ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیںہے ۔
سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں'' لا یشغلہ شأن ولا یغیرہ زمان ولا یحویہ مکان ولایصفہ لسان''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔ (١)
..............
(١)نہج البلا غہ خطبہ،١٧٨
دوسری حدیث میں امام جعفر صادق ں سے نقل ہے کہ'' اِنَّ اللّہَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل ھو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّہ عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔ (١)
صفات سلبی کی وضاحت
خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔
خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا
(لاَ تُدرِکُہُ الأبصَارُ و ھُوَ یُدرِک الأبصارَ وَھو اللّطِیفُ الخَبِیر) (٢) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے
..............
(١) کتاب بحارالانوار ج٣ ،ص،٣٠٩
(٢) سورہ انعام آیة ۔١٠٣
سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟
جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیںخدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔
خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔
امام علی رضا ں سے روایت ہے :أنّہ لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰہ عزَّوجلَّ جسم ونحن منہ براء فی الدنیا والآخرة (١) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میںسے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔
..............
(١)توحید صدوق باب ٦، حدیث، ٢٠
وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے
مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی
قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔
وہ ہر جگہ ہے
(وَللَّہِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجہُ اللَّہِ اِنَّ اللّٰہَ واسِعُ عَلیمُ)(١) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔
(وَھُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّہُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ)(٢) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔
امام موسی کا ظم ںنے فرمایا : اِنَّ اللّٰہَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وھو الآن کما کان لا یخلو منہ مکان ولا یشغل بہ مکان ولا یحلّ فی مکان (٣) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔
..............
(١)سورہ بقرہ ص ١١٥۔
(٢) سورہ حدید آیة ،٤
(٣) توحید صدوق باب ٢٨،حدیث ١٢
ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔ (١)
..............
(١) سابق حوالہ حدیث،٤
خدا کہا ںہے ؟
کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟
انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔
جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔
وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم
نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔
ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔
یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خدا ۖ کی اہلیت رکھتے ہیں ۔(١)
ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟
ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق ں کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت
..............
(١) پیام قرآن نقل جلد٤ ،ص ٢٧٤
چاہے ہاتھ آسمان کی جانب رکھیں یا زمین کی طرف اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،آپ نے فرمایا : یہ موضوع اس کے علم اور احاطہ قدرت میں برابر ہے لیکن خدانے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ دعا کرتے وقت ہاتھوں کو آسمان کی جانب عرش کی طرف بلند کریں کیونکہ معد ن رزق وہاں ہے ۔جو کچھ قرآن اور فرمان رسول ہے ہم اس کو پہچاتے ہیں ، اس کے بعد فرمایا : اپنے ہاتھوں کو خدا کی طرف بلند کرو اوریہ وہ موضوع ہے جس پر تمام امتوں کا اتفاق ہے ۔(١)
حضرت امیر المومنین ںنے فرمایا : کہ تم میں سے کوئی بھی جب نماز تمام کرے تو دعا کے لئے ہاتھوں کوآسمان کی جانب بلند کرے پھر دعا کرے ،ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا خدا ہر جگہ نہیں ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہا ں ہے ۔ اس نے کہاپھر ہاتھو ں کو آسمان کی طرف کیوں اٹھاتے ہیں ،آپ نے فرمایا :تم نے (قرآن مجیدمیں) نہیں پڑھا آسمان میں تمہاری روزی ہے اورجو کچھ تم سے وعدہ کیاگیا ہے۔ انسان محل رزق کے علاوہ کہا ںسے رزق طلب کرے گا محل رزق اور وعدہ الٰہی آسمان ہے ۔(٢)
..............
(١) پیام قرآن از بحارالانوار ج٣،ص ٣٣٠
(٢) پیام قرآن نقل از بحارالانوار ج ٩٠،ص ٣٠٨
سوالات
١۔ صفات سلبیہ سے مراد کیاہے ؟
٢ ۔ خدا کو دیکھنا کیوں ناممکن ہے ؟
٣ ۔ یہو دی دانشمند جس نے سوال کیا تھا کہ خدا کہا ںہے حضرت امیر نے
اس کو کیا جواب دیا ؟
٤۔ دعا کے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیو ں اٹھا تے ہیں ؟
|