اصول دين سے آشنائی
 

امام زمانہ (عليہ السلام) کی طولانی عمر
ممکن هے کہ طول عمر، سادہ لوح افراد کے اذهان ميں شبهات ايجاد کرنے کا سبب هو ليکن يہ
جاننا ضروری هے کہ ايک انسان کی عمر کا ہزاروں سال تک طولانی هونا، نہ تو عقلی طور پر محال هے
او رنہ هی عادی اعتبار سے، کيونکہ محال عقلی يہ هے کہ دو نقيضين کے اجتماع يا ارتفاع کا سبب هو،
مثا ل کے طورپر جيسا کہ هم کهيں کہ کوئی بهی چيز يا هے يا نهيں هے، يا مثلاًعدد يا جفت هے يا طاق،
کہ ان کا اجتماع يا ارتفاع عقلا محال هے اور محال عادی يہ هے کہ عقلی اعتبار سے تو ممکن هو، ليکن
قوانينِ طبيعت کے مخالف هو مثال کے طور پر انسان آگ ميں گر کر بهی نہ جلے۔
انسان کا ہزار ها سال طول عمر پانا، اور اس کے بدن کے خليات کا جوان باقی رهنا نہ تو محال
عقلی هے اور نہ محال عادی، لہٰذا اگر حضرت نوح علی نبينا وآلہ وعليہ السلام کی عمر اگر نو سو پچاس
سال يا اس سے زيادہ واقع هوئی هے تواس سے زيادہ بهی ممکن هے اور سائنسدان اسی لئے بقاء حيات
ونشاط جوانی کے راز کی جستجو ميں تهے اور هيں۔ جس طرح علمی قوانين وقواعد کے ذريعے مختلف
دهاتوں کے خليات کی ترکيب ميں تبديلی سے انهيں آفات اور نابود هونے سے بچايا جاسکتا هے اور لوهے
کو کہ جسے زنگ لگ جاتا هے اور تيزاب جسے نابود کر ديتا هے، آفت نا پذير طلائے ناب بناياجا سکتا
هے، اسی طرح علمی قوانين وقواعد کے ذريعے ايک انسان کی طولانی عمر بهی عقلی وعملی اعتبار سے
ممکن هے، چاهے ابهی تک اس راز سے پردے نہ اٹهے هوں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ امام زمان(ع) پر اعتقاد، خداوند متعال کی قدرت مطلقہ، انبياء کی نبوت
اور معجزات کے تحقق پر ايمان لانے کے بعد کا مرحلہ هے، اسی لئے جو قدرت ابراهيم(ع) کے لئے آگ
کوسرد اور سالم قرا ر دے سکتی هے، جادوگروں کے جادو کو عصائے موسی کے دهن کے ذريعے نابود
کر سکتی هے، مردوں کو عيسیٰ کے ذريعے زندہ کر سکتی هے اور اصحاب کہف کو صديوں تک بغير
کهائے پيئے نيند کی حالت ميں باقی رکه سکتی هے ، اس قدرت کے لئے ايک انسان کو ہزاروں سال تک
جوانی کے نشاط کے ساته اس حکمت کے تحت سنبهال کر رکهنا نهايت هی سهل اور آسان هے کہ زمين پر
--------------
1 عقدالدرر الباب الخامس وفصل اول الباب الرابع،ص ۶۵ ؛ الامالی للمفيد، ص ۴۵ ۔
2 فيض القدير، ج ۶، ص ٣۶٢ ، نمبر ٩٢۴۵ ۔کنزالعمال، ج ١۴ ، ص ٢۶۴ ، نمبر ٣٨۶۶۶ ۔
ينابيع المودة، ج ٢، ص ١٠۴ ، ج ٣، ص ٢۶٣ ، اور اهل سنت کی دوسری کتابيں
٢٢٢ وج ۵١ ،ص ٨٠ اور دوسرے موارد اور شيعوں کی دوسری کتابيں۔ ، بحار الانوار، ج ٣۶ ، ص ٢١٧
3 بحار الانوار،ج ٣۶ ، ص ٣٠٣ ۔
