وحی اور نبوت
 

اسلام کی امتیازی خصوصیات
اسلام دین خدا کا نام ہے جو یکتا ہے تمام پیغمبر اسی کی تبلیغ کے لئے بھیجے گئے ہیں اور سب نے اسی دین کی طرف دعوت دی ہے اس دین خدا کی جامع و کامل صورت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کی گئی اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور آج یہ دین اسی نام (اسلام) سے دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات جن کی تبلیغ پیغمبر اسلام کے ذریعے سے ہوئی دین خدا کی کامل و جامع صورت ہونے ہمیشہ کے لئے انسان کی رہنما ہونے کی وجہ سے خاص امتیازی خصوصیات کی حامل ہیں دورہ خاتمیت سے مناسبت رکھتی ہیں۔ یہ تمام کی تمام خصوصیات اپنی مجموعی حیثیت میں گذشتہ ادوار میں جوبشر کے بچپنے کے دور تھے وجود میں نہیں آ سکتی تھیں اور ان مشخصات و خصوصیات میں سے ہر ایک اسلامی تعلیمات کو پرکھنے کا معیار ہے اور ان میں سے ہر خصوصیت کے ذریعے کہ جو خود اسلامی تعلیمات کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اگرچہ مبہم ہی سہی لیکن بہرحال اسلام کے مجموعی خدوخال سے آشنائی حاصل کی جا سکتی ہے نیز ان معیارات کے پیش نظر یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں تعلیم اسلامی ہے یا نہیں اگرچہ ہم اس بات کا دعویٰ تو نہیں کرتے کہ یہاں پر ان تمام معیارات کو جمع کر سکتے ہیں لیکن ہم یہ کوشش ضرور کریں گے کہ حتی الامکان ان سب کی ایک جامع صورت پیش کریں ہم جانتے ہیں کہ ہر مکتب ہر مسلک اور ہر نظریہ بشر کی نجات اور کمال سعادت کے لئے ایک قسم کے احکام و معیار پیش کرتا ہے جو ”یہ کرنا چاہئے“، ”یہ نہیں کرنا چاہئے“، ”یہ نہیں ہونا چاہئے“، ”یہ ہونا چاہئے“، جیسے جامع عناوین کے تحت فرد اور معاشرے کے لئے ہوتے ہیں فلاں راستے کو انتخاب کرنا چاہئے یا فلاں تک پہنچنا چاہئے مثلاً آزادی کے ساتھ زندگی گزارنی چاہئے شجاع اور دلیر ہونا چاہئے مستقل اور مسلسل اپنے مقصد کی طرف گامزن رہنا چاہئے خود کو کامل کرنا چاہئے معاشرے کو عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہونا چاہئے ایسے راستے پر چلنا چاہئے جس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہو۔
لیکن یہ تمام عناوین ایک خاص فلسفہ رکھتے ہیں جو ان کی توجیہ کرتا ہے یعنی اگر کوئی مکتب ایک قسم کے احکامات و قوانین پیش کرتا ہے تو اس کے لئے لازم و ضروری ہے کہ بہرحال ہستی کائنات معاشرے اور انسان کے بارے میں ایک طرح کے فلسفے اور تصور کائنات پر انحصار کرے اور اس کا سہارا لے مثلاً چونکہ ہستی ایسی ہے اور انسان یا اس کا معاشرہ اسی طرح کا ہے لہٰذا ایسا ہونا چاہئے اور ویسا نہیں ہونا چاہئے۔
تصور کائنات یعنی دنیا انسان اور معاشرے کے بارے میں بہت سے افکار اور تفسیروں اور تجزیوں کا مجموعہ کہ دنیا اس طرح کی ہے یا ایسا قاعدہ رکھتی ہے اسی طرح ترقی کرتی ہے فلاں مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے یا نہیں کرتی اس کا کوئی مبداء ہے یا نہیں ہے اس کی کوئی انتہا ہے یا نہیں ہے مثلاً انسان ایسی فطرت اور طبیعت رکھتا ہے کسی خاص فطرت کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے یا نہیں مختار اور آزاد ہے یا مجبور ہے؟ طبیعت میں ایک منتخب واقعیت موجود ہے جس کو قرآن کے الفاظ میں ”اصطفٰی کیا ہوا“ کہتے ہیں یا ایک اتفاقی واقعہ ہے یا تاریخ اور معاشرہ پر جن قوانین کی حکومت ہے وہ کون سے قوانین ہیں؟ آئیڈیالوجی تصور کائنات پر قائم ہیں اور یہ کہ کیوں اس طرح یا اس طرح ہونا چاہئے یا کیوں اس طرح جینا یا جانا یا ہونا یا بنانا چاہئے؟ اس عقیدہ کے تحت ہے کہ دنیا یا سماج یا انسان کے بارے میں اس کا عقیدہ اور نظریہ ایسا ہے۔ ہر مسلک اور ہر آئیڈیالوجی (عقیدے) کی علت اس کے تصور کائنات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اور دوسرے الفاظ میں آئیڈیالوجی ”حکمت عملی“ کا نام ہے اور تصور کائنات ”حکمت نظری“ کی قسم سے ہے حکمت عملی کی خاص نوع حکمت نظری کی خاص نوع پر مبنی ہے مثلاً سقراط کی حکمت عملی اس خاص نظریہ کی بنیاد پر ہے جو سقراط دنیا کے بارے میں رکھتا ہے اور یہی خاص نظریہ سقراط کی حکمت نظری ہے اسی طرح ایپکور (Epicure) (مشہور یونانی فلسفی) کی حکمت عملی کا رابطہ ہی اس کی حکمت نظری سے ہے اور اسی طرح دوسروں کا بھی پس آئیڈیالوجیز (نظریات) کیوں آپس میں مختلف ہیں؟ کیونکہ تصورات کائنات مختلف ہیں یعنی آئیڈیالوجی تصور کائنات کے تابع ہوتی ہے۔
دوسری طرف جہان بینی جسے جہان شناسی بھی کہا جا سکتا ہے کیوں مختلف ہوتی ہے؟ کیوں ایک مکتب دنیا کو اس طرح دیکھتا ہے اور دوسرا دوسری طرح؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں ہے بہت سے مفکرین جب اس منزل تک پہنچتے ہیں تو فوراً منزل اجتماعی اور طبقاتی حالت کا شاخصانہ درمیان میں لاکھڑا کرتے ہیں اور اس امر کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ طبقاتی موقع و محل اور صورت حال کے لحاظ سے ہر شخص کا علیحدہ علیحدہ ایک خاص زاویہ نگاہ ہوتا ہے اور وہی طبقاتی نظام ہر شخص کو ایک خاص قسم کی عینک کائنات کے مطالعہ کے لئے پہنا دیتا ہے۔ انسان کا اپنے معاشرہ سے رابطہ ان چیزوں سے رابطہ جو معاشرے میں پیداوار اور تقسیم ہوتی ہیں ان کی پیدائش اور تقسیم کی کیفیت سے رابطہ اور اس کے نتیجے میں خود اس انسان کی محرومی و نامحرومی سے اس کے اعصاب اور اس کی روح و رواں میں عکس العمل پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی اندرونی حالت ایک خاص شکل اختیار کر لیتی ہے اور اس کی اندرونی اور ذہنی خاص حالت اس کی فکر و نظر نتیجہ گیری اور چیزوں کے بارے میں اس کی قوت فیصلہ کو متاثر کرتی ہے۔
مولانا رومی کے بقول:
چون تو برگردی و برگردد سرت
خانہ را گردندہ بیند منظرت
”اگر تو پلٹ آئے اور تیرا رخ مڑ جائے تو تیری آنکھیں دیکھیں گی کہ گھر کا نظام تو چل رہا ہے۔“ ور تو درکشتی روی بریم روان

