٣۵
نيک افعال کے کے دائرے کو عقائد حقہ ،اخلاق حميدہ اور اعمال صالحہ تک وسعت دی،نيز برے
اعمال کو باطل عقائد،اخلاق رذيلہ اور فاسد کردار تک بڑها کر امر بالمعروف ونهی عن المنکر کو تمام
مومنين و مومنات کی ذمہ داری قرار ديا اور فرمايا: <وَالْمُو مِْٔنُوْنَ وَالْمُو مِْٔنَاتُ بَعْضُهُمْ ا ؤَْلِيَاءُ بَعْضٍ يَّا مُْٔرُوْنَ
بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلاَةَ وَيُو تُْٔوْنَ الزَّکوٰةَ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ ا ؤُْلٰئِکَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰہُ
إِنَّ اللّٰہَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌ> ١ اور دوسرے مقام پر فرمايا<يَا ا ئَُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَخکَبُرَ مَقْتاً عِنْدَاللّٰہِ
ا نَْٔ تَقُوْلُوْا مَالاَ تَفْعَلُوْنَ> ٢ ان دو آيات کے ذريعے هر فرد کے لئے اپنے تمام امور زندگی ميں حکمت، عفت،
شجاعت اور عدالت تک رسائی اور تمام فضائل انسانيت سے مزين مدينہ فاضلہ کی تشکيل کا راستہ دکهايا ۔
اور يہ سب کے سب نمونے آفتاب هدايت قرآن کی ايک کرن تهے وگرنہ تمام معارف الهيہ نيز
دِنيوی اور اخروی سعادت سے متعلق رهنمائی کے لئے ضروری هے کہ انسان عقائد، اخلاق،عبادات،
معاملات اور سياست سے متعلق، قرآنی آيات کے اسرار و رموز کا مطالعہ کرے، جس کے لئے مفصل
کتب تحرير کرنا هوں گی ۔
٣۔قرآ ن کی غيب سے متعلق خبريں :
پروردگار عالم کی جانب سے رسالت کے حامل نيز تا قيامت انسانی هدايت کے دعويدار کے لئے
سب سے زيادہ دشوار کام آئندہ کی خبريں دينا هے، کيونکہ اگر اس کے غلط هونے کا رتی برابر ايک
موهوم سا انديشہ بهی هو تو اس محتمل کی عظمت کے باعث جو اس کے آئين کی بنياد کے منهدم هونے کا
سبب بن سکتی هے، ضروری هے کہ احتياط کا دامن تهامتے هوئے اپنے لبوں کو سی لے ۔اب اگر هم
ديکهيں کہ وہ يقين اور نهايت اطمينا ن خاطر کے ساته آئندہ واقع هونے والے امور سے متعلق اطلاع دے
رها هے اور وہ خبريں بهی سچ ثابت هو رهی هيں، تو اس کی ان خبروں سے يہ بات ثابت هو جائے گی کہ
وہ ايسے علم سے متصل هے جوزمان اور زمانيات کا احاطہ کئے هوئے هے۔
قرآن کی غيب سے متعلق بعض خبريں يہ هيں :
الف۔ مغلوب هونے کے بعد دوبارہ روم کے غالب آنے کی خبر دينا <الٓمٓخ غُلِبَتِ الرُّوْمُخ فِی ا دَْٔنَی
اْلا رَْٔضِ وَہُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ> ٣ اور يہ خبر اس وقت دی گئی جب کوئی شخص ايران کی شکست اور
روم کی فتح کا تصور بهی نهيں کر سکتا تها، جس کی کتب تاريخ گواہ هيں۔
ب۔آنحضرت (ص) کے دوبارہ مکہ آنے کی خبر دينا <إِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَيْکَ الْقُرْآنَ لَرَادُّکَ إِلیٰ
مَعَادٍ> ٤
ج۔منافقين کی پيغمبر (ص) کو قتل کرنے کی سازش اور پروردگار عالم کا آپ کی حفاظت کی
خبر دينا <يَاا ئَُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا ا نُْٔزِلَ إِلَيْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ إِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ يَعْصِمُکَ مِنَ
النَّاسِ> ٥
د۔فتح مکہ،کے موقع پر مسلمانوں کے مسجدالحرام ميں داخل هونے، نيز اس موقع پران کے
روحی وجسمانی حالات و احساسا ت کی خبر دينا <لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاءَ اللّٰہُ آمِنِيْنَ مُحْلِقِيْنَ رُوُ سَٔکُمْ
وَمُقَصِّرِيْنَ لاَ تَخَافُوْنَ> ٦
--------------
1 سورہ توبہ، آيت ٧١ ۔”مومن مرد اور عورتيں آپس ميں سب ايک دوسرے کے ولی اور مددگار هيں يہ سب ايک
دوسرے کو نيکيوں کا حکم ديتے هيں اور برائيوں سے روکتے هيں ، نماز قائم کرتے هيں ۔ زکوة ادا کرتے هيں الله اور رسول
کی اطاعت کرتے هيں۔ يهی وہ لوگ هيں جن پر عنقريب خدا رحمت نازل کرے گا کہ وہ هر شئے پر غالب اور صاحب حکمت
هے“۔
٢۔”ايمان والو! آخر وہ بات کيوں کہتے هو جس پر عمل نهيں کرتے هو۔بے شک الله کے نزديک / 2 سورہ صف، آيت ٣
يہ سخت ناراضگی کا سبب هے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نهيں کرتے هو“۔
١۔ ”الٓمٓ۔روم والے مغلوب هوگئے۔قريب ترين علاقہ ميں ليکن يہ مغلوب هو جانے کے بعد /٢/ 3 سورہ روم ، آيت ٣
عنقريب پهر غالب هو جائيں گے“۔
4 سورہ قصص ، آيت ٨۵ ۔”بے شک جس نے آپ پر قرآن کا فريضہ عائد کيا هے وہ آپ کو آپ کی منزل تک ضرور
پهنچا ئے گا“۔
5 سورہ مائدہ ، آيت ۶٧ ۔”اے پيغمبر آپ اس حکم کو پهنچاديں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کيا گيا هے
اور اگر آپ نے يہ نہ کيا تو گويا اس کے پيغام کو نهيں پهنچايا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکهے گا“۔
6 سورہ فتح ، آيت ٢٧ ۔”تو تم لوگ مسجد الحرام ميں امن وسکون کے ساته سر کے بال منڈا کر اور تهوڑے سے بال
کاٹ کر داخل هوگے اور تمهيں کسی طرح کا خوف نہ هوگا “۔
٣۶
ه۔غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد منافقين کے بارے ميں يہ آيت نازل هوئی <فَقُلْ لَّنْ تَخْرُجُوْا مَعِیَ
ا بََٔداً وَّلَنْ تُقَاتِلُوْا مَعِیَ عَدُوًّا> ١ اور ويسے هی هو اجس کی آيت نے پهلے خبر دی تهی۔
