اصول دين سے آشنائی
 

ج۔قضاوت سنت:
(اهل سنت کے سلسلوں سے مروی روايات کے ذريعے امامت امير المو مٔنين (عليہ السلام) پر
استدلال کا مقصد اتمام حجت اور جدال احسن هے۔ ورنہ متواتر احاديث کی روشنی ميں يہ بات ثابت هونے
کے بعد کہ قرآن و سنت ميں بيان کردہ امامت کی شرائط، آپ کے نفس قدسی ميں موجود هيں، مذکورہ بالا
طريقہ استدلال کی قطعاً ضرورت نهيں۔اهل سنت سے منقول روايات پر ”صحيح“ کا اطلاق انهی کے معيار
و ميزان کے مطابق کيا گيا هے، اور شيعہ سلسلوں سے منقول روايات پر صحيح کا اطلاق اهل تشيع کے
مطابق روايت کے معتبر هونے کی بناء پر هے۔ اب خواہ يہ روايات اصطلاحاً صحيح هوں يا موثق، اور اس
کا انحصار شيعہ علم رجال کے معيار و ميزان پر هے۔)
سنت رسول کی پيروی، ادراکِ عقل کے تقاضے اور حکم کتاب خدا کے مطابق هے کہ معصوم
کی پيروی کرنا ضروری هے <وَمَا ا تََٔاکُمُ الرَّسُوَلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَهٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَهُوْا> ٣
اور هم سنت ميں سے فقط ايسی حديثيں بيان کريں گے جس کا صحيح هونا مسلّم اور فرمان خدا
کے مطابق ان کا قبول کرنا واجب هے۔ اس حديث کو فريقين نے رسول خدا (ص) سے نقل کيا هے اور
آنحضرت (ص) سے صادر هونے کی تصديق بهی کی هے۔ اگر چہ اس حديث کو متعدد سلسلہ هائے اسناد
کے ساته نقل کيا گيا هے، ليکن هم اسی ايک پر اکتفا کرتے هيں جس کا سلسلہ سند زيادہ معتبر هے۔ اور وہ
روايت زيد بن ارقم سے منقول هے:
((قال:لما رجع رسول اللّٰہ (ص) من حجة الوداع ونزل غدير خم ا مٔر بدوحات فقممن، فقال:کا نٔی قد
دعيت فا جٔبت، إنی قد ترکت فيکم الثقلين ا حٔدهما ا کٔبر من الآخر کتاب اللّٰہ و عترتی فانظروا کيف تخلفونی
فيهما، فإنهما لن يتفرقا حتی يردا علیّ الحوض، ثم قال: إن اللّٰہ عزّ و جلّ مولای و ا نٔا مولی کل مو مٔن، ثم ا خٔذ
بيد علی رضی اللّٰہ عنہ فقال: من کنت مولاہ فہذا وليہ، اللّهم وال من والاہ و عاد من عاداہ، وذکر الحديث
بطولہ )) ٤
امت کی امامت آنخضرت (ص) کی نگاہ ميں اتنی زيادہ اهميت کی حامل تهی کہ آپ (ص) نے نہ
صرف حجة الوداع سے لوٹتے وقت بلکہ مختلف مواقع پر، حتی زندگی کے آخری لمحات ميں موت کے
بستر پر، جب اصحاب بهی آپ کے کمرے ميں موجود تهے، کتاب وعترت کے بارے ميں وصيت فرمائی،
--------------
1 سورہ نحل، آيت ٩٠ ۔”بے شک خدا وند متعال عدل اور احسان کا حکم کرتا هے“۔
2 سورہ اعراف، آيت ١۵٧ ۔”ان کو نيکوں کا امر کہتا هے اور ان کو برائيوں سے روکتا هے“۔
3 سورہ حشر، آيت ٧۔”جو کچه رسول نے تم کو دے اس کو لے لو اور جن چيزوں سے روکے اس سے رک جاؤ“۔
4 مستدرک صحيحين ج ٣ ص ١٠٩ ۔”زيد ابن ارقم سے روايت هے کہ جب رسول خدا (ص) آخری حج سے لوٹ رهے
تهے تو غدير خم پہونچ کر آپ نے سائبان لگانے کا حکم ديا پهر فرمايا:گويا مجهے بلايا گيا هے اور ميں نے بهی اس پر لبيک
کہہ ديا هے، ميں تمهارے درميان دو گرانقدر چيزيں چهوڑ رها هوں ان ميں سے ايک دوسری سے بڑی هے ،ايک کتاب خدا
دوسرے ميرے اهل بيت پس نگاہ کرو تم ان دونوں کے ساته ميرے بعد کيسا برتاو کروگے يہ دونوں هر گز ايک دوسرے سے
جدا نہ هوں گے يهاں تک کہ حوض کوثر پر مجه سے ملاقات کريں پهر فرمايا الله تعالیٰ ميرا مولا هے اور ميں هر مومن کا مولا
