اصول دين سے آشنائی
 

آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن
آخر ميں آنحضرت (ص) کے خورشيد زندگی کی ايک شعاع پر ، جو اِن کی رسالت کی گواہ بهی
هے ،نظر ڈالتے هيں :
جس دور ميں دعوت اسلام کے اظهار پر مال ومقام کی پيشکش اور دهمکياں اپنی آخری حد کو
پهنچ گئيں، قريش نے ابو طالب (ع) کے پاس آکر کها: تمهارے بهتيجے نے همارے خداؤں کو برا کها ،
همارے جوانوں کو تباہ اور جماعت کو منتشر کرديا۔اگر اسے مال چاهيے تو هم اتنا مال ودولت جمع کريں
گے کہ تمام قريش ميں بے نياز ترين شخص بن جائے اور جس عورت سے چاهے اس سے شادی کرديں
گے، يهاں تک کہ سلطنت وبادشاهی کا وعدہ بهی ديا گيا، ليکن آنحضرت کا جواب يہ تها : اگرميرے داهنے
هاته پر سورج اوربائيں هاته پر چاند لا کر رکه ديں پهر بهی ميںاس دعوت سے باز نهيں آؤں گا۔ ٧
يہ ديکه کر کہ اس لالچ دلانے کا بهی اثر نہ هوا تو انہوں نے دهمکيوں اور اذيتوں کا سهارا ليا ،
جن کا ايک نمونہ يہ هے کہ جب آپ (ص) مسجد الحرام ميں نماز شروع کرتے بائيں جانب سے دوشخص

۴۴
سيٹی اور دائيں طرف سے دو شخص تالياں بجاتے، تاکہ نماز ميں خلل ڈاليں۔ ١ راستہ چلتے وقت آپ (ص)
کے سرِمبارک پر خاک پهينکا کرتے اور سجدے کی حالت ميں آپ (ص)پر بهيڑ کی اوجهڑی پهينکتے۔ ٢
حضرت ابوطالب(ع) کی رحلت کے بعد آپ نے قبيلہ ثقيف کے بزرگوں سے تبليغ دين کے
سلسلے ميں مدد لينے کے لئے طائف کی جانب سفر کيا، ليکن انہوں نے ديوانوں اور غلاموں کواس بات پر
اکسايا کہ آنحضرت(ص) کا پيچها کر کے آپ کو آزار پهنچائيں۔ آنحضرت (ص)نے ايک باغ ميںپناہ لی اور
انگور کی بيل کے سائے ميں بيٹه گئے۔ آنحضرت (ص)کی حالت اتنی رقت بار تهی کہ مشرک دشمن کو
بهی آپ (ص)کی حالت پر رحم آگيا اور عداس نامی نصرانی غلام سے کها: انگور توڑ کر اس کے پاس
لے جاؤ۔جب غلام نے انگوروں کا طبق آپ (ص) کے پاس لا کررکها، آپ (ص)نے هاته آگے بڑهاتے
هوئے کها: بسم الله ۔
غلام نے کها: اس شهر کے لوگ تويہ کلمات نهيں بولتے ۔
فرمايا:کس شهر سے هو؟اور تمهارا دين کياهے؟اس نے کها: نصرانی هوں اور ميرا تعلق نينوا
سے هے ۔
فرمايا :يونس بن متی کے شهرسے ؟
عداس نے کها: يونس کو کهاں سے جانتے هو؟
فرمايا: وہ ميرا بهائی اور پيغمبر تها، ميں بهی پيغمبر هوں۔ يہ سنتے هی عداس نے آنحضرت
(ص) کے هاته پاؤں کا بوسہ ليا۔ ٣
آنحضرت (ص) کے پيروکاروں کو سخت ترين تشدد کے ذريعے تکاليف ميں مبتلا کيا جاتا اور ان
ميں سے بعض کوجلتی دهوپ ميں ڈال کر ان کے سينوں پر بهاری بهر کم پتهر رکهے جاتے ليکن اس کے
باوجود ان کی زبان پر يہ کلمات جاری هوتے:”احد، احد۔“ ٤
عمار ياسر کی ضعيف العمر اور ناتواں ماں سميہ کو نهايت شديد اذيتوں ميں رکها گيا تاکہ دين خدا
کو چهوڑ دے، آخر کا ر جب وہ بوڑهی خاتون نہ مانی تو اسے دردناک طريقے سے قتل کرديا گيا۔ ٥
اس قوم سے اتنی زيادہ تکاليف کا سامنا کرنے کے بعد جب آپ (ص) سے ان کے خلاف بد دعا
کرنے کو کها گيا تو فرمايا:((إنما بعثت رحمة للعالمين )) ٦ اور ان مظالم کے مقابلے ميں اس قوم پر عنايت
ومهربانی کا يہ عالم تها کہ يہ دعا فرماتے : ”اے پروردگار!ميری قوم کو هدايت فرما کہ يہ نادان هيں۔ “ ٧
عذاب مانگنے کے بجائے رحمت کی دعا کيا کرتے۔ رحمت بهی وہ کہ جس سے بڑی رحمت کا
