عورت ، گوہر ہستي
 
تيسري فصل
خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر
خواتين کے بارے ميں تين قسم کي گفتگو اوراُن کے اثرات
الف: خواتين کي تعريف و ستائش کي گفتگو
پہلي قسم کي گفتگو انقلاب ميں خواتين کے فعال کردار کي تمجيد و ستائش کے بارے ميں ہے۔ اسي طرح انقلاب کے بعد اور اسلامي تحريک کوپروان چڑھانے ميں خواتين کے موثر کردار کے بارے ميں بھي ہے کہ اگر انقلاب سے قبل اور انقلاب کے زمانے ميں خواتين اِس مبارزے اور تحريک ميں شرکت نہيں کرتيں تو يہ تحريک کبھي کامياب نہيں ہوتي۔ يا موجودہ زمانے ميں خواتين کے کردار کو بيان کرنا ہو تو ہم ديکھتے ہيں جيسا کہ ذمے دار افراد ہميں رپورٹ ديتے ہيںکہ جامعات ميں خواتين کي تعداد زيادہ ہوگئي ہے ،خواتين بڑي بڑي ذمے داريوں کوقبول کررہي ہيں يا وہ عوامي ااجتماعات ميں اس طرح شرکت کرتي ہيں۔ يہ گفتگو کا ايک ايسا سلسلہ ہے کہ جس پر بحث ہوني چاہيے اورہو بھي رہي ہے اور يہ بہتر بھي ہے ۔ يہ بحث و گفتگو نہ صرف يہ کہ ترغيب دينے والي بھي ہے بلکہ حقائق کو روشن بھي کرتي ہے۔اس کے ساتھ ساتھ يہ گفتگو اِس ميدان ميں اسلامي جمہوريہ کے موقف کو سامنے لاتي ہے ليکن خواتين کے مسائل کے مستقبل کيلئے بہت سودمند اور تاثير گزار نہيں ہے۔
--------------
١ اکتوبر ١٩٩٤ ميں نرسوں کے ايک وفد سے خطاب
ب: خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کي وضاحت دوسري قسم کي بحث و گفتگو ، خواتين کے بارے ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کے بارے ميں ہے۔ ايک جگہ ميں نے خواتين سے متعلق گفتگو کي، ميري بحث کا خلاصہ يہ تھا کہ اسلام بنيادي طور پر خواتين کوکس نگاہ و زاويے سے ديکھتا ہے۔ ميں نے کہا تھا کہ عورت تين مقامات پراپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے ۔ اُن ميں سے ايک انساني کمال کا ميدان ہے۔ اس بارے ميں اسلام کي نظر يہ ہے کہ ’’اِنّ المُسلمِينَ والمُسلماتِ والمومِنينَ و المُومنِاتِ والقَانِتِينَ وَالقاَنِتاتِ والصَّادِقِينَ والصَّادِقاتِ وَ الصَّابِرينَ والصَّابِراتِ والخَاشِعِينَ والخَاشَعَاتِ وَالمتَصَدِّقِينَ و المُتصَدِّقاتِ والصَّآئِمِينَ والصَّآئِمَاتِ وَالحَافِظِينَ فُرُوجَہُم وَالحَافِظَاتِ وَالذَّاکرِينَ اللّٰہَ کَثِيراً والذَّاکِراتِ‘‘ (مسلمان، مومن، صادق ، صابر ، خاشع، صدقہ دينے والے ، روزہ دار، شرمگاہوں کي حفاظت کرنے والے اور خدا کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اورعورتيں)۔يہاں خداوند عالم نے مرد اورعورت کي دس بنيادي صفات کو کسي فرق و تميز کے بغير دونوں کيلئے بيان کيا ہے۔ اس کے بعد خداوند عالم ارشادفرماتا ہے کہ ’’اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُم مَغفِرَۃً وَّ اَجراً عَظِيماً‘‘ ١ (اللہ نے ايسے مردوں اورخواتين کيلئے مغفرت اور اجر عظيم مہيا کيا ہے)۔ لہٰذا اِس ميدان ميں اسلام کي
نظر کو معلوم کرنا اور اُسے بيان کرنا چاہيے۔