ساحل یم را چو خود بینی دوان
”اگر تو بحری جہاز میں سوار سمندر میں رواں ہو تو تجھے یوں لگے گا جیسے ساحل بھی تیرے ساتھ چل رہا ہے۔“

گر تو باشی تنگ دل از ملحمہ
تنگ بینی چو دنیا را ہمہ
”اگر سخت جنگوں کے باعث تو پریشان ہو گیا ہو تو تجھے پوری دنیا پریشان دکھائی دے گی۔“

ور تو خوش باشی بہ کام دوستان
این جہان بنمایدت چون بوستان
”اگر دوستوں کی محبتوں کے باعث تو خوش ہو تو یہ دنیا تجھے گلشن نظر آئے گی۔“

چون تو عالمی پس ای مھین
کل آن را ہمچو خود بینی یقین
”چونکہ تو اسی عالم کا ایک حصہ ہے پس اے مہین یقیناً تو تمام دنیا کو اپنی طرح دیکھتا ہے۔“

ہر کہ را افعال دام و دو بود
بر کریمانش گمان بد بود
”جو بھی شخص حیوانوں اور درندوں کی سی عادتیں رکھتا ہو وہ کریم انسانوں کو بھی اپنے جیسا سمجھے گا۔“

اس نقطہ نظر سے کوئی بھی شخص اپنے نظریے کو صحیح اور دوسروں کے نظریے کو غلط نہیں کہہ سکتا کیونکہ نظریہ ایک نسبی امر ہے اور ہر شخص کا نظریہ اس کے قدرتی اور اجتماعی ماحول کا نتیجہ ہوتا ہے اور ہر شخص کے لئے وہی صحیح ہوتا ہے جسے وہ دیکھتا ہے لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انسان کی فکر و نظر کافی حد تک اس کے ماحول کے زیراثر ہوتی ہے اس میں کوئی کلام نہیں لیکن اس چیز سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کے لئے ایسا آزاد فکری مرکز موجود ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی اثرپذیری سے آزاد اور محفوظ رکھ سکتا ہے (اور جسے اسلام کی نظر میں ”فطرت“ کہا جاتا ہے)۔ البتہ کسی اور جگہ اس کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔
بالفرض اگر ہم انسان کی اصالت اور اس کے استقلال کو یعنی اس کی حقیقت پسند نگاہ کو اس سے سلب کرنا چاہیں تو بھی جہان بینی اور جہان شناسی کے مرحلے میں انسان کی سرزنش کرنا قبل از وقت ہو گا۔ ان فلاسفہ اور دانش وروں کے نزدیک جو ان مسئلوں کا نزدیک سے مطالعہ کرتے ہیں آج یہ بات مسلم ہے کہ جہان بینی اور علم کائنات یا جہان شناسی سے متعلق نظریات کے رنگا رنگ ہونے کی اصل اور جڑ کو علم معرفت میں یعنی آج کل جسے نظریہ معرفت یا نظریہ شناخت کہا جاتا ہے اس میں تلاش کرنا چاہئے۔(۱)
اکثر فلاسفہ ”علم معرفت“ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے تو یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ”فلسفہ“ علم کائنات کا نام نہیں ہے بلکہ علم معرفت کا نام فلسفہ ہے۔ یہ جو ہر ایک کا علم کائنات یا تصور کائنات مختلف ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تحصیل معرفت و شناخت سے متعلق نظریات مختلف ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ دنیا کو عقل کے ذریعے پہچاننا چاہئے تو دوسرا کہتا ہے کہ دنیا کو حواس خمسہ کے ذریعے پہچاننا چاہئے تیسرا کہتا ہے کہ نفس کی صفائی و پاکیزگی نورانیت قلب اور الہام کے ذریعے دنیا کو پہچاننا چاہئے کسی کی نظر میں معرفت اور پہچان کے مرحلے ایک طرح کے ہیں تو دوسرے کی نظر میں دوسری طرح کے عقل کا استعمال بعض کی نظر میں محدود ہے اور بعض کی نظر میں لامحدود معرفت کے سرچشمے کیا ہیں؟ اس کا کیا معیار ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ پس معلوم ہوا کہ ہر مکتب کا نظریہ اس کے تصور کائنات پر مبنی ہے اور اس کا تصور کائنات معرفت و پہچان کے بارے میں اس کے نظریے پر مبنی ہے ہر آئیڈیالوجی کا ترقی پانا اس کے تصور کائنات کے ترقی پانے سے وابستہ ہے اور اس کے تصور کائنات کا ترقی پانا اس کے علم و معرفت کے ترقی پانے پر منحصر ہے۔ درحقیقت ہر مکتب کی حکمت عملی اس کی حکمت نظری سے وابستہ ہے اور اس کی حکمت نظری اس کی منطق سے وابستہ ہے پس ہر مکتب کو چاہئے کہ پہلے مرحلے میں اپنی منطق کو معین و مشخص کرے اسلام اگرچہ ایک فلسفی مکتب نہیں ہے اور اس نے فلسفے اور فلاسفہ کی زبان و اصطلاح میں لوگوں سے گفتگو نہیں کی ہے بلکہ اسلام اپنی ایک مخصوص زبان رکھتا ہے جس سے عام طور سے تمام طبقے اپنے فہم و ادراک صلاحیت و استعداد کے مطابق بہرہ مند ہوتے ہیں لیکن اس نے اپنے مطالب کی گہرائیوں میں ان تمام مسائل کے بارے میں اپنا مدعا پیش کیا ہے (اور یہ بڑی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے)۔ اس طرح سے کہ اس کو فکر عملی کے ”پلانٹ“ کی صورت میں اور اس کی جہان بینی کو حکمت نظری کی شکل میں اور اس کے نظریات کو علم معرفت کے باب میں ایک منطقی اصول کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ہمیں اس مقام پر ایک اشارہ پر اکتفا کر کے آگے بڑھنا چاہئے (کیونکہ) اسلامی آئیڈیالوجی جہان بینی اور علم معرفت کی تدوین کے لئے خصوصاً اس بارے میں علماء اسلام خواہ وہ فقہا ہوں یا حکماء و عرفا اور دوسرے تمام صاحبان نظر کے گراں قدر اور گراں بہا نظریات کے مدنظر کئی بڑی بڑی جلدوں کی ضرورت ہو گی یہاں ہم فقط ایک فہرست (اگرچہ ناقص ہی سہی) پیش کرتے ہیں ممکن ہے آئندہ کسی موقع پر اس کی تکمیل ہو جائے۔ اس مقام پر جب کہ ہم اسلام کے مشخصات کے زیرعنوان اسلامی نظریات کے اصل خدوخال نمایاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں معرفت شناسی کے مشخصات جہان بینی اور جہا ن شناسی کے مشخصات اور آئیڈیالوجی سے متعلق مشخصات:

