تیرہواں سبق
مصائب وبلیات کا فلسفہ (حصہ دوم )
مومنین کے لئے بلا ء ومصیبت ا ن کے علو درجات کے لئے ہے او ر کبھی ان کی یاد دہانی اور بیداری کے لئے بعض وقت ان کے گناہو ں کا کفارہ ہیں اور یہ سب کی سب چیزیں خدا کی طرف سے مومنین پر لطف ہیں ۔
امام صادق ں فرماتے ہیں:''اِنَّ عَظیم الأجرِ لمَع عظیم البلا ء وما أحب اللّٰہ قوماً الا ابتلاھم'' اجرت کی زیادتی بلا ئوں کی کثرت پر ہے اور خدا جس قوم کو دوست رکھتا ہے اس کو بلا ئو ں میں مبتلا ء کرتا ہے۔ (١)
امام باقرں فرماتے ہیں:''لو یعلم المؤمن مالہ فی المصائب من الاجر لتمنی أَنَّہ یُقرض بالمقاریض'' اگر مومن کو اس بات کاعلم ہو جائے کہ آنے والی مصیبت کااجر کتنا ہے تو وہ اس بات کی تمنا کرے گا کہ اس کو قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ (٢)
امام علی ں فرماتے ہیں:''مَن قَصَّر فی العمل ابتلیٰ بالھم ولا
..............
(١) بحار جلد ٦٧ ،ص٢٠٧
(٢) بحار جلد ٨١ ،ص ١٩٢ ۔
حاجة للّٰہ فِیمَن لیس للّہ فی نفسہ وما لہ نصیب'' جس نے اعمال میں کمی کی وہ مشکلا ت کا شکار ہو ا اور جس کے جان ومال میں کسی قسم کا نقصان نہ پایا جائے تو وہ لطف خدا کا مستحق نہیں ہے۔ (١)
امام صادق ں نے فرمایا: ساعات الأَوجاعُ یُذھبنّ بساعات الخطایا( ٢) مصیبت کی گھڑیا ں خطا کے لمحات کو مٹادیتی ہیں۔ (بیماری گناہوں کا کفارہ ہے ) ۔دوسری جگہ امام صادق ں فرماتے ہیں : لا تزال الغموم والھموم بالمؤمن حتی لاتدع لہ ذنباًً(٣) مومن ہمیشہ مصیبت وبلا ء میں اس لئے گرفتار رہتا ہے تاکہ اس کے گنا ہ باقی نہ رہ جائیں ۔
امام رضا ںنے فرمایا : المرضُ للمؤمن تطھیرو رحمة و للکافر تعذیب ولعنة وأَن المرضَ لا یزال بالمؤمن حتیٰ لا یکون علیہ ذنب(٤) مومن کی بیماری اس کی پاکیزگی او ررحمت کا سبب ہے او رکا فر کے لئے عذاب و لعنت کا سامان ہے ،مومن ہمیشہ بیماری میں مبتلارہتا ہے تاکہ اس کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں ۔
امام باقر ںفرماتے ہیں :'' أِنَّما یُبتلیٰ المؤمن فی الدنیا علیٰ قدر دینہ او قال علی حسب دینہ'' مومن دنیا میں مراتب دین کے تحت مصیبت میں مبتلاہو تا ہے۔ (٥)
..............
