|
٧٨
ائمہ اثنا عشر
جو کچه بيان هو ا وہ مسئلہ امامت کے سلسلے ميں مذهب حقہ کے مختصر دلائل تهے۔ ائمہ
معصوم کی تعداد کے بارے ميں اثنا عشری شيعوں کا عقيدہ يہ هے کہ امام بارہ هيں۔ پهلے: علی ابن ابی
طالب ،دوسرے :حسن بن علی ، تيسرے: حسين بن علی ، چوتهے :علی بن الحسين ، پانچويں :محمد بن
علی ،چهٹے : جعفر بن محمد ، ساتويں: موسی بن جعفر ، آٹهويں: علی بن موسی ، نويں: محمد بن علی
، دسويں: علی بن محمد ، گيارهويں:حسن بن علی ، بارهويں:حضرت محمد مهدی عليهم السلام۔علم، اجابتِ
دعوت اور نصّ معصوم کے اعتبار سے، ان ميں سے هر ايک کی امامت کے تفصيلی دلائل، عليحدہ
فرصت کے طلبگار هيں۔
البتہ اهل سنت کی معتبر و قابل اعتماد کتب ميں موجود، بعض ان روايات کی طرف اشارہ
ضروری هے، جن ميں خود حضرت رسول خد ا(ص) نے اپنے بارہ خلفاء اور بارہ سربراهوں کا ذکر کيا
هے۔
١۔صحيح بخاری: ((عن جابر بن سمرة قال:سمعت النبی(ص) يقول:يکون اثنا عشرا مٔيرا فقال کلمة
لم ا سٔمعها، فقال ا بٔی:إنہ قال:کلهم من قريش)) ١
٢۔صحيح مسلم :((عن جابر بن سمرة قال:دخلت مع ا بٔی علی النبی(ص) فسمعتہ يقول:إن هذا الا مٔر
لا ينقضی حتی يمضی فيهم اثنا عشر خليفة، قال:ثم تکلم بکلام خفی علی، قال:فقلت لا بٔی:ماقال؟ قال:کلهم من
قريش)) ٢
٣۔صحيح مسلم:((عن جابر بن سمرة قال:سمعت النبی(ص) يقول:لايزال ا مٔرالناس ماضيا ما وليهم
اثنا عشر رجلا، ثم تکلم النبی(ص) بکلمة خفيت علی، فسئلت ا بٔی:ماذا قال رسول اللّٰہ صلی الله عليہ و سلم؟
فقال:کلهم من قريش)) ٣
۴۔صحيح ابن حبان :((سمعت رسول اللّٰہ(ص) يقول:يکون بعدی اثنا عشر خليفة کلهم من قريش)) ٤
۵۔جامع ترمذی:((يکون من بعدی إثنا عشر ا مٔيرا، قال :تم تکلم بشی لم ا فٔهمہ، فسا لٔت الذی يلينی،
فقال: قال: کلهم من قريش)) ٥
۶۔مسند احمد بن حنبل:((يکون بعدی إثنا عشر خليفة،کلهم من قريش)) ٦
٧۔مسند احمد بن حنبل:((يکون بعدی إثنا عشر ا مٔيرا، ثم لا ا دٔری ماقال بعد ذلک، فسا لٔت القوم کلهم،
فقالوا: قال:کلهم من قريش)) ٧
٨۔مسند احمد بن حنبل :((يکون بعدی إثنا عشر ا مٔيرا، فتکلم فخفی علیّ، فسا لٔت الذی يلينی ا ؤ إلی
جنبی، فقال:کلهم من قريش)) ٨
٩۔مسند احمد بن حنبل :((يکون بعدی إثنا عشر ا مٔيرا،قال:ثم تکلم فخفی علیّ ما قال، قال:فسا لٔت
بعض القوم ا ؤ الذی يلينی ماقال؟ قال:کلهم من قريش)) ٩
١٠ ۔مسند ابن الجعد:((يکون بعدی اثنا عشر اميرا، غيرا نٔ حصينًا قال فی حديثہ: ثم تکلم بشی لم
ا فٔهمہ، وقال بعضهم: فسا لٔت ا بٔی، وقال بعضهم: فسا لٔت القوم فقال:کلهم من قريش)) ١٠
١١ ۔مسند ابی يعلی:((يقول:لا يزال الدين قائما حتی تقوم الساعة ويکون عليکم إثنا عشر خليفة کلهم من
قريش)) ١
--------------
1 صحيح بخاری ،کتاب احکام کے آخر ميں، ج ٨٩ ص ١٢٧ ، ومسند احمد حنبل، ج ۵، ص ٩٣ ۔
2 صحيح مسلم ، ج ۶، ص ٣،(کتاب الامارة، الخلافة فی قريش)
3 صحيح مسلم ، ج ۶، ص ٣،و مسند احمد حنبل، ج ۵، ص ٩٨ ۔
4 صحيح مسلم ، ج ١۵ ، ص ۴٣ ۔
5 صحيح مسلم ، ج ٣، ص ٣۴٠ ۔
6 صحيح مسلم ، ج ۵، ص ٩٢ ۔
7 صحيح مسلم ، ج ۵، ص ٩٢ ۔
8 صحيح مسلم ، ج ۵، ص ٩٩ ۔
9 صحيح مسلم ، ج ۵، ص ١٠٨ ۔
10 صحيح مسلم ، ص ٣٩٠ ، نمبر ٢۶۶٠ ۔
٧٩
١٢ ۔مسند احمد بن حنبل :((عن جابر بن سمرة قال: خطبنا رسول اللّٰہ(ص) بعرفات فقال:لا يزال هذا
الا مٔر عزيزا منيعا ظاهرا علی من ناواہ حتی يملک اثنا عشر کلهم، قال:فلم ا فٔهم ما بعد، قال:فقلت لا بٔی ما قال
بعد ما قال:کلهم، قال:کلهم من قريش)) ٢
١٣ ۔مستدرک حاکم :((عن مسروق قال:کنا جلوسا ليلة عند عبد اللّٰہ يقرئنا القرآن فسا لٔہ رجل فقال:يا
ا بٔا عبدالرحمن هل سا لٔتم رسول اللّٰہ(ص) کم يملک هذہ الا مٔة من خليفة؟ فقال عبد اللّٰہ:ماسئلنی هذا ا حٔد منذ
قدمت العراق قبلک، قال: سئلناہ، فقال:اثنا عشر عدة نقباء بنی اسرائيل)) ٣
اس موضوع سے متعلق روايات صرف ان مذکورہ کتب ميں ذکر نهيں هوئيں بلکہ ان کتب ميں بهی
ذکر شدہ روايات سے کهيں زيادہ روايات ذکر هوئی هيں،ليکن اختصار کی وجہ سے اس تعداد پر اکتفا کيا
گياهے۔ ٤
بارہ اماموں کے بارے ميں رسول خدا(ص) سے منقول نصوص جنهيں عبدالله بن عباس، عبدالله بن
مسعود، سلمان فارسی،ابی سعيد خدری، ابی ذر غفاری، جابر بن سمرة،جابر بن عبدالله،انس بن مالک،زيد بن
ثابت، زيد بن ارقم،ابی عمامہ، واصلة بن اسقع،ابی ايوب انصاری، عمار بن ياسر، حذيفہ بن اسيد، عمران بن
حصين، سعد بن مالک، حذيفہ بن يمان اور ابی قتادہ انصاری جيسے بزرگ وجليل القدر اصحاب کے علاوہ
دوسرے بزرگان نے بهی روايت کيا هے، کہ اختصار کے پيش نظر جن کے ذکر سے صرف نظر کيا جاتا
هے۔
اس روايت ميں بعض خصوصيات کا تذکرہ هے ،جيسے :
١۔خلفاء کا فقط بارہ افراد پر مشتمل هونا۔
٢۔ان بارہ افراد کی خلافت کا قيامت تک باقی رهنا۔
٣۔دين کی عزت واستقامت کا ان سے وابستہ هونا۔
۴۔علمی وعملی اعتبار سے ان کے ذريعے دين کا قائم هونا،کيونکہ قيامِ دين ان خلفاء کے ذريعے
هی ممکن هے جو علمی اعتبارسے معارف وحقائقِ دين کو بيان کريں اور عملی اعتبار سے حق و قوانينِ
عادلہ کو جاری کرنے والے هوں اور ان دو اهم اجزاء کا ميسر هونا ان شرائط کے بغير نا ممکن هے،
جس کے شيعہ، بارہ اماموں کے بارے ميں قائل هيں۔
۵۔نقباء بنی اسرائيل کی نظير قرار دينے سے کشف هوتا هے کہ منصوب من الله هيں، جيسا کہ اس
آيتِ کريمہ ميں بيان کيا گيا هے<وَبَعَثْنَا مِنْهُمْ إِثْنیٰ عَشَرَ نَقِيْبًا> ٥
۶۔ا ن سب کا قريش سے هونا۔
آيا يہ خصوصيات رکهنے والے خلفاء طريقہ حقہ اثنا عشری اور بارہ اماموں کے علاوہ کهيں اور
قابل انطباق هيں؟!
