اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
 

اکیسواں سبق

نبوت خاصہ (پہلی فصل )

نبوت خاصہ اور بعثت رسول اکرم ۖ
چودہ سو سال پہلے ١٠ ٦ ھ میں جب شرک وبت پرستی نے پوری دنیا کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا او رمظلوم افراد ظالم حکمرانوں کے شکنجو ں میں بے بسی سے ہاتھ پیر ماررہے تھے اور سبھی لوگ ناامید ی کے سائے میں زندگی گذار رہے تھے ایک شریف خاندان سے شرافت و طہارت کا ایک پیکر اٹھاجس نے مظلو موں کی حمایت کی ،عدالت وآزادی کا نعرہ بلند کیا ،اسیروں کے زنجیروں کی گرہوں کو کھولا، علم وتربیت کی جانب لوگو ں کو دعوت دی ،اپنی رسالت کی بنیاد فرمان ووحی الٰہی کو قرار دیتے ہو ئے خود کو خاتم الا نبیاء کے نام سے پہنچوایا ۔
وہ محمد بن عبد اللہ خاندان بنی ہاشم کا چشم و چراغ ہا ں وہی قبیلہ بنی ہاشم جو شجاعت، شہا مت ،سخاوت ،طہارت ،اصالت میںتمام قبائل عرب میںمشہور تھا وہ ہمالیائی عظم واستقلا ل کا پیکر جس کی لیاقت اور روحی کمال کی حد درجہ بلندی کی پوری دنیا کے مورخو ں چاہے دوست ہو ں یا دشمن سب نے گواہی دی ہے اعلا ن رسالت سے قبل ان کی چالیس سالہ زندگی سب کے سامنے آئینہ کی طرح شفاف و بے داغ تھی، اس نامساعد حالات اور جزیرة العرب کی تاریکیوں کے باوجود پیغمبر اسلا م کی فضیلت کا ہر باب زبان زد خاص وعام تھا، لوگوں کے نزدیک اس قدر بھروسہ مند تھے کے سب آپ کو محمد امین کے نام سے جانتے تھے ،خدا کا کروروں سلام ان پر اور ان کی آل پاک پر ۔

رسالت پیغمبر پر دلیلیں
انبیاء کی شناخت کے لئے جتنے اصول وقوانین بتائے گئے ہیں، سب آنحضرت کی رسالت پر مدلل ثبوت ہیں (یعنی معجزہ ،گذشتہ نبی کی پیشین گو ئی ،شواہد قرآئن ) تاریخ ،قرائن وشواہد رسول کی رسالت کے ،او ربعثت پر گواہ ہے ۔
گذشتہ انبیاء کے صحیفے پیغمبر اسلا م کی بعثت کی بشارت دے چکے ہیں ، لیکن پیغمبر کے معجزات دوطرح کے ہیں ۔
پہلی قسم ان معجزات کی ہے جوکسی خاص شخص یا گروہ کی درخواست پر آنحضرت نے خد اسے طلب کیا اور وہ معجزہ آپ کے ہاتھوں رونما ہوا جیسے درخت اورسنگریزوں کا سلام کرنا دریائی جانور کاآپ کی رسالت کی گواہی دینا شق القمر( چاند کے دوٹکڑے کرنا ) مردوں کو زندہ کرنا ،غیب کی خبر دینا ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ چار ہزار چار سو چالیس معجزے رسول اکرم کے تھے جن میں سے صرف تین ہزار معجزوں کاذکر ملتاہے ۔

قرآن رسول اکرم ۖ کا دائمی معجزہ
دوسری قسم : قرآن رسول اکرم کاابدی معجزہ ہے جو ہر زمانے اورہر جگہ کے لئے قیامت تک معجزہ ہے ،رسول اکرم ۖ اور دوسرے انبیاء کے درمیان امتیازی فرق یہ ہے کہ ان سب کی رسالت محدود تھی وہ کسی خاص گروہ یا محدود امت کے لئے مبعوث ہو ئے تھے ،بعض محدود ومکان اور محدود زمانے میں تھے اگر ان میں سے بعض مکانی لحاظ سے محدود نہیں تھے توا ن کی رسالت ایک زمانے تک محدود تھی اور وہ دائمی رسالت کے دعویدار بھی نہیں تھے ،اسی لئے ان کے معجزے بھی فصلی اور وقتی تھے، لیکن چونکہ نبی اکرمۖ کی رسالت ابدی اور عالمی ہے اس لئے ان کے عصری اور وقتی معجزے کے علاوہ دائمی معجزہ (قرآن )بھی ہے جو ہمیشہ کے لئے ہے اور ہمیشہ ان کی رسالت پر گواہ ہے۔