هوں پهر علی کا هاته پکڑ کر فرمايا:جس کا ميں مولا اس کے علی (ع)ولی هيں، پهر دعا فرمائی: بار الٰها! اس کو دوست رکهنا
جو علی کو دوست رکهے اور اس کو دشمن رکهنا جو علی کو دشمن رکهے“،
اسی طرح کمال الدين و تمام النعمة ص ٢٣۴ و ٢٣٨ ، اور شيعوں کی دوسری کتابوں ميں۔

۵۶
کبهی ((انی قد ترکت فيکم الثقلين)) ١ اور کبهی ((انی تارک فيکم خليفتين))، ٢ بعض اوقات ((انی تارک فيکم
الثقلين)) ٣ کے عنوان سے اور کسی وقت ((لن يفترقا)) ٤ اور کبهی((لن يتفرقا)) ٥ کی عبارت کے اضافے کے
ساته اور بعض مناسبتوں پر ((لا تقدموهما فتهلکوا ولا تعلموهما فإنهما ا عٔلم منکم )) ٦ اور کبهی اس طرح
گويا هوئے ((إنی تارک فيکم ا مٔرين لن تضلوا إن اتبعتموهما)) ٧
اگرچہ کلام رسول خدا (ص) ميں موجود تمام نکات کو بيان کرنا تو ميسر نهيں، ليکن چند نکات
کی طرف اشارہ کرتے هيں :
١۔جملہ ((انی قد ترکت))اس بات کو بيان کرتاهے کہ امت کے لئے آنحضرت (ص) کی طرف
سے قرآن وعترت بطور ترکہ وميراث هيں، کيونکہ پيغمبر اسلام (ص) کو امت کی نسبت باپ کا درجہ
حاصل هے، اس لئے کہ انسان جسم وجان کا مجموعہ هے اور روح کو جسم سے وهی نسبت هے جو معنی
کو لفظ او ر مغز کو چهلکے سے هے۔ اعضاء اور جسمانی قوتيں انسان کو اپنے جسمانی باپ سے ملی هيں
اور عقائد حقہ، اخلاق فاضلہ واعمال صالحہ کے ذريعے ميسر هونے والے روحانی اعضاء وقوتيں، پيغمبر
(ص)کے طفيل نصيب هوئی هيں،جو انسان کے روحانی باپ هيں۔روحانی سيرت وعقلانی صورت کے
افاضے کا وسيلہ اور مادی صورت وجسمانی هيئت کے افاضے کا واسطہ، آپس ميں قابل قياس
نهيںهيں،جس طرح مغز کاچهلکے سے، معنی کا لفظ سے اور موتی کا سيپ سے کوئی مقابلہ نهيں۔
--------------
1 مسند احمد ج ٣ ص ٢۶ ، السنن کبری للنسائی، ج ۵،ص ١۴۵ ، رقم ٨١۴٨ ؛ سيرة ابن کثير، ج ۴، ص ۴١۶ اور اهل سنت کی ديگر کتابيں۔
؛ ٢٣٨ ؛ المناقب، ١۵۴ ، بصائر الدرجات، ص ۴٣۴ ، جز ثامن، باب ١٧ ، حديث ۴؛ کمال الدين و تمام النعمة، ص ٢٣۶
١٢٢ ، اور اهل شيعوں کی ديگر کتابوں ميں۔ ،١١۶ ، العمدہ، ص ٧١ ، الطرائف، ص ١١۴
2 مسند احمدج ۵ ص ١٨١ و ١٨٩ فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج ٢ ، ص ۶٠٣ ، رقم ١٠٣٢ ؛ المصنف ابن ابی شيبہ،
ج ٧، ص ۴١٨ (الخليفتين)، الجامع الصغير، ج ١، ص ۴٠٢ ، اور ديگر کتابيں۔
کمال الدين و تمام النعمة، ص ٢۴٠ ؛ العمدة، ص ۶٩ ؛ سعد السعود ، ص ٢٢٨ ، اور شيعوں کے ديگر منابع و مآخذ۔
3 فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج ١ ،ص ۵٧٢ حديث ٩۶٨ ، مسند احمد ،ج ۴ ، ص ٣٧١ ، المستدرک علی الصحيحين،
ج ٣ ، ص ١۴٨ ؛ المعجم الکبير، ج ۵ ،ص ١۶۶ ،اور دوسری کتابيں۔
بصائر الدرجات، ص ۴٣٢ ، جز ثامن، باب ١٧ ، حديث ٣ و حديث ۵، و حديث ۶؛ دعائم الاسلام، ج ١، ص ٢٨ ؛ الامالی
للصدوق، ص ۵٠٠ ، مجلس ۶۴ ، حديث ١۵ ؛ کمال الدين و تمام النعمة، ص ٢٣۴ ، وغيرہ، معانی الاخبار، ص ٩٠ ، اور شيعوں کے
ديگر منابع۔
، 4 البدايةوالنهاية،ج ۵، ص ٢٢٨ ،وج ٧، ص ٣٨۶ ،الطبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ١٩۴ ، مسند ابی يعلی، ج ٢، ص ٢٩٧ رقم ۴٨
، جواهر العقدين ،ص ٢٣١ و ٢٣٢ و ٢٣٣ ، مسند ابن الجعد، ص ٣٩٧ ، رقم ٢٧١١ ، رقم ٢٨٠۵ ، خصائص امير المومنين، ص ٩٣
مسند احمد، ج ٣ ، ص ١۴ ، اور دوسری کتابيں۔
۴٣۴ ، جز ثامن، باب ١٧ ؛ الکافی، ج ٢، ص ۴١۵ ؛ الخصال، ۶۵ ؛ الامالی للصدوق، ص ، بصائر الدرجات، ص ۴٣٣
