ملاقات اور معاشرت
رسول اکرم لوگوں کے ساتھ معاشرت رکھنے اور ملنے جلنے میں بہت مہربان تھے۔ سلام کرنے میں سب پر یہاں تک کہ بچوں پر بھی سبقت فرماتے تھے۔ کسی کے سامنے اپنے پاؤں نہیں پھیلاتے تھے اور کسی کی موجودگی میں ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے۔ زیادہ تر دو زانو بیٹھتے تھے۔ مجلسوں میں دائروں کی شکل میں نشست رکھتے تھے تاکہ مجلس میں بلند و پست جگہ کا وجود ہی نہ ہو اور تمام جگہوں کا درجہ برابر ہو اپنے احباب کے بارے میں دریافت فرماتے رہتے۔ اگر اپنے اصحاب میں سے کسی شخص کو تین روز تک نہ دیکھتے تو اس کے متعلق خاص طور سے معلومات حاصل فرماتے۔ اگر وہ مریض ہوتا تو اس کی عبادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اگر وہ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا تو آپ اس کی مدد فرماتے مجالس و محافل میں صرف ایک شخص کی طرف نہیں دیکھتے تھے اور خاص طور سے کسی ایک شخص کو خطاب نہیں فرماتے تھے بلکہ اپنی مقدس نگاہوں کو پورے مجمع پر رکھتے تھے اور اس امر سے آپ۱ کو سخت نفرت تھی کہ خود آپ بیٹھے رہیں اور دوسرے خدمت کریں (جب کبھی ایسا موقع آتا تو) آپ اپنی جگہ سے فوراً اٹھتے اور دوسروں کے ساتھ کاموں میں شریک ہو جاتے۔ آپ فرماتے تھے کہ
”خداوند عالم کو یہ بات ناپسند ہے کہ وہ بندہ کو اس حالت میں پائے کہ وہ دوسروں کی نسبت اپنے لئے کسی امتیاز کا قائل ہو جائے۔“
(کحل البصر ص ۶۸)
مزاج میں نرمی بھی سختی بھی
آپ اپنے انفرادی اور شخصی مسائل میں اور ان امور میں جو خاص آپ۱ کی ذات اقدس سے مربوط و متعلق ہوتے تھے بے حد نرم مزاج ملائم اور درگذر کرنے والے تھے اور آپ کی اپنے مشن میں اتنی جلد کامیابی اور ترقی کے اسباب میں سے ایک یہی عظیم اور تاریخی (رحم دلی و نرم مزاجی کا) برتاؤ ہے۔
لیکن اصولی اور اجتماعی امور میں جہاں قانون کی حد شروع ہو جاتی وہاں آپ سختی سے پیش آتے اور پھر اس موقع پر درگذر کی کوئی گنجائش نہیں رہتی تھی۔ فتح مکہ اور قریش پر کامیابی حاصل ہو جانے کے بعد آپ نے قریش کی تمام عداوتوں اور ان کی تمام بدسلوکیوں کو جو انہوں نے پورے بیس سال کے عرصے میں حضرت کے خلاف روا رکھی تھیں ان سب سے آپ نے چشم پوشی فرمائی اور سب کو ایک ساتھ معاف کر دیا۔ اپنے پیارے چچا حضرت حمزہ کے قاتل کی توبہ قبول کر لی لیکن اسی فتح مکہ کے موقع پر چوری کے جرم میں ایک عورت پکڑی گئی اور اس کا جرم بھی ثابت ہو گیا اس عورت کا خاندان قریش کے شرفاء میں سے تھا اور وہ لوگ حد جاری ہونے کو اپنے لئے توہین سمجھے تھے چنانچہ ان لوگوں نے رسول خدا کی خدمت میں بہت دوڑ دھوپ کی اور بہت کوششیں کیں کہ اس عورت پر حد نہ جاری کی جائے اور حضرت اس سے صرف نظر اور درگذر فرمائیں۔ بعض بزرگ صحابہ کو بھی سفارش کے لئے لائے اور ان لوگوں نے سفارش بھی کی لیکن رسول خدا کا رنگ غصے کی وجہ سے سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا:
”کیا یہ سفارش کا موقع ہے؟ کیا چند افراد کی خاطر خدائی قانون کو معطل کیا جا سکتا ہے؟“
اسی روز آپ نے عصر کے وقت اصحاب کے مجمع میں خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا:
