وحی اور نبوت
 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ابن عبداللہ جن پر نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ۵۷۰ء میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ چالیس سال کی عمر مبارک میں آپ نے اعلان رسالت فرمایا۔ آپ نے تیرہ سال تک مکہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور طرح طرح کی زحمتیں تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس عرصے میں ایک خالص اسلامی گروہ کی تربیت فرمائی۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور اسی کو اسلام کی تبلیغ کا مرکز قرار دیا۔ دس سال تک مدینہ میں آزادانہ دعوت تبلیغ دین فرمائی اور عرب سرکشوں سے مقابلہ کیا اور سب کو مغلوب کر دیا۔ ان دس برسوں میں تمام جزیرة العرب مسلمان ہو چکا تھا۔
قرآن مجید کی آیات کریمہ تقریباً ۲۳ سال کے عرصے میں آنحضرت پر نازل ہوئیں۔ تمام مسلمان قرآن مجید اور حضرت رسول خدا کی مقدس شخصیت کے بارے میں تعجب خیز اور حیرت انگیز عشق و محبت و الفت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ رسول اکرم نے گیارہویں صدی ہجری میں یعنی مکہ سے مدینہ ہجرت فرمانے کے گیارہویں سال میں جب کہ آپ کی تبلیغ رسالت کا تئیسواں اور آپ کی عمر مبارک کا تریسٹھواں (۶۳) سال تھا دنیا سے رحلت فرمائی۔ اس حالت میں کہ ایک نوبنیاد اور روحانی نشاط سے سرشار معاشرے اور ایک تعمیری نظریہ کائنات پر ایمان رکھنے والے معاشرے کی جو دنیا بھر میں اپنی ذمہ داری کا احساس رکھتا تھا مستحکم و مضبوط بنیاد قائم کر دی تھی اور اسے قائم و دائم چھوڑ گئے تھے۔
جس چیز نے اس نوبنیاد معاشرے کو روحانیت اتحاد اور نشاط عطا کیا تھا وہ دو چیزیں تھیں ایک قرآن کریم جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی تھی اور دوسروں کو فیض پہنچاتا تھا دوسری چیز رسول اکرم کی عظیم اور ہر دل عزیز شخصیت تھی جو دلوں کو اپنی طرف کھینچتی اور نگاہوں کو شوق دیدار عطا کرتی تھی۔ یہاں پر ہم حضور اکرم کی مقدس و باعظمت شخصیت کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں:

حضور اکرم کے بچپن کا دور
ابھی رسول اکرم رحم مادر میں ہی تھے کہ آپ کے پدر بزرگوار کا شام کے ایک تجارتی سفر کے دوران مدینہ کے قریب انتقال ہو گیا۔ آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی تربیت و کفالت کی ذمہ داری لی۔ بچپن ہی سے بزرگ اور عام لوگوں سے بلند و بالاتر ہونے کے آثار آپ کے چہرہ مبارک اور رفتار و گفتار سے ظاہر ہوتے تھے۔ جناب عبدالمطلب نے اپنی فراست سے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ آپ کا یہ پوتا ایک روشن و تابندہ مستقبل کا حامل ہے۔
آپ ابھی آٹھ سال کے تھے کہ آپ کے دادا کا بھی انتقال ہو گیا اور ان کی وصیت کے مطابق آپ کے محترم چچا جناب ابوطالب نے آپ ۱کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ جناب ابوطالب بھی اس بچے کے عجیب چال چلن جو عام بچوں سے بالکل مشابہت نہیں رکھتا سے تعجب و حیرت میں رہتے تھے۔ کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ نے اپنے ہم سن اور ہم عمر بچوں کی طرح غذا کے سلسلے میں حرص سے کام لیا ہو۔ آپ ۱تھوڑے سے کھانے پر اکتفا فرماتے اور زیادہ روی سے پرہیز کرتے(رسول اکرم ۱کی سیرت خلق اور خصلت کا جو خلاصہ ہم ذیل میں پیش کر رہے ہیں وہ خاص کر علامہ بزرگ معاصر آقائے حاج سید ابوالفضل مجتہد زنجانی کے مقالہ ”محمد خاتم پیغمبران“ جلد اول سے استفادہ کیا گیا ہے۔مولف) اپنے ہم عمر بچوں کے برخلاف اور اس زمانے کی عادت و تربیت کے برخلاف آپ اپنے بالوں کو درست اور اپنے سر اور چہرہ مبارک کو صاف و شفاف رکھتے تھے۔ جناب ابوطالب سے ایک روز حضرت نے خواہش کی کہ آپ ان کے سامنے اپنا لباس اتار کر بستر پر (آرام کرنے کے لئے) جائیں تو آپ ۱کو یہ خواہش ناگوار گزری لیکن چونکہ آپ اپنے چچا کے حکم سے سرتابی نہیں کرنا چاہتے تھے لہٰذا اپنے چچا سے کہا کہ آپ اپنا منہ پھیر لیں تاکہ میں اپنا لباس اتار سکوں۔ ابوطالب بچے کی اس بات سے بہت حیرت زدہ ہوئے کیوں کہ عرب میں اس وقت بچے تو بچے بڑی عمر والے مرد بھی اپنے جسم کو (لوگوں کے سامنے) برہنہ کرنے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ جناب ابوطالب کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا بے ہودہ کام کرتے اور بے جا ہنستے ہوئے کبھی نہیں دیکھا بچوں کے کھیل کود کی طرف کبھی رغبت نہیں فرماتے تھے۔ خلوت نشینی اور تنہائی کو پسند فرماتے تھے اور ہر حالت میں منکسرالمزاج اور متواضع رہتے تھے۔

