اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
 

سیتیسواں سبق

قیامت کے گواہ اور اعمال کا ترازو
خدا وند عالم لوگوں کی تما م اچھائیاں اوربرائیاں اچھی طرح سے جانتا ہے چاہے انہیں ظاہر میں انجام دیا ہو یاچھپ کر لیکن خدا کی مصلحت اور حکمت اس چیز پر قائم ہوگی کہ قیامت میں لوگوں سے سوالات ان کے اعمال کے کارنامہ اور گواہوں کی گواہی کے اعتبار سے ہو گی اور وہ گواہ یہ لوگ ہیں ۔
١۔خدا وند عالم :جوپہلا گواہ ہے (اِنَّ اللّہَ علیٰ کُلِّ شَیئٍ شَھِیدُ) بیشک خدا ہر چیز پر گواہ ہے۔ (١)(اِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیکُم رَقیباً)اللہ تم سب کے اعمال کانگراں ہے۔ (٢) (فَاِلَینَا مَرجِعُھُم ثُمَّ اللَّہ شَھِیدُ عَلیٰ مَایَفعَلُونَ)بہر حال پلٹ کر ہماری ہی بارگاہ میں آنا ہے اس کے بعد خدا خود ان کے اعمال کا گواہ ہے۔ (٣)
٢۔انبیاء اور ائمہ علیہم السلام :(وَ یَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شَھِیداً ) اور پیغمبر آپ پرگواہ ہونگے۔(٤)( وَجِئنَابِک عَلیٰ ھَولاِء شَھِیداً ) اورپیغمبر آپ کو ان سب کاگواہ بنا کر بلائیں گے۔ (٥) (وَیَومَ نَبعَثُ مِن کُلِّ أُمَّةٍ
..............
(١) سورہ حج آیة:٧ ١
(٢) سورہ نسا ء آیة: ١
(٣) سورہ یونس آیة: ٤٦
(٤) سورہ بقرہ آیة:١٤٣
(٥) سورہ نسا ء آیة:٤١

شَھِیداً )اور قیامت کے دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے۔ (١)
ابوبصیر کے بقول امام صادقںسے اس قول خدا کی تفسیر میں :
(وَکَذلِکَ جَعَلنَاکُم أمَّةً وَسَطَاً لِتَکُونُوا شُھدَائَ عَلیٰ النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیکُم شَھِیداً) فرماتے ہیں:'' نحن الشھداء علیٰ الناس بما عند ھم من الحلال والحرام وبما ضیعوا منہ'' (ہم لوگوں پر گواہ ہو نگے اس چیز کے لئے جو حلا ل اور حرام ان کے پاس ہے اور جو انھوں نے ضایع کیا ہے۔ (٢)
او ردوسری روایت میں ہے کہ ہم امت وسط ہیں اور ہم خدا کی طرف سے امت کے گواہ ہیں اور خدا کی زمین پر حجت ہیں۔ (٣)
٣۔فرشتے :(وَجَائَ تْ کُلُّ نَفسٍ مَعَھا سَائِقُ وَ شَھِیدُ ) اور ہر انسان آئے گا اس حال میں کہ فرشتے اسے لے جائیں گے اور فرشتے ان کے کامو ں پر گواہ ہوں گے(ماَ یَلفَظ مِن قَول اِلّا لَدَیہ رَقِیب عَتید ) وہ کو ئی بات منھ سے نہیں نکالتا ہے مگر یہ کہ ایک نگہبان اس کے پاس موجود رہتا ہے۔ (٤)
امیر المومنین دعائے کمیل میں فرماتے ہیں:''وکلَّ سیئة أمرت بِاثباتھا الکرام الکاتبین الذین وکلّتھم بحفظ مایکون منی وجعلتھم شھوداً علیِّ مع جوارحی''بارالہا ! میرے ان گنا ہوں کومعاف کردے جنہیں لکھنے کے لئے اپنے
..............
(١) سورہ نحل آیة:٨٩
(٢) تفسیر نورالثقلین ج١،ص ١٣٤
(٣) حوالہ سابق
(٤) سورہ ق آیة:٢١، ١٨

