|
امامت
شيعہ وسنی کے درميان اس بات ميں کوئی اختلاف نهيں خليفہ پيغمبر (ص) کا هونا ضروری
هے۔ اختلاف اس ميں هے کہ آيا پيغمبر اسلام (ص) کے خليفہ کی خلافت انتصابی هے يا انتخابی۔
اهلسنت کا عقيدہ هے کہ خدا اور رسول (ص) کی جانب سے کسی کے معين کئے جانے کی
ضرورت نهيں بلکہ خليفہ رسول امت کے انتخاب سے معين هوجاتا هے جب کہ شيعوں کا عقيدہ يہ هے کہ
پيغمبر اکرم کے انتخاب کے بغير جو درحقيقت خدا کی جانب سے انتخاب هے ، کوئی بهی فرد خلافت کے
لئے معين نهيں هوسکتا۔
اس اختلاف ميں حاکميت عقل، قرآن اور سنت کے هاته هے۔
الف۔قضاوتِ عقل
اور اس کے لئے تين دليليں کافی هيں:
١۔ اگر ايک موجد ايسا کارخانہ بنائے جس کی پيداوار قيمتی ترين گوهر هو اور اس ايجاد کا مقصد
پيدا وار کے اس سلسلے کو هميشہ باقی رکهنا هو، يهاں تک کہ موجد کے حضوروغياب اور زندگی وموت،
غرض هر صورت ميں اس کام کو جاری رکهنا نهايت ضروری هو، جب کہ اس پيداوار کے حصول کے
لئے، اس کارخانے کے آلات کی بناوٹ اور ان کے طريقہ کار ميں ايسی ظرافتوں اور باريکيوں کا خيال
رکها گيا هو جن کے بارے ميں اطلاع حاصل کرنا، اس موجد کی رهنمائی کے بغير نا ممکن هو، کيا يہ بات
قابل يقين هے کہ وہ موجد اس کام کے لئے ايک ايسے دانا شخص کومعين نہ کرے جو اس کارخانے کے
آلات کے تمام رازوں سے باخبر هو اور ان کے صحيح استعمال سے واقف هو ؟! بلکہ اس کارخانے کے
انجينئير کے انتخاب کا حق مزدوروں کو دے دے جو ان آلات سے نا آشنا اور ان دقتوں اور باريکيوں سے
نا واقف هيں ؟!
وہ باريک بينی جس کا انسانی زندگی کے تمام شعبوں ميں جاری هونے والے الٰهی قوانين، سنن
اور تعليمات ميں خيال رکها گيا هے جو کارخانہ دين خدا کے آلات واوزار هيں، کہ جس کارخانے کی پيدا
وار ، خزانہ وجود کا قيمتی ترين گوهر، يعنی انسانيت کو معرفت وعبادتِ پروردگار کے کمال تک پہچانا
اور شہوت انسانی کو عفت، غضب کو شجاعت اور فکر کو حکمت کے ذريعے توازن دے کر، انصاف
وعدالت پر مبنی معاشرے کا قيام هے، کيامذکورہ موجد کے ايجادکردہ کار خانے ميں جاری هونے والی
باريکی اور دقت نظری سے کم هے ؟!
