اصول عقائد (چالیس اسباق میں )
 

دوسراسبق

توحید فطری
فطرت کے لغوی معنی سرشت و طبیعت سے عبارت ہے اور اصطلا ح میں ہر انسان کے معنوی جذبہ او ر خو اہش کو فطرت کہا جا تاہے، انسان کے اندر دو طرح کے خو اہشات پا ئے جا تے ہیں ۔
١۔ما دی خو اہشات :جو مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے انسانی وجو د میں پوشیدہ ہو تی ہیں . جیسے حب ذات ،بھوک ،پیا س ، خو ف، امید و غیرہ ۔
٢۔ معنوی خو اہشات : جیسے ترقی ،دوستی ، ایثارو قربانی ، احسان و شفقت اور اخلا قی ضمیر ،یہ خو اہشات انسانی وجو د میں اس لئے رکھی گئی ہیں تاکہ وہ حیو انیت کے حدود سے نکل کر واقعی او رحقیقی کمالا ت تک پہو نچ سکے ۔

فطرت یا معنوی خو اہشات
معنوی خو اہشا ت یا فطرت اسے کہتے ہیں کہ جس کو انسان خود بخودپالیتا ہے اور اس کو سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی فطرت ،معرفت و شناخت کے سر چشموں میںسے ایک سر چشمہ ہے، کبھی اس سر چشمہ شناخت کو قلب سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے اور عقل جوکہ تفکرو ادراکا ت نظری کا مرکز ہے اس سے بہت جداہے اور یہ سب کے سب انسانی روح کے ایک ہی درخت کے پھل اور اس کی شاخیں ہیں یہ معنوی معرفت ہر انسان کے اندر موجو د ہے۔
البتہ کبھی کبھی سیاہ پردے بیچ میں حائل ہو جا تے ہیں اور یہ فطرت آشکا ر نہیں ہو پاتی .انبیاء کی بعثت نیز اماموں کا سلسلہ انہیں پردوں کو ہٹانے او رفطرت الٰہی کے رشد کے لئے تھا انسان فطرت توحید کے ساتھ دنیا میں آتا ہے ۔
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :( فَأَقِم وَجھکَ للدّین حَنِیفًا فِطرَتَ اللّٰہِ التِی فَطرَ النّاسَ عَلَیھا لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّٰہ ذلک الدّینُ القَیّمُ ولَکنّ أَکثَرُ النّاسِ لَا یَعلَمُونَ)(١)''آ پ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیاہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ،یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگو ں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے'' ۔

فطرت، روایا ت کی روشنی میں
قال رسول اللّہ ۖ:''کُلُّ مولودٍ یُولدُ علیٰ الفِطرة ِحتیٰ یکون أبواہ یھّودانہ أوینصّرانہ''(٢)ہر بچہ فطرت (توحید و اسلا م ) پر پیدا ہو تا ہے مگر یہ کہ اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں ۔
..............
(١)سو رہ روم آیت :٣٠ (٢) بحارالانوار جلد ٣،ص٢٨١

عن زرارہ سالت أبا عبد اللّہِ علیہ السلام عن قول اللّہ عزََّوجلَّ فطرةُ اللّہِ التی فطرالنّاس علیھا قال: فطرھم جمیعاً علیٰ التوحید (١)
جنا ب زرارہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق ںسے خدا کے اس قول ( فطرة اللہ ) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :کہ خدا نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آیت کریمہ میں فطرت سے کیا مراد ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا : اسلا م مراد ہے کیونکہ خدا نے جب انسانوں سے توحید اور معرفت خدا کا عہد لیا تھا اسی وقت ضرورت دین کو بھی ان کے وجو د میں جا گزیں کر دیا تھا (٢) عن علیّ ابن مو سی الرِّضا صلوات اللّہ علیہ عن أبیہ عن جدہ محمّد بن علیِّ بن الحسین علیھم السلام فی قولہ ۔فطرة اللّہ التیِ فطر النّاس علیھا:قال ھولاألہ اِلّا اللّہ مُحمّد رسول اللّہ علیِّ امیرالمومنینںالیٰ ھٰھنا التوحید (٣)
امام رضا ںاپنے والد بزرگو ار سے انہوں نے اپنے جدامام باقر ں سے نقل کیا ( فطرةاللہ ) کے معنی لا الہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ ۔
..............
(١) بحارالانوار جلد ٣،ص،٢٧٨
(٢)بحارالانوار جلد٣،ص ٢٧٨
(٣)بحارالانوار جلد٣،ص٢٧٧

