٨٨
امام زمانہ(عجل الله تعالی فرجه الشريف)
رسول خدا(ص) کی فريقين سے مروی اس روايت کے مطابق کہ جو شخص اس دنيا ميں اپنے
زمانے کے امام کو پہچانے بغير مر جائے اس کی موت جاهليت کی موت هے ١، اگر چہ امام زمانہ(ع) کی
تفصيلی معرفت تو ميسر نهيں هے ليکن اجمالی معرفت کو اختصار کے ساته بيان کيا جارها هے۔
هر زمانے ميں امامِ معصوم کی ضرورت، عقلی ونقلی دلائل کے ذريعہ بحث امامت ميں ثابت هو
چکی هے۔
عقلی نقطہ نگاہ سے
عقلی دلائل کا اجمالی طور پر خلاصہ يہ هے کہ نبوت ورسالت کا دروازہ پيغمبر خاتم(ص) کے
بعدهميشہ هميشہ کے لئے بند هو چکا هے۔ ليکن قرآن کو سمجهنے کے لئے، جو آ نحضرت(ص) پر نازل
هوا هے اور هميشہ کے لئے انسان کی تعليم وتربيت کا دستور العمل هے، معلم ومربی کی ضرورت هے۔
وہ قرآن، جس کے قوانين مدنی البطع انسان کے حقوق کے ضامن تو هيں ليکن ايک مفسراور ان قوانين کو
عملی جامہ پهنانے والے کے محتاج هيں۔
بعثت کی غرض اس وقت تک متحقق نهيں هو سکتی جب تک کہ تمام علوم قرآنی کا معلم موجود
نہ هو۔ايسے بلند مرتبہ اخلاقی فضائل سے آراستہ هو کہ جو ((انما بعثت لا تٔمم مکارم الا خٔلاق)) ٢ کا مقصد
هے۔نيز هر خطا و خواهشات نفسانی سے پاک ومنزہ هو جس کے سائے ميں انسان اس علمی و عملی کما ل
تک پهنچے جو خدا وند تعالیٰ کی غرض هے۔<إِلَيْہِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ وَالَعَمَلُ الصّالِحُ يَرْفَعُہ> ٣
مختصر يہ کہ قرآن ايسی کتاب هے جو تمام انسانوں کو فکری، اخلاقی اور عملی ظلمات سے
نکال کر عالم نور کی جانب هدايت کرنے کے لئے نازل هوئی هے <کِتَابٌ ا نَْٔزَلْنَاہُ إِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ
الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ> ٤
اس غرض کا حصول فقط ايسے انسان کے ذريعے ممکن هے جو خود ظلمات سے دور هو اور
اس کے افکار، اخلاق و اعمال سراپا نور هوں اور اسی کو امام معصوم کہتے هيں۔
اور اگر ايسا انسان موجود نہ هوتو تعليم کتاب وحکمت اور امت کے درميان عدل کا قيام کيسے
ميسر هو سکتا هے ؟ اور خود يهی قرآن جو اختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل هوا هے، خطاکار افکار
اور هویٰ و هوس کے اسير نفوس کی وجہ سے، اختلافات کا وسيلہ وآلہ بن کر رہ جائے گا۔
آيا وہ خداجو خلقت انسان ميں احسن تقويم کو مدنظر رکهتے هوئے انسان کی ظاهری خوبصورتی
کے لئے بهنوں تک کا خيال رکه سکتا هے، کيا ممکن هے کہ مذکورہ هدف ومقصد کے لئے کتاب تو بهيج
دے ليکن بعثت انبياء اور کتب نازل کرنے کی اصلی غرض، جو سيرت انسان کو احسن تقويم تک پہچانا
هے، باطل کر دے ؟!
اب تک کی گفتگو سے رسول خدا ا(ص) کے اس کلام کا نکتہ واضح وروشن هو جاتا هے کہ
جسے اهل سنت کی کتابوں نے نقل کيا هے ((من مات بغير إمام مات ميتة جاهلية)) ٥اور کلام معصومين
عليهم السلام کا نکتہ بهی کہ جسے متعدد مضامين کے ساته شيعی کتب ميں نقل کيا گيا هے۔مثال کے طور
پر حضرت امام علی بن موسی الرضا(ع) نے شرائع دين سے متعلق، مامون کو جو خط لکها اس کا مضمون
--------------
1 رجوع کريں آئندہ صفحہ حاشيہ نمبر ٢۔
2 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢١٠ (فقط مبعوث هوا هوں اس لئے کہ مکارم الاخلاق کو پايہ تکميل تک پهنچا سکوں۔
3 سورہ فاطر، آيت ١٠ ۔” پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند هوتے هيں اور عمل صالح انهيں بلند کرتا هے“۔
4 سورہ ابراهيم، آيت ١۔”الٓر يہ کتاب هے جسے آپ کی طرف نازل کيا هے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاريکيوں
سے نکال کر نور کی طرف لے آئيں“۔
5 ”جواس حال ميں مر جائے کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جهالت کی موت مرے گا“۔مسند الشاميين،