نتیجہ : قرآن کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ:
١۔ اس نے زمان ومکان کی سرحدوں کی ختم کردیا او رقیامت تک معجزہ ہے ۔
٢۔ قرآن روحانی معجزہ ہے یعنی دوسرے معجزے اعضاء بد ن کو قانع کرتے ہیں لیکن قرآن ایک بولتا ہوامعجزہ ہے جوڈیڑھ ہزار سال سے اپنے مخالفو ں کوجواب کی دعوت دیتا آرہاہے اورکہہ رہا ہے اگرتم سے ممکن ہوتومجھ جیسا سورہ لاکر بتاؤ اور چودہ سوسال اس چیلنج کو گذر رہے ہیں مگر آج تک کوئی اس کو جواب نہ لا سکا اورنہ ہی صبح قیامت تک لاس کے گا ۔
(قُلْ لَئِن اجتَمَعَتِ النسُ والجِنُّ علیٰ أَن یَأتوا بِمثلِ ھذا القُرآن لایأتُونَ بِمِثلِہ وَلَوکَانَ بَعضُھُم لِبَعضٍ ظَہِیراً)(١)
آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان وجنات اس بات پر متفق ہوجا ئیں کہ اس قرآن کامثل لے آئیں توبھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔
دوسرے مقام پر ان کے مقابلہ کی ناکامی کو چیلنچ کرتے ہو ئے فرمایا :اگر یہ دعوی میں سچے ہیں توان سے کہہ دیجئے اس کے جیسے دس سورہ تم بھی لے آئو (٢) تیسرے مقام پہ ارشاد ہو ا ( واِنْ کُنتُم فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلنَا علیٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورةٍ مِن مِثلہِ وَ ادعُوا شُھدائَ کُم مِن دُونِ اللّہِ اِن کُنتُم صَادِقیِن)َ (٣)
''اگرتمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کے جیسا ایک ہی سورہ لے آئو اور اللہ کے سوا جتنے تمہا رے مدد گار ہیں سب کوبلا لو اگر تم اپنے دعوی او رخیال میں سچے ہو'' ۔
تو اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ وہ ایک سورے کابھی جواب لانے سے عاجز ہیں ۔
یہ بالکل واضح اور روشن سی بات ہے کہ اگر اس وقت کے فصحاء اور بلغا ء قرآن کے ایک بھی سورہ کا جواب لانے کی صلا حیت رکھتے ہوتے تو پھر پیغمبر اورمسلمانوں
کے خلا ف اتنی جنگیں نہ لڑتے بلکہ اسی سورہ کے ذریعہ اسلا م کے مقابلہ میں آتے
..............
(١) سورہ اسراء آیة: ٨٨
(٢)سورہ بقرہ آیة :٢٣
(٣) سورہ ھو د آیة:١٣

بعثت کے چودہ سوسال گذرنے کے بعد بھی اسلا م کے اربوں جانی دشمن اور لیچڑ قسم کے لوگ نت نئی سازشیں مسلمانوں کے خلا ف کیاکرتے ہیں ۔
اگر ان میں طاقت ہو تی توقرآن کے جیسا سورہ لے آتے اور یقینا اس کے ذریعہ اسلام سے نبر د آزما ہوتے ۔علم بلا غت کے ماہر افراد نے اعتراف کیاہے کہ قرآن کاجواب لا ناناممکن ہے اس کی فصاحت وبلا غت حیرت انگیز ہے اس کے احکام وقوانین مضبوط ،اس کی پیشین گوئیاں اور خبریں یقینی او رصحیح ہیں، بلکہ زمان ومکان وعلم سے پرے ہیں ۔
یہ خو د اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ انسان کا گڑھا ہو ا کلا م نہیںہے بلکہ ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

