زاد راہ (پہلی جلد)
 

پہلا سبق

بندگی کی کیفیت اور کامیابی کا راستہ
*عبادت اور خدائے متعال کے حاضر و ناظر ہونے کا ادراک
*خداوند عالم کی پرستش و بندگی، ترقی اور بلندی کا ذریعہ
*خدا کی بندگی کے مراحل
الف : خداوند عالم کی معرفت
ب۔ پیغمبر اسلام ۖ پر ایمان اور آپ ۖ کی رسالت کا اعتراف
ج۔ اہل بیت علیہم السلام کی محبت
*حضرت نوح کی کشتی اور بنی اسرائیل کے باب حطہ سے اہل بیت کی تشبیہ


بندگی کی کیفیت اور کامیابی کا راستہ
''عَنْ اَبی الْاَسْوَدِ الدُّ ؤِلی : قَالَ قَدِمْتُ الرَّبَذَةَ فَدَخَلْتُ عَلٰی َبی ذَرٍّ، جُنْدَبِ ِبنْ جُنٰادَةَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ ، فَحَدَثَنی َبُوذَرٍّ قٰالَ : دَخَلْتُ ذَاتَ یَومٍ فی صَدْرِ نَھٰارِہِ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ ، صَلَی اﷲُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ ، فی مَسْجِدِہِ فَلَمْ َرَ فِی الْمَسْجِدِ َحَداً مِنَ النَّاسِ ِالاَّ رَسُولُ اﷲِ ،صَلَی اﷲُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ ، و عَلِی عَلَیہِ السَّلام ِلٰی جٰانِبِہِ جٰالِس فَاغْتَنَمتُ خَلْوَةَ الْمَسْجِدِ۔ فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اﷲِ بِاَبی َنْتَ وَ ُمّی ، َوصِنی بِوَصِیَّةٍ یَنْفَعُنِی اﷲُ بِہَا ، فَقَالَ: نَعَمْ وَ اَکْرِمْ بِکَ یَا َبَاذَر ،ِنَّکَ مِنَّا َھْلَ الْبَیْتِ وَ ِانّی مُوصیکَ بِوَصِیَّةٍ فَأحْفظْھَا فَاِنَّھَا ( وَصِیَّة ) جَامِعَة لِطُرُقِ الْخَیْرِ وَ سُبُلِہِ فَِنَّکَ اِنْ حَفِظْتَھٰا کَانَ لَکَ بِھٰا کِفْلٰانِ.
یٰا َبَاذَرٍّ : ُعْبُدِ اﷲَ کََنَّکَ تَرَاہُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاہُ فَِنَّہُ یَرٰاکَ وَ اعْلَمْ َنَّ اَوَّلَ عِبٰادَةِ اﷲِ الْمَعْرِفَةُ بِہِ فَھُوَ الْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ شَیئٍ فَلٰا شَیئٍ قَبْلَہُ وَ الْفَرْدُ فَلاَ ثٰانِیَ لَہُ وَ الْبٰاقی لاٰ اِلٰی غَایَةٍ ، فَاطِرِ السَّمٰوَاتِ وَا لْاَرْضِ وَ مٰا فِیھِمٰا وَ مٰا بَیْنَھُمٰامِنْ شَیئٍ ١ وَ ھُوَّ اﷲُ اللَّطیفُ الْخَبیرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدیر ، ثُمَّ الْاِیْمٰانُ بی وَ الْاِقْرَارُ بِاَنَّ اﷲَ تَعٰالٰی اَرْسَلَنی اِلیٰ کَافَّةِ النَّاسِ بَشیراً وَ نَذیراً وَ دَاعِیاً اِلٰی اﷲِ بِاِذْنِہِ وَ سِرَاجاً مُنیراً ثُمَّ حُبُّ َھْلِ بَیْتی الَّذینَ َذْھَبَ اﷲُ عَنْھُمُ الرِّجْسَ وَ طَھَّرَھُمْ تَطْھیراً
١۔ لا من شیٔ (ظ)
وَ اعْلَمْ یٰا اَبٰاذَرٍ ؛ اِنَّ اﷲَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ َھْلَ بَیْتی فی اُمَّتی کَسَفِینَةِ نُوحٍ مَنْ رَکِبَھٰا نَجٰی وَ مَنْ رَغِبَ عَنْھٰا غَرِقَ وَ مِثْلَ بٰابِ حِطَّةٍ ] فی [ بَنی اِسْرَائیلَ مَنْ دَخَلَہُ کٰانَ آمِناً''
جس روایت کو ہم نے اپنی بحث کا محورقرار دیا ہے ، وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان جامع اور انتہائی فائدہ مند موعظوں میں سے ہے جنھیں آنحضرت ۖ نے ابو ذر نامی اپنے ایک عالی مقام صحابی سے فرمایا ہے، اس روایت کا متن تھوڑے فرق کے ساتھ درج ذیل گراں قدر کتابوں میں درج ہوا ہے :
