تيسري فصل
حقوق نسواں کے دفاع کيلئے بنيادي نکات
چند اساسي نکات کو اپني توجہ کا مرکز بنايئے کہ جنہيں ميں آپ کي خدمت ميں عرض کر رہا ہوں۔
١۔معنوي اوراخلاقي امور کي طرف توجہ
پہلا نکتہ:
سب سے پہلي بات تو يہ کہ معنوي اوراخلاقي لحاظ سے خواتين کے فکري ارتقا اوررشد کا نکتہ خود خواتين کے درميان توجہ کا مرکز قرارپائے اور خود خواتين سب سے زيادہ اس مسئلے کے بارے ميں غوروفکر کريں۔ انہيں چاہيے کہ اسلامي معارف، تعليمات ، مطالعہ اورزندگي کے بنيادي مسائل کي طرف توجہ ديں۔ مغرب کي غلط تربيت اس بات کا باعث بني ہے کہ اس ملک ميں طاغوتي حکومت کے زمانے ميں خواتين کو بيہودہ قسم کي عياشي، عيش پرستي، خودنمائي اور ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد زينت و آرائش اوراپنے وجود اورجسم کو ہر ذريعے سے نامحرم مردوں کيلئے قابل توجہ بنانے کا موقع ملا کہ يہ سب معاشر ے پر مردانہ حاکميت کي نشانياں ہيں۔ مغرب ميں مردانہ حاکميت کي ايک نشاني يہ بھي ہے کہ عورت کو صرف مرد کيلئے استعمال کيا جاتاہے، اسي ليے کہتے ہيں کہ عورت زينت و آرائش کرے تاکہ مرد اُس کے وجود ميں لذت حاصل کرے ! يہ مردانہ حاکميت کي واضح دليل ہے۔ يہ عورت کي آزادي نہيں درحقيقت مرد کي آزادي ہے ۔ يہ لوگ چاہتے ہيں کہ مرد آزاد رہے خواہ وہ آنکھوں کے ذريعے سے ہي لذت حاصل کيوں نہ کرے۔يہي وجہ ہے کہ عورت کو مرد کے سامنے بے پردگي ، بے حجابي، زينت و آرائش اورہر و سيلے کے ذريعے اپنے وجود و بدن کو نماياں اورقابل توجہ بنانے کيلئے شوق ورغبت دلاتے ہيں ۔ البتہ مرد کي يہ خود خواہي صرف مذہبي معاشروں ہي سے مخصوص نہيں ہے بلکہ قديم ايام ميں بہت سے مرد اس خود خواہي ميں مبتلا تھے اور آج بھي ہيں جبکہ مغربي افراد اس (غير انساني اور) جاہلانہ فکر کا اعلي ترين مظہر ہيں۔ لہٰذا عورت کے علم ومعرفت و آگاہي وشعور، کسب معلومات واسلامي تعليمات کے حصول کيلئے اقدام کرنے کا مسئلہ خود خواتين کے درميان نہايت سنجيدگي کے ساتھ زير غور آنا چاہيے اورلازمي ہے کہ اُسے اہميت دي جائے۔
دوسرا نکتہ:
دوسري بات يہ کہ کچھ قوانين کي اصلاح کي ضرورت ہے ۔ مرد يا عورت سے سلوک و برتاو اورمعاملے کے بعض قوا نين کي اصلاح کي جاني چاہيے ۔ لہٰذا اس شعبے کے ماہرين کو چاہيے کہ مطالعہ کريں، تحقيق کريں اور قوانين کي اصلاح کريں۔
٢۔ حقوق نسواں کے بارے ميں اسلام کي نظر پر توجہ
ايک اور مسئلہ جو اہم ترين امورسے تعلق رکھتا ہے ،يہ ہے کہ مرد وخواتين کے حقوق کے بارے ميں اسلام کي نظر کي مکمل وضاحت ہوني چاہيے۔خودخواتين اس ميدان ميں کام کريںليکن سب سے زيادہ وہ افراد اقدامات کريں جو اسلامي تعليمات کے ماہرين ہيں تاکہ يہ لوگ ان مقامات کي کہ جہاں مرد و عورت کے حقوق ايک دوسرے سے مختلف ہيں، صحيح طورپر نشاندہي اوراُن کي وضاحت کرسکيںتاکہ نتيجے ميں ہر کوئي اِس بات کي تصديق کرے کہ يہ سب احکامات مرد وعورت کي اپني اپني خاص بشري طبيعت وفطرت کي بنياد اور معاشرے کي مصلحت کے عين مطابق ہیں۔ البتہ اس ميدان ميں بہت اچھے اقدامات بھي کيے گئے ہيں ليکن موجودہ زمانے کے تقاضوں اورفہم و ادراک کے مطابق بھي کام ہونا چاہيے ۔حالانکہ ماضي ميں بھي اچھے اقدامات کيے گئے تھے لہٰذا اگر کوئي اُن کا مطالعہ کرے اوران پر توجہ دے تو اِسي حقيقت اورتصديق تک پہنچے گا۔
٣۔انحرافي بحث وگفتگو سے اجتناب
تيسرا نکتہ يہ ہے کہ اس سلسلے ميں انحرافي بحث ومباحثے اورگفتگو سے اجتناب کرناچاہے۔ بعض افراداس فکروخيال سے کہ وہ خواتين کے دفاع کيلئے گفتگو کررہے ہيں،انحرافي بحثوں کي طرف کھنچتے چلے جاتے ہيں اور ديت (وميراث) وغيرہ کے مسائل کوبيان کرنا شروع کر ديتے ہيں حالانکہ يہ سب حقوقِ نسواں کے دفاع کے سلسلے ميں انحرافي بحثيں ہيں (اوران کا حقوق نسواں کے دفاع سے کوئي خاطرخواہ تعلق نہيں ہے اور يہ بحثيں مقصد سے قريب کرنے کے بجائے دوراورذہن کو الجھا ديتي ہيں)۔ مرد اورعورت کے بارے ميں اسلام کي نظر بہت واضح اورروشن ہے جيسا کہ بيان کيا گيا ہے کہ گھرانے اور خاندان کے بارے ميں بھي اسلام کي نظر بہت واضح ہے۔ اگر کوئي اس طرح (ديت،ميراث وغيرہ کے)ان مسائل کو (حقوق نسواں کے دفاع کے ذيل ميں) بيان کرے تو وہ اذہان کو مقصد سے دور کرنے اور انہيں حقيقت سے منحرف کرنے کے سوا کوئي اور کام انجام نہيں دے گا اورنہ ہي يہ کام صحيح اور منطقي ہے۔ انحرافي بحث و گفتگو کو کسي بھي صورت ميں ذکر نہيں کرنا چاہيے کيونکہ ايسي بحث وگفتگو حقوق زن کے دفاع کے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کيلئے صحيح طريقہ کار کے منافي ہے۔
٤۔ قانوني دفاع
ايک اور نکتے کي طرف توجہ دينے کي اشد ضرورت ہے اور وہ تمام شعبہ ہائے حيات خصوصاً خاندان و گھرانے ميں عورت کا اخلاقي اور قانوني دفاع ہے۔ قانوني دفاع کو موجودہ رائج قوانين کي اصلاح اور اُنہيں مزيد لازمي وضروري قوانين کو وضع کرنے کے ذريعے پايہ تکميل تک پہنچايا جاسکتا ہے۔ اسي طرح عورت کے اخلاقي دفاع کے اس مسئلے کو اچھي طرح بيان کرنے کے ذريعے سے انجام ديا جائے۔ ساتھ ہي عورت کے اخلاقي دفاع کے سلسلے ميں ان افراد کي فکر سے سنجيدگي اورقدرت کے ساتھ مقابلہ کيا جائے جو ان تمام امور کو اچھي طرح سمجھنے سے قاصر ہيںاور عورت کو گھر کي ملازمہ سمجھتے ہيں، اسے مرد کے ظلم وستم کا نشانہ بناتے ہيں اورعورت کے وجود کو خودسازي اور معنوي امور سے بے بہرہ خيال کرتے ہيں اوراسي طرح عمل بھي کرتے ہيں۔ ليکن ان افراد کے افکار سے مقابلہ مکمل طور پرعقلي ومنطقي ہونا چاہيے۔
٥۔خواتين کي عفت کي رعايت