”پہلی قومیں اور ملتیں اس وجہ سے تباہ ہو گئیں کہ انہوں نے خدا کے قوانین نافذ کرنے میں امتیازی سلوک سے کام لیا تھا۔ جب کبھی طاقت وروں اور مال داروں میں سے کوئی شخص جرم کا مرتکب ہوتا تو اسے معاف کر دیتے تھے اور اگر کوئی ضعیف الحال اور کمزور طبقے کا شخص مرتکب جرم ہوتا تو اسے سزا دیتے تھے۔ اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے عدل و انصاف کے نافذ کرنے میں کسی کے بارے میں سستی و کاہلی اور کوتاہی نہیں کروں گا خواہ شخص خود میرے نزدیک ترین رشتہ داروں میں سے کیوں نہ ہو۔“
(صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۱۴)
عبادت
رات کے کچھ حصہ میں کبھی نصف شب کبھی ایک تہائی اور کبھی دو تہائی رات آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ اگرچہ آپ کا پورا دن خصوصاً مدینہ میں قیام کے زمانے میں تبلیغی جدوجہد اور دوسرے دینی کاموں میں گزر جاتا تھا پھر بھی آپ کے عبادت کے وقت میں کوئی کمی نہیں ہوتی تھی آپ اپنا کامل آرام و سکون عبادت الٰہی اور اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز میں پاتے تھے۔ آپ کی عبادت بہشت کے طمع یا جہنم کے خوف کی بناء پر نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ کی عبادت عاشقانہ اور شکر گذاروں جیسی ہوتی تھی۔ ایک روز آپ کی ازدواج میں سے کسی ایک نے کہا کہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں۔ آپ تو بخشے ہوئے ہیں آپ نے جواب دیا کہ ”کیا میں ایک شکرگذار بندہ نہیں ہوں؟“، آپ روزے بھی بہت رکھتے تھے ماہ شعبان اور رمضان کے علاوہ ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے تھے اور ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں بالکل آرام چھوڑ دیتے اور مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جاتے اور عبادت میں مشغول رہتے تھے لیکن دوسروں سے فرماتے تھے کہ تمہارے لئے یہی کافی ہے کہ تم ہر مہینے میں تین دن روزے رکھ لیا کرو فرماتے تھے: اپنی قوت و طاقت کے مطابق عبادت کیا کرو۔ اپنی استعداد سے زیادہ بوجھ اپنے اوپر مت لا دو ورنہ اس کا نتیجہ برعکس ہو گا آپ رہبانیت گوشہ نشینی اور خلوت میں بیٹھ جانے اور اہل و عیال کو ترک کر دینے کے مخالف تھے۔ اصحاب میں بعض نے اسی کام کا مصمم ارادہ کر لیا تھا تو وہ ملامت و سرزنش کے مستحق قرار پائے۔ آپ فرماتے تھے تمہارا بدن تمہارا اہل و عیال تمہارے دوست و احباب سب کے حقوق تمہارے اوپر واجب ہیں تمہیں ان حقوق کا لحاظ رکھنا چاہئے۔
تنہائی کی حالت میں عبادت کو طول دیتے تھے کبھی کبھی تہجد کی حالت میں گھنٹوں مشغول رہتے تھے لیکن جماعت میں اختصار کی کوشش فرماتے مامومین میں سے کمزور شخص کا لحاظ ضروری سمجھتے تھے اور اس کی وصیت فرماتے تھے۔
زہد اور سادہ زندگی
