اصول دين سے آشنائی
 

پانچويں حديث:
فريقين کے اکابر ائمہ حديث ، اس حديث کی صحت پر متفق هيں کہ آنحضرت نے فرمايا:
علی مع القرآن والقرآن مع علی لن يتفرقا حتی يردا علی الحوض۔ ٢
اس حديث کے معنی، قرآن مجيد کی شناخت کے بعد هی واضح هوسکتے هيں۔ مندرجہ ذيل سطور
ميں بطور اختصار چند نکات ذکر کئے جارهے هيں۔
١۔ آسمانی کتب ميں قرآن مجيد سے افضل کتاب موجود نهيں <اللهُ نَزَّلَ ا حَْٔسَنَ الْحَدِيثِ کِتَابًا
مُتَشَابِہًا> ٣
<إِنَّ ہَذَا الْقُرْآنَ يَہْدِی لِلَّتِی ہِیَ ا قَْٔوَمُ> ١
--------------
1 سورہ نجم آيت ٣: وہ تو اپنی نفسانی خواهش سے کچه بولتے نهيں هيں۔
2 علی(ع) قرآن کے ساته هيں اور قرآن علی(ع) کے ساته جو کبهی بهی ايک دوسرے سے جدا نهيں هوسکتے، يهاں
تک حوض کوثر پر ميرے پاس پهنچ جائيں۔
المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ١٢۴ ، نيز اس کتاب کے خلاصہ ميں بهی يہ حديث موجود هے، المعجم الصغير،
، ج ١، ص ٢۵۵ ، المعجم الاوسط، ج ۵، ص ١٣۵ ، الجامع الصغير، ج ٢، ص ١٧٧ ، کنز العمال، ج ١١ ، ص ۶٠٣ ، فيض القدير، ج ۴
ص ۴٧٠ ، سبل الهدیٰ و الرشاد، ج ١١ ، ص ٢٩٧ ، ينابيع المودة، ج ١، ص ١٢۴ و ٢۶٩ ، نيز اهل سنت کے ديگر منابع۔
، ٢٩٧ ، الطرائف، ص، ١٠٣ ، الاربعون حديثاً، ص ٧٣ ، کشف الغمّہ، ج ١، ص ١۴٨ ، الاحتجاج، ج ١، ص ٢١۴،٢٢۵
الامالی شيخ طوسی، ص ۴۶٠ ، المجلس السادس عشر، ح ٣۴ ، و ص ۴٧٩ ، و ۵٠۶ ، نيز شيعوں کے ديگر منابع۔
3 سورہ زمر آيہ ٢٣ ، خدا نے قرآن کو نازل فرمايا جو کہ بہترين حديث هے ايسی کتاب جس کی آيات متشابہ هيں۔

٧٢
٢۔ خداوند متعال نے قرآن کريم کو ايسے اوصاف سے متصف فرمايا هے کہ زبان ان کے بيان
سے اور قلم ان کی تحرير سے عاجز هے ۔
<بَلْ هو قُرْآنٌ مَجِيدٌ۔ فِی لَوْحٍ مَحْفُوظٍ> ٢
< إِنَّہُ لَقُرْآنٌ کَرِيمٌ فِی کِتَابٍ مَکْنُونٍ > ٣
< وَلَقَدْ آتَيْنَاکَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ > ٤
< يَس وَالقُرْآنِ الْحَکِيْمِ> ٥
٣۔ خداوند تعالی نے اپنے آپ کو معلم قرآن قرار ديا هے۔< اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ> ٦
۴۔ جبروت الٰهی سے جب امور نے اس کتاب ميں تجلی کی هے ان کی جانب اشارہ کرتے هوئے
ارشاد پروردگار هے۔<لَوْ ا نَْٔزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَرَا ئَْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللهِ> ٧
۵۔ اسراز و رموز کے پردے ميں مخفی، خداوند تعالیٰ کے قدرت نے آيات قرآن ميں تجلّی کی
هے۔ اس کی نشاندهی کرتے هوئے خداوند تعالی نے فرمايا:< وَلَوْ ا نََّٔ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ ا ؤَْ قُطِّعَتْ بِہِ
الْا رَْٔضُ ا ؤَْ کُلِّمَ بِہِ الْمَوْتَی> ٨
۶۔ يہ کتاب، مظهر علم و حکمت الٰهی هے <وَإِنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَکِيمٍ عَلِيمٍ> ٩
<وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَہُدًی وَرَحْمَةً> ١٠
٧۔ اس کتاب کے نازل کرنے پر خداوند تعالی نے خود اپنی تعريف و تمجيد فرمائی هے۔ <اَلْحَمْدُ
لِلَّہِ الَّذِی ا نَٔزَلَ عَلَی عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَہُ عِوَجَا > ١١
٨۔ اس کتاب عزيز سے تمسک رکهنے کے سلسلے ميں آنحضرت فرماتے هيں: پس جب بهی فتنے
اور آشوب تم پر مشتبہ هوکر تمهيں اپنی لپيٹ ميں لے ليں تو قرآن کا رخ کرو کيونکہ قرآن يقينا ايسا شفيع