تصور نهيں کيا جاسکتا، يعنی نعمت هدايت۔”قومی“ (ميری قوم)کا لفظ استعمال کر کے اس قوم کو خود سے
منسوب کرديا کہ اس نسبت سے ان کو عذاب خدا سے بچاؤ کا تحفہ عطا کرديں، خدا کی بارگاہ ميں ان کی
شکايت کرنے کے بجائے شفاعت کرتے اور ان کی جانب سے يہ عذر پيش کرتے کہ يہ نادان هيں۔
زندگی گزارنے کا انداز يہ تها کہ جوکی روٹی خوراک تهی،اس کو بهی کبهی سيرہو کر تناول نہ
کيا۔ ٨
غزوہ خندق ميں آپ (ص) کی بيٹی صديقہ کبریٰ عليها السلام، آپ (ص) کے لئے روٹی کا ايک
ٹکڑا لائی جو تين دن کے فاقے کے بعد پهلی غذا تهی، جسے آپ (ص) نے تناول فرمايا۔ ٩
اور زندگی کا يہ اندازتنگدستی کی وجہ سے نہ تها ، اس لئے کہ اسی زمانے ميں آپ (ص) کی
بخشش و عطا سو اونٹوں تک بهی پهنچتی تهی۔ ١٠
--------------
1 بحارالانوار ج ١٨ ص ١۶٠ ۔
2 بحار الانوارج ١٨ ص ٢٠۵ ؛بحار الانوار ج ١٩ ص ١٧ ؛الکامل فی التاريخ ج ٢ ص ۶٣ ۔
3 مناقب آل ابی طالب ج ١ ص ۶٨ ۔
4 حلية الاولياء ج ١ ص ١۴٨ ۔
5 بحار الانوار ج ١٨ ص ٢١٠ ۔
6 بحار الانوار ج ١٨ ص ٢۴٣ (بے شک ميں فقط عالمين کے رحمت بن کر مبعوث هوا هوں)
7 الخرائج والجرائح ج ١ ص ١۶۴ ۔
8 بحار الانوارج ١۶ ص ٢۴٣ ۔
9 بحار الانوارج ١۶ ص ٢٢۵ ۔
10 بحار الانوار،ج ٢١ ، ص ١٧٠ ۔

۴۵
دنيا سے جاتے وقت نہ آپ (ص) نے درهم و دينار چهوڑے، نہ غلام و کنيز اور نہ هی کوئی بهيڑ
اوراونٹ، بلکہ آپ کی زرہ بهی مدينہ کے ايک يہودی کے پاس تهی، جسے آپ (ص) نے گهر والوں کی
غذا کے انتظام کے لئے خريدے گئے بيس صاع جو کے بدلے گروی رکهوايا تها۔ ١
دو نکات کی طرف توجہ ضروری هے :
١۔اس ميں کوئی شک نهيں کہ آنحضرت (ص) کے مقام ومنزلت اور بے نظير امانت داری کے
هوتے هوئے کوئی بهی آپ سے گروی رکهنے کا تقاضا نهيں کرتا تها، ليکن يہ سمجهانا مقصود تها کہ
قرض کی تحريری دستاويز نہ هونے کی صورت ميں، اسلام کی عظيم ترين شخصيت تک، ايک يہودی کے
حق ميں بهی قانونِ رهن کا خيال رکهے، جو صاحبِ مال کے لئے وثيقہ هے ۔
٢۔لذيذ ترين غذائيں فراهم هونے کے باوجود پوری زندگی جو کی روٹی سے اس لئے سير نہ
هوئے کہ کهيں آنحضرت کی غذا رعايا کے نادار ترين فرد کی غذاسے بہتر نہ هو۔
آپ (ص) کے ايثار کا نمونہ يہ هے کہ وہ بيٹی جس کے فضائل سنی اور شيعہ کتب ميں بکثرت
ذکر کئے گئے هيں، قرآن مجيد ميں مباهلہ ٢ اور تطهير ٣ جيسی آيات اور حديث کساء ٤ و عنوان ((سيدة نساء
ا هٔل الجنة)) ٥ جيسے بلند مرتبہ مضمون پر مشتمل احاديث جو اس انسان کامل ميں ممکنہ کمال انسانی کے
مکمل تحقق کی دليل هيں، ايسی بيٹی جس کے توسط سے رسول خدا (ص) کی نسل تاقيات باقی رهے گی،
وہ جس کی آغوش ميں مطلعِ نجومِ هدايت اور ائمہ اطهار پروان چڑهتے رهے اور پيغمبر اسلام(ص)کے
نزديک جس کے احترام کا عالم يہ تها کہ جب بهی آنحضرت (ص)کی خدمت ميں تشريف لاتيں
آنحضرت(ص) اپنی جگہ پر بٹهاتے اور هاتهوں کا بوسہ ليا کرتے تهے۔ ٦وہ بيٹی جووالد گرامی کی اقتداء
ميں محراب عبادت ميں اتنا قيام کرتيں کہ دونوں پاؤں پر ورم آجاتا ٧ اور اتنا زيادہ محو عبادت هونے کے
باوجود امير المومنين(ع)کے گهر اس طرح خانہ داری کرتيں کہ ايک دن جب پيغمبر اسلام(ص)تشريف
لائے تو آپ بچے کو دوده پلانے کے ساته ساته چکی بهی چلا رهی تهيں، آنحضرت (ص) نے آنسوؤں