،٢١٧ ، ٢٣۴ وغيرہ؛ کفاية الاثر، ص ٩٢ ؛ الاحتجاج، ج ١، ص ٧۵ ،٩۴ ، ۶١۶ ، مجلس ٧٩ ، ح ١؛ کمال الدين و تمام النعمة، ص ۶۴
٨٣ وغيرہ؛ تفسير قمی، ج ١، ص ١٧٢ ، التبيان، ج ١، ص ٣، اور شيعوں کے ،٧١ ، ٢۵٢ ؛ العمدة، ص ۶٨ ، ٣٩١ ، و ج ٢، ص ١۴٧
ديگر منابع۔
5 مسند احمد، ج ۵، ص ١٨٢ ؛ السنن الکبری للنسائی، ج ۵، ص ۴۵ وغيرہ؛ کتاب السنة ابن ابی عاصم، ص ۶٢٩ رقم
١۵۴٩ و ص ۶٣٠ رقم ١۵۵٣ ، المستدرک علی الصحيحين، ج ٣ ص ١٠٩ ، اور دوسری کتابيں۔
روضة الواعظين، ص ٩۴ ؛ المناقب، ص ١۵۴ ؛ تفسير القمی، ج ٢، ص ۴۴٧ ، سورہ فتح کی تفسير ميں، تفسير فرات
الکوفی، ١٧ ، اور شيعوں کے ديگر منابع ۔
6 مذکورہ عبارت يا اس جيسی عبارتيں مجمع الزوائد، ج ٩، ص ١۶۴ ؛الصواعق المحرقة، ص ١۵٠ و ٢٢٨ ؛ جواهر
العقدين ص ٢٣٣ و ٢٣٧ ، الدر المنثور، ج ٢ ،ص ۶٠ ، اور دوسری کتب۔
٢۵٠ ؛ تفسير القمی، ج ١، ص ۴، تفسير فرات الکوفی، ص ١١٠ ؛ الامامة و التبصرة، ص ، تفسير العياشی، ج ١، ص ۴
٢٩۴ ؛ الامالی للصدوق، ص ۶١۶ ، مجلس ٧٩ ، ح ١؛ کفاية الاثر، ص ١۶٣ ؛ مناقب امير المومنين ،٢٨٧ ، ۴۴ ؛ کافی، ج ١، ص ٢٠٩
۴۶٧ ؛ الارشاد، ج ١، ص ١٨٠ ، اور شيعوں کے ديگر منابع۔ ، عليہ السلام، ج ٢، ص ٣٧۶ ؛ المسترشد، ص ۴٠١
، 7 المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ١١٠ ، جامع الاحاديث ،ج ٣، ص ۴٣٠ حديث ٩۵٩١ ؛ينابيع المودة ، ج ١
ص ١۶۶ ، تاريخ مدينة دمشق ،ج ۴٢ ،ص ٢١۶ ۔ اور دوسری کتابيں۔
٢٣٧ وغيرہ؛ کفاية الاثر، ص ٢۶۵ ،تحف العقول، ص ۴۵٨ ؛ مناقب امير المومنين ، کمال الدين و تمام النعمة، ص ٢٣۵
عليہ السلام، ج ٢، ص ١٠۵ وغيرہ، ص ١۴١ ، و ١٧٧ ؛ شرح الاخبار، ج ١، ص ١٠۵ اور شيعوں کے ديگر منابع۔

۵٧
ايسا باپ اپنے اس جملے ((کا نٔی قددعيت فاجبت ))سے اپنی رحلت کی خبر دينے کے ساته ساته
اپنی اولاد کے لئے ميراث وترکہ معين فرما رها هے کہ امت کے لئے ميرے وجود کا حاصل اور باقی دو
چيزيں هيں ((کتاب اللّٰہ وعترتی ))
قرآن امت کے ساته خدا، اور عترت امت کے ساته رسول (ص)کا رابطہ هيں۔ قرآن سے قطع
رابطہ خدا کے ساته قطع رابطہ او ر عترت سے قطع رابطہ پيغمبر اکرم (ص) کے ساته قطع رابطہ هے
اور پيغمبر خدا سے قطع رابطہ خود خدا سے قطع رابطہ هے۔
اضافہ کی خصوصيت يہ هے کہ مضاف، مضاف اليہ سے کسب حيثيت کرتا هے۔ اگرچہ قرآن کا
خدا کی جانب اور عترت کا پيغمبر خاتم (ص)،جو کائنات کے شخص اول هيں، کی طرف اضافہ، قرآن
وعترت کے مقام و منزلت کو واضح وروشن کر رها هے ليکن مطلب کی اهميت کو مد نظر رکهتے هوئے
آنحضرت (ص) نے ان دو کو ثقلين سے تعبير کياهے جس سے پيغمبر اکر م (ص) کی اس ميراث کی
اهميت اور سنگينی کا اندازہ بخوبی لگايا جا سکتا هے۔
قرآن کے معنوی وزن کی سنگينی اور نفاست،ادراک عقول سے بالاتر هے، اس لئے کہ قرآن
مخلوق کے لئے خالق کی تجلی هے اور عظمت قرآن کو درک کرنے کے لئے يہ چند آيات کافی
هيں<يٰسٓةوَالْقُرآنِ الْحَکِيْمِ> ١<قٓ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيْدِ> ٢، إِنَّہ لَقُرْآنٌ کَرِيْمٌة فِی کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍةلاَ يَمَسُّہ إِلاَّالْمُطَہَّرُوْنَ