دوسرا ميدان کہ جس ميں عورت اپنے وجود کو ثابت کرسکتي ہے، وہ اجتماعي فعاليت کا ميدان ہے، خواہ وہ سياسي فعاليت ہو، اقتصادي ہو يا اجتماعي يا کوئي اور غرضيکہ عورت، معاشرے ميں وجود رکھتي ہو۔ لہٰذا اِس ميدان ميں بھي اسلام کي نظر کي وضاحت کرني چاہيے۔ خواتين کي فعاليت کاتيسرا ميدان؛ عائلي اور خانداني نظام زندگي ميں عورت کے ميدان سے عبارت ہے لہٰذا اس ميں بھي اسلام کي نظر کو واضح کرنے ضرورت ہے۔
---------
١ سورئہ احزاب / ٣٥
ہمارے محققين و مقريرين ان تمام جہات ميں اسلام کي نظر بيان کررہے ہيں۔ ہم نے بھي کچھ مطالب کو ذکر کيا ہے اور دوسرے افراد بھي گفتگو کررہے ہيں اور يہ بہت اچھي بات ہے۔ ہماري نظرميں يہ بحث وگفتگو ، بہت مفيد اور اچھي ہے۔ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں اسلامي نظريات اورمغربي دعووں کے درميان موازنہ ہونا چاہيے کہ يہ ديکھيں کہ اسلام اِن تين ميدانوں ميں خواتين کے کردار وفعاليت کو کس طرح بيان کرتا ہے اور اہل مغرب اِس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟اور حق بھي يہي ہے اور عدل و انصاف بھي اِسي بات کي تائيد کرتا ہے کہ ان تينوں ميدانوں ميں عورت اورمعاشرے کيلئے اسلام کي نظر، دنيا ميں رائج تمام نظريات وگفتگو سے کئي مراتب بہتر، مفيد اور مضبوط ومستحکم ہے۔
پس آپ توجہ کيجئے کہ دوسري قسم کي گفتگو اُن مطالب سے عبارت ہے کہ جہاں مختلف شعبوں ميں اسلام کي نظر بيان کي جاتي ہے اور يہ اچھي بات ہے۔ اِن تمام کاموں کو بھي انجام پانا چاہيے اور يہ بالکل بجا ہيں۔ ممکن ہے اس جگہ مختلف ابہامات اورغير واضح امور موجودہوں۔چنانچہ ضروري ہے کہ افراد بيٹھيں، بحث کريں اور اپنے نظريے کو بيان کريں تو اُس وقت اُس گفتگو کو باآساني اور بہترين طريقے سے زير بحث لايا جاسکتا ہے جو گزشتہ کچھ عرصے سے فقہي حوالے سے ہمارے کانوں ميں پہنچ رہي ہے اور وہ يہ ہے کہ کيا خواتين قاضي بن سکتي ہيں اور کيا خواتين اجتماعي ، معاشرتي اور سياسي منصب کي حامل ہوسکتي ہيں؟

ج: معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کي مشکلات
تيسري قسم کي بحث وگفتگو ’’خواتين کي مشکلات‘‘ کے بارے ميں ہے کہ اِس بندئہ حقير کي نظر ميں اس مسئلے پر ہميں اپني فکر کو متمرکز کرنا چاہيے۔ چنانچہ اگر ہم نے اس مسئلے کا صحيح حل نہيں نکالا توگزشتہ دوونوں قسم کي گفتگو اوربحث ، خواتين کے مسائل کے حل کے سلسلے ميں کسي کام نہيں آسکيں گي۔ ديکھنا چاہيے کہ عورت کو معاشرے ميں کن مشکلات کا سامنا ہے؟اور اس سے بھي اہم بات يہ کہ عورت اپني عائلي اورگھريلو زندگي ميں کن مشکلوں سے دوچار ہے؟

کون سي گفتگو اہم ہے؟
آپ خواتين کو جو ’’حقوق نسواں اور اُن کے مسائل‘‘ کے ميدان ميں سرگرم عمل ہيں، اِس بات پر ہرگز قانع نہيں ہونا چاہيے کہ کوئي اِس سلسلے ميں يا ايک عورت کے فلاں عہدے کو لینے يا نہ لينے يا ديگر مسائل ميں اسلام کي نظر کو بيان کرنے کيلئے کتاب لکھے۔ لہٰذا اِن چيزوں پر قانع ہوکر اپني فعاليت کو متوقف نہيں کرنا چاہيے بلکہ براہ راست خواتين کي مشکلات کے حل کيلئے اقدامات کرنے چاہئيں۔

چوتھي فصل
خواتين سے متعلق صحيح اورغلط نظريات
جہالت ، خواتين پر ظلم کا اصل سبب