سے تر آنکهوں کے ساته يہ رقت بار منظر ديکها اور فرمايا:((تعجلی(تجرئی)مرارة الدنيا بحلاوة الآخرة)) ٨
تو آنحضرت کے جواب ميں کها:((يا رسول اللّٰہ(ص))! الحمد للّٰہ علی نعمائہ والشکر للّٰہ علی آلائہ))۔ ايسی
بيٹی اپنے چکی چلانے کی وجہ سے گٹے پڑے هوئے هاتهو ں کولے کر والد گرامی کے پاس کنيز
مانگنے کے لئے تو آئی ليکن اپنی حاجت بيان کئے بغيرلوٹ گئی اور وہ باپ جو اگر چاہتا تو بيٹی کے گهر
ميں رزو جواهر کا انبار لگا سکتا تها، خدمت گزاری کے لئے غلام اور کنيزيں دے سکتا تها، اس نے
خدمت گزارکے بجائے چونتيس مرتبہ تکبير، تينتيس مرتبہ تحميد اور تينتيس مرتبہ تسبيح تعليم فرمائی۔ ٩
يہ هے کردار حضرت ختمی مرتبت(ص) ،کہ اتنے سخت حالات ميں زندگی بسر کرنے والی ايسی
بيٹی کے مقابلے ميں ناداروں کے ساته کس طرح ايثار فرماتے هيں اور وہ هے والد گرامی کی صبر کی
تلقين کے جواب ميں مادی ومعنوی نعمتوں کا شکر بجا لانے والی صديقہ کبریٰ، جو رضا بقضائے الٰهی
ميںفنا اور الطاف الهيہ ميں استغراق کا ايسا نمونہ پيش کرتی هے کہ کڑواہٹ کو مٹهاس اور مصيبت
--------------
1 بحار الانوارج ١۶ ص ٢١٩ ۔
2 سورہ آل عمران، آيت ۶١ ۔
3 سورہ احزاب، آيت ٣٣ ۔
4 الاصابة فی تمييز الصحابة،ج ۴، ص ۴۶٧ ؛ تفسير الطبری ج ٢٢ ص ٩، آيہ تطهير کے ذيل ميں؛مستدرک صحيحين
؛ ٣٢٣ ، اور دوسری کتب اهل سنت؛کافی ج ١ ص ٢٨٧ ، ج ٢ ص ۴١۶ ؛تفسير قرطبی ج ١۴ ص ١٨٣ ؛مسند احمد حنبل ج ۶ ص ٢٩٨
الخصال ص ۵۵٠ ودوسری کتب خاصہ۔
5 صحيح بخاری، ج ۴، ص ١٨٣ ، باب علامات البنوة فی الاسلام اور اس کتاب کے دوسرے مقامات؛ صحيح ابن حبان
ج ١۵ ، ص ۴٠٢ ،حديث نمبر ۶٩۵٢ ، اور اهل سنت کی دوسری کتابيں؛ بحار الانوارج ٢٢ ص ۴٨۴ ، اور شيعوں کی دوسری
کتابيں ۔
6 بحار الانوار ج ۴٣ ص ٢۵ ۔
7 بحار الانوارج ۴٣ ص ٧۶ ۔
8 بحار الانوار ج ۴٣ ص ٨۶ ۔(اے ميری بيٹی دنيا کی سختيوں کو آخرت کی مٹهاس کے مقابل ميں جلدی کرو(برداشت
کرو)
9 بحار الانوارج ۴٣ ص ٨۵ ۔

۴۶
وپريشانی کو اس کی نعمت قرار ديتے هوئے ا س پر صبر کے بجائے حمد وشکر کو اپنی ذمہ داری
سمجهتی هے ۔
آپ (ص)کے اخلاق وکردار کا نمونہ يہ هے کہ خاک پر بيٹهتے ١ غلاموں کے ساته کهانا کهاتے
اور بچوں کوسلام کرتے تهے ۔ ٢
ايک صحرانشين عورت آپ (ص) کے پاس سے گزری تو ديکها آ پ (ص) خاک پر بيٹهے کهانا
کها رهے هيں۔ ا س عورت نے کها:اے محمد (ص)!تمهاری غذا غلاموں جيسی هے اور بيٹهنے کا انداز
بهی غلامو ں جيسا هے۔ آپ (ص) نے فرمايا :مجه سے بڑه کر غلام کون هوگا۔ ٣
اپنے لباس کو اپنے هاتهوں سے پيوند لگاتے ٤،بهيڑ کا دوده نکالتے ٥اور غلام وآزاد دونوں کی
دعوت قبول کرتے تهے ۔ ٦
اگر مدينہ کے آخری کونے ميں بهی کوئی مريض هوتا اس کی عيادت کو جاتے ۔ ٧
فقراء کے ساته هم نشينی فرماتے اور مساکين کے ساته دسترخوان پر بيٹه جاتے ۔ ٨
آپ (ص) غلاموں کی طرح کهاتے اور غلاموں کی مانند بيٹهتے تهے۔ ٩
جو کوئی آپ (ص) سے هاته ملاتا ،جب تک وہ خود نہ چهوڑتا آپ اپنا هاته نهيں کهينچتے تهے
۔ ١٠
جب کسی مجلس ميں تشريف لاتے تو آنے والے جهاںتک بيٹه چکے هوتے ان کے بعد بيٹه
جاتے ١١ اور کسی کی طرف ٹکٹکی بانده کر نهيںديکهتے ۔ ١٢
پوری زندگی ميں سوائے خدا کی خاطر کسی پر غضب نہ کيا ۔ ١٣
ايک عورت آنحضرت (ص) کے ساته گفتگو کر رهی تهی ،بات کرتے وقت اس کے بدن پر