٣<لَوْ ا نَْٔزَلْنَا هٰذَا القُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَا ئََتَہ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰہِ وَ تِلْکَ اْلا مَْٔثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ <
يَتَفَکَّرُوْنَ> ٤
اور عترت وقرآن کو ايک هی وصف سے توصيف کرنا اس بات کا کهلا ثبوت هے کہ کلام رسول
الله (ص) کے مطابق عترت، قرآن کی هم پلہ وشريک وحی هے۔
پيغمبر خاتم (ص)کے کلام ميں، جو ميزان حقيقت هے، عترت کا همسرِ قرآن هونا ممکن نهيں
مگر يہ کہ عترت <تِبْيَاناً لِِّکُلِّ شَیْءٍ> ٥ ميں شريک علم اور <لاَ يَا تِْٔيْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہ> ٦ ميں
شريک عصمت قرآن هو۔
٢۔جملہ ((فإنهما لن يتفرقا)) قرآن وعترت کے لازم وملزوم اور ايک دوسرے سے هر گز جدا نہ
هونے پر دلالت کرتا هے۔ يعنی ان دونوں ميں جدائی هو هی نهيں سکتی، اس لئے کہ قرآن ايسی کتاب هے
جو تمام بنی نوع انسان کی مختلف ظرفيتوں اور قابليتوں کے حساب سے نازل هوئی هے جس ميں عوام
کے لئے عبارات، علماء کے لئے اشارات، اولياء کے لئے لطيف نکات اور انبياء کے لئے حقائق بيان هوئے
هيں اور بنی نوع انسان کے پست ترين افراد، جن کا کام فقط مادی ضرورتوں کو پورا کرنا هے، سے لے
کر بلند مرتبہ افراد، جن کے روحی اضطراب کو ذکر خد ا کے بغير اطمينان حاصل نهيں هوتا اور جو
هميشہ اسمائے حسنی،امثال عليا اور تحمل اسم اعظم کی تلاش ميں هيں، کو اس کی هدايت سے بهرہ مند
هونا هے۔
اور يہ کتا ب سورج کی مانند هے کہ ٹهنڈک محسوس کرنے والا اس کی حرارت سے خود کو گرم
کرتا هے، کاشتکار اس کے ذريعے اپنی زراعت کی پرورش چاہتا هے، ماهر طبيعيات اس کی شعاعوں کا
تجزيہ اور معادن ونباتات کی پرورش ميں اس کے آثار کی جستجو کرتاهے اور عالم ربانی دنياومافيها ميں
سورج کی تاثير، طلوع وغروب اور قرب وبعد ميں موجود سنن وقوانين کے ذريعے اپنے گمشدہ کوپاتاهے،
جو سورج کا خالق ومدبر هے۔
ايسی کتاب کے لئے، جو تمام بنی نوع انسان کے لئے هے اور دنيا وبرزخ وآخرت ميں انسانيت
کی تمام ضرورتوں کوپوراکرتی هے، ايسے معلم کی ضرورت هے جو ان تمام ضرورتوں کا علم رکهتا
--------------
1 سورہ يس ، آيت ١،٢ ۔”يس قرآن حکيم کی قسم“۔
2 سورہ ق، آيت ١۔”ق قرآن مجيد کی قسم“۔
3 سورہ واقعہ، آيت ٧٧،٧٨،٧٩ ۔”يہ بڑا محترم قرآن هے۔ جسے ايک پوشيدہ کتاب ميں رکها گيا هے۔ اسے پاک پاکيزہ
افراد کے علاوہ کوئی چهو بهی نهيں سکتا هے“۔
4 سورہ حشر ، آيت ٢١ ۔”هم اگر اس قرآن کو کسی پهاڑ پر نازل کرديتے تو تم ديکهتے کہ پهاڑ خوف خدا سے لرزاں
اور ٹکڑے ٹکڑے هو جاتا هے اور هم ان مثالوں کو انسانوں کے لئے اس لئے بيان کرتے هيں کہ شايد وہ کچه غور وفکر سکيں
“۔
5 سورہ نحل، آيت ٨٩ ۔”جس ميں هر شئے کی وضاحت موجود هے“۔
6 سورہ فصلت، آيت ۴٢ ۔”قرآن کے نہ سامنے سے اور نہ پيچهے سے جهوٹ و باطل کو راستہ نهيں هے“۔

۵٨
هو، کيونکہ طبيب کے بغير طب، معلم کے بغير علم اور مفسر کے بغير زندگی ومعاد کو منظم کرنے والا
الٰهی قانون ناقص هيں اور نہ فقط يہ بات <اَلْيَوْمَ ا کَْٔمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ> ١ کے ساته سازگار نهيں بلکہ قرآن کے
نزول سے نقضِ غرض لازم آتی هے اور <وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ> ٢کے ساته قابل جمع نهيں
هے۔ جب کہ حکيم وکامل علی الاطلاق سے قبيح هے کہ دين کو ناقص بيان کرے اورمحال هے کہ نقص
