نبوت
نبوت عامہ
خالقِ حکيم کا وجود ثابت هونے کے بعد نبوت اور نبی کے وجود کی ضرورت خود بخود ثابت
هے۔
سب سے پهلے هم تعليم وتربيت الٰهی کی ضرورت کو بيان کرتے هيں :
هدايت انبياء کی انسانی ضرورت کو سمجهنے کے لئے خلقت انسان،هدفِ خلقت اور اس هدف
ومقصد تک پهنچنے ميں رکاوٹوں کی شناخت ضروری هے اور جيسا کہ عنوان بحث سے معلوم هے، ان
مباحث کی عميق تحقيق کواس مختصر مقدمہ ميں بيان نهيں کيا جاسکتا، ليکن ضروری حد تک بعض نکات
پيش کئے جارهے هيں:
اول:
انسان ميں مختلف شہوتيں اورخواهشات موجود هيں اور انسانی زندگی، نباتاتی حيات سے
شروع هو کر، جو حيات کا ضعيف ترين مرتبہ هے، عقل و شعور کے مرتبے تک جا پهنچتی هے۔
انسان فطرت و عقل، محدود حوائج رکهنے والے جسم اور نا محدود خواهشات رکهنے والی روح
سے مرکب هے۔ترقی اور بلندی ميں فرشتوں سے بڑه کر، جب کہ انحطاط وتنزل کے اعتبار سے جانوروں
سے پست تر هے۔
((عن عبداللّٰہ بن سنان، قال سالت ا بٔا عبداللّٰہ جعفر بن محمد الصادق عليهما السلام، فقلت : الملائکة
افضل ام بنو آدم ؟ فقال (ع) : قال امير المو مٔنين علی بن ابی طالب (ع) :ان اللّٰہ عزوجل رکب فی الملائکة
عقلاً بلا شهوة، ورکب فی البهائم شهوة بلا عقل،و رکب فی بنی آدم کليهما، فمن غلب عقلہ شهوتہ فهو خير من
الملائکة، ومن غلبت شهوتہ عقلہ فهو شر من البهائم)) ٥
--------------
1 سورہ يونس، آيت ۵۴ ۔ ”اور ان کے درميان انصاف کے ساته حکم کيا جائے گا اور ان پر ذرہ برابر بهی ظلم نهيں
کيا جائے گا“۔
2 بحار الانوار ج ۴ ص ٢۶۴ ۔
امام جعفر صاد ق عليہ السلام فرماتے هيں :بتحقيق دين کا اساس توحيد و عدل هے اور اس کا علم بهی بہت زيادہ هے
هر ذی عقل کے لئے لازم و ضروری هے کہ اس کو حاصل کرے پس ميں ان امور کو ذکر کرتا هوں جن پر ٹههر کر ان کی
حفاظت کی آمادگی کرنا آسان هے پهر فرمايا:بس توحيد يعنی وہ چيزيں جو تم پر جائز هيں خدا پر جائز نہ جاننا “۔
اور عدل:يعنی اپنے خالق کی طرف ان امور کو نہ پلٹانا جن پر اس نے تيری ملامت کی هے۔
3 بحار الانوارج ۵ ص ۵٨ ۔
حضرت امام ششم عليہ السلام نے هشام سے فرمايا:کيا تم کو توحيد و عدل کا جملہ عطا کردوں هشام نے جواب ديا
ميری جان فدا هو آپ هاں۔حضرت نے فرمايا:عدل يہ هے کہ اس کوکسی امر ميںمتهم نہ کرو اور توحيد يہ هے کہ کسی بهی
طرح کا توهم اس کے بارے ميں نہ کرنا“۔
4 بحار الانوارج ۵ ص ۵٩ ۔
حضرت علی عليہ السلام نے فرمايا:هر وہ چيز جس پر خدا سے استغفار کرتے هو وہ تم سے هے اور هر وہ چيز
جس پر تم خدا کی حمد کرتے هو وہ خدا سے هے“۔
5 علل الشرايع ،ج ١ ،ص ۵، باب ۶، حديث ١۔(عبد الله بن سنان نے کها ميں نے حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام
سے پوچها ملائکہ افضل هيں يا بنی نوع آدم؟