کپکپی طاری هوگئی تو آپ نے فرمايا :آرام واطمينان سے بات کرو، ميں کوئی بادشاہ نهيں ہوں، ميں اس
عورت کا بيٹا هوں جو سوکها گوشت کهايا کرتا تهی۔ ١٤
انس ابن مالک نے کها: ميں نو سال آنحضرت (ص) کی خدمت ميں تها آپ (ص) نے کبهی نہ کها
:”ايسا کام کيوں کيا؟“ اور کبهی عيب جوئی نہ فرمائی۔ ١٥
ايک دن مسجد ميں تشريف فرما تهے، انصار کے بچوں ميں سے ايک بچی نے آکر آپ (ص)
کے لباس کا ايک کونا پکڑا ۔آپ (ص) اس کی حاجت روائی کے لئے اٹهے، ليکن نہ تو اس بچی نے کچه
کها اور نہ آپ (ص) نے پوچها کہ تمهيںکيا چاهيے ؟يهاں تک کہ يہ عمل چار مرتبہ تکرار هوا۔چوتهی
مرتبہ اس نے حضرت (ص)کے لباس سے دهاگہ توڑ ليا اور چلی گئی۔اس بچی سے پوچها گيا: يہ تم نے
کيا کام کيا؟
--------------
1 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٢ ۔
2 بحار الانوار ج ١۶
3 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢۵ ۔
4 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٧ ۔
5 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٧ ۔
6 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٧ ۔
7 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٨ ۔
8 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٨ ۔
9 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢۵ ۔
10 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٨ ۔
11 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٨ ۔(پوری عمر ميں خدا کے علاہ کسی اور چيز کے خاطر غضب ناک نهيں هوا)
12 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٧ ۔
13 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٧ ۔
14 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٢٩ ۔
15 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٣٠ ۔

۴٧
اس بچی نے کها: همارے يهاں ايک شخص مريض هے۔مجهے بهيجا گيا کہ ميں اس کی شفا کے
لئے آنحضرت (ص) کے لباس سے دهاگہ توڑ کر آؤں ۔جب بهی ميں دهاگہ لينا چاہتی تهی ميں ديکهتی تهی
کہ آنحضرت (ص) مجهے ديکه رهے هيں اور اجازت لينے ميں مجهے شرم آتی تهی، يهاں تک کہ چوتهی
بار دهاگہ نکالنے ميں کامياب هوگئی۔ ١
احترامِ انسان کے سلسلے ميں، يہ واقعہ آنحضرت (ص)کی خاص توجہ کی نشاندهی کرتا
هے،کيونکہ اپنی فراست سے بچی کی حاجت اور سوال سے کراہت کو سمجه کر اس کی حاجت روائی کے
لئے چار مرتبہ اپنی جگہ سے اٹه کهڑے هوئے، ليکن يہ نہ پوچهاکہ اسے کيا چاہئے، تاکہ اس کےلئے
ذهنی پريشانی وذلتِ سوال کا باعث نہ هو۔
اس باريکی اوردقت نظری سے بچی کی حرمت وعزت کا پاس رکهنے والے کی نظر مبارک ميں
بڑوں کے مقام ومنزلت کی کيا حد هوگی ۔
جن دنوں يہودی،کافر ذمی کے عنوان سے اسلام کے زير سايہ زندگی بسر کررهے تهے اور
آنحضرت (ص) کا اقتدار اپنے عروج پر تها۔ ايک يہودی کے چند دينار آپ (ص) پر قرض تهے ۔جب اس
يہودی نے واپسی کا مطالبہ کيا،آپ(ص)نے فرمايا: ”اس وقت ميرے پاس تمهيں دينے کو کچه نهيں هے۔“
يہودی نے کها:” ميں اپنے دينار لئے بغير آپ (ص) کو بالکل نهيں چهوڑوں گا ۔“
فرمايا:”اچها ميں تمهارے پاس بيٹها هوں۔ “ ظهر ،عصر ،مغرب ، عشاء اور صبح کی نماز وهيں