غرض کرے،اسی لئے فرمايا((لن يتفرقا))
٣۔ايک روايت کے مطابق فرمايا((يا ا ئها الناس إنی تارک فيکم ا مٔرين لن تضلوا إن اتبعتموهما))
اور جيسا کہ سابقہ مباحث ميں اشارہ کيا جاچکا هے کہ خلقت کے اعتبار سے انسان، جو موجودات جهان کا
نچوڑ اور دينوی، برزخی، اخروی، ملکی وملکوتی موجود هونے کی وجہ سے عالم خلق وامر سے وابستہ
هے اور ايسی مخلوق هے جو بقا کے لئے هے نہ کہ فنا کے لئے، ايسے انسان کی هدايت، سعادت ابدی
اوراس کی گمراهی شقاوت ابدی کا باعث هو سکتی هے اور يہ تعليم وتربيت، وحی الٰهی کی هدايت کے
بغير نا ممکن هے،جو ظلمات کے مقابلے ميں نور مقدس هے <قَدْ جَائَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتَابٌ مُّبِيْنٌ> ٣اور
قانون تناسب وسنخيت کے مطابق، معلمِ قرآن کا بهی خطا سے معصوم هونا ضروری هے، کيونکہ انسان، با
عصمت هدايت اور معصوم هادی کے ساته تمسک کے ذريعے هی فکری، اخلاقی وعملی گمراهيوں سے
محفوظ رہ سکتا هے، لہٰذا آپ (ص) نے فرمايا ((لن تضلوا إن اتبعتموهما ))۔
۴۔اور آپ (ص) کے اس جملے ((ولا تعلموهما فإنهما ا عٔلم منکم ))کے بارے ميں ايک انتهائی
متعصب سنی عالم کا يہ قول هی کافی هے کہ ((وتميزوا بذلک عن بقية العلماء لا نٔ اللّٰہ ا ذٔهب عنهم الرجس
وطهرهم تطهيرا)) يهاں تک کہ کہتا هے ((ثم ا حٔق من يتمسک بہ منهم إمامهم و عالمهم علیّ بن ا بٔی طالب
کرّم اللّٰہ وجهہ لما قدمناہ من مزيد علمہ ودقائق مستنبطاتہ ومن ثم قال ا بٔوبکر: علیّ عترة رسول اللّٰہ ا یٔ الذين
حث علی التمسک بهم، فخصہ لما قلنا، وکذلک خصہ بما مر يوم غدير خم)) ٤
اس نکتے کی طرف توجہ ضروری هے کہ اس تصديق کے باوجود کہ آيت تطهير کی وجہ سے
علی (ع) باقی تمام علماء سے افضل هيں، کيونکہ اس آيت کے مطابق رجس سے بطورمطلق پاک هيں،
اور اس اقرار کے باوجود کہ پيغمبر اکرم (ص) علی(ع) کو باقی تمام امت سے اعلم شمار فرماتے تهے
اور خدا بهی فرماتا هے<قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا يَتَذَکَّرُ ا ؤُْلُو اْلا لَْٔبَابِ> ٥اور<ا فََٔمَنْ
يَّهْدِیْ إِلَی الْحَقِّ ا حََٔقُّ ا نَْٔ يُّتَّبَعَ ا مََّٔنْ لاَّ يَهِدِّیْ إِلاَّ ا نَْٔ يُّهْدٰی فَمَا لَکُمْ کَيْفَ تَحْکُمُوْنَ> ٦ اور اس حديث ((إنی تارک
فيکم ا مٔرين لن تضلوا إن اتبعتموهما وهما کتاب اللّٰہ و ا هٔل بيتی عترتی)) کے صحيح هونے کے اعتراف
کے ساته، ضلالت وگمراهی سے نجات پانے کے لئے پوری امت کو علی (ع) کی پيروی کا حکم ديا گيا
هے اور اس طرح علی (ع)کی متبوعيت وعموم امت کی تابعيت کے بارے ميں بغير کسی استثناء کے
حجت قائم هے <قُلْ فَلِلّٰہِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ> ٧
۵۔قانون کو بيان کرنے کے بعد مصداق کو معين کرنے کی غرض سے حضرت علی (ع) کا
هاته پکڑ کر آپ کا تعارف کروايا کہ يہ وهی ثقل هے جو قرآن سے هر گز جدا نہ هوگا اور اس کی
عصمت، هدايت امت کی ضامن هے اور جس طرح پيغمبر (ص) تمام مومنين کے مولاهےں اسی طرح
--------------
1 سورہ مائدہ ، آيت ٣۔”آج هم نے تمهارے دين کو مکمل کرديا“۔
2 سورہ نحل، آيت ٨٩ ۔” هم نے تم پر ايسی کتاب کو نازل کيا جو هر چيز کو بيان کرنے والی هے“۔
3 سورہ مائدہ، آيت ١۵ ۔”بتحقيق الله کی طرف سے تمهارے پاس نورآيا اور کهلی هوئی کتاب آئی“۔
