١١١
١۔ دين کے سامنے سر تسليم خم کرنا
دين اسلام کے اصول و فروع کا ملاحظہ، عبادات و معاملات ميں تفکر، نفس انسانی،گهر اور
شهر کی تدبير کے بارے ميں اس دين کے طور طريقوںميں تا مّٔل اور مستحبات و مکروهات کے سلسلے
ميں اس دين کے بتائے هوئے آداب ميں تدبر، ان قوانين ميں حکمت بالغہ کے بيان گر هيں۔ يہ طبيعی امر
هے کہ تمام احکام کی حکمت کو درک کرنا بلکہ انسان کی سعادت پر مبنی دين ميں، کسی بهی ايک حکم
کی تمام حکمت کا درک سوائے اس فرد کے لئے ميّسر نهيں جو اِن عوالم اور ان ميں موجود انسان کی
ضروريات اور ان ضروريات کو پورا کرنے کے طريقوں پر محيط هو۔ کسی حکم کی حکمت کو نہ جاننا
اس حکم ميں عدمِ حکمت کی دليل نهيں هوسکتا۔
اور جس طرح کتابِ خلقت ميں محکمات و متشابهات موجود هيں اسی طرح کتاب تشريع ميں بهی
محکمات و متشابهات پائے جاتے هيں اور متشابهات کی بنا پر محکمات سے هاته نهيں اٹهايا جاسکتا، اسی
طرح متشابهات کو نظامِ خلقت و دين ميں عبث و لغو قرار نهيں ديا جاسکتا<وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ آمَنَّا
بِہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا> ١
اور يہ جاننا ضروری هے کہ انسان کی دنيوی زندگی، آخرت کی بہ نسبت رحم مادر ميں جنين کی
زندگی کے مانند هے، کہ رحم مادر ميں اسے جو اعضاء اور طاقتيں عطا کی جاتی هيں، اگر جنين عقل و
شعور رکهتا بهی هو تو ان اعضاء کے استعمال اور ان کے فوائد کو درک کرنا اور انهيں عملی جامہ پهنانا
اس کے لئے ناممکن هے، وہ دماغ کی پيچيدہ اور پر اسرار بناوٹ کی حکمت کو نهيں جان سکتا يا اسی
طرح وہ نهيں سمجه سکتا کہ ديکهنے اور سننے کی مشينری اور نظام تنفس اس کے کس کام کے هيں۔ دنيا
ميں آنے کے بعد اس کے لئے ان سب کی حکمت واضح هوگی۔
اسی طرح طبيعت کے رحم مادری ميں زندگی گزارنے والے انسان کے لئے ضروری هے کہ وہ
وحی الٰهی کی تعليم و تربيت کے وسيلے سے ان اعضاء و صلاحيتوں سے ليس هو جو اس کی حيات ابدی
کے سازوسامان هيں اور اس کے لئے ان احکامات کی حکمت عالم آخرت ميں قدم رکهنے کے بعد واضح و
روشن هوگی، جهاں کی اس دنيا سے وهی نسبت هے جو دنيا کی رحم مادر سے هے۔
لہٰذا ، دين کے سامنے سر تسليم خم کرنا، انسانی خلقت کی ضروريات ميں سے، بلکہ کمالِ انسانی
کی ضروريات ميں سے هے، کيونکہ عامل کی اهميت عمل سے اور عمل کی اهميت اس عمل کے داعی
اور محرّک عامل سے هے۔ معصوم عليہ السلام کا بيان بهی اسی حقيقت کی جانب هماری راهنمائی کرتا
هے((إنما الا عٔمال بالنيات و لکل امرءٍ ما نوی)) 2
لہٰذا کسی قسم کی مصلحت و مفسدہ اور نفع و ضرر سے چشم پوشی کرتے هوئے، صرف خدا
کے لئے اطاعت خدا بجالانا، مقام مقربيّن کی علامت هے۔
٢۔ علماء دين کی تقليد کا لازم و ضروری هونا
ايسے افرادکے لئے علماء دين کی تقليد کرنا ضروری هے، جو احکام خدا کے استنباط کی قدرت
نهيں رکهتے۔ انسان، جس کی زندگی و سلامتی، قوانين و قواعد کے تابع هے، اس کی حفاظت و سلامتی
کے لئے ضروری هے کہ يا خود طبيب هو يا کسی قابلِ اعتماد و ماهر طبيب کی طرف رجوع کرے اور