زہد اور سادہ زندگی آپ کا اصول تھا سادہ غذا نوش فرماتے سادہ لباس زیب تن فرماتے سادہ روش رکھتے آپ کا فرش اکثر چٹائی ہوتی زمین پر بیٹھ جاتے آپ بذات خود بکری کا دودھ دوہ لیا کرتے زین و پالان کے بغیر بھی سواری پر سوار ہوتے تھے اور اس امر سے سختی کے ساتھ منع فرماتے کہ کوئی آپ کی سواری کے ساتھ پیادہ چلے۔ آپ کی غذا اکثر جو کی روٹی اور خرما ہوا کرتی۔ آپ اپنے لباس اور نعلین پر خود ہی اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیتے تھے اس سادگی کے باوجود فلسفہ فقر (محتاجگی) کے طرف دار نہیں تھے مال و دولت کو معاشرے کی ترقی اور جائز کاموں میں خرچ کرنے کو لازم سمجھتے تھے آپ فرماتے تھے:
نعم المال الصالح للرجل الصالح(حجتہ البیضا ج ۶ ص ۴۴)
”کتنی اچھی ہے وہ دولت جو جائز طریقوں سے حاصل ہو اس آدمی کے لئے جو اس دولت کو رکھنے کے لائق ہو اور یہ جانتا ہو کہ اسے کیسے خرچ کرے۔“
نیز حضرت فرماتے تھے:
نعم العون علی تقوی اللہ الغنیٰ(وسائل ج ۱۲ ص ۱۶)
”مال و دولت تقویٰ کے لئے اچھی مدد ہے۔“
ارادہ اور پامردی
آپ ۱کا ارادہ عزم مصمم اور آپ ۱کی استقامت و پامردی بے نظیر تھی اور یہ چیز آپ کے اصحاب میں بھی سرایت کر گئی تھی آپ۱ کا ۲۳ سالہ دور بعثت و رسالت مکمل عزم و استقامت کا درس ہے آپ اپنی مقدس حیات کی تاریخ میں بارہا ایسے سخت حالات سے دوچار ہوئے کہ تمام امیدیں ہر طرف سے منقطع ہو چکی تھیں لیکن آپ نے ایک لحظہ کے لئے بھی ہمت ہارنے کا تصور بھی ذہن میں نہیں آنے دیا۔ آپ۱ کا ایمان کامل و محکم ایک لمحہ کے لئے بھی نصرت و توفیق الٰہی کی نااُمیدی سے متزلزل نہیں ہوا۔
قیادت
اگرچہ آپ ۱کا حکم اصحاب کے درمیان فوری طور پر نافذالعمل ہوتا تھا اور وہ لوگ بار بار کہتے تھے کہ جب ہم آپ پر پختہ اور یقینی ایمان رکھتے ہیں تو اگر آپ۱ ہمیں حکم دیں کہ ہم سمندر میں ڈوب جائیں یا اپنے آپ ۱کو آگ میں جلا دیں تو ہم ایسا ہی کریں گے پھر بھی آپ کا طریقہ کار اور آپ کی روش حاکمانہ نہیں تھی۔ جن کاموں میں خدا کی طرف سے کوئی حکم نہیں پہنچا تھا ان کے بارے میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے اور ان کے خیالات و افکار کا لحاظ فرماتے تھے اور اس طریقے سے ان کی شخصیتوں کو ابھارتے تھے۔ جنگ بدر کے موقع پر جنگ کے لئے اقدام کا مسئلہ اسی طرح لشکرگاہ کے تعین کا مسئلہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک و برتاؤ کا مسئلہ۔ ان سب مسائل کو آپ نے باہمی مشاورت پر چھوڑ دیا۔ احد میں بھی اس مسئلے کے متعلق کہ لشکرگاہ شہر مدینہ ہی کو بنایا جائے یا اس کے لئے شہر سے باہر کوئی جگہ منتخب کی جائے یہ مسئلہ بھی مشاورت سے ہی طے ہوا جنگ احزاب اور جنگ تبوک میں بھی اصحاب سے مشورہ کیا۔
پیغمبر اکرم کی نرمی و مہربانی عفو و درگذر اپنے اصحاب کے واسطے طلب و مغفرت اور امت کے گناہوں کی بخشش کے لئے آپ۱ کی بے چینی و بے تابی اسی طرح اپنے اصحاب کو سمجھنا اور انہیں وقعت و اہمیت دینا ان کو شیر قرار دینا اور شخصیت عطا فرمانا یہ سب چیزیں اپنے اصحاب کے درمیان آپ ۱کی عظیم و بے نظیر تاثیر کے اسباب میں سے تھیں۔ قرآن کریم ایک مقام پر اس مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے:
فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لانفضو امن حولک فاعف عنھم و استغفرلھم و شاورھم فی الامر واذاعزمت فتوکل علی اللہ
(سورئہ آل عمران آیت ۱۵۹)
