نبوت خاصّہ
چونکہ پيغمبر اکرم (ص) کی رسالت رہتی دنيا تک کے لئے هے اور آپ (ص) خاتم النبيين هيں،
لہٰذا ضروری هے کہ آنحضرت (ص) کا معجزہ بهی هميشہ باقی رهے۔
دوسرے يہ کہ آپ (ص) کی بعثت کا دور کلام ميں فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے مقابلے کا
دور تها اور اس معاشرے ميں شخصيات کی عظمت و منزلت، نظم و نثر ميں فصاحت و بلاغت کے مراتب
کی بنياد پر طے هوتی تهی۔
ان هی دو خصوصيات کے سبب قرآن مجيد، مختلف لفظی اور معنوی اعتبارات سے حضور اکرم
(ص) کی نبوت و رسالت کی دليل قرار پايا۔ جن ميں سے بعض کی طرف هم اشارہ کرتے هيں:
١۔قرآن کی مثل لانے سے انسانی عجز:
پيغمبر اکرم (ص) نے ايسے زمانے اور ماحول ميں ظہور فرمايا جهاں مختلف اقوام کے لوگ
گوناگوں عقائد کے ساته زندگی بسر کر رهے تهے۔ کچه تو سرے سے مبدا متعال کے منکر اور مادہ
پرست تهے اور جو ماوراء مادہ و طبيعت کے قائل بهی تهے تو، ان ميں سے بهی بعض بت پرستی اور
بعض ستارہ پرستی ميں مشغول تهے۔ باقی جو ان بتوںاور ستاروں سے دور تهے وہ مجوسيت، يہوديت، يا
عيسائيت کی زنجيروں ميں جکڑے هوئے تهے۔
دوسری جانب شهنشاہ ايران اور هرقل روم کمزور اقوام کی گردنوں ميں استعمار و استحصال کے
طوق ڈالے هوئے تهے يا پهر جنگ و خونريزی ميں سرگرم تهے۔
ايسے دور ميں پيغمبر اسلام (ص) نے غيب پر ايمان اور توحيد کے پرچم کو بلند کرکے کائنات
کے تمام انسانوںکو پروردگار عالم کی عبادت اور کفر و ظلم کی زنجيريں توڑنے کی دعوت دی۔ ايران کے
کسریٰ اور قيصرروم سے لے کر غسان و حيرہ کے بادشاہوں تک، ظالموں اور متکبروں کو پروردگارِ
عالم کی عبوديت، قبولِ اسلام، قوانين الٰهی کے سامنے تسليم اور خود کو حق و عدالت کے سپرد کرنے کی
دعوت دی۔
مجوس کی ثنويت، نصاریٰ کی تثليث، يہود کی خدا اور انبياء عليهم السلام سے ناروا نسبتوں اور
جاهليت کی ان غلط عادات ورسوم سے، جو آباء و اجداد سے وراثت ميں پانے کے سبب جزيرة العرب کے
لوگوں کے ر گ وپے ميں سما چکی تهيں، مقابلہ کيا اور تمام اقوام و امم کے مدمقابل اکيلے قيام فرمايا۔
باقی معجزات کو چهوڑ کر معجزہ قرآن کو اثبات نبوت کی قاطع دليل قرار ديا اور قرآن کو چيلنج
بناتے هوئے بادشاہوں، سلاطين، نيز علمائے يہود اورعيسائی راهبوں جيسی طاقتوں اور تمام بت پرستوں
کو مقابلے کی دعوت دی <وَإِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا فَا تُْٔوا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا شُہَدَآئَکُمْ مِنْ
دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَ> ٢
--------------
1 بحار الانوار ج ۶ ص ۵٩ ۔”امام نے اس حديث ميں پيغمبران خدا کی معرفت اور ان کی رسالت کا اقرار اور ان کی
اطاعت کے واجب هونے کے سلسلے ميں فرمايا:کيونکہ مخلوق خلقت کے اعتبار سے اپنی مصلحتوں تک نهيں پہونچ سکتے
تهے، دوسرے طرف خالق عالی ومتعالی هے مخلوق اپنے ضعف و نقص کے ساته خدا کا ادراک نهيں کرسکتے لہٰذا کوئی اور
چارہ نهيں تها کہ ان دونوں کے درميان ايک معصوم رسول وسيلہ بنے جو خدا کے امر و نهی کو اس کمزور مخلوق تک پہونچا
سکے ۔
اور ان کے مصالح و مفاسد سے آگاہ کرے کيونکہ ان کی خلقت ميں اپنی حاجتوں کے مطابق مصلحتوں اور نقصان
دينے والی چيزوں کو پہچاننے کی صلاحيت نهيں هے“۔
2 سورہ بقرہ ، آيت ٢٣ ۔”اگر تمهيں اس کلام کے بارے ميں کوئی شک هے جسے هم نے اپنے بندے پر نازل کيا هے
تو اس کا جيسا ايک هی سورہ لے آو اور الله کے علاوہ جتنے تمهارے مددگار هيں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوے ميںاور
خيال ميں سچے هو“۔
٢٨
واضح هے کہ عوام الناس کا اپنے عقائد ميں تعصب، علماء مذاهب کی اپنے پيروکاروں کے ثابت
قدم رهنے پر سختی اور سلاطين کے لئے رعايا کی بيداری کا خطرہ هوتے هوئے اگر ان کے بس ميں هوتا
تو قرآن کا جواب لانے ميں هرگز سستی نہ کرتے۔
دانشوروں، شعراء، اور اهل سخن کے هوتے هوئے جو فصاحت و بلاغت کے ماهرين تهے اور
بازار عکاظ کو ان کے مقابلوں کا ميدان قرار ديا جاتا تها اور ان مقابلوں ميں جيتنے والوں کے اشعارکو
خانہ کعبہ کی ديوار پر بطور افتخار آويزاں کياجاتا تها، اگر ان ميں مقابلے کی قدرت هوتی تو آيا اس مقابلے
ميں، جس ميں ان کے دين و دنيا کی هار جيت کا سوال تها، کيا کچه نہ کرتے؟
آخر کار آپ (ص) کی گفتار کو جادو سے تعبير کرنے کے سوا دوسرا کوئی چارہ نہ کر سکے
<إِنْ ہٰذَا إِلاَّ سَحْرٌ مُّبِيْنٌ> ١
اور يهی وجہ تهی کہ جب ابو جهل نے فصحاء عرب کے ملجا و مرجع، وليد بن مغيرہ سے قرآن
کے متعلق رائے دينے کی درخواست کی تو کهنے لگا:((فما ا قٔول فيہ فواللّہ ما منکم رجل ا عٔلم بالا شٔعار
