اصول دين سے آشنائی
 


١٠٧

آيات
١۔ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَی اْلا رَْٔضِ هونًا وَّ إِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوا سَلاَمًا ة وَّ اَّلذِےْنَ
يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ة إِنَّہَا سَائَتْ
مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ إِذَا ا نَْٔفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْتُرُوْا وَ کَانَ بَيْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ لاَ يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰہًا
آخَرَ وَ لَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَ لاَ يَزْنُوْنَ وَ مَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِکَ يَلْقَ ا ثََٔامًا ة يُّضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ وَ يَخْلُدْ فِيْہِ مُہَانًا ة إِلاَّ مَنْ تَابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا فَا ؤُْلٰئِکَ يُبَدِّلُ اللّٰہُ سَيِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّ کَانَ اللّٰہُ
غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ة وَّ مَنْ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّہ يَتُوْبُ إِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ة وَّ الَّذِيْنَ لاَ يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ
مَرُّوْا کِرَامًا ة وَّ الَّذِيْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآيَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْہَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا ة وَّ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ
ا زَْٔوَاجِنَا وَ ذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ ا عَْٔيُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا ة ا ؤُْلٰئِکَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَ يُلَقَّوْنَ فِيْہَا تَحِيَّةً وَّ
سَلاَماًة خَالِدِيْنَ فِيْهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَاماً> 1
خداوند رحمان جس کی رحمت واسعہ سے هر متقی و فاجر فيض ياب هو رها هے، کی بندگی کا
اثر يہ هے کہ عبادالرحمن کا زمين پر چلنا، جو ان کے اخلاق کا آئينہ دار هے، نہ تو اکڑ کے ساته هے اور
نہ هی اس ميں تکبّر هے۔
عبادالرحمن وہ لوگ هيں جو خدا کے سامنے ذليل اور مخلوق کے مقابل متواضع هيں۔ نہ صرف يہ
کہ کسی کو اذيت نهيں پہچاتے بلکہ دوسروں کی تکاليف کو بهی برداشت کرتے هيں اور جهل و نادانی سے
بات کرنے والوں کے ساته جيسے کو تيسا کے بجائے نہ صرف يہ کہ اپنے حلم و بردباری کی بدولت ان
سے جهگڑا نهيں کرتے بلکہ ان کے لئے جهالت کی بيماری سے نجات کی بهی آرزو کرتے هيں<وَ إِذَا
خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوا سَلاَماً>
اجنبيوں اور مخالفين کے ساته جن کا رويہ سلام و سلامتی هے، ان سے اپنوں اور موافق افراد کے