امام نے عليہ السلام نے فرمايا: حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب عليہ السلام فرماتے هيں:خد اوند متعال نے
ملائکہ کو عقل بغير شہوت وهواء پرستی کے عطا کی هے اور جانوروں ميں شہوت بغير عقل کے اور انسان ميں ان دونوں کو
جمع کيا هے بس جو اپنی عقل کے ذريعہ شہوت کو قابو ميں رکهے وہ ملائکہ سے افضل هے اور وہ جس کی عقل پر اس کی
شہوت غلبہ کر لے وہ جانور وں سے بدتر هے۔
٢٢
اور اس تخليق ميں اتنی تازگی هے کہ اس پيکر انسان کو هر طرح سے مکمل کرنے اور اس ميں
حق جل و علیٰ سے منسوب روح پهونکنے کے بعد ١، اس مخلوق کو تمام موجودات کے مقابلے ميں ممتاز
وجود سے سر فراز کيا، جس کی عظمت اس آيہ کريمہ <ثُمَّ ا نَْٔشَا نَْٔاہُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ ا حَْٔسَنُ
الْخَالِقِيْنَ> ٢ سے روشن هے۔
انسان جانتا هے کہ اسے محدود مادی زندگی کے لئے خلق نهيں کيا گيا، کيونکہ حکمت کا تقاضا
يہ هے کہ اوزار وآلات کو کام سے متناسب اور خلقت کی کيفيت کو هدف ومقصد کے مطابق هونا چاہئے۔
اگر انسان کی زندگی اسی دنيا تک محدود هوتی تو شہوت،غضب اور ادراکِ حيوانی جو اس
زندگی کے لذائذ کو جذب اور منفورات کو دفع کرتے هيں، اس کے لئے کافی تهے۔عقل، جو لامحدود علم
اوراخلاقی وعملی کمالات سے آراستگی کی خواهاں وعاشق هے اور ايک مقام ومرتبے کو پانے کے بعد
بالاتر مقام ومرتبے کی پياسی فطرت، کا انسان کو عطا کياجانا اس بات کی دليل هے کہ وہ لامحدود زندگی
کے لئے خلق هوا هے، جيسا کہ حديث نبوی ميں هے:((ما خلقتم للفناء بل خلقتم للبقاء و إنما تنقلون من دار
إلی دار)) ٣
حکيم علی الاطلاق کی حکمت کا تقاضا يہ هے کہ جس استعداد کو مخلوقاتِ کائنات ميں قرار ديا
هے، اس قابليت کو فعليت تک پهنچانے کے عوامل بهی مهيا کرے،کيونکہ فعليت کا روپ نہ دهارنے والی
توانائی اور مطلوب کو حاصل نہ کرسکنے والی طلب بے کا ر ولغو هيں۔
جس لا محدود علم وقدرت نے بيج کو پهلنے پهولنے کی استعداد وصلاحيت دی هے اس نے پانی،
خاک اور هوا کو بهی خلق کيا هے، جو بيج کے پهلنے پهولنے ميں موثر عوامل هيں۔اگر انسانی نطفہ کو
مختلف اعضاء وجوارح ميں تبديل هونے کی استعداد وصلاحيت دی هے تو اس استعداد کو فعليت تک
پهنچانے کے لئے رحمِ مادر کو خلق کيا هے، لہٰذ ا کيسے ممکن هے کہ عقل کا بيج، جس کا ثمر علم وعمل
هيں اور روح کی لطافت کو تو خلق کردے، جس ميں علمی،عملی و اخلاقی کمال اور خدا کی معرفت
حاصل کرنے کی استعداد وصلاحيت هو، ليکن عقل کے بيج کو ثمر تک پهنچنے اوراستعدادِ روح کے
فعليت تک پهنچنے کے نہ تو وسائل مهيا کرے اور نہ هی اس کی مقصدِ خلقت کی جانب هدايت کرے ؟!
آيا ممکن هے کہ <ا عَْٔطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ هَدیٰ> ٤ جيسے عمومی قانون سے انسان مستثنی هو ؟!
