|
۶١
٢۔اخوت وبرادری :
چونکہ حضرت موسی اور هارون عليهما السلام کے درميان نسب کے اعتبار سے برادری تهی،
رسول خدا(ص) نے حضرت علی عليہ السلام کے ساته اس منزلت کو عقد اخوت کے ذريعے قائم فرمايا، کہ
اس بارے ميں شيعہ اور سنی روايات کثرت سے موجود هيں، جن ميں سے ايک روايت کا پيش کردينا کافی
هے :
عبدالله بن عمرکاکهنا هے: مدينہ ميں داخل هونے کے بعد پيغمبر اکرم (ص) نے اصحاب کے
درميان اخوت وبرادری کا رشتہ برقرار کيا۔ حضرت علی(ع) آبديدہ هو کر آپ (ص) کی خدمت ميں
حاضر هو کر گويا هوئے: يارسول الله!آپ نے تمام اصحاب کو اخوت اور برادری کے رشتے ميں پرو ديا
ليکن مجهے کسی کا بهائی قرار نهيں ديا، آپ (ص) نے فرمايا((يا علی ا نٔت ا خٔی فی الدنيا و الآخرة)) ١
يہ اخوت اس امر کی نشاندهی کرتی هے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَة۔ ٢ کے نزول کے وقت حضرت علی
عليہ السلام کی منزلت هر مومن سے اعلی و ارفع تهی۔ کيونکہ فريقين کے منابع و مآخذ کے مطابق
آنحضرت نے اصحاب کے مقام و منزلت کے مطابق انهيں ايک دوسرے کا بهائی قرار ديا تها۔
جيسے کہ ابوبکر و عمر، عثمان و عبدالرحمن اور ابوعبيدہ و سعد بن معاذ و غيرہ کو ايک
دوسرے کا بهائی قرار ديا تها۔ ٣ جبکہ حضرت علی عليہ السلام کو اپنی اخوت کے لئے چنا تها۔ لہٰذا حضرت
علی عليہ السلام بنی آدم کے درميان سب سے افضل و اشرف کيوں نہ هوں؟ جبکہ رسول اکرم (ص) نے
دنيا و آخرت ميں آپ کے ساته اپنی اخوت کا صراحتاً اعلان بهی فرما ديا هو۔ يہ اخوت اس امر کو واضح
کرديتی هے کہ حضرت علی اور کائنات کی افضل ترين مخلوق يعنی رسول اکرم (ص) کے درميان
روحی، علمی، عملی اور اخلاقی مشابہت و مساوات وجود ميں آچکی تهی <وَلِکُلٍّ دَرَجَاتُ مِمَّا عَمِلُوْا> ٤
جبکہ دنيا و آخرت کے مراتب انسان کی سعی و کوشش اور کسب و اکتساب هی کے مرهون منت
هيں:<وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَومِ الْقِيَامَةِ فَلاَ تَظْلَمُ نَفْسُ شَيْئاً > ٥
يقينا خداوند متعال علی بن ابی طالب عليہ السلام کے اس حق جهاد کو بہتر جانتا هے جو آپ عليہ
السلام نے خداوند متعال کے لئے انجام ديا۔ يهاں تک کہ آپ عليہ السلام اس دنيا ميں اس هستی کے هم مرتبہ
هوگئے کہ جس کے لئے خداوند تعالیٰ نے يہ فرمايا: <وَ عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبّکَ مَقَاماً مَحْمُوداً> ٦
اس مقام و منزلت کو بجز آنحضرت کے الفاظ کے علاوہ کسی اور الفاظ ميں بيان نهيں کيا جاسکتا
کہ جن ميںآپ (ص)نے فرمايا: (انت اخی فی الدنيا والآخرة) اور حضرت امير عليہ السلام، عبوديت الٰهی
کے بعد اسی اخوت کے مرتبے پر افتخار کيا کرتے تهے، جيسا کہ خود آپ نے فرمايا:”انا عبد الله واخي
رسولہ“ ٧ميں خدا کا بندہ اور رسول خدا (ص) کا بهائی هوں۔ اور بروز شوری آپ(ع)نے فرمايا: کيا ميرے
علاوہ تم ميں کوئی ايسا شخص هے جسے رسول خدا (ص) نے اپنا بهائی قرار ديا هوں۔ ١
--------------
، 1 (اے علی ! تم دنيا وآخرت ميں ميرے بهائی هو)، مستدرک صحيحين ج ٣ ص ١۴ ؛ سنن الترمذی، ج ۵، ص ٣٠٠