(الف) معرفت اور شناخت کا مسئلہ۱۔
کیا شناخت ممکن ہے؟ اس مسئلے سے متعلق یہ پہلا سوال ہے جو ہمیشہ درپیش رہا ہے اور رہے گا بہت سے دانش ور حقیقی معرفت و شناخت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور انسان کو ان چیزوں کی واقفیت و حقیقت پہچاننے سے جو دنیا میں ہیں اور دنیا میں رونما ہوتی رہتی ہیں قاصر سمجھتے ہیں اور یقین (یعنی قطعی و ناقابل تردید اور واقع کے مطابق علم) کو ایک اور محال شمار کرتے ہیں لیکن قرآن اس بناء پر کہ اس نے خدا دنیا انسان اور تاریخ کو پہچاننے کی دعوت دی ہے اور اس بناء پر کہ اس نے آدم۱کے قصے میں جو ایک انسان کا قصہ ہے اور اس کو تمام اسمائے الٰہی (کائنات کے حقائق) کی تعلیم کے لائق جانا ہے اور اس بناء پر کہ اس نے بعض موقعوں پر علم پروردگار (جو عین حقیقت ہے) کے کسی جزوی حصے پر محیط اور حاوی ہونے کی نوع سے سمجھا ہے۔
ولا یحیطون بشئیی من علمہ الا بماشاء( سورہ بقرہ آیت ۵۵)
”یعنی معرفت و شناخت کو ممکن جانتا ہے۔“
۲۔ معرفت کے سرچشمے کیا ہیں؟ قرآن کریم کی نظر میں معرفت و شناخت کے سرچشموں سے مراد طبیعت یا آفاقی نشانیاں انسان یا نفسی نشانیاں تاریخ یا مختلف قوموں کے واقعات عقل و فطرت کے بنیادی اصول قلب یعنی دل صفائی و پاکیزگی کے لحاظ سے گذرے ہوئے لوگوں کے علمی اور تاریخی آثار ہیں۔ قرآن نے اپنی بہت سے آیتوں میں زمین و آسمان کی ماہیت و طبیعت کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دی ہے۔
قل انظروا ماذا فی السموات والارض( سورہ یونس آیت ۱۰۱)
”(اے حبیب) کہہ دو! تم لوگ دیکھو اور غور و فکر کرو کہ آسمانوں اور زمین میں کیا چیزیں ہیں اسی طرح گذشتہ قوموں کی تاریخ میں تعقل و تدبر کی طرف سبق حاصل کرنے کے لئے دعوت دی ہے۔“
افلم یسیرو افی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او آذان یسمعون بھا( سورہ حج آیت ۴۶)
”کیا وہ لوگ زمین میں سفر نہیں کرتے (زمین پر گذرے ہوئے لوگوں کے آثار نہیں دیکھتے) تاکہ ان کے دل ایسے ہو جائیں۔ جن سے وہ سمجھنے لگیں اور کان ایسے ہو جائیں جن سے وہ سننے لگیں۔“
اسی طرح قرآن عقل اور عقل کی فطری بنیادوں کو بھی معتبر جانتا ہے اور اپنے استدلالوں میں ان پر اعتماد کرتا ہے۔
قل لو کان فیھما الھة الا اللّٰہ لفسدتا( سورہ انبیاء آیت ۲۲)
”کہہ دو کہ اگر ان دونوں (آسمانوں و زمین تمام موجودات) میں ایک خدا کے سوا کئی خدا ہوتے تو یہ دونوں تباہ ہو جاتے۔“
اور ان کا نظام درہم برہم ہو جاتا (برہان تمانع) یا پھر ارشاد ہوتا ہے:
ما اتخذ اللہ من ولد وما کان معہ من الہ اذا الذہب کل الہ بما خلق ولعلی بعضھم علی بعض سبحان اللہ عما یصفون( سورہ مومنون آیت ۹۱)
”خدا نے کوئی بیٹا اختیار نہیں کیا ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرے خدا ہیں (کیونکہ اگر ایسا ہوتا) تو ہر خدا اپنی اپنی مخلوقات کو اپنے ساتھ مختلف سمتوں میں لے جاتا اور ان خداؤں میں سے بعض پر اپنی برتری جتاتا۔ خدا پاک و منزہ ہے ان چیزوں سے جن سے لوگ اس کو متصف کرتے ہیں۔“
(نظام کائنات میں ہم آہنگی اور جہت و سمت کی وحدت پر مبنی برہان) اور اسی طرح قرآن قلب اور دل کو بعض الٰہی الہامات اور القائات کا مرکز سمجھتا ہے۔ جو شخص جس قدر بھی اسے پاک و صاف کرنے اور پاکیزہ رکھنے اور خدا کی طرف متوجہ اور اخلاص و عبودیت میں خاص توجہ کے ذریعے اس کو معنوی و روحانی غذا پہنچانے کی کوشش کرتا رہے گا اتنا ہی الہامات و القائات کے ایک سلسلے سے بہرہ مند ہوتا رہے گا۔ انبیاء۱کی وحی اسی طرح کی معرفت کا اعلیٰ مرتبہ ہے۔
جس طرح سے قرآن نے قلم و کتاب اور تحریر کی قدر و قیمت کی طرف بار بار اشارہ کیا ہے اور کئی موقعوں پر ان چیزوں کی قسم کھائی ہے۔
والقلم وما یسطرون( سورہ قلم آیت ۲)
۳۔ شناخت و معرفت کے وسائل کیا ہیں؟ معرفت و شناخت کے وسائل سے مراد قوت تفکر و استدلال نفس کی پاکیزگی اور دوسرے لوگوں کے علمی آثار ہیں۔ سورہ مبارکہ نحل میں ارشاد خداوندی ہے:
واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لاتعلمون شیئاً و جعل لکم السمع والابصار و الافئدة لعلکم تشکرون( سورہ نحل آیت ۷۸)
”خدا نے تمہیں تمہاری ماؤں کے شکموں سے باہر نکالا اس حالت میں کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہیں کان آنکھ و دل عطا کئے تاکہ تم ان نعمتوں کا شکر ادا کرو اور ان سے کماحقہ نفع حاصل کرو۔“
اس آیہ کریمہ میں صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ انسان افلاطون کے نظریے کے برعکس(۱) اپنے پیدا ہونے کے وقت ہر قسم کے علم و معرفت سے بے گانہ ہوتا ہے اور خدا نے انسان کو حواس عطا کئے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے سے دنیا کا مطالعہ کرے اور اس کو ضمیر اور تجزیہ و تحلیل کی قوت عنایت فرمائی ہے تاکہ جن چیزوں کو وہ حواس کے ذریعے حاصل کرتا ہے اب دوسرے مرحلے میں ان پر غور و فکر کرے ان کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھے اور ان کی حقیقت کو اور ان قوانین کو جو ان اشیاء پر حاکم ہیں معلوم کرے۔ اس آیت میں صاف صاف لفظوں میں حواس کو (جن میں کان اور آنکھ کا سب سے زیادہ اہم ہونے کی وجہ سے بطور نمونہ تذکرہ کیا گیا ہے) معرفت و شناخت کے وسائل (یعنی سطحی شناخت اور شناخت کا پہلا مرحلہ) اسی طرح ضمیر (دل) کو بھی معرفت و شناخت اور علم پیدا کرنے کے وسائل (یعنی منطقی اور عمیق معرفت کا مرحلہ) کے عنوان سے متعارف کروایا گیا ہے۔ اس آیت میں ضمناً شناخت کے بارے میں ایک دوسرے مسئلے کی طرف بھی اشارہ ہے اور وہ مراحل شناخت کا مسئلہ ہے۔
قرآن جس طرح حواس اور قوت فکر کو معرفت کے وسائل سمجھتا ہے اسی طرح تزکیہ نفس اور تقویٰ و پرہیزگاری کو بھی معرفت کا ایک وسیلہ سمجھتا ہے۔ بہت سی آیتوں میں انہی مطالب کی طرف اشارہ یا تصریح کی گئی ہے۔
ان تتقواللہ یجعل لکم فرقانا
( سورہ انفال آیت ۲۹)
”اگر تم اپنے آپ کو ان باتوں سے جو خدا کو پسند نہیں ہیں بچاؤ گے تو اپنے دل کو پاک و صاف اور محفوظ رکھو گے تو خداوند عالم تمہارے واسطے حق و باطل کے درمیان فرق پیدا کرنے کا ایک ذریعہ معین فرمائے گا۔“
ونفس وما سوا ھا فالھمھا فجورھا و تقوا ھا قد افلح من زکیھا و قد خاب من دسیھا( سورہ شمس آیت ۷۔۱۰)
”قسم ہے انسان کی جان کی اور اس کی آراستگی اور اعتدال کی کہ خدا نے اسے اس کی ناپاکی اور پاکی کے بارے میں الہام کیا ہے اور اس کو سمجھا یاہے جس شخص نے اس کا تزکیہ کیا اس نے فلاح پائی اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ ناکام ہوا۔“
علم حاصل کرنا یاد کرنا کتاب کو پڑھنا بھی ان وسیلوں میں سے ہے کہ اسلامی تعلیمات نے اس کی طرف توجہ کی ہے اور اس کو باقاعدہ طور پر ایک خاص اہمیت دی ہے اس کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ پیغمبر پر وحی کا آغاز لفظ ”اقراء“ یعنی پڑھو سے ہوتا ہے۔ قرات یعنی (کتاب سے) کسی عبارت کا پڑھنا ہے۔
اقراء باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا و ربک الاکرام الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم( سورہ علق آیت ۱۔۵)
”اے رسول پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا (یا اس حیوان سے جو جونک سے مشابہ ہوتا ہے) پڑھو اور تمہارا سب سے زیادہ کریم (و بزرگ) پروردگار ہے جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا انسان کو وہ باتیں پڑھا دیں جنہیں وہ نہیں جانتا تھا۔“