اس بندئہ حقير کا بيان ہے کہ پوري تاريخ ميں اور مختلف معاشروں ميں عورت ظلم وستم کانشانہ بني ہے۔ ايک جگہ ميں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِس ظلم و ستم کي وجہ کيا ہے۔يہ تمام ظلم و ستم ، انسان کي جہالت کي وجہ سے سامنے آتے ہیں۔ اِس جاہل انسان کي طبيعت و مزاج يہ ہے کہ جہاں بھي اُس کے سر پرکوئي زورزبردستي کرنے والا نہ ہو، يا خود اُس کے اندر سے يعني واضح اور مضبوط ايمان (کہ اِس کي مثال بہت کم ہے) يا اُس کے باہر سے کسي قانون کا دباو نہ ہو يا اس کے سر پر کوئي تلوار يا قانون کا ڈنڈا نہ ہو تو معمولاً ايسا ہوتا ہے کہ طاقت ور موجود، کمزور پر ظلم کرتا ہے۔

گھر کي حقيقي سربراہ، عورت ہے اور مرد ظاہري حاکم
البتہ عورت عقلي اعتبار سے مرد سے ضعيف وکمزور نہيں ہے بلکہ بعض اوقات اُس سے زيادہ قوي ہے۔ اگرچہ کہ عورت کا انداز فکر، مرد کے اندازفکر سے مختلف ہے اور دونوں کے احساسات وجذبات ميں فرق ہے کيونکہ دونوں کے احساسات وجذبات ايک خاص کام کيلئے خلق کيے گئے ہيں اور انساني وجود ميں اُنہيں وديعت کيا گيا ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً ايک علمي مسئلے کے بارے ميں زنانہ اور مردانہ انداز فکر ميں کسي قسم کا فرق نہيں ہوتاہے ليکن زندگي کو چلانے ميں دونوں کے انداز فکر مختلف ہوتے ہيں۔ عاقل اورپختہ عمر کي خواتين ميں يہ بات رائج ہے ، ميں نے بارہا اپني بزرگ اور بڑي خواتين سے سنا ہے اور صحيح سنا ہے کہ وہ کہتي ہے کہ ’’مرد ايک بچے کي مانند ہے‘‘ ، اور بالکل ٹھيک کہتي ہيں اورحقيقت بھي يہي ہے۔ ايک عالم ،فاضل اور باشعور مرد بغير کسي ذہني بيماري و خلل کے اپنے گھر ميں اپني بيوي کے مد مقابل اور اُس کے ساتھ زندگي گزارنے ميں ايک بچے کي مانند ہے اور بيوي اُس بچے کي ماں کي طرح! جس طرح اگر ايک بچے کي غذا ميں تھوڑي تاخير ہوجائے تو وہ رونے چلانے لگتا ہے ۔ لہٰذا اُسے کسي بھي صورت ميں قانع کرنا اور چپ کرانا چاہيے ورنہ وہ ضد کرنے لگتا ہے۔چنانچہ اگرايک عورت اپني مہارت سے ان کاموں کو انجام دے سکے تو ايک مرد اُس کے ہاتھوں رام ہوجاتا ہے۔
آپ توجہ فرمائيے کہ ميں ان باتوں کو کيوں نقل کررہا ہوں ؟ميں نہيں چاہتا کہ مرد کے ايک بچہ ہونے پر دستخط کروں، البتہ يہ اور بات ہے کہ يہ ايک حقيقت ہے، ليکن اس بات کو بيان کرنے ميں ميري مراد يہ نہيں ہے بلکہ ميرے پيش نظر يہ نکتہ ہے کہ مرد اور عورت کي ذہنيت ايک دوسرے سے مختلف ہے۔ عورت کي پختگي و مہارت اُس کے اپنے دائرہ فعاليت ميں اُس کے کام آتي ہے۔ يعني ايک عورت گھر کي چار ديواري ميں يہ سمجھتي ہے کہ مرد ايک بچے کي مانند ہے، لہٰذا اُس کا کھانا وقت پر تيار کرنا چاہيے تاکہ وہ بھوکا نہ رہے ورنہ وہ بداخلاق ہوجائے گا۔ لہٰذا بہانے کا کوئي بھي موقع ہاتھ سے دنيا نہيں چاہيے۔ يافرض کيجئے کہ مرد اعتراض کرتا ہے تو اُسے کسي بھي طريقے سے قانع کرنا چاہيے۔اِس نکتے کي طرف بھرپور توجہ کيجئے! عاقل اور پختہ خواتين پوري مہارت سے يہ کام انجام ديتي ہيں اور مرد کي حرکات وسکنات ،رفتار وعمل اور ذہنيت کو پوري طرح کنٹرول ميں رکھتي ہيں۔ بنابرايں، گھر ميں حقيقي سربراہ عورت ہے جبکہ علي الظاہر ،مرد ظاہري سربراہ ہے، اس ليے کہ وہ بھاري آواز ، مضبوط جسامت اور لمبے قد کاٹھ کا مالک ہوتاہے۔