؛ نمبر ٣٨٠۴ ؛ اسد الغابة، ج ۴، ص ٢٩ ؛ البداية و النهاية، ج ٧، ص ٣٧١ ؛ مجمع الزوائد، ج ٩، ص ١١٢ ؛ فتح الباری، ج ٧، ص ٢١١
تحفة الاحوذی، ج ١٠ ، ص ١۵٢ ؛ تاريخ بغداد، ج ١٢ ، ص ٢۶٣ ؛ نظم درر السمطين، ص ٩۵ ؛ کنزل العمال، ج ١٣ ، ص ١۴٠ ؛ تاريخ
مدينة دمشق، ج ۴٢ ، ص ١٨ و ۵٣ و ۶١ ؛ ا نٔساب الاشراف، ص ١۴۵ ؛ ينابيع المودة، ج ٢، ص ٣٩٢ ، اور اهل سنت کے ديگر مآخذ۔
مناقب آل ا بٔی طالب، ج ٢، ص ١۵٨ ؛ اور اسی سے ملتی جلتی عبارت خصال ، ص ۴٢٩ ؛ باب ١٠ ، ح ۶، مناقب ا مٔير
٣۴٣ و ٣۵٧ ؛ شرح الاخبار، ج ٢، ص ١٧٨ و ۴٧٧ و ۵٣٩ ؛ العمدة، ص ١۶٧ ،٣٢۵ ،٣١٩ ، المومنين عليہ السلام، ج ١، ص ٣٠۶
و ١٧٢ ، اور شيعوں کے ديگر منابع۔
2 سورہ حجرات آيہ ١٠ ترجمہ: مومنين آپس ميں بهائی بهائی هيں۔
3 المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ١۴ ، و ٣٠٣ ، الدرّ المنثور، ج ٣، ص ٢٠۵ ، اور اهل سنت کے ديگر منابع،
الا مٔالی شيخ طوسی، ص ۵٨٧ ؛ مناقب آل ابی طالب، ج ٢، ص ١٨۵ ؛ العمدة، ص ١۶۶ ، اور شيعوں کے ديگر منابع۔
4 سورہ انعام آيہ ١٣٢ ، اور جس نے جيسا (بهلا يا برا) کيا هے اسی کے موافق هر ايک کے درجات هيں۔
5 سورہ انبياء ۴٧ ، قيامت کے دن تو هم (بندوں کے برے بهلے اعمال تولنے کے ليے) انصاف کی ترازوئيں کهڑی
کرديں گے تو پهر کسی شخص پر کچه بهی ظلم نہ کيا جائے گا۔
6 سورہ اسراء، آيہ ٧٩ ۔ ترجمہ: خدا تم کو مقام محمود تک پهنچائے۔
7 سنن ابن ماجہ ، ج ١، ص ۴۴ ؛المستدرک علی الصحيحينج ٣، ص ١١٢ ؛ ذخائر العقبیٰ، ص ۶٠ ؛منصف ابن ابی شيبہ،
ج ٧، ص ۴٩٧ و ۴٩٨ ؛ الآحاد والمثاني، ج ١، ص ١۴٨ ؛ کتاب السنة، ص ۵٨۴ ؛السنن الکبریٰ للنسائی، ج ۵، ص ١٠٧ و ١٢۶ ؛خصائص
، امير المومنين عليہ السلام ، ص ٨٧ ؛ مسند ابی حنيفہ، ص ٢١١ ؛ شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحديد، ج ٢، ص ٢٨٧ وج ١٣
؛ ص ٢٠٠ و ٢٢٨ ؛نظم درر السمطين،ص ٩۵ و۔۔۔کنزالعمال، ج ١١ ، ص ۶٠٨ وج ١٣ ، ص ١٢٢ و ١٢٩ ؛ الطبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ٢٣
، تاريخ مدينةدمشق، ج ۴٢ ، ص ۵٩ و ۶٠ و ۶١ ؛ ميزان الاعتدال، ج ١، ص ۴٣٢ ؛ تہذيب التہذيب، ج ٧، ص ٢٩۶ ؛ تاريخ الطبری، ج ٢
ص ۵۶ ؛ البداية والنهاية، ج ٣، ص ٣۶ ، وج ٧، ص ٣٧١ ؛ ينابيع المودة ج ١، ص ١٩٣ ؛اور دوسرے حوالاجات اهل سنت عيون اخبار
الرضا عليہ السلام، ج ٢، ص ۶٣ ، باب ٣١ ، ح ٢۶٢ ؛ مناقب اميرالمومنين عليہ السلام ، ج ١، ص ٣٠۵ وغيرہ؛ المسترشد،
، ص ٢۶٣ و۔۔۔و ٣٧٨ ؛ شرح الاخبار، ج ١، ص ١٩٢ ؛ الامالی للمفيد، ص ۶؛ الامالی للطوسی، ص ۶٢۶ و ٧٢۶ ؛ مجمع البيان، ج ۵
٢٢٠ ، الخصال، ص ۴٠٢ اور ، ص ١١٣ ؛ اعلام الوریٰ، ج ١، ص ٢٩٨ ؛ کشف الغمة، ج ١، ص ٨٩ و ج ١، ص ۴١٢ ، العمدة، ص ۶۴
دوسرے شيعہ حوالہ جات ۔
۶٢
پشت پناهی
بعض ديگر مروی احاديث کے مطابق رسول اکرم(ص) نے اپنی پشت کو حضرت علی(ع) کے
ذريعے مضبوط و مستحکم قرار دينے کی خدا سے درخواست کی۔ خداوند متعال نے بهی نيز حضور کی
دعا کو مستجاب فرمايا۔ ٢
بلا شبہ خداوند متعال کی جانب سے عائد کردہ فرائض ميں سے ختم نبوت کا فريضہ سب سے