اس کے بعد کا مسئلہ ،خواتين کي عفت وحيا کو اہميت دينے کا مسئلہ ہے۔ خواتين کے دفاع ميں انجام ديے جانے والے ہر اقدام اورتحريک ميں خواتين کي عفت و حيا کو اصلي رکن کي حيثيت دي جائے۔ جيسا کہ ميںنے آپ کي خدمت ميں عرض کيا کہ صرف اس نکتے کو اہميت نہ دينے اور خواتين کي عفت و حيا سے بے اعتنائي برتنے کي وجہ سے مغرب ميں بے حيائي اور ہر قيد و شرط سے آزاد زندگي گزارنے اور عزت و ناموس کو پارہ کرنے کا بازار گرم ہوگيا ہے۔ آپ اس بات کي ہرگزاجازت نہيں ديں کہ معاشرے ميں صنف نازک کي شخصيت کا اہم ترين عنصر ’’عفت وحيا‘‘ بے اعتنائي کا نشانہ بنے۔ عورت کي عفت دراصل اُس کي شخصيت کے ارتقا اور دوسروں حتي شہوت پرست اورآوارہ مردوں کي نگاہوں ميں اُس کي عزت و تکريم کاوسيلہ ہے ۔ ايک عورت کي شخصيت، عظمت اور اُس کا احترام اس کي عفت وپاکدامني سے وابستہ ہے۔ حجاب ،محرم ونامحرم ،نگاہ ڈالنے اور نہ ڈالنے کہ يہ تمام مسائل (مباح،حرام اورمکروہ کے قالب ميں) اسي ليے بيان کيے گئے ہيں کہ انساني معاشرے ميں عفت وپاکدامني کا اہم ترين انساني عنصر سالم ومحفوظ رہے۔اسلام نے خواتين کي عفت کو بہت زيادہ اہميت دي ہے البتہ مردوںکي پاکيزگي اورعفت بھي اہم اور بنيادي امور سے تعلق رکھتي ہے۔ عفت اورپاکدامني صرف صنف ِنازک سے ہي مخصوص نہيں ہے،مردوں کوبھي عفيف وپاکدامن ہونا چاہيے۔ ليکن چونکہ مردمعاشرے ميں اپنے مضبوط جسم اورجسماني طاقت کي وجہ سے عورت کو اپنے ظلم کو نشانہ بناتا ہے اورعورت کے ميل و رغبت کے برخلاف عمل کرتا ہے اسي ليے عورت کي عفت و پاکدامني کي حفاظت کيلئے زيادہ تاکيد اوراحتياط برتي گئي ہے۔
امريکي اعدادوشمار
آج آپ دنيا پر ايک نگاہ ڈاليئے تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ مغربي دنيا خصوصاً امريکا ميں خواتين کي مشکلات ميں سے ايک مشکل يہ ہے کہ مرد حضرات اپني طاقت وزورکے بل بوتے عورت کي عفت کي دھجياں اڑاتے ہيں ، اُن کي آبروريزي کرتے ہيں اوراُن کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہيں۔ خود امريکي حکومت کي طرف سے ديئے گئے اعداد و شمار ميں ،ميں نے خود يکھا ہے کہ جن ميں سے ايک امريکي عدالت اوردوسرا کسي اورمحکمے سے شائع ہوئے تھے۔اُن کے اعداد و شمار واقعاً بہت وحشت ناک ہيں،امريکہ ميں ہر چھٹے سيکنڈ ايک عزت و ناموس پر حملہ کيا جاتا ہے ! توجہ کيجئے کہ عفت کا مسئلہ کتنا سنگين اور اہم مسئلہ ہے کہ ہر چھٹے لمحے ايک ظلم و ستم کي نئي داستان رقم ہوتي ہے! عورت کي طبيعت ومزاج کے برخلاف، ظالم ،آوارہ، ہر قيد و شرط سے آزاد زندگي گزارنے کا خواہاں بے عفت مرد، عورت کي شخصيت و عفت کو تارتار کرتا ہے اور اُسے اپنے ظلم وتعدّي کانشانہ بناتا ہے۔ اسلام ان تمام مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھتا ہے۔اس حجاب کے مسئلے کو ہي ليے کہ جس پر اسلام نے اتني توجہ اورتاکيد کي ہے،اسي وجہ سے ہے ۔ پس عفت و پاکدامني کي حفاظت اور حجاب وعفت کو اہميت دينا بہت اہم ترين مسائل ہيں۔
٦۔ خواتين کي تعليم وتربيت کو اہميت دينا
ايک اورمسئلہ خواتين کي تعليم و تربيت کو اہميت دينا ہے ۔ميں نے بارہا اس مسئلے پر بہت تاکيد کي ہے ۔ خوشي کي بات يہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے ميں خواتين کي تعليم وتربيت ايک بہت عام اور رائج مسئلہ ہے۔ ليکن ان سب کے باوجود آج بھي بہت سے گھرانے ايسے ہيں جو تعليم نسواں کے خلاف ہيں اور اپني لڑکيوں کو تحصيل علم سے منع کرتے ہيں۔ ايک زمانہ وہ تھا کہ جب تعليمي ماحول وفضا غير محفوظ اور خراب تھي ليکن آج الحمد للہ اسلامي حکومت کا دور دورہ ہے ،آج کا معاشرہ ويسا نہيںہے۔لہٰذا ان گھرانوں کو چاہيے کہ وہ اپني لڑکيوں کوتحصيل علم کي اجازت ديں تاکہ وہ درس حاصل کريں، مطالعہ کريں،کتاب پڑھيں، ديني اور انساني معارف اورلازمي تعليمات سے آشنا ہوں ، ان کي فکري صلاحيتيں پروان چڑھيں اور اُن کے ذہن قدرت حاصل کریں۔ يہ کام بہت لازمي ہے اور اسے ہر صورت ميں انجام پاناچاہيے۔
٧۔ حقوقِ نسواں سے تجاوز کرنے والوں سے قانوني کاروائي
حقوق ِ نسواں کے دفاع کا آخري نکتہ يہ ہے کہ معاشرہ قانوني اوراخلاقي دونوں لحاظ سے خواتين پر تجاوز اور ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھنے والے (مردوںاور عورتوں ) کي سخت گرفت کرے، اُن کے خلاف قانوني کاروائي کرے اور قانون بھي اس سلسلے ميں سخت قسم کي سزاوں کو معين کرے۔
ايک بار پھر آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ مغربي ممالک اپنے ان تمام بلند وبانگ نعروں کے باوجود اپنے معاشرے کي عورت کو ابھي تک محفوظ نہيں بناسکے ہيں۔يعني ابھي تک بہت سي ايسي خواتين ہيں جو اپنے گھروں ميںاپنے شوہروں سے زدوکوب کا نشانہ بنتي ہيں اور بہت سي لڑکياں اپنے باپ کے ہاتھوں زخمي ہوتي ہيں۔ اس بارے ميں اعدادو شمارکمرشکن اور وحشت ناک ہيں۔ اس کے علاوہ وہاں ايک اورچيز موجود ہے اور وہ ہے ’’قتل نفس‘‘ وہ لوگ بہت آساني سے قتل کرتے اور خون بہاتے ہيں ۔ قتل کرنے کي وہ قباحت وبرائي جو اسلامي ماحول ومعاشرے ميں موجود ہے، اُن کے ماحول و معاشروں ميں کہ جہاں انہيں معرفت الٰہي کي خوشبو بھي نصيب نہيں ہوئي ہے، موجود نہيں ہے۔ خواتين کا قتل و غارت اُن بہت ہي قبيح اور نفرت انگيز برائيوں سے تعلق رکھتا ہے کہ جو آج مغربي ممالک بالخصوص بعض ممالک مثلاً امريکا ميں رائج ہے۔ خوشبختي سے يہ تمام چيزيں ہمارے ملک ميںاُس شدت اور آب وتاب سے موجود نہيں ہيں اور استثنائي مواقع کے سوا يہ کہيں اور نظر نہيں آتي ہيں۔ بہرحال خواتين کي نسبت ہر ظلم و ستم اور جسماني تعرض وتجاوز کے خلاف سخت قانوني کاروائي کي جاني چاہیے تاکہ اسلامي معاشرہ اُس مطلوبہ درجے تک پہنچ سکے کہ جسے اسلام چاہتا ہے۔
اگر کوئي ملک اپنے معاشرے کي خواتين کو اسلامي تعليمات کے سائے ميں اسلامي معارف سے آشنا کرے تو مجھے اس ميں کوئي شک و ترديد نہيں ہے کہ ملکي ترقي و پيشرفت ، دُگني اورچند برابرہوجائے گي۔ اگر خواتين اپنے وظائف و ذمے داريوں کي سنگيني کا احساس کرتے ہوئے زندگي کے کسي شعبے اور ميدان ميں قدم رکھيں تو خود اُس شعبے کي ترقي چند برابر ہوجائے گي۔ مختلف شعبہ ہائے حيات ميں خواتين کي موجودگي اور اُن کے حاضر ہونے کي خصوصيت يہ ہے کہ جب بھي ايک عورت ميدان ميں قدم رکھتي ہے تو اس کا شوہر اوراسکے بچے بھي اس کے ساتھ اسي ميدان ميں قدم رکھتے ہيں ۔ليکن مرد کا کسي ميدان عمل ميں حاضر ہونا يہ معني نہيں رکھتا بخلاف عورت کے۔ عورت جو گھر کي جان اورگھر کي روح رواں ہے، جب بھي ايک ميدان ميں قدم رکھتي ہے تو درحقيقت اپنے پورے گھر کو اُس ميدان ميں لے آتي ہے ۔اسي ليے مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں خواتين کا فعال وجود بہت اہميت کا حامل ہے۔ ١
ايک اہم نکتہ!