منی ولا ا عٔلم برجزہ منی ولا بقصيدہ ولا با شٔعار الجن، واللّٰہ ما يشبہ الذی يقول شيئاً من ہذا، و واللّٰہ إن لقولہ
لحلاوة و إنہ ليحطم ما تحتہ و ا نٔہ ليعلو و لا يعلی۔ قال ابوجهل: واللّٰہ لا يرضی قومک حتی تقول فيہ، قال:
فدعنی حتی ا فٔکرّ فيہ، فلمّا فکّر، قال: هذا سحر يا ثٔرہ عن غيرہ)) ٢
وليد بن مغيرہ کا يہ بيان اعجاز قرآن کے مقابلے ميں شکست تسليم کرنے کی دليل هے، کيونکہ
جادو کی انتها بهی عادی اسباب پر هے جو انسان کی قدرت سے باهر نهيں اور تاريخ گواہ هے کہ اس
زمانے ميں جزيرة العرب اور اس کے همسايہ ممالک ميں جادوگروں اور کاهنوں کی ايک بڑی تعداد
موجود تهی جو جادو اور علم نجوم ميں کمال کی مهارت رکهتے تهے۔ اس کے باوجود پيغمبر اکرم (ص)
کا قرآن کے ذريعے چيلنج کرنا اور ان سب کا قرآن کے مقابلے ميں عاجز هونا تاريخ کے اوراق ميں ثبت
هے، لہٰذا قرآن سے مقابلے کے بجائے آنحضرت (ص) کو مال و مقام کا لالچ ديا گيا اور جب ان کی اس
سعی و کوشش نے بهی اپنا اثر نہ دکهايا تو آپ (ص) کی جان کے درپے هوگئے۔
٢۔هدايت قرآن
ايسے دور ميں جب ايک گروہ کا ماوراء الطبيعت پر اعتقاد هی نہ تها بلکہ ادارک سے عاری اور
بے شعور مادّے کو عالمِ وجود کے حيرت انگيز نظام کے انتظام وانصرام کا مالک سمجهتے تهے، جب کہ
ماوراء الطبيعت پر اعتقاد رکهنے والے گوناگوں بتوں کی صورت ميں اپنے اپنے معبودوں کی پوجا کرتے
تهے اور آسمانی اديان کے معتقد، تحريف شدہ کتب کے مطابق، خالق کو اوصاف خلق سے متصف خيال
کرتے تهے۔ ايسا ماحول جهاں تاريخ، عوام کے شديدفکری، اخلاقی اور عملی انحطاط کی گواہ هے، وهاں
ايک ايسے فرد نے قيام کيا جس نے نہ کهيں سے پڑها اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کيا
تها، ليکن گمراهی کی هرتاريک کهائی کے مقابلے ميں هدايت کی عظيم شاهراہ ترسيم کی۔ انسان کو ايسے
پروردگار عالم کی عبادت کی دعوت دی جو هر قسم کے نقص سے پاک و منزہ اور تمام کمال و جمال اسی
کے وجود سے هيں، ساری تعريفيں اسی کے لئے مخصوص هيں، جس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نهيں،
اس کی ذات اس سے کهيں بڑه کر هے کہ اس کے لئے کوئی حد معين کی جائے يا اوصاف ميں سے کوئی
صفت بيان کی جا سکے ((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلا اللّٰہ واللّٰہ ا کٔبر) ٣
--------------
1 سورہ مائدہ، آيت ١١٠ ۔”يہ سب کهلا هواجادو هے“۔
2 تفسير طبری ج ٢٩ ص ١۵۶ ۔سورہ مدثر کی، آيت ٢۴ ۔ (کها اس بارے ميں کهيں؟بس خدا کی قسم تم ميں سے کوئی
ايک بهی مجه سے زيادہ شعر ميں معلومات نهيں رکهتا اس طرح رجز خوانی و قصيدہ واشعار ميں بهی مجه سے زيادہ عالم نهيں
خدا کی قسم جو وہ (پيغمبر)کہہ رها هے ان ميں سے کسی ايک کے طرح نهيں خدا کی قسم بس اس کے کلام ميں ايسی مٹهاس
هے جو هر کلام کو بے مزہ بنا دے گی بے شک سب سے برتر هے اور اس پر کوئی کلام برتری نهيں رکهتا۔
ابو جهل نے کها:خدا کی قسم تمهاری قوم اس وقت تک راضی نہ هوگی جب تک اس کلام کی برائی ميں کچه نہ کہہ
دو ۔
وليد بن مغيرہ نے جواب ديا:مجه کو کچه مهلت دو تاکہ اس بارہ ميں غور وفکر کرويں پهر کچه فکر کرنے کے بعد
کہتا هے يہ جادو هے جو دوسروں کی بارہ ميں خبر رکهتا هے“۔
3 ”پاک ومنزہ خدا کی ذات جو هر نقص و صفات مخلوق سے بری هے ساری تعريفيں خدا کے لئے هيں کوئی بهی
لائق پرستش نهيں جز الله سبحانہ تعالیٰ کے ، خدابالا وبرتر هے اس سے کہ اس کی توصيف کی جائے“۔
٢٩
ان ايام ميں جب عدد ومعدود کے خالق او ر اولاد و ازواج سے پاک ومنزہ ذات کو ترکيب،
تثليث،احتياج اور توليد نسل سے نسبت دينے کے ساته ساته اس کا همسر بهی تصور کيا جاتا تها، قرآن نے
اس کی ذات کو ان تمام اوهام سے پاک ومنزہ قرار ديتے هوئے پروردگار عالم کی وحدانيت کا اعلان فرمايا
کہ خدا کی ذات هر قسم کی عقلی، وهمی اور حسی ترکيب سے منزہ هے، وہ هر شخص اور هر شے سے
بے نياز هی نهيں بلکہ اس کے علاوہ هر چيز وهر شخص محتاج هے ، اس کی مقدس ذات ميں توليدِ نسل
کو عقلاً وحسا کسی بهی معنی کے اعتبار سے گنجائش نهيں، تمام موجودات اس کی قدرت وارادے سے
موجود ومخلوق هيں۔ذات، صفات اور افعال ميں اس کی کوئی مثا ل نهيں ۔
اگر چہ قرآن ميں پروردگار عالم کی معرفت، اعلیٰ صفات اور اسماء حسنی سے متعلق ايک ہزار
سے زيادہ آيات موجود هيں، ليکن ان ميں سے ايک سطر ميں تدبر وتفکر هی هدايت کی عظمت کو وا ضح
وروشن کر ديتا هے<قُلْ هُوَ اللّٰہُ اَحَدٌخاللّٰہُ الصَّمَدُخلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَدْخوَلَمْ يَکُنْ لَہ کُفُو أً ا حََٔدٌ>