--------------
1 صحيح مسلم ، ج ١٣ ، ص ۴۵۶ ۔
2 صحيح مسلم ، ج ۵، ص ٩٣ ۔
3 صحيح مسلم ، ج ۴، ص ۵٠١ ۔
4 مستدرک صحيحين، ج ٣، ص ۶١٨ ، سنن ابی داو دٔ، ج ۴، ص ١٠۶ ، نمبر ۴٢٨٠ مسند احمد حنبل، ج ١، ص ٣٩٨ ، نمبر
١٠٨ ؛ مسند ابی يعلی، ،١٠٧ ،١٠۶ ،١٠١ ،٩٧،١٠٠ ،٩۵ ،٩۴ ،٩٠ ،٨٩ ،٨٨ ،٨٧ ، ٣٧٨١ وص ۴٠۶ ، نمبر ٣٨۵٩ ۔ ج ۵، ص ٨۶
،٢١۵ ،٢١۴ ،٢٠٨ ،٢٠٧ ،٢٠۶ ،١٩٩ ،١٩٧ ، ج ٨، ص ۴۴۴ ، نمبر ۵٠٣١ وج ٩، ص ٢٢٢ ، نمبر ۵٣٢٢ ، معجم کبير، ج ٢، ص ١٩۶
، ١، نمبر ١٠٣١٠ وج ٢٢ ، ص ١٢٠ ،الاحاد المثانی، ج ٣ ٢۵۵ ، وج ١٠ ، ص ۵٧ ،٢۵۴ ،٢۵٣ ،٢۴٠،٢۴٨ ،٢٢۶ ،٢٢٣ ،٢١٨
، ص ١٢٨ ، التاريخ الکبير، ج ٣، ص ١٨۵ ، نمبر ۶٢٧ وج ٨، ص ۴١٠ ، تہذيب الکمال،ج ٣، ص ٢٢٣ ، ج ٣٣ ، ص ٢٧٢ ، نمبر ٧٣٣۵
الثقات،ج ٧، ص ٢۴١ ، طبقات المحدثين باصبهان والواردين عليها، ج ٢، ص ٨٩ ، مسند ابی داو دٔ الطيالسی، ص ١٠۵ ، نمبر ٧۶٧ و
ص ١٨٠ ، نمبر ١٢٧٨ ، المعجم الاوسط، ج ١، ص ٢۶٣ ، نمبر ٨۶٣ ، تعجيل المنفعہ بزوائد رجال الائمة الاربعة، ص ۵٣٨ ، اور اهل
سنت کے ديگر منابع۔
کشف الغطاء، ج ١، ص ٧، عيون الاخبار الرضا عليہ السلام، ج ١، ص ۴٩ ، باب ۶، ح ٩؛ الخصال ، ص ۴۶٧ وغيرہ؛
الامالی للصدوق، ص ٣٨۶ ، مجلس ۵١ ، ح ۴، ص ٣٨٧ ، وغيرہ؛ کمال الدين و تمام النعمة، ص ۶٨ ، وغيرہ، ٢٧١ ،وغيرہ؛ کفاية
؛ ٢۶٢ ، دلائل الامامة، ص ٢٠ ؛ شرح الاخبار ، ج ٣، ص ٣۵٠ و ۴٠٠ ، ۴٩ وغيرہ، روضة الواعظين، ص ٢۶١ ، الاثر، ص ٣۵
١٢٠ وغيرہ؛ الغيبة للطوسی، ١٢٨ وغيرہ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ١، ص ٢٩۵ ؛ العمدة، ص ، کتاب الغيبة، ص ١٠٣ وغيرہ،، ١١٨
۴١۶ وغيرہ؛ الطرائف، ص ١۶٩ وغيرہ، اور شيعوں کے ديگر منابع۔
5 سورہ مائدہ، آيت ١٢ ۔”اور هم نے ان ميں سے بارہ نقيب بهيجے“۔
٨٠
کيا يزيد اور يزيد جيسوں کی خلافت ميں، نقباء بنی اسرائيل جيسی اسلام کی عزت، امت کی
نگهداشت اور ويسی حکومت ميسر آسکتی هے ؟!
اور اهل سنت کے بعض محققين نے بهی اس بات کا اعتراف کيا هے کہ يہ حديث نہ تو پيغمبر کے
بعد کے خلفاء پر قابل انطباق هے،اس لئے کہ ان کی تعداد بارہ سے کم هے، نہ سلاطين نبی اميہ پر حمل
کی جاسکتی هے، ان کے مظالم اور تعداد ميں بارہ سے زيادہ هونے کی وجہ سے،اور نہ هی ملوک بنی
عباس پر قابلِ تطبيق هے، کيونکہ ان کی تعداد بهی بارہ سے زيادہ هے اور انهوں نے بهی آيت<قُلْ لاَّ
ا سَْٔئَلُکُمْ عَلَيْہِ ا جَْٔرًا إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ> 1 کا حق ادا نهيںکيا۔ يہ احاديث آنحضرت(ص) کی آل وعترت کے
علاوہ کسی اورمقام پر منطبق نهيں هو سکتيں کيونکہ وہ اپنے اپنے زمانے ميں باقی تمام بنی نوع انسان
سے اعلم، اجل، اورع اور اتقی هونے کے ساته ساته حسب ونسب کے اعتبار سے بهی افضل واعلی اور
دوسروں کی نسبت خدا کے نزديک زيادہ صاحب اکرام تهے۔ اهل علم وتحقيق اور اهل کشف وتوفيق نے ان
هستيوں کو اسی مقام ومنزلت پر فائز پايا هے۔ ٢
اور سدی نے اپنی تفسير ميں نقل کيا هے :”چونکہ سارہ کو هاجرہ کے ساته رهنا ناپسند تها خداوند
کريم نے حضرت ابراهيم(ع) پر وحی نازل کی اور فرمايا: اسماعيل او ران کی والدہ کو يهاں سے سے
”نبی تهامی کے گهر“ يعنی مکہ لے جاؤ، ميں تمهاری نسل کو پهيلاؤں گا اور ميرے بارے ميں کفر کرنے
والوں پر انهيں قدرت عطا کروں گا اور اس کی نسل سے بارہ کو عظيم قرار دوں گا۔“ ٣
اور يہ بات تورات ميں سفر تکوين کے سترهويں باب ميں موجو داس عبارت کے موافق هے کہ
خدا نے حضرت ابراهيم سے فرمايا:”ميں نے تمهاری دعا کو اسماعيل کے بارے ميں بطور خاص قبول
کيا، اب اپنی برکت سے اسے صاحب اولاد بنا ؤں گا اور اس کو بہت کثرت عطا کروں گا،اس سے بارہ
سردار بنيں گے اور اس سے عظيم امت پيدا کروں گا۔“
اور بارہ ائمہ کی امامت، صحيح روايات اور معصوم سے مروی متواتر نصوص جو سند کی بحث
سے بے نياز هوتی هيں، کے ذريعہ ثابت هے۔ هم اس مقدمے ميں ”حديثِ لوح“ پر اکتفا کرتے هيں، جسے
متعدد اسناد کے ساته، جن ميں سے بعض معتبر هيں، بزرگ محدثين نے نقل کيا هے۔ هم ان ميں سے دو
روايات کو يهاں ذکر کرتے هيں :
پهلی روايت:
يہ وہ روايت هے جسے شيخ صدوق ۺنے پانچويں امام(ع) اور انهوںنے جابر بن عبد الله
انصاری سے نقل کيا کہ جابر بن عبد الله انصاری نے کها: ميں حضرت فاطمہ زهرا عليها السلام کی خدمت
ميں حاضر هوا، ان کے سامنے ايک لوح رکهی تهی جس پر اوصيا ء کے نام تهے۔ميں نے انهيں گنا تو بارہ
تهے جن ميں سے آخری قائم تهے، تين محمد اور چار علی تهے۔ ٤
دوسری روايت:
يہ حديث اخبار غيبی پر مشتمل هے اور خود اس کا متن اس کے مقام عصمت سے صادر هونے
پر گواہ هے۔ اسے شيعہ اکابر محدثين جيسے شيخ مفيد، شيخ کلينی،شيخ صدوق اور شيخ طوسی اعلی الله
مقامهم نے عبد الرحمن بن سالم، انهوںنے ابی بصير اور انهوں نے چهٹے امام (ع)سے نقل کيا هے اور
مضمون روايت تقريباً يہ هے کہ:
”ميرے والد گرامی نے جابر بن عبدا لله انصاری سے فرمايا: ”مجهے تم سے ايک کام هے،
تمهارے لئے کس وقت آسانی هے کہ تم سے اکيلے ميں ملوں او راس بارے ميں سوال کروں ؟“
جابر نے کها: ”جس وقت آپ پسند فرمائيں ۔“
--------------
1 سورہ شوریٰ، آيت ٢٣ ۔”تو آپ کہہ ديجئے کہ ميں تم سے اس تبليغ رسالت کا کوئی اجر نهيں چاہتا علاوہ اس کے کہ
ميرے اقربا سے محبت کرو“۔
2 ينابيع المودة، ج ٣،ص ٢٩٢ ۔
3 کشف الغطاء،ج ١، ص ٧۔
4 کمال الدين وتمام النعمة، ص ٢۶٩ ۔
٨١
پهر ايک دن جابر سے تنهائی ميں ملاقات کی اور فرمايا:”اے جابر! جو لوح تم نے ميری والد ہ