زيادہ کٹهن اور پر خطر هے، خاتم المرسلين کے علاوہ، جو خود بهی پشت و پناہِ انبياء هيں، کوئی اور اس
خطير و سنگين ذمہ داری کا بوجه نهيں اٹها سکتا۔
لہٰذا خداوند متعال کی جانب سے اس سنگين ذمہ داری کو صبر و تحمل سے سنبهالنے کے بعد
آپ(ص) نے حضرت علی عليہ السلام کے ذريعے اپنی پشت و بازو اور طاقت و قوت کو مستحکم و
مضبوط بنانے کی خداوند تعالی سے دعا کی۔ خدا نے حضرت موسی کی دعا کی مانند آپ کی دعا کو بهی
مستجاب فرمايا۔ <سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِيْکَ> ٣
رسول خدا(ص) کی يہ دعا اور خدا کی جانب سے استجابت اس امر کا ثبوت هے کہ امر رسالت
کا پايہ تکميل تک پهنچا صرف اس علی بن ابی طالب کے دست و زبان کے ذريعے هی ممکن هے کہ جس
کا هاته قدرت الٰهی کے ذريعے هر شئے پر غالب اور جس کی زبان حکمت خداوندی کے سبب ناطق هے۔
کيا عقل اس بات کو تسليم کرتی هے کہ رسول اکرم(ص)کے بعد اس هستی کے علاوہ کوئی اور
اس امت کا حامی و مددگار قرار پائے کہ جو خود رسول اکرم(ص) کا بهی حامی و مددگار تها۔
نيز کيا يہ ممکن هے کہ رسول اکرم(ص) کے يارو مددگار کے علاوہ امت کسی اور کو اپنا يارو
مددگار قرار دے سکے؟
اصلاح امر:
<وَقَالَ مُوسیٰ لِاَخِيْہِ هَارُوْنَ ا خْٔلُفْنِي فِی قَومِی وَاَصْلِحْ> ٤
جس طرح سے جناب هارون، حضرت موسیٰ کی قوم کے مصلح اور اصلاح امت کے سلسلے ميں
حضرت موسیٰ کے جانشين تهے، اسی طرح سے اس امت ميں يہ مقام و منزلت حضرت امير عليہ السلام
سے مخصوص هے۔ اور بغير کسی قيد و شرط کے هر قسم کی اصلاح کرنا اسی شخص کی شان هوسکتی
هے جو خود ”هر قسم“ کی صلاح و کمال سے متصف هو۔ لہٰذا کسی بهی قسم کی صلاح کے کسی بهی
مرتبے و درجے پر فائز شخص مذکورہ بالا منزلت پر فائز نهيں هوسکتا۔ وهی صلاح جو قرآن مجيد ميں
حضرت يحيی < وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنْ الصَّلِحِينَ> ٥
اور حضرت عيسی کے لئے <وَيُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَمِنْ الصَّلِحِينَ > ٦ بيان کی گئی هے۔
--------------
1 لسان الميزان ، ج ٢، ص ١۵٧ ؛ الاحتجاج ؛لطبرسی، ج ١، ص ١٩٧ اور دوسرے حوالاجات شيعہ۔
2 الدر المنثور اس آيت کے ذيل ميں ، ج ۴، ص ٢٩۵ ؛ التفسير الکبير، ج ١٢ ، ص ٢۶ اس آيت کے ذيل ميں <انما وليکم
، الله>؛ شواهد التنزيل ، ج ١، ص ٢٣٠ و ۴٨٢ ؛ المعيار والموازنة، ص ٧١ و ٣٢٢ ؛ نظم دررر السمطين ، ص ٨٧ ؛ ينابيع المودة، ج ١
ص ٢۵٨ ، ج ٢، ص ١۵٣ اور اهل سنت کے دوسرے حوالہ جات ۔
، ٢۴٨ و ٢۵۵ ، و ٢۵۶ ، شرح الاخبار، ج ١ ، مناقب امير المومنين (ع)، ج ١، ص ٣۴٨ ؛ تفسير فرات کوفی، ص ٩۵
١٩٢ ، کنز الفوائد، ص ١٣۶ ، مجمع البيان، ج ٣، ص ٣۶١ ، نيز شيعوں کے ديگر منابع۔
3 سورہ قصص آيہ ٣۵ ، عنقريب تمهارے بهائی کی وجہ سے تمهارے بازو قوی کرديں گے۔
4 سورہ اعراف آيت ١۴٢ ۔ موسی نے اپنے بهائی هارون سے کها: ميری قوم ميں ميرے جانشين بن کر رهو اور
اصلاح کرتے رہو۔
5 سورہ آل عمران ٣٩ ترجمہ: سردار اور پارسا اور نيکو کار بنی هوگا۔