کلام اهل بيت عليهم السلام، جو معرفت کے خزانوں کی کنجی هے،يهاں ان ميں سے دوحد يثيں نقل
کرتے هيں :
١۔امام جعفر صادق (ع) فرماتے هيں : ((إن اللّٰہ تبارک وتعالی خلو من خلقہ وخلقہ خلو منہ وکل ما
وقع عليہ اسم شیء ما خلا اللّٰہ عزوجل فهو مخلوق، واللّٰہ خالق کل شیء، تبارک الذي ليس کمثلہ شی )ٔ) ١
٢۔امام باقر(ع) فرماتے هيں :((کلما ميزتموہ با ؤهامکم فی ا دٔق معانيہ، مخلوق مصنوع مثلکم
مردود إليکم)) ٢
آسمانی کتاب، جن پر کروڑوں يہود ونصاٰری کے عقائد کی بنياد هے، کے عهدِ عتيق وجديد کا
مطالعہ کرنے کے بعد معارفِ الهيہ سے متعلق هدايت قر آن کی عظمت آشکار هوتی هے۔ اس مقدمے ميں
نمونے کے طور پر چند ايک کا ذکر کرتے هيں:
يهوديوں کے بعض عقيدے
سفر تکوين (پيدائش )باب دوم :”اور ساتويں دن اسے اپنے تمام کاموں سے فراغت ملی ۔ اس نے
ساتويں دن اپنے تمام کاموں کو انجام دينے کے بعد فرصت پائی ۔ پهر خدا نے ساتويں دن کو مبارک اور
پاکيزہ قرار ديا کيونکہ اس دن اس نے اپنے تمام امور سے فراغت کے بعد فرصت پائی ۔۔۔۔
خداوند خدا نے آدم کو حکم ديتے هوئے فرمايا : بغير کسی روک ٹوک کے باغ کے تمام درختو ں
سے کها سکتے هو، ليکن نيک وبد کی معرفت کے درخت سے هر گزنہ کهانا، کيونکہ جس دن اس سے
کهاؤ گے يقيناً مر جاؤ گے۔“
سفر تکوين (پيدائش ) باب سوم :”خداوند خدا کے خلق شدہ صحرائی حيوانات ميں سے سانپ سب
سے زيادہ هوشيار تها، اس نے عورت سے کها :کيا واقعی خدا نے تمهيں باغ کے تمام درختوں سے کهانے
سے منع کيا هے؟ عورت نے سانپ سے کها : هم باغ کے باقی درختوںسے تو پهل کها سکتے هيں سوائے
اس درخت کے جو باغ کے درميان ميں هے، خدا نے فرمايا هے کہ اس درخت سے نہ کهانا اور اسے
چهونا بهی نهيں ورنہ مر جاؤگے ۔ سانپ نے کها : هر گز نہ مرو گے،بلکہ خد اجانتا هے جس دن تم نے
اس سے کها ليا تمها ری آنکهوں کے سامنے سے پردے ہٹ جائيں گے اور خدا کی طرح تمهيں بهی نيک
وبد کی معرفت حاصل هوجائے گی ۔ جب عورت نے ديکها کہ اس درخت سے کهانا اچها هے جس کی ديد
خوش نما و دلپذير هے اور جو معرفت بڑهانے والا هے، پس اس درخت سے پهل توڑ کر خود بهی کهايا
اور اپنے شوهر کو بهی ديا، جو اس نے کها ليا ۔ جب وہ کها چکا، اس وقت دونوں کی آنکهوں کے سامنے
سے پردے ہٹ گئے دونوں نے ديکها کہ ان کے جسم عرياں هيں انہوں نے انجير کے پتوں کو آپس ميں
جوڑ کر اپنے جسم کو ڈهانپنے کا سامان فراهم کيا اور انہوں نے خدا وند خدا کی آواز سنی جو نسيمِ صبح
کے چلنے کے وقت باغ ميں خراماں خراماں ٹهل رها تها۔ آدم اور ا س کی بيوی نے خود کو خداوند خدا کی
--------------
1 بحار الانوار ج ۴ ص ١۴٩ ۔”چهٹے امام ارشاد فرماتے هيں:بے شک خدا وند متعال کی ذات والاميں مخلوق کی کوئی
صفت نهيں اور مخلوق ميں کوئی خداکی صفت نهيں بلکہ خدا اور مخلوق ميں ذات وصفات کے اعتبار سے تبائن هے ايک واجب
هے تو دوسرا ممکن کسی طرح کی مشابہت خالق و مخلوق ميں نهيں پائی جاتی هر وہ چيز جس پر اسم خدا کے علاوہ کسی چيز
کا اطلاق هو وہ مخلوق هے اور خدا هر چيز کا خالق هے بابرکت هے وہ ذات جس کا مثل کوئی نهيں “۔
2 بحار الانوار ج ۶۶ ص ٢٩٣ ۔پانچويں امام کا ارشاد هے:”هر وہ چيز جس کو تم اپنے خيال خام ميں اس کے دقيق
ترين معنی ميں دوسروں سے جدا جانو وہ تمهاری طرح ايک مخلوق و مصنوع هے جس کی باز گشت تمهاری طرف هے“۔
٣٠
نظروں سے اوجهل کر کے خود کو باغ کے درختوں کے درميان چهپا ليا ۔ خداوند خدا نے آدم کو آواز دی
اور کها: تم کهاں هو؟آدم نے کها : ميں باغ ميں تمهاری آواز سن کر چوں کہ عرياںہوں، ڈر گيا هوں اور
خود کو چهپا ليا هے۔ کها: کس نے تمهيں آگاہ کيا کہ تم عرياں هو ؟آيا تمهيں جس درخت سے کهانے کو منع
کيا تها، تم نے اس سے کها ليا ؟…“
اسی باب کی بائيسويں آيت ميں هے:”اور خداوند خدا نے کها: بے شک انسان نيک وبد کی معرفت
کے بعد هماری مانند هوگياهے ۔ اب کهيں ايسا نہ هو کہ هاته بڑها کر درختِ حيات سے بهی کها لے اور
هميشہ باقی رهے۔“
باب ششم کی چهٹی اور ساتويں آيت ميں يہ مذکور هے: ”اور خداوند زمين پر انسان کی خلقت سے
پشيمان اور اپنے دل ميں غمگين هوا، خداوند نے کها : انسان کو جو خلق کيا هے اس زمين کو انسان،
حيوانات، حشرات الارض اور پرندوں کے وجود سے پاک کردوں، کيونکہ انهيں خلق کر کے پشيمان
هوں۔“
اب هم ان آيات ميں سے بعض نکات کی جانب اشارہ کرتے هيں:
١۔پروردگار عالم نے انسان کو خلق کيا هے اور اسے عقل عطا کی هے تاکہ وہ اچهے اور برے
کی پہچان کر سکے۔ اس نے عقل کو علم و معرفت کے لئے پيدا کيا هے، کيسے ممکن هے کہ وہ اسے
اچهے اور برے کی پہچان سے روک دے؟!