محبوب فرشتوں کو حکم دیا ہے اور انہیں ہما رے اعضاء جسمانی کے ساتھ گواہ بنایا ہے۔
٤۔زمین :( یَومئذٍ تُحَدّث أخباَرھا) (زمین ) اس دن وہ اپنی خبریں بیان کریگی (١) پیغمبر اسلام ۖنے جب اس آیت کو پڑھا فرمایا:'' ا تدرون ما اخبارھا؟ جاء ن جبرئیل قال خبرھا اِذا کان یوم القیامة أخبرت بکلِّ عمل علیٰ ظھرھا'' جانتے ہو زمین کی خبریں کیا ہیں ؟ جبرئیل نے مجھ سے بتایا ہے کہ زمین اس چیز کے بارے میں بتائے گی جو اس پر انجام دیا گیا ہے۔ (٢)
مولائے کا ئنات فرماتے ہیں :''صلوا المساجد فی بقاع مختلفة فاِنَّ کُلَّ بقعة تشھد للمصلی علیھا یوم القیامة''مسجد میں ہر جگہ نما ز پڑھو چونکہ ہر جگہ قیامت کے دن نماز پڑھنے والے کے لئے گواہی دے گی ۔اسی طرح جب مولائے کائنات بیت المال کو مستحقین میں تقسیم کردینے کے بعدجب زمین خالی ہوجاتی تھی تو دورکعت نماز پڑھتے تھے اور بیت المال کی زمین سے خطاب کر کے کہتے تھے قیامت میں گواہ رہنا حق کے ساتھ یہا ں مال جمع کیا اور حق کے ساتھ تقسیم کیا۔ (٣)
٥۔ زمان (رات ودن ) قال أبو عبداللّٰہ علیہ السلام: ما مِن یوم یأتی علیٰ اِبن آدم اِلّا قال ذلک الیوم : یا بن آدم أنا یوم جدید وأنا علیک شھید فقل فَیّ خَیراً أشھُد لَک یوم القیامة فاِنَّک لن ترانِی بعدھا أبداً ''امام صادق
..............
(١) سورہ زلزال آیة:٤
(٢) درالمنثور ج،٢ معاد فلسفی ٣٣٤
(٣) لئالی الاخبارص٤٦٢

نے فرمایا : کوئی دن انسان کے لئے نہیں گذرتا مگر وہ دن انسان سے کہتا ہے اے فرزند آدم! میں نیا دن ہو ں اور ہم تمہا رے اوپر گواہ ہیں لہٰذا آج اچھائی انجام دو تاکہ قیامت کے دن تمہارے لئے گواہی دیں اور اس کے بعد تم مجھے کبھی نہیں دیکھو گے ۔
وعنہ عن أبیہں :قال اللّیل اِذا اقبل نادیٰ منادٍ بصوت یسمعہ الخلائق اِلّا الثّقلین :یا ابن آدم !أنِّی علیٰ ما فیِّ شھید فخذ منی فأَنِّی لوطلعت الشمس لم تزد فیّ حسنہ ولم تستعتب فیِّ من سیئة وکذلک یقول النھار اِذَا ادبر اللَّیل''امام صادق ں اپنے والد بزرگوار امام باقر سے نقل کرتے ہیں کہ انھو ں نے فرمایا جب رات آتی ہے تو آواز دینے والا آواز لگا تا ہے جس کو انسان او رجنات کے علاوہ سبھی سنتے ہیں کہتاہے :اے فرزند آدم !جو کچھ ہم میں انجام پایا ہے اس پرگواہ ہیں لہٰذا زاد راہ کو مجھ سے حاصل کرلو کیونکہ اگر سورج نکل آیا تو پھر مجھ میں اچھا ئیوں کا اضافہ نہیں کرسکتے او ر گنا ہ کو واپس نہیں لے سکتے اور یہی فریاددن کی ہوتی ہے جب رات گذر جاتی ہے۔ (١)
٦۔ انسان کے اعضاء وجوارح :(یَومَ تَشھَدُ عَلَیھِم ألسِنَتھُم وَ أَیدِیھِم وَ أَرجُلُھُم بِمَا کَا نُوا یَعملُون) قیامت کے دن ان کے خلا ف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پائوں سب گواہی دیں گے کہ یہ کیا کررہے تھے۔(٢)(الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاھِھِم وَ تُکَلِّمنَا أَیدِیھِم وَتَشھُد أَرجلُھُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ)آج
..............
(١)بحا الانوار ج٧، ص ٣٢٥
(٢)سو رہ نور آیة: ٢٤۔