۴۔ شناخت کے موضوعات:
کون سی چیزیں پہچاننے کے لائق ہیں جنہیں پہچاننا چاہئے؟ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو قابل معرفت ہیں اور ان کی معرفت حاصل کرنا چاہئے۔
(ب) تصور کائنات کے لحاظ سے
یہ کتاب جو اسلامی و الٰہی تصور کائنات کا ایک مقدمہ ہے اس کا اصل مقصد اسی مطلب کی توضیح کرنا ہے اور اس کتاب کے مطالب کے ضمن میں ان نکات کو بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس لحاظ سے کہ مضمون کا سلسلہ منقطع نہ ہونے پائے۔ ان مشخصات کو بہت مختصر اور خلاصہ کے طور پر ہم یہاں بیان کرتے ہیں:
۱۔ کائنات ”اسی کی طرف سے“ ہونے کی اہمیت رکھتی ہے یعنی دنیا کی حقیقت و موجودگی اسی کی طرف سے دی گئی حقیقت و موجودگی ہے کسی چیز کے کسی چیز سے ہونے میں اس لحاظ سے کہ اس کا تمام وجود اسی کی طرف سے عطا کردہ حقیقت اور واقعیت نہیں ہے فرق ہے جیسے فرزند کا وجود ماں باپ کی نسبت کہ فرزند کا وجود ان کے وجود سے ہے لیکن اس کی وجودی حقیقت ماں باپ کی طرف نسبت اور اضافی حقیقت سے اختلاف رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام حقیقت خدا سے منسوب ہے۔ اس کی حقیقت اور اللہ سے اس کی اضافت و نسبت سب ایک ہے مخلوق ہونے کے یہی معنی ہیں اگر اس معنی کے علاوہ ہو گا تو وہ تولید ہو گی نہ کہ تخلیق اور اس کی ذات ”لم یلد ولم یولد“ہے اور اس صورت میں دنیا زمانی آغاز و انجام رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر دنیا زمانی آغاز رکھتی ہو تو ”اس سے ہونے“ کی حقیقت محدود ہے اور اگر نہیں رکھتی تو ”اس سے ہونے“ کی حقیقت لامحدود ہے۔ زمانی طور پر محدود ہونا اور لامحدود ہونا کسی مخلوق کی واقعیت و موجودگی اور اس کی تخلیق میں کسی طرح بھی اثرانداز نہیں ہوتا۔
۲۔ دنیا جس کی واقعیت و حقیقت ”اس سے ہے“ سے عبارت ہے اور اصطلاح میں حادث ذاتی کہلاتی ہے۔ ایک حدوث زمانی بھی رکھتی ہے یعنی ایک بدلتی رہنے والی اور متحرک واقعیت بلکہ عین حرکت ہے اور جب دنیا عین حرکت اور خود حرکت ہے تو ایک حدوث مسلسل ہے یعنی دنیا ہمیشہ اور دائمی طور پر خلق ہونے اور حدوث و فنا کی حالت میں ہے۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں دنیا پیدا اور فنا نہ ہوتی رہتی ہو۔
۳۔ اس دنیا کے حقائق دوسری دنیا جسے عالم ڈیب کہا جاتا ہے کہ واقعیات کی تنزل یافتہ صورت ہے اور دوسرے درجہ اور مرتبے کی واقعیات ہیں جو چیزیں اس دنیا میں خاص تعداد میں اور محدود ہیں وہ پہلے سے موجود عالم (غیب) میں خاص تعداد کے بغیر اور غیر محدود شکل میں ہیں اور قرآن کے الفاظ میں خزائن کی شکل میں موجود ہیں۔(ملاحظہ فرمائیں تفسیرالمیزان میں آیہ کریمہ: ”وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الاھو“ کی تفسیر انعام ۶۰)
وان من شئی الا عندنا خزائنہ وماننزلہ الا بقدر معلوم( سورہ الحجر آیت ۲)
”کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ اس کے خزانے اور معاون ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم ان کو نازل نہیں کرتے مگر بقدر معین۔“
۴۔ یہ دنیا ”بہ سوئے اوئی“ یعنی اسی کی طرف لوٹ کر جانے کی ماہیت رکھتی ہے یعنی جس طرح ”اس سے ہے“ اسی طرح ”اسی کی طرف“ بھی ہے پس پوری دنیا اپنے تمام موجودات کے ہمراہ ایک (اسی کی طرف سے) نزولی سفر طے کر چکی ہے اور اب ”اسی کی طرف“ صعودی سفر طے کرنے کی حالت میں ہے۔ سب کے سب خدا کی طرف سے آئے ہیں اور سب کو اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
اناللہ وانا الیہ راجعون( سورہ بقرہ آیت ۱۵۶)
الا الی اللہ تصیرالامور( سورہ شوریٰ آیت ۵۳)
”آگاہ ہو جاؤ کہ تمام امور کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہو گی۔“
وان الی ربک منتہاھا( سورہ النازعات آیت ۴۴)
”بے شک ان چیزوں کی انتہا تمہارے پروردگار کی طرف ہو گی۔“

۵۔ دنیا ایک علت و معلول اور سبب و مسبب کے نظام میں بندھی ہوئی ہے اور ہر موجود پر الٰہی فیض اور اس کی قضا و قدر صرف اسی کے خاص علل و اسباب کی راہ سے جاری ہوتی ہے۔“(ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”عدل الٰہی انسان اور سرنوشت“)

