|
توحيد
توحيد سے مراد ايسے خداوند عالم پر اعتقاد هے جو يکتا هے اور اجزاء وصفات کی ترکيب سے
مبرا هے، اس لئے کہ هر مرکب، وجود کو اجزاء اور ان اجزاء کو ترکيب دينے والے کا محتاج هے اور
محال هے کہ جو محتاج هو وہ اپنے آپ يا کسی غير کو وجود عطا کرسکے۔ خداوندمتعال کی ذات وصفات
ميں اس کا کوئی شريک نهيں هے۔ 1
--------------
1 توحيد کے چند مرتبہ هيں:
توحيد ذات:
هر موجود مرکّب هے سوائے خداوندعالم کی ذات کے، وہ ايسا واحد هے جس کی يکتائی عين ذات هے۔
اس کے علاوہ هر موجود جز جز هونے کے قابل هے جس طرح جسم مادہ اور صورت دو جز پر تقسيم هوتا هے، قوہ
وهم ميں زمان کو لحظات پر تقسيم کيا جاتا هے، عقل انسان کو انسانيت و وجود اور هر متناهی موجود کو محدود اور حد پر منقسم
کرتی هے۔
جنگ جمل کے موقع پر حضرت امير المومنين عليہ السلام سے سوال هوا: يا امير المومنين! (عليہ السلام) کيا آپ
فرماتے هيں: کہ بے شک خدا ايک هے؟ لوگوں نے اس پر اعتراض کيا، تيرے سوال کا اس حالت ميں موقع نهيں هے۔
حضرت نے جواب ديا: اس کو چهوڑ دو، يہ جو سوال مجه سے پوچه رها هے، ميں وهی اس قوم سے خواهاں هوں،
ميری مراد توحيد هے، اس کے بعد حضرت نے فرمايا: يہ جملہ کہ خدا ايک هے، چار قسموں پر تقسيم هوتا هے۔
اس ميں سے دو قسميں خدا کے سلسلے ميں جائز نهيں ليکن دوسری دو قسميں اس کی ذات کے لئے ثابت هيں، اور وہ
دو قسميں جو جائز نهيںهيں يہ هيں:
٣۔۔۔) اس کی واحدانيت، عددی وحدانيت نهيں هے،کيونکہ اپنا ثانی ،٢ ، ١) وہ ايک جو دعدد ميں آتا هے (جيسے ١
رکهنے والے واحد، اور اپنا ثانی نہ رکهنے والے واحد پر بطور يکساں واحد کا اطلاق نهيں کيا جاسکتا، <لَقَدْ کَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا اِنَّ
اللهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ> (سورہ مائدہ آيت ٧٣ ، ”بے شک وہ لوگ کافر هوگئے جنهوں کها :الله ان تين ميں سے تيسرا هے“۔
٢) ايسا واحد جو کسی جنس کی ايک قسم پر اطلاق هوتا هو، مثلاً کها جائے: ”وہ لوگوں ميں سے ايک هے“، ايسا
واحد جو کسی نوع و صنف کی ايک فرد پر اطلاق هوتا هے، خداوندعالم پر اطلاق نهيں هوتا کيونکہ اس اطلاق و ا ستعمال ميں
تشبيہ پائی جاتی هے، حالانکہ خدا کوئی شبيہ نهيں رکهتا۔
ليکن وہ قسميں جو خدا کی ذات پر اطلاق کرنا جائز هے:
--------------
١)وہ ايسا واحد هے جس کی کوئی شبيہ نهيں هے۔
٢) خداوندعالم ايسا واحد جس کی تقسيم عقل و وهم ميں بهی ممکن نهيں هے، (بحار الانوار، ج ٣، ص ٢٠۶ ۔)
تو حيد ذات و صفات:
يعنی خدا کے صفات ذاتی هيں، جيسے حيات، علم، قدرت عين ذات هيں، و گرنہ ذات و صفت
جدا جدا هونا تجزيہ و ترکيب کا باعث هوگا، وہ جو اجزاء سے مرّکب هوگا وہ جو اجزاء سے مرکب هو وہ اپنے اجزا کا محتاج
هوگا، (اور محتاج خدا نهيں هوسکتا)
اسی طرح اگر صفات کو ذات سے جدا مان ليں تو لازم يہ آتا هے وہ مرتبہ ذات ميں فاقد صفات کمال هو، اور اس کی
ذات ان صفات کے امکان کی جہت پائی جائے، بلکہ خود ذات کا ممکن هونا لازم آئے گا، کيونکہ جو ذات صفات کمال سے خالی