ادا کی، صحابہ نے اس يہودی کو دهمکی دی، تو آپ (ص) نے فرمايا:”اس کے ساته ايسا سلوک کيوں کر
رهے هو ؟“
اصحاب نے کها :”يا رسول الله (ص)! اس يہودی کی يہ جرا تٔ کہ آ پ (ص) کو محبوس
کرے؟“
فرمايا:”پروردگا ر عالم نے مجهے اس لئے مبعوث نهيں کيا کہ ظلم کروں“ ۔جيسے هی دن چڑها
اس يہودی نے کها:”اشهد ان لا الہ الله واشهد ان محمداًعبدہ ورسولہ، ميں اپنے مال کا ايک حصہ خدا کی راہ
ميں ديتا هوں ،خدا کی قسم! ميں نے آپ (ص)کے ساته ايسا سلوک صرف اس لئے کيا تاکہ تورات ميں آپ
سے متعلق درج شدہ صفات کو عملی طور پر آپ (ص)ميں ديکه سکوں۔“ ٢
عقبہ بن علقمہ کہتا هے:ميں علی (ع) کی خدمت ميں حاضر هوا، آپ(ع) کے سامنے سوکهی
روٹی رکهی تهی، پوچها:اے اميرالمومنين (ع) ! کيا آ پ (ع) کی غذا يهی هے ؟
فرمايا:رسول خدا (ص) کی روٹی اس سے زيادہ خشک اور لباس ميرے لباس سے زيادہ کهردرا
تها۔اگر ميں آنحضرت (ص) کی طرح زندگی بسر نہ کروں تو مجهے ڈر هے کهيں ايسا نہ هو کہ آپ
(ص) سے ملحق نہ هوسکوں۔“ ٣
جب امام زين العابدين علی ابن الحسين (ع)سے پوچها گيا کہ آ پ (ع) کی عبادت کو
اميرالمومنين(ع)کی عبادت سے کيا نسبت هے ؟آ پ (ع) نے فرمايا: ”ميری عبادت کو ميرے جد کی عبادت
سے وهی نسبت حاصل هے جو ميرے جد کی عبادت کو رسول خدا (ص) کی عبادت سے نسبت تهی۔“ ٤
زندگی کے آخری لمحات ميں بهی اپنے قاتل سے درگزر کرتے هوئے صفاتِ الٰهی کواپنانے کا
ايسا نمونہ پيش کيا جو خدا کی رحمت رحمانيہ کے ظہور کا عملی نمونہ هے ۔ ٥<وَمَا ا رَْٔسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَةً
لِّلْعَالَمِيْنَ> ٦اور فقط اسی کو يہ کهنے کا حق هے کہ((إنما بعثت لا تٔمم مکارم الا خٔلاق)) ٧
ايسی شخصيت کے اخلاقی فضائل کی شرح کهاں ممکن هے جس کے بارے ميں خداوند عظيم نے
يہ فرمايا هوکہ <وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِيْمٍ > ١
--------------
1 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢۶۴ ۔
2 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢١۶ ۔
3 بحار الانوار ج ۴٠ ص ٣٣١ ۔
4 بحار الانوار ج ۴١ ص ١۴٩ ۔
5 اصول کافی ج ٢ ص ١٠٨ کتاب الايمان والکفر باب العفو ح نمبر ٩۔
6 سورہ انبياء ، آيت ١٠٧ ۔” نهيں بهيجا تم کو مگر عالمين کے لئے رحمت بنا کر“۔
7 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢١٠ ۔(ميں مبعوث هوا هوں تاکہ اخلاق کو پايہ تکميل تک پہونچا سکوں)

۴٨
آپ (ص) کی زندگی سے اخلاق وکردار کا مطالعہ وتحقيق، هر باانصاف شخص کے لئے آپ
(ص) کی نبوت پر ايمان کے لئے کافی هے <يَا ا ئَُّهَا النَّبِیُّ إِنَّا ا رَْٔسَلْنَاکَ شَاهِداً وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًاخ وَّدَاعِياً إِلیَ
اللّٰہِ بِإِذْنِہ وَسِرَاجاً مُّنِيْرًا> ٢
اور يہ آسمانی کتب کی ان بشارتوں کا ظہور هے جن کی سابقہ انبياء عليهم السلام نے خبر دی
تهی۔ اگر چہ تحريف کے ذريعے انهيں مٹانے کی مکمل کوشش کی گئی ليکن باقی ماندہ اثرات ميں غور
وفکر ،اهلِ نظر کو حقائق تک پهنچانے کے لئے مشعل راہ هے ۔هم ان ميں سے دو نمونوں پر اکتفا کرتے
هيں :
١۔تورات ،سفر تثنيہ ، تينتيسويں باب ميں ذکر هوا هے :”اور يہ هے وہ برکت جو موسی جيسے