۶۔ علت و معلول اسباب و مسببات کا یہ نظام مادی و جسمانی اسباب و مسببات پر منحصر نہیں ہے۔ دنیا میں علل و اسباب کا نظام اپنی مادی جہت کے اعتبار سے ماورا حیثیت کا حامل ہے اپنی ملکوتی و معنوی جہت سے غیر مادی علل و اسباب کا نظام رکھتی ہے اور ان دونوں نظاموں کے درمیان کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنا وجودی مرتبہ اور درجہ حاصل کر لیا ہے۔ فرشتے لوح لوح و قلم آسمانی و ملکوتی کتابیں ایسے واسطے اور وسیلے ہیں جن کے ذریعے باذن پروردگار الٰہی فیض جاری ہوتا ہے۔
۷۔ دنیا پر ایسے مستقل اور ناقابل تبدیل قوانین کی حکمرانی ہے جو دنیا کے سببی و مسببی نظام کا لازمہ ہے۔

۸۔ دنیا ایک ہدایت یافتہ حقیقت ہے۔ دنیا کی ترقی اور تکامل ہدایت یافتہ تکامل ہے۔ دنیا کے تمام ذرات جس درجہ و مرتبہ کے بھی ہیں نور ہدایت سے فیض یاب ہیں جبلت (فطری شعور) حس عقل الہام اور وحی یہ سب دنیا کے ہدایت عامہ کے مراتب و مدارج ہیں۔

قال ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی( سورہ طہ آیت ۵۰)
”(موسیٰ اور ہارون۱) نے فرعون سے کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے لائق خلقت عطا کی ہے پھر اس کی ہدایت بھی کی۔ “
دنیا میں خیر میں خیر بھی ہے اور شر بھی مطابقت و ہم آہنگی بھی ہے اور مخالفت بھی جو دوسخا بھی ہے اور بخل و کنجوسی بھی نور بھی ہے اور تاریکی بھی دنیا حرکت و ترقی کی حالت میں بھی ہے اور سکون و جمود کی حالت میں بھی لیکن جو چیز حقیقی معنی میں وجود رکھتی ہے وہ خیر ہے مطابقت و موافقت ہے جو دوسخا ہے نور ہے حرکت ہے۔

۹۔ شر تضاد بدی تاریکی اور جمود طفیلی موجودات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ طفیلی امور عموماً نیکیوں کا دروازہ کھولنے کامیابیوں بخششوں روشنیوں حرکتوں اور ترقیوں میں ایک بنیادی کردار کے حامل بھی ہیں۔

۱۰۔ کائنات چونکہ ایک زندہ اکائی ہے یعنی ذی شعور قوتیں دنیا کی تدبیر کرتی ہیں۔
فالمد برات امرا( سورہ النازعات آیت ۵)”اپنے اور انسان کے درمیان رابطے اور تعلق کے لحاظ سے عمل اور ردعمل کی دنیا ہے یعنی انسان کے نیک و بد ہونے کے بارے میں لاپرواہ نہیں ہے۔ آخرت میں جزا و سزا کے علاوہ دنیا میں بھی جزا و سزا مداوا و مکافاة کا نظام جاری ہے۔ شکر و کفر دونوں یکساں نہیں ہیں۔“
لئن شکر تم لا زید نکم ولئن کفر تم ان عذابی لشدید( سورہ ابراہیم آیت ۷)
”اگر تم لوگ الٰہی نعمتوں کی قدردانی اور حق شناسی کرو گے اور مطلوبہ طریقے سے ان سے فائدہ اٹھاؤ گے تو ہم ان نعمتوں کو تم پر اور زیادہ کر دیں گے اور ناشکری کرو گے اور ان نعمتوں کو بے ہودہ طریقے سے اور مخالف راہ میں صرف کرو گے تو میرا عذاب بے شک بہت سخت ہے۔“
حضرت علی۱فرماتے ہیں:
لا یزھد نک فی المعروف من لایشکرک علیہ فقد یشکرک من لا یستتمع بشئی منہ و قد تدرک من شکر الشاکر اکثر مما اضاع الکافر واللہ یحب المحسنین
(نہج البلاغہ حکمت نمبر ۲۰۴)
”اگر تم نے کسی کے ساتھ بھلائی کی اور اس نے تمہاری حق شناسی نہ کی تو کہیں اس کی یہ حرکت تمہیں بھلائی کرنے سے بددل نہ کر دے کیونکہ اس کی بجائے تمہاری حق شناسی وہ کرے گا جو تمہاری بھلائی سے قطعاً کبھی بہر مند نہیں ہوتا اور تم اس غیر شکرگزار کی طرف سے اس مقدار سے کہیں زیادہ پا جاؤ گے جتنا اس کفران نعمت کرنے والے نے تمہارے حق نعمت کو ضائع کیا ہے اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے یعنی دنیا اپنی مجموعی حیثیت میں ایک باہم وابستہ کارخانہ اور ایک عضویاتی رابطے کی حامل ہے تم اس انتظار میں نہ رہو اور یہ امید نہ رکھو کہ تم نے جس جگہ بھلائی کی ہے وہیں سے تم کو نیکی کا بدلہ بھی ملے گا کبھی کبھی بلکہ زیادہ تر تم جس جگہ پر نیکی کرتے ہو اس کا بدلہ کسی دوسری جگہ سے ملتا ہے جہاں سے تمہیں کوئی امید نہیں ہوتی کیوں؟ کیونکہ اس دنیا کا ایک خدا ہے اور خدا نیک کاروں کو دوست رکھتا ہے۔“
تو نیکی بکن و در دجلہ انداز
کہ ایزد در بیابانت دھد باز
”تم نیکی کرتے رہو اور ان سب کو دجلہ میں ڈال دو تاکہ خداوند عالم تمہیں صحرا میں اس کا بدلہ دے۔“

۱۱۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔
۱۲۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً ۲۰ آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔
۱۳۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔
۱۴۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔
۱۵۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔
ما خلقنا السموات والارض وما بینھما الا بالحق( سورہ احقاف آیت ۳)
”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“
۱۶۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔
ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انھم لھم المنصورون وان جندنا لھم الغالبون
( سورہ الصافات آیت ۱۷۳)
”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“
۱۷۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:
قلم: ”ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون( سورہ زمر آیت ۹)
راہ خدا میں جہاد: ”فضل اللہ المجاہدین علی القاعدین اجرا عظیما( سورہ النساء آیت ۹۵)
تقویٰ و پاکیزگی: ”ان اکر مکم عنداللہ اتقٰکم
( سورہ حجرات آیت ۱۳۰)
۱۸۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔
۱۹۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔
حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ
فقل ھل لک الی ان تزکی و اھد یک الی ربک فتخشیٰ( سورہ النازعات آیت ۱۹)
”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“
۲۰۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں) جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔
۲۱۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔
۲۲۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے) سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔
۲۳۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔
ان اللہ لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسھم( سورہ رعد آیت ۱۱)
۲۴۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔
۲۵۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات
اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۱۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

۲۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:
اسلامی کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۳۔ سہولت اور آسانی:
رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“(۱) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔
ماجعل علیکم فی الدین من حرج
( سورہ حج آیت ۸۷)
”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے۔“
اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

۴۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:
اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:
لا رہبانیۃ فی الاسلام
”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“
پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف رغبت اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۔ اجتماعی ہونا:
اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

۶۔ انفرادی حقوق اور آزادی:
اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۷۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:
جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

۸۔ شوریٰ کا حصول:
اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

۹۔ مضر حکم کا نہ ہونا:
اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۱۰۔ مفید نتیجے اور فائدے کی امتیازی حیثیت:
اسلام کی نظر میں ہر کام خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی سب سے پہلے اس کے فائدے اور مفید نتیجے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ جس کام سے کوئی فائدہ برآمد نہ ہو اسلام کی نظر میں اسے بے ہودہ فضول اور ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ والذین ھم عن اللغو معرضون( سورہ مومنون آیت ۳)

