اصول دين سے آشنائی
 

معاد
معاد پر اعتقاد دو راہوں سے حاصل هوتا هے :دليلِ عقلی اور عقل پر مبنی دليل نقلی

دليل عقلی:
١۔هر عاقل کی عقل يہ درک کرتی هے کہ عالم وجاهل ، اخلاق فاضلہ مثال کے طورپر بخشش
وکرم سے آراستہ اور اخلاق رذيلہ مثال کے طور پر بخل وحسد سے آلودہ اور نيک وبد انسان برابر نهيں
هيں اور کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا وسزا نہ دينا ظلم هے ۔
اور جيسا کہ اس زندگی ميں اچهے اعمال بجالانے والوں کو اچهائی کی جزا اور برے اعمال بجا
لانے والوں کو برائی کی سزا ملنا چاهيے نهيں ملتی، لہٰذا اگر اس کے علاوہ عقائد ،اخلاق اور اعمال سے
متناسب عذاب وثواب پر مشتمل کوئی دوسری زندگی نہ هو تو يہ ظلم هوگا اور اسی بناء بر حشر ونشر
،حساب و کتاب اور ثواب و عقاب کا هونا عدل پروردگار کا عين تقاضا هے <ا مَْٔ نَجْعَلُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا
الصَّالِحَاتِ کَالْمُفْسِدِيْنَ فِی اْلا رَْٔضِ ا مَْٔ نَجْعَلُ الْمُتَّقِيْنَ کَالْفُجَّارِ> ٤
٢۔خداوند متعال حکيم هے لہٰذا عبث ولغو عمل اس سے صادر نهيں هوتا ،اس نے انسان کو خلق
کيا اور اسے نباتات وحيوانات کے لئے ضروری صفات، مثال کے طور پر دفع وجذب اور شہوت وغضب،
کے ساته ساته ايسی صفات سے مزين کيا کہ جو اسے علمی کمالات ، اخلاقی فضائل اور شائستہ گفتار
ورفتار کی جانب دعوت ديتی هے۔ کمالات تک پهنچنے کے لئے کسی حد پر نهيں ٹههرتی اور علم وقدرت
کے کسی بهی مرتبے تک پهنچنے کے باوجود اگلے مراحل کی پياس باقی رہتی هے ۔پهر انبياء عليهم
السلام کو اسی فطرت کی تربيت کے لئے بهيجا تاکہ اسے نامتناهی کمال کی ابتداء کی جانب هدايت کريں
--------------
1 انيس الاعلام ج ١ ص ۶۔
2 عهد قديم :حضرت عيسیٰ عليہ السلام سے پهلے نازل هونے والی وحی اور احکامات۔
3 عهد جديد :وحی و الهام کا وہ مجموعہ جسے حضرت عيسیٰ عليہ السلام کے بعد تاليف کيا گيا۔
4 سورہ ص ، آيت ٢٨ ۔”کيا هم ايمان لانے والے اور نيک عمل کرنے والوں کو زمين ميں فساد برپا کرنے والوں جيسا
قرار ديديں يا صاحبان تقویٰ کو فاسق و فاجر افراد جيسا قرار ديديں“۔

۵١
۔اگر انسان کی زندگی اسی دنيا تک محدود هوتی تو اس فطرت کا وجود اور هدايت کے لئے انبياء کی بعثت
لغو وعبث قرار پاتی ۔
لہٰذا ،حکمت خداوندِ متعال کا تقاضا يہ هے کہ انسان کی زندگی اسی حيات مادی وحيوانی تک ختم
نہ هو بلکہ اس کمال کو پانے کے لئے جو خلقت کا مقصد هے آئندہ بهی جاری هے <ا فََٔحَسِبْتُمْ ا نََّٔمَا خَلَقْنَاکُمْ
عَبَثاً وَّ ا نََّٔکُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُوْنَ > ١
٣۔فطرت انسانی اس بات کا تقاضا کرتی هے کہ هر صاحب حق کواس کا حق اور ظالم کے مقابلے
ميں هر مظلوم کو انصاف ملنا چاهيے اور يهی فطرت هے جو هر دين ومسلک سے تعلق رکهنے والے
انسان کو، عدل وانصاف فراهم کرنے کے لئے، قوا نين اور عدالتيں بنانے پر مجبور کرتی هے۔
نيز يہ بات بهی واضح وروشن هے کہ دنياوی زندگی ميں بہت سے ظالم ،مسند عزت واقتدار پر
زندگی بسر کرتے هيں اور مظلوم تازيانوں اور شکنجوں ميں سسک سسک کر جان دے ديتے هيں ۔حکمت
،عدل ،عزت اور رحمت خداوند متعال کا تقاضا يہ هے کہ ظالموں سے ان مظلوموں کا بدلہ ليا جائے <وَلاَ
تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُوْنَ إِنَّمَا يُو خَِّٔرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيْہِ اْلا بَْٔصَارُ > ٢
۴۔حکمت خداوند متعال کا تقاضا يہ هے کہ انسان کی غرضِ خلقت اور مقصد وجود تک رسائی
کے لئے ،اسے وسائل فراهم کرے ، جو اسباب سعادت کے حکم اور اسباب شقاوت سے نهی کئے بغير
ميسر نهيں۔ اسی طرح انسانی هویٰ وہوس کے مخالف قوانينِ الٰهی کا اجراء بغيرخوف ورجاء کے ممکن
نهيںاور يہ دونوں بشارت وانذار کے بغير متحقق نهيں هوسکتے ، اُدهر بشارت وانذار کا لازمہ يہ هے کہ
اس زندگی کے بعد ثواب وعقاب اور نقمت ونعمت ملے ورنہ بشارت وانداز کو جهوٹ ماننا پڑے گا، جب کہ
خداوندِ متعال هر قبيح سے منزہ هے ۔