ہم ان کے منھ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ بولیں گے او ران کے پائو ں گواہی دیں گے کہ یہ کیسے اعمال انجام دیا کرتے تھے۔ (١) (شَھِدَ عَلَیھِم سَمعُھم و أَبصارُھُم وَ جُلُودُھُم بِمَا کَا نُوا یَعمَلُونَ)ان کے کا ن اور انکی آنکھیں اور جلد سب ان کے اعمال کے بارے میں ان کے خلا ف گواہی دیں گے۔(٢)
٧۔ خود عمل کا حاضر ہونا :عمل کا مجسم ہوکر سامنے آنا سب سے بڑا گواہ ہے (یَومَئِذٍ یَصدُرُ النَّاسُ أَشتاتاً لِیُروا أَعَمَالَھُم فَمَنْ یَعمَلْ مِثقَالَ ذَرةٍ خَیراً یَرَہُ وَمَنْ یَعمَل مِثقالَ ذَرةٍ شَراً یَرَہُ )اس روز سارے انسان گروہ در گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے بھی دیکھے گا ۔(٣) ( وَوَجَدُوا مَاعَمِلوا حاَضِراً وَلَا یَظلِمُ رَبُّکَ أَحداً)او رسب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے او رتمہا را پرو ردگا ر کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔ (٤) (یَومَ تَجدُ کُلَّ نَفَسٍ مَاعَمِلتْ مِنْ خَیرٍ مُحضَراً وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوئٍ تَودُّ لوأَنَّ بَینَھا وَبَینَہُ أَمَداً بَعیدا)اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو حاضر پائے گا او ر اعمال بد کو بھی کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہما رے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہو جا تا۔ (٥)
..............
(١) سورہ یس آیة: ٦٥
(٢) سورہ فصلت آیة: ٢٠
(٣)سورہ زلزال آیة: ٦تا آخر۔
(٤) سورہ کہف آیة ٤٩
(٥)سورہ آل عمران آیة ٣٠۔

اعمال کے مجسم ہونے اور حاضر ہونے کے سلسلے میں بہت سی حدیثیں ہیں پائی جا تی ہیں جیسا کہ شیخ بہا ئی مرحوم کہتے ہیں:'' تُجسّم الأعمال فی النشأة الأ خرویة قد ورد فیِ أحادیث مُتکثرة من طرق المخالف والمؤالف''اعمال کا دوسری دنیامیں مجسم ہونا بہت سی حدیثوں میں سنی او ر شیعہ دونوں کے یہاں موجود ہے۔ (١)
نمو نہ کے طورپر پیغمبر کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں ....و اِذا جاء أخرجوا من قبورھم خرج من کلّ اِنسان عملہ الذیِ کان عملہ فی الدنیا لأن عمل کلّ اِنسان یصحبہ فی قبرہ ''جب تمام لوگ اپنی قبروں سے باہر آئیں گے ان کے اعمال بھی ان کے ساتھ آئیں گے کیونکہ ہرانسان کا عمل اس کی قبر میں اس کے ساتھ رہتا ہے۔ (٢)