هو اور امکان صفات کی حامل هو وہ ايسی ذات کی محتاج هے جو غنی بالذات هو۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام فرماتے هيں: خدا کی سب سے پهلی عبادت اس کی معرفت حاصل کرنا هے۔اور
اصل معرفت خدا کی وحدانيت کا اقرار هے، اور نظام توحيد يہ هے کہ اس کی صفات سے صفات کی نفی و انکار کرنا هے،
(زائد بر ذات) اس لئے کہ عقل گواهی ديتی هے کہ هر صفت اور موصوف مخلوق هوتے هيں، اور هر مخلوق کا وجود اس بات
( پر گواہ هے کہ اس کا کوئی خالق هے، جو نہ صفت هے اور نہ موصوف۔ (بحار الانوار، ج ۵۴ ، ص ۴٣
توحيد در الوهيت:
( <وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لاَإِلَہَ إِلاَّ هو الرَّحْمَانُ الرَّحِيمُ> (سورہ بقرہ، آيت ١۶٣
”تمهارا خدا خدائے واحد هے کوئی خدا نهيں جز اس کے جو رحمن و رحيم هے“۔
توحيد در ربوبيت:
خداوندعالم کا ارشاد هے:
( <قُلْ ا غََٔيْرَ اللهِ ا بَْٔغِی رَبًّا وَہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ >(سورہ انعام، آيت ١۶۴
”کہو کيا الله کے علاوہ کسی دوسرے کو رب بنائيں حالانکہ کہ وہ هر چيز کا پروردگار هے“۔
( ا ا رَْٔبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ ا مَْٔ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ (سورہ يوسف، آيت ٣٩
”آيا متفرق و جدا جدا ربّ کا هونا بہتر هے يا الله سبحانہ کا جو واحد اور قهار هے“۔
توحيد در خلق:
<قُلْ اللهُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ وَہُوَ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ> (سورہ رعد، آيت ١۶
”کہہ ديجئے کہ الله هر چيز کا خالق هے اور وہ يکتاقهار هے“۔
( <وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لاَيَخْلُقُونَ شَيْئًا وَہُمْ يُخْلَقُونَ> (سورہ نحل، آيت ٢٠
”اور وہ لوگ جن کو خدا کے علاوہ پکارا جاتا هے وہ کسی کو خلق نهيں کرتے بلکہ وہ خلق کئے جاتے هيں“۔
توحيد در عبادت:
يعنی عبادت صرف اسی کی ذات کے لئے منحصر هے۔
<قُلْ ا تََٔعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لاَيَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلاَنَفْعًا>( سورہ مائدہ، آيت ٧۶ ۔)”کہ کيا تم خدا کے علاوہ ان کی
عبادت کرتے هو جو تمهارے لئے نہ نفع رکهتے هيں نہ نقصان ؟)
توحيد در ا مٔر وحکم خدا:
< ا لَٔاَلَہُ الْخَلْقُ وَالْا مَْٔرُ تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ>( سورہ اعراف ، آيت ۵۴ ۔)
”آگاہ هو جاو صرف خدا کے لئے حکم کرنے و خلق کرنے کا حق هے بالا مرتبہ هے خدا کی ذات جو عالمين کا رب
هے“۔
<إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّہ>( سورہ يوسف، آيت ١٠ ۔)”کوئی حکم نهيں مگر خدا کا حکم“۔
توحيد در خوف وخشيت:
(يعنی صرف خدا سے ڈرنا)
<فَلاَتَخَافُوہُمْ وَخَافُونِی إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ>( سورہ آ ل عمران، آيت ١٧۵ ۔)”پس ان سے نہ ڈرو اگر صاحبان ايمان هو تو
مجه سے ڈرو“۔