4 صواعق محرقہ ص ١۵١ (اهل بيت اطهار (ع) کتاب خداو سنت رسول کے ذريعہ دوسرے علماء سے جدا هيں کيونکہ
الله تعالیٰ نے ان سے هر رجس کو دور رکها اور ان کو ايسا پاک پاکيزہ رکها جو پاکيزگی کا حق هے)
يهاں تک کہ فرماتا هے کہ ان ميں تمسک و اتباع کے لئے سزاوار ترين شخص ان کے امام علی بن ابی طالب هيں،
کيونکہ ان کا علم دوسروں سے زيادہ هے اور استنباط احکام ميں دقيق هيں اسی وجہ سے ابو بکر نے کها علی عترت رسول هيں
وہ عترت کہ جس سے تمسک کے لئے خدا نے حکم ديا هے ، تو ان کو مخصوص کيا ان باتوں سے جو هم نے بيان کيں، اور
اسی طرح ان امور سے مخصوص کيا جو کہ غدير خم کے دن ميں ذکر کيا جاچکا هے۔
5 سورہ زمر ، آيت ٩۔”کہہ ديجئے کہ کيا وہ لوگ جو جانتے هيں ان کے برابر هو جائيں گے جو نهيں جانتے هيں ،
اس بات سے نصيحت صرف صاحبان عقل حاصل کرتے هيں“۔
6 سورہ يونس، آيت ٣۵ ۔”اور جو حق کی هدايت کرتا هے وہ واقعاً قابل ابتاع هے يا جو هدايت کرنے کے قابل بهی
نهيں هے مگر يہ کہ خود اس کی هدايت کی جائے تو آخر تمهيں کيا هو گيا هے اور تم کيسے فيصلے کر رهے هو“۔
7 سورہ انعام، آيت ١۴٩ ۔”کہہ ديجئے کہ سب سے بڑی حجت خدا هی کی هے“۔

۵٩
علی (ع) کا مولاہونا بهی ثابت هے <إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَيُو تُْٔوْنَ الزَّکوٰةَ
وَهُمْ رَاکِعُوْنَ> ١
اگر چہ خلافت، امامت عامہ اور امامت خاصہ کا مسئلہ عقل،کتاب اور سنت کے حکم سے روشن
هو چکا هے اور امام کے لئے ضروری اوصاف، ائمہ معصومين عليهم السلام کے علاوہ کسی اور ميں
نهيں پائے جاتے، ليکن اتمام حجت کے پيش نظر، حديث ثقلين کے علاوہ، حضرت سيد الوصييّن امير
المو مٔنين (ع) کی شان ميں چند اور احاديث کو پيش کيا جارها هے جن کا صحيح هونا محدثين کے نزديک
ثابت ومسلم هے۔

پهلی حديث
عن ابی ذر رضی اللّٰہ عنہ قال:قال رسول اللّٰہ (ص):((من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ ومن عصانی فقد
عصی اللّٰہ ومن اطاع عليا فقد اطاعنی ومن عصی عليا فقد عصانی )) ٢
اس حديث ميں، جس کے صحيح هونے کی اکابر اهل سنت تصديق کرتے هيںهے، بحکم فرمان
رسول (ص)، جن کی عصمت گفتارکا تذکرہ خداوند متعال نے قرآن ميں کيا هے اور اس بات پر عقلی دليل
بهی قائم هوچکی هے، علی (ع) کی اطاعت وعصيان دراصل اطاعت وعصيان پيغمبر (ص)
هے اور اطاعت وعصيان پيغمبر (ص) دراصل خدا کی اطاعت وعصيان قرار پاتی هے۔
اس توجہ کے ساته کہ اطاعت و عصيان کا تعلق امر ونهی سے هے اور امر ونهی کی وجہ ارادہ
وکراہت هے،لہٰذا علی (ع) کی اطاعت وعصيان کا خدا کی اطاعت وعصيان قرار پانا اسی وقت ممکن هے
جب علی (ع) کا ارادہ و کراہت، خدا کے ارادے وکراہت کا مظهرہو۔
اور جس کا ارادہ وکراہت، خدا کے ارادے وکراہت کا مظهر هو اس کے لئے مقام عصمت کا هونا
ضروری هے، تاکہ اس کی رضا وغضب، باری تعالی کی رضا وغضب هو اور کلمہ ((مَنْ ))کی عموميت
کا تقاضا يہ هے کہ جو بهی خدا وپيغمبر (ص) کی اطاعت کے دائرے ميں هے علی (ع) کے فرمان کے
آگے سر تسليم خم کردے، اور اگر ايسا نہ کرے تو اس نے خدا و رسول کی نافرمانی کی هے: <وَمَنْ يَعْصِ
اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا> ٣ <وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ لَہُ نَارَ جَہَنَّمَ خَالِدِينَ فِيہَا ا بََٔدًا> ٤
اور جس نے حضرت علی عليہ السلام کی اطاعت کی اس نے خدا اور اس کے ر سول کی اطاعت