جب کہ هدايت قرآن يہ هے < قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لاَ يَعْلَمُوْنَ إِنَّمَا يَتَذَکَّرُ ا ؤُْلُواْلا لَْٔبَابِ
١، <إِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِيْنَ لاَ يَعْقِلُوْنَ> ٢ <
علم، معرفت،تعقل، تفکر، اور تدبر کے بارے ميں آيات قرآن اتنی زيادہ هيں کہ اس مختصر مقدمے
ميں ذکر کرنا ممکن نهيں هے ۔
٢۔جو يہ کهے کہ اگر اس نيک وبد کے درخت سے کهايا تو مر جاؤگے جب کہ آدم اور اس کی
زوجہ کهاتے هيں اور نهيں مرتے، يا تو جانتا تها کہ نهيں مريں گے، لہٰذا جهوٹا هے، يا نهيں جانتا تها پس
جاهل هوا ۔ کيا جهوٹا اور جاهل، ”خداوند“ کے نام کا حق دار هوسکتاهے ؟!
اس سے زيادہ عجيب يہ کہ سانپ، آدم اور اس کی زوجہ کو نيک وبد کی معرفت کے درخت سے
کهانے کے لئے هدايت کر کے، خدا کے جهوٹ کو ان پر آشکار اور بناوٹی خد ا کے فريب اوردهوکے
بازی کو نماياںکرتا هے ؟!
ليکن خدا کے علم سے متعلق قرآن کا نمونہ يہ هے<يَعْلَمُ مَا بَيْنَ ا ئَْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيْطُوْنَ
بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہ إِلاَّ بِمَا شَاءَ> ٣، <وَلاَ يَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ> ٤، <إِنَّمَا إِلٰهُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَ وَسِعَ کُلَّ
شَیْءٍ عِلْماً> ٥، <قُلْ ا نَْٔزَلَہُ الَّذِیْ يَعْلَمُ السِّرَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ إِنَّہ کَانَ غَفُوْراً رَّحِيْماً> ٦،< لاَ جَرَمَ ا نََّٔ اللّٰہَ
يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَمَا يُعْلِنُوْنَ> ٧،<هُوْ اللّٰہُ الَّذِیْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَةِ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ> ٨
--------------
1 سورہ زمر ، آيت ٩۔”کہہ ديجئے کہ کيا وہ لوگ جو جانتے هيں ان کے برابر هو جائيں گے جو نهيں جانتے هيں ،
اس بات سے نصيحت صرف صاحبان عقل حاصل کرتے هيں“۔
2 سورہ انفال ، آيت ٢٢ ۔”الله کے نزديک بد ترين زمين پر چلنے والے وہ بهرے اور گونگے هيں جو عقل سے کام
نهيں ليتے هيں“۔
3 سورہ ،بقرہ آيت ٢۵۵ ۔”وہ جو کچه ان کے سامنے هے اور جو پس پشت هے سب کو جانتا هے اور لوگ اس کے
علم سے کسی چيز پر بهی احاطہ نهيں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاهے“۔
4 سورہ سباء، آيت ٣۔”اس کے علم سے زمين وآسمان کا کوئی ذرہ دور نهيں هے“۔
5 سورہ طہ، آيت ٩٨ ۔”يقينا تم سب کا خدا صرف الله هے جس کے علاوہ کوئی خدا نهيں هے اور وهی هر شئے کا
وسيع علم رکهنے والا هے“۔
6 سورہ فرقان، آيت ۶۔”آپ کہہ ديجئے کہ اس نے قرآن کو نازل کيا هے جو آسمان اور زمين کے رازوں سے باخبر
هے اور يقينا بڑا بخشنے والا هے“۔
7 سورہ نحل، آيت ٢٣ ۔”يقينا الله ان تمام باتوں کو جانتا هے جنهيں يہ چهپاتے هيں يا جن کا اظهار کرتے هيں“۔
8 سورہ حشر، آيت ٢٢ ۔”خدا وہ هے جس کے علاوہ کوئی خدا نهيں هے اور وہ پوشيدہ اور ظاهر کا جاننے والا وہ هی
بڑا مهربان اور نهايت رحم والا هے “۔
٣١
٣۔ايسا موجود جو خود محدودہو اور جو آدم کو باغ کے درختوں ميں گم کردے اور کهے :کهاں
هو؟ تاکہ آدم کی آواز سن کر اسے ڈهونڈے، باغ کے درخت جس کے ديکهنے ميں مانع هوں، وہ رب
العالمين، عالمِ السر والخفيات، خالق کون ومکان اور زمين وآسمان پر محيط کيسے هوسکتاهے ؟!
جب کہ اس کے مقابلے ميں هدايتِ قرآن کا نمونہ يہ هے <وَعِنْدَہ مَفَاتِيْحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ
وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ اْلا رَْٔضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَيَابِسٍ إِلاَّ فِی
کِتَابٍ مُّبِيْنٍ> ١
۴۔انجيل کی مذکورہ بالا آيات خدا کی توحيد اور تقديس کی جانب هدايت کرنے کے بجائے کہ<لَيْسَ
کَمِثْلِہ شَیْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ> ٢، اس کی ذات ميںشرک اور تشبيہ پر دلالت کرتی هےں اور کہتی هےں
:”…خدا نے کها :نيک وبد کی معرفت حاصل کر کے انسان يقينا هماری طرح هوگيا هے…۔“
۵۔پروردگار عالم کا تخليق آدم سے پشيمان هونا اس بات کی دليل هے کہ وہ اپنے کام کے انجام
سے جاهل تها۔ کيا پروردگار عالم کو جاهل سمجهنا، کہ جس کا لازمہ محدوديت ذات ومخلوقيت خالق اور
نورِ علم وظلمت جهل کی حق متعال کے ساته ترکيب هے، انسان کو خدا کی جانب هدايت کرنے والی
آسمانی کتاب سے ممکن هے؟!
