے اجیر بنانا
(۱۵۱۴) انسان کے مرنے کے بعد ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کے لئے جو وہ زندگی میں نہ بجا لایا ہو کسی دوسرے شخص کو اجیر بنایا جا سکتا ہے یعنی وہ نمازیں اسے اجرت دے کر پڑھوائی جا سکتی ہیں اور اگر کوئی شخص بغیر اجرت لئے ان نمازوں اور دوسری عبادتوں کو بجا لائے تب بھی صحیح ہے۔
(۱۵۱۵)انسان بعض مستحب کاموں مثلاً حج و عمرے اور روضہٴ رسول ( ﷺ) یا قبور آئمہ ٪ کی زیارت کے لئے زندہ اشخاص کی طرف سے اجیر بن سکتا ہے اور یہ بھی کر سکتا ہے کہ مستحب کام انجام دے کر اس کا ثواب مُردہ یا زندہ اشخاص کو ہدیہ کر دے۔
(۱۵۱۶)جو شخص میّت کی قضا نماز کے لئے اجیر بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ یا تو مجتہد ہو یا نماز کو صحیح تقلید کے مطابق صحیح طریقے پر ادا کرے یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ موارد احتیاط کو پوری طرح جانتا ہو۔
(۱۵۱۷)ضروری ہے کہ اجیر نیّت کرتے وقت میّت کو معین کرے اور ضروری نہیں کہ میّت کا نام جانتا ہو بلکہ اگر نیّت کرے کہ میں یہ نماز اس شخص کے لئے پڑھ رہا ہوں جس کے لئے میں اجیر ہوا ہوں تو کافی ہے۔
(۱۵۱۸)ضروری ہے کہ اجیر جو عمل بجا لائے اس کے لئے نیّت کرے کہ جو کچھ میّت کے ذمے ہے وہ بجا لا رہا ہوں اور اگر اجیر کوئی عمل انجام دے اور صرف اس کا ثواب میّت کو ہدیہ کر دے تو یہ کافی نہیں ہے۔
(۱۵۱۹)اجیر ایسے شخص کو مقرر کرنا ضروری ہے جس کے بارے میں اطمینان ہو کہ وہ عمل کو بجا لائے گا اور یہ احتمال ہو کہ صحیح بجا لائے گا۔
(۱۵۲۰)جس شخص کو میّت کی نمازوں کے لئے اجیر بنایا جائے اگر اس کے بارے میں پتا چلے کہ وہ عمل کو بجا نہیں لایا یا باطل طور پر بجا لایا ہے تو دوبارہ (کسی دوسرے شخص کو) اجیر مقرر کرنا ضروری ہے ۔
(۱۵۲۱)جب کوئی شخص شک کرے کہ اجیر نے عمل انجام دیا ہے یا نہیں اگرچہ وہ کہے کہ میں نے انجام دے دیا ہے لیکن اس کی بات پر اطمینان نہ ہو تو احتیاط واجب کی بناء پر ضروری ہے کہ دوبارہ اجیر مقرر کرے۔ اگر شک کرے کہ اس نے صحیح طور پر انجام دیا ہے یا نہیں تو اسے صحیح سمجھ سکتا ہے۔
(۱۵۲۲)جو شخص کوئی عذر رکھتا ہو مثلاً تیمم کر کے یا بیٹھ کر نماز پڑھتا ہو اسے احتیاط کی بنا پر میّت کی نمازوں کے لئے اجیر بالکل مقرر نہ کیا جائے اگرچہ میّت کی نمازیں بھی اسی طرح قضاء ہوئی ہوں۔ ہاں، ایسے شخص کو اجیر مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں جو وضوئے جبیرہ یا غسل جبیرہ کر کے نماز پڑھتا ہوں یا جس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا ہوا ہو۔
(۱۵۲۳) مرد، عورت کی طرف سے اجیر بن سکتا ہے اور عورت، مرد کی طرف سے اجیر بن سکتی ہے۔ جہاں تک نماز بلند آواز سے پڑھنے کا سوال ہے تو ضروری ہے کہ اجیر اپنے وظیفے کے مطابق عمل کرے۔