گرامی حضرت فاطمہ بنت رسول الله(ص) کے هاته ديکهی تهی اور لوح پر لکهے هوئے کے بارے ميں جو
ميری مادر گرامی نے بتايا تها، مجهے اس کے بارے ميں بتاؤ۔“
جابر نے کها:”خدا کو گواہ کر کے کہتا هوں کہ رسول خدا(ص) کی زندگی ميں آپ کی والدہ
گرامی فاطمہ زهر ا سلام الله عليها کی خدمت ميں حاضر هو کر ميں نے نهيں ولادتِ امامِ حسين(ع) کی
مبارک باد دی۔ان کے هاتهوں ميں سبز رنگ کی ايسی لوح ديکهی کہ جس کی بارے ميں مجهے گمان هوا
کہ زمرد کی هے اور اس ميں سورج کے رنگ کی مانند سفيد لکهائی ديکهی، ان سے کها: ” ميرے ماں
باپ آپ پر فدا هوں، اے دختر رسول خدا(ص) ! يہ لوح کيا هے ؟“
تو آپ نے فرمايا: ”يہ لوح خدا نے اپنے رسول کو تحفہ دی هے، اس ميں ميرے بابا، ميرے
شوهر،ميرے دوبيٹوں اور ميری اولاد ميں سے اوصياء کے نام هيں اور بابانے يہ لوح مجهے عطا فرمائی
هے تاکہ اس کے ذريعے مجهے بشارت ديں۔“
جابر نے کها:” آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ (سلام الله عليها) نے وہ لوح مجهے دی، ميں
نے اسے پڑها اور اس سے ايک نسخہ اتارا۔“
ميرے والد نے فرمايا:” اے جابر، کيا وہ نسخہ مجهے دکها سکتے هو؟“
جابر نے کها:”هاں“،پهر ميرے والد اس کے ساته اس کے گهر گئے، وهاں پهنچ کر نازک کهال
پر لکها هوا ايک صحيفہ نکالا اور فرمايا: ”اے جابر!جو ميں بول رهاهوں تم اپنے نوشتے سے ملاتے
جاو ۔ٔ“
جابر نے اپنے نسخہ پر نظر کی اور ميرے والد نے اس کی قرائت کی، کسی ايک حرف ميں بهی
اختلاف نہ تها۔ جابر کہتے هيں:”خدا کو گواہ بنا کر کہتا هوں کہ لوح ميں اس طرح لکها هوا ديکها:
بسم الله الرحمن الرحيم۔ يہ تحرير خداوند عزيز وحکيم کی طرف سے محمد کے لئے هے جو اس
کا پيغمبر، اس کا نور، اس کا سفير، اس کا حجاب اور اس کی دليل هے، کہ جسے روح الامين نے رب
العالمين کی طرف سے نازل کيا هے۔ اے محمد! ميرے ناموں کی تنظيم کرو، ميری نعمتوں کا شکر بجا
لاؤاور ميرے الطاف باطنی کا انکار نہ کرو، بے شک ميں وہ خدا هوں جس کے سوا کوئی دوسرا خدا
نهيں،ظالموں کو توڑ دينے والا، مظلوموں کو حکومت عطا کرنے والا، جزا کے دن جزا دينے والا۔ بے
شک ميں هی وہ خدا هوں جس کے سوا کوئی دوسرا خدانهيں هے، جو کوئی بهی ميرے فضل کے علاوہ
کسی چيز کا اميدوار هو يا ميرے عدل کے علاوہ کسی چيز کا خوف کهائے اسے ايسا عذاب دوں گا کہ دنيا
والوں ميں سے کسی کو اس طرح کا عذاب نہ ديا هوگا۔ بس ميری عبادت کرو اور مجه پر توکل کرو۔ بے
شک ابهی تک ميں نے کوئی پيغمبر نهيں بهيجا کہ اس کے دن پورے هونے اور مدت گزرنے سے پهلے
اس کا وصی مقرر نہ کرديا هو۔بے شک ميں نے تمهيں انبياء پر اور تمهارے وصی کواوصياء پر فضيلت
دی هے، حسن اور حسين جيسے دو سبط و شبل عطا کر کے تمهيں احترام بخشا هے۔
پس حسن کو اس کے والدکی مدت پوری هونے کے بعد اپنے علم کی معدن قرار دياهے اور
حسين کو ميں نے اپنی وحی کا خزينہ دار قرار ديا هے، اسے شهادت کے ذريعے عزت عطا کی، اس کا
اختتام سعادت پرکيا، پس وہ تمام شهيدوں سے افضل هے اور اس کا درجہ تمام شهداء سے بڑه کر هے۔
اپنے کلمہ تامہ کو اس کے ساته اور اپنی حجت بالغہ کو اس کے پاس رکها،اس کی عترت کے وسيلے سے
ثواب دوں گا اور عقاب کروں گا۔ ان ميں پهلا علی هے جو سيد العابدين اور ميرے سابقہ اولياء کی زينت
هے۔ اس کا فرزند محمد اپنے جد محمود کی شبيہ هے، باقر، جو ميرے علم کو شگافتہ کرنے والاهے اور
ميری حکمت کا معدن هے۔ جعفر ميں شک وترديد کرنے والے جلد هی هلاک هو جائيں گے اس کی بات
ٹهکرانے والا ايسا هے جيسے ميری بات کو ٹهکرائے۔ ميرا يہ قول حق هے کہ جعفرکے مقام کو گرامی
رکهتاهوں اوراسے،اس کے پيروکاروں، انصاراور دوستوں کے درميان مسرور کروںگا۔اس کے بعد موسیٰ
هے کہ اس کے زمانے ميں اندها وتاريک فتنہ چها جائے گا، چونکہ ميرے فرض کا رشتہ منقطع نهيں هوتا
اور ميری حجت مخفی نهيں هوتی، بے شک ميرے اولياء سر شار جام سے سيراب هوں گے، جو کوئی ان
ميں سے کسی ايک کا انکار کرے اس نے ميری نعمت کا انکار کيا هے اور جو کوئی ميری کتاب ميں سے
ايک آيت ميں بهی رد و بدل کرے اس نے مجه پر بہتان باندها هے۔ ميرے عبد، ميرے حبيب اور ميرے
مختار، موسیٰ کی مدت تمام هونے کے بعد وائے هو علی کا انکار کرنے والوں اور اس پر بہتان باندهنے
والوں پرجو ميرا ولی،ميرا مددگا ر هے، نبوت کے سنگين بوجهوں کو اس کے کاندهوں پر رکهوں گا اور
اس کی انجام دهی ميں شدت وقوت سے آزماؤں گا، اسے ايک مستکبر عفريت قتل کرے گا اور جس شهر
٨٢
کی بنياد، عبد صالح نے رکهی هے اس ميں بد ترين مخلوق کے پهلو ميں دفن هو گا۔ ميرا يہ قول حق هے
کہ اسے اس کے فرزند محمد کے ذريعے مسرور کروں گا جو اس کے بعد اس کا خليفہ اور اس کے علم کا
وارث هوگا، پس وہ ميرے علم کا معدن، ميرا رازداں اور خلق پر ميری حجت هے۔کوئی بهی اس پر ايمان
نهيں لائے گا مگر يہ کہ بهشت کو اس کا مسکن بنادوںگا۔ اس کی شفاعت اس کے ستر اهل خانہ کے حق
ميں قبول کروں گا، جو آتش جهنم کے مستحق هوچکے هوں گے۔ اور سعادت کے ساته ختم کروں گا اس
کے فرزند علی کے لئے جو ميرا ولی،ميرا مددگا ر، خلق کے درميان ميرا گواہ او رميری وحی ميں ميرا
امين هے۔ اس سے اپنی راہ کی جانب دعوت دينے والا حَسن نکالوں گا، جو ميرے علم کا خزينہ دار هوگا
اور اسے اس کے فرزند م ح م د سے کامل کروں گا ،جو رحمة للعالمين هے، جس ميں موسیٰ کا
کمال،عيسیٰ کی هيبت اور صبر ايوب هے۔ ا س کے زمانے ميں ميرے اولياء ذليل هوں گے اور ان کے