وہ اہم نکتہ کہ جسے ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں يہ ہے کہ خواتين کي مشکلات نے دراصل تاريخي اور قديمي ظلم وستم سے جنم لياہے۔اگر آج ايک مرد اپني بيوي سے بہت نزاکت،اخلاق اورتوجہ سے پيش آئے توممکن ہے کہ وہ اپني زندگي اور گھر کي فضا ميں اپني بيوي کے ساتھ معاشرت ميں اُس پر ظلم نہ کرے ليکن اگر مرد اس سلسلے ميں اخلاق، توجہ ، سنجيدگي اورتقويٰ کي رعايت نہ کرے تو اِس کا لازمي نتيجہ بيوي پر ظلم کي صورت ميں نکلے گا۔ مثلاًايک عالم وفاضل اورتعليم يافتہ عورت کا شوہر اَن پڑھ ہو تو يہ اَن پڑھ شوہر اپني عالمہ و فاضلہ بيوي پر ظلم کرے گا۔ بہت سي ايسي مثاليں ہيں کہ جہاں بيوي نے ڈاکٹريٹ کيا ہوا ہے اور ايک پڑھي لکھي خاتون ہے اور اُس کاشوہر اَن پڑھ ہے(يا کم تعليم يافتہ ہے) اور وہ گھر ميں اپني بيوي پرظلم کرتا ہے۔ ميري نظر ميں اس مسئلے کي طرف بہت زيادہ توجہ دينے کي ضرورت ہے واِلّا بہت سے اجتماعي مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہيں۔ ليکن ميں يہ بھي نہيں کہتا ہوں کہ ان مسائل کے حل کيلئے اقدامات نہيں کرنے چاہئيں اور انہيں اُن کے حال پر چھوڑ ديا جائے کہ يہ خود بخود حل ہوجائيں، ہرگز نہيں۔ ميري مراد يہ ہے کہ مسائل پر توجہ دينے اور انہيں حل کرنے کي رفتار اورطريقہ کار کو روزبروز بہتري کي طرف گامزن ہوناچاہيے۔ جيسا کہ آپ ديکھ رہے ہيں کہ آج کل قضاوت اورقاضي بننے کے سلسلے ميں حوزہ ہائے علميہ ميں سنجيدہ بحث جاري ہے اور مختلف حضرات اس ميں شريک ہيں۔
--------
١ اکتوبر ١٩٩٧ ميں تہران کے آزادي جيم خانے ميں خواتين کي ايک بڑي کانفرنس سے خطاب
آپ کي رپورٹ ميں ميں نے ديکھا ہے کہ آپ نے ملکي قانون ميں بہت سے مقامات کي نشاندہي کي ہے، ميں ان مقامات کو ذکر کرنا نہيں چاہتا ہوں کہ کون سا درست ہے اور کون سا غلط؟آپ نے رپورٹ ميں بہت سے اعتراضات ، عيوب اور نقائص کو بيان کياہے کہ جن ميں سے بعض بجا اور درست ہيں۔ ليکن ميں نے ديکھا کہ آپ کي طرف سے پيش کيے گئے يہ اعتراضات اس طرح نہيں ہيں کہ جو ہر صورت ميں ہماري موجودہ اور رائج فقہ سے تعارض رکھتے ہوں، ايسي کوئي بات نہيں۔ ليکن ميں نے جن اعتراضات و نکات کا مطالعہ کيا ہے اور اگر انہيں حقوقي نظر سے اچھي طرح منظم کيا جائے تو ہماري ملکي قانون ميںبغير اس کے کہ وہ ہماري رائج فقہ سے ٹکرائے،تبديلي کي جاسکتي ہے۔ ميري نظر ميں يہ کام بہت مثبت اورمفيد ہے اور اس سلسلے ميںآپ خواتين کو کام کرنے کي ضرورت ہے اور يہ دوسرے بقيہ امور سے زيادہ اہميت کا حامل ہے۔
خواتين کي نسبت مغربي نگاہ کے جال ميں پھنسنے سے پرہيز
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ميں کبھي کبھي يہ ديکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اپني زبان سے خواتين کے حقوق کي دفاع کي بات توکرتے ہيں ليکن عملاً ايسي فاش غلطيوں کا ارتکاب کرتے ہيں کہ جو کسي بھي صورت ميں خواتين کے حق ميں نہيں ہيں! يعني يہ افراد(مسلمان عورت کيلئے آئيڈيل تراشنے کيلئے) مغربي عورت کو ديکھنے لگ جاتے ہيں کہ وہ کيسي ہے اور کيا کرتي ہے تاکہ اُسے آئيڈيل کے طور پر پيش کرسکيں۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ اُن کا يہ طرزفکر، اسلامي انداز فکر سے بہت مختلف ہے جبکہ اسلامي فکر و نگاہ ان کي فکر ونگاہ سے بہت زيادہ عميق ، ترقي يافتہ، ناقابل مقايسہ اور خواتين کيلئے ہر حال ميں سودمند ہے۔ ہميں مغربي عورت سے کچھ حاصل کرنے کي ضرورت نہيں ہے۔
بعض افراد ہيں جو حقوق نسواں کے دفاع کے بارے ميں دفاعي حالت اختيار کرتے ہيں۔ جب اہل مغرب ويورپ يہ کہتے ہيں کہ (يہاںمسلمان معاشروں ميں) عورت پر ظلم ہوتا ہے تو يہ لوگ يہ ثابت کرنے کيلئے کہ يہاں ہمارے ملک ميں عورت پر ظلم نہيں ہوتا، اپنے دفاع ميںبہت سے باتيں بيان کرنا اورمختلف قسم کے کام کرنا شروع کرديتے ہيں اوربہت سے ايسے امور کا تظاہر کرتے ہيں کہ جن کا خواتين پر ظلم ہونے سے کوئي تعلق نہيں ہوتا ہے۔ فرض کيجئے کہ خواتين کي روزش سے متعلق بعض خلاف ورزياں کہ جنہيں ميں نے خودسنا ہے، بعض مقامات پر ظاہر ہوتي ہيں۔ صحيح ہے کہ يہ خلاف ورزياں اور غلطياں ہيں ليکن اِس کا اس بات سے کوئي تعلق نہيں ہے کہ ہم يہ کہيں کہ اس کے ذريعے خواتين پر ظلم کيا جارہا ہے۔
وہ لوگ يہ نہيں کہتے ہيں کہ اجتماعي ميدان ميں عورت ظلم کا شکار ہے ۔خواتين پر سب سے زيادہ ظلم اُس کے اپنے گھر ميں خود اُس کے شوہر کے ہاتھوں انجا م پاتا ہے اورشايد نوے فيصد سے زيادہ يہ ظلم اُس کے شوہر کي طرف سے ہوتا ہے لہٰذا اس اجتماعي مسئلے پر توجہ ديني اوراس کي اصلاح کرني چاہيے۔بھائي ،بہن اور باپ وغيرہ کي طرف سے ہونے والا ظلم اتنا نہيں ہے اور يہ صورتحال بہت نادر ہے۔ ہاں کچھ واقعات ہيں کہ ممکن ہے کہ بھائي،بھائي پر ظلم کرے يا اُسي طرح بھائي بہن آپ ميں اختلاف کے نتيجے ميں ايک دوسرے پر ظلم کريں اور مناسب و غير مناسب اورظالمانہ يا عادلانہ رويہ اختيار کريں۔ليکن جو چيز سب سے زيادہ اہم ہے کہ جس کي اچھي صورت بھي کبھي کبھي خراب ہوجاتي ہے ، وہ گھر کے اندر آپس کے تعلقات اوررويہ ہے۔ حتي کبھي کبھار يہ ديکھنے ميں بھي آتا ہے کہ ان تعلقات اوررويے کي قابل ملاحظہ صورتحال اوراچھي حالت بھي بري ،نامناسب اورظالمانہ ہوتي ہے۔
تھوڑا سا انصاف کيجئے!
آپ پيار و محبت سے اپني نورچشم بيٹي کوپروان چڑھاتے ہيں اور پندرہ يا سولہ سال بعد اُسے اس کے شوہر کے گھر بھيج ديتے ہيں۔ شوہر کے گھر ميں آپ کي بيٹي سے اُن کي بيٹي جيسا برتاو نہيں کيا جاتا ہے۔ آپ جانتي ہيں کہ (ساس، بہو اورنندو بھابھي کا مسئلہ) ہمارے معاشرے کا ايک عام سا مسئلہ ہے ١ ۔ يعني آپ دوسرے کي بيٹي کو اپنے بيٹے کيلئے بيوي (اوراپني بہو بناکر لاتي ہيں توکيا آپ اپني بہوسے اپني بيٹي جيسا برتاو کرتي ہيں؟)اوروہ گھرانہ جو اپنے بيٹے کيلئے آپ کي بيٹي کو دلہن بناکر بہو کے عنوان سے اپنے گھر لے جاتا ہے ،کيا وہ بھي آپ کي بيٹي سے يہي برتاو کرتا ہے جو آپ اپني بہو سے کرتي ہيں؟ (ذرا انصاف کيجئے!) ان تمام معاشرتي مسائل کا علاج کرنا چاہيے اور يہ مرد وعورت کے آپس ميں تعلقات سے مربوط ہے۔ اگر مياں بيوي کے تعلقات و روابط مکمل طور پر عادلانہ ،اسلامي، صحيح اورمحبت آميز ہوں تو ظلم و ناانصافي کرنے والے ايسے گھرانوں کے عمل اور برتاو کي کوئي تاثير باقي نہيں رہے گي يعني لڑکي کيلئے سسرال والوں کي طرف سے سختي اورمختلف باتوں کے تھونپے جانے کي جرآت اورموقع باقي نہيں رہے گا۔ ان سب کي بازگشت مياں بيوي کے درمياني تعلقات کي طرف ہوتي ہے جو عورت پر ظلم کي راہيں کھولتے ہيں۔ يہ وہ نکتہ ہے کہ جسے ميں آپ خواتين کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا تھا۔ ١
١ ساس بہو اوربھابھي نند کے درميان گھريلو اختلافات ہمارے يہاں ايک عام مسئلہ ہے ۔ يہ فطري سي بات ہے کہ والدين اپني اولاد اوربيٹيوں کو بہت چاہتے ہيں اور بڑے پيار و محبت سے ان کي تربيت کرکے رشتہ ازدواج ميں انہيں منسلک کرتے ہيں۔ اُن کي خواہش ہوتي ہے کہ اُن کي نورچشمي اپنے سسرال ميں بھي ويسا ہي سکھ پائے جيسا اپنے ميکے ميں پاتي تھي ۔ ليکن بہت سے گھرانے ايسے ہيں کہ جب وہ دوسرے کي بيٹي اپنے گھر ميں بہوبناکر لاتے ہيں تو وہ يہ بھول جاتے ہيں کہ يہ بہوبھي کسي گھر کا نور اورکسي ماں کے دل کا چين ہے اورخود اُن کي اپني بيٹي کسي کے گھر ميں بياہي گئي ہے۔ چنانچہ يہ افراداس بہو سے بعض غيروں والا سلوک کرتے ہيں حتي يہ بھي بھول جاتے ہيں کہ يہ بھي ايک انسان ہے اور دھڑکتے دل اوراحساسات کي مالک ہے۔
طعنے ،جھڑکياں او ر چبھنے والي باتيں روزانہ بہو کي خدمت ميں پيش کي جاتي ہيں اوربالفرض اگر بہو سيدھي سادي اور شريف ہو تو پلٹ کر ساس اور نندوں کو کچھ نہيں کہے گي، ساس کا پھولا منہ، بگڑاچہرہ، نندوں کي باتيں،طعنے اور گھور گھور کر ديکھنے والي آنکھيں سب نشتر کے تيروں کي طرح بہو کے دل کو زخمي کرديتے ہيں۔ليکن يہ لوگ بھول جاتے ہيں کہ ان کي اپني بيٹي بھي کسي کي بہو ہے!