قیامت میں میزان اعمال
قرآن اور احادیث معصومین میںقیامت کے ترازو کے بارے میں بہت زیادہ تذکرہ ہے ،ترازو تولنے کاذریعہ ہے ہر چیز کا ترازو اسی کے لحاظ سے ہوتا ہے سبزی بیچنے کے لئے مخصوص ترازو ہے، لائٹ اور پانی کا ترازو مخصوص میٹر ہے، ٹھنڈی اورگرم ہواکا پتہ لگا نے کے لئے تھرما میڑہے اور قیامت کا ترازو اعمال کو تولنے کا ذریعہ ہوگا ۔
قبل اس کے کہ قیامت کے میزان (ترازو) کے معنی اور اس کی تفسیر بیان کریں
..............
(١) بحار الانوار ج٧، ص ٢٢٨
(٢)تفسیر برہان ج٤، ص ٨٧

اس سلسلے میں قرآن کی آیتوں کو ملا حظہ فرمائیں ( وَنَضعُ المَوَازِینَ القِسطَ لِیَومِ القِیَامَةِ فَلاَ تُظلَمُ نَفَسُ شَیئاً وَاِن کان مِثقَالَ حَبَّةٍ مِن خَردَلٍ أتَینَابِھَا وَکَفیٰ بِنَا حَاسِبِین)او رہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریں گے او رکسی نفس پر ادنی ظلم نہیں کیا جائے گا اوراگر کسی کا عمل رائی کے دانہ کے برابر بھی ہے تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم سب کا حساب کرنے کے لئے کافی ہیں۔ (١)
(وَالوَزنُ یَومَئِذٍ الحَقُّ فَمَن ثَقُلَت مَوَازِینُہُ فَأُولئِک ھُمُ المُفلِحُونَ وَمَن خَفَّتْ مَوَازِینُہَُ فَاُولئِک الَّذینَ خَسِرُوا أَنفسُھُم
بِمَاکَانُوا بِآیاتِنَا یَظلِمُونَ)آج کے دن اعمال کاوزن ایک برحق شی ٔ ہے پھر جس کے نیک اعمال کا پلہ بھا ری ہوگا وہی لوگ نجات پانے والے ہیں ۔(٢)
( فَأمَّا مَنْ ثَقُلَت مَوَازِینُہُ فَھُو فِی عِیشةٍ رَاضِیَةٍ وَ أمَّا مَن خَفَّت مَوَازینُہُ فَأُمُّہُ ھَاوِیَةُ)تو اس دن جس کی نیکیوں کاپلہ بھاری ہوگا وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا اور جس کاپلہ ہلکا ہوگا اس کا مرکز جہنم ہے۔ (٣)

میزان قیامت کسے کہتے ہیں ؟
مرحوم طبرسی فرماتے ہیں : آخرت میں انصاف کا نام ترازو ہے او روہا ں کسی پر ظلم نہیں کیاجائے گا ،وزن سے مراد عظمت مومن اور اس کی فضیلت کااظہار ہے اور کفار کو ذلیل اور رسوا کرنا ہے جیسا کہ سورہ کہف کی آیة ١٠٥ میںمشرکین کے سلسلہ میں آیا
..............
(١) سورہ انبیاء آیة ٤٧
(٢) سورہ اعراف آیة٨۔٩
(٣)سورہ قارعة آیت ٦۔٩

ہے ''فلا نقیم لھم یَومئذٍ وزنا''او رہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے اور آیة'' ثَقُلَت مَوازِینُہُ'' سے مراد یعنی ان کی خوبیاںبھاری ہوںگی اورنیکیاں زیادہ ہوںگی اور ''خفت موازینہ''سے مراد یعنی خوبیا ں ہلکی او راطاعتیں کم ہوںگی۔(١) اور جوچیز مرحوم طبرسی نے بیان کیا ہے اس روایت کے ذیل میں ہے جو ہشام بن حکم نے امام صادق نے نقل کیا ہے۔ (٢)