۱۱۔ لین دین میں خیر و صلاح کا لحاظ:
مال و دولت کی گردش اس کے نقل و انتقال کو ہر قسم کی بے ہودگی اور بدعنوانی سے پاک و صاف ہونا چاہئے۔ ہر نقل و انتقال کے مقابل میں کوئی مادی یا معنوی خیر و بھلائی ملحوظ خاطر ہونی چاہئے ورنہ مال کی یہ گردش باطل اور ممنوع ہو گی۔
ولاتا کلوا اموالکم بینکم بالباطل( سورہ بقرہ آیت ۱۸۸)
”جوئے وغیرہ کے ذریعے مال کا نقل و انتقال باطل طریقے سے مال کمانے کا مصداق ہے اور حرام ہے۔“

۱۲۔ سرمایہ جونہی گردش یا نقصان یا تباہی کی صورت سے خارج ہو کر ضمانت و غرض کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو عقیم (فائدے سے خالی) اور بے سود ہو جاتا ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا کوئی جائز فائدہ نہیں رہتا اور جو اضافی مقدار بھی اصل سرمائے پر لی جائے گی وہ سود اور حرام کے زمرے میں آئے گی۔

۱۳۔ ہر مالی تبادلہ اور سرمائے کی گردش طرفین کی پوری واقفیت و آگاہی ہی سے ہونی چاہئے اور ضروری سمجھا جائے گا۔
نھی النبی عن الغرر(صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۱۵۳)
”اپنے کو معرض ہلاکت میں ڈالنا خدعہ دھوکہ و فریب ہے۔“

۱۴۔ خلاف عقل امور سے مقابلہ:
اسلام عقل کو قابل احترام چیز اور خدا کا باطنی رسول سمجھتا ہے اصول دین عقلی و منطقی دلیل کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔ فروع دین میں بھی عقل اجتہاد کے سرچشموں میں سے ایک ہے۔ اسلام عقل کو ایک قسم کی طہارت اور عقل کے زائل ہونے کو ایک طرح کا محدث ہونا سمجھتا ہے لہٰذا جنون یا مستی کا طاری ہونا بھی پیشاب کرنے یا سو جانے کی مانند وضو کو باطل کر دیتا ہے۔ اسلام ہر طرح کی مستی اور نشے کا مخالف ہے اور مطلقاً تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے کیوں کہ وہ ہر اس چیز کا مخالف ہے جو عقل کی مخالف ہو اور یہ مخالفت دین کا جزولاینفک ہے۔(جو چیز نہی نبوی کی عبارت میں ہے وہ ”بیع غرری“ ہے لیکن اجتہادی معیارات مطلقہ طور پر غرر و فریب کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔مولف)

۱۵۔ خلاف ارادہ امور سے مقابلہ:
جس طرح عقل قابل احترام اور اسلامی تعلیمات میں بہت سے احکام عقل کی حفاظت و نگہبانی کے لئے ہیں اسی طرح ارادہ بھی جو عقل کی قوت مجریہ ہے قابل احترام ہے اس لحاظ سے ارادے (خیر) سے روکنے والی چیزیں جو زبان اسلام میں لہو و لعب کہلاتی ہیں بھی حرام و ممنوع ہیں۔

۱۶۔ کام اور مشغلہ:
اسلام بیکاری اور کاہلی کا دشمن ہے اس لحاظ سے کہ انسان معاشرے سے استفادہ کرتا ہے کام فرد اور معاشرے دونوں کی اصلاح کا بہترین عامل اور سبب ہے اور بیکاری تباہی و فساد کا سب سے بڑا عامل ہے۔ اس لئے انسان کو مفید کام انجام دینے چاہیں۔ اسلام طفیلی ہونے اور معاشرے پر بوجھ بننے کی سخت مذمت کرتا ہے اور معاشرے پر بوجھ بننے والے پر لعنت کرتا ہے:
ملعون من القی کلہ علی الناس
”وہ شخص جو اپنا بوجھ لوگوں پر ڈالتا ہے۔“(وسائل ج ۱۲ ص ۱۸)

۱۷۔ پیشے اور فن و ہنر کا مقدس ہونا:
پیشہ اور فن و ہنر جہاں ایک خدائی حکم ہے وہاں ایک مقدس اور پاکیزہ عمل اور اللہ کا محبوب و پسندیدہ امر بھی ہے اور جہاد کی مانند ہے۔
ان اللہ یحب المومن المحترف
(وسائل ج ۱۲ ص ۱۳ ان الفاظ کے ساتھ: ان اللہ یحب المحترف الامین)
”خداوند عالم اس مومن کو دوست رکھتا ہے جو صاحب فن و حرفت ہو۔“
الکاد لعیالہ کالمجاہد فی سبیل اللہ(وسائل ج ۱۲ ص ۴۳ وہاں پر لعیالہ کی جگہ علی عیالہ آیا ہے)
”جو شخص اپنے عیال کے لئے اپنے کو رنج و تکلیف میں ڈالتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔“

۱۸۔ استحصال کی ممانعت:
اسلام استحصال و استثمار یعنی دوسروں کے کام سے بلاعوض یا غیر مناسب معاوضہ حاصل کرنے کو خواہ وہ کسی شکل اور کسی تدبیر سے ہونا جائز اور ممنوع قرار دیتا ہے۔ کسی کام کے ناجائز ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ استحصالی ماہیت رکھتا ہے۔

۱۹۔ اسراف و فضول خرچی:
لوگ اپنے اموال کے مالک ہیں اور ان پر اپنا پورا تسلط رکھتے ہیں(الناس مسلطون علی اموالھم) لیکن یہ تسلط اس معنی میں ہے کہ اسلام نے جو حدود معین کی ہیں وہ ان کے دائرے میں ہو نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ مال کا ضائع کرنا ہر شکل میں اور ہر صورت سے خواہ وہ پھینک دینے کی صورت میں ہو یا تباہ کن تجملات اور زیب و زینت کی چیزوں پر تصرف کی شکل میں ہو اور جسے اسلام کی زبان میں ”اسراف و تبذیر“ سے تعبیر کیا گیا ہے ممنوع اور حرام ہے۔

۲۰۔ زندگی میں ترقی و توسیع:
اہل و عیال کے آرام و آسائش کے لئے ضروریات زندگی کی چیزوں میں اضافہ کرنا اگر کسی کی حق تلفی یا اسراف اور فضول خرچی کی حد میں داخل نہ ہو جائے نہ صرف جائز بلکہ قابل تعریف فعل ہے اور اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔

۲۱۔ رشوت:
اسلام میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں کی سخت مذمت کی گئی ہے اور دونوں کو آتش جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور جو پیسے اس طرح سے حاصل ہوتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں۔

۲۲۔ ذخیرہ اندوزی:
اگر عام طور پر اشیائے ضرورت (خاص کر اشیائے خوردنی) کو ذخیرہ کر لیا جائے تاکہ ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے تو یہ عمل ان اشیاء کا مہنگا بیچنا حرام اور ممنوع ہے حاکم شرعی مالک کی خواہش اور مرضی کے خلاف ان جمع شدہ اشیاء کو بازار میں لائے گا اور انہیں عادلانہ نرخ پر فروخت کرائے گا۔