6 سورہ آل عمران ۴۶ ،ترجمہ: اور جهولے ميں اور بڑی عمر کا هوکر (دونوں حالتوں ميں يکساں) لوگوں سے باتيں
کرے گا اور نيکو کاروں ميں هوگا۔
۶٣
شرکت در امر:
جس طرح سے حضرت هارون، حضرت موسی کے شريک تهے، مذکورہ حديث کے مطابق
سوائے نبوت کے يهی مقام و منزلت حضرت علی عليہ السلام کے لئے بهی ثابت هے۔
پيامبر اکرم(ص) کے مناصب ميں سے ايک منصب اس کتاب کی تعليم هے جس ميں تمام چيزيں
بيان کردی گئی هيں۔ نيز اس حکمت کی تعليم بهی آپ(ص)هی کی ذمہ داری هے جس کے بارے ميں
خداوند متعال ارشاد فرماتا هے۔ <يُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُتِیَ خَيْرًا کَثِيرًا> ١
<وَا نَٔزَلَ اللهُ عَلَيْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْکَ عَظِيمًا> ٢
بلا شبہ خداوند متعال کی جانب سے حضور اکرم(ص) پر نازل کردہ کتاب و حکمت کے علوم
صرف سابقہ انبياء و مرسلين پر نازل کردہ علوم کے هی حامل نهيں بلکہ مزيد علوم کے بهی حامل هيں اور
يہ از دياد و اضافہ آنحضرت(ص)کی نبوت عامہ رسالت خاتميت نيز تمام انبياء اور ديگر تمام مخلوقات الٰهی
پر آپ کی برتری و بزرگی کے سبب هے۔
اس کے علاوہ لوگوں کے درميان اختلاف کی صورت ميں ان کے درميان حکم صادر کرنا بهی
آنحضرت کے فرائض رسالت ميں سے هے۔<لِيُبَيِّنَ لَہُمْ الَّذِی يَخْتَلِفُونَ فِيہِ > ٣
< إِنَّا ا نَٔزَلْنَا إِلَيْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا ا رََٔاکَ اللهُ > ٤
مزيد برآں حضرت ختمی مرتبت کی شان رسالت ميں مومنين پر خود ان سے زيادہ باختيار اور
اولی هونا بهی شامل هے۔ بنا برايں حضرت علی عليہ السلام اس هستی کے شريک کار هيں جس کے هاته
نظام تکوين و تشريع کی ولايت هے۔
خلافت:
جس طرح سے جانب هارون، حضرت موسی کے خليفہ تهے، مذکورہ، حديث کے ذريعے جناب
امير عليہ السلام کی خلافت بلا فصل بهی ثابت هوجاتی هے۔
خليفہ اور جانشين اس شخص کا وجود تنزيلی اور قائم مقام هے جس کے مقام پر وہ خليفہ مسند
نشيں هوا هے، اس کی غيبت اور عدم موجودگی کے ذريعے پيدا هونے والے خلاء کو خليفہ هی پر کرتاتها۔
جناب خاتم الانبياء کا جانشين کسی بهی نبی کے جانشين، بلکہ تمام کے تمام انبياء کی بيک وقت
جانشينی کے ساته بهی قابل مقايسہ و موازنہ نهيں۔ کيونکہ ختمی مرتبت کا جانشين اس هستی کا جانشين هے
کہ آدم سے عيسیٰ بن مريم (ع)تک تمام انبياء اس کے لواء و علم تلے هيں۔ عرش کے سائے سے کس طرح
اس شئے کا موازنہ کيا جاسکتا هے جو عرش کے سائے سے بهی ادنی هو۔
جی هاں جناب هارون، حضرت موسی کے خليفہ هيں، اس کے جانشين هيں کہ جس کی منزلت
کے بارے ميں خداوند متعال نے يوں فرمايا هے: <وَنَادَيْنَاہُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الْا ئَْمَنِ وَقَرَّبْنَاہُ نَجِيًّا> ٥
ليکن علی بن ابی طالب، خاتم النبيين کا خليفہ هے۔ اس کا جانشين هے کہ جس کی منزلت کو خدا
نے قرآن ميں يوں بيان فرمايا هے <ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ ا ؤَْ ا دَْٔنَی > ٦
ابان احمر سے روايت صحيحہ ميں منقول هے کہ امام صادق عليہ السلام نے فرمايا: اے ابان!