سر، ترک وديلم کے سروں کی طرح لوگ ايک دوسرے کو تحفے کے طور پر ديںگے۔ وہ مارے جائيں
گے، جلائے جائيں گے، خوف زدہ، ڈرے هوئے اور سهمے هوئے هوں گے، ان کے خون سے زمين
رنگين هوگی،ان کی عورتوں کی فرياد بلند هوگی، حقا کہ وہ ميرے اولياء هيں، ان کے ذريعے هر اندهے
فتنے کی تاريکی وسختی کو دور کروں گا۔ ان کے ذريعے زلزلوں کو کشف کردوںگا، بوجهوں اور
زنجيروں کو دور کروں گا۔ يہ وہ هيں جن پر ان کے پروردگا ر کی طرف سے صلوات اور رحمت هے اور
يهی هدايت پانے والے هيں۔“ ١
حديث مکمل کرنے کے بعد ابو بصير نے عبد الرحمن بن سالم سے کها:” اگر ساری زندگی اس
کے علاوہ کوئی دوسری حديث نہ بهی سنو تويهی ايک حديث تمهارے لئے کافی هے، اسے نا اهل سے
چهپا کر رکهنا۔“
اور ائمہ معصومين کی امامت پر اس سے کهيں زيادہ دلائل موجود هيں، جنهيں ا س مختصر
مقدمے ميں نهيں سمويا جا سکتا، ليکن امامت کے اعلیٰ مقام کی معرفت کی غرض سے ايک روايت ذکر کر
کے اس بحث کو ختم کرتے هيںاور يہ روايت وہ هے جسے شيخ المحدثين محمد بن يعقوب کلينی نے محمد
بن يحيی سے (کہ نجاشی جس کی شان بيان کرتے هوئے کہتے هيں: شيخ ا صٔحابنا فی زمانہ، ثقة،عين،اور
ان سے چه ہزار کے قريب روايات نقل کی هيں )، انهوں نے احمد بن محمد بن عيسٰی سے (جو شيخ القميين
ووجههم وفقيههم غير مدافع اور امام رضا، امام تقی وامام نقی عليهم السلام کے صحابی تهے )،انهوں نے
حسن بن محبوب سے (جو اپنے زمانے کے ارکان اربعہ ميں سے ايک اور ان فقهاء ميں سے هيں کہ جن
تک صحيح سند اگر پهنچ جائے تو ان کی منقولہ روايت کی صحت پر اجماع هے۔)، انهوں نے اسحاق بن
غالب سے (بطور خاص توثيق کے علاوہ جن کی شان يہ هے کہ صفوان بن يحيی جيسی عظيم شخصيت
نے ان سے روايات نقل کی هيں)، انهوں نے ابی عبد الله(ع) کے خطبے سے روايت نقل کی هے، جس ميں
حضرت نے احوال وصفات ائمہ کو بيان کيا هے۔ چونکہ کلام امام ميں موجود خاص لطافت قابل توصيف
نهيں هے لہٰذا يهاں پر خود متن کا کچه حصہ ذکر کرتے هيں:
((عن ا بٔی عبداللّٰہ عليہ السلام فی خطبة لہ يذکر فيها حال الا ئٔمة عليهم السلام و صفاتهم: إنّ اللّٰہ عز
و جل ا ؤضح با ئٔمة الهدی من ا هٔل بيت نبينا عن دينہ، و ا بٔلج بهم عن سبيل منهاجہ، و فتح بهم عن باطن ينابيع
علمہ، فمن عرف من ا مُٔة محمد(ص) واجب حق امامہ، وجد طعم حلاوة ايمانہ، و علم فضل طلاوة اسلامہ،
لا نٔ اللّٰہ تبارک و تعالی نصب الامام علماً لخلقہ، و جعلہ حجة علی ا هٔل موادہ و عالمہ، و ا لٔبسہ اللّٰہ تاج
الوقار، و غشاہ من نور الجبار، يمد بسبب الی السماء، لا ينقطع عنہ موادہ، و لا ينال ما عند اللّٰہ الا بجہة
اسبابہ، و لا يقبل اللّٰہ ا عٔمال العباد إلاّ بمعرفتہ، فهو عالم بما يرد عليہ من ملتبسات الدجی، و معميّات السنن، و
مشبّهات الفتن، فلم يزل اللّٰہ تبارک و تعالی يختارهم لخلقہ من ولد الحسين(ع) من عقب کل إمام يصطفيهم لذلک
و يجتبيهم، و يرضی بهم لخلقہ و يرتضيهم، کلّ ما مضی منهم إمام نصب لخلقہ من عقبہ إماماً علما بيّناً، و هادياً
نيّراً و إماماً قيّماً، و حجة عالماً، ا ئٔمة من اللّٰہ، يهدون بالحق و بہ يعدلون، حجج اللّٰہ و دعاتہ و رعاتہ علی
خلقہ، يدين بهديهم العباد و تستهل بنورهم البلاد، و ينمو ببرکتهم التلاد، جعلهم اللّٰہ حياة للا نٔام، و مصابيح
للظلام، و مفاتيح للکلام، و دعائم للإسلام، جرت بذلک فيهم مقادير اللّٰہ علی محتومها۔
فالإمام هو المنتجب المرتضی، و الهادی المنتجی، و القائم المرتجی، اصطفاہ اللّٰہ بذلک و اصطنعہ
علی عينہ فی الذرّ حين ذرا ۂ، و فی البرية حين برا ۂ، ظلا قبل خلق نسمة عن يمين عرشہ، محبوّاً بالحکمة فی
علم الغيب عندہ، اختارہ بعلمہ، و انتجبہ لطهرہ، بقية من آدم (ع)و خيرة من ذرية نوح، و مصطفی من آل
--------------
1 اصول کافی، ج ١، ص ۵٢٧ (ماجاء فی الاثنا عشر)
٨٣
إبراهيم، و سلالة من إسماعيل، و صفوة من عترةمحمد(ص) لم يزل مرعيّاً بعين اللّٰہ، يحفظہ و يکلئہ بسترہ،
مطروداً عنہ حبائل إبليس و جنودہ، مدفوعاً عنہ وقوب الغواسق و نفوث کل فاسق، مصروفاً عنہ قوارف
السوء، مبرّئاً من العاهات، محجوباً عن الآفات، معصوماً من الزّلات، مصوناً عن الفواحش کلها، معروفاً بالحلم
و البرّ فی يفاعہ، منسوباً إلی العفاف و العلم و الفضل عند انتهائہ، مسنداً إليہ ا مٔر والدہ، صامتاً عن المنطق فی
حياتہ۔
فإذا انقضت مدّة والدہ، إلی ا نٔ انتہت بہ مقادير اللّٰہ إلی مشيئتہ، و جائت الإرادة من اللّٰہ فيہ إلی
محبتہ، و بلغ منتهی مدة والدہ(ع) فمضی و صار ا مٔر اللّٰہ إليہ من بعدہ، و قلدہ دينہ، و جعلہ الحجة علی عبادہ،
و قيمہ فی بلادہ، و ا ئّدہ بروحہ، و آتاہ علمہ، و ا نٔبا ۂ فصل بيانہ، و استودعہ سرّہ، و انتدبہ لعظيم ا مٔرہ، و
ا نٔبا ۂ فضل بيان علمہ، و نصبہ علماً لخلقہ، و جعلہ حجة علی ا هٔل عالمہ، و ضياء لا هٔل دينہ، و القيم علی
عبادہ، رضی اللّٰہ بہ إماماً لهم…))۔ ١
1 اصول کافی، ج ١، ص ٢٠٣ ، کتاب الحجة، باب نادر جامع فی فضل الامام و صفاتہ، حديث ٢۔ (بے شک خداوندعالم
نے هم اهل بيت ميں سے رهبران هدايت کے ذريعہ اپنے دين کو واضح اور اپنی راہ کو روشن کيا هے، اور اپنے علم کے باطنی
چشموں کو ان کے ذريعہ جاری کئے هيں، لہٰذا امت محمدی ميں سے جو شخص اپنے امام کے واجب حق کو پہچانے تو ايسا
شخص اپنے ايمان کی شيرينی کا مزہ حاصل کرے گا، اپنے اسلام کی فضيلت کی مسرت تک پهنچ جائے گا، کيونکہ خداوندعالم