هے کہ جس کی شفاعت قبول کرلی گئی هے، برائيوں کی خبر دينے والا ايسا مخبر هے جس کی خبر
مصدقہ هے ۔ جو بهی اسے اپنا رهبر بنائے گا يہ جنت کی جانب اس کی رهبری کرے گا جو بهی اسے پس
پشت رکهے گا يہ اسے جهنم کی جانب لے جائے گا قرآن بہترين راهوں کی جانب راهنمائی کرنے والا
راهنما هے۔ يہ وہ کتاب هے جس ميں تفصيل و بيان هے اور حصول حقائق کا طريقہ يہ حق کو باطل سے
جدا کرتی هے اس کا کلام قطعی اور نپا تلا هے۔ شوخی و مزاح نهيں۔ اس کا ايک ظاهر هے اور ايک
باطن۔ ا س کا ظاهرحکم اور باطن علم هے۔ اس کے ظاهر حسين و جميل اور باطن عميق اور گهرا هے ۔
اس کی حدود هيں اور ان حدود کی بهی حدود هيں۔ اس کی محيّر العقول باتيں نا قابل شمار هيں اور اس کے
عجائب و جدتيں کبهی پرانی نہ هونگی۔ اس ميں هدايت کے چراغ هيں۔ نور حکمت کے پرتو اسی سے
نکلتے هيں جو اسے سمجه لے تو يہ کتاب طريق معرفت کے لئے اس کی دليل و راهنما هے-“۔ ١٢
--------------
1 سورہ اسراء آيہ ٩ ، بے شک قرآن اس راستہ کی هدايت کرتا هے، جو سب سے زيادہ سيدهی هے۔
2 سورہ بروج آيہ ٢٠ ۔ ٢١ ،بلکہ يہ قرآن مجيد جو لوح محفوظ ميں لکها هوا هے۔
3 سورہ واقعہ آيہ ٧٧ ۔ ٧٨ ،بے شک يہ بڑے رتبہ کا قرآن هے جو کتا ب (لوح) محفوظ ميں لکها هوا هے۔
4 سورہ حجر آيہ ٨٧ ، اور هم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظيم عطاء کيا هے۔
5 سورہ يس ١۔ ٢، يس (اس) پر از حکمت قرآن کی قسم۔
6 سورہ رحمن۔ ١۔ ٢۔، خدای مهربان۔ تعليم دی قرآن کی۔
7 سورہ حشر آيہ ٢١ ، اگر نازل کرتے قرآن کو پهاڑ پر تو تم ديکهتے کہ کس طرح پهاڑ خشيت خدا سے ريزہ ريزہ
هوجاتے۔
8 سورہ رعد۔ آيہ ٣١ ، ترجمہ: اور اگر کوئی ايسا قرآن (بهی نازل هوا) هوتا جس کی برکت سے پهاڑ (اپنی جگہ سے)
چل کهڑے هوتے يا اس کی وجہ سے زمين (کی مسافت) طے کی جاتی اور اس کی برکت سے مردے بول اٹهتے۔
9 سورہ نمل آيہ ۶۔، اے رسول آيات قرآن عظيم از طرف خدای حکيم و دانا آپ پر وحی القاء هوتی هے۔
10 سورہ نحل آيہ ٨٩ ، هم نے اس قرآن عظيم کو تم پر نازل کيا جو کہ هر چيز کی حقيقت کو روشن کرتا هے اور
هدايت و رحمت هے۔
11 سورہ کہف آيت ١۔ هر طرح کی تعريف خدا هی کو سزاوار هے جس نے اپنے بندے محمد ( (ص)) پر کتاب
(قرآن) نازل کی اور اس ميں کسی طرح کی کجی (خرابی) نہ رکهی۔
12 الکافی، ج ٢، ص ۵٩٩ ۔

٧٣
جی هاں، خداوند متعال نے اس کتاب ميں اپنی مخلوق کے لئے تجلی کی هے۔ جس ذات نے اس
کتاب کو نازل کيا هے اسی نے قرآنی آيات ميں اور جس پر يہ کتاب نازل هوئی هے اس نے اپنی بالائی
سطور ميں اس قرآن کی تعريف کی هے۔ کيا عظيم قدر و منزلت هے اس شخص کی جسے ختمی مرتبت
نے قرآن کے همراہ اور قرآن کو اس کے همراہ قرار ديا هے۔
حامل حکمت قرآن هونے کی بناء پر وہ ظاهر قرآن کے همراہ اور علم قرآن کا حامل هونے کی
بناء پر وہ باطن قرآن کے همراہ هے ۔ يہ هستی شمار نہ کئے جانے والے عجائبات اور کبهی ختم نہ هونے
والے محيّر العقول غرائبات کے ساته هے۔ اور اس معيت و همراهی کی بنا ء پر گذشتہ تمام انيباء پر نازل
هونے والی حکمت و کتاب، اس کے پاس هے۔
فريقين کے اکابر مفسرين و محدثين ١سے منقول روايات کے مطابق کلام مجيد ميں مذکور ”اُذُن
واعيہ“ (تمام چيزوں کو اچهی طرح سے سننے والا کان) علی هی هے۔ جهاں ارشاد قدرت هے: ”وَ تَعِيہَا
اُذُنٌ وَاعِيَةٌ“ ٢
وهی جس نے کها: (سلونی فوالله لاتسا لٔونی عن شی يکون إلی يوم القيامة الاَّ حدثتکم بہ و سلونی
