اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
 

تیسرا سبق

وجو د انسان میں خدا کی نشانیاں
(سَنُرِیھِم آیاتِنَا فیِ الافاقِ وَ فِی أَنفُسِھم حتیٰ یَتبیَّن لَھُم أَنَّہُ الحَقُّ)(١) ہم اپنی نشانیو ں کو دنیامیں اورانسان کے وجو د میںلوگوں کو دکھلا ئیں گے تا کہ وہ جا ن لیں کہ خدا حق ہے ۔
(وَفِی خَلقِکُم وَمَا یَبُثُّ مِن دَا بّةٍ آیا تُ لقومٍ یُوقنُونَ)(٢) اور خو د تمہا ری خلقت میں بھی اور جن جانوروں کو وہ پیداکرتا رہتا ہے ، ان میں بھی صاحبان یقین کے لئے بہت ساری نشانیاں ہیں ۔ (وَمِن آیاتِہ أَن خَلقَلکُم مِّن تُرابٍ ثُمّ اِذا أَنتُم بَشَرُ تَنتَشِرُون)(٣)اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں خاک سے پیدا کیا اور انسان بنایاپھر تم زمین پر پھیل گئے ۔
جب کہ دنیا کے چوٹی کے دانشورا ور مفکرین ،مختلف النوع اشیاء کا مختلف انداز میں معائنہ کر رہے ہیں لیکن خود وجود انسان ایک نا شناختہ وجو د بنا ہو ا ہے اور برسوں درکا ر ہیں اس بات کے لئے کہ دنیا کے دانشور حضرات دنیا کے اس سب سے بڑے معمہ کی گتھی کو سلجھا سکیں اور اسکے زاویئے کو آشکا ر کر سکیں اور شاید یہ حل نہ ہو نے والی پہیلی ہے۔
..............
(١)سورہ فصلت آیہ :٥٣
(٢) سو رہ جا ثیہ آیہ:٤
(٣) سورہ روم آیة: ٢٠

انسان کا جسم
اصحاب امام صادق ں میں سے ایک کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکم (امام جعفر صادق ںکے شاگرد ) سے پوچھا کہ اگر کو ئی مجھ سے یہ سوال کرلے کہ تم نے خدا کو کیسے پہچانا تواس کا کیا جواب ہوگا؟ ہشام کہتے ہیں ہم اس کے جو اب میں یہ کہیں گے کہ خدا کوہم نے اپنی ہی ذات کے ذریعہ پہچانااس لئے کہ وہ تمام چیزوں میں سب سے زیادہ نزدیک ہے، میں یہ دیکھ رہا ہو ں کہ میرے جسم کی اتنی عظیم عمارت مختلف اجزاء پر مشتمل ہے اور ہر کو ئی اپنے مخصوص اندازومقام پر رواں دواں ہے ان اجزاء کا نظم و ضبط اس بات کا غماز ہے کہ ان کا خالق بہت ہی متین اور دقیق ہے۔ اور(یہ جسم) مختلف اقسام کے رنگ و روغن سے آراستہ ہے ،میں اس با ت کا قطعی مشا ہدہ کر رہا ہوں کہ میرے مختلف النوع حواس ،طرح طرح کے اعضا ء و جوارح جیسے آنکھ کا ن ، شامہ ، ذائقہ ، لا مسہ ، خلق کئے ، او رتمام عقلا ء کی عقل اس بات کو محال جا نتی ہے کہ ایک منظم پروگرام کسی ناظم کے بغیر یا کوئی اچھوتی اور نفیس تصویر کسی ماہر نقاش کے بغیر وجو د میں آجا ئے لہٰذامیں نے اس سے اس بات کا پتہ لگا یا کہ میرے جسم کا نظام میرے بدن کی نقاشی اس قانون سے مستثنی (جدا ) نہیں ہے بلکہ کسی خالق کی محتاج ہے۔ (١)
ایک شخص نے امام رضا ںسے وجو د خدا پر دلیل طلب کی تو آپنے فرمایا :
..............
( ١) بحار الا نوار ج ٣، ص ،٥٠

''علَمتُ اَنَّ لھذا البنیان بانیاً فأقررتُ بہ''
میں نے اپنے وجو د ہستی پر نظر کی تو اس بات کا انکشاف کیا کہ کو ئی اس کا خالق ہے لہٰذا میں نے اس کے وجو د کااقرار کرلیا۔ (١)
صادق آل محمد فرماتے ہیں : مجھے اس شخص پر تعجب ہوتا ہے جو یہ تصور کرتا ہے کہ خدا بندوں کی نظروں سے پو شیدہ ہے جبکہ اس کی خلقت کے آثار خو د اپنے آپ میں دیکھتاہے اور وہ ایسے آثار ہیں جو عقلوں کو مبہوت اور غلط افکا ر کو باطل کر دیتے ہیں ۔
میرے جا ن کی قسم! اگر نظام خلقت میں غور کر لیتے تو یقینا خالق کا ئنات کی جانب مدلل ثبو توں کے ذریعہ پہنچ جاتے۔ (٢)