ج ٢، ص ۴٣٧ ، المعجم الکبير، ج ١٩ ، ص ٣٨٨ ۔
مسند احمد بن حنبل، ج ۴، ص ٩۶ اور دوسری کتابيں۔
٨٩
يہ هے ((وإن الارض لا تخلو من حجة اللّٰہ تعالی علی خلقہ فی کل عصر وا ؤان و إنهم العروة الوثقیٰ))يهاں
تک کہ آپ(ع) نے فرمايا ((ومن مات ولم يعرفهم مات ميتة جاهلية)) ١
اب جب کہ اکمال دين واتمام نعمت هدايت ميں ايسی شخصيت کے وجود کی تاثير واضح هو چکی،
اگر اس کی عدم موجودگی سے خدا اپنے دين کو ناقص رکهے تو اس عمل کی وجہ يا تويہ هو گی کہ ايسی
شخصيت کا وجود ناممکن هو يا خدا اس پر قادر نهيں اور يا پهر خدا حکيم نهيں هے اور ان تينوں کے
واضح بطلان سے امام کے وجود کی ضرورت ثابت هے۔
حديث تقلين جس پر فريقين کا اتفاق هے، ايسی شخصيت کے وجود کی دليل هے جو قرآن سے اور
قرآن جس سے، هر گز جدا نہ هوں گے اور چونکہ مخلوق پر خدا کی حجت، حجت بالغہ هے، ابن حجر
هيثمی جس کا شيعوں کی نسبت تعصب ڈهکاچهپا نهيں، کہتا هے((والحاصل ا نٔ الحث وقع علی التمسک
بالکتاب وبالسنة وبالعلماء بهما من ا هٔل البيت ويستفاد من مجموع ذلک بقاء الا مٔور الثلاثہ إلی قيام الساعة، ثم
اعلم ا نٔ لحديث التمسک بذلک طرقاً کثيرةً وردت عن نيف وعشرين صحابيا)) ٢
ابن حجر اعتراف کر رها هے کہ حديث ثقلين کے مطابق، جسے بيس سے زيادہ اصحاب نے
پيغمبر اکرم(ص) سے نقل کيا هے، پوری امت کو کتاب، سنت اور علماء اهل بيت سے تمسک کا حکم ديا
گيا هے اور ان سب سے يہ نتيجہ نکلتا هے کہ يہ تينوں قيامت کے دن تک باقی رهيں گے۔
اور مذهب حق يهی هے کہ قرآن کے همراہ اهل بيت عليهم السلام سے ايسے عالم کا هونا
ضروری هے جو قرآن ميں موجود تمام علوم سے واقف هو، کيوںکہ پوری امت مسلمہ کو، بغير کسی
استثناء کے، کتاب،سنت او راس کی پيروی کا حکم ديا گيا هے، اور هر ايک کی هدايت کا دارومدار اسی
تمسک پر هے۔
روائی نقطہ نگاہ سے:
بارهويں امام(ع) کے متعلق شيعوں کا اعتقاد اور آپ کا ظهور معصومين عليهم السلام سے روايت
شدہ متواتر نصوص سے ثابت هے، جواثبات امامت کے طريقوں ميں سے ايک هے۔
قرآن مجيد ميں ايسی آيات موجود هيں، جنهيں شيعہ وسنی کتب ميں امام مهدی (ع)کی حکومت کے
ظهور سے تفسير کيا گيا هے۔ ان ميں سے بعض کو هم يهاں ذکر کرتے هيں :
١۔<هُوَالَّذِی ا رَْٔسَلَ رَسُوْلَہ بِالْهُدیٰ وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَہ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّہ وَلَوکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ> ٣
ابو عبد الله گنجی کتاب ”البيان فی اخبار صاحب الزمان(ع) “ ميں کہتا هے کہ :”اور بالتحقيق،
مهدی کی بقا کا تذکرہ قرآن وسنت ميں هوا هے۔ قرآن ميں يوں کہ سعيد بن جبير قرآن ميں خداوند متعال کے
اس فرمان <لِيُظْهِرَہ عَلیَ الدِّيْنِ کُلِّہ وَلَو کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ >کی تفسير ميں کہتے هيں:((هو المهدی من عترة
فاطمہ عليها السلام))“ ٤
٢۔<اَلَّذِيْنَ يُو مِْٔنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ يُنْفِقُوْنَ > ٥
فخر رازی کہتا هے:”بعض شيعوں کے عقيدے کے مطابق غيب سے مراد مهدی منتظر (ع)هے،
کہ جس کا وعدہ خدا نے قرآن اور حديث ميں کيا هے۔ قرآن ميں يہ کہہ کر<وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی اْلا رَْٔضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ > اورحديث ميں قول پيغمبر اکرم(ص) کے اس
قول کے مطابق ((لو لم يبق من الدنيا إلا يوم واحد لطول اللّٰہ ذلک اليوم حتی يخرج رجل من ا هٔل بيتی يواطی
--------------
1 عيون اخبار الرضاعليہ السلام،ج ٢، ص ١٢٢ ۔”زمين حجت خدا سے کسی زمانہ ميں خالی نہ هوگی اور يہ حجت
مستحکم وسيلہ هيں يهاں تک کہ فرمايا جو مرجائے اور ان کو نہ پہچانتا هو وہ جهالت کی موت مرتا هے“۔