حديث ميں ہے کہ ’’اپنے اور لوگوں کے درميان انسان خود انصاف کرے،جو اپنے ليے پسند کرے وہي دوسروں کيلئے، جسے اپنے ليے ناپسند قرار دے اُسے دوسروںکيلئے بھي ناپسنديدہ قرار دے۔‘‘
نہ جانے بہو پر ظلم کرنے والے يہ حديث کيوں فراموش کرديتے ہيں؟ کيا ان کي خواہش نہيں ہے کہ ان کي اپني بيٹي دوسرے کے گھر ميں بہو کے عنوان سے سدا سکھي رہے؟ تو يہ اپنے گھر کي بہو کو بھي سکھي رکھيں!جب يہ لوگ چاہتے ہيں کہ ان کي اپني بيٹي سے اُس کے سسرال ميں پيار ومحبت کا سلوک کيا جائے توانہيں چاہيے کہ پرائے کي بيٹي سے بھي پيار و محبت کا سلوک کريں۔
--------
لہٰذا ہم سب کو ذرا سے انصاف کے ذريعے اپنے ماحول اورگھر کي فضا کو بہتر بنانے کي کوشش کرني چاہيے۔ اس ساس بہو اوربھابھي نند کے جھگڑے ميں سب سے اہم کردار شوہر کا ہے۔ دن بھر کي جنگ کي رپورٹ بيوي اپنے شوہر کو دن کے اختتام پر پيش کرتي ہے۔شوہر کي ذمہ داري ہے کہ وہ اپني بيوي کي صحيح حمايت کرے اور اُس کي ڈھارس باندھے کيونکہ يہ اُس کي بيوي ہے جو اپنا سب کچھ ، گھربار، ماں باپ ، ماضي اور خواب و خيالات سب کچھ چھوڑ کر شوہر کے پاس آئي ہے اور اس کي محبت و چاہت کي طلبگار ہے۔ اب يہاں اگرشوہر بيوي کي جائز حمايت نہ کرے تو بيوي کا دل ٹوٹ جائے گا۔ لہٰذا شوہر اپنے صحيح طريقے اور اسلامي روش واحکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کو سلجھائے۔ والدين اوربہن بھائيوں کا احترام بھي محفوظ رہے اور بيوي بھي خوش رہے۔ لہٰذا اس ضمن ميں شوہر کي ذمہ داري بہت سنگين ہے۔اب جہاں تک بہو کے کردار کي بات ہے تو ان شائ اللہ ان تمام مسائل کے بارے ميں ميںايک الگ کتاب آپ کي خدمت ميں پيش کي جائے گي۔(مترجم)
١ نومبر ١٩٩٦ ميں خواتين کي ثقافتي کميٹي کے اراکين سے ملاقات
چوتھي فصل
حقوق نسواں کے دفاع کيلئے تين بنيادي نکات
اس مسئلے ميں ميري نظر ميںجو چيز اہميت کے قابل ہے وہ دو تين نکات ہيں اور ميري آپ سے توقع اور خواہش يہ ہے کہ ان نکات پر پوري توجہ ديں۔
١۔عورت کوعورت اور مرد کو مرد رہنے ديے
پہلي بات
اولاً حقوق نسواں کا مسئلہ کوئي ايسامسئلہ نہيں ہے جو صرف اسلامي جمہوريہ ايران سے ہي مخصوص ہويا ہم يہ خيال کريں کہ اس مسئلے ميں صرف ہم ہي ہيں جو اپنے معاشرے سے لڑرہے ہيں،نہيں! يہ ايک تاريخي جنگ ہے يعني پوري تاريخ ميںواضح دلائل کي روشني ميں عورت ہميشہ مرد کے ظلم و ستم کا نشانہ بني ہے۔ اس کا ٹھوس ثبوت يہ ہے کہ عورت جسماني لحاظ سے مرد سے کمزور ہے اور يہ بہت واضح و روشن امر ہے۔
مرد کي آواز عورت سے زيادہ بھاري، قدوقامت کے لحاظ سے وہ بلند و بڑا اورجسماني ساخت کے لحاظ سے بڑے جثے و ہيکل کا مالک ہے۔ مردانہ تخليق کي خصوصايت ميں تسلط، برتري اور فعال ہونا شامل ہے جبکہ عورت کي تخليقي خصوصيات ميں اس کي نرمي، لطافت،ملائم ہونا اورجذب کرنا شامل ہے۔
دوسري بات
اگر آپ عورت کے بارے يں اسلامي تعبيرات کوملاحظہ کريں تو آپ ديکھيں گے کہ عورت کے بارے ميں حقيقي اور واقعي تعبيرات موجود ہيں ۔ ’’اَلمَرآَۃُ رَيحَانَہ? ولَيسَت بِقَھرَمَانَۃٍ ‘‘ ١ عورت پھول ہے ،ريحانہ يعني پھول، انسان پھول کے ساتھ کيساسلوک کرتا ہے؟ پھول کے نرم وجود کے مقابلے ميں انسان کيا طرز عمل اپناتا ہے؟ اگر پھول سے کُشتي لڑي جائے تو پھول کي پتياں الگ الگ ہوکر بکھر جائيں گے اور پھول کا پورا وجود ہي ختم اور نابود ہوجائے گا۔ اگر پھول کو پھول سمجھيں اور اُس سے پھول جيسا برتاو کريں تو يہ زينت کا باعث بنے گا اور خود پھول کا وجود ايک اہميت وخاصيت کو پائے گا۔
----------
١ نہج البلاغہ نامہ ٣١
’’ولَيسَت بِقھرمَانَۃٍ ‘‘ وہ قہرمان نہيں ہے، قہرمان کا مطلب پہلوان نہيں ، يہ ايک عربي تعبير ہے جو فارسي زبان سے لي گئي ہے ،قہرمان يعني خود کسي کام کو مستقيماً انجام دينے والا، انچارج يا ٹھيکے دار جو اپني نگراني ميں مختلف کام انجام ديتا ہے،يعني عورت کو اپنے گھر ميں کاموں کو انجام دينے والا انچارج نہ سمجھيں۔يہ خيال نہ کريں کہ آپ گھر کے مالک اور مطلق العنان سربراہ ہيں اورگھر کے کام کاج اور بچوں کي تربيت وغيرہ جيسے اہم بڑے چھوٹے کام ايک انچارج کے پاس ہيں اور گھر کي انچارج آپ کي بيوي ہے لہٰذا اس سے ايسا سلوک روا رکھا جائے جو ايک سربراہ اپنے ماتحت افراد سے رکھتا ہے !يہ مسئلہ ايسا نہيں ہے۔
تيسري بات
آپ ملاحظہ کيجئے کہ مرد کا يہ برتاو اور سلوک، ايک حقيقي برتاو ہے اور براہ راست عورت کي طبيعت ومزاج سے مخاطب ہے۔ عورت تو اپني طبيعت ومزاج کو فراموش نہيں کرسکتي اورمصلحت بھي نہيں ہے کہ وہ اسے فراموش کرے۔ وجہ يہ ہے کہ ايک کامل خانداني نظام زندگي ميں عورت کي يہ طبيعت ومزاج بہت موثر ہے اور يہ لازمي بھي ہے۔ وگرنہ اگر اِس جنس (عورت) کو خواہ حقيقي و واقعي طور پريا خصوصيات و عادات کے لحاظ سے ايک دوسري جنس ميںتبديل کرديں ١ تو گويا ہم نے اُس کے کمال کو کم کرديا ہے، کيا حقيقت اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟
ہميں چاہيے کہ عورت کوعورت اور مرد کو مرد ہي رہنے ديں تاکہ نظام ہستي کا کاروبار اپني خوبصورتي کے ساتھ اپنے کمال کو پہنچے ۔ اگر ہم نے مرد کو اس کي تمام خصوصيات ، عادات و صفات ،مردانہ مزاج اور اُس کے تمام وظائف کے ساتھ عورت ميں تبديل کيا يا عورت کو مرد ميں تبديل کيا تو يہ بہت بڑي غلطي ہوگي۔
١ عورت، عورت ہي رہ کر اپني نرم و لطيف طبيعت و مزاج کے ساتھ ہي خانداني نظام زندگي ميں موثر کردار ادا کرسکتي ہے ۔ عورت کا کمال اُس کي نسوانہ فطرت، زنانہ طبيعت ومزاج اورخصوصيات سے ہي وابستہ ہے۔ چنانچہ اگر عورت کو جنس کے لحاظ سے يا عادات وصفات ،طبيعت ومزاج اور وظائف کے لحاظ سے تبديل کيا جائے تو يہ سراسر غلطي ہے ۔ يہ نظام ہستي ميں عورت کے کمال کو کم کرنے کے مترادف اور اُسے اُس کے حقيقي مقام سے ہٹانے کے برابر ہے۔(مترجم)
’’فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللّٰہِ‘‘ ١ قرآن ميں ذکر کي گئي تخليق خدا کي تبديلي يہي ہے۔ اگر ايسا کيا توہم نے عالم ہستي کے کامل ترين نظام کو تباہ و برباد کرديا کہ جس ميں ايک جنس اِن خصوصيات اورعادات وصفات کے ساتھ اور دوسري جنس اِن خُلقيات اور خاص طبيعت ومزاج کے ساتھ ہے تاکہ دونوں ايک دوسرے کو مکمل وجود بناسکيں۔
چوتھي بات