'' مکارم الاخلاق '' '' امالی شیخ طوسی '' ''مجموعۂ ورام '' اور '' بحار الانوار' ' جلد ٤ ( طبع بیروت ) و جلد ٧ ( طبع ایران )
خدا کی مدد سے ہم اسے بحار الانوار سے نقل کرکے حتی الامکان اس کی تفسیر و تشریح کریں گے ابو الاسود دوئلی کہتے ہیں : جب ابوذر اپنی جلاوطنی کی جگہ '' ربذہ'' میں تھے۔ میں ان کی خدمت میں پہنچا
تو انھوں نے میرے لئے ایک روایت نقل کی ۔ ابوذر نے فرمایا: ایک دن صبح سویرے مسجد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ۖ بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ آپ ۖ کے پاس کوئی اور نہیں تھا، میں نے آنحضرت ۖ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد احترام بجالاکر فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے آپ ۖ کی خدمت میں عرض کی : میرے ماں باپ آپ ۖ پر قربان ہوں ، مجھے ایک ایسی چیز کی سفارش فرمائیے جس کے سبب خدائے تعالی مجھے فائدہ بخشے ۔
آنحضرت نے لطف و عنایت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
نَعَمْ وَ اَکْرِمْ بِکَ یَا َبَاذَر ،ِنَّکَ مِنَّا َھْلَ الْبَیْتِ .....
اے ابوذر ! تم کتنے با کرامت انسان ہو کہ ہمارے اہل بیت علیہم السلام میں شمار ہوتے ہو۔١
..............
١۔ لفظ '' کرم و کرامت '' کے استعمال کے بارے میں راغب اصفہانی '' مفردات '' میں کہتے ہیں : خدائے متعال کے بارے میں اس کی طرف سے ظاہر ہوئی نیکیوں اور نعمتوں کو کرم کہا جاتا ہے ۔ لیکن انسان کے بارے میں اس سے ظاہر ہوئے نیک اخلاق و کردار کو '' کرم '' کہتے ہیں ۔ بعض علماء نے کہا ہے : '' کرم ' ، '' حریت '' کے معنی میں ہے ۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ '' حریت 'کا چھوٹی اور بڑی نیکیوں پر اطلاق ہوتا ہے اور '' کرم '' صرف بڑی نیکیوں کو کہا جاتا ہے : جیسے کوئی شخص اپنی ساری دولت اسلامی فوج کو مسلح کرنے میں خرچ کرے (المفردات فی غریب القرآن ، دار المعرفة ، ص ٤٢٨) لفظ ' کرامت ' کے بلند معنی کی توصیف میں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید میں لفظ '' کریم '' انتہائی بلند اور مقدس اشخاص و اشیاء کی خصوصیت کے طور پر ذکر ہوا ہے کہ ہم ذیل میں اس کے چند نمونے پیش کرتے ہیں :
الف : خداوند عالم کی صفت :( و من کفر فان ربی غنی کریم ) نحل ٤٠
ب: پیغمبرۖ کی صفت: ( انہ لقول رسول کریم )تکویر ١٩
ج: عرض کی صفت : ( .. ھو رب العرش کریم ) مومنون ١١٦ ،
د: ملائکہ کی صفت : ( کراما کاتبین .. ) انفطار ١١
ھ : حضرت موسی کی صفت : ( و جائھم رسول کریم ) دخان ١٧ ،
و: حضرت یوسف کی صفت: (... ان ھذا الا ملک کریم) یوسف ٣١
ز: بہشت میں مومنوں کے مقام ( جگہ ) کی صفت : (و کنوز و مقام کریم ) شعراء ٥٨
ح: مومنوں کے رزق کی صفت (.... و مغفرة و رزق کریم ) انفال ٤ لفظ
'' َفْعِلْ بِہِ '' عربی میںصیغۂ تعجب کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی اس لفظ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب انسان کسی چیز کے بارے میں تعجب کرے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے حسن و زیبائی کے بارے میں تعجب کیا جائے تو بولتے ہیں :' ' َجْمِلْ بِکَ'' کتنے خوبصورت ہو ! اس لحاظ سے لفظ '' َکْرِمْ بِک'' کا معنی یہ ہے کہ '' تم کتنے با کرامت انسان ہو !''