4 بحار الانوار، ج ۵١ ، ص ١۵٢ ۔”اس پر نور کے اس طرح لباس هيں جو قدس کی روشنی سے روشن رہتے هيں“۔
5 الغيبة، ص ۴۵٢ و ۴۵٣ ، عقدالدرر الباب الرابع، فصل اول ، ص ۶۵ ۔
6 سورہ صف، آيت ٨۔”يہ لوگ چاہتے هيں کہ نور خدا کو اپنے منه سے بجها ديں اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے
والا هے چاهے يہ بات کفار کو کتنی ناگوار کيوں نہ هو“۔
7 سورہ اسراء، آيت ٣٣ ۔”جو مظلوم قتل هوتا هے هم اس کے ولی کو بدلہ کا اختيار دے ديتے هيں“۔

٩۶
حجت باقی رهے اور باطل پر حق کے غلبہ پانے کی مشيت نافذ هو کر رهے <إِنَّمَا ا مَْٔرُہ إِذَا ا رََٔادَ شَيْئاً ا نَْٔ
يَقُوْلَ لَہ کُنْ فَيَکُوْنُ> ١
اس واقعے کو زيادہ عرصہ نهيں گزرا کہ شهرری ميں شيخ صدوق کی قبر ٹوٹی اور آپ کے تر
وتازہ بدن کے نماياں هونے سے يہ بات ثابت هوئی کہ آ پ کے جسم پر قوانين طبيعت کا کوئی اثر نهيں هوا
اور بدن کو فاسد کرنے والے تمام اسباب وعوامل بے کار هو کر رہ گئے۔ اگر طبيعت کا عمومی قانون امام
زمانہ(ع) کی دعا سے پيدا هونے والے شخص کے بارے ميں ٹوٹ سکتا هے، جس نے آپ(ع) کے عنوان
سے ”کمال الدين وتمام النعمة “ جيسی کتاب لکهی هے، تو خود اس امام(ع) کے بارے ميں قانون کا
ٹوٹناجو نائب خدا اور تمام انبياء واوصياء کا وارث هے، باعثِ تعجب نهيں هونا چاہئے۔

امام زمانہ (عليہ السلام) کے کچه معجزات
شيخ الطائفہ اپنی کتاب ”الغيبة“ ميں فرماتے هيں:”غيبت کے زمانے ميں آپ(ع) کی امامت کو
ثابت کرنے والے معجزات قابل شمارش نهيں“ ٢۔ اگر شيخ طوسی کے زمانے تک، جنهوں نے ۴۶٠ هجری
ميں وفات پائی هے، معجزات کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل تها تو موجودہ زمانے تک معجزات ميں کتنا
اضافہ هو چکاهو گا؟!
ليکن اس مقدمے ميں هم، دو مشهور روايتيں پيش کرتے هيں، جن کا خلاصہ علی بن عيسی
اربلی، ٣جو فريقين کے نزديک ثقہ هيں، کی روايت کے مطابق يہ هے کہ :”امام مهدی(ع) کے متعلق لوگ
ما فوق العادة خبريں اور قصے نقل کرتے هيں جن کی شرح طولانی هے۔ ميں اپنے زمانے ميں واقع هونے
والے دو واقعات، جنهيں ميرے دوسرے ثقہ بهائيوں کے ايک گروہ نے بهی نقل کيا هے، ذکر کرتا هوں:
١۔حلہ ميں فرات او ردجلہ کے درميان آبادی ميں اسماعيل بن حسن نامی شخص رہتا تها، اس کی
بائيں ران پر انسان کی مٹهی کے برابر پهوڑا نکل آيا۔ حلّہ اور بغداد کے اطباء اسے ديکهنے کے بعد لا
علاج قرار دے چکے تهے۔ لہٰذاوہ سامرہ آگيا اور دو ائمہ حضرت امام هادی اور امام عسکری عليهما
السلام کی زيارت کرنے کے بعد اس نے سرداب ميں جاکر خدا کی بارگاہ ميں دعا و گر يہ وزاری کی اور