کاہلی اور بے کاری سے نفرت
آنحضرت ۱کاہلی اور بے کاری سے سخت نفرت کرتے تھے اور فرماتے تھے:
”خدایا سستی کاہلی بے کاری عاجزی اور بدحالی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“(الجامع الصغیر ج ۱ ص ۵۸)
مسلمانوں کو کام کرنے کا شوق دلاتے تھے اور فرماتے تھے:
”عبادت کے ستر (۷۰) حصے ہیں اور اس کا بہترین حصہ حلال روزی کمانا ہے۔“(کافی ج ۵ ص ۷۸)

امانت
بعثت سے پہلے جناب خدیجہ کی طرف سے جو بعد میں آپ کی زوجیت میں آئیں شام کے ایک تجارتی سفر پر گئے۔ اس سفر میں آپ کی لیاقت و صلاحیت اور ایمان داری کھل کر ظاہر ہوئی۔ آپ نے اپنی دیانت و ایمان داری میں اس قدر زیادہ شہرت حاصل کر لی تھی کہ لوگوں نے آپ کا لقب ہی ”محمد امین“ قرار دے دیا تھا اور اپنی امانتیں حضرت کے سپرد کیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعثت کے بعد بھی قریش کے لوگ آپ سے عداوت و دشمنی رکھنے کے باوجود اپنی امانتیں آپ کے سپرد کر دیا کرتے تھے اسی وجہ سے مدینہ سے ہجرت کرتے وقت حضرت علی کو اپنے بعد چند روز کے لئے مکہ میں چھوڑا تھا تاکہ ساری امانتوں کو ان کے اصل مالکوں کے حوالے کر دیں۔

ظلم سے مقابلہ
زمانہ جاہلیت میں ایک ایسے گروہ کے ساتھ جو خود بھی طاقتور ظالموں کے ظلم و ستم کا شکار تھا مظلوموں اور کمزوروں کی حمایت اور ظالموں سے مقابلہ کا معاہدہ فرمایا تھا۔ یہ معاہدہ مکہ کی ایک اہم شخصیت عبداللہ بن جرعان کے گھر منعقد ہوا تھا اور ”حلف فضول“ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ اپنے دور رسالت میں بھی اس معاہدے کو یاد فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں اس معاہدے کے ٹوٹنے پر راضی نہیں ہوں اور میں اب بھی ایسے معاہدوں میں شریک ہونے کے لئے تیار ہوں۔