اس تمام گفتگو سے ميري غرض يہ تھي کہ تاريخ ميں جہالت کي وجہ سے عالم خلقت کے ان دونوں وجود، مرد وعورت کي اپني اپني خاص صفات ، عادات اورطبيعت کو خوداُس کے خاص تناظر ميں ديکھا نہيں گيا ہے لہٰذا مرد نے اپنے طاقت وقدرت کے بل بوتے ہميشہ ظلم و ستم کيا ہے اور عور ت اُن کے تاريخي ظلم کي ايک منہ بولتي تصوير ہے۔ کيا آپ نے توجہ اور غور کيا؟! يہ مسئلہ دراصل ايک تاريخي ظلم وستم سے مقابلہ ہے لہٰذا اگر ہم نے اس مقابلے ميں عجلت ، سطحي نگاہ ، تدبُّر وتعمق کے بغير اور اس چيز کو مدنظر رکھے بغير کہ ہميں کيا کرنا چاہيے ،کام کيا تو ہمارا يہ اقدام کاميابي کو کئي سالوں عقب دھکيل دے گا، بنابرايں،بہت پختگي اور سنجيدگي کے ساتھ مگر مسلسل کام کرنے کي ضرورت ہے۔
٢۔ اسلامي ثقافت، شرعي احکامات اوررضائے الٰہي پر توجہ
مغربي ثقافت کا ظاہري مثبت نکتہ
دوسرا نکتہ يہ ہے کہ اگر آج ہم دنيا کو دو حصوں ميںتقسيم کريں ،ايک حصہ مغربي ثقافت سے متلعق ہے جبکہ دوسراحصّہ ديگر مختلف ثقافتوں سے،توہم يہ کہہ سکتے ہيں مغربي ثقافت والي نصف دنيا ميں عورت پر نسبتاً زيادہ ظلم ہوا ہے۔ مختلف حوالوں، ذرائع ابلاغ اورموثق ذرائع سے ملنے والي خبروں، حادثات وواقعات،اعدادوشمار، رپورٹوں اورتجزيہ وتحليل کے ذريعے ميں يہ دعويٰ کرسکتا ہوں۔
توجہ فرمائيے کہ مغرب ميں ايک ايسا مسئلہ ہے کہ جو آنکھوں کو خيرہ کرتا ہے اور وہ يہ ہے کہ اس معاشرے ميں مرد و عورت کے درميان اُن کے اجتماعي معاملات، کردار اوربرتاو ميں کوئي فرق نہيں رکھا گيا ہے۔ يعني جس طرح ايک جلسے يا محفل ميں ايک مرد داخل ہوتا ہے ، سلام عليک اوراحوال پرسي کرتے ہوئے اس محفل کا يک جز بن جاتا ہے، اسي طرح ايک عورت بھي آتي ہے اور اس محفل کا حصہ بن جاتي ہے۔ چنانچہ اُ س معاشرے ميں اِس جہت سے مرد وعورت کے کردار وعمل ميں کسي قسم کا کوئي فرق اور طبقاتي يا انساني جنس کے لحاظ سے کوئي فاصلہ موجود نہيں ہے۔ آپ نے توجہ فرمائي ! مغربي معاشرے کے اس اجتماعي سلوک اور عمل نے دنيا والوں کي آنکھوں کو خيرہ کرديا ہے۔
----------
١ سورئہ نسائ / ١١٩
انسان جب اس ظاہري حالت کو ديکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ يہ تو ايک وضعِ مطلوب ہے اور سب اس وضع وحالت سے خوش ہيں ۔ حتي وہ افراد جو اپنے منطقي دلائل کي وجہ سے اس اجتماعي رفتار وسلوک کے مخالف ہيں جب اسے ديکھتے ہيں تو يہ کہتے ہيں کہ يہ کوئي اتني بري چيز نہيں ہے ! وہ ايک معاشرتي نظام ميں مرد و عورت کو دواجنبيوں کي طرح نہيں ديکھتے ہيں بلکہ ان پر بہن بھائي کي حيثيت سے نگاہ ڈالتے ہيں کہ دونوں جب ايک گھر ميں داخل ہوتے ہيں تو ايک دوسرے کو سلام کرتے ہيں،ايک دوسرے کي مزاج پرسي کرتے ہيں اور ساتھ زندگي گزارتے ہيں! مغرب ميں مردو عورت اس طرح آپس ميں زندگي بسر کرتے ہيں۔
اس ظاہري مثبت نکتے کے پس پردہ منفي نکات
يہ ايک مثبت نکتہ ہے ليکن بہت سطحي اورظاہري، ليکن اسي ظاہري نکتے کے پس پردہ بہت سے منفي نکات پوشيدہ ہيں ۔ سب سے پہلي بات يہ کہ گھر کي چار ديواري ميں بالکل ايسا نہيں ہے ۔ يہ کوئي منبري گفتگونہيں ہے جو چند سامعين کوخوش کرنے يا کوئي نعرہ نہيں ہے جو چند افرا دکو جمع کرنے کيلئے لگايا جائے بلکہ يہ سب حقيقت اور سچي خبريں ہيں اور ان کے ديئے ہوئے اعداد وشمار سے اخذ شدہ ہيں۔ گھروں ميں خواتين پر ظلم و ستم ہوتا ہے حتي اس خاتون پر بھي جو اپنے ملازم شوہر کي مانند ملازمت کرتي ہے اور دن ميں دو گھنٹے کي چھٹي ميں جب گھر آتي ہے تو اس پر ظلم ١ ہوتا ہے !
کيسے ظلم ہوتا ہے ؟ اس ليے کہ يہ دو انسان ہيں،ايک مردہے اور ايک عورت۔ اگر يہ صورتحال ايک تصوراتي اور آئيڈيل صورتحال ہوتي يعني يہ دو انسان ہيں،دونوںملازمت کرتے ہيں، رات کو تھکے ہارے آتے ہيں اور سو جاتے ہيں ، صبح اٹھتے ہيں اوردوبارہ اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہيں ۔حالانکہ يہ دونوں مرد نہيں ہيں، ان ميں سے ايک مرد ہے اور ايک عورت۔مرد وعورت ميں سے ہر ايک کو الگ الگ چيز کي ضرورت ہوتي ہے۔ايسے ماحول ميں مرد پربھي ظلم و ستم ہوتا ہے۔ ليکن چونکہ مرد، عورت کي بہ نسبت مضبوط و قوي ہوتا ہے لہٰذا ہم اُس کے ظلم کو يہاں بيان نہيں کرنا چاہتے ہيں۔ جس پر يقيني صورت ميں ظلم ہوتا ہے وہ عورت ہے ،اس ليے کہ وہ مرد جو اس عورت کو شوہر ہے ،اور بہت خواتين سے جنسي اور عاشقانہ تعلقات رکھتا ہے۔ اس کے يہ ناجائز تعلقات اورروابط مکمل طورپر سچے اور وفادار مياں بيوں کي مانند محبت سے لبريز ہوتے ہيں حالانکہ وہ اپنے اہل وعيال سے بھي ايسے تعلقات نہيں رکھتا ہے!
---------
١ يہاں لفظ ظلم سے کوئي مشتبہ امر پيدا نہ ہو کيونکہ ظلم صرف کسي کو زدو کوب يا لگدمالي کا نشانہ بنانا نہيں ہے۔ ظلم کي وضاحت صفحہ 84پر ہوچکي ہے ، ظلم ايک وسيع مفہوم ہے اور اسکے کئي مصداق ہيں۔ لہٰذا ظلم کا وہي معني مراد ليا جائے جو متن ميں موجود سياق و سباق اورقرينے سے سمجھا جائے۔ (مترجم)
يہ ايک عورت پر بہت کاري ضرب اور بہت بڑ احملہ ہے ۔ايک بيوي کي خواہش ہوتي ہے کہ وہ اپنے جيون ساتھي سے محبت آميز، صاف شفاف اور نزديکي ترين تعلقات رکھتي ہو اوريہ دونوں پوري دنيا سے زيادہ ايک دوسرے کے قريب ہوں۔ لہٰذا ايسے گھرانے ميں سب سے پہلي چيز جو عورت سے چھيني جاتي ہے ، يہي ہے! اب آپ فرض کيجئے کہ کوئي ايسا شوہر ہو کہ جو کبھي اپني بيوي سے رحم کا سلوک بھي کرے اور کبھي ظلم بھي کرے ليکن پھر بھي اُس کے ساتھ گہرا دوستانہ و عاشقانہ اوربقول معروف ’’جانم، سوئٹي يا ہني‘‘ کا رابطہ رکھتا ہو۔ توکيا يہ رابطہ اورتعلقات بہترہيں يا نہيں ؟ يعني دو دوستوں کي مانند يہ دونوں گھر ميں داخل ہوں ، ايک دوسرے کو سلام کريں، احوال پرسري کريں،ميز پر بيٹھ کر ايک ساتھ چائے پئيں اوراسکے بعد يہ اپني راہ لے اور وہ اپني راہ! مسلّم ہے کہ يہ بھي پہلي صورتحال سے بہتر نہيں ہے۔
آپ ايک عورت کي حيثيت سے اس فيصلے کيلئے اپنے وجدان کي طرف رجوع کيجئے کہ کياآپ اس دوسري صورت حال کو پہلي کي بہ نسبت زيادہ پسند کرتي ہيں؟ يہ شوہر قابل تحسين ہے يا پہلا شوہر ؟ميں گمان بھي نہيں کرسکتا کہ کوئي ايسي عورت موجود ہو کہ جو اس دوسرے شوہر کو پہلے والے شوہر پر ترجيح دے۔يعني وہ بيوي (پہلے والے سخت گير) شوہر کي سخت مزاجي کے نتيجے ميں پيدا ہونے والي تلخي کو اس (دوسرے شوہر) سے اس کي حقيقي محبت و چاہت اور اس بات کے مقابلے ميں کہ اُس کا شوہر اس کے سوائے کسي اور عورت کا عاشق ودلداہ اور کسي اور سے جنسي تعلقات رکھنے والا نہيں ہے، قبول کرليتي ہے۔ آپ نے توجہ فرمائي ! يہ ہے وہ پہلا ستم جو مغربي عورت پر ہوتا ہے۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ وہاں تمام گھرانے ايسے ہيں ليکن معمولاً صورتحال يہي ہے اور دوسري جانب عورت پرہونے والا جسماني ظلم اور اذيت وآزار دوسري طرف!