اعجاز قرآن پر تاریخی ثبو ت
جب قرآن نے ان آیتوں کے ذریعہ لوگو ں کو چیلنج کیا تو اس کے بعد اسلام کے دشمنوں نے تمام عرب کے فصیح وبلیغ افراد سے مددمانگی لیکن پھر بھی مقابلہ میں شکست کاسامنا کرنا پڑا اورتیزی سے عقب نشینی کی۔ ان لوگو ں میں سے جومقابلہ کے لئے بلا ئے گئے تھے ولید بن مغیرہ بھی تھا، اس سے کہا گیا کہ غور وخوض کرکے اپنی رائے پیش کرو ولید نے پیغمبر اسلا م سے درخو است کی کہ کچھ قرآنی آیا ت کی تلاوت کریں رسول نے حم سجدہ کی چند آیتوں کی تلا وت کی ۔ ان آیا ت نے ولید کے اندرکچھ ایسا تغییر وتحول پیدا کیاکہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوردشمنو ں کے بیچ جا کر کہنے لگا خداکی قسم محمد سے ایسی بات سنی جونہ انسانوں کے کلام جیسا ہے او رنہ پریوں کے کلام کی مانند ۔
واِنَّ لہ لحلاوة وأَنَّ علیہ لطلاوة واِنَّ أعلاہ لمُثمر وأنَّ أسفلہ لمغدق أَنّہ یعلو ولا یُعلیٰ علیہ''اس کی باتوں میں عجیب شیرنی ہے اس کا عجیب سحر ابیان لب ولہجہ ہے اس کی بلندی ایک پھل دار درخت کی مانند ہے اس کی جڑیں مضبوط اور مفید ہیں، اس کا کلام سب پر غالب ہے کسی سے مغلو ب نہیں ''یہ باتیں اس بات کا سبب بنی کہ قریش میں یہ چہ میگو ئیاں شروع ہو گئیں کہ ولید محمد کا شیدائی اورمسلمان ہوگیا ہے ۔
یہ نظریہ مشرکین کے عزائم پر ایک کا ری ضرب تھی لہٰذا اس مسئلہ پرغور و خو ض کرنے کے لئے ابو جہل کا انتخاب کیا گیا وہ بھی ولید کے پاس آیا اور مشرکین مکہ کے درمیان جو خبر گشت کر رہی تھی اس سے ولید کو باخبر کیا اور اس کو ان کی ایک میٹینگ میں بلا یا وہ آیا اورکہنے لگا تم لوگ سوچ رہے ہو کہ محمد مجنون ہیں کیا تم لوگوں نے ان کے اندر کو ئی جنون کے آثار دیکھے ہیں ؟۔
سب نے ایک زبان ہو کر کہا نہیں ، اس نے کہا تم سوچتے ہو وہ جھو ٹے ہیں (معاذاللہ) لیکن یہ بتائو کہ کیا تم لوگوں میں سچے امین کے نام سے مشہور نہیں تھے۔ ؟
بعض قریش کے سرداروں نے کہا کہ محمد کو پھر کس نام سے یاد کریں ؟ ولید کچھ دیر چپ رہا پھر یکا یک بولا اسے جادوگر کہو کیو ں کہ جو بھی اس پر ایمان لے آتا ہے وہ سب چیز سے بے نیاز ہو جا تا ہے مشرکین نے اس ناروا تہمت کو خوب ہوادی تاکہ وہ افراد جوقرآن سے مانوس ہو گئے تھے انھیں پیغمبر اسلا مۖ سے الگ کر دیا جائے لیکن ان کی تمام سازشیں نقش بر آب ہو گئیں اور حق وحقیقت کے پیاسے جوق در جوق پیغمبر کی خدمت میں آکر اس آسمانی پیغام اور اس کی دلکش بیان سے سیراب ہونے لگے ۔
جادوگر کا الزام در حقیقت قرآن کے جذّاب اور ہر دل عزیز ہو نے کا ایک اعتراف تھا، انھوں نے اس کشش کو جادو کانام دے دیا جبکہ اس کا جادو سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں تھا ۔
قرآن علوم کا خزانہ ہے ۔ فقہ کی کتا ب نہیں ہے مگر بندوںکے قانون عبادت ،او رسیاسی و معاشرتی جزاوسزا اور اجرای احکام سب اس میں پائے جا تے ہیں فلسفہ کانصاب نہیں مگر فلسفہ کی بہت ساری دلیلیں اس میں ہیں ،علم نجوم کی کتاب نہیں پھر بھی ستارہ شناسی کے بہت ظریف اور باریک نکا ت اس میں پائے جا تے ہیں جس نے دنیا کے تمام مفکروں کو اپنی جانب کھینچ لیاہے۔
علم حیاتیات کا مجموعہ نہیں پھر بھی بہتیری آیات اس حوالے سے موجود ہیں لہٰذ اقرآن معجزہ ہے او ران علوم سے ارفع واعلی ہے ۔