عن کتاب الله، فو الله ما من آية إلاَّ و ا نٔا ا عٔلم ا بٔليل نزلت ا مٔ بنهار۔ ٣
اس هستی کی کيا عظيم منزلت هوگی کہ جسے رسول اکرم(ص) نے قرآن کے همراہ قرار ديا هو۔
واضح هے کہ همراهی اور معيت هميشہ دو طرفہ هوا کرتی هے يعنی جب علی قرآن کے ساته هيں تو قرآن
بهی يقينا علی کے ساته هے ليکن اس کے باوجود آنحضرت نے علی مع القرآن فرما نے پر اکتفا ء نہ کيا
بلکہ آپ عليہ السلام کی عظمت ميں اضافہ کرتے هوئے فرمايا: والقرآن مع علی، اور اس نکتے کو صرف
اولوالالباب هی درک کرسکتے هيں۔
اس حديث کے پهلے جملے ميں علی سے کلام کی ابتداء کرنا اور قرآن پر ختم کرنا نيز دوسرے
جملے ميں قرآن سے ابتداء اور علی پر جملے کا اختتام کرنا وہ بهی فصيح و بليغ ترين هستی کی زبان سے،
ايسے باريک و دقيق نکات پر مشتمل هے کہ جس کی تشريح و تفسير اس مختصر کتاب ميں نهيں کی
جاسکتی۔
المختصر يہ کہ انبياء و مرسلين کے درميان رسول امين سے افضل کوئی نهيں اور کيونکہ علی
--------------
1-عليہ السلام آنحضرت(ص)سے اور آنحضرت(ص)علی عليہ السلام سے هيں (انت منی و انا منک) لہٰذا خدا کی افضل ترين مخلوق کے بعد بلا فصل آپ عليہ السلام هی کا رتبہ هے۔
ادهر دوسری طرف تمام آسمانی کتب ميں قرآن مبين سے اعلی و ارفع کوئی کتاب نهيں، اور
کيونکہ علی قرآن کے اور قرآن علی کے ساته هے (علیّ مع القرآن والقرآن مع علی ) لہٰذا قلب علی بن ابی
؛١٧٧ ، 1 شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحديد، ج ٧، ص ٢٢٠ ؛ نظم درر السمطين، ص ٩٢ ؛ کنز العمّال، ج ١٣ ، ص ١٣۵
، ٣۶٢ وغيرہ؛ الجامع لاحکام القرآن، ج ١٨ ، جامع البيان، ج ٢٩ ، ص ۶٩ ؛ اسباب النزول، ص ٢٩۴ ؛ شواهد التنزيل، ج ٢، ص ٣۶١
، ص ٢۶۴ ؛ تفسير ابن کثير، ج ۴، ص ۴۴١ ؛ الدر المنثور، ج ۶، ص ٢۶٠ ؛ تاريخ مدينة دمشق، ج ٣٨ ، ص ٣۴٩ ، ج ۴١ ، ص ۴۵۵
ج ۴٢ ، ص ٣۶١ ، اور اهل سنت کی ديگر کتابيں۔
بصائر الدرجات، ص ۵٣٧ ، الجزء العاشر، باب ١٧ ، ح ۴٨ ؛ الکافی، ج ١، ص ۴٢٣ ؛ عيون اخبار الرضا (عليہ السلام)،
ج ٢، ص ۶٢ ، باب ٣١ ، ح ٢۵۶ ؛ روضة الواعظين، ص ١٠۵ ؛ مناقب امير المومنين عليہ السلام، ج ١، ص ١۴٢ وغيرہ؛ دلائل الامامة،
ص ٢٣۵ ؛ تفسير العياشی، ج ١، ص ١۴ ؛ تفسير فرات الکوفی، ص ۴٩٩ ؛ التبيان، ج ١٠ ، ص ٩٨ ؛ مجمع البيان، ج ١٠ ، ص ١٠٧ اور
شيعوں کی ديگر کتابيں۔
2 سورہ حاقہ، آيت ١٢ ، اور اسے ياد رکهنے والے کان سن کر ياد رکهيں۔
3 مجه سے سوال کرو، خدا کی قسم مجه سے کوئی چيز نهيں پوچهوگے قيامت تک مگر يہ کہ ميں اس کے بارے ميں
خبر دوں گا، قرآن کے بارے ميں سوال کرو، خدا کی قسم کوئی بهی آيت ايسی نهيں هے جس کے بارے ميں ميں نہ جانتا هوں کہ
يہ رات ميں نازل هوئی هے يا دن ميں۔
، فتح الباری، ج ٨، ص ۴۵٩ ، کنز العمال، ج ٣، ص ۵۶۵ ، اور تهوڑے سے فرق کے ساته شواهد التنزيل، ج ١، ص ۴٢
تفسير ثعالبی، ج ١، ص ۵٢ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ١، ص ٣۵ ، الجرح و التعديل، ج ۶، ص ١٩٢ ، تہذيب الکمال، ج ٢٠ ، ص
، ۴٨٧ ، تہذيب التہذيب، ج ٧، ص ٢٩٧ ، ا نٔساب الاشراف، ص ٩٩ ، ينابيع المودة، ج ٢، ص ١٧٣ ، و ۴٠٨ ، ذخائر العقبیٰ، ص ٨٣
تفسير القرآن عبد الرزاق، ج ٣، ص ٢۴١ ، الطبقات الکبری، ج ٢، ص ٣٣٨ ، تاريخ مدينة دمشق، ج ۴٢ ، ص ٣٩٨ ميں، اور اهل
سنت کے ديگر مصادر۔