علی امیر المومنین ںہیں یعنی خداکی وحدانیت کے اقرار میں رسالت محمدی کا یقین اور ولایت امیر المومنین کا اقرار بھی شامل ہے ۔
ابو بصیر نے امام محمد با قرںسے نقل کیا ہے کہ ( فَأقِم وَجھک للدِّینِ حَنیفًا)سے مراد ولا یت ہے۔ (١) حقیقت امر یہ ہے کہ ہر انسان اپنے آپ میں ایک پیدا کرنے والے کا احساس کرتاہے اور یہ وہ کیفیت ہے جس کو خدانے انسانوں کی سرشت و فطرت میں ودیعت کردیا ہے ۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو غیر مسلم دانشوروں نے بھی قبول کیا ہے جن کے چند نمونوں کی جا نب ہم اشارہ کریں گے

مذہبی فطرت اور دانشوروں کے نظریات !
بغیر کسی استثناکے عقیدہ او رمذہب سب میں پایا جاتاہے اور میں اس کو پیدائشی مذہبی احساس کا نام دیتاہو ں،اس مذہب میں انسان آرزوں اور مقاصد کے کم ہو نے اور عظمت وجلا ل جو ان امور کے ماوراء اور مخلو قات میں پوشیدہ ہوتے ہیں انکا احساس کرتاہے۔ (٢) ''انسٹن''
''دل کے پاس کچھ ایسی دلیلیں ہیں کہ جہا ں تک عقل کی رسائی نہیں ہے''(٣)
''پاسکال''
میں بالکل کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہو ںکہ مذہبی زندگی کا سرچشمہ دل ہے۔(٤) ''ویلیم جیمز''
..............
(١)بحارالانوار جلد٣،ص٢٧٧
(٢)دنیا ی کہ من می بینم ص٥٣
(٣)سیر حکمت دراروپاص،١٤
(٤)سیر حکمت دراروپاص ٣٢١

ہمارے اسلا ف نے با رگا ہ خدا وندی میں اس وقت سر کو جھکا دیا تھا جب وہ خدا کو کوئی نام بھی نہ دے سکے تھے ۔ (١) ''ماکس مولر''
جو حقیقت کھل کر ہما رے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عرفانی احساس ایک ایسی لہر ہے جو ہماری فطرتوںکے تہہ سے اٹھتی ہے اور در حقیقت وہی اصل فطرت ہے جس طرح انسان پانی اور آکسیجن کا محتاج ہے اسی طرح خدا کی ضرورت بھی ہے۔ (٢)
''الکسس کا رل''
انسان اس بات کا احساس کرتاہے کہ اسے آب و دانہ کی ضرورت ہے اسی طرح ہماری روح کو بھی بہترین روحا نی غذائوں کی ضرورت ہے ۔اسی احساس کا نام ہے دین، جس کی جانب پہلے ہی انسان کی ہدایت کر دی گئی تھی ،گو یا یہ کہ اگر دنیا کی وحشی ترین قوم سے ایک بچہ کولے لیں اور اس کو آزاد چھوڑ دیں کہ وہ جیسے چاہے ویسے زندگی گزارے اور اس کو کسی بھی دین سے آشنا نہ کرائیں وہ جس وقت بڑا ہوگا اورجس قدر اس کا شعور و ادراک کامل ہوگاہم اس بات کو محسوس کریں گے کہ وہ کسی گمشدہ شی ٔکی تلا ش میںہے اور ہر دم اور ہمیشہ اصل فطرت و سرشت کی بنا پر ادھر ادھر ہا تھ پیر مارے گا تاکہ اپنے دماغ میں کسی چیز کا تصور کر سکے او رہم اس کی اس تگ ودواور فکر کو دین کہتے ہیں۔ ''سقراط حکیم''
..............
(١) مقدمہ نیایش ص ٣١
(٢) نیایش ص ٢٤،١٦