مرد خدا نے اپنی وفات سے پهلے بنی اسرائيل کو عطا کی اور کها: يهوہ سيناسے آيا اور سعيرسے ان پر
طلوع کيا اور جبل فاران سے چمکااور لاکهوں مقدسين کے ساته آيا اور اس کے دائيں هاته سے ان کے لئے
آتشيں شريعت ظاهر هوئی ۔“
”سينا“وہ جگہ هے جهاں حضرت موسیٰ بن عمران پر وحی نازل هوئی ۔”سعير “عيسیٰ بن مريم
کے مبعوث هونے کی جگہ اور ”فاران“کا پهاڑ جهاں يهوہ چمکا،تورات کی گواهی کے مطابق ”مکہ“کا
پهاڑ هے۔
کيونکہ سفر تکوين کے اکيسويں باب ميں حضرت هاجرہ اور اسماعيل سے مربوط آيات ميں
مذکور هے کہ :”خدا اس بچے کے ساته تها اور وہ پروان چڑه کر،صحرا کا ساکن هوا اور تير اندازی ميں
بڑا هوا اور فاران کے صحرا ميں سکونت اختيار کی، اس کی ماںنے اس کے لئے مصر سے بيوی کا
انتخاب کيا۔“
”فاران “مکہ معظمہ هے، جهاں حضرت اسماعيل اور ان کی اولاد رهائش پذير تهے اور کوہ حرا
سے آتشيں شريعت اور فرمان <يَا ا ئَُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِيْنَ> ٣کے ساته آنے والا پيغمبر آنحضرت
(ص) کے علاوہ اور کون هو سکتا هے؟
اور کتاب حبقّوق(حيقوق)نبی کے تيسرے باب ميں نقل هوا هے کہ :”خدا تيمان سے آيا اور قدوس
فاران سلاہ کے پهاڑ سے ، اس کے جلال نے آسمانوں کو ڈهانپ ليا اور زمين اس کی تسبيح سے لبريز
هوگئی ، اس کا پر تو نور کی مثل تها اور اس کے هاتهوں سے شعاع پهيلی۔ “
مکہ معظمہ کے پهاڑ سے آنحضرت (ص)کے ظہور کی بدولت هی يہ هوا کہ ساری زمين
((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر))کی صداو ںٔ سے گونج اٹهی اور ((سبحان ربی العظيم
وبحمدہ))و ((سبحان ربی الا عٔلی وبحمدہ )) ساری دنيا کے مسلمانوں کے رکوع وسجود ميں منتشر هوئے۔
٢۔انجيل يوحنا کے چودہويں باب ميں مذکور هے کہ :”اور ميں اپنے والد سے چاہوں گا اور وہ
تمهيں ايک اور تسلی دينے والا عطا کرے گا جو هميشہ کے لئے تمهارے ساته رهے۔“
اور پندرہويں باب ميں مذکور هے کہ :”اور جب وہ تسلی دينے والا آئے ، جسے والد کی جانب
سے تمهارے لئے بهيجوں گا يعنی حقيقی روح جو والد سے صادر هوگی ، وہ ميری گواهی دے گی ۔“
اصلی نسخے کے مطابق ، عيسیٰ جس کے متعلق خدا سے سوال کريں گے، کو ”پار قليطا“کے نام
سے ياد کيا گيا هے جو ”پر يکليطوس “هے اور اس کاترجمہ ”تعريف کيا گيا“ ،”احمد“اور”محمد“کے
موافق هے،ليکن ”انجيل “لکهنے والوں نے اسے ”پاراکليطوس“ميں تبديل کر کے ”تسلی دينے والا“کے
معنی ميں بيان کيا هے ۔
اوريہ حقيقت انجيل برنابا کے ذريعے واضح وآشکار هوگئی کہ اس ميں ”فصل ١١٢ “ ميں نقل هوا
هے کہ: ”-(( ١٣ )) اور اے برنابا !جان لوکہ اس لئے ميرے اوپر اپنی نگهداری واجب هے اور نزديک هے
کہ (عنقريب )مير اايک شاگرد مجهے تيس کپڑوں کے عوض نقد بيچ دے گا (( ١۴ ))اور لہٰذا مجهے يقين
هے کہ مجهے بيچنے والا ميرے نام پر ماراجائے گا(( ١۵ )) کيونکہ خدا مجهے زمين سے اٹها لے گا اور
اس خائن کی صورت اس طرح بدل دے گا کہ هر شخص گمان کرے گا کہ ميں هوں (( ١۶ ))اور اس کے
--------------
1 سورہ قلم ، آيت ۴۔”يقينا اے محمد ! آپ خلق عظيم پر فائز هيں“
2 سورہ احزاب ، آيت ۴۵،۴۶ ۔”اے پيغمبر ! هم نے تم کو لوگوں پر گواہ، بشارت دهندہ اور ڈرانے والا بنا کر بهيجا
هے الله کے اذن سے اس کی طرف دعوت دينے والا ، اور روشن چراغ بنا کر بهيجا هے“۔
