اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
 

چھبیسواں سبق

قرآن اور مولائے کا ئنات کی امامت

آیة ولایت
(اِنَّمَا وَلیکُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمُنوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلٰوةَ وُیُؤتُونَ الزَّکٰوةَ وَھُم رَاکِعُونَ ) ایمان والو تمہارا ولی بس اللہ ہے او ر اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جونماز قائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکاةدیتے ہیں۔ (١)
خدا وند عالم نے اس آیت میں لفظ ،،انما،، کے ذریعہ جو انحصار پر دلا لت کرتاہے۔ مسلمانوں کا ولی و سرپرست صرف تین شخصیتوں کوقرار دیاہے خود خدا، پیغمبر اور جو لوگ صاحبان ایمان ہیںکہ جونماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔

آیة کا شان نزول
آیت سے خدا اورسول کی ولا یت میں کسی کو شک نہیں لیکن تیسری ولایت
..............
(١) سورہ مائدہ آیة: ٥٥

''والذین آمنوا''کے بار ے میں شیعہ اور سنی دونو ں کے یہا ں بے شمار حدیثیں پائی جاتی ہیں کہ یہ آیة مولا ئے کا ئنات ںکی شان میں نازل ہوئی ہے اس وقت کہ جب انھو ںنے حالت رکوع میں اپنی انگو ٹھی سائل کو دے دی شیعوں میں اس سلسلہ میںکوئی اختلاف نہیںاوراہل سنت کے علماء میں سے فخر رازی نے تفسیرکبیر میں،زمخشری نے کشاف میں ،ثعلبی نے الکشف والبیان میں، نیشاپوری بیضاوی ،بہیقی ،نظیری اورکلبی نے اپنی اپنی تفسیر وں میں ،طبری نے خصائص میں ، خورازمی نے مناقب ،احمد بن حنبل نے مسند میں ،یہاں تک کہ تفتازانی اورقوشجی نے اتفاق مفسرین کا دعوی کیا ہے غایة المرام میں ٢٤ حدیثیں اس سلسلے میں اہل سنت سے نقل کی گئی ہیں ،مزید معلو ما ت کے لئے الغدیر کی دوسری جلد اور کتاب المراجعات ،کی طرف رجوع کریں ۔
یہ مسئلہ اس حد تک مشہور ومعروف تھا اور ہے کہ (پیغمبر کے زمانے کے مشہورشاعر)حسان بن ثابت نے اسے اپنے شعر کے ذریعہ بیان کیااور مولا سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں:
فأنتَ الَّذیِ أَعطیت اِذ کنت راکعاً
زکاةً فَد تک النفس یا خیرراکع
فانزل فیک اللّہ خیر ولا یة
وبیّنھا فی محکمات الشرائع


''اے علی آپ نے حالت رکوع میں زکوة دی ۔میری جان آپ پر قربان اے بہترین رکوع کرنے والے ''۔
خدانے بہترین ولایت آپ کے لئے نازل کی اور قرآن میں اسے بیان فرمایا ،لہٰذا مولائے کائنات تمام مومنین کے ولی مطلق ہیں اور عقل کی رو سے ایسا شخص ابوبکر وعمر وعثمان کا تابع نہیں ہوسکتا ،ہاں اگر یہ افراد مومن تھے تو ا ن کو مولائے کائنات کی اتباع وپیروی کرنی چاہئے ۔

دواعتراض اور انکا جواب
بعض اہل سنت کا کہناہے کہ ولی کے معنی دوست اورساتھی کے ہیںنہ کہ رہبر وولی مطلق کے ۔

جو اب :
الف )پہلی بات تویہ کہنا ہی نص آیة اورظاھر کے خلاف ہے اس سے ہٹ کر ولی کے معنی عرف عام میں ولی مطلق ،اور اولی بہ تصرف کے ہیں اور دوسرے معنی میں استعمال کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے چونکہ اولی کا لفظ آیت میں( النَّبُّ أَولیٰ بِالمُؤمنِینَ مِن أنفُسھِم)(١)کا لفظ حدیث غدیر میں ''من کنت مولاہ'' ولایت مطلق پرواضح طور پر دلا لت کرتا ہے ۔
ب) آیة ولایت میں لفظ ''انما'' کے ذریعہ انحصار ہے اور دوستی صرف خدا ورسولۖ اور علی ہی پر منحصر نہیں ہے ۔بلکہ تمام مومنین ایک دوسرے کے دوست ہیں جیسے کہ خدا وند عالم نے فرمایا( المُؤمنُون والمؤمنات بعضھم أولیائُ بَعضٍ)اب چونکہ دوستی کا انحصار فقط خدا اور رسول ۖ وعلی سے مختص نہیں ہے۔ (٢)
..............
(١)الاحزاب آیة:٦
(٢) سورہ توبہ آیة:٧١
بلکہ اس کاتمام مومنین سے ہے آیہ اِنَّما وَلیُّکُم اللّہ (میں انحصار کاحکم ہے لہٰذا ولا یت کے معنی رہبر وولی مطلق کے ہیں۔
بعض متعصب اہل سنت نے اعتراض کیاکہ مولائے کائنات جب نماز میں اتنا محو رہتے تھے کہ حالت نماز میں تیر نکلنے کابھی انہیںپتہ نہیں چلتا تھا تو کس طرح ممکن ہے کہ سائل کے سوال کو سن کر اس کی طرف متوجہ ہوئے ہوں۔