”اے حبیب! اس شفقت کی وجہ سے جو خدا نے آپ کے دل میں پیدا کی ہے آپ اپنے اصحاب کے ساتھ نرمی کا برتاؤ رکھتے ہیں اگر آپ سخت مزاج اور تندخو ہوتے تو یہ لوگ آپ سے دور ہی رہتے اور منتشر ہو جاتے پس آپ ان کے ساتھ عفو و درگذر ہی سے کام لیں اور ان کے لئے طلب مغفرت کرتے رہیں اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ کر لیا کریں اور جب کسی کام کا پختہ عزم و ارادہ کر لیں تو پھر بس خدا پر بھروسہ کریں۔“
نظم و ضبط
نظم و ضبط اور باقاعدگی آپ کے تمام کاموں پر حاوی اور حاکم تھی آپ اپنے اوقات کو کاموں کے لحاظ سے تقسیم فرما دیا کرتے تھے ہر کام کے لئے ایک معین وقت اور ہر وقت کے لئے ایک کام اور اسی عمل کی لوگوں کو وصیت بھی فرمایا کرتے۔ آپ کے اصحاب بھی آپ سے متاثر ہو کر نظم وضبط کا خاص خیال رکھتے تھے بہت سے منصوبوں کو جنہیں ضروری و اہم سمجھتے تھے کہ وہ ظاہر نہ ہوں تو انہیں ہرگز ظاہر نہیں فرماتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اس سے آگاہ ہو جائے۔ آپ کے اصحاب آپ کے منصوبوں پر بے چون و چرا عمل کرتے تھے مثلاً آپ حکم دیتے کہ تیار ہو جاؤ کل ہم چلیں گے تو سب کے سب جس طرف آپ جانے کا حکم دیتے روانہ ہو جاتے تھے اور یہ معلوم نہیں کرتے تھے کہ کہاں جانا ہے اور کس غرض سے جانا ہے؟ سفر کے آخری لمحات اور منزلوں میں انہیں معلوم ہوتا کہ آخری منزل کون سی ہے اور مقصد کیا ہے؟ کبھی چند افراد کو کوچ کا حکم دیتے اور اس گروہ کے سردار کو ایک مہربند خط عنایت فرماتے اور حکم دیتے کہ جب تم اتنے دن کے بعد فلاں منزل و مقام پر پہنچنا تو خط کو کھولنا اور اس کے مطابق حکم کو نافذ کرنا۔
وہ لوگ ایسا ہی کرتے تھے اور اس معینہ منزل و مقام پر پہنچنے سے پہلے انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ان کی آخری منزل کہاں ہے اور وہ کس ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے جا رہے ہیں اس حکمت عملی سے دشمن کے جاسوس آخری وقت تک بے خبری میں رہتے اور کبھی کبھی غفلت کی حالت میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا تھا۔
تنقید سننے کی طاقت اور مداحی و چاپلوسی سے نفرت
کبھی کبھی رسول اکرم اپنے بعض اصحاب کے اعتراضات کا بھی سامنا کرتے تھے لیکن آپ اظہار ناراضگی اور برہمی کے بغیر ان کی رائے کو اپنے منصوبے کے ساتھ ملا کر انہیں اپنا ہم خیال بنا لیا کرتے تھے آپ خوشامد تعریف اور چاپلوسی سے بے راز تھے اور فرماتے تھے:
”خوشامدی اور چاپلوسوں کے منہ پر خاک ڈالو۔“
(بحارالانوار ج ۷۳ ص ۲۹۴)
ہر کام میں احتیاط کرنے اور کاموں میں استحکام و پائیداری کا خیال رکھنے کو پسند فرماتے تھے آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ جو کام بھی انجام پائے وہ محکم و مضبوط ہو یہاں تک کہ جب آپ کے مخلص صحابی سعد بن معاذ۱ کا انتقال ہوا اور لوگوں نے ان کو قبر میں رکھا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے قبر کی اینٹوں اور پتھروں کو مضبوطی سے لگایا اور اس وقت فرمایا:
”میں جانتا ہوں کہ زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ یہ خراب اور بوسیدہ ہو جائیں گی لیکن خداوند عالم اس بات کو دوست رکھتا اور پسند کرتا ہے کہ بندہ جو کام بھی انجام دے اسے مضبوطی کے ساتھ انجام دے۔“(بحارالانوار ج ۲۲ ص ۱۰۷)