اگر نزول قرآن کی فضاپر غور کی جائے تو پیغمبر اسلا م اور قرآن کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگا ۔
اس ماحول میں جہا ں بہت کم لوگ پڑھے لکھے تھے وہاںایک ایسا شخص اٹھا جس نے نہ دنیا وی مدرسہ میں علم حاصل کیا نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا اور ایسی کتاب لیکر آیا کہ چودہ سوسال بعد بھی علماء او رمفکرین اس کے معنی ومطلب کی تفسیر میں جوجھ رہے ہیں اور ہر زمانے میں اس سے نئے مطالب کا انکشاف ہو تا ہے۔
قرآن نے اس دنیاکو اس طرح تقسیم کیاکہ جوبہت ہی دقیق او رمنظم ہے توحید کو بہ نحو احسن بیان کیازمین وآسمان کی تخلیق کے اسرار ورموز اور انسان کی خلقت اوردن ورات کی خلقت کے راز کو خد اکے وجود کی نشانیاں قرار دیتے ہو ئے مختلف طریقہ سے ذکر کیا ہے کبھی فطری توحید توکبھی استدلال توحید پر بحث کی ہے یہ پوری کائنات خدا کے ہاتھ میںہے اسے بہت طریقہ سے بیا ن کیاہے جب معاد اور قیامت کی بات آتی ہے تو مشرکین کے تعجب پر فرمایا ہے : کیا جس نے اس زمین وآسمان کو ان عظمتوں کے ساتھ پیدا کیا اس کے لئے یہ ممکن نہیںکہ تم جیسا خلق کردے جی ہاں پیداکرنے والا قادر اور صاحب حکمت ہے اور اس کی طاقت اس حد تک ہے کہ جس چیز کا ارادہ کرے اور اسے حکم دے دے ہوجابس وہ فوراً وجود میں آجاتی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جسے لانے والے (پیغمبر ) اور تفسیر کرنے والے (ائمہ معصومین ) کے علا وہ اس کا مکمل علم کسی کے پاس نہیں اس کے باوجود قرآن ہمیشہ ہم لوگوں کے لئے بھی ایک خاص چاشنی رکھتا ہے چونکہ دلوںکی بہار ہے لہٰذا جتناہی پڑھیں گے اتنا ہی زیادہ لطف اندوز ہوںگے جی ہاں قرآن ہمیشہ نیا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے چونکہ یہ پیغمبر اسلام کا دائمی معجزہ ہے ۔
حضرت امیر نے قرآن کے بارے میں فرمایا :واِنَّ القرآنَ ظاہرہ أنیق وباطنہ عمیق لا تُفنیٰ عجائبہ ولاتنقضیِ غرائبہ (١)
''بیشک قرآن ظاہر میں حسین اورباطن میں عمیق ہے اس کے عجائبات انمٹ ہیں''۔
اس کے غرائب اور اس کی تازگی میں ہمیشگی ہے وہ کبھی کہنہ او رفرسودہ نہ ہوگی ۔
نہج البلاغہ کے خطبہ ١٧٥میں آیا ہے (فیہ ربیع القلب وینابیع العلم وماللقلب جلا ء غیرہ )دلوں کی بہار قرآن میں ہے اس میں دل کے لئے علم کے چشمے ہیں اس کے علا وہ کوئی نور موزون نہیں ہے ۔
امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیوں قرآن کی ترویج اور اس میں تفحص کے ساتھ ساتھ اس کی تازگی اور بالیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ؟
امام نے فرمایا:''لان اللہ تبارک و تعالیٰ لم یجعلہ لزمان دون زمان و لالناس دون ناس فھو فی کل زمان جدید و عند کل قوم
..............
(١) نہج البلا غہ خطبہ ١٨

غض الی یوم القیٰمة ''
''اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو کسی خاص زمانہ اور کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں کیا (بلکہ یہ کتابِ الٰہی تمام زمانے اور تمام انسانوں کے لئے ہے)پس قرآن ہر زمانہ کے لئے جدید اور تمام انسانوں کے لئے قیامت تک زندہ ہے۔''

سوالات
١۔ خصوصیات قرآن بیان کریں ؟
٢۔ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ولید کا قصہ بیا ن کریں ؟
٣۔ امیر المومنین نے قرآن کے سلسلہ میں کیا فرمایا ؟