مناقب آل ابی طالب، ج ١، ص ۶۴ ؛ وصول الاخيار الی اصول الاخبار، ص ۴؛ المناقب، ص ٩۴ ؛ کشف الغمة، ج ١، ص
١١٧ ؛ سعد السعود، ص ٢٨۴ ، تفسير العيّاشی، ج ٢، ص ٢٨٣ ، اور شيعوں کے ديگر منابع و مآخذ۔

٧۴
طالب عليہ السلام خداوند تعالی کی جانب سے نازل کردہ تمام امور کا آئينہ هے اب خواہ وہ امر هدايت
هو،نور هو، حکمت هو يا کوئی بهی اور شئے۔
کيا ان تمام صفات سے متصف هونے کے بعد بهی کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا هے کہ رسول
اکرم(ص) کی خلافت اور قرآن عظيم کی تفسير کے لئے علی عليہ السلام کی ذات شائستہ ترين هے؟
کيا اس بات ميں کوئی شک باقی رہ جاتا هے کہ علی عليہ السلام خدا پر ايمان رکهنے والے هر
انسان کے مولا هيں کہ جس نے فرمايا: <وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ> ١ <وَمَا عَلَی الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ> ٢

حديث ششم:
وہ حديث هے جس کی سند کے صحيح هونے کا محدثين اور رجالِ اهل سنت نے اعتراف کيا هے۔
اس کا خلاصہ يہ هے کہ کچه لوگ ابن عباس کے پاس آئے جو امير المومنين(ع) کے بارے ميں ناروا الفاظ
استعمال کر رهے تهے، تو ابن عباس نے کها:ايسے شخص کے بارے ميں ناروا کہہ رهے هو جو ايسی
دس فضيلتوں کا مالک هے کہ اس کے علاوہ کسی اور کے لئے نهيں هيں۔
١۔جنگ خيبر ميں (جب دوسرے گئے اور عاجز هو کر پلٹ آئے تو) رسول خدا(ص) نے فرمايا:
ايسے شخص کو بهيجوں گا جسے خدانے هر گز ذليل ورسوا نهيں کيا وہ خدا ورسول(ص)سے محبت کرتا
هے اور خدا اور رسول(ص) اس سے محبت کرتے هيں۔
سب گردنيں اٹها اٹها کر ديکهنے لگے کہ وہ کون هے ؟ آنحضرت(ص) نے فرمايا: علی(ع) کهاں
هيں؟ آپ دکهتی آنکهوں کے ساته آئے، رسول خدا سے شفا پانے کے بعد، آنحضرت(ص)نے علم کو تين
مرتبہ لهرانے کے بعد علم علی(ع) کو ديا۔
٢۔فلاں کو رسول خدا(ص) نے سورہ توبہ کے ساته مشرکين کی جانب روانہ کيا، پهر اس کے
پيچهے علی(ع) کو بهيجا اور اس سے سورہ لے کر فرمايا: يہ سورہ اس فرد کے علاوہ کوئی نهيں لے
جاسکتا جو مجه سے هے اور ميں اس سے هوں۔
٣۔رسول خد ا(ص) نے فرمايا: تم ميں سے کون هے جو دنيا او رآخرت ميں ميرا ولی هو؟ کسی
نے قبول نہ کيا، علی(ع)سے فرمايا:دنيا وآخرت ميں تم ميرے ولی هو۔
۴۔ خديجہ کے بعد علی(ع) سب سے پهلے ايمان لائے۔
۵۔ رسول خدا(ص) نے چار افراد علی و فاطمہ وحسن وحسين عليهم السلام پر اپنی چادر اوڑها
کر فرمايا:<إِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰہُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ا ۂَْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا>
۶۔ علی(ع) وہ هے جس نے اپنی جان کو رسول خدا(ص) پر فدا کيا، آنحضرت(ص) کا لباس پهن
کر رات بهر آپ(ص) کے بستر پر سوئے اور صبح هونے تک مشرکين آپ(ع) کو پيغمبر سمجه کر پتهر
برساتے رهے۔
٧۔ غروہ تبوک ميں علی(ع) کو اپنا نائب بنا کر مدينہ ميں رهنے کو کها۔ جب علی(ع) رسول
خدا(ص) کے فراق کی وجہ سے آبديدہ هوئے تو آپ(ص) نے فرمايا:آيا تم راضی نهيں هوکہ تمهاری نسبت
مجه سے وهی هو، جوهارون کو موسی سے تهی،سوائے اس کے کہ ميرے بعد کوئی پيغمبر نهيںهے۔
يقيناميرا جانا اسی وقت سزاوار هے جب تم ميرے خليفہ هو۔
٨۔رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمايا:ميرے بعد تم هر مومن ومومنہ کے ولی هو۔
٩۔رسول خدا(ص) نے علی(ع) کے گهر کے دروازے کے علاوہ مسجد نبوی ميں کهلنے والے
تمام دروازوں کو بند کيا۔