جب کہ هدايت قرآن يہ هے کہ<ا لَٔاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ > ٣<وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّیْ
جَاعِلٌ فِی اْلا رَْٔضِ خَلِيْفَةً قَالُوْا ا تَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ
إِنِّیْ ا عَْٔلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ> ٤
۶۔پروردگا ر عالم سے حزن وملال کو منسوب کيا جو جسم، جهل اور عجز کا لازمہ هيں اور اس
بارے ميں هدايت قرآن يہ هے <سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُخ لَہ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ
وَاْلا رَْٔضِ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُو عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِيْرٌخ هُوَ اْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِکُلِّ شَیَءٍ عَلِيْمٌ> ٥
عيسائيوں کے بعض مخصوص عقائد
١۔رسالہ اول يوحنا رسول باب پنجم: ”جس کا عقيدہ يہ هوکہ عيسیٰ مسيح هے، خدا کابيٹا هے اور
جو والد سے محبت کرے اس کے بيٹے سے بهی محبت کرتاهے …کون هے جو دنيا پر غلبہ حاصل کرے
مگر وہ جس کا عقيدہ يہ هو کہ عيسیٰ خدا کا بيٹا هے۔ يہ وهی هے جو پانی اور خون سے آيا يعنی عيسیٰ
فقط پانی سے نهيں بلکہ پانی، خون اور روح سے هے، جو گواهی ديتی هے، کيونکہ روح حق هے ۔ تين
هيں جو گواهی ديتے هيں يعنی روح، پانی اور خون اور يہ تينوں ايک هيں ۔“
٢۔انجيل يوحنا، باب اول، پهلی آيت سے :”ابتدا ميں کلمہ تها اور کلمہ خدا کے پاس تها اور کلمہ
خدا تها، وهی ابتدا ميں خدا کے پاس تها ۔ تمام چيزيں اسی کے لئے خلق کی گئيں۔ موجودات نے اس کے
سوا کسی اور سے وجود نهيں پايا۔ اس ميں زندگی تهی اور زندگی انسان کا نور تهی، نور کی درخشش
تاريکی ميں هوتی هے، اور تاريکی اس کو نہ پاسکی ۔ خدا کی جانب سے يحيیٰ نامی ايک شخص بهيجا گيا،
وہ گواهی دينے آيا تاکہ نور پر گواهی دے اور سب اس کے وسيلے سے ايمان لائيں ۔ وہ خود نور نہ تها
بلکہ نور پر گواهی دينے آياتها ۔ وہ حقيقی نور تها جو هر انسان کو منور کر ديتا هے اور اسے دنيا ميں آنا
تها، وہ کائنات ميں تها اور کائنات کو اسی کے لئے خلق کيا گيا اور کائنات نے اسے نہ پہچانا، اپنے خواص
کے پاس گيا، اس کے خواص نے بهی اسے قبول نہ کيا، ليکن جنہوں نے اسے قبول کيا انهيں قدرت عطا
--------------
1 سورہ انعام، آيت ۵٩ ۔”اور اس کے پاس غيب کے خزانے هيں جنهيں اس کے علاوہ کوئی نهيں جانتا هے اور وہ
خشک و تر سب کا جاننے والا هے کوئی پتہ بهی گرتا هے تو اسے اس کا علم هے۔ زمين کی تاريکيوں ميں کوئی دانہ يا کوئی
خشک و تر ايسا نهيں هے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ هو“۔
2 سورہ شوریٰ، آيت ١١ ۔”اس کا جيسا کوئی نهيں هے وہ سب کی سننے والا هے اور هر چيز کا ديکهنے والا هے“۔
3 سورہ ملک، آيت ١۴ ۔”اور کيا پيدا کرنے والا نهيں جانتا هے جب کہ وہ لطيف بهی هے اورخبير بهی هے“۔
4 سورہ بقرہ، آيت ٣٠ ۔”اے رسول! اس وقت کو ياد کرو جب تمهارے پروردگار نے ملائکہ سے کها کہ ميں زمين ميں
اپنا خليفہ بنانے والا هوں اور انهوں نے کها کہ کيا اسے بنائے گا جو زمين ميں فساد برپا کرے اور خونريزی کرے جب کہ هم
تيری تسبيح اور تقديس کرتے هيں تو ارشاد هوا کہ ميں وہ جانتا هوں جو تم نهيں جانتے هو“۔
١۔”محو تسبيح پروردگار هے هر وہ چيز جو زمين وآسمان ميں هے اور وہ پروردگار صاحب /٢/ 5 سورہ حديد ، آيت ٣
عزت بهی هے اور صاحب حکمت بهی هے۔آسمان و زمين کا کل اختيار اسی کے پاس هے اور وهی حيات و موت کا دينے والا
هے اور هر شئے پر اختيار رکهنے والا هے۔وهی اول هے وهی آخر وهی ظاهرهے وهی باطن اور وهی هر شئے کا جاننے والا
هے“۔
٣٢
کی کہ خدا کے فرزند بن سکيں۔ يعنی جوکوئی اس کے نام پر ايمان لايا جو نہ تو خون، نہ جسمانی خواهش
اور نہ هی لوگوں کی خواهش سے هے، بلکہ خدا سے متولد هوئے هيں۔کلمہ جسم ميں تبديل هوا اور
همارے درميان سکونت اختيار کی ۔اسے فيض،سچائی اور جلال سے پُر ديکها، ايسا جلال جو بے مثال باپ
کے بيٹے کے شايان شان تها۔“
٣۔انجيل يوحنا، باب ششم،اکياونويں آيت سے :”ميں آسمان سے نازل هونے والی زندہ روٹی هوں ۔
اگر کوئی اس روٹی سے کها لے تاابد زندہ رهے گا ۔اور جو روٹی ميں عطا کر رها هوں وہ ميرا جسم هے،
جسے ميں کائنات کی زندگی کے لئے عطا کررها هوں، يہود ايک دوسرے سے جهگڑ کر کها کرتے تهے
کہ يہ شخص اپنے جسم کو هميں کهانے کے لئے کس طرح دے سکتا هے۔ عيسیٰ نے ان سے کها :آمين
آمين، ميں تمهيں کہہ رها هوں کہ اگر تم نے انسان کے بيٹے کا جسم نہ کهايا اور اس کا خون نہ پيا، تو تم