نے امام کو اپنی مخلوق کے لئے نشانی قرار ديا هے اور اس کو کائنات اور اهل فيض پر حجت قرار ديا هے، وقار کا تاج ان کے
سر پر رکها اور اس پر نورِ جبّار کا سايہ کيا هے۔
وہ ايک سبب کے ذريعہ آسمان کی طرف پرواز کرتا هے، اس سے فيض و کرم کا سلسلہ ختم نهيں هوتا، اور
خداوندعالم کے پاس موجود چيزوں کو اس کے وسيلہ کے علاوہ حاصل نهيں کيا جاسکتا، نيز خداوندعالم اپنے بندوں کے اعمال
کو اس کی معرفت کے بغير قبول نهيں کرتا۔
پس وہ تاريکی کی مشکلات کا عالم هے اور سنت کے معمّوںاور فتنوں کی مشتبہ چيزوں کو جانتا هے۔
خداوندعالم نے هميشہ مخلوق کے لئے امام حسين عليہ السلام کی نسل سے يکے بعد ديگرے امام کو انتخاب کيا هے،
اور ان کو مخلوق کے امور کے لئے انتخاب کيا هے نيز خداوندعالم ان کے ذريعہ سے اپنی مخلوق سے راضی اور اپنی مخلوق
کو قبول کرتا هے۔
جب ان ميں سے کوئی ايک رحلت کرتا هے تو اس امام کی اولاد ميں سے ايک بزرگوار امام ظاهر ، نور بخش رهبر،
سرپرست پيشوا اور عالم کو مخلوق کے لئے حجت معين فرماتا هے، ايسے رهبر جو خدا کی طرف سے حق کی طرف هدايت
کرنے والے هيں، اور حق و انصاف کے ساته فيصلے کرتے هيں، اور لوگوں کو صراط مستقيم پر قائم رکهتے هيں، خدا کی
حجتيں، اس کی طرف دعوت دينے والے اور مخلوق کی تدبير کرنے والے خدا کی طرف سے معين هوتے هيں، خدا کے بندے
ان کی هدايت کے ذريعہ ديندار هوتے هيں اور ان کے نور سے شهر روشن و منور هوتے هيں، اور ان کی برکت سے پرانی
دولت رشد و نمو کرتی هے۔
خداوندعالم نے ان حضرات کو لوگوں کے لئے (باعث) حيات، اندهيروں ميں چراغ، کلام کی کنجی، اور اسلام کی
بنياد قرار ديا هے، خداوندعالم کے حتمی مقدرات انهيں حضرات کے ذريعہ جاری هوتے هيں۔
لہٰذا امام ، وهی پسنديدہ منتخب ، اسرار الٰهی کی طرف هدايت کرنے والا اور ايسا قائم هے جس کی طرف اميديں لگی
هوئی هيں، خداوندعالم نے اس کے ذريعہ ان کو منتخب کيا هے، اور جب خداوندعالم نے اس کو عالم ذرّ ميں خلق فرمايا تو اپنی
(خاص) نظر سے خلق فرمايا، اور مخلوق اور جاندار کو خلق کرنے سے پهلے عرش يمين کے زير سايہ ان کو اس حال ميں
خلق فرماياکہ ان کو اپنے علم غيب کی حکمت سے نوازا، اور ان کو اپنے علم کے لئے اختيار کيا اور ان کی طهارت کی وجہ
سے انتخاب کيا، اس حال ميں کہ وہ حضرت آدم کی نسل سے باقی رهنے والا اور ذريت نوح سے انتخاب شدہ اور آل ابراهيم
سے منتخب شدہ نسل اسماعيل سے اور عترت محمد(ص) سے منتخب شدہ هے۔
هميشہ خداوندعالم ان کی حفاظت کرتا هے، اور اپنے پردہ سے حفاظت کرتا هے، حالانکہ شيطانی جال اور اس کے
لشکر کو ان سے دور رکها گيا هے، هر فاسق کے خطرہ اور ديگر خطرات سے ان کی حفاظت کی گئی هے، اور بری نيت
والوں کے ارادوں کو دفع کيا گيا هے، فتنہ و فساد سے پاک، آفتوں سے دور، خطاؤں سے معصوم اور تمام برائيوں سے محفوظ
هے۔
امام اپنی جوانی ميں حلم اور نيک کام ميں مشهور، اور بوڑهاپے ميں عفت و علم اور فضيلت سے منسوب هوتا
هے،اس کی طرف اس کے والد کی طرف سے مستند اور ان کی حيات ميں گفتگو کرنے سے خاموش رہتے هيں، اور جب ان
کے والد کی امامت کی مدت ختم هوتی هے، يهاں تک کہ اس کی نسبت تقدير الٰهی تمام هوجائے، اور خدا کا ارادہ ان کو ان کی
محبت کی طرف کهينچتا هے، اور جب ان کے پدر گرامی کی مدت (امامت) ختم هوجاتی هے، اور ان کی رحلت هوجاتی هے،
جن کے بعد خدا کا امر اس کی طرف منتقل هوتا هے، اور خدا اپنے دين کی باگ ڈور ان کے حوالہ کرديتا هے، اور اس کو
بندوں پر اپنی حجت اور اپنے ملک پر سرپرست قرار ديتا هے، اور اپنی روح سے اس کی تائيد کرتا هے، اور اپنا علم اس کو
عطا کرتا هے، اور اس کو اپنے بيان فصل (جو حق کو باطل سے الگ کرديتا هے) کی خبر ديتا هے، اور اپنے اسرار سے آگاہ
کرتا هے، اور اس کو اپنے عظيم امر کے لئے دعوت ديتا هے، اور اپنے بيان علم کی فضيلت سے آگاہ کرتا هے، اور اس کو
اپنی مخلوق کے نشانی قرار ديا هے، اهل کائنات کے لئے حجت، اپنے دين والوں کے نور، اور اپنے بندوں کا سرپرست قرار ديا
هے، اور اس کو امت کی امامت کے لئے پسند کرتا هے۔
٨۴
اگر چہ اس حديث کا هر جملہ مفصل تشريح کا طالب هے، ليکن هم يهاں بعض جملوں سے متعلق
چند نکات ذکر کرتے هيں:
الف۔پهلے جملے ميں امام(ع) نے ائمہ هدیٰ کو خطبے کا موضوع قرار ديا،کيونکہ امت کے لئے
وجود امام کی ضرورت واضح هے <يَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ ا نَُٔاسٍ بِإِمَامِهِمْ > ١اور امت کے امام کا امامِ هدايت هونا
ضروری هے جيسا کہ خداوند متعال نے فرمايا:<وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا> ٢،<إِنَّمَا ا نَْٔتَ مُنْذِرٌ وَّلِکُلِّ
قَوْمٍ هَادٍ> ٣ اور امامِ هدايت کی معرفت، معرفتِ هدايت پر متوقف هے۔معرفتِ هدايت کے لئے اس موضوع
سے متعلق قرآن مجيد ميں موجود ان آيات ميں تدبر وتفکر ضروری هے جن کی تعداد تقريبا دو سونوے
هے۔ اس مقدمے ميں ان کی تشريح کرنا مشکل هے، اس لئے کہ هدايت، کمالِ خلقت هے <قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْ
ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ هَدیٰ> ٤،<سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ اْلا عَْٔلیٰ ة اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی ة وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَهَدیٰ> ٥ اور
مخلوق ميں هر ايک کی هدايت اس کی خلقت کے تناسب سے هے۔ اب چونکہ خلقتِ انسان کی اساس احسن