جواب:
یقینا مولا ئے کائنات حالت نماز میں مکمل طور سے خدا کی طرف دھیان رکھتے تھے، اپنے آپ اور ہر مادی شی ٔ سے جو روح عبادت کے منافی ہوتی تھی بیگانہ رہتے تھے ۔لیکن فقیر کی آواز سننا اور اس کی مدد کرنا اپنی طرف متوجہ ہونا نہیں ہے بلکہ عبادت میں غرق ہو نے کی دلیل ہے دوسرے لفظوں میںیوں کہا جائے کہ آپ کا یہ فعل عبادت میں عبادت ہے اس کے علاوہ عبادت میں غرق ہونے کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اپنے اختیارات کھو بیٹھیں یا بے حس ہو جا ئیں بلکہ اپنے اختیار کے ذریعہ اپنی توجہ اور وہ چیز جوراہ خدا میں سد راہ ہے اس سے اپنے آپ کو الگ کرلیں ۔
یہا ں نمازبھی ایک عبادت ہے اور زکوة بھی ،اور دونوںخداکی خوشنودی کے راستے ہیں ،لہٰذا مولائے کائنات کومتوجہ ہونا صرف خداکے لئے تھا اس کی دلیل خود آیت کانازل ہو نا ہے ،جو تواتر سے ثابت ہے ۔

آیت اطاعت اولی الامر:
(یَاأیُّھا الَّذینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِ الأمرِ مِنکُم) ''ایمان والواللہ کی اطاعت کرو اوراس کے رسول اورصاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم میںسے ہیں''۔(١)
اس آیت میں صاحبان امرکی اطاعت بغیر کسی قید و شرط کے خد ااوررسول کے اطاعت کے ساتھ واجب قرار دیاہے شیعوں کانظریہ ہے کہ اولی الامر سے مراد بارہ امام معصوم ہیں اوراہل سنت سے بھی روایت پائی جاتی ہے کہ اس سے مراد امام معصوم ہیں۔
مشہور مفسر ،ابوحیان اندلسی مغربی نے اپنی تفسیر بحارالمحیط ،اور ابوبکر مومن شیرازی نے اپنے رسالہ اعتقادی میں ،سلیمان قندوزی نے ینابیع المو دة میں ان روایتوں کو بطور نمونہ ذکر کیا ہے ،شیعوں کی تفسیر وں میں بھی اس آیت کے ذیل میںرجوع کریں منجملہ تفسیر برہان ،نورالثقلین ،تفسیر عیاشی ،اور کتاب غایة المرام اوردوسری بہت ساری کتابوں میں آپ رجوع کریں۔یہاں پر بعض احادیث کونقل کررہے ہیں جابر بن عبداللہ انصاری نے پیغمبر اکرم ۖسے سوال کیاکہ اولی الامرجن کی اطاعت کا ہمیںحکم دیاگیا ہے اس سے مراد کون ہیں۔ ؟
آنحضرت نے جواب میں فرمایا : میرے بعد کے خلیفہ وجانشین جو میری ذمہ داریوں کو سر انجام دینے والے ان میں سب سے پہلے میرے بھائی علی ہیںان
..............
(١)سورہ نساء آیة:٥٩