امیدوںکا ٹوٹنا اور ظہو ر فطرت
ہر انسان ا ضطراب اور غیر خدا سے قطع تعلقات کے وقت اللہ سے لو لگاتا
ہے اور فطرتاً اپنے کو اس بے نیاز کا محتاج محسوس کرتاہے۔ اگر ہر وقت یہی کیفیت برقرار رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اس کے معبود سے نا تہ ٹوٹا نہیں ہے (١)
امیرالمومنین ں کلمہ(اللہ) کی تفسیر یوں فرماتے ہیں کہ ا..ھوالّذی یتألہ الیہ عند الحوائج والشّدائد کل مخلوق عند انقطاع الرجاء من جمیع من ھودونہ وتقطع الاسباب من کل من سواہ(٢) خدا اس ذات کا نام ہے کہ سختی اور حاجات کے وقت جب دنیا کی ہر مخلوق کے ناتے ٹوٹ جاتے ہیں اور امیدیں غیر خدا سے منقطع ہوجاتی ہیں تو اس کی پنا ہ میں آتے ہیں ۔
ایک شخص نے امام جعفر صادق ںسے عرض کیا یا بن رسول اللہ! خدا کی معرفت عطاکریں کیونکہ اہل مجا دلہ ( بحث کرنے والوں ) نے ہم سے بہت ساری باتیںکی ہیں اور ہمیں پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ :کیا تم کبھی کشتی پر سوار ہو ئے ہو ؟اس نے کہا ہا ں۔ آپ نے فر مایا :کیا کبھی ایسا نہیں ہو اکہ تمہاری کشتی بھنور میں پھنس گئی ہو اور اس وقت نہ کوئی دوسری کشتی اور نہ ہی کوئی شناگر (تیراک) ہو جو تم کو نجا ت دے سکے . اس نے عرض کی جی ہاں ۔
آپ نے فرمایا :کیا اس وقت تم نے اس بات کا احساس نہیں کیا کہ اب بھی کوئی ایسی طاقت ہے جو تم کو اس خطرناک موجوںسے نجات دلا سکتی ہے .اس نے
..............
(١) آیات قران بہ ترتیب ١٢،٨،٦٥،٣٣،٣٢، سورہ ،یو نس ،زمر ، عنکبوت ،روم ،لقمان ،
(٢) میزان الحکمةج ا ، ص٧٨٢ با ب صانع

کہا: ہاں ۔ آپ نے فرمایا :وہی خدا ہے جو تم کو اس جگہ نجا ت دے سکتا ہے جس جگہ کوئی نجات دینے والا نہیں اور نہ ہی کو ئی فریاد رس ہے (١)
گویا یہ خدا شنا سی کی فطرت وجو د انسان کے بنیادی سرمایہ میں سے ہے جو کہ آئین ساز حقیقت کی رہنمائی کرتی ہے ۔مگر بسا اوقات دنیا سے بہت زیادہ وابستگی فاسد ماحول بلکہ ایک لفظ میں یو ں کہا جائے کہ گنا ہ، فطرت کی حقیقت نمائی سے روک دیتا ہے اور صاف و شفاف آئینہ کو دھندھلا اور غبار آلو د کردیتاہے۔
( ثُمَّ کَا نَ عَاقبةَ الَّذینَ أَسآؤا السُّوایٰ أَن کَذَّبوا بآیاتِ اللّہِ وَکَانُوا بِھا یَستھزؤنَ) (٢) جن افراد نے بہت زیادہ گناہ کیا اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ انھو ں نے آیات الٰہی کو جھٹلایا اور مسخر ہ بنا یا ۔
..............
(١) بحار الانوار ج ٣، ص ،٤١
(٢) سورۂ روم ١٠۔



سوالا ت
١۔ لغت اور اصطلا ح میں فطرت کے کیا معنی ہیں ؟
٢۔ آیت میں( فطرة اللّہ التی فطرالناس علیھا)آیا ہے اس سے مراد کیا ہے ؟
٣۔ سقراط نے فطرت توحیدی کے بارے میں کیا کہا ہے ؟
٤۔امام جعفر صادق نے اس کو کیا جو اب دیا جو خدا کی معرفت چاہتا تھا ؟