امام زمانہ(ع) کی خدمت ميں استغاثہ کيا، اس کے بعد دجلہ کی طرف جاکر غسل کيا اور اپنا لباس پهنا۔
معاًاس نے ديکها کہ چار گهڑسوار شهر کے دروازے سے باهر آئے۔ ان ميں سے ايک بوڑها تها جس کے
هاته ميں نيزہ تها، ايک جوان رنگين قبا پهنے هوئے تها، وہ بوڑها راستے کی دائيں جانب اور دوسرے دو
جوان راستے کی بائيں جانب اور وہ جوان جس نے رنگين قبا پهن رکهی تهی ان کے درميان راستے پر تها۔
رنگين قبا والے نے پوچها :”تم کل اپنے گهر روانہ هو جاو گے ؟“
ميں نے کها:”هاں۔“ اس نے کها:”نزديک آو ذرا ديکهوں تو تمهيں کيا تکليف هے ؟“
اسماعيل آگے بڑها، اس جوان نے اس پهوڑے کو هاته سے دبايا اور دوبارہ زين پر سوار هوگيا۔
بوڑهے نے کها:”اے اسماعيل ! تم فلاح پا گئے، يہ امام(ع) تهے۔“
وہ روانہ هوئے تو اسماعيل بهی ان کے ساته ساته چلنے لگا، امام(ع) نے فرمايا:”پلٹ جاو ۔ٔ“
اسماعيل نے کها:” آپ سے هر گز جدا نهيں هوں گا۔“ امام(ع) نے فرمايا:”تمهارے پلٹ جانے ميں
مصلحت هے۔“ اسماعيل نے دوبارہ کها:”آپ سے هر گز جدا نهيں هوسکتا۔“ بوڑهے نے کها:”اسماعيل
!تمهيں شرم نهيں آتی، دو مرتبہ امام نے فرمايا، پلٹ جاو او رتم مخالفت کرتے هو؟“
اسماعيل وهيں رک گيا، امام چند قدم آگے جانے کے بعد اس کی طرف متوجہ هوئے اور فرمايا:
”جب بغداد پهنچو گے، ابو جعفر يعنی خليفہ مستنصر بالله، تمهيں طلب کرے گا۔ جب اس کے پا س جاو اور تمهيں کوئی چيز دے، اس سے نہ لينا اور همارے فرزند رضا سے کهنا علی بن عوض کو خط لکهيں،
ميں اس تک پيغام پهنچا دوں گا کہ جو تم چاهو گے تمهيں عطا کر ے گا۔“
اس کے بعد اصحاب کے ساته روانہ هو گئے اور نظروں سے اوجهل هونے تک اسماعيل انهيں
ديکهتا رها۔ غم وحزن اور افسوس کے ساته کچه دير زمين پر بيٹه کر ان سے جدائی پر روتا رها۔ا س کے
--------------
1 سورہ يس، آيت ٨٢ ۔”اس کا صرف امر يہ هے کہ کسی شئے کے بارے ميں يہ کهنے کا ارادہ کر لے کہ هو جااور
وہ شئے هوجاتی هے“۔
2 الغيبةشيخ طوسی، ص ٢٨١ ۔
3 کشف الغمة، ج ٢، ص ۴٩٣ ۔

٩٧
بعد سامرہ آيا تو لوگ اس کے ارد گرد جمع هوکر پوچهنے لگے کہ تمهارے چهرے کا رنگ متغير کيوں
هے ؟ اس نے کها: کيا تم لوگوں نے شهر سے خارج هونے والے سواروںکو پہچانا کہ وہ کون تهے ؟
انهوں نے جواب ديا: وہ باشرافت افراد هيں، جو بهيڑوں کے مالک هيں۔ اسماعيل نے کها: وہ امام(ع) اور
آپ (ع)کے اصحاب تهے اور امام (ع)نے ميری بيماری پر دست شفا پهيرديا هے۔
جب لوگوں نے ديکها کہ زخم کی جگہ کوئی نشان تک باقی نهيں رها، اس کے لباس کو بطور
تبرک پهاڑ ڈالا۔ يہ خبر خليفہ تک پهنچی، خليفہ نے تحقيق کے لئے ايک شخص کو بهيجا۔