3 سورہ توبہ، آيت ٧٣ ۔”اے پيغمبر ! کفار و منافقين کے ساته جهاد کرو“۔

۴٩
ساته جو وہ بدترين موت مرے گا ميں بچ جاو ںٔ گا اور دنيا ميں دراز مدت تک رہوں گا (( ١٧ ))ليکن جب
محمد پيغمبر خدا ((محمد رسول اللّٰہ))آئے گا مجه سے يہ عيب اٹها ليا جائے گا “۔
اور محمد رسول الله (ص) کی بشارت انجيل کی فصول ميں ذکر هوئی هيں ۔
اور اس انجيل کی بعض فصول ميں((محمد رسول اللّٰہ))کے عنوان سے بشارتيں مذکور هيں ،جيسا
کہ انتاليسويں فصل ميں هے: ”اور جب آدم اپنے قدموں پرکهڑا هوا تو اس نے فضا ميں کلمات لکهے هوئے
ديکهے جو سورج کی طرح چمک رهے تهے کہ جن کی صريح نص يہ تهی ((لا الہ الااللّٰہ ))اور ((محمد
رسول اللّٰہ))(( ١۵ ))پس اس وقت آدم نے لب کهولے اور کها : اے پروردگار !ميرے خدا ميں تيرا شکر ادا
کرتا هوں کيونکہ مجهے زندگی عطا کر کے تو نے اپنا تفضل فرمايا (( ١۶ ))ليکن تيری بارگاہ ميں فرياد
کرتا هوں کہ تو مجهے ان کلمات ((محمد رسول اللّٰہ)) کے معنی بتا دے (( ١٧ ))پس خدا نے جواب ديا
:مرحبا!اے ميرے عبد آدم(( ١٨ ))بے شک ميں تمهيں بتاتا هوں کہ تم پهلے شخص هو جسے ميں نے خلق
کيا هے۔“
اور اکتاليسويں فصل ميں هے: ”(( ٣٣ ))جب آدم نے توجہ کی تو دروازے کے اوپر((لا الہ الا اللّٰہ
،محمد رسول اللّٰہ)) لکها هوا ديکها۔ “
اور چهيانويں فصل ميں هے: ”(( ١١ ))اس وقت خد اجهان پر رحم فرمائے گا اور اپنے پيغمبر
کوبهيجے گا، جس کے لئے ساری دنيا خلق کی هے ۔(( ١٢ ))جو قوت کے ساته جنوب کی جانب سے آئے گا
اور بتوں اور بت پرستوں کو هلاک کردے گا ۔(( ١٣ ))اور شيطان کے انسان پرتسلط کو جڑ سے اکهاڑ
پهنيکے گا(( ١۴ )) اور خدا کی رحمت سے خود پر ايمان لانے والوں کی خلاصی کے لئے آئے گا
١۵ ))اور جو اس کے سخن پر ايمان لائے گا بابرکت هوگا۔“ ))
اور ستانويں فصل ميں هے:”(( ١))اور اس کے باوجود کے ميں اس کے جوتوں کے تسمے
کهولنے کے قابل نهيں هوں، خدا کی رحمت سے اس کی زيارت سے شرفياب هوا هوں۔ “
تورات اور انجيل کی بشارتوں کو ثابت کرنے کے لئے يهی بات کافی هے کہ رسول خدا(ص) نے
يہوديوں، نصاریٰ او ر ان کے احبار ،قسيسين اور سلاطين کو اسلام کی دعوت دی۔ يہود کے اس اعتقاد
کہ<عُزَيْرٌ ابْنُ اللّٰہِ> ١ اور نصاریٰ کے اعتقاد <إِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ > ٢ کو غلط قرار ديتے هوئے ان کے
مقابلے ميں قيام کيااور مکمل صراحت کے ساته اعلان کيا کہ ميں وهی هوں جس کی بشارت تورات وانجيل
ميں دی گئی هے <اَلَّذِيَْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَبِیَّ اْلا مُِّٔیَّ الَّذِیْ يَجِدُوْنَہ مَکْتُوْباً عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَ اْلإِنْجِيْلِ> ٣ <وَإِذْ
قَالَ عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِیْ إِسْرَائِيْلَ إِنیِّ رَسوُْلُ اللّٰہِ إِلَيْکُمْ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبْشِّراً بِّرَسُوْلٍ يَّا تِْٔیْ
مِنْ بَعْدِی اسْمُہ ا حَْٔمَدُ> ٤
اگر آپ(ص)کا دعوی سچا نہ هوتا تو کيا ان دشمنوں کے سامنے جو اپنی معنوی اور مادی سلطنت
کو خطرے ميں ديکه رهے تهے اور هر کمزور پهلو کی تلاش وجستجو ميں تهے ، پيغمبر اکرم(ص) کا اس
قاطعيت سے اعلان کرنا ممکن تها؟!