جس کتاب کی تعريف ميں خداوند متعال نے فرماياوَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ تِبْيَانًا لِکُلِّ شَیْءٍ وَّهُدًی
وَّرَحْمَةً> ٤ اورکِتَابٌ ا نَْٔزَلْنٰہُ إِلَيْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلیَ النُّوْرِ ٥ اوروَمَا ا نَْٔزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ ا لِٔاَّ
--------------
1 سورہ يس، آيت ٨٠ ۔”اس نے تمهارے لئے هرے درخت سے آگ پيدا کردی هے تو تم اس سے اور آگ سلگا ليتے
هو“۔
2 سورہ حديد ، آيت ١٧ ۔”ياد رکهو کہ خدا مردہ زمينوں کا زندہ کرنے والا هے اور هم نے تمام نشانيوں کو واضح کر
کے بيان کر ديا تاکہ تم عقل سے کام لے سکو“۔
3 بحار الانوارج ٧ ص ۴٧ (يقينا تم موت کے گهاٹ اتروگے جيسے تم سوتے هو اور دوبارہ زندہ کئے جاو گٔے جيسا کہ
تم سوکر دوبارہ جاگتے هو)
4 سورہ نحل، آيت ٨٩ ۔”اور هم نے آپ پر کتاب نازل کی هے جس ميں هر شے کی وضاحت موجود هے اور يہ کتاب
هدايت اور رحمت هے “۔
5 سورہ ابراهيم، آيت ١۔”کتاب جسے هم نے آپ کی طرف نازل کيا هے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاريکيوں
سے نکال کر نور کی طرف لے آئيں“۔
۵٣
لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوْافِيْہِ > ١اس کتاب کے لئے ايسے مبيّن کا هونا ضروری هے جو اس کتاب ميں موجود
هر اس چيز کا استخراج کر سکے جس کے لئے يہ کتا ب تبيان بن کر آئی هے، ايک ايسا فردجو انسان کے
فکری، اخلاقی اور عملی ظلمات پر احاطہ رکهتے هوئے، عالم نور کی جانب انسان کی رهنمائی کر سکے،
جو نوع انسان کے تمام تر اختلافات ميں حق و باطل کو بيان کر سکتا هو، کہ جن اختلافات کی حدود مبداء
ومعاد سے مربوط وجود کے عميق ترين ايسے مسائل، جنہوں نے نابغہ ترين مفکرين کو اپنے حل ميں
الجها رکها هے، سے لے کر مثال کے طور پر ايک بچے کے بارے ميں دو عورتوں کے جهگڑے تک
هے جو اس بچے کی ماں هونے کی دعويدار هيں۔
کيا يہ بات تسليم کی جاسکتی هے کہ عمومی هدايت، انسانی تربيت، مشکلات کے حل اور
اختلافات کے مٹانے کے لئے قرآن کی افاديت، پيغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے ساته ختم هو گئی هو؟!
آيا خدا اور اس کے رسول (ص) نے اس قانون اور تعليم وتربيت کے لئے کسی مفسر ومعلم اور
مربی کا انتظام نهيں کيا؟! اور کيا اس مفسر ومعلم ومربی کو معين کرنے کا اختيار، قران کے علوم
ومعارف سے بے بهرہ لوگوں کو دے ديا هے؟!
٢۔ انسان کی امامت ورهبری يعنی عقلِ انسان کی پيشوائی وامامت، کيونکہ امامت کی بحث کا
موضوع ”انسان کا امام هے“اور انسان کی انسانيت اس کی عقل وفکر سے هے ((دعامة الإنسان العقل)) ٢
خلقت انسانی کے نظام ميں بدن کی قوتيں اور اعضاء، حواس کی رهنمائی کے محتاج هيں،
اعصاب حرکت کواعصا ب حس کی پيروی کی ضرورت هے اور خطا ودرستگی ميں حواس کی رهبری
عقلِ انسانی کے هاته هے، جب کہ محدود ادراک اور خواهشاتِ نفسانی سے متاثر هونے کی وجہ سے خود
عقلِ انسان کو ايسی عقلِ کامل کی رهبری کی ضرورت هے جو بيماری وعلاج اور انسانی نقص وکمال کے
عوامل پر مکمل احاطہ رکهتی هواور خطاو هویٰ سے محفوظ هو، تاکہ اس کی امامت ميں انسانی عقل کی
هدايت تحقق پيدا کر سکے اور ايسی کامل عقل کی معرفت کا راستہ يهی هے کہ خدا اس کی شناخت
کروائے۔ اس لحاظ سے امامت کی حقيقت کا تصور، خدا کی جانب سے نصب امام کی تصديق سے جدا
