اسلامی مذاهب کی نظر میں فقهی منابع استنباط
 


عدم تحریف قرآن
تمام اسلامی محققین خواه شیعه هو یا سنی سبھی کے نزدیک زمان نزول سے لیے کر آج تک قرآن میں ذره برابر تحریف نهیں هوئی آج جو قرآن همارے درمیان هے یه وهی قرآن هے جو پیغمبر اکرم(ص)پر نازل هوا ۔ قرآن میں احتمال تحریف ان شبهات میں سے هے جس کی کوئی اساس نهیں یهاں تحریف سے مراد قرآن میں کمی یا زیادتی هے که قرآن اس قسم کی تحریف سے محفوظ هے ۔
تحریف کے بارے میں جو روایات آئی هیں ان میں بعض ضعیف اور بعض تحریف معنوی اور بعض کلمات اور جملات قرآن کی تفسیر کے معنی میں هے . بعض یه تصور کرتے هیں که تحریف کی یه روایات صرف شیعوں کی کتاب میں هیں جبکه ایسی روایات برادران اهل سنت کی کتابوں میں بھی نظر آتی هیں مثال کے طور پر آپ صرف مسند احمد کی جلد اول اور صحیح ترمذی کی جلد پنجم مراجعه کیجئے آپ کو هماری بات کی تصدیق هوجائے گی . لیکن یه روایات مذکوره مطالب کے علاوه کتاب او رسنت معتبر کے بھی مخالف هیں کیونکه قرآن ایسی کتاب هے جس میں باطل کا گزر بھی نهیں هے چنانچه خداوند عالم سوره فصلت میں ارشاد فرماتاهے :
“*لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ” * . 1
یه آیت قرآن میں هر قسم کے باطل کے نفوذ کا انکار کرتی هے (جس میں تحریف بھی شامل هے ) پس قرآن بطور مطلق نفوذ باطل کا انکار کررها هے زمان نزول اور اس کے بعد کسی بھی یا گروه کے ذریعه قرآن میں تحریف هونا ناممکن هے ۔

ایک اور مقام پر ارشاد هے ۔
“*إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ” *2
اس کے علاوه حدیث ثقلین میں قرآن اور عترت پیغمبر(ص)کا حوض کوثر تک ساتھ هونا اور مسلمانوں کو روزقیامت تک ان سے تمسک کاحکم دینا اس بات کی دلیل هے که قرآن رهتی دنیا تک تحریف سے پاک هے کیونکه تحریف شده کتاب کی ایسی پیروی کا حکم کوئی کسی کو نهیں دیتا هے ۔
حقیقت یه هے که تحریف کا دعوی اسلام کے رکن اساسی سے جنگ کرنا هے اور افسوس که بعض مغرض افراد مسلمانوں میں تفرقه افکنی اور ایجاد اختلاف کی خاطر اور وحدت کی دلسوز آواز کو دبانے کے لئے همیشه فتنه برپا کرتے هیں اختلافی مسائل کو هوا دے کر اتحاد کی فضا کو خراب کرتے هیں وه همیشه بعض اسلامی مذاهب کو عقیده تحریف کے لئے متهم کرتے هیں اور جب انهیں موقع ملتا هے همیشه اسی مسئله کو پیش کرتے هیں اور وه نهیں جانتے که دوسرے مذهب کی اس مخالفت سے وه خود تو قوی نهیں هوں گے لیکن ناخود آگاه قرآن کی تضعیف اور شبهء تحریف کو زنده کرنے کا باعث بنیں گے ،جو چیز مسلم هے وه یه هے که فریقین کی اکثریت تحریف کی مخالف هے او راسے ردکرتی هے اسی لئے کسی بھی اسلامی فرقه کی جانب تحریف کی نسبت نهیں دی جاسکتی اور وه قلیل جماعت جو عقیده تحریف پراڑی هوئی هے ان کا عقیده عدم تحریف کے محکم و متقن دلائل کے آگے بےاساس هوجاتا هے ۔
بھلا وه کتاب کیسے تحریف کاشکار هوگی جسے آغاز نزول سے لے کر اب تک نماز اور غیر نماز خلوت وجلوت میں صبح وشام قرائت کیا جاتاهے او رجس کتاب کو هر دور میں هزاروں حافظوں نے حفظ کیا هو خود نزول کے وقت چالس افراد نے اس وحی الهی کو لکھا جس کتاب میں مسلمانوں کی مورد نیازتعلیم موجود هو اور وه اس عظیم کتا ب سے هرروز استنباط و استفاده کرتے هوں، ایسی کتاب کی تحریف کا تصور جهل و غفلت او ر نادانی کی دلیل هے ۔