احبار، ٥ قسيسين، ٦ علماء يہود ونصاریٰ اور سلاطين، جنہوں نے آپ(ص)کے مقابلے ميں هر
حربے کا سهارا ليا، يهاں تک کہ جنگ اور مباهلہ سے عاجز هو کر جزيہ دينا قبول کر ليا،پيغمبر اسلام
(ص)کے اس دعوے کے مقابلے ميں کس طرح لا چار هوکر رہ گئے اور ان کے لئے ممکن نہ رها کہ
آنحضرت(ص) کے اس دعوے کا انکار کر کے ،آپ کی تمام باتوں کو سرے سے غلط ثابت کرديں
!آنحضرت(ص) کا صريح دعوی او رعلماء وامراء يہود و نصاریٰ کا حيرت انگيز سکوت، آپ(ص)کے
عصرِ ظہور ميں ان بشارتوں کے ثبوت پر برهانِ قاطع هے۔
--------------
1 سورہ توبہ ، آيت ٣٠ ۔”عزيز الله کے بيٹے هيں“۔
2 سورہ مائدہ ، آيت ٧٣ ۔”خدا ان تين ميں کا تيسرا هے“۔
3 سورہ اعراف ، آيت ١۵٧ ۔”جو لوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے هيں جس کا ذکر اپنے پاس توريت اور انجيل
ميں لکها هوا پاتے هيں“۔
4 سورہ صف، آيت ۶۔”اور اس وقت کو ياد کرو جب عيسیٰ بن مريم نے کها کہ اے بنی اسرائيل ميں تمهاری طرف الله
کا رسول هوں اپنے پهلے کی کتاب توريت کی تصديق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ايک رسول کی بشارت دينے والاہوں
جس کا نام احمد هے“۔
5 احبار:علمائے يہود۔
6 قسيسين:علمائے نصاریٰ۔

۵٠
اگرچہ اس کے بعد حب جاہ ومقام اورمال ومتاع کی وجہ سے انهيںتحريف کے علاوہ کوئی
دوسری راہ نہ سوجهی کہ جس کا نمونہ فخرالاسلام نے اپنی کتاب ”انيس الاعلام“ ميں اپنے ذاتی حالات کا
تذکرہ کرتے وقت پيش کيا هے، جس کا خلاصہ يہ هے کہ :ميں اروميہ کے گرجا گهر ميں متولد هوا اور
تحصيل علم کے آخری ايام ميں کيتهولک فرقے کے ايک بڑے عالم سے استفادہ کرنے کا موقع ميسر هوا۔
اس کے درس ميں تقريبا چار سو سے پانچ سو افراد شرکت کرتے تهے۔ ايک دن استاد کی غير موجودگی
ميں شاگردوں کے درميان بحث چهڑ گئی۔ جب استاد کی خدمت ميں حاضر هوا تو انہوں نے پوچها بحث کيا
تهی؟ ميں نے کها:”فارقليط“کے معنی کے بارے ميں۔ استاد نے اس بحث ميں شاگردوں کے نظريات معلوم
کرنے کے بعد کها:” حقيقت کچه اور هے “، پهر اس مخزن کی جسے ميں اس کا خزانہ تصور کرتا تها،
چابی مجهے دی اور کها :”اس صندوق ميں سے دو کتابيں جن ميں سے ايک سريانی اور دوسری يونانی
زبان ميں جو حضرت خاتم الانبياء کے ظہور سے پهلے کهال پر لکهی هوئی هے ،لے کر آؤ۔“
پهر مجهے دکهايا کہ اس لفظ کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ لکهے هوئے تهے اور مجه سے
کها:”حضرت محمد (ص)کے ظہور سے پهلے عيسائی علماء ميں اس کے معنی ميں کوئی اختلاف نہ تها
اور آنحضرت (ص) کے ظہور کے بعد تحريف کی“۔ ميں نے نصاریٰ کے دين سے متعلق اس کا نظريہ
دريافت کيا۔اس نے کها: ”منسوخ هوچکاهے ۔اور نجات کا طريقہ محمد (ص) کی پيروی ميں منحصر
هے۔“ ميں نے اس سے پوچها: ”اس بات کا تم اظهار کيوں نهيں کرتے ؟“
اس نے عذر يہ بيان کيا تها کہ اگر اظهار کروں مجهے مار ڈاليں گے اور …اس کے بعد هم
دونوں روئے اور ميں نے استاد سے يہ استفادہ کرنے کے بعد اسلامی ممالک کی طرف هجرت کی ۔ ١
ان دو کتابوں کا مطالعہ اس عالی مقام راهب کے روحی انقلاب کا سبب بنا اور اسلام لانے کے بعد
عيسائيت کے بطلان اور حقانيت اسلام کے بارے ميں کتاب انيس الاعلام لکهی جو عهد قديم ٢ وجديد ٣ ميں
اس کے تتبع اور تحقيق کا منہ بولتا ثبوت هے ۔