نام کتاب : عورت ، گوہر ہستي
صاحب اثر : حضرت آيت اللہ العظميٰ سيد علي حسيني خامنہ اي دامت برکاتہ
ترجمہ واضافات : سيد صادق رضا تقوي
کمپوزنگ : مبارک زيدي
طابع : الباسط پرنٹرز 021-6606211
اشاعت اول : محرم ١٤٢٨ہجري / فروري ٢٠٠٧ئ
تعداد : ٢٠٠٠
قيمت : 80 روپے
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہيں
شہيد آيت اللہ بہشتي نے فرمايا: ’’عورت ، اسلام ميں ايک زندہ حقيقت ، موثر ترين وجود ، مجاہد اور انقلابي کردار کا نام ہے ‘‘

انتساب!
عالم ہستي کي سب سے افضل ترين،کامل ترين،بہترين اور اور عالم اسلام کي نوجوان روحاني وسياسي خاتون شخصيتحضرت فاطمہ زہراhکے نام!جو تمام انسانوں بالخصوص خواتين کے ليے تا قيامت اسوہ عمل ہیں

سخن ناشر
’’عورت گوہر ہستي‘‘،در اصل ايک زندہ حقيقت و سچائي اور اسلام کي حقانيت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
’’عورت گوہر ہستي‘‘ميں سماجي اور گھريلو مسائل سميت عورت کے اجتماعي ،سياسي اور معنوي کردار، مغرب ميں خواتين کي حالت زار ،خواتين پر مغرب کے ظلم اور اسلام کي خدمات ،آزادي نسواں کے حقيقي مفہوم ، خواتين کي فعاليت کیلئے جامع راہنمائي ،حجاب کي حقيقت و فوائد ،عورت کے بارے ميں اسلام کي حقيقي نگاہ اور اسلامي آئیڈيل کو قرآن و روايات کي روشني ميں بہت سادہ انداز سے بيان کيا گيا ہے۔
’’عورت گوہر ہستي‘‘رہبر عالي قدر کي تقارير ہيں کہ جنہيں قرآن و عترت فاونڈيشن ،سپاہ پاسداران انقلاب اسلامي نے اپريل ٢٠٠٦ ميں تہران سے شايع کيا،درحقيقت وہ عميق تجزيہ و تحليل ہيں جو ايک اسلامي عورت کي راہنمائي کیلئے بھر پور کردار ادا کرسکتي ہيں ۔
نشر ولايت پاکستان کا قيام ٢٠٠٢ ئ ميں عمل ميں لايا گيا۔ اس ادارے کا مقصد رہبرِ معظم ولي امر مسلمين جہان حضرت آيت اللہ العظميٰ امام سيد علي خامنہ اي حفظہ اللّہ کے تمام مطبوع اور غير مطبوع آثار کي حفاظت اور اُنہيں اُردو زبان ميں منتقل کرنا ہے۔
نشر ولايت پاکستان ، دشمن کي ثقافتي يلغار کو روکنے کے ليے کوشاں ہے۔ يہ کتاب بھي اسي سلسلے کي ايک کڑي ہے۔ اُميد ہے کہ يہ کتاب آپ کے علمي ذوق ميں اضافے اور حقيقي اور مذہبي زندگي کي راہنمائي ميں آپ کي مددگار ثابت ہوگي۔