2 صواعق محرقہ، ص ١۵٠ ۔
3 سورہ توبہ، آيت ٣٣ ۔”وہ خدا وہ هے جس نے اپنے رسول کو هدايت اور دين حق کے ساته بهيجا تاکہ اپنے دين کو
تمام اديان پر غالب بنائے چاهے مشرکين کو کتنا هی ناگوار کيوں نہ هو“۔
4 البيان فی اخبار صاحب الزمان عجل الله فرجہ الشريف،ص ۵٢٨ (کتاب کفاية الطالب ميں)
5 سورہ بقرہ، آيت ٣۔”جوغيب پر ايمان رکهتے هيں ۔پابندی سے پورے اہتمام کے ساته نماز ادا کرتے هيں اور جو
کچه هم نے رزق ديا هے اس ميں سے هماری راہ ميں خرچ بهی کرتے هيں“۔
٩٠
اسمہ اسمی وکنيتہ کنيتی، يملا الا رٔض عدلا وقسطا کما ملئت جورا وظلما)) ١، اس کے بعد يہ اشکال کرتا
هے کہ بغير دليل کے مطلق کو تخصيص دينا باطل هے۔“ ٢
فخر رازی نے ، حضرت مهدی موعود(ع) کے بارے ميں قرآن وحديث پيغمبر خدا(ص) کی
دلالت کو تسليم کرنے اور آپ(ع) کی غيب ميں شموليت کے اعتراف کے بعد، يہ سمجها هے کہ شيعہ، غيب
کو فقط حضرت مهدی(ع) سے اختصاص دينے کے قائل هيں، جب کہ فخر رازی اس بات سے غافل هے
کہ شيعہ امام مهدی(ع) کو مصاديقِ غيب ميں سے ايک مصداق مانتے هيں۔
٣۔<وَإِنَّہ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ > ٣
ابن حجر کے بقول :”مقاتل بن سليمان اور اس کے پيروکار مفسر ين کہتے هيں کہ يہ آيت مهدی
کے بارے ميں نازل هوئی هے۔“ ٤
۴۔<وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی اْلا رَْٔضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ
وَلَيُمَکِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضیٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ ا مَْٔناً يَّعْبُدُوْنَنِی لَايُشْرِکُوْنَ بِیْ شَيْئاً وَّمَنْ کَفَرَ بَعْدَ
ذٰلِکَ فَا ؤُْلٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ> ٥
اس آيت کو امام مهدی(ع) او رآپ کی حکومت سے تفسير کيا گيا هے۔ ٦
۵۔<إِنْ نَّشَا نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ ا عَْٔنٰاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِيْنَ> ٧
اس آيت ميں لفظِ((آية)) کی تفسير، حضرت مهدی(ع) کے ظهور کے وقت دی جانے والی ندا کو
بتلايا گيا هے، جسے تمام اهل زمين سنيں گے اور وہ ند ايہ هوگی ((ا لٔا إن حجة اللّٰہ قد ظهر عند بيت اللّٰہ
فاتبعوہ فإن الحق معہ وفيہ)) ٨
۶۔<وَنُرِيْدُ ا نَْٔ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی اْلا رَْٔضِ وَنَجْعَلَهُمْ ا ئَِٔمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِيْنَ> ٩
امير المومنين(ع) فرماتے هيں :” يہ دنيا منہ زوری دکهانے کے بعد پهر هماری طرف جهکے گی
جس طرح کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچے کی طرف جهکتی هے۔“ اس کے بعد مذکورہ آيت کی تلاوت
فرمائی۔ ١٠
٧۔<وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ ا نََّٔ اْلا رَْٔضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ> ١١
اس آيت کو امام مهدی(ع) اور آپ (ع)کے اصحاب کے بارے ميں تفسير کياگيا هے۔ ١اور اس آيت
کا مضمون، يعنی زمين پر صالح افراد کی حکومت، زبور حضرت داود(ع) ميں موجود هے :
--------------
1 ” اگر دنيا کے ختم هو جانے ميں ايک دن بهی باقی رہ جائے تو خدا اس کو اتنا طولانی کر دے گا کہ ميرے اهل
بيت(ع) ميں سے ايک شخص قيام کرے جو ميرا هم نام اور اس کی کنيت ميری کنيت هوگی جو زمين کو عدل وانصاف سے ويسا
بهر دے گا جيسے ظلم و جور سے بهری هوگی“۔
2 تفسير کبير، فخر رازی،ج ٢، ص ٢٨ ۔
3 سورہ زخرف، آيت ۶١ ۔”اور بے شک يہ قيامت کی واضح دليل هے لہٰذا اس ميں شک نہ کرو اور ميرا اتباع کرو کہ
يهی سيدها راستہ هے“۔
4 صواعق محرقہ، ص ١۶٢ ۔
5 سورہ نور، آيت ۵۵ ۔”الله نے تم ميں سے صاحبان ايمان وعمل صالح سے وعدہ کيا هے کہ انهيں روئے زمين ميں