ساته مواسات و ايثار کے علاوہ کوئی اور اميد نهيں کی جاسکتی۔
يہ تو دن ميں ان کی رفتار و کردار هے اور رات ميں ان کا طريقہ يہ هے کہ آفاق آسمان پر نظريں
جماکر ستاروں اور کہکشاؤںميں موجود، خداوند متعال کے علم و قدرت اور حکمت کی نشانيوں ميں تدبّر و
تفکر کرتے هيں اور ان آيات و نشانيوں ميں خداوند متعال کی تجلّی کی عظمت کو ديکه کر، رات قيام و
سجود ميں گزار ديتے هيں<يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِيَامًا>اور جب غور سے ديکهتے هيں کہ کروڑوںستارے
اس کے حکم کے مطابق حرکت کر رهے هيں اور اپنے مدار سے ذرہ برابر بهی منحرف نهيں هوتے، دين
اور قانون الٰهی ميں اپنے انحراف کے خوف سے کہتے هيں:<رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا کَانَ
غَرَاماً>
اور اپنے اموال کی نسبت، جو خون کی طرح معاشرے کے لئے مايہ حيات هے، اس طرح عمل
کرتے هيں کہ روک لينے کی صورت ميں فشار خون اور بخشش ميں اسراف سے قلت خون جيسی
بيماريوں ميں مبتلا نهيں هوتے اور ميانہ روی سے تجاوز نهيں کرتے تا کہ اپنی اور دوسروں کی
ضروريات کو پورا کرسکيں <وَالَّذِيْنَ إِذَا ا نَْٔفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَ لَمْ يَقْترُوْا وَکَانَ بَيْنَ ذٰلِکَ قَوَاماً>
--------------
1 سورہ فرقان، آيت ۶٣ ۔ ٧۶ ۔”اور الله کے بندے وهی هيں جو زمين پر آهستہ چلتے هيں اور جب جاهل ان سے خطاب
کرتے هيں تو سلامتی کا پيغام دے ديتے هيں۔يہ لوگ راتوں کواس طرح گذارتے هيں کہ اپنے رب کی بارگاہ ميں کبهی سر
بسجود رہتے هيں اور کبهی حالت قيام ميں رہتے هيں۔اور يہ کہتے هيں پروردگار هم سے عذاب جهنم کو پهيردے کہ اس کا
عذاب بہت سخت اور پائيدار هے۔وہ بد ترين منزل اور محل اقامت هے۔اور يہ لوگ جب خرچ کرتے هيں تو نہ اسراف کرتے هيں
اور نہ کنجوسی سے کام ليتے هيں بلکہ ان دونوں کے درميان اوسط درجہ کا راستہ اختيار کرتے هيں ۔اور وہ لوگ خدا کے ساته
کسی اور کو نهيں پکارتے هيں اور کسی بهی نفس کو اگر خدا نے محترم قرار ديديا هے تو اسے حق کے بغير قتل نهيں کرتے
هيں اور زنا بهی نهيں کرتے هيں کہ جو ايسا عمل کرے گا وہ اپنے عمل کی سزا بهی برداشت کرے گا۔ جسے روز قيامت دگنا
کر ديا جائے گا اور وہ اسی ميں ذلت کے ساته هميشہ هميشہ پڑا رهے گا۔علاوہ اس شخص کے جو توبہ کرلے اور ايمان لے آئے
اور نيک عمل بهی کرے کہ پروردگار اس کی برائيوں کو اچهائيوں سے تبديل کر دے گا اور خدا بہت زيادہ بخشنے والا اور
مهربان هے۔اور جو توبہ کرلے گا اور عمل صالح انجام دے گا وہ الله کی طرف واقعا رجوع کرنے والا هے ۔اور وہ لوگ جهوٹ
اور فريب کے پاس حاضر بهی نهيں هوتے هيں اور جب لغو کاموں کے قريب سے گذرتے هيں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے
هيں ۔ اور ان لوگوں کو جن آيات الٰهيہ کی ياد دلائی جاتی هے تو بهرے اندهے هوگر گر نهيں پڑتے هيں۔ اور وہ لوگ برابر دعا
کرتے رہتے هيںکہ خدايا هميں هماری ازواج اور اولاد کی طرف سے خنکی چشم عطا فرمااور هميں صاحبان تقویٰ کا پيشوا بنا