لوگ اپنے اندر زندگی نہ پاؤگے ۔ اور جو کوئی ميرا جسم کهائے اور ميرا خون پئيے وہ جاودانہ زندگی
پائے گا ۔اور روزِقيامت اسے ميں اٹها ؤں گا کيونکہ ميرا جسم حقيقی کهانا اور ميرا خون حقيقی پينے کی
شے هيں۔ بس جو بهی مير اجسم کهائے گا اور ميرا خون پئے گا وہ مجه ميں اور ميں اس ميں رہوں گا ۔
جيسا کہ مجهے زندہ باپ نے بهيجا هے اور ميں اس کی وجہ سے زندہ هوں، اسی طرح جو مجهے کهائے
گا وہ بهی ميری وجہ سے زندہ رهے گا ۔“
۴۔انجيل يوحنا، باب دوم، تيسری آيت سے :”اور شراب ختم هوئی تو عيسیٰ کی ماں نے اس سے
کها : ان کے پاس شراب نهيں هے ۔عيسیٰ نے جواب ديا: اے عورت مجهے تم سے کيا کام هے، ابهی ميرا
وقت نهيں هوا۔ اس کی ماں نے نوکروں سے کها :تم سے يہ جو کهے انجام دو ۔ اس جگہ تطهير يہود کے
حساب سے چه سنگی ساغر رکهے هوئے تهے، جن ميں سے هر ايک ميں دو سے تين کيل تک کی
گنجائش تهی عيسیٰ نے ان سے کها: ساغروں کو پانی سے پر کرو۔ انهيں پر کيا گيا تو عيسیٰ نے کها: اب
انهيں اٹها کر صدر مجلس کے پاس لے جاؤ۔ وہ لے گئے، جب صدر مجلس نے اس پانی کو جو شراب ميں
تبديل هوچکاتها، چکها ، ليکن اسے معلوم نہ هوا کہ کهاں سے آيا هے، البتہ پانی نکالنے والے نوکر جانتے
تهے۔ صدر مجلس نے دولها سے مخاطب هوکر کها: هر ايک پهلے اچهی شراب لاتاهے اور جب نشہ چها
جائے تو اس سے بدتر، ليکن تم نے ابهی تک اچهی شراب بچا کر رکهی هوئی هے۔اور يہ وہ ا بتدائی
معجزات هيں جو عيسیٰ سے قانائے جليل ميں صادر هوئے ۔ اوراپنے جلال کو ظاهر کيا اور اس کے
شاگرد اس پر ايمان لائے ۔“
اور اب ان آيات کے متعلق بعض نکات کی طرف اشارہ کرتے هيں :
الف۔نصاریٰ کے اصول وعقائد ميں جو بات مورد اتفاق هے وہ تثليث پر اعتقاد هے ۔ جب کہ انجيل
يوحنا کے سترہويں باب کی تيسری آيت يہ کہتی هے :”جاودانہ زندگی يہ هے کہ تيری، حقيقی خدائے واحد
کے طور پراور تيرے بهيجے هوئے عيسیٰ مسيح کی معرفت حاصل کريں ۔“
لہٰذا جب انہوں نے ديکها کہ ان کے نزديک تثليث پر اعتقاد ايک اصلِ مسلم هے اور انجيل يوحنا
نے خدا کو وحدت حقيقی سے توصيف کيا هے تو جيسا کہ جز اول يوحنا ميں بهی مذکور هے کہ”تينوں
ايک هيں “،ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رها کہ توحيد اور تثليث کو جمع کريں اور کهيں کہ يہ
حقيقتاً جدا بهی هيں اور حقيقتاً متحد بهی ۔
کئی دلائل کی بنياد پر يہ عقيدہ باطل هے جن ميں سے بعض يہ هيں : ١۔اعداد کے مراتب، مثال
کے طور پر ايک اور تين، ايک دوسرے کی ضد هيں اورضدين(دو متضاد اشياء) کا آپس ميں اجتماع محال
هے،يہ کيسے ممکن هے کہ ايک هی وقت ميں وہ تينوں ايک هوں اور وهی ايک تين هوں ۔
٢۔جيسا کہ توحيد کی بحث ميں بيان هو چکا هے ،عقيدہ تثليث کا لازمہ يہ هے کہ پانچ خداو ںٔ پر
اعتقاد هو اور اسی طرح اس عدد کی تعداد لا متنا هی حد تک پهنچ جائے گی، لہٰذا عيسايوں کے پاس
لامتناهی خداؤں پر ايمان لانے کے سوا کوئی چارہ نهيں ۔
٣۔تثليث کا لازمہ ترکيب هے اور ترکيب کا لازمہ اجزاء اور ان اجزاء کو ترکيب دينے والے کی
ضرورت هے ۔
۴۔عقيدہ تثليث کا لازمہ، خالقِ عددکو مخلوق سے توصيف کرنا هے، کيونکہ عدد و معدود، دونوں
مخلوق هيں اور خداوند هر قسم کی معدود يت سے يهاں تک کہ وحدت عددی سے پاک ومنزہ هے<لَقَدْ کَفَرَ
الَّذِيْنَ قَالُوْا إِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَّمَا مِنْ إِلٰہٍ إِلاَّ إِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ إِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْہُمْ عَذَابٌ
٣٣
ا لَِٔيْمٌ> ١ اور انہوں نے صراحت کے ساته حضرت عيسیٰ (ع) کو فرزند خدا کها، جب کہ قرآن کہتا هے<مَا
الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ وَا مُُّٔہ صِدِّيْقَةٌ کَانَا يَا کُْٔلاَنِ الطَّعَامَ انْظُرْ کَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الآيَاتِ
ثُمَّ انْظُرْ ا نَٔیّٰ يُو فَْٔکُوْنَ> ٢ اور يہ جملہ<کَانَا يَا کُْٔلاَنِ الطَّعَامَ> اس بات کی طرف اشارہ هے کہ ايسے طعام کی
محتاج موجود، جو انسانی بدن ميں جذب بهی هوتا هے اور اس سے خارج بهی هوتا هے، عبادت کے لائق
نهيں هوسکتی۔
ب۔ان باتوں پر عقيدہ کہ حضرت عيسیٰ عليہ السلام کلمہ تهے، کلمہ خدا تها اور وہ کلمہ جو خدا تها
اس کائنات ميں آيا اور جسم ميں تبديل هوگيا، روٹی بن گيا، اپنے پيروکاروں کے گوشت اور خون کے ساته
متحد هوگيا اور اس کاپهلا معجزہ يہ تها کہ پانی کو شراب ميں تبديل کيااور جو رسول عقول کی تکميل کے
لئے مبعوث هوا هو اس کا معجزہ نشے ميں مدہوش هونا اور زوال عقل کا باعث هو، کس عقل ومنطق سے
مطابقت رکهتا هے؟!