١٧
اس سے متعلق بعض دلائل کی طرف اشارہ کرتے هيں :
١۔تعدد الٰہ سے خداوند متعال ميں اشتراک ضروری قرار پاتا هے اس لئے کہ دونوں خدا هيں، اور
اسی طرح دونوں ميں نقطہ امتياز کی ضرورت پيش آتی هے تاکہ دوگانگی تحقق پيدا کرے اور وہ مرکب
جو بعض نکات اشتراک اور بعض نکات امتياز سے مل کر بنا هو، ممکن ومحتاج هے۔
٢۔تعدد الہ کا کسی نقطہ امتياز کے بغير هونا محال هے اور امتياز، فقدانِ کمال کا سبب هے۔ فاقدِ
کمال محتاج هوتا هے اور سلسلہ احتياج کا ايک ايسے نکتے پر جاکر ختم هونا ضروری هے جو هر اعتبار
سے غنی بالذات هو، ورنہ محال هے کہ جو خود وجود کا محتاج وضرور ت مند هو کسی دوسرے کو وجود
عطا کرسکے۔
٣۔خدا ايسا موجود هے جس کے لئے کسی قسم کی کوئی حد مقرر نهيں کيونکہ هر محدود، دو
چيزوں سے مل کر بنا هے ، ايک اس کا وجوداور دوسرے اس کے وجود کی حد اور کسی بهی وجود کی
حد اس وجود ميں فقدان اور اس کے منزلِ کمال تک نہ پہچنے کی دليل هے اور يہ ترکيب، اقسامِ ترکيب کی
بد ترين قسم هے، کيونکہ ترکيب کی باقی اقسام ميں يا تو دو وجودوں کے درميان ترکيب هے يا بود ونمود
کے درميان ترکيب هے، جب کہ ترکيب کی اس قسم ميں بود ونبود کے درميان ترکيب هے!! جب کہ خد ا
کے حق ميں هر قسم کی ترکيب محال هے۔وہ ايسا واحد وجود هے جس کے لئے کسی ثانی کا تصور نهيں،
<فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ>( سورہ مائدہ، آيت ۴۴ ۔)”لوگوں سے مٹ ڈرو مجه سے ڈرو(خشيت خدا حاصل کرو“۔
توحيد در مُلک:
(يعنی کائنات ميں صرف اس کی حکومت هے)
< وَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَکُنْ لَہُ شَرِيکٌ فِی الْمُلْکِ> (سورہ اسراء ، آيت ١١١ ۔)”کہو ساری تعريفيں هيں
اس خدا کی جس کا کوئی فرزند نهيں اور ملک ميں اس کا کوئی شريک نهيں“۔
توحيد در ملک نفع وضرر:
يعنی نفع و نقصان کا مالک وہ هے)
<قُلْ لاَا مَْٔلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلاَضَرًّا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ>( سورہ اعراف، آيت ١٨٨ ۔)”کہو بس اپنے نفع و نقصان کا بهی مالک
نهيں هوں مگر وہ جو الله سبحانہ چاهے“۔
< قُلْ فَمَنْ يَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللهِ شَيْئًا إِنْ ا رََٔادَ بِکُمْ ضَرًّا ا ؤَْ ا رََٔادَ بِکُمْ نَفْعًا۔۔۔>( سورہ فتح، آيت ١١ ۔)”کہو بس کون هے
تمهارے لئے خدا کے مقابل ميں کوئی دوسرا اگر وہ تمهارے لئے نفع و نقصان کا ارادہ کرے“۔
توحيد در رزق:
(رزاق صرف خدا هے)
<قُلْ مَنْ يَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاوَاتِ وَالْا رَْٔضِ قُلْ اللهُ>(سورہ سباء، آيت ٢۴ ۔)”کہو کون هے جو زمين وآسمان سے تم کو
روزی عطاء کرتا هے کہوخدائے متعال)
<ا مََّٔنْ ہَذَا الَّذِی يَرْزُقُکُمْ إِنْ ا مَْٔسَکَ رِزْقَہُ>( سورہ ملک ، آيت ٢١ ۔)”آيا کون هے تم کو روزی دينے والا اگر وہ تمهارے
رزق کو روک لے“۔
توحيد در توکل:
(بهروسہ صرف خدا کی ذات پر)
<وَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ وَکَفَی بِاللهِ وَکِيلاً>( سورہ احزاب، آيت ٣۔)”اور الله پر بهروسہ کرو اس کو وکيل بنانا دوسرے سے
بے نياز کرديتا هے“۔
<اللهُ لاَإِلَہَ إِلاَّ هو وَعَلَی اللهِ فَلْيَتَوَکَّلْ الْمُؤْمِنُونَ>( سورہ ،تغابن آيت ١٣ ۔)”کوئی خدا نهيں سوائے الله سبحانہ تعالیٰ کے بس
مومنوں کو چاہئے خدا پر توکل کريں“۔
توحيد در عمل:
(عمل صرف خدا کے لئے)
<وَمَا لِا حََٔدٍ عِنْدَہُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَی ز إِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْا عَْٔلَی>(سورہ ليل، آيت ۔ ٢٠ ۔ ١٩ ۔)”اور لطف الٰهی يہ هے
کہ)کسی کا اس پر احسان نهيں جس کا اسے بدلہ ديا جاتا هے بلکہ (وہ تو)صرف اپنے عاليشان پروردگار کی خوشنودی حاصل
کر نے کے لئے (ديتاهے)
توحيد در توجہ :
(انسان کی توجہ صرف خدا کی طرف هونی چاہئے)
<إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْا رَْٔضَ>( سورہ انعام، آيت ٧٩ ۔)”بے شک ميں نے اپنے رخ اس کی طرف
موڑ ليا جس نے زمين وآسمان کو خلق کيا“۔
يہ ان لوگوں کا مقام هے جو اس راز کو سمجه چکے هيں کہ دنيا و مافيها سب کچه هلاک هوجائے گا۔
<کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ إِلاَّ وَجْہَہُ>( سورہ قصص، آيت ٨٨ ۔)(کائنات ميں)هر چيز هلا ک هو جائے گی جز اس ذات
والاکے“ <کُلُّ مَنْ عَلَيْہَا فَانٍ ز وَيَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلاَلِ وَالْإِکْرَامِ>( سورہ رحمن، آيت ٢٧ ۔ ٢۶ ۔)”هر وہ چيز جو روئے زمين پر
هے سب کچه فنا هونے والی هے اور باقی رهنے والی (صرف)تيرے پروردگار کی ذات هے جو صاحب جلالت وکرامت هے“۔
فطرت ميں جو توحيد خدا پنهاں هے اس کی طرف توجہ سے انسان کے ارادہ ميں توحيد جلوہ نمائی کرتی هے جس کا
نتيجہ يہ هے کہ <وَعَنَتْ الْوُجُوہُ لِلْحَیِّ الْقَيُّومِ>(سورہ طہ، آيت ١١١ )”اور ساری خدائی کے منه زندہ وپائندہ خدا کے سامنے جهک
جائيں گے“۔ (فطرت توحيدی کی طرف توجہ انسان کے ارادہ کو توحيد کا جلوہ بنا ديتی هے)
١٨
کيونکہ ثانی کا تصور اس کے لئے محدوديت اور متناهی هونے کا حکم رکهتا هے، لہٰذا وہ ايسا يکتاهے کہ
جس کے لئے کوئی ثانی نہ قابل تحقق هے اور نہ هی قابل تصور۔
۴۔ کائنات کے هر جزء وکل ميں وحدتِ نظم برقرار هونے سے وحدت ناظم ثابت هو جاتی هے،
کيونکہ جزئياتِ انواع کائنات ميں موجود تمام اجزاء کے هر هر جزء ميںموجود نظم وترکيب اور پوری
کائنات کے آپس کے ارتباط کے تفصيلی مطالعے سے يہ بات واضح هوجاتی هے کہ جزء و کل سب ايک
هی عليم ،قدير اورحکيم خالق کی مخلوق هيں۔ جيسا کہ ايک درخت کے اجزاء کی ترکيب، ايک حيوان کے
اعضاء و قوتوں کی ترکيب اور ان کا ايک دوسرے نيز چاند اور سورج سے ارتباط، اسی طرح منظومہ شمسی کا دوسرے منظومات اور کہکشاؤں سے ارتباط، ان سب کے خالق کی وحدانيت کامنہ بولتا ثبوت
هيں۔ايٹم کے مرکزی حصے اور اس کے مدار کے گردگردش کرنے والے اجزاء سے لے کر سورج و
منظومہ شمسی کے سيارات اور کہکشاؤں تک، سب اس بات کی علامت هيں کہ ايٹم،سورج اور کہکشاو ںٔ