۲۳۔ آمدنی کا مصلحت کی بنیاد پر ہونا نہ کہ طلب و تقاضے کی بنیاد پر:
عام طور پر چیزوں کی قدر و قیمت اور مالیت کا تعین صارفین کی طلب اور مانگ سے ہوتا ہے اور کسی کام کے جائز ہونے کے لئے اس کام کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونے کو کافی سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کسی چیز کی مالی قدر و قیمت کے تعین اور لوگوں کے کام کو جائز قرار دینے کے لئے لوگوں کی طلب اور مانگ کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ کام کے معاشرے کی مصلحت کے مطابق ہونے کو عرف شریعت میں مالیت کے تعین اور کام کے جائز ہونے کے لئے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی اسلام صرف لوگوں کی خواہشوں اور رغبتوں کو جائز آمدنی کا منبع نہیں سمجھتا بلکہ خواہشات اور رغبتوں کے علاوہ معاشرے کی مصلحت کے ساتھ آمدنی کو بھی شرط قرار دیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام لوگوں کی طلب کو رسد کے جواز کے لئے کافی نہیں جانتا اس لئے اسلام میں بعض کاموں اور کسب کے طریقوں کو ”مکاسب محرمہ“ کہا گیا ہے۔ مکاسب محرمہ (کمانے کے حرام طریقے) چند قسم کے ہیں:
(الف) چیزوں کا ایسا لین دین جو جہالت میں ڈالنے کا موجب ہو۔ ایسی چیزیں جو لوگوں کو عملاً جہالت اور فکری و اعتقادی روگردانی کی طرف راغب کرنے اور شوق دلانے کا سبب ہوتی ہیں حرام ہیں اگرچہ ان کی مانگ کافی مقدار میں ہو اس لحاظ سے بت فروشی صلیب کا بیچنا تدلیس ماشطہ (عورت کی آرائش کرنا اور اس آرائش کے ذریعے عورت کے عیوب کو چھپانا تاکہ اس کا رشتہ لینے کے لئے آنے والے فریب کھا جائیں) کسی ایسے شخص کی مدح کرنا جو اس مدح کا مستحق نہ ہو کہانت اور غیب گوئی یہ سب امور حرام ہیں اور ان طریقوں سے مال وصول کرنا بھی ممنوع اور حرام ہے۔
(ب) ان چیزوں کا باہمی تبادلہ جو گمراہ کرنے اور غفلت میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں- گمراہ کن کتابوں اور فلموں کی خرید و فروخت اور ہر وہ کام جو کسی طرح سے بھی معاشرے کی گمراہی کا موجب ہو ناجائز اور حرام ہے۔
(ج) وہ کام جو دشمن کی تقویت کا موجب ہو کسی بھی ایسے طریقے سے روپیہ پیسہ کمانا حرام ہے جو دشمن کی بنیاد مضبوط کرنے کا باعث ہو خواہ وہ فوجی اعتبار سے ہو یا اقتصادی ثقافتی یا جاسوسی کے اعتبار سے اسلامی محاذ کو کمزور بناتا ہو چاہئے اسلحہ فروشی کی صورت میں ہو یا ایسی دوسری چیزوں کی فروخت کی شکل میں جن کی احتیاج ہو اور جو عملاً مذکورہ امور کا سبب ہوں اور نایاب قلمی نسخوں کا بیچنا بھی انہی چیزوں میں شامل ہے۔
(د) ایسے امور کے ذریعے مال حاصل کرنا جو فرد یا معاشرے کے لئے تباہ کن اور نقصان پہنچانے والے ہوں مثلاً شراب فروشی آلات قمار کا بیچنا اسی طرح نجس العین چیزوں کا بیچنا اور ناقص اور ملاوٹ کی ہوئی چیزیں بھی اسی زمرے میں شامل ہیں (ان سب طریقوں سے) مال حاصل کرنا جوا کھیلنا امر حرام کی طرف دوسروں کو مائل کرنا اور لے جانا کسی مومن کی ہجو ظالموں کی مدد کرنا اور ان کی نوکری اور ملازمت وغیرہ (ممنوع اور حرام ہے) البتہ کسب حرام کی دوسری قسم بھی ہے جو کام کے خلاف مصلحت ہونے کی بناء پر نہیں بلکہ اس کے لین دین سے بالاتر ہونے کی وجہ سے حرام ہے بہت سے کام بزرگی و پاکیزگی کی ایسی حد میں ہیں کہ ان کے عوض قرار دینا ان کی حیثیت و عظمت و حرمت کے خلاف ہے جیسے فتویٰ دینے شرعی فیصلہ کرنے اصول و فروع دین کی تعلیم دینے وعظ و نصیحت کرنے اور اس جیسی دوسری چیزیں اور ممکن ہے طبابت بھی اسی میں شامل ہو۔
مذکورہ کام اور پیشے اپنے مقدس ہونے کی بناء پر لین دین اور مبادلہ سے بالاتر ہیں اور اس چیز سے کہیں بلند ہیں کہ آمدنی اور دولت کی جمع آوری کا ذریعہ بنیں یہ سب کام واجبات کا ایک سلسلہ ہیں جنہیں بلاعوض انجام پانا چاہئے البتہ مسلمانوں کا بیت المال ان مقدس کاموں کے انجام دینے والوں کی ضروریات زندگی کے اخراجات کا ذمہ دار ہو گا۔
۲۴۔ حقوق کا دفاع کرنا (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور زیادی و زبردستی کرنے والے کے خلاف جہاد کرنا واجب اور مقدس کام ہے۔
لا یحب اللہ الجھر باالسوء من القول الا من ظلم( سورہ نساء آیت ۱۴۸)
”خداوند عالم اعلانیہ طور پر بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔“
رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:
افضل الجہاد کلمة عدل عند امام جائر(کافی ج ۵ ص ۶۰)
”بہترین جہاد ظالم و جابر پیشوا کے سامنے عدل و انصاف کی بات کہنا ہے۔“
حضرت علی حضرت رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں:
لن تقدس امۃ حتی یوخذ للضعیف حقہ من القوی غیر متمتع
(نہج البلاغہ عہد نامہ مالک اشتر)
”کوئی قوم و ملت بزرگی و پاکیزگی (تعریف و تمجید کی قابلیت) حاصل نہیں کرتی یہاں تک کہ اس مرحلے پر پہنچ جائے کہ کمزور اپنا حق بلاخوف اور بلاجھجک طاقتور سے لے لے۔“

۲۵۔ اصلاح کی کوشش اور فساد و خرابی کے مقابلے میں مسلسل جدوجہد اسلام میں اچھائیوں کا حکم دینا اور اس طرف متوجہ رکھنا اور برائیوں سے روکنا وہ فریضہ ہے جو امام باقر کے مبارک الفاظ میں تمام اسلامی فرائض کا پایہ اور ستون ہے۔ یہ اصول مسلمان کو دائمی اور فکری انقلاب کے ذریعے اصلاح معاشرے کے لئے مسلسل کوشش اور تمام برائیوں اور تباہ کاریوں سے جنگ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر( سورہ آل عمران آیت ۱۱۰)
”تم بہترین گروہ ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کئے گئے ہو تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے منع کرتے ہو۔“
جناب رسالت مآب فرماتے ہیں:
لتا مرون بالمعروف و تنھون عن المنکر او یسلطن اللہ (علیکم) شرار کم فید عو اخیار کم فلا یستجاب لھم(کافی ج ۵ ص ۵۶ کچھ کمی بیشی کے ساتھ)
”تم لوگوں کو امربالمعروف کرنا چاہئے برائیوں سے روکنا چاہئے ورنہ خداوند عالم تمہارے بروں کو تم پر مسلط کر دے گا پھر تمہارے نیک لوگ دعا کریں گے تو مستجاب نہیں ہو گی۔“