میزان قیامت کون لوگ ہیں ؟
بحاالانوار کی ساتویں جلد کے ص ٢٤٢ کے ذیل میں جو بیان ہواہے او رتفسیر
صافی میں جو میزان کے معنی بیان کئے گئے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے آخرت میں لوگوں کا ترازو وہ چیز ہے جس کے ذریعہ ہر شخص کی قیمت ومنزلت کو اس کے عقیدہ اور اخلا ق وعمل کے اعتبار سے تولا جائے گا تاکہ ہر انسان کو اس کی جزا مل سکے ،اور اس کے میزان انبیاء اور اوصیاء ہوں گے کیونکہ ہرانسان کی قدرو منزلت انہیں انبیاء کا اتباع اور ان کی سیرت سے قربت کے مطابق ہوگا اور اس کا سبک وہلکا ہونا انبیاء اور اوصیاء سے دوری کے باعث ہوگا ،کافی اور معانی الاخبار میں امام صادق نے اس آیت کی تفسیر میں''ونضعَ الموازین القِسطَ لیومِ القیامة'' اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو قائم کریںگے فرمایا:'' ھُم الأ نبیاء والأوصیائ'' یعنی میزان عمل انبیاء او راوصیاء ہو ں گے
دوسری روایت میں فرمایا: ''نحن موازین القسط''ہم میزان عدالت ہیں۔(٣)
..............
(١) بحارالانوار ج،٧ ص ٢٤٧و ٢٤٣
(٢) بحار الانوار ج،٧ ص
٢٤٨(٣) بحارالانوار ج،٧ ص ٢٤٧و ٢٤٣

مرحوم علامہ مجلسی ،شیخ مفید سے نقل فرماتے ہیں کہ روایت میں آیاہے کہ :''ان أمیرالمؤمنین والأئمةمِن ذریتہ ھم الموا زین ''بیشک امیر المومنین اوران کی آل پاک ائمہ اطہار علیہم السلام قیامت میں میزان عدالت ہو ں گے۔ (١)
امیر المومنین ں کی پہلی زیارت مطلقہ میں آیاہے :''السلام علیک یامیزان الاعمال''میرا سلام ہو آپ پر اے میزان اعمال ۔لہٰذا جو کچھ اب تک بیان کیا گیا ہے وہ میزان عدل الٰہی ہے پیغمبر اکرمۖاو ر ہمارے ائمہ معصومین علیھم السلام اس کی عدالت کے مظہر او رنمونہ ہیں، بعض محققین کے بقول معصوم امام ترازو کے ایک پلڑے کے جیسے ہیں اور تمام لوگ اپنے اعمال وعقیدہ کیساتھ ترازو کے دوسرے پلڑے کی مانند ہیں اب ایک دوسرے کے ساتھ تولا جا ئیگا اب ہما را عمل او ر عقیدہ جتنا ان کے عقیدہ اورعمل سے قریب او ر مشابہ ہوگا اتنا ہی ہمارا وزن بھاری ہوگا جیسا کہ مرحوم طبرسی مجمع البیان میں سورہ کہف کی آیة ١٠٥ کے ذیل میں فرماتے ہیں روایت صحیحہ میں ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا :
''انہ لیأ تِی الرجل العظیم السمین یوم القیامة لایزن جناح بعوضة''قیامت کے دن ایک فربہ اور بھاری بھرکم آدمی کولا یا جائیگا اور اس کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔یعنی وہ انتہائی معمولی اور ہلکا ہوگاکیونکہ اس کے اعمال افکاراور اس کی شخصیت اس کے ظاہری قیافہ کے بالکل خلا ف چھوٹی اور ہلکی ہوگی۔
..............
(١) بحار الانوار ج،٧ ص ٢٤٨


سوالات
١۔ قیامت میں گواہ کون لوگ ہوںگے بطور خلاصہ بیان کریں ؟
٢۔ میزان کے کیا معنی ہیں اور قیامت میں میزان کیساہوگا ؟
٣۔ قیامت میں میزان عمل کون لوگ ہو ں گے ؟