لوگ کس طرح سے امير المومنين کی اس بات کا انکار کرتے هيں کہ آپ(ع)نے فرمايا: اگر ميں چاهوں تو
اپنے پير کو دراز کرکے شام ميں پسر ابوسفيان کے سينے پردے ماروں اور اسے اس کے تخت سے نيچے
--------------
1 سورہ بقرہ آيہ ٢۶٩ ، ترجمہ: وہ جس کو چاہتا هے حکمت عطا فرماتا هے جس کو خدائی کی طرف سے حکمت
عطا کی گئی تو اس ميں شک هی نهيں کہ اسے خير کثير عطاء کيا گيا۔
2 سورہ نساء آيہ ١١٣ ، ترجمہ: اور خدا نے تم پر اپنی کتاب اور حکمت نازل کی اور جو باتيں تم نہ جانتے تهے تمهيں
سکهاديں اور تم پر تو خدا کا بڑا فضل هے۔
3 سورہ نحل آيت ٣٩ ، اس لئے ان کے سامنے صاف اور واضح کردے گا جب باتوں پر يہ لوگ اختلاف کرتے هيں۔
4 سورہ نساء ١٠۵ ، هم نے تم پر برحق کتاب اس لئے نازل کی هے تاکہ تم کو جيسا کہ خدا نے دکهلايا هے لوگوں
کے درميان حکم کرو۔
5 سورہ مريم ۵٢ ، هم نے ان کو وادی مقدس طور سے آواز دی اور اپنے مقام قرب کے لئے انتخاب کيا۔
6 سورہ نجم آيہ ٨۔ ٩،پهر قريب آئے اور ان پر وحی حق نازل هوئی۔ ايسا قريب هوئے دو کمان سے اس سے بهی
قريب فاصلہ رہ گيا۔
۶۴
لاکهينچوں ليکن اس بات کا انکار نهيں کرتے کہ آصف، وصی سليمان، سليمان کے دربار ميں سليمان کی
پلک جهپکنے سے قبل تخت بلقيس کو لانے کی طاقت رکهتاتها!
کيا همارے پيغمبر افضل الانبياء اور ان کا وصی افضل الاوصياء نهيں هيں؟
کيا خاتم النبيين کے وصی کوسليمان کے وصی کی مانند بهی نهيں سمجهتے؟!
همارے اور همارے حق کے منکروں اور هماری فضيلت کے جهٹلانے والوں کے درميان اب خدا
هی فيصلہ کرے“ ١۔
بنا برايں رسول اکرم(ص) کی وزارت، آپ کی پشت کی مضبوطی، آپ کے امر ميں شرکت، آپ
سے اخوت و برادری، امر امت کی اصلاح اور آپ کی خلافت هرگز اس شخص سے قابل مقايسہ هوهی
نهيں سکتی کہ جس نے رسول اکرم(ص) کے علاوہ کسی اور سے ان فضيلتوں کو پايا هو۔
جو شخص بهی حديث منزلت ميں عميق غور کرے نيز کتاب ميں تدبر اور سنت ميں تفقہ کا حامل
هو تو وہ يقينا اسی نتيجے پر پهنچے گا کہ آنحضرت(ص)کے هاتهوں آنحضرت(ص)کی زندگی هی ميں
جانشين رسول قرار پانے والی هستی اور آنحضرت(ص)کے درميان فصل و جدائی، خلافِ حکم عقل اور
قرآن و سنت سے متضاد هے۔
بکير بن مسمار سے منقول روايت ميں کہ جس کی صحتِ سند کے خود اهل سنت بهی متعرف
هيں، بکير نے کهاهے: ميں نے عامر بن سعد سے سنا کہ معاويہ نے سعد بن ابی وقاص سے پوچها:
ابوطالب کے بيٹے پر سب و شتم کرنے سے تجهے کيا چيز روکتی هے؟
جواب ديا: جب بهی مجهے وہ تين چيزيں ياد آتی هيں جو رسول اکرم(ص) نے علی کے بارے ميں
کهيں تو ميں علی پر سب و شتم نهيں کرپاتا اور ان ميں سے هر شئے ايسی هے جو ميرے لئے ”حمر نعم“