تقويم هے،لہٰذا اس کی هدايت بهی عالم امکان کا سب سے بڑا کمال اور اشرف المخلوقات کو عنايت کی
جانے والی بزرگترين نعمت هے۔<وَيُتِمَّ نِعْمَتَہ عَلَيْکَ وَيَهْدِيَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًا> ٦امام(ع)نے ((ائمہ هدی))
فرما کر مقام امامت کی عظمت کو بيان فرمايا، بلکہ اهل نظر کے لئے تو امام کی خصوصيات کو واضح
کرديا کہ ايسے ملزوم کے لئے کن لوازم کی ضرورت هے۔ پهر اس اجمال کے بعد تفصيل بيان کی، دين
ميں امام کے کردار پر روشنی ڈالی کہ خداوند متعال نے اپنے قانون کی تفسير کا حق ايسی مخلوق کو عطا
نهيں کيا جن کی آراء ميں خطا اور اختلاف پايا جاتا هے، اس لئے کہ ان دو آفتوںسے تشريع دين کی غرض
نقض هو جائے گی اور امت، نورِ هدايت کی بجائے گمراهی کی تاريک واديوں ميں بهٹک جائے گی، بلکہ
پروردگا رعالم نے اصول وفروع دين ميں، انسان کے لئے پيش آنے والے مبهم نقاط کو ائمہ هدیٰ کے
ذريعے دور کيا هے ((ا نٔ اللّٰہ عزوجل ا ؤضح با ئٔمة الهدی من ا هٔل بيت نبينا عن دينہ))
ب۔چونکہ فطری تقاضے کے مطابق انسان اپنے خالق اورپروردگا ر عالم کی تلاش وجستجو ميں
هے اور يہ فطرت راہ خداتک،جوکہ دين خدا هے، پهنچے اور اس پر ثابت قدم رهے بغير اپنے مقصد ميں
کامياب نهيں هوسکتی <قُلْ هٰذِہ سَبِيْلِی ا دَْٔعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِيْرَةٍ ا نََٔا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ> ٧اور چونکہ اشتباهات اور
خواهشاتِ نفسانی جيسے راہ خدا سے منحرف کرنے والے اسباب او ر شياطينِ جن وانس جيسے لٹيرے،
هر وقت موجود هيں وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِيْلِہ) ٨، <اِشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللّٰہ ثَمَنًا قَلِيْلاً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِہ
إِنَّهُمْ سَآءَ مَاکَانُوْا يَعْمَلُوْنَ> ٩ لہٰذا تکوين فطرت کی غرض يعنی خدا تک رسائی کے حصول اور دين کی
سيدهی راہ، جو خدا تک رسائی کی راہ هے، کی تشريع کے لئے، ايک ايسے هادی ورهبر کی ضرورت
هے جس کے نور سے يہ هدف ومقصد پايہ تکميل تک پهنچ سکے ((وابلج عن سبيل منهاجہ))۔
--------------
1 سورہ اسراء، آيت ٧١ ۔”قيامت کا دن وہ هوگا جب هم هر گروہ انسانی کو اس کے امام کے ساته بلائيں گے“۔
2 سورہ سجدہ، آيت ٢۴ ۔”اور هم نے ان ميں سے کچه لوگوں کو امام اور پيشوا قرار ديا هے جو همارے امر سے
لوگوں کی هدايت کرتے هيں“۔
3 سورہ رعد، آيت ٧۔”آپ کہہ ديجئے کہ ميں صرف ڈرانے والا هوں اور هر قوم کے لئے ايک هادی اور رهبر هے“۔
4 سورہ طہ، آيت ۵٠ ۔”موسیٰ نے کها کہ همارا رب وہ هے جس نے هر شئے کو اس کی خلقت عطا کی هے اور پهر
هدايت بهی دی هے“۔
5 سورہ اعلیٰ، آيت ١تا ٣۔”اپنے بلند ترين رب کے نام کی تسبيح کرو۔جس نے پيدا کيا هے اور درست بنايا هے ۔ جس
نے تقدير معين کی هے اور پهر هدايت دی هے“۔
6 سورہ فتح، آيت ٢۔”اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کر ے اور آپ کو سيدهے راستہ پر ثابت قدم رکهے“۔
7 سورہ يوسف، آيت ١٠٨ ۔”آپ کہہ ديجئے کہ يهی ميرا راستہ هے کہ ميں بصيرت کے ساته خدا کی طرف دعوت ديتا
هوں ميں اور ميری اتباع کرنے والا“۔
8 سورہ انعام، آيت ١۵٣ ۔”اور دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جاو کٔہ راہ خدا سے الگ هو جاو گٔے“۔
9 سورہ توبہ، آيت ٩۔”انهوں نے آيات الٰهيہ کے بدلے بہت تهوڑی سی منفعت کو لے ليا هے اور اب راہ خدا سے روک
رهے هيں۔ يہ بہت براکام کر رهے هيں“۔
٨۵
ج۔انسان ميں خلقتِ عقل کی غرض، علم ومعرفت کی حقيقت تک پهنچنا هے اور ذاتِ انسان کی،
خالقِ عقل وادراک سے يہ استدعا هے کہ پروردگارا! هر چيز کی حقيقت کو جيسی هے ويسی هی مجه پر
نماياں کر دے۔ وہ يہ جاننا چاہتا هے کہ کهاں سے آيا هے ؟ کهاں هے؟ کس طرف جارها هے؟ اس کے
وجود اور کائنات کا آغاز وانجام کيا هے؟اور ادراکِ انسان کی يہ پياس، علمِ الٰهی جيسے آبِ حيات کو
حاصل کئے بغير نهيں بجه سکتی، ور نہ حکمت کا آخری مرحلہ بهی جو حيرةالکمل(کامل ترين افراد کے
لئے مقام تحير هے) کا مقام هے،اس کے سوا کچه نهيںهے کہ انسان يہ جان لے کہ ميںنهيں جانتا۔يهی وجہ
هے کہ ايک ايسے الٰهی انسان کے وجود کی ضرورت هے جو علومِ الٰهی کے سرچشموں کا وارث هو،
تاکہ تشنگانِ حقيقت اس کے هاتهوں سيراب هوں اور خلقتِ عقل وادراک کی غرض حاصل هو، جيسا کہ
امام نے ايک معتبر نص ميں فرمايا هے :((من زعم ا نٔ اللّٰہ يحتج بعبد فی بلادہ ثم يستر عنہ جميع ما يحتاج
إليہ فقد افتری علی اللّٰہ)) ١
يقينا يہ سمجهنا کہ خداوند متعال کسی کو اپنے بندے پرحجت قرار دے اوروہ تمام چيزيں جن کی
اسے ضرورت هے، اپنی حجت سے چهپالے اور ان کا علم اسے عطا نہ کرے تو يہ ايک ايسی تهمت هے
جو لامتناهی علم،قدرت اور حکمت کی عدم شناخت کی بنا پر لگائی گئی هے ۔ اسی لئے فرمايا:((و فتح بهم
عن باطن ينا بيع علمہ))۔
د۔((والبسہ تاج الوقار))علم اور قدرت هے جو امام کے سر پر وقار کا تاج هے،((فدلالة الامام فيما
هی؟ قال:فی العلم واستجابة الدعوة)) ٢ اس لئے کہ انسان کے اضطراب اور پستی کی وجہ اس کا عجز اور
اس کی جهالت هے اور چوںکہ امام، کتاب خدا کا معلم هے، جب کہ حديث ثقلين کی صريح نص کے
مطابق، کتاب خدا اور امام ايک دوسرے سے کبهی جدا نهيں هو سکتے اور اس آيت<وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ
تِبْيَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ> ٣ کے مطابق، قرآن هر چيز کو بيان کرنے والا هے،لہٰذا ممکن هی نهيں هے کہ وہ قرآن