کے بعد حسن وحسین علیہماالسلام پھر علی بن الحسین ان کے بعد محمد باقر (تم اسوقت تک رہوگے اور اے جابر! جب ان سے ملاقات ہو تو انہیں ہماراسلام کہنا)پھرجعفر صادق ان کے بعد موسی کاظم ا ن کے بعد علی الرضا ا نکے بعد محمد جواد پھر علی ہادی ان کے بعد حسن عسکری او ران کے بعد قائم منتظر مہدی میرے بعد امام او ر رہبر ہوںگے۔
اسی حدیث کو امام زمانہ کے سلسلے میں تفسیر نورالثقلین کی پہلی جلد میں صفحہ ٤٩٩ میں واضح طور سے بیان کیاہے ، عن أبی جعفر علیہم السلام: أوصیٰ رسول اللّہ اِلیٰ علی والحسن والحسین علیہم السلام ،ثم قال فی قول اللَّہ عزَّوجلَّ :(یَا أیُّھا الَّذینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّہَ وَأطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِ الأمرِ مِنکُم ) قالَ: الأَئِمة مِن وُلِد علیِ وفاطمہ أِلی أن تقوم الساعة(١)
امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے مولائے کا ئنات اورحسن وحسین علیہم السلام کی امامت کے لئے وصیت کی ،پھرخد اکے اس قول کی طرف اشارہ کیا''أطِیعُوااللَّہَ'' اورفرمایا:بقیہ امام ،علی و فاطمہ کی اولا د سے ہوںگے یہاںتک کہ قیامت آجائے گی لہٰذا اولی الامر کی اطاعت کاتذکرہ جس آ یت میں ہے وہ چند طریقوں سے مولائے کائنات امیرالمومنین ںاورانکے گیارہ فرزندوں کی امامت پر دلالت کرتی ہے اولی الامر کی اطاعت خدا ور رسول کی اطاعت کے ساتھ ہے چونکہ اطاعت مطلق طور پرواجب ہے لہٰذا انہیں پہچانناضروری ہے ۔
جس طرح خد انے رسول خدا کی اطاعت کو واجب کرکے خود رسول کو معین
..............
(١) تفسیر نورا لثقلین ج ١ ص٥٠٥، دلائل امامت ٢٣١

کردیا اسی طرح جب اولی الامر کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے تو ضروری ہے کہ انہیں بھی معین کرے ورنہ تکلیف مالایطاق ہوجا ئے گی(یعنی جسے ہم نہیں جانتے اس کی اطاعت ہمارے امکان سے با ہر ہے) بے شمار روایتوں نے آیت کے شان نزول کو مولائے کا ئنات اور ان کے گیا رہ فرزندو ں سے مختص کیاہے ۔

علی کی امامت اورآیت انذار وحدیث یوم الدار

حدیث یوم الدار
پیغمبر اسلام ۖکو بعثت کے تیسرے سال میں حکم ہوا کہ دعوت اسلا م کو علی الاعلان پیش کریں :وَأنذِر عَشِیرَتَکَ الأَقرَبِین:َ (١)(اپنے قریبی رشتے داروں کوانذار کرو ،ڈرائو ) اس حکم کے ساتھ پیغمبر اسلام نے اپنے رشتے داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں اکٹھا کیا اورکھانے کے بعد فرمایا :اے عبد المطلب کے فرزندو! خد اکی قسم میں عرب میں کسی کو نہیں جانتاکہ اپنی قوم وقبیلہ کے لئے اس سے بہترچیز جو میں پیش کر رہا ہو ں اس نے پیش کی ہو ، میں دنیااور آخرت کی فلاح وبہبودی تمہارے لئے لایاہوں اورخدا نے حکم دیا ہے کہ میںتمہیں اس کی توحید اور اس کی وحدانیت اوراپنی رسالت کی طرف دعوت دوں،تم میں سے کون ہے؟ جو اس سلسلے میں میری مددکرے گاتاکہ وہ میرا بھائی میراولی وجانشین بن سکے ۔
کسی نے اس جانب کو ئی توجہ نہیںدی ۔پھر مولائے کائنات کھڑے
..............
(١)سورہ شعراء آیة:٢١٤

ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ میں حاضر ہو ں ،اس سلسلہ میںآپ کا ناصر ومددگار ہوں یہاں تک تین مرتبہ پیغمبر نے اس جملہ کی تکرار کی،اور علی کے علاوہ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ، اس وقت پیغمبر ۖنے حضرت کے گلے میں باہیں ڈال کے فرمایا : اِنَّ ھذا أخیِ وَوصییِّ وخلیفتی فیکم فاسمعوا لہ وأطیعوہ بیشک یہ میرابھائی ہے تم لوگوںمیں میراوصی وجانشین ہے اس کی باتو ں کو سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
اس حدیث کو اہل سنت کے علماء کرام جیسے ابن ابی جریر ، ابو نعیم ،بہیقی ،ثعلبی ابن اثیر ،طبری اور دوسرے بہت سے علماء نے نقل کیا ہے ،مزید معلومات کے لئے کتاب المراجعات کے صفحہ ١٣٠ کے بعد اور احقاق الحق ج٤ کے ص ٦٢نیزاس کے بعد ملاحظہ فرمائیں ،یہ حدیث واضح طورپر علی کی ولا یت وامامت کو ثابت کرتی ہے ۔

سوالات
١۔ آیت ولا یت ''انما ولیکم اللہ'' کے ذریعہ مولائے کا ئنا ت کی
امامت کو کیسے ثابت کریں گے ؟
٢۔'' انما ولیکم'' میں ولی کس معنی میں ہے اور اس کی دلیل کیاہے ؟
٣۔ اطاعت اولی الامر کی دلالت کوبیا ن کریں ؟
٤۔ آیة انذار اور حدیث یوم الدار سے کس طرح مولائے کائنات کی
امامت پر استدلال کریں گے ؟