ج۔ايک طرف عيسیٰ کو خدا قرار ديا دوسری طرف سموئيل کی کتاب دوم کے گيارہويں باب ميں
داو دٔ پيغمبر (ع) کو شادی شدہ عورت سے زنا کی نسبت دی کہ داو دٔ نے اس عورت سے ز نا کيا جس
کے نتيجے ميں وہ حاملہ هو گئی، اس کے بعد اس کے شوهر کو جنگ پر بهيج ديا او رفوج کے سپہ سالار
سے کها کہ اسے جنگ کے دور ان لشکر کی اگلی صفوف ميں رکهو اور اس کے پيچهے سے ہٹ جاؤتاکہ
مارا جائے اور اس طرح اس کی بيوی اپنے گهر لے آيا، جب کہ انجيل متی کے باب اول ميں عيسیٰ کا
شجرہ نسب اس شادی تک پهنچاتے هيں اور صاحب کتاب زبور داو دٔ پيغمبر پر اس گناہ کی تهمت لگاتے
هيں ۔
يہ هدايت قرآن هی تهی جس نے خداوند عالم کو ان اوهام سے پاک ومنزہ اورا بن مريم پر اعتقاد
کو، انهيں (نعوذ بالله)زنا زادہ سمجهنے والوں کی تفريط اور خدا کا بيٹا قرار دينے والوں کے افراط سے
پاک ومنزہ قرار ديا اور فرمايا<وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ ا هَْٔلِهَا مَکَاناً شَرْقِيًّا> ٣يهاں تک کہ فرمايا
<قَالَ إِنِّی عَبْدُاللّٰہِ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِيًّا> ٤ اور داو دٔ کو پاکيزگی کی وہ منزلت عطا کی کہ فرمايا :
<يَادَاو دُُٔ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ> ٥ اور پيغمبر خاتم(ص) سے مخاطب هو کر فرمايا<اِصْبِرْ عَلیٰ مَا
يَقُوْلُوْنَ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاو دَُٔ ذَا الا ئَْدِ إِنَّہ ا ؤََّابٌ> ٦
يہ معرفتِ خدا کے سلسلے ميں هدايت قرآن کا ايک نمونہ تها۔
جب کہ تعليمات قرآن مجيد ميں انسان کی سعادت کا نمونہ يہ هے :
طاقت، دولت، قبيلے اور رنگ جيسے امتيازات کے مقابلے ميں انسانی کمالات کو فضيلت کا معيار
قرار ديا اور فرمايا<يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّا نُْٔثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْباً وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ ا کَْٔرَمَکُمْ عِنْدَ
اللّٰہِ ا تَْٔقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ> ٧
نشہ آور چيزوں کے استعمال سے فاسد شدہ افکار اور وسيع پيمانے پر پهيلے هوئے جوئے اور
سود خوری کی وجہ سے بيمار اقتصاد کا ان آيات کے ذريعہ اصلاح ومعالجہ کيا يَا ا ئَُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا إِنَّمَا
--------------
1 سورہ مائدہ ، آيت ٧٣ ۔”يقينا وہ لوگ کافر هيں جن کا کهنا يہ هے کہ الله تين ميں کا تيسرا هے ۔حالانکہ الله کے علاوہ
کوئی خدا نهيں هے اور اگر يہ لوگ اپنے قول سے باز نہ آئيں گے تو ان ميں سے کفر اختيار کرنے والوں پر دردناک عذاب نازل
هو جائے گا“۔
2 سورہ مائدہ، آيت ٧۵ ۔”مسيح بن مريم کچه نهيں هيں صرف همارے رسول هيں جن سے پهلے بہت سے رسول
گذرچکے هيں اور ان کی ماں صديقہ تهيں اور وہ دونوں کها نا کهايا کرتے تهے ۔ ديکهو هم اپنی نشانيوں کو کس طرح واضح کر
کے بيان کرتے هيں اور پهر ديکهو کہ يہ لوگ کس طرح بہکے جا رهے هيں“۔
3 سورہ مريم ، آيت ١۶ ۔”اور پيغمبر اپنی کتاب ميں مريم کا ذکر کرو کہ جب وہ اپنے گهر والوں سے الگ مشرقی
سمت کی طرف چلی گئيں“۔
4 سورہ مريم ، آيت ٣٠ ۔”بچہ نے آواز دی کہ ميں الله کا بندہ هوں اس نے مجهے کتاب دی هے اور مجهے نبی بنايا
هے“۔
5 سورہ ص ، آيت ٢۶ ۔”اے داو دٔ! هم نے تم کو زمين ميں اپنا جانشين بنا ياهے“۔
6 سورہ ص ، آيت ١٧ ۔”آپ ان کی باتوں پر صبر کريں اور همارے بندے داو دٔ کو ياد کريں جو صاحب طاقت بهی
تهے اور بيحد رجوع کرنے والے بهی تهے“۔
7 سورہ حجرات ، آيت ١٣ ۔”انسانو!هم نے تم کو ايک مرد اور ايک عورت سے پيدا کيا هے اور پهر تم ميں شاخيں
اور قبيلے قرار ديئے هيں تاکہ تم ايک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم ميں سے خدا کے نزديک زيادہ محترم وهی هے جو
زيادہ پر هيزگار هے اور الله هر شئے کا جاننے والا اور هر بات سے باخبر هے “۔
٣۴
الَخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَاْلا نَْٔصَابُ وَاْلا زَْٔلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ> ١ <وَا حََٔلَّ اللّٰہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ
الرِّبَا> ٢،<وَلاَ تَا کُْٔلُوا ا مَْٔوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ> ٣
، انسانی جانوں کو ان آيات کے ذريعے تحفظ فراهم کيا<وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ> ٤
<وَمَنْ ا حَْٔيَاهَا فَکَا نََّٔمَا ا حَْٔيَا النَّاسَ جَمِيْعاً> ٥
کمزوروں پر طاقتوروں کے ظلم وتعدی کے باب کوبند کيا اور لوگوں پر عدل واحسان کے