نهيں۔
٣۔ چونکہ امامت قوانين خدا کی حفاظت، تفسير اور ان کا اجراء هے، لہٰذا جس دليل کے تحت
قوانين الٰهی کے مبلغ کا معصوم هونا ضروری هے اسی دليل سے محافظ، مفسر اور قوانين الٰهی کے اجراء
کنندہ کی عصمت بهی ضروری هے اور جس طرح هدايت، جو کہ غرض بعثت هے، اس وقت باطل
هوجاتی هے جب مبلّغ ميں خطا وہویٰ آجاتی هے، اسی طرح مفسر ومجری قوانين الٰهی کا خطا کار هونا
اور خواهشات کے زير اثر آجانا،اضلال وگمراهی کا سبب هے اور معصوم کی پہچان خداوندِ متعال کی
رهنمائی کے بغير ناممکن هے۔
ب۔ قضاوت قرآن :
اختصار کی وجہ سے تين آيات کی طرف اشارہ کرتے هيں:
پهلی آيت :
<وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَکَانُوْا بِآيَاتِنَا يُوْقِنُوْنَ> ٣
هر درخت کی شناخت اس کی اصل وفرع، جڑ اور پهل سے هوتی هے۔شجر امامت کی اصل
وفرع، قرآن مجيد کی اس آيت ميں بيان هوئی هے۔
صبر اور آيات خداوند کريم پر يقين، امامت کی اصل هے اور يہ دو لفظ انسان کے بلند ترين مرتبہ
کمال کو بيان کرتے هيں کہ کمال عقلی کی بناء پر ضروری هے کہ امام معرفت الٰهی اور آيات ربانی ۔ کہ
جن آيات کوصيغہ جمع کے ساته ذات قدوس الٰهيہ کی جانب نسبت دی هے۔کے لحاظ سے يقين کے مرتبہ پر
--------------
1 سورہ نحل ، آيت ۶۴ ۔”اور هم نے آپ پر کتاب صرف اس لئے نازل کی هے کہ آپ ان مسائل کی وضاحت کرديں
جن ميں يہ اختلاف کرتے هيں“۔
2 بحار الانوارج ١ ص ٩٠ (انسان کا ستون اس کی عقل هے)
3 سورہ سجدہ ، آيت ٢۴ ۔”اور هم نے ان ميں سے کچه لوگوں کو امام اور پيشوا قرار ديا هے جو همارے امر سے
لوگوں کی هدايت کرتے هيں اس لئے کہ انهوں نے صبر کيا هے اور هماری آيتوں پر يقين رکهتے تهے“۔
۵۴
اور ارادے کے اعتبار سے مقام صبر پر، جو نفس کو مکروهات خدا سے دور اور اس کے پسنديدہ اعمال
پر پابند کردينے کا نام هے، فائز هو اور يہ دو جملے امام کے علم اور اس کی عصمت کے بيان گر هيں۔
فرعِ امامت، امرِ خدا کے ذريعے هدايت کرنا هے اور امرِ الٰهی کے ذريعے هدايت سے عالَم خلق
اور عالَم امر کے مابين وساطتِ امام ثابت هوتی هے اورخود يهی فرع جو اس اصل کا ظہور هے، امام کے
علم وعصمت کی آئينہ دار هے۔
وہ شجرہ طيبہ جس کی اصل وفرع يہ هوں، اس کی پرورش قدرت خدا کے بغير ناممکن هے،
اسی لئے فرمايا: <وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوْا بِآيَاتِنَا يُوْقِنُوْنَ>
دوسری آيت :
<وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاهِيْمَ رَبُّہ بِکَلِمَاتٍ فَا تََٔمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِی قَالَ لاَ يَنَالُ
عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ > ١
امامت وہ بلند مقام ومنصب هے جو حضرت ابراهيم (ع) کو کٹهن آزمائشوں، مثال کے طور پر
خدا کی راہ ميں بيوی اور بچے کو بے آب و گياہ بيابا ن ميں تنها چهوڑنے، حضرت اسماعيل کی قربانی
اور آتش نمرود ميں جلنے کے لئے تيار هونے، اور نبوت ورسالت وخلت جيسے عظيم مراتب طے کرنے
کے بعد نصيب هوا اور خداوند متعال نے فرمايا <إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا>اس مقام کی عظمت نے آپ عليہ
السلام کی توجہ کو اتنا زيادہ مبذول کيا کہ اپنی ذريت کے لئے بهی اس مقام کی درخواست کی تو خداوند
متعال نے فرمايا <لاَ يَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْن>