کا خالق ايک هی هے <و هُوْ الَّذِي فِي السَّمَاءِ ا لِٰٔہٌ وَّ فِی اْلا رَْٔضِ إِلٰہٌ وَّ هُوَ الْحَکِيْمُ الْعَلِيْم> ١<يَا ا ئَُّهَا النَّاسُ
اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَةالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اْلا رَْٔضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّ ا نَْٔزَلَ مِنَ
السَّمَاءِ مَاءً فَا خَْٔرَجَ بِہ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ ا نَْٔدَادًا وَّ ا نَْٔتُمْ تَعْلَمُوْنَ> ٢
۵۔چهٹے امام (ع) سے سوال کيا گيا: صانع وخالقِ کائنات کا ايک سے زيادہ هونا کيوں ممکن
نهيں هے ؟ آپ (ع) نے فرمايا : اگر دعوٰی کرو کہ دو هيں تو ان کے درميان شگاف کا هونا ضروری هے
تاکہ دو بن سکيں، پس يہ شگاف تيسرا هوا اور اگر تين هو گئے تو پهر ان کے درميان دو شگافوں کا هونا
ضروری هے تاکہ تين محقق هوسکيں،بس يہ تين پانچ هوجائيں گے او راس طرح عدد بے نهايت اعداد تک
بڑهتا چلا جائے گا۔ نتيجہ يہ هوا کہ اگر خدا ايک سے زيادہ هوئے تو اعداد ميں خداؤں کی نا متناهی تعداد
کا هونا ضروری هے۔ ٣
۶۔امير المو مٔنين (ع) نے اپنے فرزند امام حسن (ع) سے فرمايا:((واعلم يابنی ا نٔہ لو کان لربک
شريک لا تٔتک رسلہ ولرا ئت آثار ملکہ وسلطانہ ولعرفت ا فٔعالہ وصفاتہ)) ٤
اور وحدانيت پروردگارپر ايمان کا نتيجہ، عبادت ميں توحيدِ هے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے
لائق نهيں، چونکہ اس کے علاوہ سب عبد اور بندے هيں<إِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ إِلاَّ آتِی الرَّحْمٰنِ
عَبْداً> ٥ غير خد اکی عبوديت وعبادت کرنا ذليل سے ذلت اٹهانا،فقير سے بهيک مانگنا بلکہ ذلت سے ذلت
اٹهانا اور گداگر سے گداگری کرناهے <يَا ا ئََُهَا النَّاسُ ا نَْٔتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلیَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِيْدُ> ٦
وحدانيت خداوندمتعال پر ايمان،اور يہ کہ جو کچه هے اسی سے اور اسی کی وجہ سے هے اور
سب کو اسی کی طرف پلٹنا هے، کو تين جملوں ميں خلاصہ کيا جاسکتا هے ((لا إلہ إلا اللّٰہ))،((لا حول ولا
قوة إلا باللّٰہ))، <وَ إِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ اْلا مُُٔوْرُ> ٧
سعادت مند وہ هے جس کی زبان پر يہ تين مقدّس جملے هر وقت جاری رهيں، انهی تين جملات
کے ساته جاگے،سوئے،زندگی بسر کرے، مرے اور يهاں تک کہ<إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُوْنَ> ٨ کی حقيقت کو
پالے۔
--------------
1 سورہ زخرف، آيت ٨۴ ۔”اور وهی وہ هے جو آسمان ميں بهی خد اهے اور زمين ميں بهی خدا هے اور وہ صاحب
حکمت بهی هے“۔
2 سورہ بقرہ، آيت ٢١ ۔ ٢٢ ۔”اے انسانو!پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمهيں بهی پيدا کيا هے اور تم سے پهلے
والوں کو بهی خلق کيا هے شايد کہ تم اسی طرح متقی اور پرهيزگار بن جاو ۔ٔاس پروردگار نے تمهارے لئے زمين کا فرش اور