اس طرح اپنا خليفہ بنائے گا جس طرح پهلے والوں کو بنايا هے اور ان کے لئے اس دين کو غالب بنائے جسے ان کے لئے
پسنديدہ قرار ديا هے اور ان کے خوف کو امن سے تبديل کر دے گا وہ سب صرف ميری عبادت کريں گے اور کسی طرح کا
شرک نہ کريں گے اور اس کے بعد بهی کوئی کافر هوجائے تو درحقيقت وهی لوگ فاسق اور بدکردار هيں“۔
6 تفسير کبير،، فخر رازی، ج ٢، ص ٢٨ ۔غيبة نعمانی، شيخ طوسی ، ص ١٧٧ ؛ تفسير القمی، ج ١، ص ١۴ ، اور ديگر
منابع۔
7 سورہ شعراء، آيت ۴۔”اگر هم چاہتے تو آسمان سے ايسی آيت نازل کرديتے کہ ان کی گردنيں خضوع کے ساته
جهک جاتيں“۔
8 ينابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩٧ ۔ ”آگاہ هو جاو کٔہ خدا کی حجت کا ظهور خانہ خدا ميں هوگيا هے تو اس کی پيروی
کرو کيونکہ حق اس کے ساته هے اس کی ذات کے اندر ضم هے“۔
9 سورہ قصص، آيت ۵۔”اور هم يہ چاہتے هيں کہ جن لوگوں کو زمين ميں کمزور بنادياگيا هے ان پر احسان کريں اور
انهيں لوگوں کا پيشوا بنائيں اور زمين کا وارث قرا ر ديديں“۔
10 نهج البلاغہ،شمارہ ٢٠٩ ،از حکمت امير المومنين عليہ السلام۔
11 سورہ انبياء، آيت ١٠۵ ۔”اور هم نے ذکر کے بعد زبور ميں لکه ديا هے کہ هماری زمين کے وارث همارے نيک
بندے هی هوں گے“۔
٩١
کتاب مزامير۔ زبور حضرت داود (ع)،سينتيسويں مزمور کی انتيسويں آيت ميں هے:”اور نسل
شرير منقطع هوجائے گی اور صالح افراد زمين کے وارث هوں گے اور اس ميں ابد تک رهيں گے، صالح
دهان حکمت کو بيان کرے گا اور اس کی زبان انصاف کا تذکرہ کرے گی۔ اس کے خدا کی شريعت اس کے
دل ميں هو گی۔ لہٰذا اس کے قدم نہ لڑکهڑائيں گے۔“
کتاب مزامير کے بہترويں مزمور کی پهلی آيت:”اے خدا بادشاہ کو اپنا انصاف اور اس کے فرزند
کو اپنی عدالت عطا کر اور وہ تيری قوم کے درميان عدالت سے فيصلہ کرے گا اور تيرے مساکين کے
ساته انصاف کرے گا۔ اس وقت پهاڑ، قوم کے لئے سلامتی کا سامان مهيا کريں گے اور ٹيلے بهی۔ قوم کے
مساکين کے درميان عدالت برقرار کرے گا، فقراء کی اولاد کو نجات دلائے گا او ر ظالموں کو سرنگوں
کرے گا اور جب تک سورج اور چاند اپنے سارے طبقات کے ساته باقی هيں وہ تجه سے ڈريں گے۔ وہ
کٹے هوئے سبزہ زار وں پر برسنے والی بارش کی طرح برسے گا اور زمين کو سيراب کرنے والی
بارشوں کی طرح اس کے دور ميں صالح افراد خوب پهلے پهوليں گے اور سلامتی هی سلامتی هو گی،
يهاں تک کہ چاند نابود هو جائے گا، ايک سمندر سے دوسرے سمندر اور نهر سے دنيا کے آخری کونے
تک اس کی حکومت هو گی، اس کے سامنے صحرا نشين گردنيں جهکائيں گے اور اس کے دشمن خاک
چاٹيں گے۔“
آپ(ع) کے بارے ميں فريقين کی کتابوں ميں تواتر کی حد تک روايات موجود هيں۔ ابوالحسن
ابری،جو اهل سنت کے بزرگ علماء ميں سے هے، کا کهنا هے :”راويوں کی کثير تعداد نے حضرت محمد
مصطفی(ص) سے مهدی کے بارے ميں روايت کی هے جو متواتر ومستفيض هيں اور يہ کہ وہ اهل بيت
پيغمبر(ص) سے هے، سات سال حکومت کرے گا، زمين کو عدل سے پر کر دے گا، حضرت عيسی(ع)
خروج کريں گے اور دجال کو قتل کرنے ميں آپ(ع) کی مدد کريں گے۔ امت کی امامت مهدی(ع) کرائيں
گے جب کہ عيسیٰ(ع) آپ کے پيچهے نماز پڑهيں گے ۔“ ٢
شبلنجی نور الابصار ميں کہتا هے:”پيغمبر اکرم(ص) سے متواتر احاديث هيں کہ مهدی(ع)
آنحضرت(ص) کے اهل بيت سے هے اور زمين کو عدل سے پر کر دے گا۔“ ٣
ابن ابی حديد معتزلی کہتا هے :”فرقہ هائے مسلمين کا اس بات پر اتفاق هے کہ دنيا اور دينی ذمہ
دارياں حضرت مهدی(ع) پر ختم هوں گی ۔“ ٤
زينی دحلان کے بقول :”جن احاديث ميں مهدی(ع) کے ظهور کا ذکر هوا هے وہ بہت زيادہ اور
متواتر هيں۔“ ٥
آپ(ع) کی خصوصيات اور شمائل کو تو اس مختصر مقدمے ميں تحرير نهيں کيا جاسکتا، ليکن