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعہ سے لفظ کریم کا ابوذر جیسے انسان کے لئے استعمال کرنا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نزدیک اس بزرگ صحابی کی عظمت اور مقام و منزلت کی دلیل ہے اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مذکورہ بیان کی تاکید میںا بوذر کو اپنے اہل بیت علیہم السلام کے زمرے میں شمار کیا ہے (سلمان فارسی کے بارے میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے : ''سلمان منّا اھل البیت ''
حدیث کو بیان فرماتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابوذر کو موعظہ فرماتے ہیں:۔
وَ ِانّی مُوصیکَ بِوَصِیَّةٍ فَاحْفَظْھَا فَاِنَّھَا ( وَصِیَّة ) جَامِعَة لِطُرُقِ الْخَیْرِ وَ سُبُلِہِ فَِنَّکَ اِنْ حَفِظْتَھٰا کَانَ لَکَ بِھٰا کِفْلٰانِ ''
میں تجھے ایک موعظہ کی سفارش کرتا ہوں اور امید ہے کہ تم اسے حفظ کرکے اس پر عمل کرو گے ، کیوں کہ اس موعظہ میں خیر و خوش بختی کی تمام راہیں موجود ہیں ،اگر تم میری اس وصیت پر عمل کرو گے تو تجھے دنیا و آخرت کی بھلائی عطا کی جائے گی۔
مذکورہ جملہ میں وصیت کا معنی پند و نصیحت ہے نہ مرتے وقت کی جانے والی وصیت، اس کے علاوہ '' طریق'' و '' سبیل '' دونوں لفظ راستہ کے معنی میں ہیں ، لیکن '' طریق '' اصلی اور وسیع راستہ کے معنی میں ہے اور '' سبیل '' فرعی اور معمولی راستہ کے معنی میں ہے ۔
کفلان سے دو معنی تصور کئے جاسکتے ہیں ، ایک '' دوگنا رحمت '' کے معنی میں ۔
قرآن مجید میں میں بھی '' کفلان '' اس معنی میں استعمال ہوا ہے :
(یَا َیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُواﷲَ وَ آمِنُوا بِرَسُولِہِ یُؤتِکُمْ کِفْلَینِ
مِنْ رَحْمَتِہِ ....) (حدید ٢٨)
ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور رسول خدا ۖ پر واقعی ایمان لے آؤ تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دہرے حصے عطا کردے ...