دے۔يهی وہ لوگ هيں جنهيں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے بالا خانے عطا کئے جائيں گے اور وهاں انهيں تعظيم اور سلام کی
پيش کش کی جائے گی ۔ وہ انهيں مقامات پر هميشہ هميشہ رهيں گے کہ وہ بہترين مستقر اور حسين ترين محل اقامت هے۔“

١٠٨
ان کی دوسری صفات يہ هيں کہ وہ دل و زبان کو شرک، هاتهوں کو خونِ ناحق اور اپنے دامن کو
زنا سے آلودہ نهيں کرتے<وَالَّذِيْنَ لاَ يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ إِلٰهاً آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا
يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَل ذٰلِکَ يَلْقَ ا ثََٔاماً>
جهوٹ اور باطل سے دوری اختيار کرتے هيں، لغو اور عبث رفتار و گفتار کے مقابلے ميں
بردباری کے ساته گذر جاتے هيں۔ ايسے افراد جو باطل و ناحق مجالس سے پرهيز کرتے هيں اور اپنی
عظمت و بردباری کے سبب خود کو لغو و عبث سے آلودہ نهيں کرتے۔ ان کے درختِ وجود سے فقط علم،
حکمت، امانت، صداقت اور عدالت کے پهل حاصل هوتے هيں<وَ الَّذِيْنَ لاَ يَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ وَ إِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ
مَرُّوْا کِرَامًا>
جب آيات خدا کے ذريعے انهيں ياد دهانی کرائی جاتی هے تو اندهوں اور بهروں کی طرح ان آيات
پر نهيں گرتے بلکہ ان آيات کو دل و جان سے سنتے هيں اور تفکر و تدبر کی نظر سے ان ميں غور کرتے
هيں<وَالَّذِيْنَ إِذَا ذُکِّرُوْا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُماًّ وَّ عُمْيَانًا>
ايسے افراد کو حق حاصل هے کہ وہ خدا سے پرهيز گاروں کی امامت کی درخواست کريں اور
کهيں<وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَاماً>فکری، اخلاقی اور عملی عواملِ انحراف کے مقابلے ميں خودسازی کرنے
والوں کے لئے خداوندمتعال کی جانب سے وہ حجرہ عطا هوگا جس کا انهيں وعدہ ديا گيا هے اور اس
حجرے ميں سلام و تحيت جيسے بلند و بالا عطيہ الٰهی کو پائيں گے<ا ؤُْلٰئِکَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَاصَبَرُوْا
وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّ سَلَاماً>، <سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍِّ رَّحِيْمٍ> 1
٢۔رسول خدا(ص) سے روايت هے کہ آپ(ص) نے فرمايا: مؤمن کا ايمان اس وقت تک کامل نهيں
هوتا جب تک اس ميں ايک سو تين صفات جمع نہ هوں۔ ان صفات ميں سے چند ايک کے مفهوم کو ذکر
کرتے هيں:
مومن کا علم کثير اور حلم عظيم هے، غافل کے لئے ياد دهانی کا باعث اور جاهل کے لئے معّلم
هے، جو اسے اذيت دے وہ ا سکی جوابی ايذا رسانی سے محفوظ هے، بے کار کے کام ميں هاته نهيں ڈالتا،
مصيبت ميں کسی کو برا بهلا نهيں کہتا، کسی کی غيبت نهيں کرتا، پرديسی کا مددگار اور يتيموں کا
غمخوار هے، اس کی خوشی اس کے چهرے پر اور غم واندوہ اس کے دل ميں هوتا هے۔کسی کے اسرار
سے پردہ نهيں اٹهاتا، کسی کے دامن عفت پر کيچڑ نهيں اچهالتا، امانتوں کا امين اور خيانت سے دور هے،