و۔جنگ بدر ميں کفار کو اپنی تعداد پراس قدر غرور تها کہ وہ اپنی جيت کو يقينی سمجهتے تهے،
تو يہ آيت نازل هوئی<ا مَْٔ يَقُوْلُوْنَ نَحْنُ جَمِيْعٌ مُّنْتَصِرٌخ سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ> ٢
ز۔فتح خيبر اور مسلمانوں کو غنيمت ملنے سے پهلے اور ان دنوں جب ايران اور ديگر ممالک کے
خزائن پر تسلط کا خيال بهی کسی کے ذهن ميںنهيں آسکتا تها يہ آيات نازل هوئيں <لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ
الْمُو مِْٔنِيْنَ إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوْبِہِمْ فَا نَْٔزَلَ السَّکِيْنَةَ عَلَيْہِمْ وَ ا ثََٔابَہُمْ فَتْحاً قَرِيْباًخ وَّ مَغَانِمَ کَثِيْرَةً
يَّا خُْٔذُوْنَہَا وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِيْزاً حَکِيْماًخ وَّعَدَکُمُ اللّٰہُ مَغَانِمَ کَثِيْرَةً تَا خُْٔذُوْنَہَا فَعَجَّلَ لَکُمْ هٰذِہ وَ کَفَّ ا ئَْدِی النَّاسِ عَنْکُمْ
وَ لِتَکُوْنَ آيَةً لِّلْمُو مِْٔنِيْنَ وَ يَهْدِيَکُمْ صِرَاطاً مُّسْتَقِيْماًخ وّ ا خُْٔریٰ لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَيْہَا قَدْ ا حََٔاطَ اللّٰہُ بِہَا وَ کَانَ اللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ
شَیْءٍ قَدِيْرًا> ٣
ح)جب رسول الله (ص) کے فرزند کے انتقال پر عاص بن وائل نے کها : بے شک محمد ابتر
هے۔ اس کا بيٹا نهيں رها جو اس کا قائم مقام هو، لہٰذا اس کی موت کے ساته لوگ اسے بهی بهلا ديں گے،
تو يہ سورہ نازل هوئی <إِنَّا ا عَْٔطَيْنٰکَ الْکَوْثَرَخ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْخ إِنَّ شَا نِْٔئَکَ هُوَ اْلا بَْٔتَرُ> ٤ اور ساته ساته
يہ بهی خبر دی کہ آپ (ص) کی نسل باقی رهے گی اور ابتر کهنے والوں کی اپنی نسليں منقطع هوجائيں
گی ۔ ٥
۴۔اسرار خلقت سے مکمل آگاهی :
جس زمانے ميں انسانی علم ودانش کے مطابق اجرام فلکی کو بسيط خيال کيا جاتا تها اور ان ميں
حرکت کا تصور تک نہ تها اس وقت کو اکب کی خاص مداروں ميں حرکت کی خبر دی <لاَ الشَّمْسُ يَنْبَغِیْ
لَهَا ا نْٔ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَ لاَ الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ يَّسْبَحُوْنَ > ٦
جس زمانے ميں اشياء کے درميان قانونِ زوجيت کے عمومی هونے کی خبر تک نہ تهی
فرمايا<وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ > ٧
اور جس وقت دوسرے سياروں پر جانداروںکے وجود کا احتمال تک نہ تها فرمايا: <وَمَابَثَّ فِيْهِمَا
مِنْ دَابَّةٍ> ٨
اور اسی طرح نباتات کے درميان هوا کے ذريعے تلقيح کی خبر دی <وَا رَْٔسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ> ٩
--------------
1 سورہ توبہ، آيت ٨٣ ۔”تو آپ کہہ ديجئے تم لوگ کبهی ميرے ساته نهيں نکل سکتے اور کسی دشمن سے جهاد نهيں
کر سکتے“۔
2 سورہ قمر ، آيت ۴۴،۴۵ ۔”يا ان کا کهنا يہ هے کہ همارے پاس بڑی جماعت هے جو ايک دوسرے کی مدد کرنے
والی هے۔عنقريب يہ جماعت شکست کها جائے گی اور سب پيٹه پهير کر بها گ جائيں گے“۔
١٨ ۔”يقينا خدا صاحبان ايمان سے اس وقت راضی هو گيا جب وہ درخت کے نيچے آپ /١٩/٢٠/ 3 سورہ فتح ، آيت ٢١
کی بيعت کر رهے تهے پهر اس نے وہ سب کچه ديکه ليا جو ان کے دلوں ميں تها تو ان پر سکون نازل کر ديا اور انهيں اس کے
عوض قريبی فتح عنايت کردی۔اور بہت سے منافع بهی ديديئے جنهيں وہ حاصل کريں گے اور الله هر ايک پر غالب آنے والا اور
صاحب حکمت هے۔اس نے تم سے بہت سے فوائد کا وعدہ کيا هے جنهيں تم حاصل کروگے پهر اس غنيمت (خيبر) کو فوراً عطا
کر ديا اور لوگوں کے هاتهوں کو تم سے رو ک ديا اور تاکہ يہ صاحبان ايمان کے لئے ايک قدرت کے نشانی بنے اور وہ تمهيں
سيدهے راستہ کی هدايت دے دے۔اور دوسری غنيمتيں جن پر تم قدرت نهيں رکهتے خدا ان پر محيط هے اور خدا هر چيز پر
قادر هے“۔
١۔”بے شک هم نے آپ کو کوثر عطا کياهے۔لہٰذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑهيں اور /٢/ 4 سورہ کوثر ، آيت ٣
قربانی ديں۔يقينا آپ کا دشمن هی بے اولاد رهے گا“۔
5 تفسير کبير فخر رازی ج ٣٢ ، ص ١٢۴ ، تفسير مجمع البيان، ج ١٠ ، ص ۴۵٩ ۔
6 سورہ يس، آيت ۴٠ ۔”نہ آفتاب کے بس ميں هے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات کے لئے ممکن هے کہ وہ دن سے
آگے بڑه جائے ۔ اور يہ سب کے سب اپنے اپنے فلک ومدار ميں تيرتے رہتے هيں“۔
7 سورہ ذاريات، آيت ۴٩ ۔”اور هر شئے ميں سے هم نے جوڑا بنا يا هے کہ شايد تم نصيحت حاصل کرسکو“۔
8 سور ہ شوریٰ ، آيت ٢٩ ۔”ان کے اندر چلنے والے تمام جاندار هيں“۔
9 سورہ حجر ، آيت ٢٢ ۔”اور هم نے هواو ںٔ کو بادلوں کا بوجه اٹهانے والا بنا کر چلايا هے“۔
٣٧
جس زمانے ميں اجرام فلکی کو بسيط اور ان کی خلقت کواجرام ارضی سے جدا اور مختلف خيال
کيا جاتا تها اور کسی کو ان کے رتق وفتق ١کے بارے ميں خبر تک نہ تهی فرمايا<ا ؤََلَمْ يَرَالَّذِيْنَ کَفَرُوَا ا نََّٔ
السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا> ٢
اور جس وقت انسان کائنات کی گستردگی سے بے خبر تها فرمايا<وَالسَّمَاءَ بَنَےْنَاهَابِا ئَْدٍ
وَّإِنَّالَمُوْسِعُوْنَ> ٣
اور جب آسمانی سياروں کے بارے ميں ماهرين فلکيات خرق ٤ والتيام کے قائل نہ تهے يعنی کسی