پهر بهی شيعہ اور سنی کتب ميں مذکور چند خصوصيات کی طرف اشارہ کرتے هيں :
١۔نماز جماعت ميں افضل کو تقدم حاصل هے، جيسا کہ يہ مطلب سنی اور شيعہ روايات ميں ذکر
هوا هے : ((امام القوم وافدهم فقدموا ا فٔضلکم )) ٦ آپ(ع) کے ظهور اور حکومت حقہ کے قيام کے وقت
عيسیٰ بن مريم(ع) آسمان سے زمين پر تشريف لائيں گے اور سنی اور شيعہ روايات کے مطابق آپ(ع) کی
امامت ميں نماز ادا کريں گے۔ ٧
وہ ايسی هستی هيں کہ کلمة الله، روح الله اور مردوں کو حکم خدا سے زندہ کرنے والے اولوالعزم
رسول سے افضل هيں اور آپ کی وجاہت اور قرب، خدائے ذوالجلال کے نزديک زيادہ هے ۔وقت نماز،
--------------
1 بحار الانوار، ج ۵١ ، ص ۴٧ ، نمبر ۶۔
2 تہذيب التہذيب، ج ٩،ص ١٢۶ ، (محمد بن خالد جندی کے ترجمہ ميں)
3 نو ر الابصار، ص ١٨٩ ۔
4 شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحديد، ج ١٠ ، ص ٩۶ ۔
5 الفتوحات الاسلاميہ، ج ٢، ص ٣٣٨ ۔
6 ”هر قوم کا امام وہ هوتا هے جو سب سے پهلے خدا پر وارد هوتا هے تو تم لوگ بهی افضل کو آگے کرو“۔ بغية
الباحث عن زوائد مسند الحارث، ص ۵۶ ، نمبر ١٣٩ ۔ وسائل الشيعہ، کتاب الصلاة، ابواب الجماعة، باب ٢۶ ، ج ٨، ص ٣۴٧ ۔
7 الصواعق المحرقہ، ص ١۶۴ ، فتح الباری، ج ۶، ص ٣۵٨ ،اور اسی کے مشابہ صحيح بخاری، ج ۴، ص ١۴٣ ؛ صحيح
مسلم، ج ١، ص ٩۴ ؛سنن ابن ماجہ، ج ٢، ص ١٣۶١ ؛عقد الدرر، دسواں حصہ،اور اهل سنت کی دوسری کتابيں۔
الغيبة نعمانی، ص ٧۵ ۔بحار الانوار، ج ٣۶ ، ص ٢٧٢ اور شيعوں کی دوسری کتابيں۔
٩٢
جو خدا کی طرف عروج کا وقت هے، عيسیٰ بن مريم آپ کی اقتداء کريں گے اور آپ کی زبان مبارک کے
ذريعے خدا سے هم کلام هوں گے۔
گنجی نے البيان ميں نماز وجهاد ميں آپ کی امامت کے بارے ميں مروی روايات کے صحيح
هونے اور اس تقدم وامامت کے اجماعی هونے کی تصديق کے بعد، مفصل بيان کے ذريعے ثابت کيا هے
کہ اس امامت کو معيار قرار ديتے هوئے آپ (ع)، عيسی سے افضل هيں۔ ١
عقدالدرر، باب اول ميں سالم اشل سے روايت نقل کی هے کہ وہ کہتا هے: ”ميں نے ابی جعفر
محمد بن علی الباقر (عليهما السلام) کو فرماتے سنا کہ: موسی (ع)نے نظر کی تو پهلی نظر ميں وہ کچه
ديکها جو قائم آل محمد(صلی الله عليہ وآلہ وسلم) کو عطا هونا تها، پس موسیٰ نے کها: اے پروردگار
!مجهے قائم آل محمد (صلی الله عليہ وآلہ وسلم) قرار دے۔ ان سے کها گيا : کہ وہ محمد( صلی الله عليہ وآلہ
وسلم) کی ذريت سے هے۔ دوسری بار بهی اس کی مانند ديکها اور دوبارہ وهی درخواست کی اور وهی
جواب سنا، تيسری بار بهی اسی کو ديکها اور سوال کيا تو تيسری بار بهی وهی جواب ملا۔“ ٢
باوجود اس کے کہ حضرت موسی بن عمران(ع) خدا کے اولوالعزم پيغمبر وکليم الله هيں <وَکَلَّمَ
اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِيْماً> ٣ اور خدا نے انهيں نو آيات کے ساته مبعوث فرمايا <وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوْسٰی تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ> ٤
اور مقرب درگاہ باری تعالی هيں <وَ نَادَيْنَاہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِالا ئَْمَنِ وَقَرَّبَنَاہُ نَجِيًّا> ٥۔ حضرت مهدی(ع) کے
لئے وہ کيا مقام و منزلت تهی جسے ديکهنے کے بعد پانے کی آرزو ميں حضرت موسی(ع) نے خدا سے
تين مرتبہ درخواست کی۔
حضرت موسی بن عمران کا آپ(ع) کے مقام کو پانے کی آرزو کرنا ايسی حقيقت هے جس کے
لئے کسی اور حديث وروايت کی ضرورت نهيں، اس لئے کہ حضرت عيسیٰ (ع)جيسے اولو العزم پيغمبر
کا آپ(ع) کی
اقتدا ميں نماز پڑهنا اس مقام کی حسرت وآرزو کے لئے کافی هے۔ اس کے علاوہ عالم وآدم کی
خلقت کا نتيجہ اور آدم سے لے کر خاتم تک تمام انبياء(ع) کی بعثت کا خلاصہ ان چار نکات ميں مضمر
هے:
الف۔ معرفت وعبادت خدا کے نور کا ظهور، جو ساری دنيا کو منور کردے <وَا شَْٔرَقَتِ اْلا رَْٔضُ
بِنُوْرِ رَبِّهَا> ٦
ب۔ کائنات کو علم وايمان سے بهر پور زندگی عطا هونا جو <اِعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰہَ يُحْیِ اْلا رَْٔضَ بَعْدَ
مَوْتِهَا> ٧ کا بيان هے۔
ج ۔باطل کے زوال او رحق کی حکومت کا قائم هونا جو <وَقُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ
کَانَ زَهُوْقاً> ٨کی تجلّی هے۔
د۔تمام انسانوں کا عدل وانصاف کو اپنانا،جو تمام انبياء ورسل کے ارسال اور کتب کے نزول کی
علت غائی هے<لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا بِالبَيِّنَاتِ وَ ا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ> ٩
ان تمام آثار کا ظهور قائم آل محمد(ص)کے هاتهوں هوگا ((يملا اللّٰہ بہ الا رٔض قسطا وعدلا بعد ما
ملئت جورا وظلما)) ١ اور يہ وہ مقام هے جس کی حسرت و آرزو آدم سے لے کر عيسیٰ تک تمام انبياء نے
کی هے۔
--------------
1 البيان فی اخبار صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشريف، ص ۴٩٨ ۔
2 عقد الدرر، پهلا حصہ،ص ٢۶ ، الغيبة نعمانی، ص ٢۴٠ ۔
3 سورہ نساء، آيت ١۶۴ ۔ ”اور موسی سے خدا نے کلام کيا جو حق کلام کرنے کا تها“۔
4 سورہ اسراء، آيت ١٠١ ۔”اور هم نے موسیٰ کو نو کهلی هوئی نشانياں دی تهيں
5 سورہ مريم، آيت ۵٢ ۔”اور هم نے انهيںکوہ طور کے داهنے طرف سے آواز دی اور راز ونياز کے لئے اپنے سے
قريب بلا ليا“۔
6 سورہ زمر، آيت ۶٩ ۔”اور زمين اپنے رب کے نور سے جگمگااٹهے گی“۔
7 سورہ حديد، آيت ١٧ ۔”ياد رکهو کہ خدازندہ کرتا هے زمين کو اس کی موت کے بعد“۔
8 سورہ اسراء، آيت ٨١ ۔”اورکہہ ديجئے کہ حق آگيا اور باطل فنا هو گيا کہ باطل هر حال فنا هونے والا هے“۔
9 سورہ حديد، آيت ٢۵ ۔”بے شک هم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساته بهيجا هے اور ان کے ساته کتاب اور
ميزان کو نازل کيا تاکہ لوگ انصاف کے ساته قيام کريں“۔
٩٣
٢۔سنی اور شيعہ روايات ميں آپ(ع) کو خليفة الله کے عنوان سے ياد کيا گيا هے ((يخرج
المهدی وعلی را سٔہ غمامة فيها مناد ينادی: هذا المهدی خليفة اللّٰہ فاتبعوہ)) ٢ الله جيسے مقدس اسم کی طرف
اضافے کا تقاضا يہ هے کہ آپ(ع) کا وجود تمام اسماء حسنی کی آيت هے۔
٣۔آپ(ع) کے مقام کی عظمت وبلندی آپ کے اصحاب کے مقام ومنزلت سے روشن هوتی هے،
جس کا ايک نمونہ روايات اهل تشيع ميں يہ هے کہ :”آپ(ع) کے اصحاب کی مقدار، اهل بدر کی تعداد کے
برابر هے ٣اور ان پر تلواريں هيں کہ هر تلوار پر ايک کلمہ لکها هوا هے جو ہزار کلمات کی کنجی هے ۔“ ٤
اور روايات اهل سنت ميں بخاری ومسلم کی شرائط کے مطابق ايک صحيح روايت کا کچه مربوط
حصہ، جسے حاکم نيشاپوری نے مستدرک اور ذهبی نے تلخيص ميں نقل کيا هے، يہ هے((لا يستوحشون
إلی ا حٔد ولا يفرحون با حٔد يدخل فيهم علی عدة ا صٔحاب بدر لم يسبقهم الا ؤلون ولا يدرکهم الآخرون وعلی
عدة ا صٔحاب طالوت الذين جاوزوا معہ النهر)) ٥
۴۔رسول اکرم(ص)اور حضرت مهدی ميں خاتميت کی مشترکہ خصوصيت اس بات کی متقاضی
هے کہ جس طرح نبوت آپ(ص)پر ختم هو ئی اسی طرح امامت حضرت مهدی پر ختم هوگی ۔نيز کار دين
کا آغاز آنحضرت(ص)کے دست مبارک سے هوا اور اختتام حضرت مهدی کے هاتهوں هوگا۔اسی نکتے کی
جانب شيعہ اور سنی روايات ميں اشارہ کيا گيا هے کہ آنحضور(ص)نے فرمايا:(( المهدی منا يختم الدين بنا
کما فتح بنا)) 6 آپ(ع) ميں خاتم کی جسمانی، روحانی اور اسمی تمام خصوصيات جلوہ گر هيں۔
دو مختلف شخصيات، يعنی خاتم النبين وخاتم الوصيين کا کنيت، اسم، سيرت وصورت کے اعتبار
سے ايک هونا يعنی ابوالقاسم محمد پر دين کا افتتاح واختتام، اهل نظر کے لئے ايسے مافوق ادراک مقام
ومرتبے کی حکايت کرتا هے جو ناقابل بيان هے۔