ميں نے دو سال قبل (١٩٩٥) ايک امريکي جريدے ميں گھروں ميں ہونے والے مردوں کے ظلم و ستم کے اعداد وشمار کا مطالعہ کيا تھا،وہ اعداد و شمار واقعاً بہت وحشتناک تھے۔ البتہ آپ کو معلوم ہے کہ امريکي بعض جہات سے مثلاً کُھلے ٹُلے ہونے ميں قديم يورپي ممالک سے بہتر ہيں اور انگلستان، فرانس اورديگر يورپي ممالک کے مقابلے ميں زيادہ کھلے ہيں۔
يہي کھلي حالت جو مغربي ثقافت ميں مشاہدہ کي جاتي ہے، امريکا ميں يورپي ممالک سے زيادہ ہے، ليکن اس کے ساتھ ساتھ امريکا ميں ايک گھريلو عورت پرظلم و ستم ،زدوکوب اوراہانت تحقير دوسرے مغربي ممالک سے بھي زيادہ ہے۔ ان اعداد و شمار ميں ميں نے خود ديکھا ہے ، وہ لکھتے ہيں کہ يہ اُن لوگوں کے اعداد وشمار ہيں جنہوں نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آکر شکايت درج کرائي ہے جبکہ شکايت درج نہ کرانے والوں کي ايک کثير تعداد موجود ہے۔
ہم کيا کريں؟
پس آپ ديکھئے کہ يہ وہ پہلا ظلم ہے جو وہاں کي خواتين پر ہوتا ہے اور کوئي اُس کي طرف متوجہ نہيں ہے۔ اب ايسي حالت ميں ہم آئيں اوراپنے شعاروں اورنعروں ميں ايسي چيزوں کو بيان کريں کہ جو مغربي ثقافت خواتين کے حقوق کے دفاع يا خود خواتين سے برتاو کے عنوان سے بيان کرتي ہے اور انہيں شعار اور نعروںکي حيثيت سے متعارف کراتي ہے! کيا يہ مصلحت ہے؟ ان تمام چيزوں کو آئيڈيل بناکر انہيں مسلمان معاشرے کے سامنے پيش کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہمارے ليے کہيں سے بھي سودمند نہيں ہے۔
اگر آپ اسلام کي نظر کو حقيقي اور گہري صورت ميں سمجھيں نہ کہ سطحي نظر کہ جو اکثراوقات غير حقيقي مطالب اور خيالات کامجموعہ ہوتي ہے، اور عورت کے بارے ميں اسلامي نظر کا لبّ لباب سمجھا اورنکالا جائے تو يہ امر سزوار ہے کہ جس کيلئے حقيقتاً جدوجہد کي جائے اور شعاربلند کيے جائيں۔ميري خواہش ہے کہ آپ جو شعاراور نعرے لگاتے ہيں ان ميں ان چيزوں کے نہ لے کر آئيں (جو مغربي ثقافت کا حصہ ہيں)اور مغربي ثقافت کي طرف جھکاو کو حقوق نسواں کيلئے اپنے مقابلے کا ہدف قرارنہ ديں۔اس ليے کہ اولاً مغربي ثقافت ايک ناکام ثقافت ہے اور لوگ بھي يہ باتيں سننے کيلئے تيار نہيں ہيں اور بہت سے افراد ان باتوں کو قبول بھي نہيں کرتے ہيں۔ معاشرے ميں بہت سے صاحب نظر اور ديگر افراد ہيں کہ جو ممکن ہے کہ ان باتوں کو قبول نہ کرتے ہوں تو يہ افراد مقابل ميں آکھڑے ہوں گے کيونکہ يہ لوگ بھي حقوق نسواں کا دفاع کرنے کے خواہش مند ہيں۔
ثانياً بجائے اس کے کہ سب ہاتھوں ميں ہاتھ ديں اورماضي ميں ضائع شدہ ايک حق کے اثبات کيلئے جدوجہدکريں، آپس ميں مقابلہ آرائي شروع کرديں گے! يوں يہ غلط سلسلہ چل نکلے گا اور يہ اونٹ کسي کروٹ نہيں بيٹھے گا۔ ثالثاً اس طرزعمل کو اپنانے ميں مصلحت نہيں ہے اور نہ ہي خداوند عالم اس سے راضي ہے ۔ انسان کو ايسا کام انجام دينا چاہے کہ اُس کا خدا اُس سے راضي ہو۔
رضائے الٰہي کيلئے کام کيجئے
حقوق نسواں کے اس دفاع، اس حکومت اور اس فعاليت سے ہمارا ہدف رضائے الٰہي کا حصول ہے۔ اگر ہمارا خدا ہم سے راضي نہ ہو توہميں اُن تمام چيزوں اوردنياوي طور پر اپنے کامياب ترين نتائج ميں سے کوئي ايک بھي نہيں چاہيے! انسان صرف اپنے خدا کو راضي وخوشنود کرے۔ ہم يہاں صرف چار دن کي زندگي بسر کررہے ہيں اور صرف کچھ دنوں کيلئے ہمارے بدن اور سانس کے درميان رشتہ قائم ہے ،اس کے بعد ہم ايسي جگہ پہنچيں گے کہ جہاں ازاول تاآخر صرف اور صرف رضائے الٰہي ہي انسان کے کام آتي ہے ۔ لہٰذا انسان کو اپنے رب کي خوشنودي کے حصول کيلئے اقدام کرنا چاہيے۔
آپ اسے اپنا ہدف ومقصد بنائيے، اپنے کاموں اورجدوجہد ميں قصد قربت کيجئے اورخدا کيلئے کام کيجئے تو خدا بھي آپ کي مدد کرے گا۔
بيماري کي تشخيص کيلئے حقيقت کو مدنظر رکھنا ضروري ہے!
مجھے ايک خط ملا جو خاص طور پر ميرے نام تھا۔ميں نے اُسے ملک کي خواتين کي ايک فعال اوراچھي انجمن کو بھيجا تاکہ وہ اس خط ميں موجود مسائل کے بارے ميں تحقيق کريں۔ وہ خط بہت طولاني مگر شيريں اور خوبصورت تھا ليکن ميري نگاہوں ميں اس خط ميں موجود معلومات صحيح نہيں تھيں۔ اس ميں بہت زيادہ شکوہ و شکايات کي گئي تھيں اور جو کچھ ہمارے معاشرے ميں نہيں ہے، اُسے خواتين سے نسبت ديا گيا تھا۔ صرف اس خيال سے کہ يہ سب باتيں اسلام سے مربوط ہيں ليکن درحقيقت ايسا نہيں تھا ميري نظر ميں بيماري کي تشخيص کيلئے انسان کو حقيقت بين ہونا چاہيے۔
اسلامي احکامات کي حکمت
توجہ فرمائيے کہ اسلام نے مرد و عورت کے درميان حجاب کو قرار ديا ہے اور اس حقيقت کا انکار نہيں کيا جاسکتا ہے کہ يہ حجاب بھي کسي مصلحت وحکمت کے مطابق ہے کہ حجاب کي صحيح ترين شکل يہي ہے۔ يہ جو کہتے ہيں کہ جب مرد وعورت تنہا ايک کمرے ميں ہوں کہ جہاں دروازہ بند ہو اور پردہ پڑا ہو تو وہاں ان دونوں کا ايک ساتھ موجود ہونا حرام ہے۔ اس حکم کے پيچھے ايک حکيمانہ اور عميق نظر ہے اور وہ صحيح بھي ہے ۔ معاشرے کے افراد، مرد يا عورت ہونے کي بنا پر جب اپنے باطن کي طرف رجوع کريں گے تو اس بات کي تصديق کريں گے کہ يہ حکم صحيح ہے، کوئي اس کا انکار نہيں کرسکتا کہ يہ کہے کہ يہ حکم غلط ہے ۔
اسي طرح يہ جو کہا گيا ہے کہ عورت زينت و آرائش کرکے مردوں کے سامنے نہ آئے، يہ حکم بھي بالکل صحيح ہے ۔ مغربي ثقافت بالکل اس کے برعکس ہے۔ مغربي ثقافت اپنے معاشرے کي عورت سے يہ کہتي ہے تم اچھي طرح ميک اپ کرو، زينت و آرائش کرو! يہ ہے مغربي ثقافت، ميک اپ کي انواع و اقسام کي چيزيں ايک خوبصورتي نہ رکھنے والي عورت کو بھي مختلف قسم کے ميک اپ کيلئے اس لئے دي جاتي ہيں کہ وہ جب مرد کے سامنے جائے تو مرد اسے خوبصورتي و زيبائي ميں ديکھے اور اس کي طرف مائل ہو! جبکہ حقيقت يہ ہے کہ ايسے ميک اپ کي مصنوعي خوبصورتي کے نتيجے ميں پيدا ہونے والا ميل و رغبت چند لمحوں سے زيادہ قائم نہيں رہتاہے۔ يعني جب يہ مرد اس عورت کے پاس آئے گا تو وہ خود ديکھے گا کہ يہ خوبصورتي حقيقي نہيں ہے ليکن مقصد يہ ہے کہ جيسے ہي اس پر نگاہ ڈالے تو اس کي تعريف کرے ! يہ چيز مغربي ثقافت ميں ايک امر مطلوب کي حيثيت رکھتي ہے۔
حکمت اوردوسرے کلام ميں فرق