بهی جسم کو ان سياروں کے مدار کے درميان سے عبور کرنے کو ناممکن سمجهتے تهے۔اور جب کوئی
ان ميں انسان کے عبور کرنے کا تصور بهی نہ کرتا تها، يہ آيت نازل هوئی <يَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَاْلإِنْسِ إِنِ
اسْتَطَعْتُمْ ا نَْٔ تَنْفُذُوْا مِنْ ا قَْٔطَارِ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ فَانْفُذُوْا لاَ تَنْفُذُوْنَ إِلاَّ بِسُلْطَانٍ> ٥
اسرارکائنات کے بارے ميںآيات کا نزول ،کہ جن کی جانب مختصراً اشارہ کيا گيا اس امر کی
نشاندهی کرتا هے کہ يہ کتاب حق تعالی کی جانب سے نازل کردہ هے۔
۵۔قرآن کی جذابيت
هر باانصاف انسان جو قرآن کريم کے اسلوب بيان کو اچهی طرح جانتا هو اس بات کا معترف هے
کہ چاهے کوئی بهی کلام فصاحت وبلاغت کے معيار کے مطابق بلند ترين درجے کا حامل هی کيوں نہ هو،
پهر بهی قرآن کی روح اور جذابيت کے مقابلے ميں اس کی حيثيت اصلی پهول کے مقابلے ميں کاغذی اور
حقيقی انسان کی نسبت مجسمے کی هے۔
۶۔قرآن ميں عدم اختلاف:
اس بات ميں شک وترديد کی گنجائش نهيں کہ انسان ميں موجود فکری تکامل کے وجہ سے اس
کے اعمال واقوال کبهی يکساں نهيں رہتے خواہ کسی ايک فن ميں ماهر هونے کے ساته ساته تمرکز افکار
کے لئے تمام وسائل بهی اسے مهيا کر ديئے گئے هوں تب بهی هر ماهر فن کی زندگی کے مختلف مراحل
ميں اس کے علمی آثار ميں تبديلياں رونما هوتی هيں ،کيونکہ فکری تحول کے نتيجے ميں اس فکر کے
تحت رونما هونے والے آثار وافعال ميں تحول ايک ضروری امر هے۔
قرآن ايسی کتاب هے جومعرفت مبدا ومعاد، آيات آفاق وانفس، خالق وخلق کے ساته انسان کے
روابط، فردی واجتماعی ذمہ دارياں، گذشتہ امم کے قصوں اور انبياء کے حالات جيسے مختلف امور پر
مشتمل هوتے هوئے ايک ايسے شخص کی زبان پر جاری هوئی جس نے نہ تو کهيں سے پڑها اور نہ هی
کوئی اس کا استاد تها اور جس کے لئے مکہ ميں مشرکين کے شر اور مدينہ ميں کفار سے جنگوں اور
منافقين کے مکر وحيلوں ميں مبتلا هونے کی وجہ سے پريشانی افکار کے تمام اسباب موجودتهے۔
ان پر آشوب حالات کو مد نظر رکهتے هوئے طبيعی هے کہ ايسے شخص کی زبان سے بيان شدہ
کتاب کو بہت هی زيادہ اختلافات پر مشتمل هونا چاهيے تها، ليکن قرآن ميں عدم اختلاف سے يہ بات ثابت
هوتی هے کہ اس کا نزول فکرِ انسانی کے افق سے کهيں بلند تر هے، کيونکہ يہ مقام وحی هے جو جهالت
اور غفلت سے منزہ هے <ا فَلاَ يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِيْہِ اخْتِلاَفاً کَثِيْراً> ٦
--------------
1 رتق :بند هونا فتق:شگاف ڈالنا۔
2 سورہ انبياء، آيت ٣٠ ۔”کيا ان کافروں نے يہ نهيں ديکها کہ يہ زمين وآسمان آپس ميں جڑے هوئے تهے اور هم نے
ان کو الگ کيا هے“۔
3 سورہ ذاريات، آيت ۴٧ ۔”اور آسمان کو هم نے اپنی طاقت سے بنايا هے اور هم هی اسے وسعت دينے والے هيں“۔
4 خرق والتيام :کسی شئے کے پهٹ جانے کو خرق اور ان دونوں پهٹے هوئے کناروں کو دوبارہ جڑجانے کو التيام
کهاجاتا هے۔ ماضی ميں ستارہ شناس اور ماهرين فلکيات کا خيال تها کہ زمين کے اوپر خلاء ميں مختلف افلاک هيں جو تہہ در
تہہ پياز کی تہوں کی مانند هيں بنابر اين ماهرين ان افلاک کی تہوں سے عبور کرنے کو ناممکن سمجهتے تهے اور اس امر کے
ناممکن هونے کی دليل ان افلاک ميں خرق و التيام کا ناممکن هونا تهی ۔
5 سورہ رحمن ، آيت ٣٣ ۔”اے گروہ جن وانس اگر تم ميں قدرت هو کہ آسمان وز مين کے اطراف سے باهر نکل جاو تو نکل جاو مگر ياد رکهو کہ تم قوت وغلبہ کے بغير نهيں نکل سکتے هو“۔
6 سورہ نساء، آيت ٨٢ ۔”کيا يہ لوگ قرآن ميں غور وفکر نهيں کرتے هيں کہ اگر غير خدا کی طرف سے هوتا تو اس
ميں بڑا اختلاف هوتا“۔
٣٨
٧۔قرآن کی علمی اور عملی تربيت :
اگر کسی کا دعوٰی هو کہ وہ تمام اطباء جهان سے بڑا هے تو يہ دعوٰی ثابت کرنے کے لئے اس
کے پاس دو راستے هيں :
يا تو علم طب سے متعلق ايسی کتاب پيش کرے کہ اس کی طرح امراض کے اسباب، دواؤں اور
علاج کو پهلے کسی نے ذکر نہ کيا هو۔
يا پهر ايسے مريض کو جس کے تمام اعضاء وجوارح بيماريوں ميں مبتلا هوں، تمام اطباء اس
کے علاج سے عاجز آچکے هوں اور وہ مرنے کے قريب هو، اگر اس کے سپرد کرديا جائے تو وہ ايسے
مريض کو صحت وسلامتی کا لباس پهنا دے۔
انبياء عليهم السلام، افکار وروح کے طبيب اور امراض انسانيت کے معالج هيں۔
ان ميں سرفهرست پيغمبر اسلام (ص) کی ذات اطهر هے، جس کی علمی دليل قرآن جيسی کتاب
هے جو انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی امراض کے اسباب وعلاج ميں بے مثال هے اورهدايت قرآن
کی بحث ميں مختصر طور پر جس کے چند نمونے ذکر کئے گئے هيں اور عملی دليل يہ هے کہ پيغمبر
اسلام (ص) بد ترين امراضِ انسانيت ميں مبتلا ايک معاشرے ميں مبعوث هوئے جن کے افراد فکری
اعتبار سے اس حد تک گر چکے تهے کہ هر قبيلے کے پاس اپنا ايک مخصوص بت تها، بلکہ گهروں ميں
افراد اپنے لئے کجهور اور حلوے سے معبود بناتے تهے، صبح سويرے ان کے سامنے سجدہ بجا لاتے اور
بهوک کے وقت ان هی معبودوں کو کها ليا کرتے تهے۔
معرفت اور ايمان کے مرهم کے ذريعے ناسور زدہ افکار کا ايسا علاج کيا کہ وہ لوگ خالق جهاں