آسمان کا شاميانہ بنايا هے اور پهر آسمان سے پانی برسا کر تمهاری روزی کے لئے زمين سے پهل نکالے هيں لہٰذا اس کے لئے
کسی کو همسراور مثل نہ بناو اور تم جانتے هو“۔
٢٣٠ ۔ / 3 بحار الانوار، ج ٣
4 نهج البلاغہ خطوط ٣١ ۔ حضرت کی وصيت امام حسن عليہ السلام کے نام۔
ترجمہ:(جان لو اے ميرے لال!اگر خدا کا کوئی شريک هوتا تو اس کے بهيجے هوئے پيامبر بهی تمهارے پاس آتے
اور اس کی قدرت وحکومت کے آثار ديکهتے اور اس کی صفات کو پہچانتے)
5 سورہ مريم،آيت ٩٣ ۔”زمين وآسمان ميں کوئی ايسا نهيں هے جو اس کی بارگاہ ميں بندہ هو کر حاضر هونے والا نہ
هو“۔
6 سورہ فاطر، آيت ١۵ ۔”انسانو! تم سب الله کی بارگاہ کے فقير هو اور الله غنی (بے نياز) اور قابل حمد و ثنا هے“۔
7 سورہ آل عمران، آيت ١٠٩ ۔”اور الله کی طرف پلٹتے هيں سارے امور“۔
8 سورہ بقرہ،ا يت ١۵۶ ۔”هم الله هی کے لئے هيں اور اسی کی بارگاہ ميں واپس جانے والے هيں“۔
١٩
اور توحيد پر ايمان کا اثر يہ هے کہ فرد ومعاشرے کی فکر و ارادہ ايک هی مقصد وهدف
پرمرتکز رهيں کہ جس سے بڑه کر، بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا هدف و مقصد هے هی نهيں <قُلْ إِنَّمَا
ا عَِٔظُکُمْ بِوَاحِدَةٍ ا نَْٔ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی> ١۔ اس توجہ کے ساته کہ اشعہ نفسِ انسانی ميں تمرکزسے
انسان کو ايسی قدرت مل جاتی هے کہ وہ خيالی نقطے ميں مشق کے ذريعے حيرت انگيز توانائياں دکها
سکتا هے، اگر انسانی فکر اور ارادے کی شعاعيں اسی حقيقت کی جانب مرتکز هو ں جومبدا ومنتهی اور
<نُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضِ> ٢هے تو کس بلند واعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کر سکتا هے ؟!
جس فرد ومعاشرے کی <إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیْ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ حَنِيْفاً وَّمَا ا نََٔا مِنَ
الْمُشْرِکِيْنَ> ٣کے مقام تک رسائی هو، خير وسعادت وکمال کا ايسا مرکز بن جائے گا جو تقرير وبيان سے
بہت بلند هے۔
عن ا بٔی حمزة عن ا بٔی جعفر (ع) :((قال سمعتہ يقول: ما من شيء ا عٔظم ثواباً من شهادة ا نٔ لا إلہ
إلا اللّٰہ، لا نٔ اللّٰہ عزوجل لا يعدلہ شی ولا يشرکہ فی الا مٔر ا حٔد)) ٤
اس روايت سے يہ بات واضح هوتی هے کہ جيسا کہ کوئی بهی چيز خداوند متعال کی مثل وهمسر
نهيں، اس ذات قدوس کے امرميں بهی کوئی اس کا شريک نهيں هے۔ کوئی عمل اس حقيقت کی گواهی کا
مثل و همسر نهيں جو کلمہ طيبہ ((لا إلہ إلااللّٰہ))کا مضمون هے اورعمل کے ساته شايان شان جزاکے
ثواب ميںبهی اس کا کوئی شريک نهيں۔
زبان سے ((لا إلہ إلااللّٰہ)) کی گواهی، دنيا ميں جان ومال کی حفاظت کا سبب هے اور دل سے اس
کی گواهی آتش جهنم کے عذاب سے نجات کا باعث هے اور اس کی جزا بهشت بريںهے۔ يہ کلمہ طيبّہ
رحمت رحمانيہ ورحيميہ کا مظهر هے۔
چهٹے امام (ع) سے روايت هے کہ: خداوند تبارک وتعالی نے اپنی عزت وجلال کی قسم کهائی