۲۶۔ توحید:
اسلام ہر چیز سے زیادہ دین توحید ہے توحید کے بارے میں کسی خدشے کو چاہے وہ توحید نظری میں ہو یا توحید عملی میں قبول نہیں کرتا اسلامی افکار رفتار اور کردار سب خدا سے شروع ہوتے ہیں اور خدا ہی پر ختم ہوتے ہیں اس لحاظ سے اسلام ہر قسم کی ثنویت تثلیت یا کسی بھی قسم کی زیادتی کو جو اس اصول کو مخدوش کرتی ہو سختی کے ساتھ مسترد کرتا ہے جیسے (معاذ اللہ) خدا اور شیطان کی ثنویت یا خدا اور انسان کی دوئیت یا خدا اور مخلوق خدا کی دوئیت۔
ہر کام کو اللہ کے نام سے خدائی فکر کے ساتھ اور اللہ سے تقرب و نزدیکی حاصل کرنے کے لئے شروع ہونا چاہئے اور انجام کو پہنچنا چاہئے اور جو کام اس کے علاوہ ہو گا وہ اسلامی کام نہیں ہے اسلام میں تمام راہیں توحید پر ختم ہوتی ہیں۔ اخلاق اسلامی کا سرچشمہ توحید ہے اور یہ توحید ہی پر ختم ہوتا ہے۔ اسلامی تربیت بھی اسی طرح ہے سیاست اسلامی اقتصاد اسلامی اور اجتماع اسلامی سب اسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ اسلام میں ہر کام خدا کے نام سے اور اسی کی استعانت سے شروع ہوتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
”اور خدا کے نام اور اس کی حمد پر ختم ہوتا ہے۔“
الحمدللہ رب العالمین
”اور خدا کے نام سے اور اسی پر اعتماد سے ہر کام جاری ہوتا ہے۔“
توکلت علی اللہ وعلی اللہ فلیتو کل المومنون
( سورہ ہود آیت ۵۶ اور سورہ آل عمران آیت ۱۲۲)
ایک حقیقی مسلمان کی توحید ایک خیال اور خشک عقیدہ نہیں ہے جس طرح ذات خدا پنی مخلوقات سے جدا نہیں ہے بلکہ سب کے ساتھ ہے اور سب پر محیط ہے۔ ساری چیزیں اسی سے شروع ہوتی ہیں اور اسی پر ختم ہوتی ہیں۔
اسی طرح توحید کا تصور بھی ایک حقیقی موحد کے پورے وجود پر محیط ہوتا ہے اس کے تمام افکار و خیالات اس کی تمام قوتوں اور اس کے طور طریقوں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے اور ان سب کی ایک خاص سمت کی طرف رہنمائی کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کے کام کی ابتداء انتہا اور وسط اللہ کی ذات ہوتی ہے اور وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک قرار نہیں دیتا۔

۲۷۔ واسطوں کی نفی:
اسلام اگرچہ نزول فیض میں واسطوں اور ذریعوں کو قبول کرتا ہے اور علت و معلول کے نظام کو خواہ وہ امور مادی ہوں اور خواہ امور معنوی میں حقیقی اور واقعی شمار کرتا ہے مگر پرستش اور عبادت کی منزل میں تمام وسائل اور ذرائع کو مسترد کر دیتا ہے جیسا کہ ہم سب اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تحریف شدہ مذاہب میں فرد (یعنی انسان انفرادی حیثیت سے) خدا سے براہ راست رابطہ اور تعلق کی قدر و قیمت اپنے ہاتھ سے کھو چکا ہے خدا اور بندے کے درمیان جدائی فرض کر لی گئی ہے صرف کاہن یا روحانی پیشوا براہ راست خدا کے ساتھ راز و نیاز کر سکتا ہے اور پس اسی کو حق ہے کہ دوسرے تمام لوگوں کے پیغامات کو خدا تک پہنچائے۔ اسلام میں یہ کام ایک طرح کا شرک گنا جاتا ہے قرآن کریم صراحت کے ساتھ کہتا ہے:
”(اے حبیب) اگر میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو کہہ دو! میں نزدیک ہوں میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں۔“

۲۸۔ اہل توحید کے ساتھ باہمی زندگی کا امکان:
اسلام کی نظر میں تمام مسلمان اپنے ملک میں دوسرے ادیان کے ماننے والوں اور پیروکاروں کے ساتھ جو اصول توحید کو قبول کرتے ہیں جیسے یہودی عیسائی اور مجوسی اگرچہ فی الحال وہ توحید سے منحرف ہی ہوں پھر بھی چند مخصوص شرائط کے ساتھ ان کے ہمراہ زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن اسلامی ملک کے اندر مشرک کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے مسلمان اسلام کی اعلیٰ مصلحتوں کی بنیاد پر مشرکین کے ساتھ صلح و صفائی اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے معاہدہ کر سکتے ہیں یا کسی خاص مسئلے پر بھی معاہدہ کر سکتے ہیں۔

۲۹۔ مساوات:
اسلامی آئیڈیالوجی کے اصول و ارکان مساوات اور غیر امتیازی سلوک ہے۔ اسلام کی نظر میں سب انسان اپنی ذات کے لحاظ سے برابر ہیں اور لوگ اس اعتبار سے دو یا کئی قسموں میں پیدا نہیں کئے گئے ہیں رنگ خون نسل و قومیت بلندی و برتری کے معیار نہیں ہیں۔ سید قریشی اور سیاہ حبشی دونوں برابر ہیں۔ اسلام میں آزادی جمہوریت اور عدل و انصاف انسانوں کی برابری اور مساوات کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
اسلامی نظریے کے مطابق صرف چند محدود و معین حالات میں افراد کے بعض حقوق خود انہی افراد اور معاشرے کی چند مصلحتوں کے پیش نظر وقتی طور پر سلب ہوتے ہیں لیکن یہ چیز افراد کے جوہر ذات خون نسل اور مقام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی غلاموں کی غلامی کا وقتی اور عارضی دور جو اسلام کی نظر میں ثقافتی تعلیمی اور تربیتی پہلو رکھتا تھا نہ کہ اقتصادی اور حصول نفع کا پہلو اور وہ دور اسلامی تربیت کے لئے ایک پرورش گاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
۳۰۔ اسلام میں حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں دو جنسوں کے لحاظ سے ہیں یعنی جس طرح انسانیت میں مرد و زن مشترک ہیں اور نوعی مشترکات رکھتے ہیں لیکن ان کی جنسیت (یا صنفیت) ان کو خاص فرعی امتیاز عطا کر دیتی ہے اسی طرح حقوق شرعی ذمہ داریاں اور سزائیں بھی جہاں تک دو جنسوں کی مشترکات کے ساتھ مربوط ہیں مشترک اور مساوی ہیں مثلاً تحصیل علم کا حق عبادت و پرستش کا حق شریک حیات کے انتخاب کا حق ملکیت کا حق اپنی مملوکہ چیزوں میں تصرف کا حق وغیرہ اور جہاں تک یہ فرعی مختصات اور جنسیت سے مربوط ہیں تو وہاں بھی برابر اور مساوی حالت تو ہوتی ہے لیکن ایک دوسرے سے مشابہت اور یکسانیت کی صورت نہیں ہوتی اور دو جنسیت ہوتی ہے۔(ملاحظہ فرمائیں مولف کی کتاب ”اسلام میں خواتین کے حقوق“)