گھریلو اخلاق
آپ ۱گھر میں بہت مہربان تھے۔ اپنی ازدواج کے ساتھ کسی قسم کی سختی نہیں کرتے تھے اور یہ بات مکہ والوں کے اخلاق و عادات کے خلاف تھی۔ اپنی بعض ازدواج کی بدزبانی کو برداشت کرتے تھے یہاں تکہ کہ دوسرے آپ کے اس تحمل و برداشت سے رنجیدہ ہوتے تھے۔ آپ لوگوں کو عورتوں کے ساتھ اچھی معاشرت کی تاکید فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمام لوگ اچھی و بری عادات کے حامل ہوتے ہیں لہٰذا مرد کو یہ نہیں چاہئے کہ اپنی بیوی کے صرف ناپسندیدہ پہلوؤں پر ہی نظر رکھے اور اپنی بیوی کو چھوڑ دے کیوں کہ اگر اس کی ایک خصلت سے اسے رنج پہنچتا ہے تو اس کی دوسری خصلت مرد کی خوشنودی کا باعث بھی ہوتی ہے اور ان دونوں خصلتوں کو ساتھ ساتھ نظر میں رکھنا چاہئے۔ آپ اپنے فرزندوں اور نواسوں پر حد سے زیادہ شفیق اور مہربان تھے ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اپنی آغوش میں انہیں بٹھاتے تھے انہیں اپنے کاندھوں پر سوار کرتے تھے ان کا بوسہ لیتے تھے۔ یہ سب باتیں اس زمانے کی رائج عادات و خصوصیات کے برخلاف تھیں ایک روز مدینہ کے شرفاء میں سے ایک شخص کی موجودگی میں آپ اپنے ایک نواسے (حضرت امام حسن ) کا بوسہ لے رہے تھے اس شخص نے کہا میرے دو بیٹے ہیں میں نے آج تک ان میں سے کسی ایک کا بھی بوسہ نہیں لیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
من لا یرحم و لا یرحم(الفقیہ ج ۴ ص ۲۷۴)
”جو شخص مہربانی نہیں کرتا خدا کی رحمت و مہربانی اس کے شامل حال نہیں ہوتی۔“
مسلمانوں کے بچوں کے ساتھ بھی آپ مہربانی فرماتے تھے۔ ان کو اپنے زانو مبارک پر بٹھا کر ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے کبھی کبھی مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو حضرت کو دیتی تھیں کہ آنحضرت ان کے واسطے دعا فرمائیں۔ کبھی ایسا بھی اتفاق ہو جاتا تھا کہ وہ بچے آپ کے لباس پر پیشاب کر دیتے تھے اور اس وجہ سے مائیں پریشان اور شرمندہ ہو جایا کرتی تھیں کہ بچے کے پیشاب جاری رہنے کو روک دیں تو آنحضرت انہیں اس کام سے سختی کے ساتھ منع فرماتے کہ بچے کے پیشاب کو مت روکو اور جہاں تک میرے کپڑوں کے نجس ہونے کا تعلق ہے تو میں انہیں پاک کر لوں گا۔

غلاموں کے ساتھ آپ کا سلوک
آنحضرت غلاموں پر حد سے زیادہ مہربان تھے۔ آپ لوگوں سے فرماتے تھے کہ یہ سب تمہارے بھائی ہیں۔ جو غذا تم کھاتے ہو وہی غذا انہیں بھی کھلاؤ اور جو کپڑا تم پہنتے ہو وہی کپڑا انہیں بھی پہناؤ طاقت فرسا اور مشکل کام کا بوجھ ان پر مت ڈالو۔ خود تم بھی کاموں میں ان کی مدد کیا کرو۔ حضرت فرماتے تھے ان کو غلام اور کنیز کہہ کر نہ پکارا کرو کیوں کہ ہم سب خدا کے مملوک اور بندے ہیں اور مالک حقیقی خدا ہے بلکہ انہیں لفظ فتیٰ (جوان مرد) یافتاہ (جوان عورت) کے لفظ سے پکارا کرو۔ اسلامی شریعت میں غلاموں اور کنیزوں کی آزادی کے لئے وہ تمام ممکنہ سہولتیں فراہم کی گئی ہیں جن کے نتیجے میں انہیں مکمل آزادی نصیب ہو آپ بردہ فروشی کو تمام پیشوں سے برا ترین پیشہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ”خدا کے نزدیک بدترین انسان آدمیوں کو بیچنے والے ہیں۔“(وسائل ج ۱۲ ص ۹۷)

صفائی پاکیزگی اور خوشبو
صفائی اور خوشبو سے آنحضرت کو بہت شغف تھا خود حضرت ہمیشہ اس کا لحاظ فرماتے تھے اور دوسروں کو بھی حکم دیتے تھے اور تاکید فرماتے تھے کہ وہ اپنے جسموں اور گھروں کو پاک و صاف اور خوشبودار رکھیں خصوصاً جمعہ کے دنوں میں انہیں غسل کرنے اور اپنے کو معطر و خوشبودار رکھنے کی ترغیب دیتے تھے تاکہ ان سے بدبو محسوس نہ ہو اور اس کے بعد لوگ نماز جمعہ کے لئے مسجد میں حاضر ہوں۔