يهيںسے يہ بات واضح هوجاتی هے کہ انسان کو مقصدِ خلقت تک پهنچانے کے لئے الٰهی هدايت
ضروری هے۔
دوم:
انسان فطری طور پر اپنے خالق کی تلاش وجستجو ميں هے اور يہ جاننا چاہتا هے کہ اسے
عدم سے وجود ميں کون لايا هے، يہ اعضاء و جوارح اسے کس نے عطا کئے هيں او ر نعمتوں کے
دسترخوان پر اسے کس نے بٹهايا هے، تاکہ بحکم عقل، منعمِ حقيقی کی شکر گذاری جيسی ذمہ داری کو
انجام دے۔
ادهر اس کی ذات مقدس کو اس سے کهيں بلند وبالا سمجهتا هے کہ خود جو سراپا جهل و خطا اور
هوی وہوس هے، اس حس ومحسوس، وهم وموہوم اور عقل ومعقول کے خالق کے ساته اپنی مشکلات کے
حل کے لئے سوال و جواب کا رابطہ برقرار کرے، جس کی عظمت جمال وکمال لامتناهی اور ذات تمام
نقائص وقبائح سے سبوح وقدوس هے ۔
اس مسئلے کے حل کے لئے اسے ايک ايسے واسطے کی ضرورت هے جو خلق کے ساته
رابطے کے لئے ضروری هونے کے اعتبار سے انسانی صورت ميں هو اور اور قانون تناسب فاعل اور
قابل کے اعتبار سے، جو خالق کے ساته رابطے کا لازمہ هے، خطا سے پاک ومنزہ عقل، هویٰ وہوس سے
دور نفس اور الٰهی سيرت سے مزين هو، تاکہ اس ميں يہ صلاحيت آجائے کہ نور وحی سے منور هو سکے
اور ابواب معارف الهيہ کو انسانوں کے سامنے پيش کر سکے،اور انهيں عقل کی معرفتِ حق سبحانہ سے
--------------
1 سورہ حجر کی آيت نمبر ٢٩ کی طرف اشارہ هے:<فَإِذَا سَوَّيْتُہُ وَنَفَخْتُ فِيہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ>
”بس جس وقت ميں نے اس کا پتلا بنايا اور اس ميں روح پهونکی(اور کها )آدم کے لئے سجدہ ميں گر جاو “ٔ۔
2 سورہ مومنون، آيت ١۴ ۔”اس کے بعد هم نے اس کو ايک دوسری صورت ميں پيدا کيا تو (سبحان الله )خدا با برکت
هے جو سب بنانے والوں سے بہتر هے“۔
3 بحار الانوارج ۶ ص ٢۴٩ ۔”تم فنا کے لئے نهيں پيدا هوئے هو بلکہ باقی رهنے کے لئے خلق هوئے هو اور بے شک
اس کے علاوہ کچه بهی نهيں کہ ايک گهر سے دوسرے گهر کی طرف منتقل هو رهے هو“۔
4 سورہ طہ، آيت ۵٠ ۔”هر چيز کو اس نے خلق کيا پهر هدايت کی“۔
٢٣
تعطيل کی تفريط اور خدا کو خلق سے تشبيہ جيسے افراط ١ سے نجات دلاتے هوئے دين قيم کی صراط
مستقيم کی جانب هدايت کرے :
<وَا نََّٔ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِيْماً فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعَوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِيْلِ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُوْنَ> ٢
سوم:
انسان اپنی قدرت فکر کے ذريعے قوانين واسرارِ خلقت کو کشف کرنے اور ان کو اپنی خدمت
پر مامور کرنے کی صلاحيت رکهتا هے،اس کے ساته ساته ايسی هوا و هوس اور شہوت وغضب کا مالک
هے جو انسانی طبيعت کے خاصہ کے مطابق حد شکنی اور افزون طلبی پر کمر بستہ رهنے کی وجہ سے
قناعت پذير نهيں هے۔ان خصو صيات کی بنا پر زمين ميں نيکی و بُرائی، انسان کی نيکی وبُرائی سے
وابستہ هے <ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ا ئَْدِی النَّاسِ> ٣ بلکہ <وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی
اْلا رَْٔضِ جَمِيْعاً مِّنْہُ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَ> ٤کے مطابق تو دوسرے سياروں ميں نيکی و بُرائی بهی
انسان کی نيکی و بُرائی سے وابستہ هے اور اس انسان کی اصلاح فقط هدايت پروردگار عالم سے ممکن