کی هے: < وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَہُ يُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْا نَْٔہَارُ> ٥ <وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ
فَوْزًا عَظِيمًا> ٦ <وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَالرَّسُولَ فَا ؤُْلَئِکَ مَعَ الَّذِينَ ا نَْٔعَمَ اللهُ عَلَيْہِمْ> ٧

دوسری حديث
((إن رسول اللّٰہ (ص) خرج إلی تبوک واستخلف عليا فقال ا تٔخلفنی فی الصبيان والنساء، قال:
ا لٔاترضی ا نٔ تکون منی بمنزلة هارون من موسی إلا ا نٔہ ليس نبی بعدی)) ١
--------------
1 سورہ مائدہ ، آيت ۵۵ ۔”بے شک فقط تمهاراولی خدا هے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ايمان لائے اور نماز کو
قائم کرتے هيں اور حالت رکوع ميںزکوة اداء کرتے هيں“۔
2 ابوذر رضی الله عنہ سے روايت هے کہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:جس نے ميری اطاعت کی اس نے الله کی
اطاعت کی اور جس نے ميرا عصيان کيا اس نے خدا کا گناہ کيا اور جس نے علی کی اطاعت کی اس نے ميری اطاعت اور جس
نے علی کی نافرمانی کی اس نے ميری نافرمانی هے ۔مستدرک صحيحين ج ٣ کتاب معرفة صحابہ، ص ١٢١ ، بحار الانوارج ٣٨
ص ١٢٩ ۔
3 سورہ احزاب، آيت ٣۶ ، ترجمہ: جو کوئی بهی خدا کی نافرمانی اور رسول کی نافرمانی کرتا هے وہ آشکار گمراهی
ميں هے۔
4 سورہ جن، آيت ٢٣ ، ترجمہ: جو کوئی خدا اور رسول کی نافرمانی کرتا هے اس کے لئے جهنم کی آگ هميشہ کے
لئے هے۔
5 سورہ نساء، آيت ١٣ ، ترجمہ: جس نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس کو جنت ميں داخل کيا جائے گا
جس کے نيچے نهريں جاری هيں۔
6 سورہ احزاب، آيت ٧١ ، ترجمہ: جس نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ عظيم کاميابی پاگيا۔
7 سورہ نساء، آيت ۶٩ ، ترجمہ: جس نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ان کے ساته هے جس پر خدا نے
نعمت نازل کی هے۔ ۔

۶٠
يہ روايت، اهل سنت کی معتبر کتب صحاح اور مسانيد ميں ذکر هوئی هے۔ اکابراهل سنت نے اس
حديث کے صحيح هونے پر اتفاق کو بهی نقل کيا هے۔ ان کی گفتار کا نمونہ يہ هے ((هذا حديث متفق علی
صحتہ رواہ الائمة الحفاظ، کا بٔی عبد اللّٰہ البخاری فی صحيحہ، ومسلم ابن الحجاج فی صحيحہ، وا بٔی داود فی
سننہ، وا بٔی عيسی الترمذی فی جامعہ، و ا بٔی عبد الرحمان النسائی فی سننہ، وابن ماجة القزوينی فی سننہ،
واتفق الجميع علی صحتہ حتی صار ذلک اجماعا منهم، قال الحاکم النيسابوری هذا حديث دخل فی حدّ
التواتر)) ٢
اس روايت ميں منزلت کے عمومی بيان کا تقاضا يہ هے کہ حضرت موسی (ع) کی نسبت جناب
هارون (ع) کو جو مقام حاصل تها پيغمبر (ص) کی نسبت حضرت علی (ع) کے لئے بهی وہ مقام ثابت
هے اور استثناء مقام نبوت اس عموم کی تاکيد هے۔
قرآن مجيد ميں حضرت هارون (ع) کی نسبت، حضرت موسیٰ (ع) سے اس طرح بيان فرمائی گئی
هے <وَاجْعَلْ لِیْ وَزِيْرًا مِّنْ ا هَْٔلِيْةهَارُوْنَ ا خَِٔيْةاشْدُدْ بِہ ا زَْٔرِيْةوَا شَْٔرِکْہُ فِیْ ا مَْٔرِیْ>، ٣ <وَقَالَ مُوْسٰی لِا خَِٔيْہِ
هَارُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ ا صَْٔلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ> ٤
اور يہ مقام ومنزلت پانچ امور کا خلاصہ هے:

١۔وزارت :
وزير وہ هے جو بادشاہ کی ذمہ داريوں کا بوجه اپنے کاندهوں پر ليتا هے اور ان امور کو انجام
ديتا هے، اور حضرت علی(ع) کے لئے يہ مقام نہ فقط اس حديث منزلت، بلکہ اهل سنت کی ديگر معتبر
کتب حديث وتفاسير ميں بهی ذکر هوا هے۔ ٥
--------------
1 صحيح بخاری باب غزوہ تبوک ،ج ۵، ص ١٢٩ ، حديث نمبر ٢(رسول خدا جنگ تبوک تشريف لے گئے اور علی کوا
پنا خليفہ بنايا علی نے حضرت سے فرمايا:آيا آپ هم کو عوتوں اور بچوں ميں چهوڑ کے جارهے هيں حضرت نے جواب ديا کيا
تم اس پر راضی نهيں هو کہ تم ميرے نزديک ويسے هی هو جيسے هارون موسیٰ کے لئے تهے فرق فقط اتنا هے کہ ميرے بعد
کوئی نبی نهيں هے۔
مذکورہ حديث ، حديث منزلت کے نام سے مختصر سے فرق کے ساته اکثر سنی اور شيعہ کتابوں ميں موجود هے۔
صحيح بخاری ج ۴، ص ٢٠٨ ،، صحيح مسلم ج ٧، ص ١٢٠،١٢١ ، الجامع الصحيح ترمذی، ج ۵، ص ٣٠٢ ، سنن ابن
۵٠ ، اور اسی کتاب ميں دوسرے مقامات پر،المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ، ماجہ ، ج ١، ص ۴۵ ، خصائص نسائی، ص ۴٨
٣٣٨ ، ج ۶، ص ٣۶٩ ، اور اهل سنت کے ديگر منابع۔ ، ١٧٣ ، ج ٣، ص ٣٢ ، ١٠٨ ، مسند احمد، ج ١، ص ١٧٠
المحاسن للبرقی، ج ١ ،ص ١۵٩ ، کافی ،ج ٨ ،ص ١٠٧ ، دعائم الاسلام ،ج ١ ،ص ١۶ ، علل الشريع، ج ١، ص ۶۶ ، عيون
الاخبار الرضا، ج ٢ ،ص ١٢٢ ، باب ٣۵ دوسری شيعہ کتب۔
2 کفاية الطالب ص ٢٨٣ (يہ وہ حديث هے جس کے صحت پر علماء اهل سنت کا اتفاق هے اور اس حديث کو نقل کيا
هے جيسے بخاری مسلم ابن دادو ،ٔ ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ، اس حديث کی صحت پر سب کا اتفاق هے، يهاں تک اس پر اجماع
هے، يهاں تک نيشاپوری نے کها کہ يہ حديث تو اتر کی حد تک نقل هوئی هے۔
بعض بزرگ علماء اهل سنت اس حديث کے سلسلے ميں فرماتے هيں:
١٠٩٨ ميں نقل کرتے هيں کہ اے علی ! تمهارے نسبت ميرے نزديک ، الف:ابن عبد البر استيعاب قسم سوم ص ١٠٩٧
ويسے هی هے جو هارون کو موسیٰ سے تهی۔
ب:جزری اسنی المطالب ص ۵٣ ميں لکهتے هيں اس حديث کی صحت پر اتفاق هے جس کو رسول سے صحابہ کے
ايک گروہ نے نقل کيا هے ان ميں عمر خود بهی، ابن عباس عبد الله بن جعفر ، معاذ معاويہ، جابر بن عبد الله ،وجابر بن سمرة ،
ابو سعيد، وبراء بن عازب،، وزيد بن ارقم ، وزيدبن ابی اوفی، ونبيط بن شرايط ، وحبشی بن جنادہ، وماهر بن الحويرث، وانس بن
مالک ،وابی الطفيل، وام سلمہ، واسماء بنت عميس ، وفاطمہ بنت حمزہ۔
ج:شرح السنة بغوی ج ١۴ ص ١١٣ ( هذا حديث متفق علی صحة)اس حديث کے صحت پر اتفاق هے۔
د:شواهد التنزيل حاکم حسکانی ج ١ ص ١٩۵ ۔”هذا هو حديث المنزلة الذی کان شيخنا ابو حازم الحافظ يقول خرجتہ بخمسة
الاف اسناد۔“(يہ وہ حديث منزلت هے جس کے بارے ميں ميرے استاد فرماتے تهے کہ ميں پانچ ہزار سند کے ساته استخراج کيا
هے)
3 سورہ طہ ، آيت ٢٩،٣٠،٣١،٣٢ ۔”اور ميرے اهل سے ميرا وزير قرار ديدے۔هارون کو جوميرابهائی بهی هے۔اس
سے ميری پشت کو مضبوط کر دے۔اور ميرے کام ميں شريک بنادے“۔
4 سورہ اعراف، آيت ١۴٢ ۔”اور انهوں نے اپنے بهائی هارون سے کها کہ تم قوم ميں ميری نيابت کرو اور اصلاح
کرتے رہو اور خبردار مفسدوں کے راستہ کا اتباع نہ کرنا“۔
5 تفسير کبير فخر رازی ج ١٢ ص ٣۶ <انما وليکم الله ورسولہ>کے ذيل ميں طبقات ابن سعد ج ٣ ص ٢٣ ۔