ميں موجود تمام علوم پر احاطہ نہ رکهتا هو اور يہ بات اس معتبر حديث سے ثابت هے ((عن ابن بکير عن
ابی عبد اللّٰہ(ع) قال:کنت عندہ فذکرواسليمان وما ا عٔطی من العلم وما ا ؤتی من الملک، فقال(ع) لی:وما
ا عٔطی سليمان ابن داود إنما کان عندہ حرف واحد من الإسم الا عٔظم، وصا حبکم الذی قال اللّٰہ قل کفی باللّٰہ
شهيدا بينی وبينکم ومن عندہ علم الکتاب، وکان واللّٰہ عند علیٍّ علم الکتاب، فقلت:صدقت واللّٰہ، جعلت
فداک))امر الله سے مرتبط هونے کی بنا پر امام ٤مستجاب الدعوہ هے اوراسی علم وقدرت کی وجہ سے تاجِ
وقا ر، امام کے سر مبارک کی زينت هے۔
ہ۔((وغشاہ من نور الجبار)) لفظ نور،اسم مقدس جبار کی طرف اضافہ هواهے۔اسماء الٰهی کی جانب
اضافہ هونے والا هر اسم اضافے کی وجہ سے اسی اسم کی خصوصيات کسب کرليتاهے اور خداوند عالم
جبار هونے کے ناطے هر ٹوٹ پهوٹ کا مداوا کرنے والا هے ((يا جابر العظم الکسير)) ٥، امام کے وجود
کو نورِ جبار کے نور سے منور کيا گيا هے تاکہ پيکرِ اسلام ومسلمين ميں پڑنے والی دراڑوں کا اس نور
کے ذريعے مداوا و ازالہ کرسکے۔
و۔((ائمة من اللّٰہ يهدون بالحق وبہ يعدلون)) امام وہ هے جو خدا کے اختيار سے مختار، اس کے
برگزيدہ کرنے سے مصطفی اور اس کے انتخاب سے امامت ورهبری کے لئے مجتبی هے۔ اسی لئے
ضروری هے کہ ايک امام کی رحلت کے بعد پروردگار عالم دوسرا امام نصب کرے جو واضح علامت،
راہِ دين کو روشن کرنے والا هادی، سرپرستی کرنے والا رهبر اور صاحب علم حجت هو تاکہ خلقتِ انسان
اور بعثتِ انبياء کی غرض جو دو کلموںميں خلاصہ هوتی هے، حاصل هوسکے اور وہ دو کلمے،حق کی
جانب هدايت اور حق کے ساته عدالت کا برقرار کرنا هے جو نظری اور عملی حکمت کا لب لباب اور
انسان کے ارادے وعقل کا نقطہ کمال هے اور ان دو کا تحقق سوائے ايسی عقل، جو هر چيز کو اس کی
--------------
1 بحار الانوار، ج ٢۶ ، ص ١٣٩ ۔
2 بحار الانوار، ج ٢۵ ، ص ١٢۴ ۔”امام کی پہچان کس چيز ميں هے فرمايا:علم اور دوسروں کی مشکل کو حل کرنے
ميں“۔
3 سورہ نحل، آيت ٨٩ ۔”اور هم نے آپ پر کتاب نازل کی جس ميں هر شئے کی وضاحت موجود هے“۔
4 بحار الانوار، ج ٢۶ ، ص ١٧٠ ۔”ابن بکير سے روايت هے کہ ميں چهٹے امام کے پاس تها کہ سليمان پيغمبر اور ان
کو عطا شدہ علم وملک کا تذکرہ نکل آيا تو حضرت نے فرمايا جو کچه ان کو عطا هوا تها وہ صرف اسم اعظم کا ايک حرف تها
اور تمهارے مولا کے بارے ميں خدا فرماتا هے <قل کفیٰ بالله شهيداً بينی و بينکم ومن عند ہ علم الکتاب>خدا کی قسم علی عليہ
السلام کے پاس پوری کتاب کا علم تها۔ ميں نے جواب ديا خدا کی قسم سچ فرمايا ميری جان فدا هو آپ پر“۔
5 بحار الانوار، ج ١٢ ، ص ٣١٩ ۔”وہ ٹوٹی هوئی ہڈی کو جوڑنے والے“۔
٨۶
حقيقت کے ساته جان لے، اور ايسے ارادے، جو هر کام کو اس کی اصل وحقيقت کے مطابق انجام دے،
کے بغير نا ممکن هے جو علمی اور عملی عصمت کا منصب هے، لہٰذا فرمايا((ا ئٔمة من اللّٰہ يهدون بالحق
وبہ يعدلون))
ز۔((اصطفاہ اللّٰہ بذلک واصطنعہ علی عينہ فی الذرحين ذرا ۂ))امام وہ هے جس کے گوهرِ وجود
کو خود پروردگار عالم نے عالم ذرّ ميں عرش کے دائيں بنايا، اپنی نگرانی ميں اس کی تربيت فرمائی اور
علم غيب کے ذريعے جو اس ذات مقدس کے علاوہ کسی اور کے پاس نهيں <إِلاَّ مَنِ ارْتَضٰی مِنْ
رَّسُوْلٍ> ١اسے حکمت عطا کی هے۔خلقت ميں نسب کے اعتبار سے ذريت نوح کا بہترين، آل ابراهيم کا
برگزيدہ، سلالہ اسماعيل اور عترت محمد سے منتخب شدہ هے۔
اس کا جسم تمام عيوب سے منزہ، جب کہ روح هر قسم کی لغزش سے معصوم اور هر گناہ سے
محفوظ هے۔
ابليس، جس نے کها تها کہ <فَبِعِزَّتِکَ لَا غُْٔوِيَنَّهُمْ ا جَْٔمَعِيْنَ ة إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ> ٢ امام کی
مقدس ذات سے اس قدرت کی وجہ سے دور هے کہ<إِنَّ عِبَادِیْ لَيْسَ لَکَ عَلَيْہِمْ سُلْطَانٌ> ٣
((وصار ا مٔر اللّٰہ إليہ من بعد ))،وہ امر الله کو جو ايک امام کے بعد دوسرے کو نصيب هوتا هے،
چهٹے امام (ع)نے حديث صحيحہ ميں يوں بيان فرماياهے :((إن اللّٰہ واحد متوحد بالواحدانية، متفرد بامرہ
فخلق خلقا فقدرہ لذلک الامر، فنحن هم يابن ابی يعفور، فنحن حجج اللّٰہ فی عبادہ وخزانہ علی علمہ والقائمون
بذلک )) ٤
ح۔((وا ئدہ بروحہ)) جس روح کے ساته خدا نے امام کی تائيد فرمائی هے يہ وہ روح هے جسے
ابو بصير نے حديث صحيحہ ميں بيان کيا هے :”ميں نے ابی عبد الله(ع) کو يہ فرماتے هوئے سنا:
<وَيَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قَلِ الرُّوْحُ مِنْ ا مَْٔرِ رَبِّی> ٥جو جبرئيل ومکائيل سے بهی اعظم مخلوق هے۔ گذشتگان
ميں سے محمد(ص) کے علاوہ کسی اور کو عطانهيں کی گئی اور وہ روح اب ائمہ کے پاس هے جو
استقامت وثابت قدمی ميں ان کی مدد کرتی هے…۔“ ٦
((وآتاہ علمہ ))اور اسے اپنا علم عطا فرمايا هے۔امام محمد باقر(ع) سے مروی صحيح نص کے
مطابق خدا کے دو علم هيں، ايک علم وہ هے جسے اس کی ذات کے علاوہ کوئی دوسرا نهيں جانتا اور
دوسرا علم وہ هے جسے اس ذات اقدس نے ملائکہ وپيغمبران عليهم السلام کو تعليم فرمايا هے اور جس علم
کی ملائکہ وانبياء عليهم السلام کو تعليم دی هے، امام اس سے آگاہ هے۔ ٧
--------------
1 سورہ جن ، آيت ٢٧ ۔”مگر جس کو پيغمبر پسند فرمائے“۔
2 سورہ ص، آيت ٨٢ ۔ ٨٣ ۔”اس نے کها تو پهر تيری عزت کی قسم ، ان ميں سے تيرے خالص بندوں کے سوا سب کو