هے، جو اعتدال فکری کو عقائد حقہ اور اعتدال روحی کو اخلاق فاضلہ اوراعمال صالحہ کے ذريعے مهيا
کرتی هے۔
چهارم:مختلف ضروريات کی وجہ سے انسان کی زندگی معاشرے سے وابستہ هے اور يہ
وابستگی مختلف اورمتقابل حقوق کا سبب بنتی هے۔ ايک دوسرے کے حقوق کو تسليم اور ادا کئے بغير
اجتماعی زندگی بقا کے قابل نهيں هے اور يہ حقوق اس وقت تک حاصل نهيں هو سکتے جب تک قانون
ساز اور ان قوانين کا اجراء کرنے والا هر قسم کے نقص وخطا سے محفوظ اور ذاتی مصلحتوں اور حق
وانصاف کے سلسلے ميں ،هر قسم کے انحراف سے پاک ومنزہ نہ هو اور يہ کام خدائی اصول و قوانين
اورالٰهی نمائندوں کے بغير نا ممکن هے:
<لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتَابَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ> ٥
اب جب کہ ثابت هوگيا کہ مبدا ومعاد اورمقصدِ تخليق کی جانب انسان کی هدايت ضروری هے اور
يہ بات بهی واضح هوگئی کہ فکری وعملی اعتبار سے انسان کی کمال تک رسائی، خواهشات نفسانی
کاتعادل اورانفرادی واجتماعی حقوق کاحصول ايک لازمی امر هے، يہ جاننا نهايت ضروری هے کہ ان
مقاصد کو وحی ونبوت کے علاوہ کسی دوسرے طريقے سے عملی جامہ پهنانا ممکن نهيں ۔ خطا سے آلودہ
ذهن اور هویٰ وہوس کی قيد ميں جکڑے هوئے هاتهوں کے ذريعے يہ اهم مقاصد حاصل نهيں هو سکتے
اورصرف تفکر وتدبر کے چراغوں سے انسانی فطرت ميں موجود، مبهم نقاط روشن وواضح نهيں هو
سکتے۔
انسان جب اپنی مافوق العادہ استعداد، صلاحيت اور افکار کے ذريعے اسرارِ جهان کی تلاش و
جستجو ميں نکلا تو ناگهاں اس نے ديکها کہ بدن کی عناصرِ اربعہ سے ترکيب اور چار مخالف طبيعتوں کو
مختلف امراض و علل کی بنياد سمجهنے کے بارے ميں اس کا تصور غلط هے اور خلقت کے بارے ميں
جو تانا بانا اس نے مٹی، پانی، هوا، آگ اور ناقابل رسوخ وغير پيوستہ آسمانی سياروں سے بن رکها تها سب
کهل کر رہ گيا اور يہ بات واضح و ثابت هوگئی کہ وہ ترکيب بدن جيسی خود سے نزديک ترين چيز اور
اس کی صحت و امراض کے علل و اسباب سے ناواقف تها اور جو کچه نزديک ترين آسمانی سيارے يعنی
چاند کے بارے ميں سمجهتا تها سب غلط نکلا۔آيا اس انسان کا يہ چراغِ فکر، معرفت مبدا و معاد اور اسباب
سِعادت و شقاوت کی جانب اس کی هدايت و راهنمائی کر سکتا هے؟!
--------------
1 افراط در تشبيہ:(يعنی خدا کو مخلوق کی طرح سمجهنا)
2 سورہ انعام ، آيت ١۵٣ ۔”اور بے شک يهی ميرا سيدها راستہ هے بس اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو جو
تم کو الله کے راستہ سے بهٹکا کر تتر بتر کرديں گے يہ وہ باتيں هيں جن کا خدا نے تم کو توصيہ کيا هے تاکہ تم تقویٰ اختيار
کرو“۔
3 سورہ روم ، آيت ۴١ ۔”خود لوگوں هی کے اپنے هاتهوں کی کارستانيوں کی بدولت خشک وتر ميں فساد پهيل گيا“۔
4 سورہ جاثيہ ، آيت ١٣ ۔”خدانے تمهارے لئے تسخير کرديا ان سب کو جو زمين وآسمان ميں هے يہ سب خدا کی
طرف سے هے بے شک ان سب ميں لوگوں کے لئے نشانياں هيں جو تفکر کرتے هيں“۔
5 سورہ حديد ، آيت ٢۵ ۔”بہ تحقيق هم نے اپنے پيغمبروں کو دلائل کے ساته بهيجا هے اور ان کے ساته کتاب ميزان
کو نازل کيا هے تاکہ لوگ عدل کو برپا کريں“۔
٢۴
انسانی علم و دانش جو ايک ذرّے کے دل ميں چهپے هوئے اسرار کے ادراک سے عاجز هے،
انسان و جهان کے آغاز و انجام کے لئے هادی، معرفت مبدا و معاد کے لئے مشکل کشاء اور اس کی دنيوی
و اخروی سعادت کے لئے رهنما کيسے ثابت هو سکتا هے ؟!