کی تعريف ان الفاظ ميں کرنے لگے <اَللّٰہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَالْحَیُّ الْقَيُّوْمُ لاَ تَا خُْٔذُہ سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ لَّہ مَافِی السَّمَاوَاتِ وَمَا
فِی اْلا رَْٔضِ مَنْ ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِنْدَہ إِلاَّ بِإِذْنِہ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ ا ئَْدِيْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِنْ عِلْمِہ إِلاَّ بِمَا
شَاءَ وَسِعَ کُرْسِيُّہُ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَلاَ يَو دُُٔہ حِفْظُہُمَا وَ هو الْعَلِیُّ الْعَظِيْمُ> ١ اور اس خالق حقيقی کے
سامنے سجدہ ريز هوکر کهنے لگے ((سبحا ن ربی الاعلی وبحمدہ))
باهمی الفت کے اعتبار سے حيوانات سے زيادہ پست تهے کہ باپ اپنے هی هاتهوں اپنی بيٹی کو
نهايت هی سنگدلی سے زندہ دفن کرديتا تها۔ ٢ اس درندہ صفت قوم ميں باهمی الفت کو اس طرح زندہ کيا کہ
مصر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں نے ديکها کہ ايک خيمے ميں پرندے نے گهونسلا بنايا هوا هے تو
واپس پلٹتے وقت اس خيمے کو وهيں پر رهنے ديا کہ کهيں پرندے کے بچے اور گهونسلا ويران نہ
هوجائيں اور اسی لئے وهاں آباد هونے والے شهر کا نام ”فسطاط“ رکها گيا۔ ٣
فقراء کے مقابلے ميں اغنياء کے اظهارِ قدرت وگستاخی کو اس طرح دور کيا کہ ايک دن جب
آنحضرت (ص) کی خدمت ميں ايک مالدار شخص بيٹها تها، ايسے ميں ايک نادار شخص آکر اس کے ساته
بيٹه گيا، اس مالدار شخص نے اپنا دامن ہٹا ليا اور جب متوجہ هوا کہ آنحضرت (ص) يہ سب ديکه رهے
هيں، کهنے لگا : يا رسول الله (ص) !ميں نے اپنی آدهی ثروت اس غريب کو دی، اس غريب نے کها :
مجهے قبول نهيں هے،کهيں ميں بهی اس مرض ميں مبتلا نہ هوجاؤں جس ميں يہ مبتلا هے ۔ ٤
يہ کيسی تربيت تهی کہ مالدار کو ايسی بخشش اور نادار کو اتنی بلند نظری عطا کی اور امير کے
تکبر کو تواضع اور غريب کی ذلت کو عزت ميں تبديل کر ديا ۔کمزور پر طاقتور کے مظالم کا اس طرح
قلع قمع کيا کہ امير المومنين (ع) کی حکومت کے زمانے ميں جس وقت مسلمانوں کے خليفہ کے پاس
ايران اور روم کے شهنشاہوں جيسی عظيم فوجی طاقتيں موجود تهيں اور مالک اشتر سپہ سالار تهے، ايک
دن جب مالک اشتر ايک سادہ اور عام انسان کی طرح بازار سے گزر رهے تهے تو کسی نے ان کا مذاق
--------------
1 سورہ بقرہ، آيت ٢۵۵ ۔”الله جس کے علاوہ کوئی خدا نهيں هے زندہ بهی هے اور اسی سے کل کائنات قائم هے اسے
نہ نيند آتی هے نہ اُنگه آسمانوں اور زمين ميں جو کچه بهی هے سب اسی کا هے۔ کون هے جو اس کی بارگاہ ميں اس کی اجازت
کے بغير شفاعت کر سکے ۔ وہ جو کچه ان کے سامنے هے اور جو پس پشت هے سب کو جانتا هے اور يہ اس کے علم کے
ايک حصہ کا بهی احاطہ نهيں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاهے ۔ اس کی کرسی علم واقتدار زمين وآسمان سے وسيع تر هے
اور اسے ان کے تحفظ ميں کوئی تکليف بهی نهيں هوتی وہ عالی مرتبہ بهی هے اور صاحب عظمت بهی“۔
2 کافی ج ٢ ص ١۶٢ ، کتاب الايمان و الکفر ، باب البر بالوالدين، ح ١٨ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ٧، ص ٩٧ ، آيت ١۴٠
سورہ انعام، اور دوسری کتابيں۔
3 معجم البلدان ج ۴ ص ٢۶٣ ۔
4 کافی ج ٢ ص ٢۶٢ ۔
٣٩
اڑايا۔لوگوں نے کها جس کا تم نے مذاق اڑايا، جانتے هو وہ شخص کون هے؟ اس نے کها: نهيں ؛جب اسے
بتايا گيا کہ کون تهاتو پريشان هوا کہ مالک اشتر کے پاس اس قدرت مطلقہ کے هوتے هوئے اب اس کا کيا
حشرہوگا، مالک کی تلاش ميں نکلا، اسے بتايا گيا کہ مالک اشتر مسجد کی طرف گئے هيں، سر جهکائے
مالک کے پاس گيا تاکہ اپنے کئے کی معافی مانگے، مالک نے کها :”تيرے عمل کی وجہ سے ميں نے
مسجد ميں آکر دو رکعت نما زادا کی هے تاکہ خدا سے تيری مغفرت کی درخواست کر سکوں ۔“ ١
يہ تربيت هی کا اثر تها کہ طاقت وقدرت کا غرور اسے حی قيوم کے سامنے پيشانی رگڑنے سے
نہ روک سکا اور اهانت کرنے والا جب سزا پانے کے خوف واضطراب ميں مبتلا تها، اسے سزا دينے کے
بجائے خدا سے طلبِ مغفرت جيسا بہترين تحفہ عطا کيا ۔
قومی فاصلے اس طرح مٹا ئے کہ عجم کی نسبت عرب قوميت کے رسوخ کے باوجود، سلمان
فارسی کو اس آيت کے حکم کے مطابق ٢<وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاوَةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ
وَجْهَہ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ لاَ تُطِعْ مَنْ ا غَْٔفَلْنَا قَلْبَہ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ هواہُ وَکَانَ ا مَْٔرُہ
فُرُطاً> ٣ اپنے پهلو ميں بٹهايا ٤ کہ جس کے نتيجے ميں مدائن کی امارت ان کے حوالے کی گئی۔
رنگ ونسل کے امتيازات کو جڑ سے يوں اکهاڑا کہ بلال حبشی جيسے غلام کو اپنا مو ذٔن قرار
ديا، اس وقت جب آنحضرت (ص) سے کها گيا کہ آپ نے جو بهی حکم ديا هم نے قبول کيا ليکن اس کالے
کوے کی آواز سننے کو تيار نهيں، تو آپ (ص) کا جواب يہ تها، <يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقنَْاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ ا نُْٔثٰی
وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ ا کَْٔرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ ا تَْٔقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ> ٥
ايسا پاک و پاکيزہ درخت کاشت کيا کہ علم ومعرفت جس کی جڑيں،مبدا ومعاد پر اعتقاد اس کا تنا،
ملکاتِ حميدہ واخلاقِ فاضلہ اس کی شاخيں، تقویٰ وپرهيزگاری اس کی کلياں، محکم وسنجيدہ گفتار اور
پسنديدہ کردار جس کے پهل تهے <ا لََٔمْ تَرَ کَيْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَةً طَيِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ ا صَْٔلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا
فِی السَّمَائِخ تُو تِْٔیْ ا کُُٔلَہَا کُلَّ حِيْنٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا> ٦
انسانيت کے درخت کو اس تعليم و تربيت کے ساته پروان چڑهايا او رعلی ابن ابی طالب (ع) کی
شکل ميں اس درخت کا بہترين ثمرعالم بشريت کے حوالے کيا کہ جس کے علمی و عملی فضائل کے عظيم
الشان مجموعے ميں سے يهی چند سطريں بہت هيں کہ حيات رسول خدا (ص) ميں جس کے ادب کا تقاضہ
يہ تها کہ اپنے علم و عرفان کا اظهار نہ کرتے ، لہٰذا آفتاب کی شعاع کے تحت ماہتاب کی طرح رهے اور
آنحضرت (ص)کے بعد بهی استبداد کی گهٹا چها جانے کے باعث نور افشانی نہ کر پائے اور تقريباً پانچ
سال کی مدت ميں جمل، صفين و نهروان جيسی فتنہ انگيز اور تباہ کن جنگوں ميں مبتلا هونے کے باوجود،
نهايت هی کم فرصت ميں جب منبر خطابت پر بيٹهنے کا موقع ملا تو گفتار کا يہ عالم تها کہ ابن ابی الحديد
معتزلی کے بقول آپ (ع) کا کلام خالق کے کلام سے نيچے اورمخلوق کے کلام سے بلند قرار پايا۔ ٧ معرفت
خدا، تربيت نفس اور مضبوط معاشرتی نظام کے لئے فقط نهج البلاغہ کے بالترتيب خطبہ اول، خطبہ متقين اور عهد مالک اشتر کا مطالعہ هی يہ بات واضح اور روشن کرنے کے لئے کافی هے کہ علمی و
عملی حکمت کا وہ کيسا بحرِ بے کراں هے کہ يہ تمام نمونے جس کے قطروں کی مانند هيں۔
--------------
1 بحار الانوارج ۴٢ ص ١۵٧ ۔
2 مجمع البيان ج ۶، ص ٣٣٧ مذکورہ آيت کی تفسير کے ذيل ميں ۔
3 سورہ کہف ، آيت ٢٨ ۔”اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساته صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو
پکارتے هيں اور اسی کی مرضی کے طلب گار هيں اور خبردار تمهاری نگاهيں ان کی طرف سے پهر نہ جائيں کہ زندگانی دنيا
کی زينت کے طلب گار بن جاو اور هر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو هم نے اپنی ياد سے محروم کر ديا هے اور
وہ اپنے خواهشات کا پيروکار هے اور اس کا کام سراسر زيادتی کرناهے“۔
4 مجمع البيان ج ٩، ص ٢٢۶ ، مذکورہ آيت کی تفسير کے ذيل ميں۔
5 سورہ حجرات ، آيت ١٣ ۔”انسانو!هم نے تم کو ايک مرد اور ايک عورت سے پيدا کيا هے اور پهر تم ميں شاخيں
اور قبيلے قرار ديئے هيں تاکہ ايک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم ميں سے خدا کے نزديک زيادہ محترم وهی هے جو
زيادہ پر هيزگار هے اور الله هر شئے کا جاننے والا اور هر بات سے باخبر هے “۔
6 سورہ ابراهيم، آيت ٢۴،٢۵ ۔”کياتم نے نهيں ديکها کہ الله نے کس طرح کلمہ طيبہ کی مثال شجرہ طيبہ سے بيان کی
هے جس کی اصل ثابت هے اور اس کی شاخ آسمان تک پهنچی هوئی هے۔يہ شجرہ هر زمانہ ميں حکم پروردگار سے پهل ديتا
هے “۔
7 شرح نهج البلاغہ ابن ابی الحديد ج ١ ص ٢۴ ۔
۴٠
جب ميدان جنگ ميں قدم رکها تو تاريخ اس جيسا دلاور نہ دکها سکی، جس کی پيٹه زرہ سے خالی
هوا کرتی تهی اور جس نے ايک هی رات ميں پانچ سو تيئيس بار صدائے تکبير بلند کی اور هر تکبير پر
ايک دشمنِ اسلام کو واصل جهنم کيا۔ ١ اسی رات باوجود اس کے کہ چاروں طرف سے تيروں کی بارش
هورهی تهی اور دائيں بائيں تير گر رهے تهے، بغيرکسی کمترين اضطراب و پريشانی کے هميشہ کی طرح
بندگی و عبادت خدا سے غافل نہ هوئے اور نهايت سکون و اطمينان کے ساته ميدان جنگ ميں
دونوںلشکروں کے درميان نماز شب ادا کی ٢، اور عمرو بن عبدودّ جيسے تنو مند اور ديو هيکل سوار کو
زمين پر پٹخ ديا۔ سنی و شيعہ محدثين نے رسول خدا (ص)سے يہ روايت نقل کی هے کہ آپ (ص) نے
فرمايا: ((لمبارزة علی بن ا بٔی طالب لعمرو بن عبدودّ يوم الخندق ا فٔضل من عمل ا مٔتي إلی يوم القيامة)) ٣
فتح خيبرکے روز ايک هی وار ميں يہود کے يکّہ تازدلاور، مرحب کے دو حصّے کرديئے اس
کے بعد ستر سواروں پر تن تنها حملہ کرکے انهيں اس طرح هلاک کيا کہ مسلمان و يہود سب کے سب
متحير رہ گئے ٤ اور اس شجاعت کے ساته خوف خدا کا ايسا امتزاج پيش کيا کہ نماز کا وقت آتے هی
چهرے کا رنگ زرد پڑ جاتا اور بدن لرزنے لگتا تها، لوگ پوچهتے تهے: کيا هوا؟ آپ کی ايسی حالت کيوں
هورهی هے؟ تو فرماتے:”اُس امانت کا وقت آ پهنچا هے کہ اسے جب آسمان و زمين اور پهاڑوں کے
سامنے پيش کيا گيا تو انہوں نے يہ ذمہ داری لينے سے انکار کر ديا اور انسان نے وہ امانت لے لی۔“ ٥
وہ، کہ جس کی هيبت سے دن کے وقت ميدان جنگ ميں بڑے بڑے بهادروں کے بدن کانپ اٹهتے
تهے، راتوں کو محراب عبادت ميں مار گزيدہ انسان کی مانند، تڑپتے هوئے اشکبار آنکهوں کے ساته اس
طرح فرياد کرتا تها: ”اے دنيا! اے دنيا! کيا تو ميرے پاس آئی هے؟! کيا تو ميری مشتاق هے؟! هيهات!