اسماعيل نے رات سرداب ميں گزاری اور صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے همراہ سامراء سے
باهر آيا، لوگوں سے خدا حافظی کے بعد وہ چل ديا، جب قنطرہ عتيقہ پهنچا تو اس نے ديکها کہ لوگوں کا
هجوم جمع هے اور هر آنے والے سے اس کا نام ونسب پوچه رهے هيں۔نشانيوں کی وجہ سے اسے
پہچاننے کے بعد لوگ بعنوان تبرک اس کا لباس پهاڑ کر لے گئے۔
تحقيق پر مامور شخص نے خليفہ کو تمام واقعہ لکها۔ اس خبر کی تصديق کے لئے وزير نے
اسماعيل کے رضی الدين نامی ايک دوست کو طلب کيا۔ جب دوست نے اسماعيل کے پاس پهنچ کر ديکها کہ
اس کی ران پر پهوڑے کا اثر تک باقی نهيں هے، وہ بے هوش هوگيا اور هوش ميں آنے کے بعد اسماعيل
کو وزير کو پاس لے گيا، وزير نے اس کے معالج اطباء کو بلوايا اور جب انهوں نے بهی معائنہ کيا او
رپهوڑے کا اثر تک نہ پايا تو کهنے لگے :”يہ حضرت مسيح کا کام هے“، وزير نے کها : ”هم جانتے هيں
کہ کس کا کام هے۔“
وزير اسے خليفہ کے پاس لے گيا، خليفہ نے اس سے حقيقت حال کے متعلق پوچها، جب واقعہ
بيان کيا تو اسے ہزار دينار دئيے، اسماعيل نے کها: ميں ان سے ايک ذرے کو لينے کی جرا تٔ نهيں
کرسکتا۔ خليفہ نے پوچها: کس کا ڈر هے ؟ اس نے کها: ”اس کا جس نے مجهے شفا دی هے، اس نے مجه
سے کها هے کہ ابو جعفر سے کچه نہ لينا۔“ يہ سن کر خليفہ رونے لگا۔
علی بن عيسیٰ کہتے هيں: ميں يہ واقعہ کچه لوگوں کے لئے نقل کر رها تها، اسماعيل کا فرزند
شمس الدين بهی اس محفل ميں موجود تها جسے ميں نهيں پہچانتا تها، اس نے کها: ”ميں اس کا بيٹا هوں۔“
ميں نے اس سے پوچها :” کيا تم نے اپنے والد کی ران ديکهی تهی جب اس پر پهوڑا تها؟“ اس نے
کها:”ميں اس وقت چهوٹا تها ليکن اس واقعے کو اپنے والدين، رشتہ داروں او رهمسايوں سے سنا هے اور
جب ميں نے اپنے والد کی ران کو ديکها تو زخم کی جگہ بال بهی آچکے تهے۔“
اور علی بن عيسیٰ کہتے هيں :”اسماعيل کے بيٹے نے بتايا کہ صحت يابی کے بعد ميرے والد
چاليس مرتبہ سامراء گئے کہ شايد دوبارہ ان کی زيارت کر سکيں۔“
٢۔علی بن عيسیٰ کہتے هيں:” ميرے لئے سيد باقی بن عطوہ علوی حسنی نے حکايت بيان کی کہ
ان کے والد عطوہ امام مهدی(ع) کے وجود مبارک پر ايمان نہ رکهتے تهے اور کها کرتے تهے :”اگر آئے
اور مجهے بيماری سے شفا دے تو تصديق کروں گا۔“ اور مسلسل يہ بات کها کرتے تهے۔
ايک مرتبہ نماز عشاء کے وقت سب گهر والے جمع تهے کہ والد کے چيخنے کی آواز سنی، تيزی
سے ان کے پاس گئے۔ انهوں نے کها:”امام(ع) کی خدمت ميں پهنچو کہ ابهی ابهی ميرے پاس سے باهر
گئے هيں۔“
باهر آئے تو هميں کوئی نظر نهيں آيا، دوبارہ والد کے پاس پلٹ کر آئے تو انهوں نے کها: ”ايک