هے کہ اهل توحيد کو آگ کے عذاب ميں هر گز مبتلا نہ کرے گا۔ ٥
اوررسول خدا (ص)سے منقول هے: ((ماجزاء من ا نٔعم عزوجل عليہ بالتوحيد إلا الجنة)) ٦
جو اس کلمہ طيبہ کا هر وقت ورد کرتاهے ، وہ حوادث کی جان ليوا امواج، وسواس اور خواهشات
نفسانی کے مقابلے ميں کشتی دٔل کو لنگرِ ((لا إلہ إلا اللّٰہ)) کے ذريعے هلاکتوں کی گرداب سے نجات
دلاتا هے<اَلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوَبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ ا لَٔاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ> ٧
کلمہ طيبہ کے حروف کوبالجهر اور بالاخفات دونوں طريقوں سے ادا کيا جاسکتا هے کہ جامعِ
ذکرِ جلی وخفی هے اور اسم مقدس ((اللّٰہ))پر مشتمل هے، کہ اميرالمو مٔنين (ع) سے منقول هے کہ:
((اللّٰہ)) اسماء خدا ميں سے بزرگترين اسم هے اور ايسا اسم هے جو کسی مخلوق کے لئے نهيں رکها گيا۔
اس کی تفسير يہ هے کہ غير خدا سے اميد ٹوٹ جانے کے وقت هر ايک اس کو پکارتا هے <قُلْ ا رََٔا ئَْتَکُمْ
إِنْ ا تََٔاکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ ا ؤَْ ا تََٔتْکُمُ السَّاعَةُ ا غَيْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِيْنَةبَلْ إِيَّاہُ تَدْعُوْنَ فَےَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَيْہِ
إِنْ شَاءَ وَ تَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ> ٨
--------------
1 سورہ سباء،ا يت ۴۶ ۔”پيغمبر آپ کہہ ديجئے کہ ميں تمهيں صرف اس بات کی نصيحت کرتا هوںکہ الله کے لئے دو
دو اور ايک ايک کرکے قيام کرو“۔
2 سورہ نور،آ يت ٣۵ ۔”الله آسمانوں اورزمين کا نور هے“۔
3 سورہ انعام، آيت ٧٩ ۔” ميرا رخ تمام تر اس خدا کی طرف سے جس نے آسمانوں اور زمين کو پيدا کيا هے اور ميں
استقامت کے ساته توحيد ميں هوں اور مشرکوں ميں سے نهيں هوں“۔
4 توحيد صدوق ص ١٩ ۔
5 توحيد ص ٢٠ ۔
6 توحيد ص ٢٢ ۔ اس شخص کی جزا اس کو خدا نے نعمت توحيد سے نوازا هے جز بهشت کچه نهيں ۔
7 سورہ رعد، آيت ٢٨ ۔”يہ وہ لوگ هيں جو ايمان لائے هيں اور ان کے دلوں کو ياد خدا سے اطمينان حاصل هوتا
هے اور آگاہ هو جاو کہ اطمينان ياد خدا سے هی حاصل هوتاهے“۔
8 سور ہ انعام، آيت ۴٠ ۔ ۴١ ۔”آپ ان سے کہئے کہ تمهارا کيا خيال هے کہ اگر تمهارے پاس عذاب يا قيامت آجائے تو
کيا تم اپنے دعوے کی صداقت ميں غير خدا کو بلاو گٔے۔ تم خدا هی کو پکاروگے اور وهی اگر چاهے گا تو اس مصيبت کو رفع
کر سکتا هے۔اور تم اپنے مشرکانہ خداو ںٔ کو بهول جاو گٔے“۔
٢٠
ابو سعيد خدری نے رسول خدا (ص)سے روايت کی هے کہ خداوند جل جلالہ نے حضرت
موسی (ع) سے فرمايا :
اے موسی! اگر آسمانوں، ان کے آباد کرنے والوں (جو امر کی تدبير کرنے والے هيں)اور ساتوں
زمينوں کو ايک پلڑے ميں رکها جائے اور((لا إلہ إلا اللّٰہ)) کو دوسرے پلڑے ميں تو يہ دوسرا پلڑا بهاری
هوگا۔ ١ (يعنی اس کلمے کے مقابلے ميں تمام مادّيات ومجرّدات سبک وزن هيں)۔
--------------
1 توحيد، ص ٣٠ ۔
|
|