نصوص اور ظواهر قرآن کی حجیت
گذشته بحث میں روشن هوگیا که قرآن مجید صدور کے لحاظ سے قطعی هے اب هماری بحث دلالت قرآن کے بارے میں هے اس میں کوئی شک نهیں که قرآن کی آیات قابل فهم هیں لیکن ایسا بھی نهیں هے که سارے کاسارا قرآن دلالت کے لحاظ سے قطعی اور یقینی هو اس لئے که خود قرآن نے آیات کو محکم اور متشابه میں تقسیم کیا هے جیساکه ارشاد هے :
"*مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ "*
“جس میں سے کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں” ۔
لیکن آیات متشابه کو آیات محکمات کی روشنی میں تفسیر کیا جاسکتا هے ۔
دوسرا مطلب یه هے که خود محکمات بھی دوقسموں میں تقسیم هوتے هیں :
1- بعض نصوص ا س حدتک اپنے معنی پر روشن طریقه سے دلالت کرتے هیں که ان میں اختلاف معنی کا تصور بھی محال هے ۔
2- اور بعض نصوص ظواهر کے لحاظ سے ظنی الدلاله هیں ۔
اهم بحث انهی ظواهر کی حجیت کے بارے میں هے ۔ تمام علمائے اسلام ظواهر قرآن کو فی الجمله حجت مانتے هیں گرچه بعض اخباریوں نے حجیت ظواهر کو مورد تردید قرارد یا هے ان کی باتوں سے یه سمجھ میں آتا هے ظهور قرآن بطور مطلق حجت هے لیکن قرآن کی ایک خصوصیت یه هے که اس میں کوئی ظهور واقع نهیں هوا هے اور جو ظواهر قرآن شمار هوتے هیں وه در حقیقت متشابهات هیں که جسے هم ظواهر سمجھ بیٹھتے هیں ۔

حجیت ظواهر کے دلائل
کلی طور پر الفاظ قرآن کے ظواهر کا حجت هونا مسلمات میں سے هے که جس پر کسی دلیل و برهان کی ضرورت نهیں پھربھی حجیت ظواهر پردو دلیلیں پیش کی جاسکتی هیں ۔

1- ارتکاز عقلا
عام طور پر لوگ گفتگو کے دوران جو الفاظ اداکرتے هیں انهی الفاظ کے ظواهر پر اعتماد کرتے هیں معاملات کی اسناد کا عدالت کے مقدمات ، مکاتبات اور استدلال میں انهی ظواهر پر اعتماد کیا جاتا هے او رهر قائل کے ظواهر سخن کو فائده اورنقصان میں حجت قرار دیاجاتا هے شارع مقدس نےبھی اهل سخن کے اس طریقه کو نهیں چھوڑا اور لوگوں سے گفتگو میں کسی نئی روش کو ایجاد نهیں کیا بلکه انهیں کے طریقه کی تائید کرتے هوئے ظواهر قرآن کوحجت قرار دیا هے ۔

3- وضع الفاظ
حقیقت و مجاز اور کنایه و استعاره کا مقصدتفهیم و تفهم هے ایک دوسرے کی بات کو سمجھ اور سمجھانے کے لئے انهیں وضع اور قوانین لغت کو مرتب کیا گیا اب اگر ظواهر کو حجت قرار نه دیا جائے تو وه عمل خلاف مقصد لازم آئے گا پس ظواهر قرآن حجت هیں ۔3

