
|
نام کتاب:وحی اور نبوت
مصنّف:شہید ڈاکٹر مرتضی مھطری
عمومی ہدایت
وحی و نبوت پر اعتقاد دنیا اور انسان کے بارے میں ایک طرح کی بصیرت و آگاہی سے پیدا ہوتا ہے یعنی تمام مخلوقات کے لئے ہدایت و رہنمائی کے اصول کی معرفت سے عمومی ہدایت کا اصول اسلامی اور توحیدی تصور کائنات کا لازمہ ہے اسی لئے نبوت پر اعتقاد اس تصور کائنات کا لازمہ ہے۔ خدا تعالیٰ اس اعتبار سے کہ واجب الوجود بالذات ہے اور واجب الوجود بالذات تمام جہتوں سے واجب ہے‘ وہ فیاض علی الاطلاق ہے اور انواع موجودات میں سے ہر نوع کو جس حد تک وہ لیاقت رکھتی ہے اور اس کے لئے ممکن ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے اور تمام موجودات کو ان کی راہ پر ہدایت کرتا ہے۔ یہ ہدایت تمام موجودات پر محیط ہے۔ چاہے کوئی وجود معمولی ترین اور چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہو یا بڑے سے بڑا ستارہ اور ایک نہایت معمولی ترین بے جان وجود سے لے کر اعلیٰ ترین اور ترقی یافتہ جاندار تک جسے ہم پہچانتے ہیں یعنی انسان‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جس طرح انسانوں کی ہدایت کے لئے لفظ وحی استعمال کیا ہے‘ اسی طرح جمادات‘ نباتات اور حیوانات کی ہدایت کے لئے بھی استعمال کیا ہے۔
اس دنیا میں کوئی بھی وجود ایک جیسا اور ثابت و قائم نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ اپنی منزل اور مقام کو بدلتا رہتا ہے اور ایک مقصد کی طرف رواں دواں ہے۔
دوسری طرف تمام قرآئن و علامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وجود میں جس طرف وہ بڑھ رہا ہے اس منزل کی طرف بڑھنے کا رجحان اور میلان اس میں پایا جاتا ہے‘ یعنی تمام موجودات اپنی ذات میں موجود پوشیدہ قوتوں کے ذریعے اپنے مقصد کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہیں۔ یہ وہی قوت ہے‘ جسے ”الٰہی ہدایت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے‘ قرآن کریم حضرت موسیٰ کا قول نقل کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے فرعون سے کہا تھا:
ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی (طہٰ ۵۰)
”میرا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو ویسا وجود بخشا جو اس کے لائق تھا اور پھر اس وجود کو اس کی راہ پر چلنے کی ہدایت کی۔“
ہماری دنیا ایک بامقصد دنیا ہے یعنی اس کائنات کے تمام موجودات کے اندر اپنے ہدف کمال کی طرف بڑھنے کی کشش موجود ہے اور بامقصد ہونے سے مراد ”ہدایت الٰہی“ ہی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ”وحی“ کا متعدد بار ذکر ہوا ہے۔ اس لفظ کے استعمال کی شکل اور اس کے استعمال کے مختلف مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس لفظ کو صرف انسان کے لئے محدود نہیں کرتا بلکہ تمام اشیاء اور کم از کم زندہ موجودات میں اسے جاری و ساری سمجھتا ہے۔ اسی لئے شہد کی مکھی کے بارے میں بھی وحی کے لفظ کا استعمال کیا ہے البتہ وحی و ہدایت کے درجات مخلوقات کی ترقی و کمال کے اعتبار سے جدا ہیں۔
وحی کا بلند ترین درجہ وہی ہے جو پیغمبروں سے مربوط ہوتا ہے۔ یہ وحی اس ضرورت کی بنیاد پر ہوتی ہے جس کے لئے نوع انسانی ہدایت الٰہی کی محتاج ہوتی ہے جو ایک طرف تو انسان کو ایسے مقصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو محسوسات و مادیات کے افق سے ماوراء ہے اور بہرحال انسان کے لئے ایک گزرگاہ ہوتی ہے اور دوسری طرف اجتماعی زندگی میں بشر کی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جس کے تحت وہ ہمیشہ ایسے قانون کا محتاج ہوتا ہے جو الٰہی ضمانت کا حامل ہو‘ اس سے قبل ہم ”مکتب“ اور ”آئیڈیالوجی“ کی بحث میں بیان کر چکے ہیں کہ انسان کو ایک کمال آفرین آئیڈیالوجی کی ضرورت ہے لیکن وہ خود اس کی تدوین و تنظیم کی قوت نہیں رکھتا‘ انبیاء بشریت کے لئے ایک ریسیور کی مانند عالم غیب سے اس قسم کا علم آگہی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت سے خدا کے سوا کوئی واقف نہیں ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالۃ
( سورہ انعام‘ آیت ۱۲۴)