١٠ ۔رسو ل خدا(ص) نے فرمايا :((من کنت مولاہ فعلی مولاہ)) ٣
--------------
1 سورہ حشر آيہ ٧، اور جو تم کو رسول دے ديں وہ لے ليا کرو۔
2 سورہ نور آيہ ۵۴ ، اور رسول پر رسالت کامل کے ابلاغ کے علاوہ کچه فرض نهيں هے۔
3 مستدرک صحيحين، ج ٣، ص ١٣٢ ،مسند احمد بن حنبل، ج ١، ص ٣٣٠ ؛ سنن کبریٰ، ج ۵، ص ١١٢ ، معجم کبير،
ج ١٢ ، ص ٧٧ ، فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج ٢، ص ۶٨٢ ، حديث نمبر ١١۶٨ ، اور اهل سنت کی دوسری کتابيں۔
تفسير فرات الکوفی، ص ٣۴١ ؛ شرح الاخبار، ج ٢، ص ٢٩٩ ، العمدة، ص ٨۵ و ص ٢٣٨ ، کشف الغمةفی معرفة الائمة،
ج ١، ص ٨٠ اور شيعوں کی دوسری کتابيں۔

٧۵
آيا پيغمبر(ص) کی اس نص کے باوجود کہ تمام اصحاب کے هوتے هوئے فتح کاعلم علی(ع) کو
ديا،صرف اس کو خدا اور رسول(ص)کا حبيب و محبوب کها، خدا کے پيغام کو دوسروں سے لے کراسے
ديا کہ ضروری هے کہ علی(ع) مبلّغ کلام خدا هو، کيونکہ وہ مجه سے او رميں اس سے هوں، اسی طرح
آنحضرت(ص) کی يہ تصريح کہ ميرا جانا اس وقت تک سزاوار نهيں جب تک کہ تم ميرے خليفہ نہ هو،
علی(ع) کی ولايت مطلقہ و کليہ کا بيان ((ا نٔت ولی کل مومن بعدی ومومنة )) اور ((من کنت مولاہ فعلی
مولاہ))۔کيا اس سنت صحيحہ کے باوجود علی(ع) کی خلافت بلا فصل ميں اهل نظر وانصاف کے لئے کسی
قسم کے شک و ترديد کی گنجائش باقی رہ جاتی هے ؟!
اس مختصر مقدمے ميں اس موضوع سے متعلق آيات واحاديث کی گنجائش نهيں، جيسا کہ
پانچويں صدی هجری کے نامور افراد ميں سے حسکانی حنفی نے مجاهد جيسے بزرگ تابعين اور اعلامِ
مفسرين سے نقل کيا هے کہ علی(ع) کے لئے ستر فضيلتيں ايسی هيں جن ميں سے کوئی ايک بهی، پيغمبر
اکرم(ص) کی کسی صحابی کو حاصل نهيں هے، جب کہ اصحاب پيغمبر(ص) کے تمام فضائل ميں علی(ع)
ان کے شريک هيں۔ ١
اور ابن عبا س سے روايت کی هے کہ قرآن کی <اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ> جيسی تمام آيا ت
کے مصاديق ميں علی(ع) سب کے سيد وسردار هيں اور اصحاب محمد(ص)ميں سے کوئی ايسا نهيں جس
پر خدا نے ناراضگی کا اظهار نہ کيا هو، جب کہ علی(ع) کو اچهائی کے علاوہ ياد نهيںکيا۔ ٢
علی(ع) ميں اٹهارہ فضيلتيں ايسی هيں کہ اس امت کے کسی فرد کے پاس اس جيسی ايک فضيلت
بهی هو تو اس کے ذريعے نجات يافتہ هوجائے اور بارہ فضيلتيں ايسی هيں جو اس امت ميں سے کسی کے
پاس بهی نهيں هيں۔ ٣
ابن ابی الحديد کہتا هے:”همارے استاد ابوالہذيل سے پوچها گيا:خدا کے نزديک علی(ع) کا مقام
زيادہ بلند هے يا ابو بکر کا ؟“
جواب ديا:” خدا کی قسم! خندق کے دن علی(ع) کا عمرو سے مقابلہ، تمام مهاجرين وانصار کے
اعمال واطاعت کے برابر هے، تم تنهاابو بکر کی بات کرتے هو“ ٤
حنبلی مذهب کے امام، احمد کا کهنا هے:((ماجاء لا حٔد من ا صٔحاب رسول اللّٰہ من الفضائل ماجاء
لعلیّ بن ا بٔی طالب)) ٥
لغت وادب کے ماهر اور علم عروض کے بانی، خليل بن احمد کے بقول:”کسی کے بهی فضائل
يا دوستوں کے ذريعہ نشر هوتے هيں يا دشمنوں کے ذريعے۔ علی بن ابی طالب(ع) کے فضائل کو دوستوں
نے خوف اور دشمنوں نے حسد کی وجہ سے چهپايا، اس کے باوجود آپ کے فضائل اس طرح سے نشر
هوگئے“ ٦
اگر دشمنوں کا حسد اور دوستوں کو خوف نہ هوتا اور حکومتِ بنو اميہ و بنی عباس کی اندهيری
راتوں کی تاريکياں اس سورج پر پردے نہ ڈالتيں تو علی(ع) کی فضيلتوں کا نور آفاق کو کس طرح روشن
و منور کر ديتا؟!