نشر ولايت پاکستان
(مرکز حفظ و نشر آثار ولايت)
-------

مُقدَّمہ
اِس دنياکا ہرذي حيات موجود، خُداوند عالم کي حکمت وعدالت کي بنياد پر عالم خلقت ميں نہ صرف يہ کہ اپنے ہدف وغايت اوراپني زندگي سے متعلق خاص سوالات کے جوابات کامتلاشي ہے بلکہ اپنے خاص اورمناسب مقام ميں ديگر مخلوقات سے باہمي رابطے و معاملے کے بندھن ميں بھي جڑا ہوا ہے۔ اَحسَنُ الخَالِقين کي تمام مخلوقات کے درميان، سب سے اَحسَن ترين تخليق (انسان)، ديگر موجودات کے مقابلے ميں بہت زيادہ حکمت و عدالت سے مالا مال ہے اور خداوند عالم کے پنہاں اسرار و رموز نے اُس کا احاطہ کيا ہواہے۔ مرد وعورت ، دو متقابل نقاط ميں نہيں بلکہ معاملے،رابطے اور تعامل کے ايک نقطے پر تکميلِ خلقت ، دوامِ نسل اور محبت و سکون ميں توازن کيلئے خلق ہوئے ہيں اور خدائے رحمان و رحيم نے دونوں ميں سے ہر ايک کو اُس کي خلقت کے بُنيادي مقصد کي جوابدہي اور اُس کے مناسب ترين مقام تک رسائي کيلئے اپنے لطف و رحمت ميں ڈھانپا ہوا ہے۔ اُس نے ايک وجود کو لطافت ، نرمي، نفاست ، ظرافت اور محبت بخشي ہے تو دوسرے کو قوت و طاقت ، مضبوط و بلند حوصلے اور تکيہ و اعتماد کا مرکز بنايا ہے۔ نہ پہلے کو دوسرے پر برتري دي ہے اورنہ دوسرے کو پہلے پر سبقت کاموقع فراہم کيا ہے بلکہ اُس نے ہر ايک کو خانداني مدار اورعالمِ ہستي کے نظام ميں اپني اپني مخصوص ذمے داريوں اورشرعي واجبات کي ادائيگي کيلئے مقرر کيا ہے۔ عالمِ خلقت ميں دونوں کي جداگانہ ذمے داريوں کے تعين کي وجہ سے مرد و عورت دونوں کے حقوق واضح ہوجاتے ہيں اور اسي نگاہ سے دونوں کي حدود اوردائرہ فعاليت بھي مشخص ہوجاتے ہيں۔
بشر نے اپني جاہلانہ و شيطاني روش کي وجہ سے کہ جب اس نے حدودِ الٰہي سے تجاوز کيا ، نہ صرف يہ کہ اپني مخصوص ذمے داريوں اورفرائض کو نہيں پہچانا بلکہ دائرہ فعاليت اور حد بندي کو بھي يکسر فراموش کرديا اور يوں عورتوں پر بھي ستم کيا،پورے معاشرتي نظام کو تہہ وبالا کيا اور ساتھ ہي مردوں پر بھي ظلم کيا۔انساني معاشرے ميں موجود انحطاط ، برائياں اور عرياني وفحاشي سب حقوق و حدود الٰہي سے تجاوز کرنے اور ظالمانہ رفتار و کردار پر دلالت کرتے ہيں۔ در حالانکہ تمام جگہ خداوند عالم کے احکام جاري و ساري ہيںاور روحانيت و رحمت ِ الٰہي ، حيات بخش بارش کي مانند ہر آن و ہر لمحہ نشاط و سلامتي ليکر آتي ہے۔
اسلامي انقلاب ، اس طراوت و نشاط کي پہلي کرن ہے اور مرد و عورت سب پر خداوند عالم کي رحمت و معنويت کي زندہ نشاني ہے ۔ اسلامي انقلاب نے سيرت حضرت ختمي مرتبت۰ اور امير المومنين ٴ کي تعليمات کي روشني و پيروي ميں تمام خواتين کو اُن کے عظيم و بلند مقام پر فداکار اور محبت نچاور کرنے والي ماوں، صابر، مونس و غمخوار بيويوں، استقامت اور قدم جماکر (ميدان جنگ سميت تمام محاذوں پر لڑنے والي) مجاہدہ خواتين کي صورت ميں پرورش دي ہے۔
ميک اَپ شدہ جاہليت اور ٹيکنالوجي کے غرور ميں ڈوبے ہوئے مغربي معاشرے نے ’’اسلامي ثقافت اور اسلامي نکتہ نظر سے عورت کے مقام‘‘کے مقابلے ميں خود کو ايک بڑي مصيبت ميں گرفتار کرکے اپني فعاليت اور جدوجہد کو اور تيز کرديا ہے تاکہ شخصيت زن اورحقوق ِنسواں کي تازہ نسيم کا راستہ روک سکے اور مظلوم خواتين کو اُس تازہ فضا ميں سانس نہيں لينے دے ۔ سيمينار منعقد کيے گئے ، کانفرنسوں کا آغاز کيا گيا، قرارداديں پاس ہوئيں اور مغرب کي پسند کي بنياد پر خواتين کي آزادي کي سخن سامنے آئي۔ ليکن مسلمان خواتين کو حقوقِ نسواں کے ان مدافعوں کي نہ کوئي حاجت تھي اور نہ ہي انہوں نے اہلِ مغرب کي کوششوں کو سچا اورحق کے مطابق پايا۔ ’’آبِ حيات ‘‘اُن کے کوزے ميں تھا اور وہ تشنہ لب نہيں تھیں، عشق الٰہي کے جام کي شيريني اُن کے دلوں ميں رچي بسي تھي اور وہ بيگانوں کے سامنے دست بہ سوال نہيں تھيں۔ اگر وہ اپنے حق ميں کسي ظلم و ستم يا حقوق کے ملنے ميں کسي خلل کا مشاہدہ کرتيں تو انہيں حدود الٰہي اور احکام خدا کي عدم پابندي کا نتيجہ قرار ديتيں نہ کہ احکام و حدود الٰہي کو توڑنے کا۔ يہي وجہ ہے کہ اگر وہ اپنے حقوق تک رساني کيلئے کوششيں کرتيں تو مغرب کي تقليد اور اُن کي تاريک ثقافت سے کوئي بھي اثر لئے بغير اسلام کے محور اور اُس کے نوراني احکامات کے مطابق انجام ديتيں۔
خطبات وتقارير کا يہ منتخب مجموعہ دراصل رہبر معظم حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي دامت برکاتہ کے وہ راہنما اصول ہيں کہ جن ميں انہوں نے خالص اسلام کي نگاہ کو اس خاص زاويے سے بيان فرمايا ہے اور اُن پر تاکيد فرمائي ہے۔ يہ بيانات دراصل خواتين کے بارے ميں مغرب کے انحطاط اور مشکلات پر ايک عميق اور صادقانہ تجزيہ بھي ہيں اور اسلام کي نگاہ ميں شخصيت اور حقوقِ نسواں پر صحيح نظر بھي، ساتھ ہي حقوقِ نسواں کا پاس رکھنے اور گھرانے کي بنيادوں کو مستحکم بنانے کيلئے مشفقانہ اور پدارنہ نصيحتيں بھي۔ البتہ اِس مختصر سي کتاب ميں موجود بيانات خواتين کے بارے ميں رہبر معظم کے تمام بيانات نہيں ہيں بلکہ اُن کا خلاصہ ہيں۔
ہميں اُميد ہے کہ ان بيانات کا مطالعہ نہ صرف يہ کہ قارئين کے علم ميں اضافے کا باعث ہوگا بلکہ وہ انہيں اپنا سرمشق قرار ديتے ہوئے اپني گمشدہ حقيقت کو پانے کيلئے اسلامي احکامات کي روشني ميں جدوجہد کريں گے، ان شائ اللہ۔