(هر قيمتی شئے) سے بهی زيادہ محبوب و پسنديدہ هے۔
معاويہ نے پوچها: اے ابو اسحاق! وہ تين چيزيں کونسی هيں؟
ابو اسحاق نے کها: ميں علی پر سب و شتم نهيں کرسکتا کہ جب مجهے ياد آتا هے کہ رسول
خدا(ص) پر وحی نازل هوئی جس کے بعد آپ نے علی ان کے دونوں فرزندوں اور فاطمہ کا هاته تهام کر
اپنی عبا کے نيچے جمع کيا اور پهر فرمايا: بار الٰها! يهی هيں ميرے اهل بيت (عليهم السلام)۔
اور ميں سب و شتم نهيں کرونگا کہ جب مجهے يہ ياد آتا هے کہ آنحضرت نے علی کو غزوہ
تبوک کے موقع پر (مدينے ميں هی) باقی رکها، جس پر علی نے عرض کی: کيا مجهے بچوں اور عورتوں
کے ساته چهوڑ کر جارهے هيں؟ آپ(ص)نے فرمايا: کيا تم اس بات پر راضی نهيں هو کہ تمهيں مجه سے
وهی نسبت هے جو هارون کو موسی سے تهی فرق صرف يہ هے کہ ميرے بعد کوئی نبی نهيں آئے گا۔
اور ميں علی پر سب و شتم نهيں کرسکتا کہ جب مجهے روز خيبر ياد آتا هے کہ جب رسول
خدا(ص) نے فرمايا: يقينا اس پرچم کو ميں اسے دونگا جو خدا اور اس کے رسول سے محبت کرتا هے اور
خدا اسی کے هاتهوں فتح نصيب کرے گا لہٰذا هم سب اسی سوچ ميں تهے کہ ديکهيں رسول اکرم(ص) کی
نگاہ انتخاب کس پر هے؟ کہ آنحضرت نے فرمايا: علی کهاں هے؟ لوگوں نے جواب ديا: ان کی آنکهوں ميں
تکليف هے۔ فرمايا علی کو بلاو ،ٔ علی کو بلايا گيا، آنحضرت(ص)نے اپنے لعاب دهن کو علی کے چهرے
پر ملا اور اپنا علم سونپا، خداوند متعال نے علی کے هاتهوں هی مسلمانوں کو فتح نصيب فرمائی۔
راوی کہتا هے: خدا کی قسم جب تک سعد بن ابی وقاص مدينے ميں رهے معاويہ نے ان سے کچه
نہ کها۔ ٢
حاکم نيشا پوری کا کهنا هے: حديث مو أخاة اور حديث رايت (علم) پر بخاری و مسلم دونوں متفق
هيں۔ ٣
بخاری نے سهل بن سعد سے نقل کيا هے کہ: رسول اکرم(ص) نے بروز خيبر فرمايا: يقينا کل ميں
يہ علم اسے دونگا کہ جس کے هاتهوں خدا فتح و کامرانی نصيب کرے گا وہ خدا اور اس کے رسول سے
محبت کرتا هے نيز خدا اور اس کا رسول بهی اس سے محبت کرتے هيں۔
--------------
1 الاختصاص، ص ٢١٢ ۔
2 المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ١٠٨ ؛نيز اس کے خلاصہ ميں بهی هے، صحيح مسلم، ج ٧، ص ١٢٠ ، سنن
ترمذی، ج ۵، ص ٣٠١ ، وغيرہ
3 المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ١٠٩
۶۵
لہٰذا تمام لوگوں نے وہ رات اضطراب و پريشانی کے عالم ميں بسر کی کہ ديکهيںرسول خدا يہ
علم کس کو عطا کرتے هيں۔
جب صبح هوئی تو هم لوگ علم پانے کی اميد لے کر رسول خدا کی خدمت ميں حاضر هوئے۔
آنحضرت نے فرمايا: علی بن ابی طالب کهاں هيں؟ جواب ديا گيا: آنکهوں کی تکليف ميں مبتلا هيں
فرمايا: علی کو لاو ۔ٔ