اس مقدس گفتگو کو آپ(ع) کی شان ميں دو آيتوں کے ذکر پر ختم کرتے هيں:
١۔<إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَيُو تُْٔوْنَ الزَّکوٰةَ وَهُمْ رَاکِعُوْنَ> ٧
اکابر علمائے اهل سنت نے، اس آيت کے امير المومنين(ع)کی شان ميں نازل هونے کا اعتراف
کيا هے،فخر رازی کی نقل کردہ حديث کو بطور خلاصہ ملاحظہ فرمائيے:
--------------
1 شواهد التنريل، ج ١، ص ٢۴ ۔
2 شواهد التنريل، ج ١، ص ٣٢ ۔
3 شواهد التنريل، ج ١، ص ٢٢ ۔
4 شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحديد، ج ١٩ ، ص ۶٠ ۔
5 مستدرک صحيحين ،ج ٣، ص ١٠٧ ۔”جيسے فضائل علی کے لئے وارد هوئے هيں کسی دوسری صحابی کے لئے
نهيں هيں“۔
6 تنقيح المقال، ج ١، ص ۴٠٢ ۔
7 سورہ مائدہ، آيت ۵۵ ۔”بے شک فقط تمهاراولی خدا هے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ايمان لائے اور نماز کو
قائم کرتے هيں اور حالت رکوع ميںزکوة اداء کرتے هيں“۔

٧۶
”ابو ذر کہتے هيں:ميں نے ظهر کی نماز رسول خدا(ص) کے ساته ادا کی، ايک سائل نے مسجد
ميں آکر بهيک مانگی۔ کسی نے اسے کچه نہ ديا، علی(ع) رکوع کی حالت ميں تهے، آپ (ع)نے اس انگلی
سے، جس ميں انگوٹهی تهی،سائل کو اشارہ کيا، سائل نے آپ کے هاته سے وہ انگوٹهی لے لی۔ پيغمبر
اکرم(ص) نے خدا سے التجا کی اور فرمايا:خدايا! ميرے بهائی موسی پيغمبر نے تجه سے سوال کيا اور کها
:<رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ> تو نے اس پر نازل کيا <سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِا خَِٔيْکَ وَنَجْعَلُ لَکُمْا سِلْطَاناً>، بار الها!
ميں محمد تيرا بندہ هوں، مجهے شرح صدر عطا فرما، ميرا کام آسان فرما اور ميرے اهل سے علی کو
ميرا وزير قرار دے۔اس کے ذريعے ميری پشت کومضبوط فرما۔ ابو ذر کہتے هيں: خدا کی قسم! ابهی
رسول خدا(ص) کے کلمات ختم نہ هوئے تهے کہ جبرئيل اس آيت کے ساته نازل هوئے۔“ ١
رسول خدا(ص) کی دعا کے بعد اس آيت کا نازل هونا آپ(ص) کی دعا کا اثر هے،کہ جو مقام
هارون کو موسی کی نسبت حاصل تها وهی مقام و مرتبہ علی(ع) کو رسول خدا(ص) کی نسبت عطا کيا گيا۔
اور اس آيت ميں حرف عطف کی بنا پر جو الٰهی ولايت، رسول خدا(ص) کے لئے هے، علی(ع)
کے لئے بهی ثابت هے۔اور لفظ ((إنما)) انحصار پر دلالت کی وجہ سے اس بات کو ثابت کرتا هے کہ اس
آيت ميں خدا، رسول اور علی کی ولايت ايسی ولايت هے جو صرف ان تين ميں منحصر هے اور ” ولی“
کے معانی ميں سے اس کا معنی، ولايت امر کے علاوہ کچه نهيں هوسکتا۔
٢۔<فَمَنْ حَآجَّکَ فِيْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ ا بَْٔنَائَنَا وَا بَْٔنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ
وَا نَْٔفُسَنَا وَ ا نَْٔفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللّٰہِ عَلیَ الْکَاذِبِيْنَ> ٢
اس آيت کريمہ ميں اهل نظر کے لئے چند نکات هيں، جن ميں سے تين نکات کی طرف،طويل
تشريح سے گريز کرتے هوئے اشارہ کرتے هيں۔
رسو ل خدا(ص)کامباهلہ کے لئے دعوت دينا آپ(ص)کی رسالت کی دليل وبرهان هے، جب کہ
نصاریٰ کا مباهلہ سے گريزنصرانيت کے بطلان اور آئين محمدی کی حقانيت کا اعتراف هے۔ لفظ