اس لحاظ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی فرمائش کا یہ معنی ہوگا : اگر میری نصیحت پر عمل کرو گے تو تجھے دگنا خیر ملے گی ۔ لیکن اس کا دوسرا معنی اور احتمال یہ ہے کہ '' کفلان '' دنیا و آخرت کے معنی میں ہوگا اور اس صورت میں جملہ کا معنی یوں ہوگا : اگر میرے کہنے پر عمل کرو گے تو تجھے دنیا و آخرت کی سعادت ملے گی۔

عبادت اور خدا کا ادراک :
یٰا َبَاذَرٍّ : ُعْبُدِا ﷲَ کََنَّکَ تَرَاہُ ، فَاِنْ کُنْتَ لاَ تَرٰاہُ فَِنَّہُ یَرٰاک
اے ابوذر !خداوند تعالی کی ایسی پرستش کر وکہ جیسے اسے دیکھ رہے ہو، کیونکہ اگر تم اسے نہیںبھی دیکھتے ہو ، وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
اگر حدیث کا یہ حصہ متواتر نہ ہو تو کم از کم مستفیض ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کئی طریقوں سے غالباً ابوذر کے توسط سے گوناگوں تعبیروں سے نقل ہوا ہے ۔ اس معنی کے بارے میں ایک دوسری حدیث میں آیا ہے :
''اَلْاِحْسَان ُ اَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَاَنْکَ تَرَاہُ ....'' ١
نیکی وہ ہے کہ خدا کی ایسی عبادت کی جائے کہ گویا اسے دیکھ رہاہے ۔
شاید ابوذر کیلئے جس نے سالہا سال خدا کی بندگی کی راہ میںقدم اٹھائے ہیں اورسعادت
حاصل کرنے کیلئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں بہترین نصیحت یہ ہو کہ اسے عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا جائے اور اس کے سامنے وہ راستہ پیش کیا جائے جس کے ذریعہ وہ اپنی عبادت سے بہترین استفادہ کر سکے اور عبادت کے دوران حضور قلب پیداہو ۔
حضور قلب حاصل کرنے کا راستہ ، مشق و ممارست اور خداوند عالم کو حاضر و ناظر جاننے کا ادراک ہے ، یعنی انسان ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے حضورمیں تصور کرے اور اس سے مانوس ہو اگر کوئی شخص خدا سے انس پیدا کرلے تو وہ خدا سے گفتگو کرتے اور اس کی بات سنتے ہوئے ہرگز تھکن محسوس نہیں کرے گا ، کیونکہ عاشق جتنا زیادہ اپنے معشوق سے محو گفتگو رہتا ہے اتنا ہی زیادہ تشنہ رہتا ہے ۔
یہ جو ہم عبادت انجام دینے میں جلدی تھکن محسوس کرتے ہیں اور نماز کو عجلت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اپنے کاروبار کے پیچھے دوڑتے ہیں اور اگر نماز قدرے طولانی ہوجائے تو نہ یہ کہ کسی قسم کی لذت محسوس نہیںکرتے بلکہ اپنے آپ کو قفس میں محبوس پاتے ہیں ۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم اس بات کو درک نہیں کرتے کہ کس کے حضور میں کھڑے ہیں اور کس سے گفتگو کررہے ہیں ! ممکن ہے ہمیں علم حصولی کے ذریعہ خداوند عالم کی بندگی کے عظیم مرتبہ کی معرفت ہو اور اس کی عظمت سے ہم آگاہ ہوں لیکن ان ذہنی مفاہیم نے ہمارے دل پر کوئی اثر نہ کیا ہو اور خداوند عالم سے حقیقی رابطے کاذریعہ نہ ہو بلکہ جو چیز جو خدائے متعال سے حقیقی اور واقعی رابطے کا سبب ہے ، وہ عبادت کے دوران حضور قلب ہے ۔ جن عبادتوں کو ہم انجام دینے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ صرف ہمارے لئے شرعی تکلیف انجام دینے کا سبب بنتی ہیں اور اس سے جو فائدہ ہمیں اٹھانا چاہیئے وہ نہیں اٹھاتے ہیں،کیونکہ ہماری عبادتیں بے روح ہوتی ہیں اور یہ حضور قلب کے بغیر انجام پاتی ہیں ۔ دنیوی امور میں مشغول
..............