دروازے کهول کر فرمايا<فَمَنِ اعْتَدیٰ عَلَيْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدیٰ عَلَيْکُمْ > ٦، <وَا حَْٔسِنْ کَمَا ا حَْٔسَنَ اللّٰہُ
إِلَيْکَ وَلاَ تَبْغِ الْفَسَادَ فِی اْلا رَْٔضِ > ٧، <إِنَّ اللّٰہَ يَا مُْٔرُ بِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ > ٨
اور اس دور ميں جب عورتوں کے ساته حيوانوں جيسا برتاو کيا جاتا تها فرمايا <وَعَاشِرُوْهُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِ> ٩ ،<وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ> ١٠
هر قسم کی خيانت سے روکا اور فرمايا<إِنَّ اللّٰہَ يَا مُْٔرُکُمْ ا نَْٔ تُو دَُّٔوا اْلا مََٔانَاتِ إِلیٰ ا هَْٔلِهَا وَ إِذَا حَکَمْتُمْ
بَيْنَ النَّاسِ ا نَْٔ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ > ١١
عهد وپيمان کے پورا کرنے کو ايمان کی نشانيوں سے قرار ديتے هوئے فرمايا: <وَالَّذِيْنَ هُمْ
لِا مََٔانَاتِہِمْ وَعَہْدِهِمْ رَاعُوْنَ> ١٢ ،<وَ ا ؤَْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ کَانَ مَسْئُوْلاً> ١٣
اور امت کو آيہ <ٔيُو تِْٔی الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ وَمَنْ يُّو تَْٔ الْحِکْمَةَ فَقَدْ ا ؤُْتِیَ خَيْراً کَثِيْراً> ١٤ کے ذريعے
جهالت ونادانی کی ذلت سے اس طرح نجات دی کہ دنيا ميں علم وحکمت کے علمبردار بن کر سامنے آئے ۔
اپنے پيروکاروں کو هر اچهائی کا حکم ديا اور هر قسم کی برائی سے روکا، طيب وپاکيزہ چيزوں
کو ان کے لئے حلال اور خبيث اشياء کو ان کے لئے حرام قرار ديا اور ان تمام قيود سے جن کا انہوں نے
خود کو فطرت کے اصولوں کے برخلاف پابند کر رکها تها، نجات دلائی ۔
<اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ اْلا مُِّٔیَّ الَّذِیْ يَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًاعِنْدَهُمْ فِی التَّوْريٰةِ وَاْلا نِْٔجِيْلِ يَا مُْٔرُهُمْ
بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحْرِّمُ عَلَيْهِمُ الَخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَاْلا غَْٔلَاَلَ الَّتِیْ
کَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِيْنَ آمَنُوْا بِہ وَ عَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ ا نُْٔزِلَ مَعَہ ا ؤُْلٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ > ١٥
--------------
1 سورہ مائدہ، آيت ٩٠ ۔”ايمان والو!شراب ، جوا، بت، پانسہ يہ سب گندے شيطانی اعمال هيں لہٰذا ان سے پر هيز کرو
تاکہ کاميابی حاصل کر سکو“۔
2 سورہ بقرہ، آيت ٢٧۵ ۔”جب کہ خدا نے تجارت کو حلال قرار ديا هے اور سود کو حرام“۔
3 سورہ بقرہ، آيت ١٨٨ ۔”اور خبردار ايک دوسرے کامال ناجائز طريقہ سے نہ کهانا“۔
4 سورہ انعام، آيت ١۵١ ۔”اور کسی ايسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر ديا هے قتل نہ کرنامگر يہ کہ تمهار ا کوئی
حق هو“۔
5 سورہ مائدہ، آيت ٣٢ ۔”اور جس نے ايک نفس کو زندگی دے دی اس نے گويا سارے انسانوں کو زندگی ديدی“۔
6 سورہ بقرہ ، آيت ١٩۴ ۔”لہٰذا جو تم پر زيادتی کرے تم بهی ويسا هی برتاو کرو جيسی زيادتی اس نے کی هے“۔
7 سورہ قصص ، آيت ٧٧ ۔”اور نيکی کرو جس طرح الله نے تمهارے ساته نيک برتاو کيا هے اور زمين ميں فساد کی
کوشش نہ کرو“۔
8 سورہ نحل، آيت ٩٠ ۔”بے شک الله عدل اور احسان کا حکم ديتا هے“۔
9 سورہ نساء، آيت ١٩ ۔”اور ان کے ساته نيک بر تاو کرو“۔
10 سورہ بقرہ ، آيت ٢٢٨ ۔”اور عورتيں کے لئے ويسے هی حقوق بهی هيں جيسی ذمہ دارياں هيں شريعت کے
موافق“۔
11 سورہ نساء ، آيت ۵٨ ۔”بے شک الله تمهيں حکم ديتا هے کہ امانتوں کو ان کے اهل تک پهنچا دو اور جب کوئی
فيصلہ کرو تو انصاف کے ساته کرو“۔
12 سورہ مومنون، آيت ٨۔”اور جو مومنين اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ رکهنے والے هيں“۔
13 سورہ اسراء ، آيت ٣۴ ۔”اور اپنے عهدوں کو پورا کرنا کہ عهدکے بارے ميں سوال کيا جائے گا“۔
14 سورہ بقرہ، آيت ٢۶٩ ۔”وہ جس کو بهی چاہتا هے حکمت عطا کرديتا هے ۔ اور جسے حکمت عطاکردی جائے
اسے گويا خير کثير عطا کر دی
15 سورہ اعراف ، آيت ١۵٧ ۔”جو لوگ کہ رسول نبی امی کا اتباع کرتے هيں جس کا ذکر اپنے پاس توريت اور انجيل
ميں لکها هو پاتے هيں کہ وہ نيکيوں کا حکم ديتا هے اور برائيوں سے روکتا هے اور پاکيزہ چيزوں کو حلال قرار ديتا هے اور
خبيث چيزوں کو حرام قرار ديتا هے اور ان پر سے سنگين بوجه اور قيد و بند کو اٹها ديتا هے پس جو لوگ اس پر ايمان لائے
اس کا احترام کيا اس کی امدادکی اور اس نور کا اتباع کيا جو اس کے ساته نازل هوا هے وهی درحقيقت فلاح يافتہ اور کامياب
هيں“۔
|