ہرچند وحی انسانوں کے حس و تجربہ کی پہنچ سے بالاتر ہے لیکن اس قوت کو دوسری بہت سی قوتوں کی مانند اس کے آثار کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے۔ وحی الٰہی‘ حامل وحی یعنی پیغمبر کی شخصیت میں بہت حیرت انگیز طریقے سے اثرانداز ہوتی ہے۔ وحی حقیقت میں اسے ”بعوث“ کر دیتی ہے یعنی اس کی قوتوں کو ابھارتی ہے اور اس میں نہیات عظیم و عمیق انقلاب وجود میں لے آتی ہے‘ یہ انقلاب بشریت کی بھلائی‘ رشد و ہدایت اور اصلاح و درستی کی سمت میں نمودار ہوتا رہا ہے‘ حقیقت پسندی کے ساتھ عمل کرتا ہے اور پیغمبر میں ایک بے نظیر و بے مثل قاطعیت کا عنصر پیدا کر دیتا ہے۔ تاریخ نے آج تک انبیاء اور ان کے تربیت یافتہ افراد کے اطمینان و یقین جیسا اطمینان و یقین کسی اور میں پیش نہیں کیا۔
انبیاء کی خصوصیات
انبیاء الٰہی جو وحی کے ذریعے مبداء اور سرچشمہ ہستی سے رابطہ برقرار کرتے ہیں ان کے کچھ امتیازات اور اوصاف ہوتے ہیں جن کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جا رہا ہے۔
۱۔ اعجاز
جو پیغمبر بھی اللہ کی جانب سے مبعوث ہوتا ہے وہ غیر معمولی قوت کا حامل ہوتا ہے اسی غیر معمولی قوت و طاقت کے ذریعے وہ ایک یا کئی ایسے کام انجام دیتا ہے جو انسانی طاقت سے بالاتر ہوتے ہیں اور اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان امور کو انجام دینے والا غیر معمولی الٰہی طاقت کا حامل ہے یہ بات اس کی دعوت کے برحق ہونے اور اس کی باتوں کے آسمانی ہونے کی دلیل بھی ہے۔
قرآن کریم ان غیر معمولی امور کے آثار کو کہ جنہیں پیغمبروں نے اپنے دعوے کی سچائی پر گواہی کے طور پر پیش کیا ہے۔ ”آیت“ یعنی نبوت کی علامت اور نشانی کہتا ہے۔ مسلمان متکلمین اس اعتبار سے کہ ایسی علامت دوسرے تمام افراد کی عجز و ناتوانی کو ظاہر کرتی ہے‘ اسے معجزہ کہتے ہیں۔ قرآن مجید نقل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں نے اپنے دور کے انبیاء سے ”آیت“ اور معجزے کا تقاضا کیا ہے اور ان پیغمبروں نے اس تقاضے اور مطالبے کا جو منطقی اور معقول بھی تھا‘ اس لئے مثبت جواب دیا کہ یہ حقیقت کی تلاش کرنے والے لوگوں کی طرف سے ہوتا تھا اور ان لوگوں کے لئے معجزے کے بغیر پیغمبر کو پہچاننے کا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ لیکن اگر معجزے کا تقاضا حقیقت کی تلاش کے بجائے کسی اور مقصد سے ہوتا مثلاً کسی معاملے کی صورت میں لوگوں کی طرف سے یہ خواہش کی جاتی‘ اگر آپ فلاں کام انجام دیں گے تو ہم اس کے بدلے میں آپ کی دعوت کو قبول کر لیں گے تو انبیائے الٰہی اس کام کو انجام دینے سے انکار کر دیتے۔ قرآن کریم نے انبیاء کے بہت سے معجزات کو بیان کیا ہے مثلاً مردے کو زندہ کرنا‘ لاعلاج بیمار کو شفا دینا‘ گہوارے میں باتیں کرنا‘ عصا کو اژدھے میں تبدیل کرنا اور غیب و آئندہ کی خبر دینا۔
۲۔ عصمت
انبیاء کی خصوصیات میں سے ایک عصمت ہے۔ عصمت یعنی گناہ و خطا سے محفوظ یعنی انبیائے کرام نہ تو نفسانی خواہشات کے زیراثر آتے ہیں جس کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہوں اور نہ ہی اپنے کاموں اور فرائض کی ادائیگی میں خطا و غلطی سے دوچار ہوتے ہیں۔ انبیاء کی گناہ و خطا سے دوری انہیں انتہائی اعتماد کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ گناہوں سے ان کی معصومیت کس نوعیت کی ہے؟ مثلاً کیا ان کی عصمت کا یہ معنی ہے کہ جب بھی وہ چاہیں کسی گناہ کے مرتکب ہوں تو ایک غیبی طاقت ان کے سامنے آ جاتی ہے انہیں وہ اس شفیق باپ کی مانند جو اپنے فرزند کو خطا و غلطی نہیں کرنے دیتا‘ گناہ کرنے سے روک دیتی ہے؟ یا یہ کہ انبیاء کی طینت و خلقت اس طرح کی ہوتی ہے کہ نہ تو ان میں گناہ کا امکان ہے اور نہ ہی خطا اور غلطی کا‘ بالکل اسی طرح جیسے ایک فرشتہ اس دلیل کی بناء پر غلطی نہیں کرتا کہ وہ ذہن سے عاری ہے یا یہ کہ پیغمبروں کے گناہ نہ کرنے کی وجہ ان میں پائی جانے والی بصیرت اور ایک طرح کا درجہ یقین و ایمان ہے۔ بے شک ان تمام صورتوں میں یہی تیسری صورت صحیح ہے۔ اب ہم ان دونوں قسم کی معصومیت کا علیحدہ علیحدہ ذکر کرتے ہیں:
| |