جسم انسان ایک پر اسرار عمارت
دا نشور و مفکرین حضرات نے خصوصیات انسان کو جاننے کے لئے کچھ علوم کی بنیا د رکھی ہے او راس کے توسط سے کچھ رازوں کو جان سکے ہیں۔
کیو نکہ انسان کے اعضا ء میں سے ہر عضو اسرار توحید کی ایک دنیا چھپائے ہو ئے ہے ، ان اسرار کو حسب ذیل امور میں تلا ش کیا جا سکتا ہے ۔
١۔جسم انسان کے پر اسرار انگ : انسان کا بدن ایک عمارت کی مانند مختلف خلیوںسے مل کر بنتاہے جس کا ہر ایک خلیہ مستقل زندہ وجود ہے او ردیگر جاندار کی طرح ہضم ،جذب ، دفع ، اور تولید مثل رکھتاہے انسان کے جسم میں معمولاوہ خلیہ جو
..............
(١) اصول کا فی کتاب التوحید ۔ با ب :١ حدیث۔٣
(٢)بحار الانوار ج٣،ص ١٥٢

مستقل دل کی مدد سے خون کے سہارے غذا حاصل کرتے ہیں . کروروں کی تعداد میں ہیں ان میں سے ہر ایک خلیہ خاص اندازمیں مرتب اور کا رفرما ہیں ۔ کبھی گو شت کی صورت میںکبھی پو ست کی شکل میں کبھی دانت کے مثانے کبھی اشک چشم کی صورت میں متشکل ہو تے ہیں ، یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک خاص غذا کا محتاج ہوتاہے جو خون کے ذریعہ دل کے فرمان کے تحت ان تک پہنچایاجا تا ہے ۔
٢۔ مرکز ہضم، جسم کے باورچی خانہ کی حیثیت رکھتاہے ۔
٣۔ مرکز گردش خو ن ،پورے بدن میں غذا رسانی کاکام کرتاہے۔
٤۔ مرکز تنفس بدن انسانی میں تصفیۂ خون کا کام انجام دیتاہے۔
٥۔ مرکز مغز و اعصاب تمام انسانی قوا کا فرمانروا ہے ۔
٦۔ کان، آنکھ ، ناک، یہ سب مغز کے مواصلا تی مراکز ہیں ۔
٧۔تمام اعضاء بدن مرکزی حیرت انگیز مشینری ہیںجو دانااو رتواناخالق کی جانب راہنمائی کرتی ہیں ۔(١)
تمام اعضا ء بدن کی فعالیت اور ان کی فیزیکی نشوء ونما کے بارے میں ہزاروں دانشوروں نے مطالعہ کر کے ہزاروں کتابیں لکھی ہیں، کیا کوئی بھی اس بات پر یقین کرے گا کہ ان اعضاء میں ہرایک کی شناخت کے لئے اتنے عقول ،ذکا وت و درایت کی ضرورت ہے لیکن ا س کی تخلیق کے لئے کسی بھی علم و عقل کی قطعی ضرورت نہیں ہے !
..............
(١) راہ خدا شنا سی ۔ استاد سبحانی

یہ کیسے ممکن ہے کہ اعضاء انسانی کی فعالیت اور کیفیت کا رکے لئے برسوں مطالعہ کی ضرورت ہے، مگر ان کی خلقت بے شعور عوامل کے توسط سے ہوجائے آخر دنیا کی کو ن سی عقل اس بات کو قبول کرے گی ؟۔

دماغ کی حیرت انگیز خلقت
جسم انسان کا اہم ترین اور دقیق ترین مرکز انسان کا دماغ ہے دماغ تمام قوائے بدن کا فرمانروا اور وجود انسان کے تمام اعصابی مراکز کا اصلی مرکز ہے ،دماغ ضروری اطلاعات کی فراہمی ،اعضاء کے احتیاجا ت نیز بدن تک اپنے تمام فرامین کے پہچانے کے لئے جسم کے تمام باریک اجزاء جو جسم بھر میں پھیلے ہو ئے ہیں ان کا سہارا لیتا ہے او ران اجزاء کو ( سلسلۂ اعصاب ) کہتے ہیں ۔
انسان کی چھو ٹی سی کھوپڑی میں اتنا عظیم الشان مرکز کس طرح فعالیت کرتا ہے، اگر اس جا نب توجہ کریں تو ہم کو اس کا ئنات کے خالق کی عظمت و قدرت و حکمت کی جانب راہنمائی کرتا ہے ۔