پس مطلب کو اس طرح بيان کرتے ہيں کہ بعض خواتين کي ذہنيت و عقل مردوں سے زيادہ مستحکم ہے يا وہ تفکر، علم اور احساسات وغيرہ ميں مرد جيسي ہيں ليکن عورت کاجسم بطور متوسط مرد سے کمزور ہوتا ہے ۔ توجہ کيجئے! بنيادي نکتہ يہي ہے۔ ايک مثال فرض کيجئے کہ جہاں ايک عقل مند انسان ايک جاہل اور بدمعاش انسان کے ساتھ ہو اور ان ميں سے کسي ايک کو پاني پينا ہو (اور پاني کا ايک ہي گلاس موجود ہو)۔ قاعدۃً جس کي طاقت زيادہ ہوگي وہ پاني پي جائے گا مگر يہ کہ کسي طرح اُسے دھوکہ ديا جائے اورپاني کا گلاس اُس سے چھين ليا جائے۔ تاريخ ميں ہميشہ سے يہي ہوتا رہا ہے۔ مرد حضرات اپنے لمبي قدوقامت ،بھاري آواز اورمضبوط جسامت اور پٹھووں کي وجہ سے خواتين پر ان کے نازک اندام ہونے، نرم لب ولہجے، نسبتاً چھوٹے قد اور کمزور جسموں کي بنائ پر اُن پر ظلم کرتے رہے ہيں! يہ ايک حقيقت ہے، ميري اپني نظر ميں اگر آپ اِس ماجرا کي تہہ تک پہنچيں اور تحقيق کريں تو آپ اِس مقام پر پہنچيں گي کہ تمام ظلم و ستم کي وجہ يہي ہے۔

خواتين سے متعلق روايات ميں ظالمانہ فکرو عمل سے مقابلہ
ہاں البتہ اگر کوئي قانون يا بہت شديد قسم کي محبت يا مستحکم ايمان جيسا معنوي عامل موجود ہو تو وہ ان تمام ظلم و ستم کا سدّباب کرسکتا ہے۔البتہ ايمان کو مضبوط و مستحکم ہونا چاہيے ورنہ بہت سے علمائ ہيں کہ جن کا ايمان تو بہت اچھاہے ليکن اُسي کے ساتھ ساتھ اُن کا اپني زوجات سے برتاو اور سلوک اچھا نہيں ہے لہٰذا ايسے لوگ ہماري مجموعي بحث کے زمرے ميں آتے ہيں۔ ہميں صرف اِس بات کي وجہ معلوم کرني چاہيے کہ تاريخ ميںخواتين ہميشہ ظلم و ستم کا نشانہ کيوں بني ہيں؟ پيغمبر اکرم۰ کے زمانے ميں بھي يہ ظلم وستم ہوا ہے اور آنحضرت۰ نے اِس ظلم سے مقابلہ کيا ہے۔ يہ جو پيغمبر اکرم۰ نے خواتين کے بارے ميں اتني باتيں ارشاد فرمائي ہيں، صرف اِسي ظلم وستم سے مقابلے کيلئے ہيں۔ اگر وہ صرف مقامِ زن کو بيان کرنا چاہتے تو اِس قسم کے پُرجوش و پُراحساس بيانات کي ضرورت نہيں تھي۔ خواتين کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت۰ کے احساسات واظہارات اِس چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ آپ ايک چيز سے مقابلہ کرنا چاہتے ہيں اور وہ خواتين پر ہونے والا ظلم ہے اورپيغمبر اکرم ۰ اِس ظلم کے مقابل کھڑے ہيں۔
معاشرتي اورگھريلو زندگي ميں خواتين کے ساتھ زندگي گزارنے کے بارے ميں حضرت ختمي مرتبت۰ اور آئمہ اہل بيت عليہم السلام سے جو روايات ١ نقل کي گئي ہيں وہ اِسي ظالمانہ فکر اورستمگرانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي خاطرہے۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ يہ ظلم و ستم ہمارے زمانے ميں بھي جاري ہے البتہ صرف ہمارے معاشرے سے مخصوص نہيں ہے۔ليکن اس بات کي طرف ہم سب کي توجہ ہوني چاہيے کہ پوري دنيا ميں يہ ظلم موجود ہے اور مغرب ميں بہت ہي بدترين شکل ميں موجود ہے۔
---------------
١ وسائل الشيعہ، جلد ٢٠، صفحہ ٣٢٤۔ ٣٥٤
اہل مغرب کي ايک ظاہري خوبصورتي مگر درحقيقت?؟!