ليکن اسلامي ثقافت ميں شوہر کے علاوہ زينت وآرائش ايک امر مذموم ہے ۔لہٰذا اس کو اچھي طرح سمجھنا چاہيے اور اس ميں حکمت پوشيدہ ہے ۔ ’’ذَا لِکَ مِمَّا اَوحَيٰ اِلَيکَ رَبُّکَ مِنَ الحِکمَۃِ‘‘ ١ ( يہ وہ چيز ہے کہ جسے تمہارے رب نے تمہاري طرف حکمت کے ساتھ وحي کيا ہے)۔ آپ قرآن ميں ملاحظہ کريں کہ خداوند عالم نے پيغمبر وں سے خطاب ميں بہت جگہ حکمت کو مکرر بيان کيا ہے۔ مثلاً حضرت لقمان کے بارے ميں چند مطلب کو ذکر کرتا ہے۔ ’’وَلَا تَمشِ فِي الاَرضِ مَرَحًا ‘‘ ١ ( زمين پر اکڑکر مت چلو)۔ يہ وہ بيانات ہيں کہ جو حضرت لقمان اپنے بيٹے کوبطور نصيحت فرماتے ہيں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ’’ ذالِک مِمَّا اَوحيٰ اِلَيکَ ربُّک مِنَ الحِکمَۃِ ‘‘ ٢ ۔ حکمت کي خصوصيت يہ ہے کہ جب آپ اسکے لب و لہجے پر نگاہ ڈاليں گے تو آپ کو يہ بہت سادي اورمعمولي بات نظر آئے گي ليکن جب آپ اس ميں غوروخوص کريں گے تو اس کي گہرائي کو نہيں پاسکيںگے کہ وہ کتني عميق ہے؟ يہ ہے حکمت کي خاصيت ! توجہ فرمائيے۔
---------
١ سورہ اسرائ/ ٣٩
حکمت اورہمارے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں ، اہل عقل و منطق اوراُن کے استدلال کے درميان بنيادي فرق يہ ہے کہ ہم کلمات کے ظاہر کو خوبصورت بناتے ہيں کہ جب انسان اس پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے ايک اوقيانوس کي مانند پاتا ہے ليکن جب اُس کي گہرائي کو ديکھتا ہے تو گہرائي کو دو ملي ميٹر پاتا ہے ! ظاہر ميں ايک اوقيانوس ہے ليکن باطن ميں کچھ نہيں ۔ ليکن قرآني کلمات اور حکمتيں ايسي نہيں ہے ۔ ميرا حضرت امام خميني۲ کے بارے ميں بھي يہي تجربہ ہے ۔ لہٰذا ميں نے سب سے پہلے لفظ ’’حکيم‘‘ کو اُن کيلئے استعمال کيا ہے ۔ ميں نے ديکھا کہ حکيم جسے کہا جاتا ہے وہ ايسا ہي ہوتا ہے ۔ امام خميني۲ جب باتيں کرتے تھے تو ايسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت ہي سطحي اورمعمولي باتيں کررہے ہيں اوراُن کي باتيں انسان کي نظر ميں کوئي جلوہ نہيں کرتي تھيں ليکن جب انسان اس ميں غوروفکر کرتا تھا تو ديکھتا تھا کہ کتني گہري وعميق ہيں!
عورت کا اجتماعي کردار
جو کچھ قرآن و احاديث پيغمبر ۰ و اہلبيت ٴ ميں عورت کے بارے ميں بيان کيا گيا ہے وہ حکمت ہے کہ جس پر واقعاً توجہ کرني چاہيے۔ ان تمام بيانات ميں سے ايک مسئلہ يہي حجاب اور مرد و عورت کے درميان حفاظتي وجود کا مسئلہ ہے ۔ حجاب کے ذريعے سے ہونے والي يہ حفاظت سب جگہ کے ليے نہيں ہے بلکہ خاص جگہ پر ہے ۔ فرض کيجئے کہ ايک خاتون حکومت کے اعليٰ عہدے پر فائز ہوتي ہے۔ البتہ ميں يہ نہيں کہوں گا کہ کون سا مقام؟ کيونکہ ميں نے بطور مثال ايک مقام کو مجمل انداز سے بيان کيا ہے جو واضح نہيں ہے اور ايسي حالت ميں يہ بھي صحيح نہيں ہے کہ انسان بغير کسي وجہ سے کسي بھي حکومتي عہدے کو تنقيد کا نشانہ بنائے ۔ بہرحال اگر وہ ايک ايسے عہدے کو حاصل کرلے کہ جہاں رجوع کرنے والوں کي تعداد بہت زيادہ ہے تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے اور نہ ہي يہ امر عورت کي فعاليت ميں مانع بنے گا۔ اس مقام پر عورت ہزاروں مرد اور ديگر رجوع کنندگان کي حکيمانہ انداز سے پذيرائي کرے ، اُن کے مسائل کوسنے، جواب دے اور ان کے جائز حقوق کيلئے احکامات صاد رکرے ۔ اس ميں نہ کوئي محدوديت ہے اور نہ کوئي چيزمانع ہے۔
-------------
١ سورہ اسرائ/ ٣٧ ٢ سورہ اسرائ/ ٣٩
اسلامي خواتين کا اجتماعي کردار
مختلف مسائل سے مقابلے اورميدان جنگ ميں بھي ايسا ہي ہے۔ حضرت زينب علیھا السلام کے سامنے ايک ميدان تھا جہاں آپ نے کام کيا، حضرت زہر علیھا السلام نے بھي ايک ميدان ميں قدم رکھا ،جناب حکيمہ خاتون يا حضرت امام صادق کي خواہر نے ميدان عمل ميں قدم رکھا ۔ حضرت امام صادق نے کسي سے فرماياکہ جاو اور يہ مسئلہ ان (ميري بہن) سے پوچھو۔ کچھ آئمہ عليہم السلام کي خواہر اورزوجات يا بعض پيغمبروں کي بيويوں نے علمي و ثقافتي ، سياسي، انقلابي،اور فوجي ميدانوں ميں قدم رکھا ہے۔ توجہ فرمائيے ۔عورت کاعورت ہونا ان تمام ميدانوں ميں اس کي فعاليت کي راہ ميں ہرگز مانع نہيں ہوتا ليکن ان سب جگہ حجاب کاحکم ضرور موجود ہے ۔ آپ اس کي پابندي کيجئے اور مقابلے کيلئے ميدان عمل ميں قدم رکھيے۔
٣۔گھرانے ميں شوہر و بيوي کے کردار پر زيادہ توجہ کي ضرورت
خواتين کے حقوق کے دفاع کيلئے تيسرا بنيادي اور لازمي نکتہ جو آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں يہ ہے کہ ميري نظرميں خواتين پر ظلم ستم کے جتنے مقامات بيان کيے گئے ہيں ان ميں سب سے زيادہ ظلم گھرانے ميں ہوا ہے۔ اس مسئلے کو آپ جتنا بيان کرسکتے ہيں،بيان کيجئے۔ يہ جو ميں نے بيان کيا ہے کہ خواتين فلاں مقام و منصب کو حاصل کريں، يہ بعدکا مرحلہ ہے اور اتنا قابل اہميت نہيں ہے ۔ سب سے اہم مرحلہ شوہر اوربيوي کا آپس ميں ايک دوسرے سے برتاو اور کردارکا مرحلہ ہے۔ اگر آپ ايسے قوانين وضع کرسکيں کہ جب ايک عورت اپنے شوہر کے گھر ميں ہو تو امن و سکون کا احساس کرے تو يہ ايک قابل تحسين امر ہے۔
بيوي کيلئے امن و سکون کا ماحول فراہم کيجئے
انسان اپني بيٹي کو بہت محنت، محبت، نرمي اور والدين سے عشق کے ساتھ پروان چڑھاتا ہے اور اس کے بعد وہ لڑکي جواني کے مرحلے ميں قدم رکھتي ہے۔ اس مرحلے ميں بھي لڑکي اپنے والدين کے گھر ميں ان کي بچي ہي شمار کي جاتي ہے، اس کے بعد اُس کے ہاتھ پيلے کرکے اُسے شوہر کے گھر بھيج ديا جاتا ہے اور اُس کے بعد وہ ايک ايسي عورت کي شکل ميں ظاہر ہوتي ہے کہ جس سے (خانداني مسائل ،تربيت اولاد اور خانہ داري جيسے مسائل سے متعلق) ہر چيز کو سمجھنے، ہر چيز کو جاننے اور ہر کام کو انجام دينے کي توقع کي جاسکتي ہے! پس اگر عورت يہاں چھوٹي سي بھي غلطي کرے تو وہ تنقيد کا نشانہ بنتي ہے! ليکن يہ نہيں ہونا چاہيے۔ آپ ايسا کام کيجئے کہ جب ايک لڑکي شوہر کے گھر جائے تو وہ جس سن وسال ميں بھي ہو امن و سکون کا احساس کرے اور اسے يہ اطمئنان حاصل ہو کہ وہ (شوہر يا شوہر کے گھر والوں کي طرف سے) کسي بھي قسم کے ظلم وستم کا نشانہ نہيں بنے گي۔ اس نکتے کي طرف توجہ فرمائيے! اگر آپ يہ ماحول فراہم کرسکيں تو ضرور اقدام کيجئے تو ميري نظر ميں آپ نے ايک بہت بڑا قدم اٹھايا ہے۔ يعني و ہ اپنے شوہر کے گھر ميں ناحق بات نہيں سنے يا اگر وہ کسي ظلم کا نشانہ بنے يااُس سے ناحق بات کي جائے تو اپنے حق کا دفاع کرسکے اور وہ قانوني امکانات کے ذريعے اپنے حق کو محفوظ رکھ سکے ١ اور يہ کام اتنا اہم ہے کہ ميري نظر، توجہ اورفکر کا زيادہ حصہ (ايک مسلمان عورت کيلئے) اسي ماحول کي فراہمي ميں مشغول ہے۔ ميں يہ ديکھ رہا ہوں کہ (ہمارے معاشرے سميت ديگر اسلامي ممالک ميں ) عورت کو يہ ماحول فراہم نہيں ہوسکا ہے حتيکہ مومن و متقي افراد کے گھروں ميں بھي ايسا ماحول نہيں ہے اورموجودہ زمانے کے گھرانے بھي اس آئيڈيل ماحول سے محروم ہيں۔