شخص ميرے پاس آيا اور کها: اے عطوہ، ميں نے کها: لبيک، اس نے کها : ميں هوں مهدی، تمهيں اس
بيماری سے شفا دينے آيا هوں اس کے بعد اپنا دست مبارک بڑها کر ميری ران کو دبايا او ر واپس چلے
گئے۔“
اس واقعہ کے بعد عطوہ هرن کی طرح چلتے تهے ۔
زمانہ غيبت ميں امام زمانہ (عليہ السلام) سے بهرہ مند هونے کا طريقہ:
اگر چہ امام زمانہ(ع) هماری نظروں سے غائب هيں اور اس غيبت کی وجہ سے امت اسلامی
آپ(ع) کے وجود کی ان برکات سے محروم هے جو آپ(ع) کے ظهور پر متوقف هيں، ليکن بعض
فيوضات ظهور سے وابستہ نهيں هيں۔
آپ(ع) کی مثال آفتاب کی سی هے، کہ غيبت کے بادل پاکيزہ دلوں ميں آپ(ع) کے وجود کی تاثير
ميں رکاوٹ نهيں بن سکتے، اسی طرح جيسے سورج کی شعاو ںٔ سے اعماق زمين ميں موجود نفيس جواهر

٩٨
پروان چڑهتے هيں اور سنگ و خاک کے ضخيم پردے اس گوهر کو آفتاب سے استفادہ کرنے سے نهيں
روک سکتے۔
جيسا کہ خداوند متعال کے الطاف خاصّہ سے بهرہ مند هونا دوطريقوں سے ميسر هے۔
اول۔جهاد فی الله کے ذريعے، يعنی خدا کے نور عنايت کے انعکاس ميں رکاوٹ بننے والی
کدورتوں سے نفس کوپاک کرنے سے۔
دوم۔اضطرار کے ذريعے جو فطرت اور مبدء فيض کے درميان موجود پردوں کو ہٹاتا هے<ا مََّٔنْ
ےُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَ يَکْشِفُ السُّوْءَ> ١
اسی طرح فيض الٰهی کے وسيلے سے استفادہ کرنا جو اسم اعظم ومَثَلِ اعلیٰ هے، دو طريقوں
سے ممکن هے :
اول۔فکری،ا خلاقی اور عملی تزکيہ کہ ((ا مٔا تعلم ا نٔ ا مٔرنا هذا لاينال إلا بالورع)) ٢
دوم۔اضطرار اوراسباب مادی سے قطع تعلق کے ذريعے کہ اس طريقے سے بہت سے افراد
جن کے لئے کوئی چارہ کار نہ بچا تها اور جو بالکل بے دست وپا هو کر رہ گئے تهے، امام(ع) سے
استغاثہ کرنے کے بعد نتيجہ حاصل کرنے ميں کامياب هو گئے۔
آخر ميں هم ساحت مقدس امام زمانہ(ع) کے حضور ميں اپنے قصور وتقصير کا اعتراف کرتے
هيں۔آپ(ع) وہ هيں جس کے وسيلے سے خدا نے اپنے نور اور آپ(ع) هی کے وجودِ مبارک سے اپنے
کلمے کو پايہ تکميل تک پهنچايا هے، کمالِ دين امامت سے هے اور کمال امامت آپ(ع) سے هے اور آپ
(ع)کی ولادت کی شب يہ دعا وارد هوئی هے ((اللّٰهم بحق ليلتنا هذہ ومولودها وحجتک وموعودها التی قرنت
إلی فضلها فضلک، فتمّت کلمتک صدقاً و عدلاً، لا مبدّل لکلماتک و لا معقّب لآياتک، و نورک المتعلق و
ضيائک المشرق و العلم النور فی طخياء الديجور الغائب المستور جلّ مولدہ و کرم محتدہ، و الملائکة شَہَّدَہ
واللّٰہ ناصرہ و مو ئّدہ إذا آن ميعادہ، والملائکة امدادہ، سيف اللّٰہ الذی لا ينبو، و نورہ الذی لا يخبو، و ذو الحلم
الذی لا يصبو…))۔ ٣