هيهات! کسی اور کو دهوکہ دے، مجهے تيری کوئی حاجت نهيں، ميں نے تجهے تين طلاقيں ديں …،آہ! آہ!
زاد راہ کتنا کم هے اور راہ کتنی طويل هے؟“ ٦
سائل کے سوال کرنے پر حکم ديا: اسے ايک ہزار دے دو۔ جسے حکم ديا تها اس نے پوچها:
سونے کے ہزار سکے دوں يا چاندی کے؟ فرمايا : ميرے نزديک دونوں پتهر هيں، جس سے سائل کو زيادہ
فائدہ پهنچے وہ دے دو۔ ٧
شجاعت اور سخاوت کا ايسا امتزاج کس امت و ملت ميں پايا جاتا هے کہ ميدان جنگ ميں لڑائی
کے دوران جب ايک مشرک نے کها: يا ابن ابی طالب! هبنی سيفک، تو آپ (ع) نے تلوار اس کی جانب
پهينک دی۔ جب مشرک نے کها:وا عجبا!اے فرزند ابی طالب!ايسے سخت وقت ميں تم نے ا پنی تلوار
مجهے دے دی؟ تو آپ (ع)نے فرمايا: تم نے ميری طرف دست سوال دراز کيا تها اور سائل کو رد کرنا کرم
کے خلاف هے۔ اس مشرک نے اپنے آپ کو زمين پر گرا کر کها: يہ اهل دين کی سيرت هے!!، پهر آپ
کے قدموں کا بوسہ ليا اور مسلمان هوگيا۔ ٨
ابن زبير نے آپ (ع)کے پاس آکر کها: ميں نے اپنے والد کے حساب کتاب ميں ديکها هے کہ آپ
(ع) کے والدميرے والد کے اسّی ہزار درهم کے مقروض تهے ۔ آپ (ع) نے وہ رقم اسے دے دی۔ اس
کے بعد دوبارہ پلٹ کر واپس آيا اور کهنے لگا مجه سے غلطی هوئی هے، آپ کے والد نهيں بلکہ ميرے
والدآپ کے والد کے مقروض تهے۔ آپ نے فرماياوہ رقم تمهارے والد کے لئے حلال اور جو رقم تم نے
مجه سے لی وہ بهی تمهاری هوئی۔ ٩
زمانہ ايسے صاحب منصب کی مثال کهاں پيش کر سکتا هے جس کی حکومت مصر سے خراسان
تک پهيلی هوئی هو اور عورت کے کاندهے پر پانی کی مشک ديکه کر اس سے لے اور منزل تک پهنچا
آئے۔ اس سے احوال پرسی کرنے کے بعد، صبح تک اضطراب کی وجہ سے سو نہ سکے کہ اس بيوہ
--------------
1 مناقب آل ابی طالب، ج ٢ص ٨۴ ۔
2 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ١٧ ۔
3 المستدرک علی الصحيحين، ج ٣، ص ٣٢ ؛ تاريخ بغداد ج ١٣ ص ١٩ ۔بحار الانوار ج ۴١ ص ٩۶ ۔
4 بحار الانوار ج ۴٢ ص ٣٣ ۔
5 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ١٧ ۔
6 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ١٢١ ۔
7 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ٣٢ ۔
8 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ۶٩ ۔
9 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ٣٢ ۔
۴١
عورت اور اس کے بچوں کا خيال کيوں نہ رکها گيا۔ اگلے دن صبح سويرے يتيموں کے لئے اشياء خوردنی
لے جائے، کهانا پکا کر اپنے هاتهوں سے بچوں کو کهلائے اور عورت امير المومنين (ع) کو پہچاننے
کے بعد جب شرمندگی کا اظهار کرے تو اس کے جواب ميں کهے: اے کنيز خدا! تم سے شرمندہ تو ميں
هوں۔ ١
اپنی خلافت کے زمانے ميںاپنے نوکر کے ساته کپڑے کے بازار سے گزرتے هوئے لٹهے کی دو
قميضيں خريدے اور ان ميں سے اچهی قميض اپنے نوکر کو عطا کردے تاکہ نوجوان کی خواهشِ آرائش
کی تسکين هوتی رهے اور کم قيمت لباس خود پهنے۔ ٢
زر و جواهر کے خزانے اختيار ميں هونے کے باوجود فرمايا: ((واللّٰہ لقد رقعت مدرعتي هذہ حتی
استحييت من راقعها)) ٣
آپ(ع) کی خدمت ميں مال غنيمت لايا گيا جس پر ايک روٹی بهی رکهی تهی۔ کوفہ کے سات
محلّے تهے۔ اس غنيمت اور روٹی کے سات حصے کئے، هر محلے کے منتظم کو بلا کر اسے غنيمت اور
روٹی کا ايک حصہ ديا ٤۔ غنيمت کو تقسيم کرنے کے بعد هميشہ دو رکعت نماز بجا لاتے اور
فرماتے:((الحمد للّٰہ الذي ا خٔرجنی منہ کما دخلتہ)) ٥
ايام حکومت ميں اپنی تلوار بيچنے کی غرض سے بازار ميں رکهوائی اور فرمايا: اس خدا کی قسم
جس کے قبضہ قدرت ميں علی کی جان هے! اگر ايک لنگ خريدنے کے بهی پيسے ميرے پاس هوتے تو
اپنی تلوار هرگز نہ بيچتا۔ ٦
جب کبهی آپ (ع) پر کوئی مصيبت وارد هوتی اس دن ہزار رکعت نماز بجالاتے، ساٹه مسکينوں
کو صدقہ ديتے اور تين دن روزہ رکهتے تهے۔ ٧
خون پسينے کی کمائی سے ہزار غلام آزاد کئے ٨، اور دنيا سے رخصت هوئے تو آٹه لاکه درهم
کے مقروض تهے۔ ٩
جس رات افطار کے لئے اپنی بےٹی کے هاں مهمان تهے، اس وسيع ملک کے فرمانروا کی بيٹی
کے دستر خواں پر جَو کی روٹی، نمک اوردوده کے ايک پيالے کے سوا کچه بهی نہ تها۔ آپ (ع) نے جَو
کی روٹی اور نمک سے افطار فرمايا اور دوده چهوا تک نهيں کہ کهيں آپ (ع) کا دستر خوان رعايا کے
