اصول دين سے آشنائی
 

عدل
خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل هيں جن ميں سے هم بعض کاتذکرہ
کريں گے:
١۔هر انسان، چاهے کسی بهی دين ومذهب پر اعتقاد نہ رکهتاہو، اپنی فطرت کے مطابق عدل کی
اچهائی و حسن اور ظلم کی بدی و برائی کو درک کر سکتا هے۔حتی اگر کسی ظالم کو ظلم سے نسبت ديں
تو اس سے اظهار نفرت اور عادل کهيں تو خوشی کا اظهار کرتا هے۔شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا،
جس کی ساری محنتوں کا نچوڑ نفسانی خواهشات کا حصول هے، اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے پڑ
جائے اور قاضی اس کے زور و زر کی وجہ سے اس کے کسی دشمن کا حق پامال کر کے اس ظالم کے
حق ميں فيصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فيصلہ اس کے لئے باعث مسرت وخوشنودی هے ليکن اس کی
عقل وفطرت حکم کی بدی اور حاکم کی پستی کو سمجه جائيں گے۔جب کہ اس کے برعکس اگر قاضی اس
کے زور و زر کے اثر ميں نہ آئے اور حق وعدل کا خيال کرے، ظالم اس سے ناراض تو هو گا ليکن
فطرتاً وہ قاضی اور اس کے فيصلے کو احترام کی نظر سے ديکهے گا۔
تو کس طرح ممکن هے کہ جس خدا نے فطرت انسانی ميں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچها
قرار ديا هو تاکہ اسے عدل کے زيور سے مزين اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو <إِنَّ اللّٰہَ يَا مُْٔرُ
بِالْعَدْلِ
وَاْلإِحْسَانِ> ٢، <قُلْ ا مََٔرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ> ٣،<يَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ فَاحْکُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ
وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰی> ٤جيسی آيات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم ميں ظالم هو؟!
٢۔ظلم کی بنياد يا تو ظلم کی برائی سے لاعلمی، يا مقصد و هدف تک پهنچنے ميں عجز يا
لغووعبث کام هے، جب کہ خداوندِمتعال کی ذات جهل، عجز اور سفا ہت سے پاک ومنزہ هے۔
لہٰذا، علم، قدرت اور لا متناهی حکمت کا تقاضا يہ هے کہ خداوند متعال عادل هو اور هر ظلم و
قبيح سے منزہ هو۔
٣۔ ظلم نقص هے اور خداوندِمتعال کے ظالم هونے کا لازمہ يہ هے کہ اس کی ترکيب ميں کمال
ونقصان اور وجود وفقدان بيک وقت شامل هوں، جب کہ اس بات سے قطع نظر کہ يہ ترکيب کی بدترين قسم
هے، کمال ونقص سے مرکب هونے والا موجود محتاج اور محدود هوتا هے اور يہ دونوں صفات مخلوق
ميں پائی جاتی هيں نہ کہ خالق ميں۔
لہٰذا نتيجہ يہ هوا کہ وہ تخليق کائنات <شَهِدَ اللّٰہُ ا نََّٔہ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِکَةُ وَ ا ؤُْلُوالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ
لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ> ٥،قوانين واحکام <لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ ا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ
النَّاسُ بِالْقِسْطِ> ٦ اور قيامت کے دن لوگوں کے حساب وکتاب <وَقُضِیَ بَيْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُوْنَ> ١ ميں
عادل هے۔
--------------
2 سورہ نحل، آيت ٩٠ ۔”باتحقيق خدا وند متعال عدل واحسان کا امر کرتا هے“۔
3 سورہ اعراف، آيت ٢٩ ۔ ”کہو ميرے رب نے انصاف کے ساته حکم کيا هے“۔
4 سورہ ص، آيت ٢۶ ۔ ”اے داو دٔ (ع)!هم نے تم کو روئے زمين پر خليفہ بنايا هے تو تم لوگوں کے درميان بالکل
ٹهيک فيصلہ کرو اور هویٰ وہوس کی پيروی مت کرو“۔
5 سورہ آل عمران ، آيت ١٨ ۔”خدا نے خود اس بات کی شهادت دی کہ سوائے اس کے کوئی معبود نهيں هے و کل
فرشتوں نے اور صاحبان علم نے جو عدل پر قائم هيں (يهی شهادت دی) کہ سوائے اس زبردست حکمت والے کے اور کوئی
معبود نهيں هے“۔
6 سورہ حديد ، آيت ٢۵ ۔ ”هم نے يقينا اپنے پيغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بهيجا هے اور ان کے ساته
کتاب (انصاف کی)ترازو نازل کی تاکہ لوگ قسط وعدل پر قائم رهيں“۔

٢١
عن الصادق (ع) :((إنہ سا لٔہ رجل فقال لہ :إن ا سٔاس الدين التوحيد والعدل، وعلمہ کثير، ولا بد
لعاقل منہ، فا ذٔکر ما يسهل الوقوف عليہ ويتهيا حفظہ، فقال: ا مٔا التوحيد فا نٔ لا تجوّز علی ربک ماجاز
عليک، و ا مٔا العدل فا نٔ لا تنسب إلی خالقک ما لامک عليہ)) ٢ اور هشام بن حکم سے فرمايا: ((ا لٔا ا عٔطيک
جملة في العدل والتوحيد ؟ قال: بلی، جعلت فداک، قال: من العدل ا نٔ لا تتّهمہ ومن التوحيد ا نٔ لا تتوهّمہ)) ٣
اور امير المومنين (ع) نے فرمايا:((کل ما استغفرت اللّٰہ منہ فهومنک،وکل ما حمدت اللّٰہ عليہ
فهومنہ)) ٤