اس کا کردار مؤدبانہ اور گفتار شگفت انگيز هے، امور ميں اعلیٰ اور اخلاق ميں بہترين کا طلبگار هے،
اس کا دل باتقویٰ اور علم پاکيزہ هے، قدرت پانے کے باوجود عفو کرتا هے، جو وعدہ دے اسے پورا کرتا
هے، نہ تو بغض ميں غرق هوتا هے اور نہ هی اسے حب هلاک کرتی هے (حب اور بغض اسے اعتدال
سے خارج نهيں کرتے)، باطل کو دوست سے بهی قبول نهيں کرتا اور دشمن کے کهے هوئے حق کو بهی
رد نهيں کرتا، باخبر هونے کے لئے سيکهتا هے، علم حاصل نهيں کرتا مگر اس پر عمل پيرا هونے کی
غرض سے، اگر اهل دنيا کے ساته چلے تو ان ميں هوشيار ترين اور اگر اهل آخرت کے ساته هو تو ان
ميں پارسا ترين هوتا هے۔ 2
٣۔دين کے پيشواؤں کے کلمات ميں کمال کا دارومدار عقل علم اور ايمان پر هے۔ اور ان ميں سے
هر ايک کے لئے، امام زين العابدين(ع) سے منقول روايت کا اقتباس کافی هے، جس کا مضمون تقريباًکچه
يوں هے:
اگر کسی شخص کو ديکهو جو اپنی سيرت و منطق کے ذريعے خوف، عبادت و زهد اور اپنے
کردار ميں خضوع و فروتنی کا اظهار کرتا هے، جلد بازی نہ کرو، اس کے چکر ميں نہ آؤ، کتنے هی افراد
ايسے هيں جو دنيا کی دسترسی سے عاجز هيں، دين کو دلوں کے شکار کا وسيلہ بناتے هيں، ليکن اگر ان
کے لئے حرام ممکن هو تو اس ميں ڈوب جاتے هيں۔
اور اگر ديکهو کہ حرام سے بهی پرهيز کرتے هيں، پهر بهی دهوکہ نہ کهانا، افراد کی شهوت و
هوس مختلف هے، کتنے هی افراد ايسے هيں جو مال حرام سے دور بهاگتے هيں چاهے کتنا هی زيادہ هو،
ليکن شهوت کے مقابلے ميں اپنا دامن آلودہ کرليتے هيں، اور اگر ديکهو کہ اس سے بهی اپنا دامن آلودہ
نهيں کرتے تب بهی دهوکہ نہ کهانا جب تک يہ نہ ديکه لو کہ اس کی عقل کيسی هے؟ کيونکہ کتنے هی
--------------
1 سورہ يس، آيت ۵٨ ۔”ان کے حق ميں ان کے مهربان پروردگار کا قول صرف سلامتی هے“۔
2 بحار الانوار ، ج ۶۴ ، ص ٣١٠ ۔

١٠٩
افراد ايسے هيں جو ان سب کو ترک کرتے هيں ليکن عقلِ متين کی طرف رجوع نهيں کرتے اور عقل کو
بروئے کار لاکر ترقی و اصلاح کرنے سے کهيں زيادہ اپنے جهل کے ذريعہ تباهی پهيلاتے هيں،اگر اس
کی عقل کو متين پاؤ پهر بهی دهوکہ نہ کهانا بلکہ عقل و هوائے نفس کے درميان مقابلے کے وقت ديکهو کہ
آيا عقل کے برخلاف هونے کا ساته ديتا هے يا هویٰ کے خلاف عقل کا ساته ديتا هے، جاہ طلبی کا کتنا رسيا
هے کيونکہ لوگوں ميں بہت سے افراد ايسے هيں جو دنيا کی خاطر تارکِ دنيا هيں۔ 1
نتيجہ يہ هوا کہ کمال کا معيار فريب دينے والی باتيں اور متواضعانہ اعمال، مال و شکم اور دامن
کی شهوت کو ترک کرنا نهيں هے بلکہ کمال کا معيار وہ عقل هے جو جهالت کی کدورت سے پاک هو کر
صلاح و اصلاح کا مبدا و سرچشمہ قرار پائے اور وہ هویٰ هے جو الله تعالیٰ کے احکام اور فرمان کے
تابع هو کہ جسے کوئی بهی هوس حتی شهوتِ جاہ و مقام اسے فريب نہ دے سکے اور باطل کی همراهی
ميں ملنے والی عزت کو ٹهکراتے هوئے، حق کے سائے ميں ملنے والی ذلت کو گلے لگائے۔
۴۔عنوان بصری جس کی زندگی کے چورانويں سال گذر چکے تهے اور سالها سال سے مالکی