(۱۵۲۴)میّت کی قضاء نمازوں میں ترتیب واجب نہیں ہے سوائے ان نمازوں کے جن کی ادا میں ترتیب ہے۔ مثلاً ایک دن کی نماز ظہر، عصر یا مغرب وعشاء جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ البتہ اگر اسے اس شرط کے ساتھ اجیر بنایا گیا ہو کہ میّت یا اس کے ولی کے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے اور وہ ترتیب کو ضروری سمجھتا ہو تو ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
(۱۵۲۵)اگر اجیر کے ساتھ طے کیا جائے کہ عمل کو ایک مخصوص طریقے سے انجام دے گا تو ضروری ہے کہ اس عمل کو اسی طریقے سے انجام دے سوائے اس کے کہ اس طرح عمل کرنے کے باطل ہونے کا یقین رکھتا ہو اور اگر کچھ طے نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عمل اپنے وظیفے کے مطابق انجام دے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اپنے وظیفے اور میّت کے وظیفے میں سے جو بھی احتیاط کے زیادہ قریب ہو اس پر عمل کرے۔ مثلاً اگر میّت کا فریضہ تسبیحات اربعہ تین دفعہ پڑھنا تھا اور اس کی اپنی ذمہ داری ایک دفعہ پڑھنا ہو تو تین دفعہ پڑھے۔
(۱۵۲۶) اگر اجیر کے ساتھ یہ طے نہ کیا جائے کہ نماز کے مستحبات کس مقدار میں پڑھے گا تو ضروری ہے کہ عمو ماً جتنے مستحبات پڑھے جاتے ہیں انہیں بجا لائے۔
(۱۵۲۷)اگر انسان میّت کی قضا نمازوں کے لئے کئی اشخاص کو اجیر مقرر کرے تو مسئلہ ۱۵۲۴ کے مطابق ضروری نہیں کہ وہ ہر اجیر کے لئے وقت معین کرے۔
(۱۵۲۸)اگر کوئی شخص اجیر بنے کہ مثال کے طور پر ایک سال میں میّت کی نمازیں پڑھ دے گا اور سال ختم ہونے سے پہلے مر جائے تو ان نمازوں کے لئے جن کے بارے میں علم ہو کہ وہ بجا نہیں لایا کسی اور شخص کو اجیر مقرر کرنا ضروری ہے اور جن نمازوں کے بارے میں احتمال ہو کہ وہ انہیں نہیں بجا لایا احتیاط واجب کی بنا پر ان کے لئے بھی اجیر مقرر کیا جائے۔
(۱۵۲۹)جس شخص کو میّت کی قضا نمازوں کے لئے اجیر مقرر کیا ہو اور اس نے ان سب نمازوں کی اجرت بھی وصول کر لی ہو اگر وہ ساری نمازیں پڑھنے سے پہلے مر جائے تو اگر اس کے ساتھ یہ طے کیا گیا ہو کہ ساری نمازیں وہ خود ہی پڑھے گا تو اجرت دینے والے باقی نمازوں کی طے شدہ اجرت واپس لے سکتے ہیں یا اجارہ کو فسخ کر سکتے ہیں اور اس کی اجرت المثل دے سکتے ہیں۔ اگر یہ طے نہ کیا گیا ہو کہ ساری نمازیں اجیر خود پڑھے گا تو ضروری ہے کہ اجیر کے ورثاء اس کے مال میں سے باقی ماندہ نمازوں کے لئے کسی کو اجیر بنائیں لیکن اگر اس نے کوئی مال نہ چھوڑا ہو تو اس کے ورثاء پر کچھ بھی واجب نہیں۔
(۱۵۳۰)اگر اجیر میت کی سب قضا نمازیں پڑھنے سے پہلے مر جائے اور اس کے اپنے ذمے بھی قضا نمازیں ہوں تو مسئلہ سابقہ میں جو طریقہ بتایا گیا ہے اس پر عمل کرنے کے بعد اگر فوت شدہ اجیر کے مال سے کچھ بچے اور اس صورت میں جبکہ اس نے وصیت کی ہو اور اس کے ورثاء بھی اجازت دیں تو اس کی سب نمازوں کے لئے اجیر مقرر کیا جا سکتا ہے اور اگر ورثاء اجازت نہ دیں تو مال کا تیسرا حصہ اس کی نمازوں پر صرف کیا جاسکتا ہے۔