١۔بحار الانوار ، ج ٦٥ ، باب ١، ص ١١٦
رہنا خدا سے قلبی انس اور حضور قلب پیدا کرنے میںرکاوٹ بن جاتا ہے ، اور یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کا ہمیں سامنا ہے ۔
مسلسل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ نماز میں حضور قلب پیدا کرنے کیلئے کیا کیا جائے ؟ حضور قلب حاصل کرنے کیلئے مشق اور ریاضت کی ضرورت ہے ،سب سے پہلے انسان کو ایک گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اس امر پر غور کرنا چاہیئے کہ خداوند متعال اسے دیکھ رہا ہے ۔ بعض معلم اخلاق یہ نصیحت کرتے تھے کہ اس مشق میں تخیلاتی پہلوئوںسے استفادہ کرناچاہیئے ، یعنی ایک کمرے میں یا ایک خلوت جگہ پر بیٹھے ہوئے فرض کریں کہ کوئی شخص چپکے سے تمھاری رفتار و کردار پرنظر رکھے ہوئے ہے تو کیا نظر رکھنے کی صورت میں اور کسی کے نظر نہ رکھنے کی صورت میںتمھاری رفتار ایک جیسی ہوگی ؟ خاص کر اگر وہ شخص کوئی عام شخص نہ ہو بلکہ اسے تم قابل اہمیت سمجھتے ہو اور اپنی قضا و قدرکا مالک جانتے ہو تم چاہتے ہو کہ اس کی نظر میںعزیز رہو اور وہ تجھے دوست رکھے، کیا اس صورت میں تم اس سے بالکل غافل رہ کر کوئی اور کام انجام دے سکتے ہو ؟
اگر انسان یہ کوشش کرے کہ مشق اور ریاضت سے اپنے اندریہ یقین پیدا کرلے کہ وہ خدا کے حضور میں ہے اور خدائے متعال اسے دیکھ رہا ہے اگر چہ وہ خدا کو نہیں دیکھ رہا ہے لیکن خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے ، تووہ اپنی عبادت میں حضور قلب پیدا کرکے اسے با روح عبادت میں تبدیل کرسکتا ہے پھر وہ عبادت صرف تکلیف شرعی سے چھٹکارا پانے والی عبادت نہیں ہوگی بلکہ وہ عبادت معنوی ترقی و بلندی اور قرب الہی کا سبب ہوگی بے شک حضرت علی علیہ السلام کا مندرجہ ذیل بیان اس مطلب کا گواہ ہے :
'' اِتَّقُو ا مَعَاصِیَ اﷲِ فِی الخَلَوَاتِ فَاِنَّ الشَّاھِدَ ھُوَ الْحَاکِمُ ''١
خلوت کی جگہوں پر گناہ انجام دینے سے پرہیز کرو ، کیونکہ جو تمہارے اعمال کاشاہد ہے وہی حاکم ہے ۔
لہذا ، جنہوں نے نماز کے دوراں حضور قلب حاصل کرنے کے بارے میں اب تک مشق
..............
١۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ، ص ١٢٤٠ ، حکمت نمبر ٣١٦۔
نہیں کی ہے انہیں دن اور رات کے دوران ایک وقت کو مقرر کرکے خلوت میں بیٹھ کر اس بات پر غور کرنا چاہیئے کہ خدا انہیں دیکھ رہا ہے البتہ اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ انسان ہمیشہ خدائے تعالی ٰ کے حضور میں ہے اور خدا اسے دیکھ رہا ہے قرآن مجید نے بھی کئی مواقع پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ، من جملہ فرماتا ہے :
( یَعْلَمُ خَائِنَةَ الاَعْیُنِ وَ مَا تُخْفِی الصُّدُورُ ) ( مومن ١٩)
وہ خدا نگاہوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے بھیدوں سے بھی باخبر ہے .
ایک شاگرد سے نقل ہو اہے کہ : میں اپنے استاد کی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے سراہنے پہنچا اور ان سے آخری نصیحت کرنے کی درخواست کی استاد نے بڑی مشکل سے اپنی زبان کو حرکت میں لاکر فرمایا:
'' اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اﷲَ یَریٰ''
کیا تم نہیں جانتے ہو کہ خداوند عالم دیکھ رہا ہے ؟ '
حضرت علی علیہ السلام اپنے کلمات قصار میںفرماتے ہیں :
'' اَیُّھَا النَّاسُ ، اِتَّقُوااﷲَ الَّذِی اِنْ قُلْتُمْ سَمِعَ وَ اِنْ اَضْمَرْتُمْ عَلِمَ '' ١
اے لوگو ! اس خدا سے ڈرو، جو تمہاری بات کو سنتا ہے اورپوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے ۔
اس حدیث کے پہلے حصہ میں حضرت نے عبادت کو انسان کی سعادت کی کلید کے عنوان سے بیان فرمایا ہے اور اس کے دوسرے حصوں میں خداوندعالم کی عبادت کے مراحل کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس کے علاوہ پہلے حصہ میں عبادت کی کیفیت کی سفارش کی گئی ہے یعنی عبادت میں روح ہونی چاہیئے اور اس کی روح حضور قلب ہے حقیقت میں اصل عبادت و بندگی کی طرف براہ راست اشارہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ مسلّم امر کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔
..............
١۔ نہج البلاغہ ، فیض الاسلام ،ص ١١٧٨ ، حکمت نمبر ١٩٤)