مذهب کے امام، مالک ابن انس، کے پاس تحصيل علم کے لئے جس کی آمد ورفت تهی۔ چهٹے امام(ع) کے
مدينہ تشريف لانے پر اس نے آپ سے کسبِ علم کی درخواست کی، حضرت امام صادق(ع) نے
فرمايا:”ميں ايک مطلوب فرد هوں، کہ ميری طلب ميں هيں، اور اس کے باوجود رات و دن کی هر گهڑی
ميں اوراد و اذکار ميں مشغول هوں“۔
يہ جواب سن کر عنوان نهايت غمگين هوا، رسول خدا(ص) کے روضہ اقدس پر حاضری دی ا ور
دو رکعت نماز پڑه کر امام(ع) کے قلب کو اپنی طرف معطوف کرنے اور آپ کے علم سے بهرہ مند هو کر
خدا کی راہ مستقيم کی جانب هدايت کے لئے دعا کی اور اسی غمگين حالت ميں گهر لوٹ آيا۔ دل آپ(ع) کی
محبت ميں اسير تها، تحصيل علم کے لئے مالک کے پاس جانا بهی چهوڑ ديا اور واجب نماز ادا کرنے کے
علاوہ گهر سے باهر نہ آتا تها۔
جب صبر کا پيمانہ لبريز هوا تو ايک دن نماز عصر کے بعد آپ(ع) کے دروازے پر آيا، خادم نے
پوچها: تمهاری حاجت کيا هے؟
جواب ديا: ميری حاجت شريف کی خدمت ميں سلام کرنا هے۔
خادم نے کها: اپنے مصلّے پر عبادت ميں مشغول هيں۔
عنوان چوکهٹ پر بيٹه گيا، خادم نے باهر آکر کها: برکت خدا کی خدمت ميں حاضر هو۔
عنوان کہتا هے: داخل هو کر ميں نے سلام کيا۔ آپ (ع)نے سلام کا جواب ديا اور فرمايا: بيٹه
جاؤ، خدا تمهاری بخشش فرمائے۔ کچه دير تک آپ سر جهکائے بيٹهے رهے، اس کے بعد سراٹها کر ميری
کنيت کے بارے ميں پوچها اور دعا دی۔
ميں نے خود سے کها: اس سلام و زيارت سے اگر اس دعا کے علاوہ کوئی دوسری چيز ميرے
نصيب ميں نہ هو تو يهی دعا بہت هے۔
اس کے بعد سر اٹها کر فرمايا: کيا چاہتے هو؟
ميں نے کها: خدا سے التجا کی هے کہ آپ کے دل کو ميری طرف متوجہ اور آپ کے علم سے
مجهے بهی کچه نصيب کرے، اميدوار هوں ميری دعا قبول هوچکی هو۔
آپ (ع)نے فرمايا: اے اباعبدالله! علم تعلم سے نهيں، علم ايسا نور هے کہ خدا جس کی هدايت
چاہتا هے اس کے دل ميں قرار دے ديتا هے، پس اگر تمهاری مراد علم هے تو اپنے اندر حقيقت بندگی کو
طلب کرو اور علم کو اس کے استعمال و عمل کے ذريعے طلب کرو اور خدا سے فهم مانگو تاکہ تمهيں
سمجهائے۔
ميں نے کها: حقيقت بندگی کيا هے؟
آپ نے فرمايا: تين چيزيں هيں:
يہ کہ خدا کا بندہ، جو کچه اسے خدا نے عطا کيا هے، خود کو اس کا مالک نہ سمجهے، کيونکہ
بندگان خدا کسی چيز کے مالک نهيں هوتے، مال کو خدا کا مال سمجهتے هيں اور جس جگہ خدا حکم دے
وهاں خرچ کرتے هيں۔
--------------
1 بحار الانوار ، ج ٢، ص ٨۴ ۔

١١٠
اور يہ کہ بندہ اپنے لئے کوئی تدبير نہ کرے۔
اور يہ کہ وہ صرف اس بات ميں مصروف هو کہ خدا نے اسے کس چيز کا حکم ديا هے اور کن
امور سے روکا هے۔
پس جب خود کو کسی مال کا مالک نہ سمجهے گا تو خدا نے جهاں جهاں مال کے انفاق کا حکم ديا
هے اس کے لئے انفاق آسان هو جائے گا، جب اپنی تدبير اپنے مدبّر کو سونپ دے گا تو مصائبِ دنيا اس پر
آسان هوجائيںگے اور خدا کے امر و نهی ميں مصروف عمل هونے سے اسے لوگوں کے ساته فخر و
مباهات اور رياکارانہ بحث کی فرصت نہ ملے گی۔ پس جب خدا نے اپنے بندے کا ان تين صفات کی وجہ