اس بارے ميں بطور خاص وارد شدہ بعض روايات ملاحظہ هوں :
الف۔رسول خدا(ص) سے روايت هے کہ آپ(ص)نے فرمايا:”ميری امت ميں ايسا فرد ظهور کرے
گا کہ اس کا نام ميرا نام اور اس کا اخلاق ميرا اخلاق هے، زمين کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر
دے گا جس طرح ظلم وجور سے بهر چکی هو گی۔“ ٧
ب۔ايک صحيح روايت کے مطابق جسے جعفر بن محمد عليهما السلام نے اپنے آباء واجداد اور
انهوں نے رسول خد ا(ص) سے نقل کيا هے کہ آپ(ص) نے فرمايا: ” مهدی ميری اولاد سے هے جس کا
نام ميرا نام اور اس کی کنيت ميری کنيت هے۔ خَلق وخُلق ميں مجه سے سب سے زيادہ شباہت رکهتا هے۔
--------------
، 1 ”خدا زمين کو اس کے ذريعہ عدل وانصاف سے بهر دے گا جيسے ظلم و جور سے پر تهی“۔ بحار الانوار، ج ٣٨
ص ١٢۶ ۔اسی مضمون سے ملتی هوئی عبارت البيان فی اخبار صاحب الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشريف، ص ۵٠۵ ،(کتاب کفاية
الطالب)
صحيح ابن حبان، ج ١۵ ، ص ٢٣٨ ۔ مستدرک صحيحين، ج ۴، ص ۵١۴ ۔مسند احمد بن حنبل، ج ٣، ص ٣۶ ، مسند ابی
يعلی، ج ٢، ص ٢٧۴ نمبر ٩٨٧ اور دوسری کتابيں۔
2 بحار الانوار، ج ۵١ ، ص ٨١ ۔ ”مهدی اس حال ميں خروج کرے گا کہ اس کے سر پر ايک ابر هوگا جس ميں ايک
منادی ندا دے گا يہ مهدی هے جو خدا کا خليفہ هے بس اس کی اتباع کرو“۔
عنوان خليفة الله مستدرک صحيحين ، ج ۴، ص ۴۶۴ ميں
سنن ابن ماجہ، ج ٢، ص ١٣۶٧ مسند احمد بن حنبل، ج ۵، ص ٢٧٧
نور الابصار،ص ١٨٨ ۔
عقد الدرر الباب الخامس، ص ١٢۵ اور دوسری کتابوں ميں آياهے۔
3 بحار الانوار، ج ۵١ ، ص ١۵٧ ۔
4 بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٢٨۶ ۔
5 مستدرک صحيحين ، ج ۴، ص ۵۵۴ (ان کو خوف نهيں کہ کسی سے مدد حاصل کريں اور نہ کسی سے خوش هوتے
هيں کہ ان ميں داخل هوجائيں ان کی تعداد اصحاب بدر کے برابر هيں نہ ان سے کوئی سبقت لے پايا هے اور نہ هوئی ان تک
پهونچ سکتا هے ان کی تعداد طالوت کے اس لشکر کے جتنی هے جس نے طالوت کے ساته نهر کو پار کيا تها۔
6 صواعق محرقہ، ص ١۶٣ ۔اسی مضمون سے ملتی هوئی عبارت المعجم الاوسط ميں، ج ١، ص ۵۶ ميں هے۔
عقد الدرر الباب السابع، ص ١۴۵ ، اور اهل سنت کی دوسری کتابيں۔
بحار الانوار، ۵١ ، ص ٩٣ اور شيعوں کی دوسری کتابيں ميں آياهے۔
7 صحيح ابن حبان، ج ٨، ص ٢٩١ ،ح ۶٧٨۶ اور دوسری کتابيں۔
٩۴
اس کے لئے ايسی غيبت اور حيرت هے کہ لوگ دين سے گمراہ هوجائيں گے، پهر اس کے بعد وہ شهاب
ثاقب کی مانند ظهور کرے گا اور زمين کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کردے گا جس طرح ظلم وجور
سے بهر چکی هوگی ۔“ ١
ج۔ صحيح نص کے مطابق چهٹے امام جعفر بن محمد عليهما السلام نے اپنے آبا ء اور انهوں نے
رسول خدا(ص) سے نقل کيا هے کہ آپ(ص) نے فرمايا:”جو ميری اولاد ميں سے قائم کا انکار کرے، يقينا
اس نے ميرا انکار کيا هے۔“ ٢
د۔شيخ صدوق ا علی الله مقامہ نے دو واسطوں سے احمد بن اسحاق بن سعد الاشعری سے، جو
نهايت هی بزرگ ثقہ افراد ميں سے هيں، نقل کيا هے کہ انهوں نے کها:”ميں حسن بن علی عليهما السلام کی
خدمت ميں ان کے بعد ان کے جانشين کے متعلق سوال کرنے کی غرض سے حاضر هوا۔ اس سے پهلے
کہ ميں سوال کرتاآپ(ع) نے فرمايا :”اے احمد بن اسحاق !خداوند تبارک وتعالیٰ نے جب سے آدم کو خلق
کيا هے زمين کو اپنی حجت سے خالی نهيں رکها اور نہ هی اسے قيامت تک اپنی حجت سے خالی رکهے
گا۔ وہ اپنی حجت کے ذريعے اهل زمين سے بلاو ںٔ کو دور کرتا هے، اس کے وسيلے سے بارش برساتا
هے اور اس کے وجود کی بدولت زمين سے برکات نکالتا هے۔“
احمد بن اسحاق کہتے هيں، ميں نے پوچها : ”يا بن رسول الله ! آپ کے بعد امام وخليفہ کون هے؟“
حضرت امام حسن عسکری(ع) اٹهے، تيزی سے گهر ميں داخل هوئے اور جب باهر تشريف لائے