دليل نقلی :
تمام اديان آسمانی معاد کے معتقد هيں اور اس اعتقاد کی بنياد پيغمبرانِ الٰهی کا خبر دينا هے ۔ ان
کا خبر دينا وحی الٰهی سے مستند هے ، جب کہ عصمت انبياء عليهم السلام اوروحی کا هر خطاولغزش سے
محفوظ هونا معاد پر ايمان اور اعتقاد کو ضروری و واجب قرار ديتا هے ۔
معاد اور حشر ونشر کے منکرين کے پاس پيغمبروں کی اس خبر کے مقابلے ميں اسے بعيد
الوقوع کهنے کے علاوہ کوئی دوسرا بهانہ نہ تها کہ يہ کيسے هوسکتا هے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
هوں ؟بوسيدہ وخاک هونے کے بعد يہ مردہ و پراگندہ ذرات آپس ميں مل کر نئی زندگی کيسے پا سکتے هيں
؟
جب کہ وہ اس بات سے غافل هيں کہ بے جان و پراگندہ اجزاء هی سے تو زندہ موجود ات کو بنايا
گيا هے ۔وهی علم، قدرت اور حکمت جس نے بے جان ومردہ مادّے کو خاص ترکيب اور مخصوص نظام
کے ساته حيات وزندگی قبول کرنے کی صلاحيت عطا کی هے اور جو انسان جيسے ان تمام اعضاء
وقوتوں کے مجموعے کو بغير کسی سابقہ مثال ونمونے کی موجودگی کے بنا سکتا هے وہ انسان کے
مرنے اور منتشر هونے کے بعد اس کے تمام ذرات کو ،چاهے کهيں بهی هوں اور کسی بهی حالت ميں
هوں،جو اس کے احاطہ علم ونظروں سے اوجهل نهيں،جمع کر سکتا هے اور جس قدرت کے ساته پهلی
مرتبہ بغير کسی مثال ونمونے کے خلق فرمايا تها دوسری بار نمونے اور سابقہ تجربے کے هوتے هوئے
جو اور بهی زيادہ آسان هے، انجام دے سکتا هے <قَالُوا ا إِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَاباً وَّعِظَامًا ا إِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ > ٣
<ا ؤََلَيْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ بِقَادِرٍ عًلیٰ ا نَْٔ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلیٰ وَهُوَ الخَلاَّقُ الَعَلِيْمُ> ٤
وہ قدرت جو سر سبز درختوں سے آگ کو روشن اور خزاں کی موت کے بعد مردہ زمين کو هر
بهار ميں زندگی عطا کرتی هے، اس کے لئے موت کے بعد زندگی عطا کرنا هر گز مشکل کام نهيں اَلّذِیْ
--------------
1 سورہ مومنون، آيت ١١۵ ۔”کيا تمهارا خيال يہ تها کہ هم نے تمهيں بيکار پيدا کيا هے اور تم هماری طرف پلٹا کر
نهيں لائے جاو گٔے“۔
2 سورہ ابراهيم ، آيت ۴٢ ۔”اور خبردار خدا کو ظالمين کے اعمال سے غافل نہ سمجه لينا کہ وہ انهيں اس دن کے لئے
مهلت دے رها هے جس دن آنکهيں (خوف سے )پتهرا جائيں گی“۔
3 سورہ مومنون ، آيت ٨٢ ۔”کيا اگر هم مر گئے اور مٹی اور ہڈی هو گئے تو کيا هم دوبارہ اٹهائے جانے والے هيں“۔
4 سورہ يس ، آيت ٨١ ۔”تو کيا جس نے زمين وآسمان کو پيدا کی هے وہ اس بات پر قادر نهيں هے کہ ان کامثل دوبارہ
پيدا کردے يقينا هے اور وہ بہترين پيدا کرنے والا اور جاننے والاهے“۔

۵٢
جَعَلَ لَکُمْ مِنَ الشَّجَرِ اْلا خَْٔضَرِ نَارًا فَإِذَا ا نَْٔتُمْ مِنْہُ تُوْقِدُوْنَ> ١<اِعْلَمُوْا ا نََّٔ اللّٰہَ يُحْیِ اْلا رَْٔضَ بَعْدَ مَوْتِہَا قَدْ بَيَّنَّا لَکُمُ
اْلآيَاتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ> ٢
وہ قدرت جو هر رات، انسان کے ادراک کی مشعل کو نيند کے ذريعے بجهاتی اور اس سے علم
واختيار کو سلب کرليتی هے ، موت کے ذريعے بجهنے کے بعد بهی اسے دوبارہ ادراک کی روشنی عطا
کرنے اور فراموش شدہ معلومات کو پلٹانے پر قادر هے ((لتموتن کما تنامون ولتبعثن کما تستيقظون)) ٣