حجیت ظواهر قرآن اور اخباری مسلک
اخباری ظواهر قرآن کی حجیت کو مسلم مانتے هیں ان کا کهنا هے ظاهر قرآن حجت هے مگر یه که ظواهر کی تاویل،تخصیص یا نسخ پر کوئی دلیل موجود هو -4 اس بحث کو شیعوں نے اپنی علم اصول کی کتابوں میں مفصل طریقه سے بیان کیا هے ۔ اس کی وجه وه فکر هے جو اخباری مسلک کے درمیان پیداهوئی ان کا کهناتھا که ظواهر قرآن سے احکام اسنتباط کرناناممکن هے . و ه کهتے هیں متعدد روایات هیں جس میں قرآن کی تفسیر اور اس سے احکام کے استنباظ سے منع کیا گیا هےاس لئے همارے سامنے اب ایک راسته هے که ضروریات دین کے علاوه تمام امور میں صرف روایات معصومین پر کان دهریں ان تعبیرکے حساب سے“ سماع الصادقین” پر گامزن رهیں ۔5 اور وه کبھی کهتے هیں : قرآن کا علم صرف پیغمبر(ص)اور ائمه علیهم السلام سے مخصوص هے اس لئے قرآن کے حقیقی مخاطب وه هیں نه که دوسرِے لوگ اس لئے فهم قرآن میں لازم هے که ان کی جانب رجوع کیا جائے -6. علمائے امامیه نے اخباریوں کے اس عقیده کی شدت سے مخالفت کی اور ان کا جواب دیا لیکن افسوس که بعض افراد یا اخباری اور دوسروں کے درمیان فرق نهیں کرتے هیں یا نهیں چاهتے وه اخباریوں کی خاص فکر کو تمام مکتب اهل بیت کے علماء کی جانب نسبت دیتے هیں ۔ اس موضوع سے مربوط روایات کی تحقیق اور دانشمندان شیعه کی آراء کو جاننے کے بجائے بعض مخصوص روایات کو اکٹھا کرکے بلکه بعض روایات کو کانٹ چھانٹ کر بغیر کسی تحقیق اور دوسری روایات سے مقابله کئےے بغیر اور مخصوص و مقید یا ناسخ و معارض کی توجه کے بغیر اخباریوں کے عقیده قرآن کو تمام علمائےشیعه کی جانب نسبت دیتے هیں اور اسےی مذهب اهل بیت علیهم السلام کے مسلّم عقائد پر شمار کرتے هیں-7۔
عجب تو یه هے که اهل سنت نے انهی کتابوں میں سے ایک کتاب میں قرآن کے بارے میں ان مطالب کی نسبت شیعوں کی جانب دی اور اس کا حواله اخباریوں کی کتاب مشارق السموس الدریه سے دیا -8۔
بهرحال اخباریوں نے روایات کے ظواهر سے استدلال کیا جب که کوئی بھی روایت ان کے ادعا پر دلالت نهیں کرتی9انهی میں سے وه روایات بھی هیں جو تفسیر بالرأی سے نهی کرتی هیں جب که که ظواهر قرآن جوکه ادبیات عرب کے مطابق اور سب کے لئے قابل فهم هے اسے چھوڑ کر اپنے خواهشات اور میلانات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کو کهتے هیں بعبارت دیگر اپنے افکار اور پیشد رویوں کو قرآن پر تحمیل کرنا جایز نهیں اور اس بات کا ظواهر قرآن سے اس کا کوئی ربط نهیں هے؟؟
یا وه روایات جو کهتی هیں فهم قرآن صرف پیامبر(ص)اور ائمه معصوم علیهم السلام سے مخصوص هے10 جب که ان روایات کا اشاره متشابهات اور بطون قرآن کی جانب هے نه که ظواهر قرآن کیونکه ائمه اهل بیت بارها اپنے اصحاب کو قرآن کی جانب رجوع کرنے کا حکم دیتے اور تشویق فرماتے تھے یهاں تک که تعارض روایات کی صورت میں فرماتے جو حدیث قرآن سے مطابقت رکھتی هو اسے لے اور جو حدیث ظاهر قرآن کے خلاف هو اسے چھوڑدو . هم بعض احادیث میں پڑھتے هیں : جس وقت ایک راوی نے کسی مئله مسئله میں امام سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
یعرف هذا و امثاله من کتاب الله عزوجل-11(*و ماجعل علیکم فی الدین من حرج )*
یا جس وقت راوی نے امام سے پوچھا آپ کے پاس کیاا دلیل هے که سرکے ایک حصه کا مسح، وضو ء میں کافی هے آپ نے فرمایا :
"*لمکان الباءوَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ ". *۔ 12
“ آیت میں باء کا پایاجانا کیونکه باء باء تبعیض اور بعض کے معنی میں هے”13۔
حجیت نصوص اور ظواهر قرآن کا مسئله اتنا واضح هے که اس میں کسی طولانی گفتگو کی گنجائش نهیں اور اخباری مسلک کے افکار متروک هوچکے هیں اور حوزه های علمیه میں آج ان افکار کا کوئی خریدار نهیں بلکه کها جاسکتا هے که اخباری مسلک کے افکار کا شمار منقرض اور نابود شده عقائد میں هوتا هے ۔
--------------
1 . فصلت ، 42 .
2 . حجر ، 9 .
3 . انوار الاصول ، ج2 ،ص 324 /323 .
4 . المهذب فی اصول الفقه المقارن ، ج3 ،ص 1202 .
5 . الفوائد المدنیه ،ص47 .
6 . هدیه البرار ، ص155 .
7 .اصول مذهب شیعه الاثنی عشریه ، ج1 ،ص155 به بعد .
8 . موقف الرفضه فی القرآن ، ص 362 .
9 . وسائل شیعه ،ج18 ، ابواب صفات القاضی باب 13 ، ح28/66/79 .
10 . سابقه مدرک ، ح3/6/9/10/12/15 وغیره .
11 . سابقه مدرک ،ب9 .
12 . مائده ، 6 .
13 . وسائل الشیعه ، ج1 باب 23 ابواب وضو ،ح1 .