((فبعث فيهم رسلہ و واتر إليهم ا نَٔبيائہ ليستا دٔوهم ميثاق فطرتہ و يذکروهم منسی نعمتہ و يحتجوا
عليهم بالتبليغ و يثيروا لهم دفائن العقول و يروهم آيات المقدرة)) ١
انبياء (عليهم السلام) کے خصوصيات
پيغمبر کی شخصيت ميں بہت سی خصوصيات پائی جاتی هيں۔ هم ان ميں سے دو کے ذکر پر اکتفا
کرتے هيں:
١۔عصمت:
عصمتِ انبياء عليهم السلام کو ثابت کرنے کے لئے بہت سے دلائل موجود هيں۔ هم ان ميں سے دو
کے ذکر پر اکتفاء کرتے هيں:
١۔هر موجود کو جس کمال اور مرتبے تک پهنچنے کے لئے خلق کيا گيا هے، اس کے لئے ايک
قانون و طريقہ مقرر هے اور سابقہ مباحث سے يہ بات واضح هو چکی هے کہ انسان کے اپنے مقصد
تخليق کے کمال کو پانے کے لئے جن قوانين و طور طريقوں کو مقرر کيا گيا هے وہ هدايتِ الٰهی اور دينِ
حق هے۔
اور اس کمال کا حصول انهی طور طريقوں پر مشتمل دين کی تبليغ اور اسے عملی جامہ پهنانے
سے وابستہ هے، جب کہ پيغمبر، انهی طور طريقوںکے مطابق انسانی تعليم و تربيت کا عهديدار هے۔ ان
طور طريقوں کی تبليغ و اجراء ميں نقص واقع هونے کا لازمہ، نقضِ غرض هے۔ نيز وہ امر جو مبلغ و حی
اور تربيت الٰهی کے مربی کے انحراف کا باعث هو سکتا هے وہ خطا يا هوا و هوس هے۔ اور ان ميں سے
جو چيز بهی انحراف کا باعث هو، مقصدِ تخليق حاصل نہ هوگا۔
هدايت الٰهی کے کمال کو پانے کے لئے با کمال هادی کی ضرورت اور سنت و دين الٰهی کی
عصمت، کہ <لاَيَاْتِيْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْہِ وَ لاَ مِنْ خَلْفِہ> ٢ کا لازمی نتيجہ يہ هے کہ دين وسنت الٰهی کا معلم
و اجراء کنندہ معصوم هو۔
٢۔عقلی و نقلی نقطہ نظر سے دين، انسان کو پاک و پاکيزہ زندگی عطا کرنے کے لئے آيا
هے<مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ ا ؤَْ ا نُْٔثیٰ وَ هو مُوْ مِٔنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہ حَيَاةً طَيِّبَةً وَّ لَنَجْزِيَنَّہُمْ ا جَْٔرَہُمْ بِا حَْٔسَنِ مَاکَانُوا
يَعْمَلُوْنَ> ٣
پاک و پاکيزہ زندگی کے لئے ايمان و عمل صالح کو آب حيات قرار ديا گيا هے، کہ جن سے
مجموعہ دين تشکيل پاتا هے اور اس آب حيات کا راستہ پيغمبر کا وجود اطهر هے۔ اگر راستہ آلودہ هو تو
آبِ حيات بهی آلودہ هوجائے گا اور آلودہ پانی کے ذريعے پاک و پاکيزہ زندگی ثمر بار نهيں هوسکتی۔
--------------
1 نهج البلاغہ خطبہ نمبر ١۔(پس خدانے ان کے درميان اپنے رسولوں کو مبعوث کيا اور لگا تار وہ بهيجتا رها تاکہ وہ
لوگ اس عهد وپيمان کو جو خدانے ان کی فطرت کے ساته باندها تها طلب کر سکيں اور لوگوں کو فراموش شدہ نعمت کو ياد
دلائيں<وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْکُمْ وَمِيثَاقَہُ الَّذِی وَاثَقَکُمْ بِہِ>( سورہ مائدہ ، آيت ٧)”اور تبليغ وحی الٰهی کے ذريعہ ان پر حجة کو تمام
کرديں اور عقل کے چهپے خزانوں کو آشکار کرديں اور قدرت کی نشانيوں کو ان کے سامنے پيش کريں“۔
2 سورہ فصلت ، آيت ۴٢ ۔”جهوٹ و باطل نہ اس کے آگے پهٹک سکتا هے اور نہ اس کے پيچهے سے“۔