دستر خوان سے زيادہ رنگين نہ هوجائے۔ ١٠
تاريخ کو اس جيسی کوئی دوسری شخصيت ديکهنا نصيب هی نہ هوئی کہ مصر سے خراسان تک
سلطنت هونے کے باوجود خود اس کے اورا س کے گورنروں کے لئے حکومت کا منشور ايسا هو جسے
اميرالمو مٔنين (ع) نے عثمان بن حنيف کے خط ميں منعکس کيا هے۔ اس خط کا مضمون و مفہوم تقريباً يہ
هے:
”اے ابن حنيف! مجهے يہ اطلاع ملی هے کہ بصرہ کے بڑے لوگوں ميں سے ايک شخص نے
تمهيں کهانے پر بلايا اور تم لپک کر پهنچ گئے۔ رنگا رنگ کهانے اور بڑے بڑے پيالے تمهارے لئے لائے
گئے۔ اميد نہ تهی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن ميں فقير و نادار دهتکارديئے گئے
هوںاور جن ميں دولت مند مدعو هوں۔ جو لقمے چباتے هوانهيں ديکه ليا کرو اور جس کے متعلق شبہ هوا
سے چهوڑ دو اور جس کے پاک وپاکيزہ راہ سے حاصل هونے کا يقين هو اس ميں سے کهاؤ۔
--------------
1 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ۵٢ ۔
2 بحار الانوار، ج ۴٠ ، ص ٣٢۴ ۔
3 نهج البلاغہ خطبہ ١۶٠ (خدا کی قسم اپنی قبا ميں اتنے پيوند لگائے کہ درزی سے شرم آنے لگی)
4 حلية الاولياء ج ٧ ص ٣٠٠ ۔
5 بحار الانوار، ج ۴٠ ، ص ٣٢١ ۔(حمد هے اس خدا کی جس نے مجه کو اس سے اسی طرح نکالا جيسے اس ميں داخل
هواتها)
6 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ۴٣ ۔
7 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ١٣٢ ۔
8 بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ۴٣ ۔
9 بحار الانوار، ج ۴٠ ، ص ٣٣٨ ۔
10 بحار الانوار، ج ۴٢ ، ص ٢٧۶ ۔
۴٢
جان لو کہ هر مقتدی کا ايک پيشوا هوتا هے جس کی وہ پيروی کرتا هے اور جس کے نورعلم
سے کسب نور کرتا هے۔ديکهو تمهارے امام کی حالت تو يہ هے کہ اس نے دنيا کے سازوسامان ميں سے
دو بوسيدہ چادروں اور دو روٹيوں پر قناعت کرلی هے۔ يہ تمهارے بس کی بات نهيںهے ليکن اتنا تو کرو
کہ پرهيزگاری، سعی وکوشش ، پاکدامنی اور امور ميں مضبوطی سے ميرا ساته دو ، خدا کی قسم ميں نے
تمهاری دنيا سے سونا سميٹ کر نهيں رکها ،نہ اس کے مال و متاع ميں سے انبار جمع کر رکهے هيں ، نہ
اپنے اس بوسيدہ لباس کی جگہ کوئی اور لباس تيار کيا هے اور نہ هی اس دنيا کی زمين سے ايک بالشت پر
بهی قبضہ جمايا هے۔“
يهاں تک کہ فرماتے هيں :”اگر ميں چاہتا تو صاف ستهرے شهد ، عمدہ گيہوں اور ريشم کے بنے
هوئے کپڑوں کو اپنے لئے مهيا کر سکتاتها، ليکن يہ کيسے هو سکتاهے کہ خواهشات مجه پر غلبہ حاصل
کرليں اور حرص مجهے اچهے اچهے کهانے چن لينے کی دعوت دے، جب کہ حجاز اور يمامہ ميں شايد
ايسے لوگ هوں کہ جنهيں ايک روٹی ملنے کی آس بهی نہ هو اور نہ هی کبهی انهيں پيٹ بهر کر کهانا
نصيب هوا هو۔“ ١
اسلامی حکومت کی حقيقت کو ايسے شخص کے آئينے ميں ديکهنا چاہئے جو خود کوفہ ميں
هوتے هوئے لذيذ کهانے کی طرف اس احتمال کی بنا پر هاته تک نهيں بڑهاتا کہ کهيں حجاز يا يمامہ ميں
کوئی بهوکے پيٹ نہ ہو ،جو لٹهے کے ايک پرانے پيوند لگے کرتے کے هوتے هوئے دوسرے پرانے
کرتے کے بارے ميں سوچتا بهی نهيں اور اپنے لئے ايک بالشت زمين تک تيار نهيں کرتا ۔اس دنيا سے اس
کی روٹی ،کپڑے اور مکان کی حديهيں تک هے کہ کهيں اس کا معيارِ زندگی اس کی رعايا کے فقير ترين
فرد سے بہتر نہ هوجائے ۔
اس کی سلطنت ميں عدالت اس طرح حکم فرما تهی کہ ايک دن اپنی زرہ يہودی کے پاس ديکهی
تو اس سے کها:”يہ زرہ ميری هے“ ۔اسلام کی پناہ ميں زندگی بسر کرنے والے يہودی نے کمالِ جرات کے
ساته جواب ديتے هوئے کها : ”يہ زرہ ميری هے اور ميرے هاته ميں هے ،ميرے اور تمهارے درميان
مسلمانوں کا قاضی فيصلہ کرے گا“۔
يہ جاننے کے باوجود کہ يہودی نے خيانت کی هے اور زرہ چرائی هے اس کے ساته قاضی کے
پاس گئے اور جب قاضی، حضرت (ع)کے احترام ميں کهڑا هوا تو قاضی کے اس امتياز برتنے پر اس
سے ناراضگی کا اظهار کيا اور فرمايا:اگر يہ مسلمان هوتا تو ضرور اس کے ساته هی تمهارے سامنے
بيٹهتا۔
آخر کار اس عدلِ مطلق کو ديکه کر يہودی نے اعتراف کر ليا اور اسلام لے آيا۔آپ (ع) زرہ کے
ساته اپنا مرکب بهی اس يہودی کو بخش ديتے هيں ۔يہودی مسلمان هونے کے بعد آپ (ع) سے جدا نہ هوا
يهاں تک کہ جنگ صفين ميں شهادت کے مقام پر فائز هوا۔ ٢