ضرور گمراہ کروں گا۔
3 سورہ حجر، آيت ۴٢ ۔”ميرے بندوں پر تيرا کوئی اختيار نهيں هے“۔
4 کافی ج ١ ص ١٩٣ ۔(چهٹے امام ايک حديث ميں فرماتے هيں خدا ايک هے اپنی وحدانيت کے ساته اپنے امر وحکم
کے سبب تک و تنها هے تو اس نے خلق کيا ايک مخلوق کو پهر اپنے امر کی خاطر ان کو معين کيا اب هم لوگ وهی لوگ هيں
اے ابن ابی يعفور !هم خدا کی حجت هيں هم اس کے بندوں کے درميان اور هم اس کے علم کے خزانہ دار هيں اور همارا قيام و
ثبات اسی کی ذات پر هے ۔
5 سورہ اسراء، آيت ٨۵ ۔ ”اور پيغمبر يہ آپ سے روح کے بارے ميں دريافت کرتے هيں تو کہہ ديجئے کہ يہ ميرے
پروردگار کا ايک امر هے“۔
6 اصول کافی،ج ١، ص ٢٧٣ ۔
7 بحار الانوار، ج ٢۶ ، ص ١۶٣ ۔
٨٧
((واستودعہ سرہ))اور اپنا راز اس کے سپرد کيا هے۔ صحيح حديث کے مطابق امام ابوالحسن
(ع)نے فرمايا:”خدا نے اپنا راز جبرئيل(ع) کے سپرد کيا، جبرئيل نے محمد(ص) کے سپرد کيا اور
محمد(ص)نے اس کے سپرد کيا جس کے بارے ميں خود خدا نے چاها۔“ ١
ط۔((رضی اللّٰہ بہ إماما لهم))اس ميں کسی قسم کے شک وترديد کی گنجائش نهيں کہ امت کو امام
کی ضرورت هے اور امت کے امام کا خدا کا مورد پسند هونا ضروری هے۔ وہ خدا جو علم وجهل ميں سے
علم کو پسند فرماتا هے<قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ> ٢،سلامتی وآفت ميں سے سلامتی کو
پسند فرماتا هے<يَهْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ سُبُلَ السَّلَامِ > ٣، حکمت وسفاہت ميں سے حکمت کو پسند
فرماتا هے<يُو تِْٔی الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْراً کَثِيْرًا> ٤، عدل وفسق ميںسے عدل کو
پسند فرماتا هے<إِنَّ اللّٰہَ يَا مُْٔرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ> ٥، حق وباطل ميں سے حق کو پسند فرماتا هے <وَقُلْ جَآءَ
الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقاً> ٦، اورصواب وخطا ميں سے صواب کو پسند فرماتا هے<لَاَ
يَتَکَلَّمُوْنَ إِلاَّ مَنْ ا ذَِٔنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا> ٧، امت کی اطاعت کے لئے بهی يقينا اس کو پسند فرمائے گا
جس کی امامت علم، عدل، سلامتی، حکمت، صواب، حق او رهدايت کی امامت هو۔ ساته اس کے کہ بہترين
کا انتخاب کرنا خدا کے نزديک پسنديدہ هے <اَلَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبُعُوْنَ ا حَْٔسَنَہ> ٨، بہترين کو هی حاصل
کرنے کاحکم فرماياهے<وَا مُْٔرْ قَوْمَکَ يَا خُْٔذُوْا بِا حَْٔسَنِهَا> ٩اور بہترين قول کا حکم ديا هے <قُلْ لِّعُبَادِی يَقُوْلُوا
الَّتِیْ هِیَ ا حَْٔسَنُ> ١٠ اور مجادلے کے وقت بہترين طريقے سے گفتگو کرنے کا حکم فرمايا هے <وَجَادِلْهُمْ
بِالَّتِیْ هِیَ ا حَْٔسَنُ> ١١ اور رد کرتے وقت، بہترين طريقے سے رد کرنے کی تلقين فرمائی هے <اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ
ا حَْٔسَنُ> ١٢ اور جو خود هی احسن جزا دينے والا هے <وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ ا جَْٔرَهُمْ بِا حَْٔسَنِ مَا کَانُوا يَعْمَلُوْنَ> ١٣ اور
جو خود بہترين حديث نازل کرنے والا هے<اَللّٰہُ نَزَّلَ ا حَْٔسَنَ الَحَدِيْثِ> ١٤ ، کيا ممکن هے امت کی امامت کے
لئے اکمل، افضل، اعلم،اعدل اوراس احسن حديث ميں موجود تمام صفات کے مالک کے علاوہ کسی او ر
کو پسند فرمائے؟!
جب احسن کی اتباع کے حکم کا لازمہ يہ هے کہ احسن کی پيروی هو تو کيسے ممکن هے کہ
پروردگار عالم کسی غير احسن کی امامت وپيروی سے راضی هوجائے ؟!
<وَمَنْ ا حَْٔسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ يُّوْقِنُوْنَ> ١٥ اور اسی لئے فرمايا:((وانتدبہ بعظيم ا مٔرہ وا نٔبا ۂ فضل
بيان علمہ ونصبہ علما لخلقہ وجعلہ حجة علی ا هٔل عالمہ وضياء لا هٔل دينہ والقيم علی عبادہ رضی اللّٰہ بہ
إماما لهم ))۔
--------------
1 بحار الانوار، ج ٢، ص ١٧۵ ۔
2 سورہ زمر، آيت ٩۔”کہہ ديجئے کہ کيا وہ لوگ جو جانتے هيں ان کے برابر هو جائيں گے جو نهيں جانتے هيں“۔
3 سورہ مائدہ، آيت ١۶ ۔”جس کے ذريعہ خدا پنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستہ کی هدايت
کرتا هے“۔
4 سورہ بقرہ، آيت ٢۶٩ ۔”وہ جس کو بهی چاہتا هے حکمت عطا کر ديتا هے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے
خير کثير عطا کر ديا گيا“۔
5 سورہ نحل، آيت ٩٠ ۔”بے شک الله عدل اور احسان کا حکم ديتا هے“۔
6 سورہ اسراء، آيت ٨١ ۔”اور کہہ ديجئے کہ حق آگيا اور باطل فنا هو گيا کہ باطل بهر حال فنا هونے والا هے“۔
7 سورہ نباء، آيت ٣٨ ۔”اور کوئی بات بهی نہ کر سکے گا علاوہ اس کے جسے رحمان اجازت ديدے اور صحيح بات
کرے“۔
8 سورہ زمر، آيت ١٨ ۔”جو باتوں کو سنتے هيں اور جو بات اچهی هوتی هے اس کا ابتاع کرتے هيں“۔
9 سورہ اعراف، آيت ١۴۵ ۔”اور اپنی قوم کو حکم دو کہ اس کی اچهی اچهی باتوں کو لے ليں“۔
10 سورہ اسراء، آيت ۵٣ ۔”اور ميرے بندوں سے کہہ ديجئے کہ صرف اچهی باتيں کيا کريں“۔
11 سورہ نحل، آيت ١٢۵ ۔اور ان سے اس طريقہ سے بحث کريں جو بہترين طريقہ هے“۔
12 سورہ مومنون، آيت ٩۶ ۔”اور آپ برائی کو اچهائی کے ذريعہ دفع کيجئے“۔
13 سورہ نحل، آيت ٩٧ ۔”اور انهيں ان عمال سے بہتر جزاديں گے جو وہ زندگی ميں انجام دے رهے تهے“۔
14 سورہ زمر، آيت ٢٣ ۔”اس نے بہترين کلام اس کتاب کی شکل ميں نازل کيا هے“۔
15 سورہ مائدہ، آيت ۵٠ ۔”جب کہ صاحبان يقين کے لئے الله کے فيصلہ سے بہتر کس کا فيصلہ هو سکتا هے“۔
|
|