علی آئے اور آنحضرت نے اپنا لعاب دهن ان کی آنکهوں پر ملا اور دعا فرمائی، درد اس طرح
سے دور هوا گويا علی کی آنکهوں ميں کوئی تکليف هی نہ تهی۔
پهر انهيں علم ديا۔ علی نے عرض کی: يا رسول الله! ان لوگوں کے ساته اس وقت تک جنگ کروں
گا جب تک کہ يہ لوگ هماری طرح نہ هوجائيں (ايمان لے آئيں)۔ جس کے بعد آنحضرت نے فرمايا: نرمی
اور ثبات کے ساته بنا کسی عجلت کے ميدان جنگ ميں داخل هونا، يهاں تک کہ ان کے لشکر کے مد مقابل
پهنچ جاو ،ٔ اس کے بعد انهيں اسلام کی دعوت دے کر ان پر واجب حق الله کی انهيں خبر دينا۔ پس خدا کی
قسم! يقينا اگر خدا تمهارے هاتهوں ايک انسان کی بهی هدايت کردے تو يہ تمهارے لئے حمر نعم اور هر
قيمتی شئے سے زيادہ بہتر هے۔ ١
يہ بات مخفی نهيں کہ آنحضرت کا يہ فرمانا: علم اسے دونگا جو خدا اور اس کے رسول سے
محبت کرتا هے اور خدا اور اس کا رسول بهی اس سے محبت کرتے هيں۔ اس راز سے پردہ اٹهاتا هے کہ
اصحاب رسول ميں سوائے حضرت علی (ع)کے کوئی بهی شخص مذکورہ بالا صفت سے متصف نہ تها،
ورنہ رسول اکرم(ص)کی جانب سے صرف علی سے اس صفت کو مختص کرنا بغير ترجيح و سبب کے
هوگا اور بارگاہ قدسی رسول اکرم(ص) عقلی و شرعی باطل امور سے مبرّا و منزہ هے۔
علم کا عطاء کرنا اور علی کے هاتهوں فتح، حديث منزلت هی کی تفسير هے اس کے معنی يهی
هيں کہ علی هی وہ هستی هے کہ جس کے ذريعے خداوند تعالی نے اپنے پيغمبر کی پشت کو مستحکم
فرمايا اور اپنے نبی کے دست و بازو کی مدد عطا فرمائی۔
--------------
1 صحيح البخاری، ج ۵، ص ٧۶ ، و ج ۴، ص ١٢ ، و ص ٢٠ ، و ص ٢٠٧ ، نيل الاوطار، ج ٨، ص ۵۵ ، و ۵٩ ، فضائل
الصحابہ، ص ١۶ ، مسند احمد، ج ١، ص ٩٩ ، وص ١٨۵ ،و ج ۴، ص ۵٢ ، صحيح مسلم، ج ۵، ص ١٩۵ ، و ج ٧، ص ١٢٠ ، و
١٢٢ ، سنن ابن ماجہ، ج ١، ص ۴۵ ؛سنن الترمذی، ج ۵، ص ٣٠٢ ، السنن الکبری للبيہقی، ج ۶، ص ٣۶٢ ، و ج ٩، ص ١٠٧ ، و
۵٢٢ ، مسند سعد بن ابی ، ١٣١ ؛ مجمع الزوائد، ج ۶، ص ١۵٠ ، و ج ٩، ص ١٢٣ ، وغيرہ، مصنف ابن ابی شيبہ، ج ٨، ص ۵٢٠
؛ ١٠٨ و۔۔۔ و ص ١۴۵ ، وقاص، ص ۵١ ، بغية الباحث، ص ٢١٨ ، کتاب السنة، ص ۵٩۴ ، وغيرہ، السنن الکبریٰ، ج ۵، ص ۴۶
،۵٣١ ، ١١۶ ، مسند ابی يعلی، ج ١، ص ٢٩١ ، و ج ١٣ ، ص ۵٢٢ ، خصائص امير المومنين (عليہ السلام) ص ۴٩ وغيرہ، و ٨٢
، ١٩٨ ، و ج ٧ ،١٨٧ ، صحيح ابن حبان، ج ١۵ ، ص ٣٧٧ ، و ٣٨٢ ، المعجم الاوسط، ج ۶، ص ۵٩ ، المعجم الکبير، ج ۶، ص ١۶٧
٢٣٨ ، مسند الشامين، ج ٣، ص ٣۴٨ ؛ دلائل النبوة، ص ١٠٩٢ ، الفائق فی ، ٧٧ ، و ج ١٨ ، ص ٢٣٧ ،٣۶ ،٣۵ ، ١٧ و ٣١ ، ص ١٣
غريب الحديث، ج ١، ص ٣٨٣ ، الاستيعاب، ج ٣، ص ١٠٩٩ ، شرح نهج البلاغہ لابن ابی الحديد، ج ١١ ، ص ٢٣۴ ، و ج ١٣ ، ص