3 سورہ نحل، آيت ٩٧ ۔”مرد هو يا عورت جو شخص نيک کام کرے گا اور وہ ايمان دار بهی هوتو هم اس (دنيا ميں
بهی)پاک پاکيزہ زندگی عطا کريں گے اور(آخرت ميں بهی)جو کچه وہ کرتے تهے اس کا اچهے سے اچها اجر وثواب عطا
فرمائيں گے“۔
٢۵
٣۔چونکہ بعثت کی غرض پيغمبرکے امر و نهی کی اطاعت هی سے حاصل هو سکتی هے، جب
کہ خطا کار و گنهگار کی اطاعت جائز نهيں هے، لہٰذا پيغمبر کا خطا و گناہ سے محفوظ نہ هونا نقض
غرض اور نتيجہ بعثت کے بطلان کا سبب هے۔
۴۔اگر پيغمبر خطا و لغزش سے محفوظ و معصوم نہ هو توامت کو، تبليغ وحی ميں اس کی سچائی
و صحت گفتار کايقين حاصل نهيں هوسکتا اور اگر گناہ سے محفوظ و معصوم نہ هوا تو گناہ کی آلودگی
کے باعث لوگوں کی نظروں سے گر جائے گا اور جس طرح عالمِ بے عمل و واعظ غير متّعظ کی گفتار
کاانسانی نفوس پر کوئی اثر نهيں هوتا، اسی طرح غرض بعثت بهی حاصل نہ هوگی۔
۵۔خطا وگناہ کا سبب عقل وارادے کی کمزوری هے۔ وحی سے متصل عقلِ کامل جسے حق اليقين
حاصل هے اور تمام اشياء کی حقيقت کو کما حقہ ديکه رها هے ،جس کا ارادہ خدا کے ارادے کے سوا
کسی اور کے ارادے کو قبول نهيںکرتا۔ اس پيغمبر کے وجود ميں گناہ وخطا کی ذرہ برابر گنجائش باقی
نهيں رہتی۔
٢۔معجزہ :
کوئی بهی دعویٰ قبول کرنے کے لئے دليل ضروری هے اور دليل ومدعا کے درميان اس طرح کا
رابطہ برقرار هونا چاہئے کہ دعوے کی حقانيت کا يقين، دليل سے انفکاک وجدائی کے قابل نہ هو۔
پيغمبر کا مدعا خداوندِمتعال کی طرف سے سفارتِ الٰهی هے اور يہ مدعا خدا کی جانب سے ان
کی گفتار کی تصديق کے بغير ثابت نهيں هوسکتا اور معجزہ پيغمبر کے دعوے کے لئے خداوندِ متعال کی
عملی تصديق هے، کيونکہ معجزہ در حقيقت وہ شے هے جو بغير کسی مادی واسطے کی وساطت کے،
اسباب ومسببّات پر محيط ارادے، سبب کی مسبب ميں تاثير اور مسبب ميں سبب سے اثر پذيری کی وجہ
سے وقوع پذير هوتاهے۔
جو شخص نبوت کا دعوی کرے اور عقلی اعتبار سے اس کی تصديق ممکن هو اور اس دعوے
کے ساته ما فوق الفطرت کام انجام دے تو يہ اس کی حقانيت کے قطعی گواہ هيں، کيونکہ اگر حق پر نہ هو
تو اس کے ذريعے ما فوق الفطرت کاموں کا انجام پانا، جهوٹے کی تصديق اور مخلوق کی گمراهی کا سبب
هے،جب کہ بارگاہ اقدس ربوبيت اس امر سے پاک ومنزہ هے۔
نبوت عامہ کی بحث کو هم دو حديثوں کے ذکر کے ساته ختم کرتے هيں :
((إنا لما اثبتنا ا نٔ لنا خالقا صانعا متعاليا عنا وعن جميع ما خلق وکان ذلک الصانع حکيماً متعالياً لم
يجز ا نٔ يشاهدہ خلقہ و لا يلامسوہ فيباشرهم و يباشروہ، و يحاجهم و يحاجوہ، ثبت ا نٔ لہ سفراء فی خلقہ،
يعبرون عنہ إلی خلقہ و عبادہ، و يدلونهم علی مصالحهم و منافعهم و ما بہ بقاو هٔم و فی ترکہ فنائهم، فثبت
الآمرون و الناہون عن الحکيم العليم فی خلقہ و المعبرون عنہ جل و عزّ، و هم الا نٔبياء عليهم السلام و صفوتہ
من خلقہ، حکماء مو دٔبين بالحکمة، مبعوثين بها، غير مشارکين للناس، علی مشارکتهم لهم فی الخلق و
الترکيب، فی شیء من ا حٔوالهم، مو ئدين من عند الحکيم العليم بالحکمة، ثم ثبت ذلک فی کل دهر و زمان مما