لوگوں کی کمزوری و ناواقفیت سے غلط فائدہ نہ اٹھانا
آپ لوگوں کے ضعف و کمزوری کے موقعوں اور ان کی نادانیوں سے ہرگز کوئی استفادہ نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے برعکس ان کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور لوگوں کو ان کی لاعلمی اور ناواقفیت سے آگاہ کرتے تھے۔ جس روز آپ کے ۱۵ مہینے کے فرزند جناب ابراہیم کا انتقال ہوا اسی دن اتفاق سے سورج کو گرہن لگا لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اس گروہ کا سبب وہ مصیبت ہے جو رسول اکرم پر پڑی ہے۔ لوگوں کے اس جاہلانہ خیال کے ردعمل میں آپ خاموش نہیں رہے بلکہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:
ایھا الناس
”اے لوگو! چاند اور سورج خدا کی نشآنیوں میں سے دو نشانیاں ہیں یہ کسی کے مرنے سے غمناک نہیں ہوتیں۔“
رسول اکرم کی شخصیت قیادت و رہبری کی شرائط کی بہترین مصداق
قیادت و رہبری کی شرائط کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے تشخیص و تمیز کی حس دلیری اور ہوشیاری کامل یقین پیش قدمی کرنا محتمل و ممکن عواقب سے بے خوف رہنا مستقبل بینی اور دوراندیشی تنقید برداشت کرنے کی قوت افراد شناسی افراد کی قوتوں کا اندازہ کرنا اور ان کے مطابق انہیں اختیارات سونپنا۔ نجی اور انفرادی امور میں نرمی اصولی مسائل میں سختی اپنے پیروکاروں کی شخصیت کو اجاگر کرنا اور ان کی طرف برابر متوجہ رہنا ان کی عقلی جذباتی اور عملی صلاحیتوں کی تربیت کرنا اور انہیں ابھارنا استبداد و حاکمیت اور اندھی تقلید کے میلان و رجحان سے پرہیز تواضح و انکساری سادگی و درویشی وقار و متانت و سنجیدگی تنظیم اور نظام کو دوست رکھنا تاکہ انسانی قوتوں کو استعمال میں لایا جا سکے اور انہیں منظم کیا جا سکے۔ یہ تمام شرائط و صفات رسول اکرم کی ذات اقدس میں کمال کی حد تک اور مکمل طور پر موجود تھیں۔
آنحضرت فرماتے تھے:
”اگر تم تین آدمی ایک ساتھ سفر کرتے ہو تو اپنے میں ایک آدمی کو رئیس و حاکم منتخب کر لیا کرو۔“
آپ نے مدینہ کے اندر خود اپنے معاشرے میں خاص شعبے قائم کئے تھے مثلاً منشیوں کی تربیت فرمائی تھی ہر گروہ کو الگ الگ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ چند کاتبان وحی کی حیثیت سے تھے جو قرآن کو لکھ لیا کرتے تھے۔ ایک گروہ خصوصی خط و کتابت کے لئے مخصوص تھا۔ کچھ لوگوں کے معاہدوں اور معاملات کو لکھا کرتے تھے۔ ایک جماعت صدقات و ٹیکسوں کا حساب کتاب لکھتی تھی کچھ لوگ عہد ناموں اور اقرار ناموں کے ذمہ دار تھے: ”تاریخ یعقوبی“، ”التنبیہ والاشراف“ مسعودی ”معجم البلدان“ بلازری اور ”طبقات“ ابن سعد وغیرہ جیسی تاریخ کی کتابوں میں یہ ساری باتیں موجود ہیں۔
تبلیغ کا طریقہ کار
اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں آپ آسانی اور نرمی کا راستہ اختیار کرنے والے تھے نہ کہ سخت گیر خوف دلانے والے۔ آپ ڈرانے دھمکانے کی بجائے زیادہ تر بشارت و خوشخبری کے ذریعے دعوت دیتے تھے۔ اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو تبلیغ اسلام کی غرض سے یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ
یسرو لا تعسرو بشرولا تنفر
(دلائل النبوہ ج ۵ ص ۴۰۱)
”یعنی آسانی اور نرمی کا راستہ اختیار کرو سختی کا نہیں اور لوگوں کو خوشخبری دو اور ان کی خواہش و رغبت و شوق کو ابھارو انہیں متنفر نہ کرو۔“
خود آپ ۱تبلیغ کے کام میں اکثر مشغول رہتے چنانچہ طائف کا سفر کیا حج کے زمانے میں (باہر سے آئے ہوئے) قبائل کے درمیان تشریف لے جاتے اور تبلیغ فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت علی کو اور پھر دوبارہ معاذ بن جبل ۱کو لوگوں کی تبلیغ کے واسطے یمن بھیجا مدینہ ہجرت فرمانے سے پہلے مصعب بن عمیر کو مدینہ والوں میں تبلیغ کرنے کے لئے بھیجا۔ اپنے بہت سے اصحاب کو حبشہ بھیجا جنہوں نے مکہ والوں کے ظلم و ستم اور ان کی ایذا رسانیوں سے نجات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حبشہ میں دین کی تبلیغ بھی کی اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی سمیت وہاں کی تقریباً آدھی آبادی کے لئے اسلام لانے کا موقع فراہم کیا۔ چھٹی ہجری میں دنیا کے بادشاہوں کو خطوط روانہ فرمائے جن میں انہیں اپنی نبوت و رسالت کی خبر دی ان میں سے تقریباً ایک سو خطوط کی نقلیں ابھی بھی موجود ہیں جو آپ نے مختلف اشخاص کو تحریر فرمائے تھے۔
علم کی تشویق و ترغیب
آپ لوگوں کو تحصیل علم کا شوق دلاتے تھے آپ نے اپنے اصحاب کے بچوں کو آمادہ کیا کہ وہ علم حاصل کریں۔ اپنے کئی اصحاب کو حکم دیا کہ وہ سریانی زبان سیکھیں۔
آپ فرماتے تھے کہ
”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔“
(بحارالانوار ج ۱ ص ۱۷۷)
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:
”حکمت کو جہاں اور جس شخص کے پاس پاؤ اگروہ مشرک اور منافق ہی کیوں نہ ہو اس کو حاصل کرو۔“(بحارالانوار ج ۲ ص ۹۹)
نیز آپ فرمایا کرتے تھے:
”علم کو تلاش کرو اگرچہ تم کو اس کے لئے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔“(بحارالانوار ج ۱ ص ۱۷۷)
طلب و تحصیل علم کے لئے آنحصرت کی یہ تاکید و ترغیب اس بات کا باعث بنی کہ مسلمان ہمت و حوصلے اور بے مثال تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں علم کی جستجو اور اس کی تحصیل میں مشغول ہو گئے۔ جہاں جہاں علمی آثار پائے انہیں حاصل کیا۔ ان کے ترجمے کئے اور خود تحقیق میں مصروف ہو گئے اور اس طریقے سے یونانی رومی ایرانی مصری اور ہندی جیسے قدیم تمدنوں اور جدید یورپی تمدنوں کے درمیان باہمی رابطے کا حلقہ بننے کے ساتھ ساتھ خود تاریخ بشریت میں شاندار اور باوقار تمدن کی بنیاد رکھ دی جس کو ”اسلامی تمدن و ثقافت“ کے نام سے پہچانا گیا اور اب بھی پہچانا جاتا ہے۔ آپ ۱کا اخلاق اور آپ کے خصائل آپ کے کلام اور آپ کے دین کی مانند جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت کے حامل تھے۔ تاریخ آپ کی مانند کسی ایسی شخصیت کو پیش کرنے سے قاصر رہی ہے اور نہ ہرگز کسی ایسی شخصیت کو پیش کر سکتی ہے کہ جو تمام انسانی پہلوؤں کے اعتبار سے حد کمال کو پہنچی ہو آنحضرت واقعاً انسان کامل تھے۔
|