سے اکرام و احترام کرديا تو دنيا شيطان اور خلق اس کے لئے سهل و آسان هو جائيں گے، مال و دولت کو
جمع آوری اور فخر فروشی کے لئے طلب نهيں کرے گا اور جو کچه لوگوں کے پاس هے اسے اپنی عزت
و برتری کے لئے نهيں چاهے گا اور اپنی زندگی کے ايّام لغوو بے کار باتوں ميں نهيں گنوائے گا۔
يہ تقویٰ کا پهلا درجہ هے، کہ خداوندتبارک و تعالیٰ نے فرمايا:<تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لاَ
يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْا رَْٔضِ وَلاَ فَسَاداً> 1
ميں نے کها: اے ابا عبدالله !مجهے وصيت فرمائيں۔
امام (ع)نے فرمايا: تمهيں نو چيزوں کے بارے ميں وصيت کرتا هوں اور جن کا مقصود و
مطلوب راہ خدا هے، ان کے لئے بهی ميری يهی وصيت هے، خدا تمهيں ان پر عمل پيرا هونے ميں کامياب
فرمائے۔
تين وصيتيں رياضت نفس، تين وصيتيں حلم اور تين وصيتيں علم کے بارے ميں هيں۔ رياضت کے
بارے ميں ميری وصيت يہ هے کہ: اس چيز کے کهانے سے پرهيز کرو جسے کهانے کی طلب نہ هو کہ
يہ کم عقلی و نادانی کا سبب هے۔ جب تک بهوک نہ هو نہ کهاؤ۔ جب بهی کهاؤ، حلال کهاؤ، خدا کے نام
سے شروع کرو اور پيغمبر اکرم(ص) کی حديث ياد رکهو کہ آپ(ص) نے فرمايا: انسان نے اپنے شکم سے
بدترظرف کو پُر نهيں کيا، پس اگر ناچار هو تو اس کی ايک تهائی کو کهانے، ايک تهائی کو پينے اور ايک
تهائی کو سانس لينے کے لئے خالی رکهے۔
حلم کے بارے ميں ميری وصيت يہ هے کہ: جو کوئی تم سے کهے: اگر ايک کهی تو دس
سنوگے، اس کے جواب ميں کهو: اگر دس بهی کهو تو ايک نہ سنو گے۔ جو تمهيں ناروا باتيں کهے اس کے
جواب ميں کهو: جو کچه تم نے کها اگر اس ميں سچے هو ميری خدا سے التجا هے کہ مجهے بخش دے
اور اگر جهوٹے هو تو خدا سے تمهاری بخشش چاہتا هوں اور جو تمهيں نازيبا و رکيک کهنے کا وعدہ دے
تم اسے نصيحت کا وعدہ دو۔
اور علم کے بارے ميں ميری وصيت يہ هے کہ: جو کچه نهيں جانتے صاحبان عقل سے پوچهو،
ليکن ان کو آزمانے يا شرمسار کرنے کی غرض سے کبهی ان سے نہ پوچهنا، جس چيز کو نهيں جانتے اس
کے بارے ميں اپنی ذاتی رائے اور گمان پر هرگز عمل نہ کرنا،جهاں تک ممکن هو احتياط پر عمل کرو،
فتویٰ دينے سے اس طرح پرهيز کرو جيسے شير سے دور بهاگتے هو اور اپنی گردن کو لوگوں کے
گزرنے کے لئے پل قرار نہ دو۔
اٹه کهڑے هو کہ تمهيں وصيت کرچکا اور ميرے وِرد کو ميرے لئے فاسد قرار نہ دو کہ ميں اپنے
آپ ميںمشغول هوں <وَالسَّلاَمُ عَلیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدیٰ> 2
اس مختصر مقدمے ميں ان آيات و روايات کی تشريح بيان کرنا ناممکن هے۔ ان آيات ميں سے هر
آيت اور روايات کے هر جملے کو سمجهنے کے لئے مفصل بحث کی ضرورت هے، لہٰذا جو کچه بيان کيا
گيا اسی پر اکتفا کرتے هيں۔
آخر ميں دو نکات کی جانب توجہ ضروری هے۔
--------------
1 سورہ قصص، آيت ٨٣ ۔”يہ دار آخرت وہ هے جسے هم ان لوگوں کے لئے قرار ديتے هيں جو زمين ميں بلندی اور
فساد کے طلبگار نهيں هوتے هيں“۔
2 بحار الانوار ، ج ١، ص ٢٢۴ ۔