اس جملے ميں امامت کو خداوند متعال کے عهد سے تعبير کيا گيا هے جس پر صاحب عصمت
کے علاوہ کوئی دوسرا فائز نهيں هو سکتا اور اس ميں بهی شک وترديد نهيں کہ حضرت ابراهيم(ع) نے
اپنی پوری کی پوری نسل کے لئے امامت نهيں چاهی هو گی کيونکہ يہ بات ممکن هی نهيں کہ خليل الله نے
عادل پرودرگار سے کسی غير عادل کے لئے انسانيت کی امامت کو طلب کيا هو، ليکن چونکہ حضرت
ابراهيم (ع) نے اپنی عادل ذريت کے لئے جو درخواست کی تهی،اس کی عموميت کا دائرہ ذريت کے اس
فرد کو بهی شامل کررها تها جس سے گذشتہ زمانے ميں ظلم سرزد هوچکا هو۔لہٰذا خدا کی جانب سے دئے
گئے جواب کا مقصد يہ تها کہ ايسے عادل کے حق ميں آپ کی يہ دعا مستجاب نهيں جن سے پهلے گناہ
سرزد هو چکے هيں بلکہ حکم عقل وشرع کے مطابق امامت مطلقہ کے لئے عصمت وطهارت مطلقہ شرط
هيں۔
تيسری آيت :
<يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا ا طَِٔيْعُو اللّٰہَ وَا طَِٔيْعُوا لرَّسُوْلَ وَا ؤُْلِی اْلا مَْٔرِ مِنْکُمْ> ٢
اس آيت کريمہ ميں اولی الامر کو رسول پر عطف ليا گيا هے اور دونوں ميں ايک <اطيعوا>پر
اکتفا کرنے سے يہ بات ظاهر هوتی هے کہ اطاعت اولی الامر اور اطاعت رسول (ص)کے وجوب کی
سنخ وحقيقت ايک هی هے اور اطاعت رسول (ص)کی طرح، جو وجوب ميں بغير کسی قيد وشر ط اور
واجب ميں بغير کسی حد کے، لازم وضروری هے اور اس طرح کا وجوب ولی امر کی عصمت کے بغير
نا ممکن هے، کيونکہ کسی کی بهی اطاعت اس بات سے مقيد هے کہ اس کا حکم، الله تعالی کے حکم کا
مخالف نہ هو اور عصمت کی وجہ سے معصوم کا فرمان، خد اکے فرمان کے مخالف نهيں هو سکتا، لہٰذا
اس کی اطاعت بهی تمام قيود وشرائط سے آزاد هے۔
اس اعتراف کے بعد کہ امامت، در حقيقت دين کے قيام اور مرکزِ ملت کی حفاظت کے لئے،
رسول (ص)کی ايسی جا نشينی کا نام هے کہ جس کی اطاعت وپيروی پوری امت پر واجب هے ٣ اور إِنَّ
--------------
1 سورہ بقرہ، آيت ١٢۴ ۔”اور اس وقت کو ياد کرو جب خدا نے کلمات کے ذريعہ ابراهيم کا امتحان ليا اور انهوں نے
پورا کر ديا تو اس نے کها کہ هم تم کو لوگوں کا امام بنا تے هيں ۔ انهوں نے عرض کيا کہ ميری ذريت ؟ارشاد هوا کہ يہ مير
اعهدہ (امامت) ظالمين تک نهيں جائے گا“۔
2 سورہ نساء، آيت ۵٩ ۔”ايمان لانے والو! الله کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تم ميں
سے هيں“۔
3 شرح المواقف ج ٨ ص ٣۴۵ ۔
۵۵
اللّٰہَ يَا مُْٔرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ > ١ <يَا مُْٔرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ> ٢ کے مطابق اگر ولی امر معصوم نہ
هو تو اس کی اطاعت مطلقہ کا لازمہ يہ هے کہ خدا ظلم ومنکر کا امر کرے اور عدل ومعروف سے نهی
کرے۔
اس کے علاوہ، ولی امر کے غير معصوم هونے کی صورت ميں عين ممکن هے کہ اس کا حکم
خدا اور رسول کے فرمان سے ٹکرائے اور اس صورت ميں اطاعتِ خدا و رسول (ص)اور اطاعت ولی
امر کا حکم، اجتماع ضدين اور ايک امر محال هو گا۔
لہٰذا، نتيجہ يہ هوا کہ کسی قيد وشرط کے بغير اولی الامر کی اطاعت کا حکم، اس بات کی دليل
هے کہ ان کا حکم خدا اور رسول کے فرمان کے مخالف نهيں هے اور خود اسی سے عصمت ولی امر بهی
ثابت هو جاتی هے۔
اور يہ کہ معصوم کا تعين عالم السر و الخفيات کے علاوہ کسی اور کے لئے ممکن نهيں هے۔
|
|