تو آپ(ع) اپنے شانے پر ايک تين سالہ بچے کو لئے هوئے تهے جس کا چهرہ چودهويں کے چاند کی طرح
دمک رها تها، اس کے بعد آپ(ع) نے فرمايا :”اے احمد بن اسحاق !اگر تم خدا اور اس کی حجتوں کے
لئے محترم نہ هوتے تو تمهيں اپنے بيٹے کی زيارت نہ کراتا، يہ پيغمبر خدا(ص) کا همنام اور هم کنيت
هے۔ يہ وہ هے جو زمين کو عدل وانصاف سے اس طرح پر کر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بهر
چکی هوگی۔
اے احمد بن اسحاق !اس امت ميں اس کی مثال خضر وذوالقرنين کی هے۔ خدا کی قسم، اس کی
غيبت ايسی هوگی کہ هلاکت سے اس کے سوا کوئی نہ بچ سکے گا جسے خدا اس فرزند کی امامت پر ثابت
قدم رکهے اور جسے خدا نے دعائے تعجيل فرج کی توفيق عنايت کی هو۔“
پهر احمد بن اسحاق کہتے هيں کہ ميں نے پوچها:”اے ميرے آقا !کيا کوئی علامت هے جس سے
ميرا دل مطمئن هو جائے ؟ “
اس بچے نے فصيح عربی ميں کها :((ا نٔا بقيةا للّٰہ فی ا رٔضہ والمنتقم من اعدائہ)) ميں اس زمين پر
بقيةالله اور دشمنان خدا سے انتقام لينے والا هوں۔ اے احمد بن اسحاق! ديکهنے کے بعد طلب اثر نہ کرو۔“
احمد بن اسحاق کہتا هے کہ ميں مسرور وخوشحال باهر آيا اور اگلے دن امام(ع) کی خدمت ميں
جا کر عرض کی:”يابن رسول الله! آپ(ع) نے مجه پر جو احسان فرمايا اس سے ميری خوشی ميں بے انتها
اضافہ هوا هے۔ اس بچے ميں خضر وذوالقرنين کی صفت کو بهی ميرے لئے بيان فرمائيے ؟“
امام(ع) نے فرمايا:”غيبت کا طولانی هونا، اے احمد۔“
عرض کی :”يا بن رسول الله !اس بچے کی غيبت طولانی هوگی ؟“
امام(ع) نے فرمايا : هاں، خدا کی قسم ايسا هی هوگا۔ غيبت اتنی طولانی هوگی کہ اکثر غيبت کے
ماننے والے بهی انکار کرنے لگيں گے اور سوائے ان کے کوئی نہ بچے گا جن سے خداوند متعال هماری
ولايت کا اقرار لے چکا هے او رجن کے دلوں ميں ايمان کو لکه ديا هے اور اپنی روح کے ساته جن کی
تائيد فرمائی هے۔اے احمد بن اسحاق! يہ امر خدا ميں سے ايک امر، رازِ خدا ميں سے ايک راز اور غيب
خدا ميں سے ايک غيب هے۔
ميں نے جو کچه ديا هے اسے لے لو، اسے چهپا کر رکهو اور شاکرين ميں سے هوجاو تاکہ
قيامت کے دن همارے ساته عليين ميں سے هوسکو۔“ ٣
۴۔سنی اور شيعہ روايت کے مطابق آپ(ع) کا ظهور خانہ کعبہ سے هوگا۔آپ(ع) کے _______دائيں جبرئيل
اور بائيں ميکائيل هوں گے۔ چونکہ حضرت جبرئيل(ع) انسان کے حوائج معنوی يعنی افاضہ علوم اور
--------------
1 کمال الدين وتمام النعمة، باب ٢۵ ، رقم ۴، ص ٢٨٧ ۔
2 کمال الدين وتمام النعمة، باب ٣٩ ، رقم ٨، ص ۴١٢ ۔
3 کمال الدين وتمام النعمة، ص ٣٨۴ و ينابيع المودة،ص ۴۵٨ ۔
٩۵
معارف الهيہ کا واسطہ، اور حضرت ميکائيل(ع) مادی ضروريات يعنی افاضہ ارزاق کا واسطہ هيں، بنا بر
ايں علوم وارزاق کے خزائن کی کليد آپ(ع) کے اختيار ميں هے۔ ١سنی او رشيعہ روايت ميں ظهور کے
وقت آپ(ع) کی صورت مبارک کو کوکب درّی سے تشبيہ دی گئی هے ٢ اور ((لہ هيبة موسیٰ وبهاء عيسی
وحکم داوود وصبر ايوب )) ٣،امام علی رضا(ع) کی حديث کے مطابق ايسے لباس ميں ملبوس هوں گے کہ
((عليہ جيوب النور تتوقد من شعاع ضياء القدس)) ٤
۵۔الغيبة ميں شيخ طوسی اور صاحب عقدالدرر کی روايت کے مطابق آپ(ع) عاشور کے دن
ظهور فرمائيں گے ٥ تاکہ<يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِا فَْٔوَاهِهِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہ وَلَوْ کَرِہْ الْکَافِرُوْنَ> 6 کی تفسير
ظاهر هو۔ اور امام حسين عليہ السلام کے پاکيزہ خون سے آبياری شدہ اسلام کا شجرہ طيبہ آپ کی برکت
سے ثمر بخش بنے اور يہ آيت کريمہ <وَمَنْ قُتِلَ مَظُلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّہ سُلْطَانًا> ٧اپنے عالی ترين مصداق
سے منطبق هو۔
|