؛ ١٢٣ و ١۶٣ ، ١٨۶ ؛ النظم الدرر السمطين، ص ٩٨ ، و ١٠٧ ؛ کنز العمال، ج ١٠ ، ص ۴۶۶ ، و ص ۴۶٨ ، و ج ١٣ ، ص ١٢١
، ٢۶٧ ، شرح السنة للبغوی، ج ١۴ ، الطبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ١١١ ؛ التاريخ الکبير، ج ٢، ص ١١۵ ؛ الثقات لابن حبان، ج ٢، ص ١٢
؛ ٨١ و۔۔۔، و ۴٣٢ ، ص ١١١ ، تاريخ بغداد، ج ٨، ص ۵، تاريخ مدينةدمشق، ج ١٣ ، ص ٢٨٨ ، و ج ۴١ ، ص ٢١٩ ، و ج ۴٢ ، ص ١۶
اُسد الغابة، ج ۴، ص ٢۶ ، و ٢٨ ، ذيل تاريخ بغداد، ج ٢، ص ٧٨ ، البداية و النهاية، ج ۴، ص ٢١١ و۔۔۔، و ج ٧، ص ٢۵١ و ٣٧٢
، وغيرہ، السيرة النبوية، ج ٣، ص ٧٩٧ ، سبل الهدیٰ و الر شاد، ج ٢، ص ٣٢ ، و ج ۵، ص ١٢۴ ، و ج ١٠ ، ص ۶٢ ، ينابيع المودة ج ١
ص ١۶١ ، ج ٢، ص ١٢٠ ، و ٢٣١ ، و ٣٩٠ ؛اور اهل سنت کے دوسرے حوالہ جات ۔
، رسائل المرتضیٰ، ج ۴، ص ١٠۴ ، الدعوات، ص ۶٣ ، زبدة البيان، ص ١١ ، کشف الغطاء، ج ١، ص ١١ ، الکافی، ج ٨
، ص ٣۵١ ، علل الشرائع، ج ١، ص ١۶٢ ، باب ١٣٠ ، ح ١، الخصال، ص ٢١١ ، و ص ٣١١ ، و ۵۵۵ ،الامالی للصدوق، ص ۶٠۴
٨٩ و ۴٩۶ ، ۵٣٧ ، و ج ٢ ، المجلس السابع والسبعون، ح ١٠ ، روضة الواعظين، ص ١٢٧ ، مناقب اميرالمومنين (ع) ، ج ١، ص ٣۴۵
١٩۵ و ، وغيرہ؛ المسترشد، ص ٢٩٩ ، و ٣٠٠ ، و ٣۴١ ، و ۴٩١ ، و ۵٩٠ ، شرح الاخبار، ج ١، ص ٣٠٢ ، و ج ٢، ص ١٧٨،١٩٢
، ١٩٧ ؛ النکت الاعتقاديہ، ص ۴٢ ، الارشاد، ج ١، ص ۶۴ ، الاختصاص، ص ١۵٠ ،١۵٧ ،٨۶ ،۶٨ ، ٢٠٩ ؛ الافصاح، ص ٣۴
؛ ٣٨ ، و ۵۴۶ ، و ۵٩٩ ، الاحتجاج، ج ١، ص ۴٠۶ ، و ج ٢، ص ۶۴ ٣٠٧ ، و ٠ ، الامالی للفميد، ص ۵۶ ، الامالی للطوسی، ص ١٧١
، ١٣٩ و۔۔۔، و ١٨٨ ، و ١٨٩ و ٢١٩ ؛ الفضائل، ص ١۵٢ ؛ التبيان، ج ٣ ، الخرائج الجرائح، ج ١، ص ١۵٩ ، العمدة، ص ٩٧ ، و ١٣١
٢٠١ ، نيز شيعوں کے بہت سے منابع۔ ، ص ۵۵۵ ، و ج ٩، ص ٣٢٩ ، مجمع البيان، ج ٣، ص ٣۵٨ ، و ج ٩
۶۶
مزيد برآں، آنحضرت(ص)کا يہ فرمانا کہ خداوند تعالی علی کے هاتهوں کا فتح عطافرمائے گا،
اس امر کا بيانگر هے کہ فعل الٰهی علی کے هاتهوں اسی طرح جاری هوتا هے جس طرح پيامبر کے
هاتهوں جاری هوا جس کے بارے ميں قرآن کريم نے فرمايا: وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ١
اور خود جناب امير سے بهی يہ نقل هوا هے کہ آپ نے فرمايا: خدا کی قسم! ميں نے در خيبر کو
جسمانی طاقت سے نهيں اکهاڑا تها ٢۔ جی هاں، جس کے هاتهوں خداوند متعال در خيبر کو فتح کروائے وهی
يدالله هے، کيا خدا کی افضل ترين مخلوق کے دست و بازو بجز يدالله کے کسی اور وسيلے سے مستحکم
هوسکتے هيں:
إِنَّ فِی ذَلِکَ لَذِکْرَی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ ا ؤَْ ا لَْٔقَی السَّمْعَ وَهو شَہِيدٌ ٣
|
|