اہل مغرب صرف ايک خصوصيت کے حامل ہيں کہ اگر خود اُس کے مقام پر اُس کے بارے ميں قدرے تآمل اورغوروفکر کيا جائے تومعلوم ہوگا کہ اُن کي يہ خصوصيت مثبت نہيں ہے ۔ ليکن مغربي معاشرے ميں کئي مقامات پر اس خصوصيت وعادت کو بہت زوروشور سے بيان کيا جاتا ہے کہ گويا وہاں ظلم کا سرے سے وجود ہي نہيں ہے۔ وہ عادت و خصوصيت يہ ہے کہ اہل مغرب مرد و عورت کے آپس ميں رويے ، سلوک اوربرتاو کو عورت سے عورت يا مرد سے مرد کے برتاو کے مثل قرار ديتے ہيں يعني وہ ان دو جنس (مرد وعورت) ميں کسي بھي فرق کے قائل نہيں ہيں۔ کوچہ و بازار ہو يا گھر کي چار ديواري ،وہ دوستي ورفاقت اور معاشرت ميں اسي رفتار کے حامل ہيں۔ ظاہر ميں يہ عادت وسلوک بہت دلچسپ اورجالب نظرآتا ہے ليکن جب آپ اس کي حقيقت تک پہنچتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے کہ يہ امر غلط اور منفي ہے اوراسلام اس کي ہرگز تاکيد نہيں کرتا ہے۔ اسلام نے مرد وعورت کے درميان ايک حجاب اور فاصلہ رکھا ہے کہ يہ دونوں اپني معاشرتي زندگي ميں اس حجاب اور حدود کي رعايت کريں۔
بنابرايں ہم جس ظلم وستم کي بات کررہے ہيں وہ صرف ايراني معاشرے يا گزشتہ دور سے ہي مخصوص نہيں ہے بلکہ تاريخ کے مختلف زمانوں سے ليکر آج تک ايران سميت دنيا کے مختلف ممالک ميں اس کا وجود رہا ہے ۔ آج بھي يہ ظلم پوري دنيا ميں موجود ہے، اسي طرح مغربي ممالک خصوصاً امريکہ اور بعض يورپي ممالک ميں خواتين کو اذيت و آزارپہنچانے کے واقعات، اُن سے ظالمانہ سلوک و طرز عمل ، شکنجے اورمصيبتيں دوسري ممالک کي نسبت بہت زيادہ ہيں۔ اس کے اعداد وشمار بہت زيادہ ہيں، البتہ ميں نے خود ان اعداد وشمار کو مغربي اور امريکي مطبوعات ميں ديکھا ہے نہ يہ کہ ہم اِس کو کسي کي زباني نقل کررہے ہيں۔ يہ تو وہ چيز ہے کہ جسے انہوں نے خوداپني زبان سے بيان کيا ہے۔ لہٰذا اس ظلم و ظالمانہ رويے اور عمل سے مقابلے کي ضرورت ہے۔ ١
----------------
١ نومبر ١٩٩٦ئ ميں ثقافتي کميٹي کے اراکين سے خطاب