(١) بحار الانوار ج،٨١ ص ،١٩١۔(٣)بحار الانوار جلد٦٧باب ابتلاء لمومن
(٢)بحار الانوار جلد،٨١ص،١٩١(٤)بحار الانوار جلد٨١، ص،١٨٣(٥) بحار الانوار ج،٨١ ص ،١٩٦۔
دوسری حدیث میں امام صادق ںنے فرمایا :مومن کے لئے چالیس شب نہیں گذرتی کہ اس کے اوپر کو ئی بڑی مصیبت آپڑتی ہے تاکہ وہ ہو شیار ہوجائے ۔(١)
قرآن مجید میں کم وبیش، بیس مقامات پر امتحان الٰہی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔یہ امتحان خدانے ہم سے آگا ہی کے لئے نہیں لیا ہے کیونکہ وہ ابتداء ہی سے ہم سے با خبر ہے بلکہ اس امتحان میں تربیت کاایک پہلو ہے۔ الٰہی امتحانات روح اورجسم کے لئے تکامل کاذریعہ ہیں او ردوسری طرف امتحان کے بعد جزاوسزا کا استحقاق ہے( وَلَنَبلُونَّکُم بِشَیئٍ مِن الخَوفِ والجُوعِ وَنَقصٍ مِن الأموالِ وَ الأنفُسِ والثَّمراتِ و بَشّر الصَّابِرینَ)(٢) او رہم یقینا تمہیں تھوڑے خوف، تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس او رثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبر! آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ۔(وَنَبلُونَّکُم بالشَّرِّ والخَیرِ فَتنة واِلینا تُرجعَونَ) (٣)اور ہم تو اچھائی او ربرائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے اور تم سب پلٹا کر ہماری بارگاہ میں لائے جائوگے ۔
مولائے کائنا ت نے فرمایا :... ولکنّ اللّہَ یختبر عبادہ بأنواع الشدائد ویتعبدھم بأنواع المجاھد و یبتلیھم بضروب المکارہ (٤)
خدا وند تعالی اپنے بندوں کو مختلف سختیوں کے ذریعہ آزماتاہے او ربندے کو مختلف مشکلوں میں عبادت کی دعوت دیتا ہے اور متعدد پریشانیوں میں مبتلا کر تا ہے ۔
..............
(١)بحار الانوار جلد٦٧باب ابتلاء لمومن
(٢) سورہ بقرہ آیة ١٥٥
(٣) سورہ انبیاء آیة ٣٥(٤)نہج البلا غہ خطبہ ١٩٢
فلسفہ مصائب کا خلا صہ اور نتیجہ
بہتیرے اعتراضات، عدل الٰہی کے سلسلہ میں جہالت او ربلا ء و مصیبت کے فلسفہ کو درک نہ کرنے کے باعث ہو ئے ہیں مثلایہ خیال کریں کہ موت فنا ہے اور اعتراض کر بیٹھیں کہ فلاں شخص کیو ں جوانی کے عالم میں مر گیا اور اپنی زندگی کا لطف نہ اٹھا سکا ؟ ہم یہ سوچتے ہیں کہ دنیا ابدی پناہ گاہ ہے لہٰذا یہ سوال کرتے ہیں کہ سیلا ب اور زلزلے کیو ں بہت سارے لوگو ں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ہے ؟ ہماری فکر کے اعتبار سے یہ دنیا آرامگاہ ہے تو پوچھتے ہیں کہ بعض لوگ بے سروسامان کیوں ہیں ؟۔
(یہ سارے سوالات ) ان لوگو ں کی مانند ہیں جو دوران درس اعتراضات کی جھڑ لگادیتے ہیں کہ چائے کیاہوئی ،کھا نا کیوں نہیں لاتے ،ہما را بستر یہاں کیوں نہیں ہے ؟ان سارے سوالوں کے جواب میں صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ درس گا ہ ہے مسافر خانہ نہیں ۔در حقیقت گزشتہ سارے اعتراضات کابہترین راہ حل اس دنیا کو پہچاننا اور موجودات عالم کے مقصد خلقت کو درک کرنا ہے ۔
سوالات
١۔مومنین دنیا میں مصائب وآلا م کے شکا رکیو ں رہتے ہیں ؟
٢۔ خدا اپنے بندو ں کا امتحان کیو ں لیتا ہے ؟
٣۔ فلسفہ ٔمصائب کا خلا صہ او رنتیجہ بیان کریں ؟
|