ا تٔت بہ الرسل و الا نٔبياء من الدلائل و البراهين، لکيلا تخلو ا رٔض اللّٰہ من حجة يکون معہ علم يدل علی صدق
مقالتہ و جواز عدالتہ )) ١
امام جعفر صادق (ع) نے نبوت کے بارے ميں جن مباحث کواس حديث ميں پيش کيا هے، ان ميں
سے هم بعض کی طرف اشارہ کرتے هيں :
بعثت انبياء کی ضرورت سے متعلق دليل کو جملہ ((وکان ذلک الصانع حکيما متعاليا) سے
((يدلّونهم))تک ذکر کيا گيا هے،کيونکہ انسان سے سرزد هونے والی هر حرکت وسکون اور فعل وترک
دنيا وآخرت کے اعتبار سے يا تو اس کے لئے نفع بخش هے يا نقصان دہ اور يا نہ تو نافع هے اور نہ هی
مضر۔ بهر حال انسان کے لئے اپنی دنيا وآخرت کے نفع ونقصان اور مصلحت ومفسدہ کو جاننا ضروری
هے اور ان امور کی معرفت انسان کو فقط اور فقط اسی ذات کی جانب سے وديعت هوسکتی هے جو انسان
کی دنيوی اور اُخروی زندگی پر اثر انداز هونے والی تمام حرکات و سکنات اورفعل و ترک پر محيط هو۔وہ
ذات جو دنيا ،آخرت اور انسان کی خالق هے۔ اور خالق کی حکمت کا تقاضا يهی هے کہ وہ هدايت کا انتظام
کرے۔ اب چونکہ اس کی دلالت وهدايت اس کے عالی مرتبت هونے کی وجہ سے کسی عادی سبب کی
--------------
1 اصول کافی ج ١ ص ١۶٨ ۔
٢۶
وساطت کے بغير ممکن نهيں هے لہٰذا الٰهی نمائندوں کا هونا ضروری هے کہ ((يدلونهم علی مصالحهم ومنا
فعهم ومابہ بقاو هٔم وفی ترکہ فنائهم))
مذکورہ بالا دليل ،فلاسفہ کی برهان نبوت پر واضح فوقيت رکهتی هے ۔کيونکہ اس دليل ميں انسان
کی تمام مصلحتوں اور منافع کو عالم وجود کے تمام مراحل ميں خاص توجہ دی گئی هے جب کہ فلاسفہ
کی برهان نبوت ميں فقط انسان کے مدنی الطبع هونے اور اجتماعی معاملات اور سماجی روابط ميں عدل
کو مد نظر رکها گيا هے ۔
مخلوق کے ساته مشترک اور ان سے ممتاز هونے کے اعتبار سے انبياء عليهم السلام کے استثنائی
وجود اور جن چيزوں ميں اشتراک اور جن کی بنياد پر امتياز هے، ان کی طرف جملہ ((غير مشارکين
للناس،علی مشارکتهم لهم فی الخلق والترکيب، فی شیء من احوالهم))ميں اشارہ کيا گياهے۔
اور جملہ ((صفوة من خلقہ))ميں باقی مخلوق سے انبياء کے برگزيدہ هونے کی طرف توجہ دلائی
گئی هے کہ اس برگزيدہ خلقت کے ذريعے خالق ومخلوق کے درميان مقام وساطت پر فائز هونے کے ساته
ساته عالی و دانی کے درميان رابطہ بر قرار کر سکے۔
اور جملہ ((يعبرون عنہ))ميں موجود،” خدا سے تعبير“ کے لفظ کی لطافت، پيغمبر کے مقام
ومنزلت کو روشن کرتی هے کہ وہ زبان کی مانند ،جو مافی الضمير کی بيان گر هے، مقاصدِ خداوند متعال
کو مخلوق تک پهنچاتاهے اور اس مقام ومنزلت کے لئے تقد س وعصمت پيغمبر کا هونا ضروری هے۔
جملہ ((يکون معہ علم يدل علی صدق مقالتہ وجواز عدالتہ)) ميں اثباتِ نبوت کے لئے ضرورت معجزہ کی دليل کو بيان فرمايا اور چونکہ منشاء نبوت حکيم علی الاطلاق کی حکمت هے اور اس کا ثمر
بهی حکمت هے<قَالَ قَدْ جِئْتُکُمْ بِالْحِکْمْةِ> ١،<اُدْعُ إِلیٰ سَبِيْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ> ٢ انبياء کی حکمتِ نظری اور
حکمت عملی ميں برتری کی جانب توجہ دلائی گئی هے کہ اس حکمت نظری کی بنياد فکر اور يہ حکمت