روح انسان مخلوقات عالم کی عجیب ترین شی ٔ
وجو د انسان کے ابعاد میں سے ایک روح ہے، روح کا ئنا ت کی عجیب ترین اورپر اسرار موجودات میں شمار ہو تی ہے جبکہ تمام چیزوں سے زیادہ ہم سے نزدیک ہے پھر بھی اس کی معرفت سے قاصر ہیں ۔ ہر چند دانشمند وں نے اس کی شناخت کے لئے انتھک کو شش کر ڈالی ہے، مگر اب بھی روح کااسرار آمیز وجود جوں کاتوں ہے اور اس کے رخ سے رموز کے پردے ہٹائے نہیں جاسکے ہیں ۔
قال اللہ:( یَسئلُونَک عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِن أَمرَ رَبّی وَما أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاّ قلیلاً)(١)یہ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دوکہ روح فرمان الٰہی میں سے ہے اور تم کو تھو ڑے سے علم کے سوا کچھ نہیں دیا گیا ہے یہ سر بمہرجواب اس بات کی جا نب اشارہ ہے کہ روح کا ئنات کے موجودات میں سے نہا یت ہی سرّی وجود ہے اور اس سے لا علمی وعدم آگا ہی کم تعجب کی بات نہیں ہے کہ اسرار روح سے آگا ہ نہ ہو سکے ۔
یہ عجوبہ قادر ومتعال خدا کی عظیم نشانیوں میںسے ایک ہے ۔

روح انسان کی سرگرمیاں
ہم بے شمار روحی اور فکری سر گرمیاں رکھتے ہیںچاہے خود آگا ہ طور پر یا ناخود آگا ہ طور پر ، اور ہر ایک ان میں سے ایک مستقل موضوع بحث ہے نیز متعدد کتابوں میں اس کے بارے میں بحث ہو چکی ہے ان سرگرمیوںمیںسے کچھ حسب ذیل ہیں ۔
١۔تفکر : مجہو لا ت کا حصول او رحل مشکلا ت ۔
٢۔ تجدد :( نیاپن ) ۔ متعدد حاجات کوپورا کرنا ، مختلف حو ادث کا مقابلہ کرنا ایجاد ات وانکشافات ۔
..............
(١) سورہ اسرار آیة :٨٥

٣۔ حافظہ ، ان معلومات کو محفوظ رکھنے کے لئے جو حس ، تفکر کے ذریعہ انسان کو حاصل ہو ئی ہے ،پھر ان کی درجہ بندی و حفاظت اور وقت ضرورت ان کی یا د آوری ۔
٤۔ مسائل کا تجزیہ اور ان کی تحلیل :حادثات کے علل و اسباب کو معلوم کرنے کے لئے مفاہیم ذہنی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا پھر انہیں مرتب کرنا تاکہ حادثہ کے علل و اسباب کو بخوبی معلوم کیاجاسکے ۔
٥۔ تخیل: یعنی ذہنوں شکلوں کا ایجاد کرنا جو بسا اوقات خارج میں موجود نہیں ہوتیں اور وہ نئے مسائل کے سمجھنے کو مقدمہ ثابت ہو تی ہیں ۔
٦۔ قصد و ارادہ : امور کی انجام دہی ، ان کو متوقف کرنا یا ان کو اتھل پتھل کرنا
٧۔ محبت و دوستی ، دشمنی و نفرت: اور ان کے مانند دسیوں احساسات جو انسانی اعمال میں مثبت و منفی اثرات رکھتے ہیں۔ (١)

اپنی پہچان
خدا کی حکمت اور اس کی اہم ترین تدبیری نشانیوں میں سے ایک شیء خلقت انسان ہے اس کی شنا خت ، شنا خت خدا وند کامقدمہ ہے ۔
قال علیِّ ں:مَن عرفَ نفسہ فقد عرف ربّہ(٢)''جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے گویا خدا کو پہچان لیا'' ۔
قال أمیرُ المومنینَ علیہ السلام: عَجبتُ لِمن یجھل نفسہ
..............
(١)پیام قرآن جلد ٢،بحث روح
(٢) غرر و درر ۔ با ب معرفت

کیف یعرف ربّہ (١)'' میں تعجب کرتا ہوں اس شخص پرجو خو د اپنے آپ سے جاہل ہے وہ خدا کو کیسے پہچانے گا ''.
قال علی علیہ السلام :مَن عرف نفسہ فقد انتھیٰ الیٰ غایة کلّ معرفة و علم (٢)''جن نے خدا کو پہچان لیا گو یا اس نے ہر علم ودانش کو پالیا ''۔
قال علیّ علیہ السلام : معرفة النفس أنفع المعارف (٣) ''نفس کی پہچان بہترین معرفت ہے ''۔
قال امیر المومنین علیہ السلام : عجبت لمن ینشد ضالتہ و
قد أضلَّ نفسہ فلا یطلبھا(٤)
''میں حیران اس شخص پر جو کسی گمشدہ شیء کو تلا ش کر رہا ہے جبکہ وہ خو د کوگم کر بیٹھا ہے اور اس کو تلا ش نہیں کررہا ہے'' ۔
..............
(١) (٢)(٣)(٤)غرر و درر ۔ با ب معرفت


سوالا ت
١۔معرفت نفس کے سلسلہ میں حضرت علی کی ایک حدیث بیان کریں ؟
٢۔ شناخت خدا کے بارے میں ہشام کی کیا دلیل تھی ؟
٣۔ بطور خلا صہ بیان فرمائیں کہ جسم انسان کن چیزوں سے بنا ہے ؟
٤۔ روح کی سر گرمیوں کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