جب آپ(ع) کو خبر ملی کہ اسلام کی پناہ ميں زندگی گزارنے والی غير مسلم عورت کے پاؤں
سے پازيب چهين لی گئی هے تو اس قانون شکنی کا تحمل نہ کرپائے اور فرمايا:((فلو إن إمرا مسلما مات
من بعد هذا ا سٔفا ماکان بہ ملوما،بل کان بہ عندی جديرا)) ٣
راستے ميں ايک بوڑهے کو دستِ سوال دراز کرتے هوئے ديکه کر جستجو شروع کی کہ اس کے
بهيک مانگنے کا سبب کيا هے ۔آپ (ع) کو تسلی ديتے هوئے کها گيا يہ بوڑها نصرانی هے۔ آپ (ع) نے
ناراضگی کا اظهار کرتے هوئے فرمايا:جوانی ميں اس سے کام ليتے رهے اور بڑهاپے ميں بهيک مانگنے
کے لئے چهوڑ دياهے ؟!اور حکم ديا کہ اس کے مخارج زندگی بيت المال سے ديئے جائيں ۔ ٤
خلق کو حقوق مهيا کرنے کا يہ حال تها کہ چيونٹی کے منہ سے اس کی محنت سے حاصل کيا هوا
جوکا چهلکا چهيننے کے بدلے ميں ہفت اقليم بمع ان اشياء کے جو ان کے آسمانوں کے نيچے هيں لينے کو
--------------
1 نهج البلاغہ خطوط ۴۵ ۔
2 حلية الاولياء ج ۴ ص ١٣٩ ۔
3 نهج البلاغہ خطبہ ٢٧ (اگر ايک مسلمان اس واقعہ کو سننے کے بعد افسوس ميں مر جائے تو کوئی ملامت کا مقام
نهيں بلکہ ميرے نزديک اس پرمر ناهی مناسب هے)
4 وسائل الشيعہ ج ١۵ ص ۶۶ ، کتاب الجهاد، ابواب جهاد العدو، باب ١٩ ۔
۴٣
تيار نہ تهے، ١ اور خالق کے حقوق نبهانے ميں يہ کيفيت تهی کہ نہ جنت کے شوق،نہ جهنم کے خوف ،
بلکہ اسی کو اهل عبادت جان کر اس کی عبادت وبندگی ميں همہ تن مصروف تهے ۔ ٢
جيسا کہ پيغمبر اسلام(ص) نے فرمايا:((ا نٔا ا دٔيب اللّٰہ وعلی ا دٔيبی))، ٣ ايسے انسان کی تربيت کر
کے بشريت کو مقامِ کمال پر پهنچا ديا، کہ جس نے ميدان جنگ کی ايسی پامردی واستقامت دکهائی کہ جس
کی مثال تاريخ ميں نهيں ملتی اور ايسی رقت قلبی کا امتزاج پيش کيا کہ اگر يتيم کے چهرے پر نظر پڑ
جاتی تو رخسار پر آنسو جاری هوجاتے اور جگر سوز فرياد بلند هوتی اور اس تربيت سے اسے آزادی
وحريت کی اس منزل تک پهنچا ديا کہ پهر وہ دنيا کے محدود اور آخرت کے نامحدود تمام مصالح ومنافع
سے بلند وبالا هو کر صرف بندگی وعبادت پروردگار عالم کے طوق غلامی کو ،وہ بهی اپنے فائدے کے
لئے نهيں بلکہ اس کی اهليت کی وجہ سے اپنی گردن ميں ڈال ليا۔اور آزادی کے ساته ايسی بندگی کا امتزاج
پيش کيا جو خلقت جهان وانسان کا اصل مقصد هے اور اپنی رضا وغضب کو خالق کی رضا وغضب ميں
اس طرح فنا کيا کہ جس پر ليلة المبيت ٤ ميں رسول الله (ص) کے بستر پر نيند اور خندق کے دن ثقلين کی
عبادت سے افضل ضربت، ٥ گواہ هيں ۔
يقينا، ايسا باغبان جو سيم زدہ جزيرة العرب ميں چند محدود سالوں کے عرصے ميں سخت ترين
مشکلات ميں مبتلا هونے کے باوجود، دنيا کے سامنے ايک ايسی امت اور درختِ آدميت کا ايسا بہترين پهل
پيش کرے ،يہ کهنے کا حق رکهتا هے کہ بوستان انسانيت کا سب سے بڑا باغبان ميں هوں ۔
آيا عقل وانصاف يہ تقاضا نهيں کرتے کہ ان معجزات سے قطع نظرکرتے هوئے کہ جنهيں اس
مختصر مقدمے ميں ذکر کرنا ممکن نهيں ، صرف اس ايک علمی وعملی نمونے کی بنياد پر کہ جس کا
نهايت هی مختصر الفاظ ميں ذکر کياگيا ، انسان تعصب اور هوا وہوس کو خود سے دور کرتے هوئے اس
بات پر ايمان لے آئے کہ فقط آئين اسلام هی بشريت کو کمال کے آخری درجے تک پهنچا سکتا هے ؟!اور
آيا فطرت وعقل انسانی جس چيز کا دين سے علماً وعملاً تقاضا کرتی هے، کيا اس دين ميں کماحقہ موجود
نهيں ؟!
آيا انسان سازی کے لئے انفرادی واجتماعی نقطہ نظر سے اس سے بڑه کر کوئی اور تعليم
وتربيت بهی هے؟!
يهی چيز پيغمبر اسلام (ص) کی خاتميت اور ان کی شريعت کے ابدی هونے پر ايمان هے <مَا
کَانَ مُحَمَّدٌ ا بََٔا ا حََٔدٍ مِّنْ رِجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّےْنَ وَکاَنَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِيْماً> ٦
--------------
1 نهج البلاغہ خطہ ٢٢۴ ۔
2 عوالی اللئالی ج ١ ص ۴٠۴ ۔
3 بحار الانوار ج ١۶ ص ٢٣١ (ميں خدا کا تربيت شدہ هوں اور علی (ع) ميرے تربيت شدہ هيں)
4 بحار الانوار ج ٣۶ ص ۴٠ ۔
5 بحار الانوار ج ٣٩ ص ٢۔
6 سورہ احزاب ، آيت ۴٠ ۔”محمد تم ميں سے کسی کا باپ نهيں هے بلکہ خدا کا بهيجا هوا پيغمبر اور خاتم النبيين هے
اور خدا هر چيز کا جاننے والا هے“۔
١٨٢ ۔ ، 7 بحار الانوارج ١٨ ص ١٨٠
|