((ا نٔفسنا))امير المومنين علی(ع) کی خلافت بلا فصل کی دليل هے، کيونکہ نص قرآن کے مطابق نفسِ
تنزيلی کے هوتے هوئے، جو در حقيقت وجودِ ختمی مرتبت(ص)کا تسلسل هے،کسی اور کی جانشينی هی
نهيں۔
تمام جيّد مفسرين ومحدثين کا جس بات پر اتفاق هے وہ يہ هے کہ((ا بٔنائنا))سے مراد حسن وحسين
عليهما السلام، ((نسائنا))سے مراد فاطمة الزهر اسلام الله عليها اور((ا نٔفسنا))سے مراد علی ابن ابی
طالب(ع) هيں۔ اس سلسلے ميں ايک حديث کا مضمون بطور خلاصہ ملاحظہ هو، جسے فخر رازی نے اس
آيت کی تفسير ميں نقل کيا هے:
”رسول خدا(ص) نے جب نجران کے نصاریٰ کے سامنے اپنے دلائل پيش کر دئے اور وہ اپنی
جهالت پر قائم رهے تو آپ(ص) نے فرمايا: ”خدا نے مجهے حکم فرمايا هے کہ اگر تم دليل نهيں مانتے هو
تو ميں تمهارے ساته مباهلہ کروں۔“ يہ سن کر انهوں نے کها:”اے ابو القاسم! هم جا رهے هيں، اپنے امور
ميں سوچ بچار کے بعد دوبارہ لوٹ کر آئيں گے۔“جب وہ پلٹ کر گئے تو انهوں نے اپنے صاحب رائے،
عاقب سے پوچها:”اے عبد المسيح! تيرا کيا مشورہ هے؟“ تو اس نے کها: اے نصاریٰ تم جان چکے هو کہ
محمد خد اکے فرستادہ نبی هيں اور تمهارے لئے، عيسیٰ کے بارے ميں کلامِ حق لائے هيں۔خدا کی قسم!
کسی ايسی قوم نے پيغمبر کے ساته مباهلہ نهيں جس کے بڑے زندہ بچے هوں اور چهوٹے پرورش پاسکے
هوں، اگر تم نے اس کام کو انجام ديا تو جڑ سے اکهڑ جاؤگے۔ اگر اپنے دين پر باقی رهنا هی چاہتے هو تو
اس سے رخصت هو کر اپنے شهروں کو لوٹ جاؤ۔“
ادهر رسول خدا اس حالت ميں باهر آئے کہ حسين کو آغوش ميں لئے هيں، حسن کا هاته تهامے
هوئے هيں، فاطمہ (سلام الله عليها) آنحضرت کے پيچهے اور ان کے پيچهے پيچهے علی عليہ السلام
آرهے هيں۔ آنحضرت(ص) نے ان سے فرمايا: ”جب ميں دعا کروں، تم آمين کهنا۔“
نجران کے راهب نے کها:”اے گروہ نصاریٰ،ميں ايسے چهرے ديکه رها هوں کہ اگر خدا سے
چاهيں کہ پهاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تو ان صورتوں اور رخساروں کے لئے پهاڑوں کو اپنی جگہ
--------------
1 تفسير کبير، فخررازی، ج ١٢ ، ص ٢۶ ۔
2 سورہ آل عمران، آيت ۶١ ۔”پيغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کريں ان سے کہہ ديجئے کہ آو هٔم
لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اوراپنے اپنے نفسوں کو بلائيں اور پهر خدا کی بارگاہ ميں دعاکريں اور جهوٹوں پر
خدا کی لعنت قرارديں“۔

٧٧
سے ہٹا دے گا،مباهلہ نہ کرنا کہ هلاک هوجاو گے اور قيامت تک روئے زمين پر ايک بهی نصرانی باقی
نهيں رهے گا۔“
مباهلہ سے جان چهڑا کر صلح پر راضی هوگئے، مصالحت کے بعد رسول خدا(ص) نے
فرمايا:”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت ميں ميری جان هے! هلاکت اهل نجران کے نزديک تهی۔
اگر مباهلہ وملاعنہ کرتے تو بندر اور سور کی شکلوں ميں مسخ هوجاتے، يہ وادی ان کے لئے آگ بن
جاتی اور ايک سال کے اندر اندر تمام نصاری هلاک هوجاتے۔“
اورروايت هے کہ جب آنحضر ت(ص) سياہ کساء ميں باهر آئے تو سب سے پهلے حسن کو اس
کساء ميں داخل کيا، پهر اس کے بعد حسين، پهر جناب سيدہ اور اس کے بعد علی کو اور فرمايا <إِنَّمَا يُرِيْدُ
اللّٰہُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ ا ۂَْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَکُمْ تَطْهِيْرًا>
اس کے بعد فخر رازی کہتا هے:((واعلم ا نٔ هذہ الرواية کالمتفق علی صحتها بين ا هٔل التفسير
والحديث )) ١
اگر چہ اس آيت اور مورد اتفاق حديث کی تشريح کی گنجائش تو نهيں، ليکن صرف دو نکات کی
طرف اشارہ کرتے هيں :
١۔باهر آتے وقت ان هستيوں کو کساء تلے جمع کرکے يہ ثابت کرنے کے لئے آيت تطهير کی
تلاوت فرمائی کہ ايسی مافوق العادہ دعاجو اسباب طبيعی کو ناکارہ بنا کر بلا واسطہ طور پر خد ا کے
ارادے سے تحقق پيدا کرے، ضروری هے کہ هر رجس سے پاک روح کی جانب سے سبوح وقدوس کی
بارگاہ تک پهنچے کہ<إِلَيْہِ يَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّيِّبُ> ٢ اور جس طهارت کا پروردگا ر عالم نے ارادہ کيا هے وہ
ان هستيوں ميں هی پائی جاتی هے۔
٢۔نجران کے نصاری کے ساته رسول خدا(ص) کا مباهلہ، اس قوم کے لئے رحمت خدا سے دوری
کی درخواست تهی اور وہ دعا جس کی قبوليت سے انسان حيوان کی شکل ميں منقلب هوجائے،خاک اپنی
حالت تبديل کرکے آگ بن جائے اور ايک امت صفحہ هستی سے مٹ جائے،<إِنَّمَا ا مَُٔرُہ إِذَا ا رََٔادَ شَيْئًا ا نَْٔ
يَّقُوْلَ لِہ کُنْ فَيَکُوْنُ> ٣ کے ارادے سے متصل هوئے بغير نا ممکن هے۔ يہ انسان کامل کی منزلت هے کہ
اس کی رضا وغضب خدا کی رضا وغضب کا مظهر هو اوريہ مقام حضرت خاتم(ص) اوران کے جانشين
کا مقام هے۔وہ واحد خاتون جو اس مقام پر فائز هوئيں، صديقہ کبری کی هستی هے، جس سے يہ بات
سامنے آتی هے کہ عصمت کبریٰ جو ولايت کليہ اورامامت عامہ کی روح هے، فاطمہ زهرا عليها السلام
ميں موجود هے۔
اور يہ حديث بهی، کہ علماء اهل سنت جس کے صحيح هونے کے معترف هيں، اسی امر کو بيان
کر رهی هے کہ رسول خدا نے فرمايا:((فاطمة بضعة منی فمن ا غٔضبها ا غٔضبنی)) ٤ اورباوجود اس کے کہ
قرآن وسنت کے حکم کے مطابق پيغمبر(ص) کا غضب، خدا کا غضب هے،علماء اهل سنت نے يہ حديث
بهی نقل کی هے: قال رسول اللّٰہ لفاطمة: ((إن اللّٰہ يغضب لغضبک ويرضی لرضاک)) ٥
جس کی رضا پر خدا بغير کسی قيد وشرط کے راضی اور جس کے غضب پر غضبناک هو، عقل
کا تقاضا يہ هے کہ اس کی رضا وغضب، خطا اور هویٰ وهوس سے پاک هواور يهی عصمت کبریٰ هے۔
--------------
1 تفسير کبير، فخر رازی، ج ٨، ص ٨۵ ۔”جان لوکہ يہ وہ روايت هے جس کے صحيح هونے پر اهل تفسير وحديث نے
اتفاق کيا هے“۔
2 سورہ فاطر ، آيت ١٠ ۔”پاکيزہ کلمات اسی کی طرف بلند هوتے هيں“۔
3 سورہ يس، آيت ٨٢ ۔”اس کا صرف امر يہ هے کہ کسی شئے کے بارے ميں يہ کهنے کا ارادہ کر لے کہ هو جااور
وہ شئے هو جاتی هے“۔
4 صحيح بخاری باب مناقب فاطمہ سلام الله عليها، ج ۵، ص ٢٩ ۔”فاطمہ ميرے بدن کا ٹکڑا هے جس نے اس کو
غضبناک کيا اس نے مجه کو غضبناک کيا۔“
5 مستدرک صحيحين، ج ٣، ص ١۵۴ ومعجم کبير، ج ١، ص ١٠٨ والاحاد والمثانی، ج ۵، ص ٣۶٣ ۔”رسول خدا(ص)نے
جناب فاطمہ زهرا سلام الله عليها کے لئے فرمايا:بے شک خدا وند عالم تمهارے غضب سے غضبناک هوتا هے اور تمهاری
رضايت سے راضی هوتا هے“۔