عملی ((يعبرون عنہ)) اور((و من عند الحکيم العليم)) کے تقاضے کے مطابق نور کا ايسا چراغ هے جو
کسی انسانی تعليم و تربيت کے بغير نور السماوات والا رٔض سے مرتبط هونے کی وجہ سے منور اور
روشن هے<يَکاَدُ زَيْتُہَا يُضِیْءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ> ٣
اوراس کے ساته کہ يہ جملہ ارشاد فرمايا ((حکماء مو دٔبين بالحکمة))، تهوڑے فاصلے کے بعد
هی يہ فرمايا((مو ئدين من عند الحکيم العليم بالحکمة))۔ پهلے جملے ميں حکمت کے ذريعے مودّب اورمہذب
اور دوسرے جملے ميں حکمت کے ذريعے تائيد کا ذکر هے، اور حکمتِ انبياء اور مکتبِ وحی کا حدوث و
بقاء کے اعتبار سے بارگاہ حکيم و عليم سے رابطہ، فکرِ انسانی پر اس حکمت کی برتری کو اس حد تک
روشن کر ديتا هے جو ما عند الله اور ما عند الناس کے درميان کی حد هے۔اور جملہ((وکان ذلک الصانع
حکيما)) اور انبياء کی ((حکماء مو دٔبين بالحکمة مبعوثين بها)) سے توصيف اس مطلب کی بيان گر هے کہ
نبوت کی علت فاعلی اور علت غائی، حکمت هے، اور مبدا و منتهیٰ کے درميان حد وسط بهی حکمت هی
هے<يُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَ مَا فِی اْلاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَکِيْمِخ هو الَّذِیْ بَعَثَ فِی اْلا مُِّٔيِّيْنَ
رَسُوْلاً مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ آيَاتِہ وَ يُزَکِّيْہِمْ وَ يُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَ إِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلاَلٍ مُّبِيْنٍ> ٤
کلام امام (ع) کے اشارات و لطيف نکات ميںدوسرے بيش قيمت مباحث موجود هيں، ليکن
اختصار کو مدنظر رکهتے هوئے ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے هيں۔
امام هشتم حضرت علی بن موسی الرضا (ع) نے نبوت کی بحث ميں ارشاد فرمايا:((فإن قال: فلم
وجب عليهم معرفة الرسل و الإقرار بهم والإذعان لهم بالطاعة؟ قيل: لا نٔہ لما لم يکن فی خلقهم و قولهم و قواهم
ما يکملون لمصالحهم وکان الصانع متعالياً عن ا نٔ يری، وکان ضعفهم و عجزهم عن إدراکہ ظاهراً لم يکن بدّ
--------------
1 سورہ زخرف، آيت ۶٣ ۔”توا نهوں نے کها کہ ميں تمهارے پاس حکمت لے کر آياہوں“۔
2 سورہ نحل، آيت ٢۵ ا۔”آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچهی نصيحت کے ذريعہ دعوت ديں“۔
3 سورہ نور، آيت ٣۵ ۔”قريب هے کہ اس کا روغن روشنی دينے لگے، چاهے اسے آگ مس بهی نہ کرے“۔
4 سورہ جمعہ، آيت ١،٢ ۔”زمين وآسمان کا هر ذرہ اس خدا کی تسبيح کررها هے جو بادشاہ ،پاکيزہ صفات،صاحب
عزت اور صاحب حکمت هے۔اس خدا نے ايک رسول بهيجا هے جو انهيںميں سے تها کہ ان کے سامنے آيات کی تلاوت کرے،
ان کے نفوس کو پاکيزہ بنائے اور انهيں کتاب و حکمت کی تعليم دے اگر چہ يہ لوگ بڑی کهلی هوئی گمراهی ميں مبتلاتهے۔“
٢٧
من رسول بينہ و بينهم معصوم يو دّٔی إليهم ا مٔرہ و نهيہ و ا دٔبہ و يقفهم علی ما يکون بہ إحراز منافعهم و دفع
مضارهم إذ لم يکن فی خلقهم ما يعرفون بہ ما يحتاجون إليہ من منافعهم و مضارهم)) ١
|