اس کے احکامات کے مطابق عمل کرے يا احتياط کا دامن تهام لے اور جس چيز کے بارے ميں اسے يہ
احتمال هو کہ اس سے اسے نقصان پهنچ سکتا هے اس سے پرهيز کرے، يهاں تک کہ اس کے بارے ميں
جان لے يا کسی صاحب علم سے پوچه لے۔
بلکہ چاهے عالم هو يا جاهل، تقليد انسان کی ضرورياتِ زندگی ميں سے هے۔ جاهل کے لئے تقليد
کی ضرورت کسی دليل کی محتاج نهيں هے۔ عالم کے لئے بهی اس اعتبار سے تقليد کی ضرورت هے کہ
هردانشمند کے علم کا دائرہ محدود هے۔ مثال کے طور پر گهربنوانے کے سلسلے ميں ڈاکٹر کے لئے
انجينئر اور معمار کی تقليد کرنا ضروری هے۔ اسی طرح هوائی جهاز ميں سوار هونے کے بعد اس کے
--------------
1 سورہ آل عمران، آيت ٧۔”اور انهيں جو علم کے اندر رسوخ رکهتے هيں جن کا کهنا يہ هے کہ هم کتاب پر ايمان
رکهتے هيں اور يہ سب کی سب محکم ومتشابہ همارے پروردگار هی کی طرف سے هے“۔
2 وسائل الشيعہ، ج ١، ص ۴٩ ، ابواب مقدمہ عبادات، باب ۵، حديث ١٠ ۔”فقط اعمال کو ان کی نيتوں سے تولا جائے هر
شخص کے لئے وهی هے جس کی اس نے نيت کر رکهی هو“۔
١١٢
لئے هواباز اور بحری جهاز ميں قدم رکهنے کے بعد بغير کسی چوں و چرا کے ناخدا کی تقليد ضروری
هے۔
بلکہ علم طب ميں مختلف شعبوں کے وجود ميں آنے کی وجہ سے اگر کوئی ايک عضو ميں
مهارت حاصل کرچکا هو تب بهی باقی اعضاء ميں اس کے لئے دوسرے ڈاکٹروں کی تقليد ضروری هے۔
نتيجے کے طور پر کسی بهی فرد کے لئے تقليد کے بغير زندگی گزارنا ناممکن هے۔
اسی لئے دين پر ايمان رکهنے والا جانتا هے کہ اس کے لئے دين ميں جو احکام معين کئے گئے
هيں، بحکم عقل و فطرت انسان مجبور هے کہ وہ ان احکام کو جاننے اور ان پر عمل پيرا هونے کے لئے
ان تين ميں سے کسی ايک راستے کا انتخاب کرے۔ يا ان کے بارے ميں تحصيل علم کرے يا ان کا علم
رکهنے والے ماهر و متخصص کی پيروی کرے اور يا احتياط کا راستہ اختيار کرے۔ ليکن ايسی صورت
ميں کہ جب نہ تو ان احکام کا علم رکهتا هو اور نہ هی احتياط پر عمل پيرا هو اس کے لئے فقط ايک هی
راستہ باقی رہ جاتا هے اور وہ يہ هے کہ کسی عالم کے نظريات کے مطابق ان احکام پر عمل کرے اور
اگر ان احکام ميں محققين و ماهرين کے درميان اختلافِ رائے پايا جاتا هو تو ان ميں سے اعلم کی تقليد
کرے۔ جيسا کہ کسی بيماری کی تشخيص و علاج ميں اگر چند ڈاکٹروں کے درميان اختلاف نظر هو ان ميں
سے اعلم کی طرف رجوع کرنا ضروری هے۔
اور چونکہ دين اسلام دين علم هے اور هر عمل کی بنياد، چاهے بالواسطہ هی سهی، ضروری
هے کہ علم کی بنياد پر هو، تقليد کی بنياد بهی علم، عقل اور فطرت پر هے جو در حقيقت احکامِ دين ميں
عالم و مجتهد کی مستند رائے و نظر پر اعتماد کرنے کا نام هے<وَلاَ تَقْفُ مَالَيْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ
وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ ا ؤُْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً> ١
تمت بالخير
--------------
1 سورہ اسراء، آيت ٣۶ ۔”اور جس چيز کا تمهيں علم نهيں هے اس کی پيروی مت کرنا کہ روز قيامت کان، آنکه اور
قلب سب کے بارے ميں سوال کيا جائے گا“۔
|