--------
١ يہاں بہت سے لوگ ان توہمات کا شکار ہيں کہ يہ کيا حق و حقوق کي رٹ لگا رکھي ہے؟! حق و حقوق تو اس وقت بات ہے جب وہ اپنے باپ کے گھر ميں ہو۔ جب وہ شوہر کے گھر آگئي تو کون سا حق اور کيسے حقوق؟! سب کچھ ختم ہوجاتا ہے، اب اس کاجنازہ ہي اس کے شوہر کے گھر سے نکلے گا ! وغيرہ وغيرہ ۔۔۔ يہ افراد احمقوں کي جنت ميں رہتے ہيں۔ اگر لڑکي شوہر کے گھر آجائے تو صحيح ہے کہ اس کے اپنے گھر سے متعلق کچھ حقوق ختم ہوجاتے ہيں ليکن شوہر کے گھر اس کے حقوق ميں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس ميں سب سے پہلے امن و سکون کا ماحول اور ناحق بات اور ظلم و ستم سے دوري وغيرہ شامل ہيں۔ شادي کرنے سے عورت کي ذات ختم نہيں ہوجاتي بلکہ شوہر کے گھر آنے سے اُس کي شخصيت مزيد نکھر جاتي ہے اور اس کا اجتماعي روپ سامنے آتا ہے، اب وہ ايک بيوي کے روپ ميں پہلے سے زيادہ حساس وجود رکھتي ہے۔ اپنے ميکے ، والدين اوربہن بھائيوںکو چھوڑ کر آنے والي ايک لڑکي جو اب شوہر کے ساتھ اس کے نئے گھر، نئے افراد اورنئے ماحول ميں زندگي بسر کرنا چاہتي ہے۔ اس کے بعد وہ مزيد حساس ہوجاتي ہے کيونکہ وہ اب تربيت اولاد کے مرحلے ميں قدم رکھتي ہے۔ غرضيکہ شادي سے عورت کا وجود ختم ہونے کے بجائے مزيد وسعت ، نکھار اور خوبصورتي اور زيبائي حاصل کرتا ہے۔ (مترجم)
چند سال قبل ايک پي ايچ ڈي خاتون نے ہم سے شکايت کي کہ اُس کا شوہر جو زيادہ تعليم يافتہ نہيں ہے ، مجھ پر (مختلف مسائل زندگي ميں) زور و زبردستي کرتا ہے اور يہ خاتون اپنے حق کا دفاع نہيں کرسکتي ہے۔ يہ ايک نمونہ ہے اور ايسي بہت سے مثاليں ہيں اور افسوس يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں يہ چيزيں موجود ہيں۔ اگر آپ کچھ کرسکيں تو ان تمام چيزوں کو قوانين کے ذريعے ختم کرديجئے (تاکہ خواتين کے حقوق شوہروں کے ظلم اور زبردستي کي وجہ سے ضايع نہ ہوں) ۔وہ نکتہ کے جسے ميںنے قبلاً آپ کي خدمت ميں عرض کيا کہ مرد کي بہ نسبت عورت کا جسماني لحاظ سے کمزور ہونا اس پر ظلم ہونے کا باعث بنا ہے تو اُسے معرفت اور تعليم کے ذريعے سے ايک جہت سے اور قانون کي مدد سے دوسري جہت سے مضبوط بنانا چاہيے يعني خواتين کے ہاتھ ميں اُن کے حقوق کے دفاع کے اقتدار کے وسائل دينے چاہئيں۔
يہ وسائل ، معرفت اورتعليم کي طرف سے خواتين پر ظلم و ستم کي راہ ميں ايک طرف سے مانع بن جاتے ہيں جبکہ دوسري طرف قانون ہے جو خواتين کے حقوق اور ظلم سے اُن کي حفاظت کرتا ہے۔ لہٰذا اگر يہ’’ دونوں طرف‘‘ خواتين کيلئے فراہم ہوجائيں تو يہ ايک قابل تحسين امر ہے۔ آپ اپني خواتين کو تحصيل علم اور بيٹيوں کو اعليٰ تعليم کے حصول کي ترغيب دلايئے اور اعليٰ تعليمي مراکز ميں اپني بيٹيوں کے داخلے کو قانوني لحاظ سے سہل و آسان بنائيے۔ اگر يہ چيز حاصل ہوگئي تو ميري نظر ميں تمام چيزيں حاصل ہوجائيں گي۔ مثلاً فرض کيجئے کہ موجودہ زمانے ميں ممکن ہے کہ خواتين کو اس بارے ميں فکر لاحق ہو کہ وہ ڈرائيونگ کيوں نہيں کرتيں يا ٹرک ڈرائيور کيوں نہيں بنيں؟ فلاں کام انجام کيوں نہيں ديتيں؟ ان چيزوں کي اہميت نہيں ہے اور نا ہي ان چيزوں کي قدر وقيمت ہے کہ انسان ان کيلئے جدوجہد کرے۔
ہندوستاني عورت اور روزانہ پانچ روپے اجرت!
ميں کبھي فراموش نہيں کرسکتا کہ ميں ہندوستان ميں ايک يونيورسٹي کے طالب علم کے گھر مہمان تھا۔ ہم دوپہر کے کھانے کے بعد استراحت کرنا چاہتے تھے تو اچانک باہر سے کسي چيز کو توڑنے کي آواز آنے لگي۔ ميں نے کھڑکي سے ديکھا کہ ايک بڑا سا صحن نما ميدان ہے کہ جس ميں مختلف پتھر پڑے تھے اور ايک چاليس پچاس سالہ مزدور عورت ہتھوڑي ہاتھ ميں ليے بڑے پتھروں کو توڑ رہي تھي ۔ وہ عورت فربہ بدن کي مالک اور کالي تھي اور اُس نے خاص قسم کا لباس پہنا ہوا تھا کہ جب خواتين يہ لباس (جمپر) پہنتي ہيں تو اپنے بدن کا ايک حصہ _ سينہ کا اوپري حصہ_ کھلا رہنے ديتي ہيں۔ يہ وہاں کے لباس کا انداز ہے کہ لباس ميں سينے کا اوپري حصہ کھلا رہتا ہے اور يہ فيشن سے تعلق رکھتا ہے۔ يہ مزدور عورت بھي اسي حليے ميں تھي اور محنت مزدوري کے دوران اُس نے اپنے فيشن کو فراموش نہيں کيا تھا ! وہ سخت محنت کرتے ہوئے مسلسل پتھروں کو توڑ رہي تھي۔ ميں نے پوچھا کہ يہ عورت يہ کام کيوں کررہي ہے؟اُس نے جواب ديا کہ ’’يہ مزدور ہے‘‘ ۔ميں نے دوبارہ سوال کيا کہ ’’يہ روزانہ کتني اجرت ليتي ہے؟‘‘ اُس نے کہا کہ ’’روزانہ کے چار يا پانچ روپے‘‘۔ اس وقت ہندوستاني ايک روپيہ شايد ہمارے پندرہ ريال کے برابر تھا۔ يعني سالانہ تقريباً انسٹھ يا ساٹھ روپے! يعني وہ تقريباً دس تومان روزانہ کي اجرت ليتي تھي اور اس کيلئے روزانہ چودہ يا بارہ گھنٹے محنت و مشقت کرتي اور پتھروں کو توڑتي تھي!
ايسا معلوم ہوتا ہے کہ اسلامي ماحول ميں ايک عورت کو اس طرح کا کام نہيں ديا جاتا ہے ١ اور يہ بات خود باعث افتخار ہے ۔ البتہ عورت اپنے کھيتوں ميں اپنے ليے کام کرتي ہے ليکن وہ دوسروں کي مزدور نہيں بنتي ہے۔ ايسے وقت ايک انسان آئے اور بڑي جدوجہد کے بعد فرض کيجئے کہ عورت کے ٹرک ڈرائيور ہونے کے امکانات فراہم کرے! ان باتون کي قطعاً کوئي قدرو قيمت نہيں ہے۔ ٢
--------------------
١ يہ تقرير اسلامي انقلاب کے تقريباً اٹھارہ سال بعد کي ہے ۔ ايراني معاشرے ميں يقينا يہ حالات نہيں رہے ہيں اور نہ ہي انقلاب کي کاميابي کے بعد تھے۔ مگر ہندوستان و پاکستان جيسے ترقي پذير اور تيسري دنيا کے ممالک ميں عورت بھي مرد مزدوروں کے ساتھ مکانات کي تعمير، روڈوں کي تعمير، سڑکوں کي صفائي اورديگر کاموں کو انجام ديتي ہے ۔ يہاں ہمارا معاشرہ عورت کي نسوانيت ، اس کے صنف نازک ہونے اور اس کي عزت و آبرو کو يکسر فراموش کرديتا ہے ۔ (مترجم)
٢ ١٩٩٧ ميں پارليمنٹ کي خواتين اراکين سے خطاب
|